ری یونین ڈیٹرائیٹ کے ایک بڑے کلب میں تھی۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف سوٹ بوٹ اور قیمتی لباسوں میں ملبوس کئی پرانے دوست اور رفقائے کار نظر آئے۔ کچھ کو پہچاننے میں مشکل ہوئی اور کچھ بالکل اس طرح نظر آئے جیسے اکثر ملاقات ہوتی رہی ہو۔ ہر ڈھلتے چہرے میں اپنا چہرہ نظر آیا ۔ پچیس سال پرانی یادیں تازہ ہونے لگیں۔ سب لوگ اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ اپنی اپنی میزوں کے ارد گرد ٹولیوں کی صورت میں بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ میں بھی کچھ پرانے رفقا سے سلام دعا کے بعد ایک طرف کو بیٹھ کر ہال میں نظریں دوڑانے لگا۔ اچانک پیچھے سے کسی نے میرے کاندھے پر ہلکے سے تھپتھپایا اور کہا: " کیا آپ کسی کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ " مڑ کر دیکھا تو ماریا کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ " آہا! ماریا!" کہتے ہوئے میں کرسی سے کھڑا ہو گیا۔
"ہاں۔ ڈھونڈ رہا تھا لیکن اب نہیں۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ہنس پڑیں اور "کیسے ہیں آپ ، زیش؟" کہتے ہوئے دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ وہ بالکل اپنی آخری تصویر کی طرح لگ رہی تھیں۔ بال البتہ اب مزید مختصر ہو کر شانوں سے اوپر ہوگئے تھے۔ ری یونین میں آنے سے پہلے میں نے اپنے بالوں کی سفیدی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ دیکھا تو ان کے بالوں میں بھی چاندی چمک رہی تھی۔ ہاتھ میں چھوٹا سا پرس نما بیگ تھا اور چہرے پر وہی ازلی مسکراہٹ۔ میں نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے "ڈیٹرائیٹ میں دوبارہ خوش آمدید" کہا تو وہ پھر خوش دلی سے ہنس پڑیں ۔ میں نے ان کے لیے کرسی گھسیٹ کر پیچھے کی تو وہ بیٹھ گئیں۔ رسمی پرسشِ حال کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ پچھلے پچیس سالوں میں گزرنے والی زندگی کے خلاصے بیان ہونے لگے۔ میں نے پوچھا "شوہر کیسے ہیں؟" تو بتایا کہ شادی ناکام رہی۔ اپنے ایک ہم وطن سے شادی کی تھی۔ زیادہ دیر نہیں نبھ سکی۔ شوہر شراب اور جوئے میں پڑ گیا۔ کچھ عرصے تک تو وہ برداشت کرتی رہیں لیکن مسائل بڑھتے گئے اور بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی۔ اس تلخ تجربے کے بعد انہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔ ان کے بچے نہیں تھے۔ دس سال پہلے ماں کا بھی انتقال ہو گیا تھا۔ اب اکیلی ہی رہتی ہیں۔ کیلیفورنیا میں پارٹ ٹائم پریکٹس کرتی ہیں اور بقیہ وقت رفاہی کاموں میں صرف کرتی ہیں۔ ایک بلی پالی ہوئی ہے جو سفر حضر میں ساتھ رہتی ہے. اسے ہوٹل کے کمرے میں چھوڑ کر ری یونین کے لیے آئی تھیں۔
بہت دیر تک پرانے دنوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ کہنے لگیں کہ میں نے اب تک آپ کا دیا ہوا پاکستانی ڈریس اپنی پرانی چیزوں کے ساتھ سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ جب کبھی پرانے دن یاد آتے ہیں تو وہ پرانی یادگاریں نکال کر دیکھتی ہوں۔ پھر ہنستے ہوئے کہا : " میں وہ کپڑے اس ری یونین میں پہن کر آنا چاہتی تھی لیکن اب وہ مجھے بہت تنگ ہو چکے ہیں۔"
پھر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں: " لیکن آپ تو ابھی تک اسی طرح پتلے دبلے ہیں۔" مجھے مسکرانا پڑا۔ انہوں نے پوچھا : "کیا وہ ننھے منے سے مٹی کے برتن یاد ہیں آپ کو؟"
" ہاں کیوں نہیں ۔"میں نے بتایا کہ شادی کے بعد بھی ایک عرصے تک وہ برتن میری کتابوں کی شیلف میں سجے رہے۔ جب بیوی کو پتہ چلا کہ یہ کسی جونیئر ڈاکٹر کا ارجنٹینا سے لایا ہوا تحفہ ہے تو پھر اس نے ان برتنوں کو کبھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا۔ میرا پہلا بیٹا تین چار سال کا ہوا تو وہ برتن کہیں غائب ہوگئے۔ جب میں نے شیلف پر ان کی غیر موجودگی نوٹ کی اور پوچھا تو بتایا کہ بچے نے کہیں ادھر ادھر کر دیے ہیں۔ میں سمجھ گیا۔ میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ چار سالہ بچے کا ہاتھ پانچ فٹ اونچے شیلف تک کیسے پہنچا۔
" بیچاری بیویاں!" وہ سن کر بولیں ۔ پھر ہنستے ہنستے کہنے لگیں۔ "ہم عورتیں دوسری عورتوں سے بہت جیلس ہوتی ہیں۔" جواباً مجھے بھی ہنسنا پڑا ۔ میں نے سیل فون پر اپنے بیوی بچوں کی تصاویر انہیں دکھائیں ۔ جواباً انہوں نے اپنی بلی سنڈریلا کی تصویروں کی بہت شوق اور محبت سے نمائش کی۔ ڈنر کے لئے بوفے کی طرف گئے تو متعدد اقسام کے رنگ برنگ کھانوں کے علاوہ متعدد اقسام کے سینڈوچ بھی سجے ہوئے تھے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیا لیا جائے انہوں نے ٹیونا سینڈوچ کا ایک تکونا نصف اپنی پلیٹ میں رکھا اور دوسرا نصف اٹھا کر میری پلیٹ پر رکھ دیا۔ میں چونک کر مڑا تو ان کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ تھی۔ انہوں نے استفہامیہ نظروں سے مجھے اس طرح دیکھا جیسے مجھ سے کسی بات کی توقع ہو۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا " ہاں ، مجھے یاد ہے!" ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ چہرے پر جیسے اطمینان کا رنگ پھیل گیا ہو۔ کھانے کے بعد چائے کافی کا دور چلا۔ میں نے ایک کپ اپنے لیے بھرا اور دوسرا انہیں دیتے ہوئے کہا۔ "یاد ہے وہ دن جب آپ نے مجھے سیاہ کافی سے متعارف کروایا تھا ؟"
مسکرا کر بولیں: "اور آپ نے مجھے ایک پارسا سے!"
" مجھے آپ کی مدد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ، سو پارسائی میرا فرض تھا۔" میں نے جواباً کہا تو گردن ہلاتے ہوئے شرارت بھرے لہجے میں بولیں: " لیکن آپ اُس روز بالکل بھی مددگار ثابت نہیں ہوئے۔"
جب میں نے برجستہ کہا کہ پروفیسر ایبرائٹ نے صرف بیرونِ خانہ مدد کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ اندرونِ خانہ معاملات میرے دائرۂ کار سے باہر تھے۔ تو اس پر وہ زور سے ہنس پڑیں۔ ان کی اس ہنسی میں مجھے اسی ترنم کی گونج سنائی دی جو پچیس سال پہلے کانوں میں جلترنگ بجاتا تھا۔ وہ بولیں: "آپ ابھی تک ویسے ہی ہیں۔ ذرا نہیں بدلے۔" پھر کچھ لمحے خاموش رہیں اور دھیمے سے لہجے میں بولیں: " آج بھی کبھی کبھی بہت یاد آتے ہیں مجھے وہ دن!"۔ میں چپ رہا۔ کیا کہتا۔
ری یونین کے اختتام پر شرکا کے درمیان پھر وہی خدا حافظ کی الوداعی رسومات دہرائی جانے لگیں۔ اس بار سیل فون کیمرے اپنی جگمگاہٹ دکھا رہے تھے۔ میں نے سوچا کیا فائدہ تصویریں لینے کا۔ بعد میں یہ یادیں اور تنگ کرتی رہیں گی۔ لیکن ماریا نے بیگ سے اپنا سیل فون نکال لیا اور بولیں: " اب نجانے پھر کب ملاقات ہو گی۔ ہو گی بھی یا نہیں ؟ کسے معلوم!" یہ کہہ کر وہ میرے برابر کھڑی ہوئیں اور ہاتھ بڑھا کر ایک سیلفی لے لی۔ میں انہیں پارکنگ لاٹ میں ان کی کار تک چھوڑنے آیا۔ کار میں بیٹھنے سے پہلے وہ بولیں: " یاد ہے وہ آپ کی کتارا!"۔ میں نے کہا غربت کے دنوں کی اس ساتھی کو کیسے بھول سکتا ہوں۔ بولیں "ہاں ۔ واقعی بے سرو سامانی کے وہ دن بہت اچھے تھے!" ان کی آواز میں کرب کی ایک لہر سی محسوس ہوئی۔ میں نے کہا ماریا اپنا خیال رکھنا۔ کہنے لگیں: " فکر مت کیجیے۔ سنڈریلا میرے ساتھ ہے۔ وہ مجھے بہلائے رکھتی ہے۔" پھر انہوں نے کار کا شیشہ اوپر کرتے ہوئےایکسیلیٹر پر پاؤں رکھ دیا۔ میں ان کے پارکنگ لاٹ سے باہر نکلنے تک وہیں کھڑا ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کہتا رہا۔ ڈیٹرائیٹ کی سڑکوں پر ڈھلتی شام کا ملگجا آہستہ آہستہ رات کی چادر اوڑھنے لگا تھا۔ دل میں ایک بے نام سی کیفیت پھیلنے لگی تھی ۔اگلی صبح گھر واپس جانے کے لیے میری فلائٹ تھی۔ اُس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ پچیس سال پہلے کے واقعات ایک فلم کی طرح تصور کے پردے پر جھلکتے رہے۔ زندگی کیسا عجیب سفر ہے ! کیسے کیسے موڑ آتے ہیں اس میں۔ کتنے لوگ راستے میں ملتے ہیں اور بچھڑ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ دور جا کر بھی پاس رہتے ہیں۔ جیسے کبھی بچھڑے ہی نہ ہوں ،جیسے ہر سفر میں ساتھ ساتھ چلتے رہے ہوں۔ چپ چاپ ، قدم بہ قدم ، اپنے ہی سائے کی طرح !
کیسا عجیب سفر ہے زندگی!
٭٭٭٭٭٭٭٭
رات گئے اس وقت میں اپنی اسٹڈی کے ایک گوشے میں بیٹھا یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو مجھے تیز سیاہ کافی کی ایک مانوس مہک کمرے کی فضا میں ہر سو پھیلتی محسوس ہو رہی ہے۔ اگرچہ ہر طرف گہری خاموشی طاری ہے لیکن تصور میں کسی مترنم ہنسی کا ایک جلترنگ سا بج اٹھا ہے ۔ میرے ہونٹوں پر خود بخود ایک مسکان پھیلنے لگی ہے جیسے کسی نے پھولوں کے رنگ کی ، خوشبو جیسی کوئی لطیف سی بات کہہ دی ہو! جیسے سارا ماحول کسی کے ساتھ مسکرانے لگا ہو ۔ لیکن یہ الگ بات کہ آنکھیں اور قلم کچھ آبدیدہ سے ہو چلے ہیں۔
یادش بخیر !
شب بخیر!