کاشفی

محفلین
ترانہء اُردو
ہوگی گواہ خاکِ ہندوستاں ہماری

(اعجاز صدیقی، فرزند سیماب اکبر آبادی)
ہوگی گواہ خاکِ ہندوستاں ہماری
اس کی کیاریوں سے پھوٹی زباں ہماری

ہندو ہوں یا مسلماں، ہوں سکھ یا عیسائی
اردو زباں کے ہم ہیں، اردو زباں ہماری

مرنا بھی ساتھ اِس کے، جینا بھی ساتھ اس کے
ہم اس کے ہیں محافظ، یہ پاسباں ہماری

خسرو، کبیر و تلسی، غالب کی ہے امانت
کیا بےنشان ہوگی پیاری زباں ہماری

قند و نبات سے ہے بڑھ کر مٹھاس اِس کی
ہر دور میں رہی ہے یہ دل ستاں ہماری

اس میں ٹنکے ہوئے ہیں کتنے حسیں ستارے
قوموں کی کہکشاں ہے اردو زباں ہماری

کیوں چاہتا ہے اس کو دورِ جہاں مٹانا
ہوگی رقم لہو سے کیا داستاں ہماری

ہیں جان سے زیادہ ہم کو عزیز دونوں
ہندوستاں ہمارا، اردو زباں ہماری

وہ بھی تو ایک دن تھا، ہم میرِ کارواں تھے
تقلید کر رہا تھا ہر کارواں ہماری

ہم تو ہر اِک زباں کو دیتے ہیں پیار اپنا
پھر کس لیے مٹائے کوئی زباں ہماری

ہم ضبط کی حدوں سے آگے نکل چکے ہیں
کب تک یہ آزمائش، اے آسماں ہماری

اعجاز مل کے گائیں اردو کا سب ترانہ
گونجے فضا میں ہر سُو اردو زباں ہماری
 
Top