کاشفی

محفلین
تجلّیاتِ فروغ
(جناب محمد حنیف صاحب فروغ )

مرتے دم تم نے اگر شکل دکھائی ہوتی
کچھ مرے جینے کی صورت نکل آئی ہوتی

داورِ حشر کو کچھ اور گماں ہوجاتا
تم نے محشر میں اگر دیر لگائی ہوئی

ہوکے برہم صفت ابر رُلایا برسوں
ہنس کے بجلی دل عاشقی پہ گرائی ہوتی

دل انساں سے نکل کر وہ سماتا اس میں
عرش میں گر دل انساں کی سمائی ہوئی

لاش پر میری بناوٹ سے وہ روتے اے کاش
جھوٹی الفت ہی پس مرگ جتائی ہوئی

ساقیا جام کی تکلیف تھی کم ظرفوں کو
سب کے بدلے مجھے چلّو سے پلائی ہوتی

دل کسی رشک مہ نو سے لگاتے نہ اگر
کبھی عالم میں نہ انگشت نمائی ہوتی

دل مرا تیر ادا سے ترے ہوتا زخمی
ناوک ناز کی گر چوٹ بچائی ہوتی

کیا کروں کان تک اسکے نہیں جاتے یارب
عرش تک ہے مرے نالوں کی رسائی ہوتی

دل سے دل مل گیا اب آنکھ لڑاتے کیوں ہو؟
صلح کے بعد کسی جاہے لڑائی ہوتی

ہجر کی شب مجھے مرنے کی تمنّا تھی فروغ
کاش قسمت میں مری موت پرائی ہوتی
 
Top