جاوید چوہدری اپریل 23 2009

گرائیں

محفلین
1100609725-2.gif
 

محسن حجازی

محفلین
میں یہیں پر کہیں پر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں کہ 'مسلمان' کو حکمت سے کیا تعلق؟
چلئے معاہدہ ہو گیا اللہ کا شکر ادا کیجئے اور کام کیجئے کہ سب کو عملی طور پر اس کے ثمرات بھی نظر آتے۔
مگر حکمت واقعی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔
جو شاید گم ہی رہے گی۔

اللہ کے نبی نے صلح حدیبیہ کے بعد پورے عرب معاشرے کو چیلنج نہیں کیا تو یہ کس شمار قطار میں ہیں۔ دعوت دین ترویج کو تو چھوڑئیے کسی بھی گھٹیا ترین مقصد کے حصول کا ایک طریق کار ہوتا ہے جس پر آہستہ روی سے عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔
 
یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں‌۔ یہاں تو پہلے لوگ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا میں طالبان حامی بھیٹے ہوئے اور اس بات کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔
 
جب ہم یہی بات کرتے ہیں تو ہمیں ''لبرل فاشسٹ '' کہا جاتا ہے لیکن جاوید چوہدری کی بات برحق ہے ۔ ظالمان کے حامیوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ جس ایجنڈے کی وہ متابعت کر رہے ہیں وہ سب کچھ ہو سکتا ہے اسلامی نہیں ۔ ان کے مذہبی و مسلکی عقائد اپنی جگہ لیکن اسلام کے نام پر فساد پھیلانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی ۔ بندوق سے اسلام نہیں پھیلا یہ تو محبت کا دین ہے اور اعلیٰ اخلاق ۔ دعوت حق اور اسلامی کردار کے عملی مظاہرے سے پھیلا ہے ۔ ساتھیوں کو شاید یاد ہو یا نہ ہو سوات امن معاہدے پر میں نے ہی فواد کی بات کو سختی سے رد کیا تھا اور ان کی توجہ اس جانب دلائی تھی کہ آپ لوگوں کی غلطیوں کی سزا ہم لوگ بھگت رہے ہیں دوسروں کے مظالم اپنی جگہ ہمیں ان مظالم کو روکنے کے لیئے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیئے نہ کہ ان مظالم کو اپنی دہشت گردیوں کو ویلی ڈیٹ کرنے کے لیئے استعمال کرنا چاہیئے ۔ آج اگر پاکستانی طیارے کسی جگہ بم باری کرتے ہیں تو ان کے پاس اس بم باری کا جواز موجود ہے کہ جی یہ لوگ مملکت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کے مجرم ہیں لیکن اگر یہی لوگ پر امن رہتے اور اپنے کردار اور عمل سے معاشرے میں انقلاب لانا چاہتے تو کیا ایسا ناممکن تھا ۔۔؟ تبلیغی جماعت نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ۔ دعوت اسلامی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ۔ مشائخ اور علماء اپنی اپنی جگہ اپنے عمل و کردار سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق بسر کرنے پر راغب کر رہے ہیں ۔ ان سب کے ہوتے ہوئے بندوق اور بم ۔ خودکشیوں ۔ عوام پر ظلم ۔ انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کرنا ، اسلام کے نام پر افراد کا اغوا ، غریبوں کے لیئے آئی ہوئی ادویات اور گھی کے ڈبوں کا لوٹ مار ، سرکاری اور غیر سرکاری گاڑیوں کو لوٹنا ، چوکیداروں کے کان کاٹنا ، لاشوں کو قبروں سے نکال کر لٹکانا ، قبروں اور جنازوں پر حملے ، امام بارگاہوں پر حملے ، مسجدوں پر حملے ، ملک کی حفاظتی افواج پر حملے ، پولیس پر حملے ، عدلیہ پر پارلیمنٹ پر کفر کے فتوے ، دوسرے مسالک پر حملے ، کس طرح کا اسلام ہے ۔ یہ اسلام نہیں بلکہ کھلی گم راہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے اور اسلام کے اصل پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین
 
خودکشیوں ۔ عوام پر ظلم ۔ انہیں گھروں سے نکلنے پر مجبور کرنا ، اسلام کے نام پر افراد کا اغوا ، غریبوں کے لیئے آئی ہوئی ادویات اور گھی کے ڈبوں کا لوٹ مار ، سرکاری اور غیر سرکاری گاڑیوں کو لوٹنا ، چوکیداروں کے کان کاٹنا ، لاشوں کو قبروں سے نکال کر لٹکانا ، قبروں اور جنازوں پر حملے ، امام بارگاہوں پر حملے ، مسجدوں پر حملے ، ملک کی حفاظتی افواج پر حملے ، پولیس پر حملے ، عدلیہ پر پارلیمنٹ پر کفر کے فتوے ، دوسرے مسالک پر حملے ، کس طرح کا اسلام ہے ۔ یہ اسلام نہیں بلکہ کھلی گم راہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گمراہی سے محفوظ رکھے اور اسلام کے اصل پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ۔ آمین ثم آمین

ظالمان پاکستان میں اسپیشل "برانڈ"کا اسلام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظالمان کے حامیوں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ جس ایجنڈے کی وہ متابعت کر رہے ہیں وہ سب کچھ ہو سکتا ہے اسلامی نہیں ۔
 
کیا اب بھی ہم حالت جنگ میں نہیں ۔ یہ وہ جنگ ہے جو اسلام کے نام پر ہم پر مسلط کی گئی ہے اور اس جنگ میں ہمارے پاس ایک ہی آپشن ہے جسے قتال کہتے ہیں ۔ اللہ ہمیں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور گمراہی و ظالمانیت سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین
 

مغزل

محفلین
شکریہ بھیا ۔ میں ابھی اخبار میں پڑھ چکا ہوں ، آپ لوگوں کی رائے سے متفق ہوں ، بہت شکریہ
 

گرائیں

محفلین
میں یہیں پر کہیں پر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں کہ 'مسلمان' کو حکمت سے کیا تعلق؟
چلئے معاہدہ ہو گیا اللہ کا شکر ادا کیجئے اور کام کیجئے کہ سب کو عملی طور پر اس کے ثمرات بھی نظر آتے۔
مگر حکمت واقعی مومن کی گمشدہ میراث ہے۔
جو شاید گم ہی رہے گی۔

اللہ کے نبی نے صلح حدیبیہ کے بعد پورے عرب معاشرے کو چیلنج نہیں کیا تو یہ کس شمار قطار میں ہیں۔ دعوت دین ترویج کو تو چھوڑئیے کسی بھی گھٹیا ترین مقصد کے حصول کا ایک طریق کار ہوتا ہے جس پر آہستہ روی سے عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔

افغانستان میں طالبان نے جب کنٹرول سنبھالا تو اس کے بعد ہمارے مذہبی سیاستدانوں اور علما ء نے بیانات دینا شروع کیئے کہ شریعت یہان بھی نافذ کی جائے گی۔ جتنا بھی شور و غل یہاں کیا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا جو پہلے محتاط تھی ، اب اورخائف ہو گئی۔

وہان جو کچھ بھی ہوا، اس کا اندازہ یہاں گھر بیٹھے کمپیوٹر کے سامنے نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان 1979 سے جنگ کا شکار ہے۔ ہم وہاں کے لوگوں کی سوچ کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ افغانستان 1839 سے گریٹ گیم کا شکار ہے، جب پہلی افغان جنگ ہوئی تھی۔

طالبان یا ظالمان، آپ جو بھی کہ لیں، آج ایک فیصلہ کن طاقت ہیں۔ انھیں کون اور کیوں استعمال کر رہا ہے، اس سے قطع نظر، یہ دیکھنا ہے کہ ان میں مقتدر عہدوں پر فائز لوگوں کی قوت فیصلہ کا انحصار کس چیز پر ہے۔ کیا وہ فیصلہ کرتے وقت پشتون رواج کے مطابق اسلام کو ڈھالتے ہیں یا اسلام کے مطابق پشتون رواج کو؟

یہ بات بھی محل نظر ہونی چاہئے کہ، ہمارے دینی مدرسوں میں زیر تعلیم طلباء کی اکثریت پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ حتی کہ، متوسط طبقہ بھی مدرسے کی تعلیم کو ثانوی درجے پر رکھتا ہے۔ ترجیح عصری علوم کو دی جاتی ہے، کیونکہ بعد میں زندگی کی تمام تر مصروفیات اور ذمہ داریوں کا انحصار عصری تعلیم پر ہوتا ہے۔ اب یہی لوگ، جو عام زندگی میں باقی لوگون سے مقابلہ نہیں کر سکتے، اپنی تمام تر محرومیوں کے ساتھ مدرسے میں زیر تعلیم رہتے ہیں۔ دس یا گیارہ سال کی عمر میں مدرسے میں آ کر، بلوغت کے بعد مدرسے سے نکلتے ہیں۔ اس تمام مدت میں ان کے والدین ان کی تعلیم کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتے۔ کھانا مدرسے سے ملتا ہے۔ باقی دنیا سے رابط نہیں۔ باقی دنیا گمراہ ہے، ان سے رابطے میں رہے تو ایمان کمزور ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

چنانچہ وہ تمام مدت جس میں آئندہ کی عملی زندگی کے خد و کال بنتے ہیں ایک خاص ماحول میں گزرتی ہے۔ مجھے اس پر بھی قطعا اعتراض نہیں ہے۔ یہ تو ایک ماحول میں رہنے کا فطری نتیجہ ہے۔

بات یہ ہے، کہ یہ لوگ ، جن کو اگر معاش کا غم نہ ہو، جن کو اگر اختیار دیا جائے تو، شائد یہ مدرسے نا جائیں بلکہ ہماری طرح سکولوں کا رخ کریں، ایک خاص قسم کی ذہنیت بنا لیتے ہیں۔ یہ ذہنیت خالصتا مذہبی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ملغوبہ ہوتی ہے، اپنے معاشرتی taboos اور مذہبی رجحانات کا۔ اور یہ ذہنیت نقصان دہ ہوتی ہے۔

یہ لوگ چونکہ عوام الناس میں گھل مل نہیں سکتے، چاہے جو بھی وجوہات ہوں ، لہذا یہ ادراک کر ہی نہیں سکتے کہ کہاں ان کی سوچ اور معاشرے کی سوچ میں تضاد آ گیا ہے، کہاں سے ان کی راہیں جدا ہونا شروع ہوئیں اور اب یہ کہاں پر کھڑے ہیں۔ مذہبی ماحول میں رہنا ان کے لئے افتخار کا باعث بن جاتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے۔ کیونکہ چاہے جیسے بھی ہوں ، کم از کم قرآن تو یاد ہوتا ہے ان میں سے اکثر کو۔ بے شک عمل ان کا قرآن کے مطابق نہ ہو۔ ہم میں سے کتنوں کو قرآن یاد ہے؟

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔
تو بات ذہنیت کی ہو رہی تھی۔ اب جب یہ لوگ فارغ التحصیل ہو کر عملی زندگی میں آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ideal situations کے بارے میں پڑھ رہے تھے۔ استثناء کے بارے میں تو پتہ ہی نہیں ان کو۔ معاشرے میں رائج طور طریقوں سے لا علمی ان سے مذہبی جوش میں ایسے فیصلے کرواتی ہے کہ الامان الحفیظ۔

آپ خود سوچیں ، آپ کے گھر میں‌موجود خطرناک اسلحہ اگر آپ کے بچے کے ہاتھ میں آجائے تو آپ کی کیا حالت ہو گی!!
یہ لوگ، جو بنیادی طور پر مدرسوں میں اس لئے داخل ہوتے ہیں‌کہ ان کے والدین ان کی تعلیم کا خرچ اٹھا نہیں سکتے، بنیادی طور پر مسترد کئے گئے لوگ ہیں۔ ان میں ذہین لوگ بھی ہوں گے، ان میں وہ بھی ہوں گے جو اختیاری طور پر اس طرف آئے، وہ بھی ہیں جن کے باپ دادا کے زامنے سے یہ تعلیم چلی آ رہی ہے، مگر کتنے؟

میں‌کتنوں کو جانتا پوں جو تین تین چار چار مرتبہ ایف ایس سی کے امتحان میں فیل ہوئے، اور پاس ہونے کے بعد بھی جب اچھے نمبر نہیں آئے تو وہ مدرسے کی طرف چل نکلے۔
نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ہم لوگ فقہی مسائل کو سمجھ نہیں سکتے، ہمیں ان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے، یہ لوگ اس پس منظر کے ساتھ مسجدوں میں پائے جاتے ہیں ۔ ہم ان کے پاس جاتے ہیں اور ان کا کوئی بھی غلط فیصلہ بہت دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

کیا آپ اپنی نئی گاڑی کسی بھی ایرے غیرے مکینک کے پاس لے جائیں گے؟ نہیں؟

ایک مثال کے بعد آپ کا اور وقت نہیں لون گا۔

کراچی میں ایک عالم صاحب نے لڑکیوں کے مدرسوں کے خلاف ایک علمی بحث شروع کی۔ بہت مدلل دلائل دیے۔ اس سے قطع نظر کے میں‌حق میں ہوں یا نہیں، مجھے ان کے انداز بیاں نے متاءثر کیا۔ لوگوں کو اختلاف ہوا۔ جس رسالے میں یہ مضمون قسط وار شائع ہو رہا تھا، اس کے مدیر کو مراسلے ملے، کچھ حق میں کچھ اختلافی۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ جن کو اختلاف ہے، وہ بھی مضمون لکھیں۔ بونیر سے ایک مولانا جو کہ اتفاق سے ایک مدرسۃ البنات کے مہتمم بھی تھے، کا مضمون شائع ہوا اور تین اقساط کے بعد بند ہو گیا۔

موصوف نے پرانی حرکتیں شروع کر دیں تھیں۔ مصنف کی ذات پر الزامات کی بہتات، ان کے مضمون میں کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی، جو کہ کمپوزر کی غلطی بھی ہو سکتی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کو یہود و ہنود کا ایجنٹ قرار دیا جس کا واحد مقصد مسلمانوں میں قرآن حدیث سے دوری پیدا کرنا تھا۔

حال آنکہ، مصنف کا مقصد یہ تھا کہ لڑکیوں کے مدارس کی موجودہ شکل بہت سی خرابیاں چھپائے بیٹھی ہے اور اگر ان کی اصلاح نہ کی گئی تو شائد پھر کبھی موقع نہ ملے۔ موصوف نے دلائل سے ثابت کرنے کوشش کی کہ مدارس جہا ں لڑکیوں کی لئے ٹھہرنے کا بند بست بھی ہے، ہاسٹل کی شکل، میں، زیادہ خرابی کاسبب بن سکتے ہیں۔ مگر بجائے اس کے، کہ دلائل میں بات کی جاتی، اس بات کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا دیا گیا۔

خلاصہ یہ کہ : یہ لوگ جتنی خرابی پیدا کر رہے ہیں ، اس میں اسلام، یا مدرسے سے زیادہ ان کی اپنی سوچ کا عمل دخل ہے، جو کہ بد قسمتی سے مدارس کی موجودہ فضا میں بدل نہیں سکتی۔

1996 کی بات ہے، مجھے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں‌نے ایک ہال دیھا جس میں انتظامیہ نے 40 کمپیوٹر لگا رکھے تھے۔ ایک انسٹرکٹر کا بندوبست بھی تھا کہ طالب علم مدرسے کے خرچ پر کمپیوٹر سیکھیں۔ مگر کسی نے دلچسپی نہ لی، کیوں کہ ان کے خیال میں کمپیوٹر استعمال کرنا وقت کا ضیاع تھا اور یہ کہ کفار کی بنائی چیز میں خیر کہاں؟

اس حالت پر افسوس کا اظہار جامعہ کے ترقی پسند استاد کرتے پائے گئے، مگر افسوس

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔۔۔
 

راشد احمد

محفلین
شکریہ
دراصل سوات معاہدہ تو ایک بہانہ تھا۔ طالبان سوات کی شکل میں ایک پلیٹ فارم تلاش کررہے تھے جہاں وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنیکے لئے اپنی حکمت عملی ترتیب دے سکیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت نے سوات معاہدہ غیر مشروط طور پر قبول کرلیا اور طالبان سمجھ رہے ہیں کہ حکومت نے ان کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں یعنی برداشت کو کمزوری سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسا نہیں‌ہے۔ یہ مٹھی بھر طالبان فوج کے ایک حملے کی مار ہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
یہ ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں‌۔ یہاں تو پہلے لوگ کہتے رہے ہیں کہ میڈیا میں طالبان حامی بھیٹے ہوئے اور اس بات کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔


لبرل فاشسٹوں کے حامی بھی بیٹھے ہوئے ہیں ہر قسم کی ورائٹی موجود ہے۔ نذیر ناجی محض ایک مثال ہے اور عباس اطہر دوسری۔
 

شکاری

محفلین
گرائیں بہت اچھا تجزیہ کیا ہے، پسند آیا۔

آپ کی باتوں سے لگتا ہے کہ آپ کا تعلق علماء دین سے بھی ہے(شاید) تو آپ نے کبھی ان سے اس معاملے پر بات کی اگر نہیں کی تو اب کریں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آج حامد میر نے صوفی صاحب کا کمزور سا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک جانب ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا نے کوئی خاص نئی بات نہیں کی ہے، وہ پہلے بھی یہی کچھ بکتے آئے ہیں۔ دوسری جانب مولانا سے بھی درخواست کی ہے کہ کچھ دن تو سکون کا سانس لے لیں۔
 

arifkarim

معطل
اب بہت ہوچکا اب پاکستانی فوج کو حرکت میں آنا ہوگا اورعوام طالبانائزیشن سے نجات کیلئے سامنے آئیں۔ ملک بھر کے عوام کوطالبانائزیشن سے نجات کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔

آستین کا سانپ ایسے ہی نہیں مرجاتا بھائی۔ اپنا گلا کاٹ کر ہی نظر آتا ہے۔
 
Top