ظفری
لائبریرین
برائے کرم اپنی اس بات کو واضع کیجئے۔
برائے کرم اپنی اس بات کو واضع کیجئے۔
آپ کے اس مراسلے میں بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ۔ یہ کوئی عام سوالات بھی نہیں ہیں ۔ اور اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیئے کہ ان سوالات کی اصل روح کو سمجھناہر کسی کی بس کی بات بھی نہیں ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس مراسلے میں چیدہ چیدہ لوگ ہی آتے ہیں ۔ کہ لائکس اور دیگر ایموجیز کا یہاں استعمال زیادہ نہیں ہے ۔بہرحال یہ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔ میں نے ان پر پہلے بھی بہت لکھا ہے ۔ اور لکھا بھی بہت طویل ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں میرے مراسلوں کی تعداد صرف بارہ ہزار تک ہی پہنچی ہے ۔سب سے پہلے مجھے تقریبا ہمیشہ سے ہی علم ، حقیقت، انسانوں اور ایسی بہت سی چیزوں کی کیٹگرائزیشن سے ہی کافی اختلاف رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ کیٹگرائزیشن نہیں ہونی چاہئیے یا نہیں ہو سکتی۔ یہ اپنی آسانی کے لیے انسانوں نے شروع کی تھی اور ہمیشہ بارڈر لائن کیسز بھی موجود رہے تھے جو مختلف کیٹگریز میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے زیادہ ملتے جلتے تھے اور پھر ان کیٹگریز میں بھی بہت کچھ تھا جو آپس میں کامن تھا فقط چند چیزوں کی بنیاد پر انہیں الگ الگ رکھا گیا تھا تاکہ ڈفرینشئیٹنگ خصوصیات یاد رہیں۔ لیکن آج کا انسان جب کسی ایک کیٹگری کی بات کرتا ہے تو اکثر اس بات کا لہجہ ایسے ہوتا ہے جیسے وہ کوئی اور ہی شے ہے اور دوسری شے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اب شروع کے جملے میں مذہب اور حقیقت کا انٹرسیکشن گویا ممکن ہو ہی نہیں سکتا؟
اس کے بعد بات کرتے ہیں ایگزسٹینشئیل کرائسز کی۔ یہ برا بالکل نہیں ہے،میں اس میں اتنا عرصہ رہی ہوں کہ اس کے درودیوار کے پیٹرنز اور مہک تک یاد ہیں اور اس دوران یقینا کسی بھی چیز کی سینس نہیں بن رہی ہوتی چاہے وہ حقیقی ہو یا غیر حقیقی۔ دنیا میں سبھی لوگ نہیں ہوتے کہ جن کو جو بتایا جا رہا ہے وہ اسی کو سچ سمجھ کر کسی جگہ پہنچے ہوتے ہیں، کچھ بظاہر بڑی سے بڑی نظر آنے والی شخصیات اور آسمان کو چھو لینے والی باتوں کو بھی ہر لمحہ کوئسچن کرتے رہتے ہیں۔ سو کوئی انسان جہاں ہے وہ کسی اور راستے سے بھی اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے اور اگر فلسفے کی زبان میں بات کروں تو غالبا Plotinus وہ فلسفی تھا جس نے کہا تھا کہ انسان اپنی اندرونی دنیا پہ غور و فکر کر کے بیرونی دنیا کو سمجھ پاتا ہے۔ گوتم بدھ بھی ایسا ہی کچھ کہتا تھا اور اقبال کا وہ مصرع بھی اس حوالے سے قابل تحسین ہے " اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی" ۔
کرائسز کو ہم شاعری،نثر، پینٹنگز یا اور ان جیسے آرٹ ورکس میں جیسا بھی خوب صورت بنا کر پیش کریں مگر کرائسز رہتا کرائسز ہی ہے۔ جیسے جنگ کے بارے میں سب فلسفے اپنی جگہ مگر یہ چار روزوشب کیسے تھے بارڈر کے قریب رہنے والے سب سے اچھی طرح جانتے ہیں اور جیسے کہ جب صحت خراب ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ صحت ہی سب کچھ ہے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے تو اور کوئی مسئلہ جیسے ہے ہی نہیں۔ مینٹل ہیلتھ بھی ایسے ہی ہے اور میں نے جتنا وقت اس گڑھے میں گزارا ہے میں اس پر ہمیشہ اوپنلی بات کرتی ہوں تاکہ اس کو taboo بنانا بند کر دیا جائے یا کم از کم میں ہمیشہ دوسرے انسانوں کے لیے مینٹل النیس میں کمی کی وجہ بن پاوں زیادتی کی نہیں۔
لاسٹ بٹ نوٹ دا لیسٹ، آپ جانتے ہیں کہ سائنس میں بھی ایسا ہوا کرتا ہے کہ ہم ایک ٹیسٹ فیکٹر کو ایک وقت میں بدلتے ہیں اور باقی سب کچھ کانسٹنٹ رکھتے ہیں۔ اگر سب کچھ ایک وقت میں بدل رہا ہو تو ہم بہتر طور پر سٹڈی نہیں کر پاتے۔ فلسفے میں بھی اساتذہ کا ایک خاص ٹیسٹ فیکٹر ہوا کرتا تھا جس پر کسی استاد کی زندگی کا کام ہوتا تھا اور وہ باقی ہر چیز کو کوئسچن نہیں کر رہا ہوتا تھا، تبھی وہ اس فیکٹر سے متعلق کسی نتیجے پر پہنچ پاتا تھا۔ ایسے زندگی میں کسی مقام پر ایک بار سب کچھ کوئسچن کرنے کے بعد،کوئی قدم جمانے کی جگہ اور اپنی مینٹل ہیلتھ کو ترجیح دینی چاہئیے میرے نزدیک۔ ہم سب چیزوں کو مختلف جگہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ہم سب کے ٹیسٹ فیکٹرز بھی اور اور ہوتے ہیں اور یہ اس کی افادیت اور اس کا حسن اس لیول کا ہے جس پر برنارڈ شا نے کہا تھا کہ:
مجھے نہیں معلوم کہ دوستوں نے اس بات کو جواب نفی میں کیوں دیا ہے ۔ کیا ہم حقیقت اور مذہب کے مابین فرق سے واقف ہوگئے ہیں ۔ پہلے تو ہمیں مذہب اور حقیقت کے فرق کو واضع کرنا پڑے گا کہ ان کے درمیان انٹرسیکشن کن بنیادوں پر نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہم بحث کی بنیاد اس بات سے شروع کریں تو شاید بحث کسی نہج پر پہنچ سکے ۔مذہب اور حقیقت کا انٹرسیکشن گویا ممکن ہو ہی نہیں سکتا؟
آپ کیا سمجھتے ہیں اس بارے میں کہ حقیقت اور مذہب اگر دو متضاد چیزیں ہیں تو کیوں ہیں؟ کیا خدا حقیقت نہیں؟ اور اگر ہے تو مذہب اسی حقیقت پر تو بنیادی طور پر کھڑا ہوتا ہے جب کوئی پیغمبر آتا ہے، یا نہیں؟کیا ہم حقیقت اور مذہب کے مابین فرق سے واقف ہوگئے ہیں ۔ پہلے تو ہمیں مذہب اور حقیقت کے فرق کو واضع کرنا پڑے گا کہ ان کے درمیان انٹرسیکشن کن بنیادوں پر نہیں ہوسکتا ۔ اگر ہم بحث کی بنیاد اس بات سے شروع کریں تو شاید بحث کسی نہج پر پہنچ سکے ۔
یہ تضاد حقیقت کے تصور اور مذہب کے اظہار کے فرق سے پیدا ہوتا ہے۔حقیقت (Reality) ایک objective چیز ہے ۔ جو ہے، جیسے ہے، وہ ویسی ہی ہے۔ جبکہ مذہب ایک فریم ورک ہے جو اس حقیقت کو سمجھنے، بیان کرنے، اور لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب مذہب وقت کے ساتھ مخصوص ثقافت، زبان یا سیاسی طاقت یا مفادات کے گرد لپٹ جاتا ہے۔یا جب مذہبی دعوے سائنسی یا تاریخی دعووں سے متصادم نظر آتے ہیں۔تو تضاد خود حقیقت اور مذہب میں نہیں، بلکہ"حقیقت کے اظہار (interpretation) میں ہے۔ اور حقیقت بذاتِ خود میں فرق" سے پیدا ہوتا ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں اس بارے میں کہ حقیقت اور مذہب اگر دو متضاد چیزیں ہیں تو کیوں ہیں؟ کیا خدا حقیقت نہیں؟ اور اگر ہے تو مذہب اسی حقیقت پر تو بنیادی طور پر کھڑا ہوتا ہے جب کوئی پیغمبر آتا ہے، یا نہیں؟
بہت خوب!اگر ہم یہ مان لیں کہ خدا ایک اعلیٰ درجے کی حقیقت ہے، تو مذہب اُس حقیقت کی انسانی فہم کا مظہر ہے ۔ اور فہم میں اختلاف، ارتقا، اور محدودیت فطری ہے۔
مریم افتخار کی بدولت محفل میں کویئر تھیوری سے لے کر آئنسٹائن جیسے ایگناسٹک کا خدا سب کچھ محفل کے آخری دنوں میں دیکھ لیا۔ خوب! جب محفل عروج پر تھی اس معاملے پر کتنی پوسٹس حذف ہوتیں کتنے ارکان معطل ہوتے۔ اب شاید ہم ہی میں برداشت کی عادت بہت بہتر ہوئی ہے۔ بہرحال آخری دنوں میں یہ خوش آئیند ہےبہت سے فلسفی (جیسے اسپینوزا، کانٹ، حتیٰ کہ آئن اسٹائن) خدا کو کسی نہ کسی درجے میں حقیقت کا بنیادی سرچشمہ سمجھتے رہے ہیں
کچھ ہمیں بھی موڈریٹ میزبانی کی داد دے دیں کہ اس لڑی میں ہم شروع سے آخر تک ہر مکتب فکر کی جگہ بنانے میں سرگرداں اور جہاں معاملہ گرم ہو ساتھ ہی برف ڈالنے کے لیے کوشاں وغیرہ ہیں۔۔۔😂مریم افتخار کی بدولت محفل میں کویئر تھیوری سے لے کر آئنسٹائن جیسے ایگناسٹک کا خدا سب کچھ محفل کے آخری دنوں میں دیکھ لیا۔ خوب! جب محفل عروج پر تھی اس معاملے پر کتنی پوسٹس حذف ہوتیں کتنے ارکان معطل ہوتے۔ اب شاید ہم ہی میں برداشت کی عادت بہت بہتر ہوئی ہے۔ بہرحال آخری دنوں میں یہ خوش آئیند ہے
بہت سے فلسفی (جیسے اسپینوزا، کانٹ، حتیٰ کہ آئن اسٹائن) خدا کو کسی نہ کسی درجے میں حقیقت کا بنیادی سرچشمہ سمجھتے رہے ہیں
خیال رہے کہ آئنسٹائن کے خدا کے متعلق خیالات میری ایگناسٹک کی ڈیفینشن پر پورا اترتے ہیں۔آئنسٹائن جیسے ایگناسٹک
آپ نے میرے مراسلے سے جو سطر یہاں کوٹ کی ہے ۔ اسے مکمل طور پر کوٹ کردیتے تو کم از کم وہ لوگ جنہوں نے مراسلے کی طوالت سے پورا مراسلہ نہ پڑھا تھا ۔ وہ میری بات کو اس اقتباس سے مکمل سمجھ لیتے کہ میں نے ان دانشوروں کے بارے میں مکمل بات کیا لکھی تھی ۔ اگر ایسا ہوتا تو پورا جملہ کچھ یوں ہوتا ۔مریم افتخار کی بدولت محفل میں کویئر تھیوری سے لے کر آئنسٹائن جیسے ایگناسٹک کا خدا سب کچھ محفل کے آخری دنوں میں دیکھ لیا۔ خوب! جب محفل عروج پر تھی اس معاملے پر کتنی پوسٹس حذف ہوتیں کتنے ارکان معطل ہوتے۔ اب شاید ہم ہی میں برداشت کی عادت بہت بہتر ہوئی ہے۔ بہرحال آخری دنوں میں یہ خوش آئیند ہے
(جیسے اسپینوزا، کانٹ، حتیٰ کہ آئن اسٹائن) خدا کو کسی نہ کسی درجے میں حقیقت کا بنیادی سرچشمہ سمجھتے رہے ہیں، اگرچہ ان کا خدا مذہبی خدا سے مختلف ہو سکتا ہے۔
اُس کی سوچ agnosticism، pantheism، اور deism جیسے نظریات سے جڑی ہوئی ہے، مگر مکمل طور پر کسی ایک خانے میں فٹ نہیں ہوتی۔ کہیں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تو نہیں ۔خیال رہے کہ آئنسٹائن کے خدا کے متعلق خیالات میری ایگناسٹک کی ڈیفینشن پر پورا اترتے ہیں۔
Pascal Boyer یا Scott Atran کی کتب پڑھیں۔ وہ خدا یا سپرنیچرل کے متعلق ہمارے ذہن کیسے وائرڈ ہیں اور اس کا ایوولیوشن سے کیا تعلق ہے پر بات کرتے ہیںچلیں حاضرین گرامی ہم مدعے پر واپس آتے ہیں۔ جس کا جو بھی عقیدہ ہو وہ جاننا ہماری لڑی کا مقصد کب ہے۔ یہ تو سوال سے سوال اٹھاتی ہے کہ ہم سوچ کے کسی سفر پر اکٹھے نکل رہے ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انسان کسی اور کے خدا کو مکمل یا جزوی طور پر سمجھ سکتا ہے؟ جیسے کسی بھی historical figure کا خدا وہی ہوگا جتنا اس نے عیاں کیا ہوگا اور خدا کا ایک بڑا حصہ یقینا ذہن میں نہاں بھی ہوتا ہے۔ یا ایسے لوگ ہیں جو کم از کم اپنے خدا کے تصور کو مکمل طور پر بیان کر سکتے ہیں؟ مزید برآں کیا واقعی ہم سب کے خدا اور اور ہیں وہ جو ہمارے ذہنوں میں concepts ofgod ہیں یا خدا ایک ہی ہے اور ہم مختلف اطراف سے اسی ایک نکتے کی طرف آ رہے ہیں؟![]()
مگر واضع رہے کہ آئن اسٹائن نے خود کو کبھی agnostic نہیں کہا، لیکن اُس کے کئی بیانات weak- agnosticism یا pantheistic- leanings کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔خیال رہے کہ آئنسٹائن کے خدا کے متعلق خیالات میری ایگناسٹک کی ڈیفینشن پر پورا اترتے ہیں۔
پہلے جملے کے بارے میں:مگر واضع رہے کہ آئن اسٹائن نے خود کو کبھی agnostic نہیں کہا، لیکن اُس کے کئی بیانات weak- agnosticism یا pantheistic- leanings کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
وہ تو بہت واضع کہا کرتا تھا کہ ، The- problem- involved- is -too -vast- for -our- limited -minds
اس کا مطلب ہے کہ وہ معرفت کی حدبندی limits -of- knowledge کو تسلیم کرتا تھا ۔ جو کہ agnostic موقف کی ایک بنیادی خصوصیت ہے ۔مگر وہ خدا کے امکان کو جمالیاتی و عقلی حس کی سطح پر تسلیم کرتا تھا، جس وجہ سے وہ hard -agnostic کی کیٹیگری میں پوری طرح نہیں فٹ ہوتا ۔
میرا ہمیشہ سے کچھ اراکین سے اسی بات پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ اگر یہ ڈسکیشن فورم ہے تو اس پر پھر آپ ڈسکس کریں ۔ اگر آپ کسی خاص موضوع پر کسی بحث کا آغاز کریں تو پھر اخلاقی اور علمی لحاظ سے اپنے تمام تر مطالعے کو ایک حتمی شکل میں ایک مقالے کی شکل دیں ۔ جس کا انحصار آپ کے عقل و فہم اور غو و فکر کے نتیجے میں آپ کی اپنی تحریروں میں ظاہر ہو ۔ مگر کسی کتاب کا حوالہ دینا ، کوئی ٹوئیٹ کا لنک دیدینا ، کہیں سے کوئی مقالہ کا پی پیسٹ کرنا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک علمی مکالمے کا مظہر ہے ۔ کیونکہ میں نے اس پر بھی مذید سوالات کیئے تو اس پر اپنی ذاتی رائے دینے کے بجائے مذید کاپی پیسٹ ، اور لنکس یا حوالے آگئے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک علمی مکالمے کا طریقہ کار ہے ۔ یہ تو بس ایک قسم کی فالونگ ہے ۔ جس اردو میں لکیر کا فقیر کہنا غلط نہ ہوگا ۔Pascal Boyer یا Scott Atran کی کتب پڑھیں۔ وہ خدا یا سپرنیچرل کے متعلق ہمارے ذہن کیسے وائرڈ ہیں اور اس کا ایوولیوشن سے کیا تعلق ہے پر بات کرتے ہیں
غیرمتفق کی ریٹنگ کام نہیں کرتی اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس حوالےسے میں آپ سے شدید اختلاف کرتا ہوں۔ آپ محفل یا کسی اور فورم سے محض کسی بھی علم کی سطح کو چھو سکتے ہیں۔ اگر آپ سیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو اس فیلڈ کے ایکسپرٹس کی آؤٹ پٹ پڑھنی پڑے گی۔ یہ کتب بھی ہو سکتی ہیں، پیپر بھی اور لیکچر بھی۔میرا ہمیشہ سے کچھ اراکین سے اسی بات پر ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ اگر یہ ڈسکیشن فورم ہے تو اس پر پھر آپ ڈسکس کریں ۔ اگر آپ کسی خاص موضوع پر کسی بحث کا آغاز کریں تو پھر اخلاقی اور علمی لحاظ سے اپنے تمام تر مطالعے کو ایک حتمی شکل میں ایک مقالے کی شکل دیں ۔ جس کا انحصار آپ کے عقل و فہم اور غو و فکر کے نتیجے میں آپ کی اپنی تحریروں میں ظاہر ہو ۔ مگر کسی کتاب کا حوالہ دینا ، کوئی ٹوئیٹ کا لنک دیدینا ، کہیں سے کوئی مقالہ کا پی پیسٹ کرنا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک علمی مکالمے کا مظہر ہے ۔ کیونکہ میں نے اس پر بھی مذید سوالات کیئے تو اس پر اپنی ذاتی رائے دینے کے بجائے مذید کاپی پیسٹ ، اور لنکس یا حوالے آگئے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایک علمی مکالمے کا طریقہ کار ہے ۔ یہ تو بس ایک قسم کی فالونگ ہے ۔ جس اردو میں لکیر کا فقیر کہا تو غلط نہ ہوگا ۔