توہین رسالت قانون، اصل خرابی کہاں

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یوں تو آج کل توہین رسالت، ختم نبوت، اقلیتوں کے حقوق وغیرہ پر بہت باتیں اور جگہ جگہ بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے لیکن 17 ستمبر 2009ء کو روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے گورنر پنجاب کے بیان "توہین رسالت کا قانون ختم ہونا چاہیے" نے مجھ جیسے عام شہری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج ہم یہاں اسلام میں توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے بات نہیں کریں گے بلکہ عمومی جائزہ لیں گے کیونکہ اگر اسلامی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو اس کے لئے علم کا معیار بھی کافی بلند ہونا چاہے اور ویسے بھی یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے اور اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوئے ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے آج ہم عمومی جائزہ ہی لیتے ہیں۔
پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔ قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں۔ ایک تو یہ سیدھا سیدھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ۔۔۔
ایسا ہی ایک بیان ہمارے گورنر صاحب بھی دے چکے ہیں جس کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم پر ایسے حکمران بیٹھے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ دنیا کا کوئی ملک، کوئی قانون نبی تو دور کی بات ایک عام انسان کی توہین کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تو اور کسی مجرم کو اس کے جرم کی سزا کے علاوہ مزید کوئی تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور ایک ہمارے گورنر صاحب ہیں جو توہین رسالت کے قانون کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔ ہاں یہاں یہ بات یاد رہے کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی اور پارلیمنٹ وغیرہ اسلامی نقطہ نظر سے ضرور بحث کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی کر سکتی ہے لیکن یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ توہین رسالت کا قانون ختم ہو جائے۔ ذرا سوچئیے دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبریا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ مسلمانوں کو ایک طرف کر کے فرض کریں اگر کوئی ہندؤ یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے؟ اگر کوئی مسلمان ہندؤں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندؤں یہ برداشت کریں گے؟ ہر گز نہیں کریں گے اور کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو۔ کسی کی بھی توہین قابل قبول ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔
فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہو گیں کہ پوری دنیا کا معاشراتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا۔ یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے۔ میں کوئی قانون دان تو نہیں لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ۔ اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں۔ میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے؟ انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے؟
میری گورنر صاحب اور ہر اس بندے سے گذارش ہے جو خودکو "لبرل" ظاہر کرنے کے لئے پتہ نہیں کیا کیا بیان دے جاتے ہیں کہ جناب ذرا سوچئیے کیا اس قانون کو ختم کرنے سے معاشرے میں فساد برپا نہیں ہو گا؟ باقی اگر آپ سے انتظامی امور نہیں چلائے جاتے اور آپ کے دور حکومت میں توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو برائے مہربانی اپنی کمی کو چھپانے کے لئے قانون کو ختم کرنے کے بیان نہ دیں۔ ویسے یہ تو آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ اصل خرابی کہاں ہے۔۔۔

نوٹ:- یہ کوئی فتوی نہیں بلکہ میرے خیالات و نظریات ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کو ان سے مکمل اتفاق ہو لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بحث برائے تعمیر کی بجائے بحث برائے بحث شروع کر دیں۔
 

arifkarim

معطل
بہت خوب۔ میرے نزدیک اصل خرابی ہمارے دماغوں میں ہے۔ جب اسلام اور سیاست آپس میں ملتے ہیں تو اسی قسم کے قوانین بنانا اور پاس کرانا بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے۔۔۔۔
یہی حال دوسری جنگ عظیم سے پہلے یورپ میں ہوا تھا جب جرمنی اور اٹلی میں سیاسی قوتیں ، معاشی قوتوں سے جاملیں اور پورا ملک ایک ہی ڈگر پر سوار ہوکر ایک فیشسٹ اسٹیٹ بن گیا۔ بالکل ویسے ہی ہمارا ملک ایک اسلامی ملک سے فیشسٹ اسلامی ملک بن چکا ہے جہاں مخالف رائے کی گردن کاٹ ڈالنا روز مرہ کا معمول ہے۔ پہلے قادیانیوں کی گردنیں کٹتی تھیں۔ آجکل عیسائیوں کی، کل کلاں کو ہندؤں کی باری آجائے گی جب تک ایک ہی "قسم" کے مسلمان باقی نہیں رہ جاتے ! :)
 

dxbgraphics

محفلین
لیکن یہ بات عقید ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے ہر قادیانی توہین رسالت کے زمرے میں آتاہے۔ چاہے اس بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے
 

دوست

محفلین
بالکل یہ قانون کا استعمال ہے جو غلط ہے نا کہ قانون اور ہمیں نظام کو درست کرنا ہوگا۔ یہاں‌ تو مسلمانوں کو نہیں بخشا جاتا۔ مسلمان مسلمان پر الزام لگا کر ،کہ اس نے فلاں ہستی کی شان میں گستاخی کی یا قرآن کریم کی توہین کی، اس کو پھانسی لگوا دیتا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے ہی کوئی مجاہد اس کو "واصل جہنم" کرکے خود "جنت" کی راہ میں پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ بات ہمارے حد سے زیادہ جذباتی پن کی ہے۔ کسی بھی بات کی تحقیق کیے بغیر ہم بس نعرہ لگا کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ بات کی تحقیق نہ کرنا انتہائی غیر اسلامی رویہ ہے جس سے شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔
 

زیک

مسافر
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ توہین رسالت کا قانون اسلامی ہے یا نہیں بلکہ ایک pragmatic مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ بلال یہ مانتے ہیں کہ اس قانون کا کافی غلط استعمال ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کے تحت جن لوگوں کو سزا دی گئ ہے ان میں کیا ایک بڑا تناسب ان لوگوں کا تھا جو بےگناہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قانون مجرموں کی بجائے بےگناہوں کو سزا دے رہا ہے۔ اس صورت میں قانون کے استعمال کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس دوران کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دی جائیں تاکہ ہم کسی بےگناہ کو نہ ماریں؟

کچھ ایسی ہی سوچ میری یہاں امریکہ میں سزائے موت سے متعلق ہے۔ میں قتل کے لئے سزائے موت کا مخالف نہیں مگر سالہا سال سے یہ ثبوت مل رہے ہیں کہ کئ بےگناہ لوگوں کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایس صورتحال میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ سزا کو معطل کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بات غلط ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مذہب سے متعلق blasphemy laws موجود ہیں اور ان پر سزائیں ہوتی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
لیکن یہ بات عقید ہے کہ عقیدے کے لحاظ سے ہر قادیانی توہین رسالت کے زمرے میں آتاہے۔ چاہے اس بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے
محترم ، میرے خیال میں آپ شاید عربی زبان میں بولا جانے والا لفظ "اکید" لکھنا چاہ رہے تھے۔
قادیانیوں کے بارے میں ہونے والی اکثر بحوث میں ہمارے پاس بنیادی معلومات کی کمی ہوتی ہے جبکہ یہ معاملہ پاکستان میں کافی حساس ہے۔ اس لئیے اس پہ بحث اہل علم کو ہی کرنا چاہئیے نا کہ ہم اسے اپنے کتھارسس کا ذریعہ بنائیں۔
 

محمداسد

محفلین
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ توہین رسالت کا قانون اسلامی ہے یا نہیں بلکہ ایک pragmatic مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ بلال یہ مانتے ہیں کہ اس قانون کا کافی غلط استعمال ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کے تحت جن لوگوں کو سزا دی گئ ہے ان میں کیا ایک بڑا تناسب ان لوگوں کا تھا جو بےگناہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قانون مجرموں کی بجائے بےگناہوں کو سزا دے رہا ہے۔ اس صورت میں قانون کے استعمال کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس دوران کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دی جائیں تاکہ ہم کسی بےگناہ کو نہ ماریں؟

کچھ ایسی ہی سوچ میری یہاں امریکہ میں سزائے موت سے متعلق ہے۔ میں قتل کے لئے سزائے موت کا مخالف نہیں مگر سالہا سال سے یہ ثبوت مل رہے ہیں کہ کئ بےگناہ لوگوں کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایس صورتحال میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ سزا کو معطل کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بات غلط ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مذہب سے متعلق blasphemy laws موجود ہیں اور ان پر سزائیں ہوتی ہیں۔

جہاں تک میرے علم میں ہے، توہین رسالت قانون کے نفاظ کے بعد سے اب تک کسی بھی شخص کو اس قانون کے تحت سزا نہیں ملی۔ یا یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اس قانون کے تحت کسی کو سزا مل نہ سکی۔ کیوں کہ جب بھی کسی فرد پر توہین رسالت کا الزام عائد کیا گیا اسے موقع پر یا پھر جیل ہی میں موت کا پروانہ مل گیا۔ لیکن اس کی وجہ اس قانون میں نقص ہر گز نہیں بلکہ نقص دراصل قانون نافظ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کی لمبی لمبی کاروائیوں کا ہے۔ اس لیے اس چیز کو بہانہ بناکر قانون توہین رسالت میں ترمیم یا ختم کرنے کی باتیں سو فیصد غلط ہیں۔ ممکن ہے کسی اور ملک میں اس طرح کا قانون نہ ہو مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر معاملات پر کی جانے والی تنقید مغربی ممالک کو انتہائی گراں گزرتی ہے نیز ملکی معاملات پر بھی انتہائی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں احمدی نژاد کی جانب سے ہولوکاسٹ پر تنقید کو یورپ میں نہ صرف سنجیدگی سے لیا گیا بلکہ اس کے خلاف سخت غصہ کا بھی اظہار کیا گیا۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ توہین رسالت کے خلاف اُن سیاسی رہنمائوں کی زبانیں چل رہی ہیں جو کہ موجودہ حالات میں فرد واحد، سابق و حالیہ ملکی صدور کی چمچہ گیری میں ان کے خلاف کہا گیا کوئی جملہ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں کو توہین رسالت کا کوئی پاس نہیں مگر اپنے لیڈران کی توہین پر لوگوں کی زبانیں حلق سے کھینچ نکالیں، چاہے بولنے والا اقلیت سے ہو یا اکثریت سے ہو۔
 

arifkarim

معطل
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ توہین رسالت کا قانون اسلامی ہے یا نہیں بلکہ ایک pragmatic مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ بلال یہ مانتے ہیں کہ اس قانون کا کافی غلط استعمال ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کے تحت جن لوگوں کو سزا دی گئ ہے ان میں کیا ایک بڑا تناسب ان لوگوں کا تھا جو بےگناہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قانون مجرموں کی بجائے بےگناہوں کو سزا دے رہا ہے۔ اس صورت میں قانون کے استعمال کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس دوران کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دی جائیں تاکہ ہم کسی بےگناہ کو نہ ماریں؟

کچھ ایسی ہی سوچ میری یہاں امریکہ میں سزائے موت سے متعلق ہے۔ میں قتل کے لئے سزائے موت کا مخالف نہیں مگر سالہا سال سے یہ ثبوت مل رہے ہیں کہ کئ بےگناہ لوگوں کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایس صورتحال میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ سزا کو معطل کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بات غلط ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مذہب سے متعلق blasphemy laws موجود ہیں اور ان پر سزائیں ہوتی ہیں۔

زیک یہ سچ ہے کہ "سزائے موت" ایک بہت پیچیدہ قانون ہے۔ شاید اسی وجہ سے یورپ کے پیشتر ممالک میں اسکا استعمال ممنوع ہے۔ یہاں ناروے کی ماڈرن تاریخ میں‌"سزائے موت یا پھانسی" صرف انتہائی قسم کی غداری سرزد کرنے پر دی گئی۔ اور وہ بھی دوسری جنگ عظیم کے گنتی کے "عظیم" غداروں کو۔ الغرض عام غداروں کو بھی معمولی سزا دیکر معاف کر دیا گیا تھا۔ ۔۔۔ البتہ آجکل کے حالات میں بعض پارٹیز یہ ایشو اٹھاتی ہیں کہ یہ قوانین حد سے زیادہ نرم ہو گئے ہیں اور سنگین مجرموں کو بہت چھوٹ حاصل ہے ( یہاں مجرمین چھٹی لیکر گھر جاسکتے ہیں، کچھ عرصہ کیلئے :grin:)۔ لیکن دوسری جانب یہ بات بھی سچ ہے کہ قوانین نرم رکھنے سے اور اسلحہ کی پابندی کے بعد یہاں پر کرائم کی شرح بہت کم ہے۔ یاد رہے کہ زیادہ تر جرائم غیر ملکی افراد سر انجام دیتے ہیں، غربت کی وجہ سے یا ماحول کی وجہ سے۔ جسکے بعد انکو فوراً ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ اسکے برعکس آپکے محبوب امریکہ میں اسلحہ کی اجازت اور سخت ترین سزا والے قوانین کی وجہ سے جرائم اور قیدیوں کی تعداد آسمان سے باتیں کرتی ہے!
 

بلال

محفلین
آپ دونوں ہر موضوع کو پٹڑی سے اتارنے سے گریز کریں۔ شکریہ۔

آپ کے اس مراسلے پر میں آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں۔ وہ اس لئے کہ آج کل ہمارے محفلین کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے کہ ہر بات کو یوں موڑ کر موضوع سے دور لے جاتے ہیں کہ موضوع شروع کرنے والا خود بھول جاتا ہے کہ اس نے کیا موضوع اور کس لئے شروع کیا تھا۔

بالکل یہ قانون کا استعمال ہے جو غلط ہے نا کہ قانون اور ہمیں نظام کو درست کرنا ہوگا۔ یہاں‌ تو مسلمانوں کو نہیں بخشا جاتا۔ مسلمان مسلمان پر الزام لگا کر ،کہ اس نے فلاں ہستی کی شان میں گستاخی کی یا قرآن کریم کی توہین کی، اس کو پھانسی لگوا دیتا ہے۔ بلکہ اس سے پہلے ہی کوئی مجاہد اس کو "واصل جہنم" کرکے خود "جنت" کی راہ میں پھانسی چڑھ جاتا ہے۔ بات ہمارے حد سے زیادہ جذباتی پن کی ہے۔ کسی بھی بات کی تحقیق کیے بغیر ہم بس نعرہ لگا کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ بات کی تحقیق نہ کرنا انتہائی غیر اسلامی رویہ ہے جس سے شدت کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔

شاکر بھائی میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ یقینا ہمیں نظام کو درست کرنا ہو گا اور جذباتی پن کو ایک طرف کر کے تحقیق کرنا ہو گی۔۔۔
باقی پاکستان میں آج کل جو چل رہا ہے ان حالات میں توہین رسالت یا کسی بھی ملزم کو ماوائے عدالت قتل کرنے والے کو میں سیدھا سیدھا قاتل کہوں گا چاہے وہ قاتل فانیش مسیح کا ہو یا کسی مسلمان کا ہو۔۔۔
 

بلال

محفلین
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ توہین رسالت کا قانون اسلامی ہے یا نہیں بلکہ ایک pragmatic مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ بلال یہ مانتے ہیں کہ اس قانون کا کافی غلط استعمال ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کے تحت جن لوگوں کو سزا دی گئ ہے ان میں کیا ایک بڑا تناسب ان لوگوں کا تھا جو بےگناہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قانون مجرموں کی بجائے بےگناہوں کو سزا دے رہا ہے۔ اس صورت میں قانون کے استعمال کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس دوران کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دی جائیں تاکہ ہم کسی بےگناہ کو نہ ماریں؟

کچھ ایسی ہی سوچ میری یہاں امریکہ میں سزائے موت سے متعلق ہے۔ میں قتل کے لئے سزائے موت کا مخالف نہیں مگر سالہا سال سے یہ ثبوت مل رہے ہیں کہ کئ بےگناہ لوگوں کو موت کی سزا ہو جاتی ہے۔ ایس صورتحال میں احتیاط کا تقاضا ہے کہ سزا کو معطل کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ یہ بات غلط ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں مذہب سے متعلق blasphemy laws موجود ہیں اور ان پر سزائیں ہوتی ہیں۔


سب سے پہلے تو زیک بھائی یہ کیا بات ہوئی کہ آپ اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے۔ جناب میں نے لکھا کہ اختلاف کیا جائے مگر بحث برائے بحث کی بجائے بحث برائے تعمیر کی جائے۔ اس لئے جناب آپ بحث برائے تعمیر کریں جیسے کہ آپ نے اپنے مراسلے میں کی ہے تاکہ میری راہنمائی ہو سکے۔۔۔
باقی آپ کا خیال بالکل درست ہے میں مانتا ہوں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ قانون کے غلط استعمال سے میری مراد یہ ہے کہ بعض فرقے ایک دوسرے کی دشمنی میں ایک دوسرے کو اس کیس میں پھنسوا دیتے ہیں۔ یہ تو یقینا غلط بات ہے۔
یہاں توہین رسالت کے ملزم کو عدالت تک پہنچنے دیا جائے تو پتہ چلے کہ وہ مجرم ہے بھی یا نہیں یعنی اس نے توہین رسالت کی بھی ہے یا نہیں؟ یہاں تو ملزم کو ہی مجرم قرار دے کر ماورائے عدالت قتل کر کے جنت کا ٹکٹ حاصل کیا جاتا ہے۔ مسئلہ قانون کا نہیں بلکہ جیسا کہ شاکر بھائی نے کہا ویسے ہی میں بھی کہتا ہوں کہ مسئلہ ہمارے جذباتی پن اور بے وقوفی کا ہے۔ اس کو ختم کرنا ہو گا نہ کہ قانون کو۔
آپ نے کہا کہ "اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کے تحت جن لوگوں کو سزا دی گئ ہے ان میں کیا ایک بڑا تناسب ان لوگوں کا تھا جو بےگناہ تھے؟ اگر ایسا ہے تو یہ قانون مجرموں کی بجائے بےگناہوں کو سزا دے رہا ہے۔ اس صورت میں قانون کے استعمال کو بہتر کیا جا سکتا ہے مگر اس دوران کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دی جائیں تاکہ ہم کسی بےگناہ کو نہ ماریں؟" زیک بھائی سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا توہین رسالت قانون کے تحت کسی کو سزا ہوئی؟ اگر ہوئی تو ظاہر ہے سزا عدالت نے جرم ثابت ہونے پر دی ہو گی۔ باقی جو ماورائے عدالت قتل ہوتے ہیں وہ اس قانون کے تحت نہیں ہوتے کیونکہ یہ قانون گورنمنٹ آف پاکستان کا بنایا ہوا ہے اور گورنمنٹ آف پاکستان کے قانون کے تحت پاکستان کی عدالتیں ہی سزا دیتی ہیں۔ عام شہری کسی کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں‌رکھتا اور اگر کوئی عام شہری ماورائے عدالت سزا دے تو پاکستان کے قانون کے مطابق ماورائے عدالت سزا دینے والا خود مجرم ہے۔
اس بارے میں آپ کو دو واقعات سناتا ہوں جس سے بات کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔۔۔
پہلا واقعہ
ہوا کچھ یوں کہ ایک فرقہ کے بندے نے مسجد میں تقریر کے دوران نبی پاکﷺ کے بارے میں کچھ کہا۔ دوسرے فرقے نے اس پر توہین رسالت کا کیس درج کروا دیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچا۔ سیشن کورٹ میں کچھ تاریخیں ہونے کے بعد سیشن کورٹ نے کیس دہشت گردی کی عدالت میں بھیج دیا۔ کیس چلتا رہا اور آخر کچھ عرصہ بعد عدالت نے ملزم کو رہا کر دیا۔ اس دوران ملزم کی ضمانت نہ ہوئی اور وہ قید رہا۔ رہا ہونے کے بعد عام شہری کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔
لیکن مجھے اس پر ایک افسوس یہ ہے کہ اس نے کیس کروانے والوں پر ہتک عزت کا دعوی کیوں نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو آئندہ کوئی کسی پر کیس کروانے سے پہلے سوچتا۔ اس واقعہ سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو بات صاف ہو گئی کہ آخر معاملہ کیا ہے اور توہین رسالت کے قانون نے کسی بے گناہ کو سزا نہیں دی۔
دوسرا واقعہ
کسی نے کوئی کتاب لکھی۔ کتاب پرنٹنگ کے لئے ٹائیپ ہونے اور پھر پریس پر گئی۔ کتاب چھپ کر جب آئی تو کچھ لوگوں نے کتاب لکھنے والے اور باقی متعلقہ لوگوں پر توہین رسالت کا کیس کروا دیا۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن کتاب کی ٹائیپنگ کرنے والا لڑکا پکڑ لیا گیا۔ وہ کھاریاں کے ایک تھانے میں بند تھا۔ ایک دن ایک پولیس والے نے اسے تھانے میں ہی قتل کر دیا۔ یہاں ماورائے عدالت قتل ہوا۔ توہین رسالت قانون تو تب سزا دیتا جب کیس عدالت میں جاتا اور عدالت توہین رسالت قانون کے تحت سزا دیتی۔
ان دونوں واقعات میں کچھ باتیں سامنے آتیں ہیں۔ دونوں واقعات میں کیس توہین رسالت کا تھا۔ لیکن دونوں کا انجام مختلف ہے۔ پہلے واقعہ میں ملزم عدالت تک پہنچا، فیصلہ ہوا معاملہ حل ہو گیا یعنی کیس توہین رسالت قانون تک پہنچا اور توہین رسالت قانون کے تحت ہی ملزم کو بے گناہ پایا گیا اور ملزم کو باعزت بری کیا گیا۔ جبکہ دوسرے میں ماورائے عدالت قتل ہوا جو کہ یقینا سیدھا سیدھا قتل تھا۔ کیس عدالت تک پہنچا ہی نہیں، توہین عدالت قانون کے تحت کیس چلا ہی نہیں۔ تو پھر توہین رسالت قانون کا کیا قصور؟ یہاں اب آپ ہی بتائیں مسئلہ کس چیز کا ہے؟ کیا توہین رسالت قانون کا ہے یا پھر ہمارے جنون اور بے وقوفی کا ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ توہین رسالت قانون کے تحت توہین کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم ہے اسی لئے لوگ قتل کر دیتے ہیں تو اس پر سب سے پہلی بات میں یہ کہوں گا کہ توہین رسالت کا قانون جنہوں نے یعنی گورنمنٹ آف پاکستان نے بنایا ہے انہوں نے یہ بھی قانون بنایا ہے کہ ماورائے عدالت سزا نہیں دی جا سکتی۔ اب لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود سزا دیتے ہیں تو اس میں قانون کا کیا قصور؟ قانون کو ہاتھ میں لینے سے روکنا تو انتظامی اداروں کا کام ہے۔ دوسرا قتل کی سزا موت ہے جو کہ صرف عدالت دے سکتی ہے لیکن یہاں تو لوگ معاملہ عدالت تک نہیں لے کر جاتے بلکہ خود قتل کر دیتے ہیں جو کہ غلط کرتے ہیں۔ تو کیا اب قتل کا قانون بھی ختم کر دیا جائے۔
ہاں جیسا کہ آپ نے امریکہ میں سزائے موت کے حوالے سے بات کی کہ بے گناہوں کو سزائیں ہو رہی ہیں ویسے ہی اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت عدالتوں میں بے گناہوں کو سزائیں ہونی شروع ہو جائیں تو یقینا احتیاط کا تقاضا یہی ہو گا اس معاملے کو روکا جائے۔ قانون کو عارضی طور پر معطل کیا جائے یا مل بیٹھ کر کوئی بھی ایسا لائحہ عمل بنایا جائے جس سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔
لیکن میرے محترم بھائی ہمارا المیہ یہ نہیں کہ اس قانون کے تحت بے گناہوں کو سزائیں ہو رہی ہیں بلکہ ہمارا المیہ ماورائے عدالت قتل ہیں۔ جو ہمارے جنونی اور بے وقوف لوگ کرتے ہیں۔ ہمیں ماورائے عدالت قتل کو روکنا ہو گا۔ ہمیں لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہو گا کہ کوئی بھی عام شہری کسی دوسرے کو سزا نہیں دے سکتا چاہے دوسرا مجرم ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ کام صرف اور صرف عدالت کر سکتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ شعور بھی بیدار کرنا ہو گا کہ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتیں ٹھیک نہیں، نظام حکومت ٹھیک نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود سزا دو بلکہ خود آگے بڑھو، تعلیم حاصل کرو، جج بنو، نظامِ حکومت سنبھالو اور نظام کو ٹھیک کرو نہ کہ گلی گلی خود لوگوں کو سزائیں دیتے پھرو (پاکستانی طالبان کی طرح)۔۔۔
آپ کی آخری بات مذہب کے متعلق قانون والی تو شائد میں اپنی تحریر میں یہ بات سمجھا نہیں سکا جس کی وجہ سے یہاں بھی اور میرے بلاگ پر بھی کچھ ایسا ہی کہا گیا ہے۔ میرے محترم میں نے لکھا تھا "دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔" پہلی بات کہ میں نے مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی "توہین" کی بات تھی نہ کہ شخصیات اور رسومات سے اختلاف کی اور دوسرا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں‌کسی کی مذہبی شخصیات یا مذہبی رسومات کی توہین اجازت موجود ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی سرعام اسلام، عیسائیت یا کسی بھی مذہب کو گالیاں نکالتا پھرے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو سب سے پہلے میں اپنے وہ جملے واپس لیتا ہوں غلط معلومات کی وجہ آپ لوگوں کو اگر کوئی تکلیف ہوئی ہو تو دل سے معذرت کرتا ہوں اور ساتھ میں یہ کہتا ہوں یہ کیا بات ہوئی، یہ کیسی انسانیت ہوئی، انسانیت کا شور مچانے والوں کو میں یہ پوچھتا ہوں کہ ایک عام انسان کا دل دکھانے یا بے عزتی کرنے پر قانون حرکت میں آ جائے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کا دل دکھانے اور عقیدے کو گالیاں دینے پر قانون خاموش رہے۔۔۔ ویسے یہ بھی یاد رکھئیے میں نے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ "نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔"
اتنے لمبے مراسلے پر مجھے خود حیرانی ہو رہی ہے۔ الفاظ و جملے کم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن شاید میں کم الفاظ میں بات واضح نہیں کر پا رہا تھا۔
 

گرائیں

محفلین
زیک کیا یہی نا انصافی نہیں ہے کہ مغرب میں تو پیغمبروں کی توہین پر کچھ نہ کہا جائے ارو ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ کہنے پر جیل ہو جائے؟
میرا خیال ہے کہ مغرب کی اندھادھند تقلید کی بجائے، جیسا کہ بلال نے کہا، بیٹھ کر ایسا طریقہ نکالنے کے بارے میں سوچا جائے کہ توہین رسالت کا ملزم عوام کے ہتھے چڑھنے کی بجائے ایک محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد اسے قرار وققعی سزا دی جائے۔ اگر وہ بے گناہ نکلے تو الزام لگانے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
 

زیک

مسافر
آپ کی آخری بات مذہب کے متعلق قانون والی تو شائد میں اپنی تحریر میں یہ بات سمجھا نہیں سکا جس کی وجہ سے یہاں بھی اور میرے بلاگ پر بھی کچھ ایسا ہی کہا گیا ہے۔ میرے محترم میں نے لکھا تھا "دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔" پہلی بات کہ میں نے مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی "توہین" کی بات تھی نہ کہ شخصیات اور رسومات سے اختلاف کی اور دوسرا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں‌کسی کی مذہبی شخصیات یا مذہبی رسومات کی توہین اجازت موجود ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی سرعام اسلام، عیسائیت یا کسی بھی مذہب کو گالیاں نکالتا پھرے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو سب سے پہلے میں اپنے وہ جملے واپس لیتا ہوں غلط معلومات کی وجہ آپ لوگوں کو اگر کوئی تکلیف ہوئی ہو تو دل سے معذرت کرتا ہوں اور ساتھ میں یہ کہتا ہوں یہ کیا بات ہوئی، یہ کیسی انسانیت ہوئی، انسانیت کا شور مچانے والوں کو میں یہ پوچھتا ہوں کہ ایک عام انسان کا دل دکھانے یا بے عزتی کرنے پر قانون حرکت میں آ جائے اور ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں کا دل دکھانے اور عقیدے کو گالیاں دینے پر قانون خاموش رہے۔۔۔ ویسے یہ بھی یاد رکھئیے میں نے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھا تھا کہ "نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے۔"
اتنے لمبے مراسلے پر مجھے خود حیرانی ہو رہی ہے۔ الفاظ و جملے کم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن شاید میں کم الفاظ میں بات واضح نہیں کر پا رہا تھا۔

جی ہاں امریکہ میں مذہبی توہین کے خلاف قانون نہیں ہے۔ بلکہ شاید کافی سال پہلے کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ایسا قانون اور اس کی سزا مذہبی آزادی کے قانون کے خلاف ہو گا۔

زیک کیا یہی نا انصافی نہیں ہے کہ مغرب میں تو پیغمبروں کی توہین پر کچھ نہ کہا جائے ارو ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ کہنے پر جیل ہو جائے؟
میرا خیال ہے کہ مغرب کی اندھادھند تقلید کی بجائے، جیسا کہ بلال نے کہا، بیٹھ کر ایسا طریقہ نکالنے کے بارے میں سوچا جائے کہ توہین رسالت کا ملزم عوام کے ہتھے چڑھنے کی بجائے ایک محفوظ جگہ پہنچا دیا جائے اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد اسے قرار وققعی سزا دی جائے۔ اگر وہ بے گناہ نکلے تو الزام لگانے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

توہین رسالت سے بات ہولوکاسٹ تک معلوم نہیں کیوں پہنچ جاتی ہے۔ یہاں امریکہ میں ہولوکاسٹ کا انکار کرنے والوں یا ہولوکاسٹ کو اچھا سمجھنے والوں کے خلاف کوئ قانون نہیں ہے۔
 

arifkarim

معطل
واقعی، ہولوکاسٹ کا توہین رسالت سے کیا جوڑ ہے؟
شاید یہ دونوں دنیاؤں کی دکھتی رگیں ہیں، جن پر پاؤں رکھتے ہی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے! :grin:
 

گرائیں

محفلین
ہولوکاسٹ کا توہین رسالت سے جوڑ اس لئے بنتا ہے کہ ہولوکاسٹ ایسا موضوع ہے جس پر کئی " مہذب " ممالک میں اختلافی بات کرنے کی گنجائش نہیں۔ اور آزادی اظہار کی آڑ لے کر انھی ممالک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔

ایک عام یہودی کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے؟
 

arifkarim

معطل
ہولوکاسٹ کا توہین رسالت سے جوڑ اس لئے بنتا ہے کہ ہولوکاسٹ ایسا موضوع ہے جس پر کئی " مہذب " ممالک میں اختلافی بات کرنے کی گنجائش نہیں۔ اور آزادی اظہار کی آڑ لے کر انھی ممالک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔

ایک عام یہودی کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہے؟

درست۔ کیونکہ صیہونی اپنے ہولوکاسٹ کے ڈرامے کو منظر عام پر لاتا دیکھ نہیں سکتے، البتہ دوسرے مذاہب کی توہین کی کوئی پرواہ نہیں انکو۔ اسکے کہتے ہیں ڈبل موریلٹی!:grin:
 
بھائی لوگ اس کے بارے کیا جانتے ہیں لاعلمی میں ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہئیے کی گناہ کے متحمل ہوجائیں لیکن کیا آپ اس بات پر کچھ فرمائیں گے تو اس بات کے بارے میں کہ اگر کوئی ڈنمارک لندن نیویارک وغیرہ میں توہین رسالت ہوجائے اور قراٹان کی بے حرمتی ہوجائے تو مسلمان خاص طور پر پاکستان کے عوام کا خاص طبقہ شور برپا کردیتا ہے لیکن یہاں اسلامی جلسوں یا کوئی تہوار آجائے تو بینر قرآنی آیات کے بینر آویزاں کردئیے جاتے ہیں لیکن ان کو اتارنا بھول جاتے ہیں کیا یہ بیحرمتی کے زمرے میں نہیں آتے امتحانات میں طالب علم اپنے کپڑوں میں جوتوں میں اسلامیات اور قرآنی آیات کو چھپا کر لاتے ہیں کیا یہ بیحرمتی نہیں آبکھیں کھولیں سمجھیں اور سمجھائیں
 

شمشاد

لائبریرین
بالکل جی یہ بے حرمتی ہے، لوگوں کو اور خاص کر طالبعلموں کو ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
میں تو اپنے بچوں کو سمجھا دوں گا کہ اول تو نقل ہی نہ کریں اور اگر کرنی ہی ہے تو اسلامیات کے مضمون کی نہ کریں، پھر بھی نہ مانیں تو انہیں سمجھاؤں گا کہ جوتوں میں تو "بُوٹی" بالکل بھی نہ چھپائیں۔ بُوٹی ہی کہتے ہیں اس کاغذ کو جو نقل کرنے کے لیے طلباء امتحانی میں چھپا کر لیجاتے ہیں؟
 
لیکن یہ وہی کرتے سب کرتے ہیں جو واویلا مچاتے ہیں اور مسلمان ہونے کا شور کرتے ہیں لیکن جب آپ ہی مسلمان ہوکر یہ کریں گے تو پھر غیروں پر غصہ کرکے اپنے ہی ملک کا کیوں نقصان کرتے ہیں کیوں غریب بے چارے کی روزگاری تباہ کرتے ہو کیوں یہ غلط یہاں ہم کو یہ بحث نہیں کرنی کہ ایسا کیوں ہے توہیں رسالت کیا ہے یہاں تو یہ ہونا چاہئیے کہ جو ہم مسلمان ہوتے ہوئے کررہے ہیں اس کو کیسے روکا جائے غیر تو غیر ہیں ان کا کام ہی شرارت کرنا ہے اپنوں کو شرارت کرنے سے روکنا ہے جیسے اپنے بچے کو روکتے ہیں دوسرا بھلے کچھ ہی کرتا رہے
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھیں جی میں اپنے بچوں کا ذمہ دار ہوں اور میں نے اپنا عندیہ دے دیا ہے۔

آپ کوئی تجاویز دیں کہ کس طرح ہونا چاہیے اور کس طرح ان تجاویر پر عمل کرنا اور کروانا چاہیے۔ خالی باتیں کرنے سے تو کچھ نہیں ہونے والا۔
 
Top