باب نہم

سمجھ داری کی باتیں تھیں، یہی مشکل کا اِک حل تھا
ذرا سی دیر میں اس حل کا حامی سارا جنگل تھا

طباقی نے سُناجونہی کہ ان کا فیصلہ یہ تھا
وہ سر پر پیر رکھ کر تب وہاں سے بھاگ نکلا تھا

وہاں سے بھاگ کر وہ شیر کے ہی پاس آیا تھا
اور اُس کو ماجرا اُس رات کا پھر کہہ سنایا تھا

یہ سنتے ہی اُٹھا جب شیر لے کر ایک انگڑائی
طباقی کو اسی میں خیریت اپنی نظر آئی

دبائی دُم ، ہوا پھر وہ وہاں سے بھی رفو چکر
اُسے ہڈی تو مل جاتی، مگر تھا جان کا بھی ڈر

’’چلو یہ فیصلہ تو ہوگیا ، کچھ میں بھی سوچوں گا
ابھی ہے موگلی جنگل میں اُس کو جا دبوچوں گا‘‘

یہ کہہ کر شیر گرجا زور سے اور سب ہی تھّرائے
گرج ایسی تھی اکثر کا تو سن کر دم نکل جائے

بگھیرا نے سنا تو موگلی کو ڈھونڈنے نکلا
اُسے جنگل کے اِک کونے میں اُس نے کھیلتا پایا

ابھی گو موگلی نے شیر سے ڈرنا نہ سیکھا تھا
جھجکتا تھا کسی سے ،نہ کسی سے خوف کھاتا تھا

کہا اُس سے بگھیرا نے ’’یہاں پر شیر آئے گا
مجھے ڈر ہے شکار اپنا وہ تُم کو ہی بنائے گا

یہ بہتر ہے کہ میں تُم کو یہاں سے دور لے جاؤں
اِک انسانوں کی بستی ہے، وہاں پر چھوڑ کر آؤں‘‘

کہا تب موگلی نے ’’اے مرے پیارے بگھیرا جی!
ذرا سی بات یہ میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی

مجھے اِس شیر سے ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے
چھپا پھرتا تھا کل تک وہ، یہی اُس کی حقیقت ہے

مجھے تو جھُنڈ کی اپنے حمایت بھی میسر ہے
یہی ہیں بھائی میرے اور یہی جنگل مرا گھر ہے‘‘
( یہی ہیں بھائی میرے اور یہ جنگل مرا گھر ہے)

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌ​
چھا گئے ہیں بھائی جی :)
اللہ آپ کے قلم کی روانی کو قائم رکھے آمین
 
باب دہم : ’کا‘ کا شکار


غرض باتوں ہی باتوں میں بہت ہی دور جاپہنچے
اندھیرا چھاگیا تب موگلی بولا بگھیرا سے

چلو اب گھر چلو بھیا! مجھے تو نیند آتی ہے
بہت کھیلا ہوں سارا دن ، تھکن مجھ کو ستاتی ہے

کہا اُس سے بگھیرا نے بہت ہی تھک گیا ہوں میں
یہیں اونچے درختوں پر ہی سونا چاہتا ہوں میں

سویرے تازہ دم ہوکر یہاں سے آگے جائیں گے
بہت امید ہے بستی کوئی رستے میں پائیں گے

یہاں سے کچھ مسافت پر کہیں انسان رہتے ہیں
پہنچ کر سامنے اُن کے جو بیتی ہے وہ کہتے ہیں

اِک اونچی شاخ کوپھر تاک کر وہ چڑھ گیا اُس پر
وہیں پیر اپنے پھیلائے، بنایا شاخ کو بستر

اشارہ کردیا پھر موگلی کو، ’’ تم بھی آجاؤ!‘‘
اسی کونے میں آجاؤ، یہیں تم بھی سماجاؤ

اُچھل کر موگلی نے دُم پکڑلی پھر بگھیرا کی
اُسی دُم کے سہارے پھر لگائی اِک چھلانگ اونچی

وہاں سونے تو لیٹا موگلی ، لیکن پریشاں تھا
وہ اپنے بھیڑیوں کی بے وفائی پر بھی حیراں تھا

ابھی سونے نہ پائے تھے وہاں اِک اژدہا آیا
نظر پڑتے ہی اپنے تر نوالے پر، وہ للچایا

یہ موذی کنڈلیوں میں اپنی سب کو بھیچ لیتا تھا
بھیانک تھا، یہ ظالم تھا، یہ موذی تھا، یہی ’ کا‘ تھا

اسی ’کا‘ نے اب آکر موگلی کو آن پکڑا تھا
اسی موذی نے اپنی کنڈلیوں میں اُس کو جکڑا تھا

اسی دم موگلی کی ایک ہلکی کسمساہٹ سے
بگھیرا چونک کر اُٹھا اسی ہلکی سی آہٹ سے

بس اُٹھتے ہی اسی دم چونک کر وہ ہوش میں آیا
اور اِک بھاری سا پنجہ اس فضا میں ایسے لہرایا

جسے کھا کر وہ موذی آج اپنا ہوش کھو بیٹھا
وہاں سے بھاگ نکلا اور سارا جوش کھو بیٹھا

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ​
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
شکریہ۔
میں بھی جناب اعجاز صاحب کی رائے سے کلی طور پر متفق ہوں۔
آپ کی یہ کاوش روانی اور تسلسل میں لاجواب ہے اور بچوں کے لئے یقیناً دلچسپی کی حامل ہوگی اگر وہ اسے کہیں پر پڑھتے ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اِک اونچی شاخ کو وہ تاک کر پھر چڑھ گیا اُس پر
تاک کر اور پھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے ذرا سا ناہموارکر رہے ہیں ۔ ترتیب کو ذرا دیکھیں۔۔۔مثلاً ۔ اک اونچی شاخ کوپھر تاک کروہ چڑھ گیا اُس پر
باقی قسط تو بہترین ہے ۔ماشاءاللہ۔
 
تاک کر اور پھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے ذرا سا ناہموارکر رہے ہیں ۔ ترتیب کو ذرا دیکھیں۔۔۔مثلاً ۔ اک اونچی شاخ کوپھر تاک کروہ چڑھ گیا اُس پر
باقی قسط تو بہترین ہے ۔ماشاءاللہ۔
شکریہ قبول فرمائیے۔ لیجیے تدوین کردی ہے۔
 
باب یازدہم : کرنل ہاتھی


دوبارہ آکے وہ لیٹے، ابھی کچھ رات باقی تھی
ابھی یہ رات جانے اور کیا کیا گُل کھِلائے گی

وہ آنکھیں بند کرکے سوچتے تھے پھر سے سو جائیں
تمنا تھی کہ میٹھی نیند کی وادی میں کھوجائیں

اچانک سارا جنگل گونج اُٹھا ایسی چنگھاڑوں سے
چلی آئیں جو ان کی سَمت ٹکرا کر پہاڑوں سے

بگھیرا جانتا تھا، یہ پرانے اُس کے ساتھی تھے
ندی کے پار جو رہتا تھا اُس جتھے کے ہاتھی تھے

انہیں گوروں نے پچھلی جنگ میں بھی لابھِڑایا تھا
انہوں نے لکڑیاں لا کر ندی پر پُل بنایا تھا

بس اس کے بعد سے جتھا بھی اک رجمنٹ کہلایا
لقب سردار ہاتھی نے یہیں کرنل کا تھا پایا

یہیں جنگل کے بیچوں بیچ وہ تھے گشت فرماتے
کبھی مستی میں آجاتے تو اپنا گیت بھی گاتے

انہیں دیکھا، ہمارا موگلی نیچے اُتر آیا
یہیں جتھے میں کرنل کے ، عجب اِک ماجرا پایا

صفوں میں ہاتھیوں کے ، ایک ننھا منّا ہاتھی تھا
یہی ننھا سا ہاتھی کھیل میں اب اُس کا ساتھی تھا

ادھر جب حاضری کے وقت اُس چھوٹے کو نہ پایا
ڈسپلن کے خلاف اِس بات پر کرنل کو طیش آیا

اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا، اُسے پیچھے کہیں پایا
اُٹھا کر موگلی کو کوئی اس کے ساتھ لے آیا

اِس انسانوں کے بچے کو صفوں میں اپنی پاتے ہی
کوئی کرنل نے پائی انتہاء نہ اپنے غصے کی

ادِھر یہ ماجرا دیکھا، بگھیرا دوڑ کر آیا
بہت مشکل ہوئی ، اس نے مگر کرنل کو سمجھایا

یہ انسانوں کا بچہ ہے یہ پھر بھی ساتھ ہے میرے
یہ بچہ بے ضرر سا ہے ، ملیں گے ایسے بہتیرے

مگر جنگل میں ہرگز کام اس کا اب نہیں کرنل
میں اِس کو لے چلا ہوں ایک بستی میں یہیں کرنل

یہ سننا تھا کہ ہوکر مطمئن سب چل پڑے ہاتھی
بگھیرا نے لیا پھر سانس لمبا جب گئے ہاتھی

یہ جنگل ہے یہاں پر ہر قدم پر ایک خطرہ ہے
ابھی کچھ رات باقی ہے، بہت ہی دور جانا ہے

چلو اِک بار پھر سے نیند کی وادی میں کھو جائیں
ابھی سورج نہیں نکلا، چلو ہم پھر سے سو جائیں
ٌٌٌ ٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ
الف عین ، محمد یعقوب آسی ، ابن سعید ، سید عاطف علی ، ملائکہ ، سید ، عائشہ عزیز ، نایاب ، تلمیذ ، فرحت کیانی ، یوسف-2 ، محمدعلم اللہ اصلاحی ، محمد اسامہ سَرسَری ، بھلکڑ ، فاروق احمد بھٹی ، محمد وارث ، محمود احمد غزنوی ، مہدی نقوی حجاز ،
محمداحمد
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
گیدڑ کسانوں کا انتہائی ناپسندیدہ جانور ہے یہ عموما" کھاتا کم ہے اور خراب زیادہ کرتا ہے ماجرا اِس احوال کا یوں کھُلا کہ ایک مرتبہ ہم اپنے گاؤں گئے تو پتا چلا کہ ایک محاورہ ہے " گیا گیدڑکماد (گنے کی تیار فصل)وِِچ" اِس کامطلب ہے کہ اَب اِسے کوئی گنا پسند نہیں آنا اور ہر ایک کو مُنہ مار کر اِس نے پورا کھیت خراب کر دینا ہے۔ جب کسی سے کسی چیز کی سلیکشن نہ ہو رہی ہو اور سب چیزیں اُلٹ پُلٹ کی جا رہی ہوں تو یہ محاورہ بولا جاتا ہے۔ کسانوں کے پالے ہوئے شکاری کُتے گیدڑوں کو کھیت میں نہیں گھُسنے دیتے اور مار بھگاتے ہیں۔ شیر اور گیدڑ بہادری کے اعتبار سے متضاد معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔
 
باب دوازدہم:

بحث و تکرار


بہت کچھ سُن چکا تھا موگلی، اب اُس کی باری تھی
یہی سب سوچتے یہ رات اس نے بھی گزاری تھی

میں اس جنگل کو چھوڑوں گا تو کیسے جی سکوں گا میں
میں اب اک بھیڑیا ہوں، ساتھ ہی اُن کے مروں گا میں

چلو واپس چلیں، اُن بھائیوں کو میں منا لوں گا
انھی کے ساتھ ہی اِس زندگی کا میں مزا لوں گا

یہ جنگل میرا گھر ہے، میں تو یہ جنگل نہ چھوڑوں گا
یہیں رہ کر میں اُس بدبخت کی گردن مروڑوں گا

مگر یہ بھی تو ممکن ہے، وہ میرا دوست بن جائے
یہی جو شیر دشمن ہے، وہ کل سے دوست کہلائے

یہ سنتے ہی بگھیرا لال پیلا ہوکے یوں بولا
ہمارے موگلی کے بھولے پن پر اُس نے منہ کھولا

یہ کیسی بے وقوفی ہے! یہ جو کچھ بک رہے ہو تُم
گزشتہ دس برس سے شیر کو بھی جانتے ہو تُم

کسی کا دوست گو یہ شیر ہرگز ہو نہیں سکتا
وہ اپنی خود سری یوں چُپ چُپاتے کھو نہیں سکتا

یہی بہتر ہے میرے ساتھ اس بستی کو چل نکلو
تُم اس جنگل کو فوراً چھوڑ دو گر جاں بچانی ہو

یہ سننا تھا، ہمارا موگلی بھی طیش میں آیا
بہت کچھ یاں پہ اُس نے بھی بگھیرا کو سنا ڈالا

تحمل سے سنا اب موگلی کو بھی بگھیرا نے
نہ سنتا گر تو کیسے حادثے ہوتے خدا جانے

کہا کچھ تو یہی کہ رات باقی ہے چلو سوئیں
ذرا اِک بار پھر سے نیند کی وادی میں ہم کھوئیں

یہ کہہ کر سو گیا وہ اور خرّاٹے لگا بھرنے
مگر سونے دیا نہ موگلی کو اُس کے تیور نے

٭٭٭٭٭٭​
 

باب سیزدہم : موگلی کا اغوا


ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ اکِ ہلچل ہوئی نیچے
ذرا جب غور سے دیکھا تو یہ بھالو میاں ہی تھے

اُسے دیکھا تو اپنا موگلی نیچے چلا آیا
اِسی بھالو کے اُس نے روپ میں اِک دوست تھا پایا

چلو کچھ دیر تو سستا لیے ، اب کھیل کھیلیں گے
بگھیرا جونہی اُٹھے گا، اسے بھی ساتھ لے لیں گے

بگھیرا نے جب ان دونوں کو نیچے کھیلتا پایا
تو خود بھی مطمئن ہوکر وہ نیچے ہی چلا آیا

اُدھر جب کھیل سے اکتا گئے، خود کو تھکا بیٹھے
کنارے اِک ندی کے تب وہ سُستانے کو جا بیٹھے

ابھی بیٹھے ہی تھے جاکر کہ بندر لوگ آپہنچے
اُچک کر موگلی کو لے گئے ندیا کنارے سے

ذرا اِن بندروں کا حال اب تُم کو سناتے ہیں
سب اِن کا نام سُن کر ہاتھ کانوں کو لگاتے ہیں

شرارت اور ذلالت میں کوئی ان کا نہیں ثانی
شریف اِن کو سمجھنے کی ، کرے نہ کوئی نادانی

بہت دن سے لگا کر گھات یہ جنگل میں بیٹھے تھے
اسی امید پر کہ موگلی قابو میں آجائے

اُسے پکڑیں گے اور پھر آگ کی ترکیب پوچھیں گے
اذیّت دیں گے اس کو اور یوں مجبور کردیں گے

ہمارے ہاتھ یوں پھر آگ کا جب راز آئے گا
ہمیں تخریب کاری کا نیا انداز آئے گا

لگاکر آگ جنگل کو ، تماشا ہم بھی دیکھیں گے
جلے گا جب ہر اک دشمن ہمارا ، ہم بھی دیکھیں گے

پکڑ کر موگلی کو لے گئے ویران مندر میں
نڈر لڑکا تھا ، پھر بھی وہ نہ لایا اُن کو خاطر میں

انہوں نے اس پہ ظلم و جور کی پھر انتہا کردی
حصولِ آتشِ بے نور کی کوشش سِوا کردی

ہمارا موگلی تھا خود بھی اِک انسان کا بچّہ
جسے جنگل کے خون آشام حیوانوں نے پالا تھا

مگر جنگل کے ہر اِک جانور سے پیار کرتا تھا
کسی سے دشمنی کرنا کبھی اس نے نہ سیکھا تھا

وہ شیطانوں کو کیونکر آگ کا یہ راز دے دیتا
تباہی اور بربادی کو اِک آغاز دے دیتا

میں اب کچھ بھی نہ بولوں گا ارادہ یہ کیا اُس نے
ہر اِک تکلیف سہہ کر بھی لبوں کو سی لیا اُس نے

٭٭٭٭٭٭
 
Top