بڑھتے ہوئے بچوں کے معاملات و مسائل اور ان کا حل

زیک

مسافر
بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ، شادی یہ سب قدرتی چیزیں ہیں۔ آپ ان کو مکمل طور پر نہیں روک سکتے۔ بہتر یہ ہے کہ بچوں کو باور کرائیں کہ کیا رویہ کس عمر میں مناسب ہے۔ کن چیزوں سے بچنا چاہیئے وغیرہ۔

آپ صنف مخالف سے تمام تعلق پر پابندی لگائیں گے تو بچے چھپ کر کریں گے۔ بہتر ہے کہ بچے آپ کو بتائیں کہ وہ کیا کرتے اور سوچتے ہیں۔ آپ ان کو مشورہ دیں جو ان کے مزاج اور عمر کے حساب سے اچھا ہو۔

اس میں ایک اور بات اہم ہے۔ بچوں کا اپنی عمر کے بچوں سے تعلق اکثر مناسب سطح ہی پر رہتا ہے۔ لیکن چند سال بڑے بچوں یا بڑوں کے ساتھ معاملات خراب ہو سکتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ایک بات جس کا ادراک اکثر لوگ نہیں کر پاتے ہیں، یہ ہے کہ تربیت صرف اولاد ہی کی نہیں ہوتی۔ بطور والدین ہماری بھی تربیت ہوتی ہے۔ بچوں کی سائیکالوجی پر کتابیں پڑھنا اچھی بات ہے۔ لیکن یہ کتابیں اگر بچوں کے بالغ ہونے کے بعد پڑھی جائیں تو ان سے کوئی عملی فائدہ حاصل ہونے کی کم ہی امید کی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ بچوں کا پہلا رول ماڈل ان کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ بچوں کو کتابیں پڑھنے کے لیے کہنا یا انہیں کسی اسلامی سپیکر کے لیکچر سننے کو کہنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر والدین کا اپنا عمل ان سے متضاد ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسا عموماً ہوتا ہے کہ بچوں کی ذہنی ہم آہنگی باپ کی نسبت ماں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کا زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور بچوں کے لیے ماں کے رویے میں زیادہ لچک ہوتی ہے۔
درست کہا آپ نے۔ پاکستان یا برصغیر کی ثقافت میں ایسا ہی ہے کہ ماں بچوں کی "ہیرو" ہے اور باپ "ولن"۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ماں خود بچوں کو کچھ کہتی نہیں یا کہے تو اُس کے کہے میں وہ اثر نہیں ہوتا سو وہ ہر مشکل اور سخت کام باپ سے کہلوا کر کرواتی ہے نتیجے کے طور پر ابا جی ہر کام سے روکنے ٹوکنے والے اور ہر کام کو ڈانٹ ڈپٹ ڈرا دھمکا کر کروانے والے ولن بن جاتے ہیں، لیکن یہ بھی معجزہ ہی ہے کہ وہی ولن بعد میںَ، بہت بعد میں سُپر ہیرو بن جاتا ہے! اللہ اللہ۔ :)
 

زیک

مسافر
ایسا عموماً ہوتا ہے کہ بچوں کی ذہنی ہم آہنگی باپ کی نسبت ماں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کا زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور بچوں کے لیے ماں کے رویے میں زیادہ لچک ہوتی ہے۔
شدید غیر متفق و غیر دوستانہ وغیرہ
 
درست کہا آپ نے۔ پاکستان یا برصغیر کی ثقافت میں ایسا ہی ہے کہ ماں بچوں کی "ہیرو" ہے اور باپ "ولن"۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ماں خود بچوں کو کچھ کہتی نہیں یا کہے تو اُس کے کہے میں وہ اثر نہیں ہوتا سو وہ ہر مشکل اور سخت کام باپ سے کہلوا کر کرواتی ہے نتیجے کے طور پر ابا جی ہر کام سے روکنے ٹوکنے والے اور ہر کام کو ڈانٹ ڈپٹ ڈرا دھمکا کر کروانے والے ولن بن جاتے ہیں، لیکن یہ بھی معجزہ ہی ہے کہ وہی ولن بعد میںَ، بہت بعد میں سُپر ہیرو بن جاتا ہے! اللہ اللہ۔ :)
درست فرمایا وارث بھائی۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ بیوی اگربچوں کے سامنے شوہر سے جھگڑا یا بحث کرے تو بھی بچے عام طور پر کسی ایک (ترجیحی طور پر ماں) کے طرف دار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز ہیں جن میں میاں بیوی آپس میں گالم گلوچ کیا کرتے تھے، اب ان کے بچے لگ بھگ دس سال کی عمر کے قریب ہیں اور بے دریغ اپنے والد کو گالیاں دیتے اور بدتمیزیاں کرتے ہیں۔
 
شدید غیر متفق و غیر دوستانہ وغیرہ
زیک بھائی غالبا آپ کی اولاد بیٹی ہی ہے۔ بیٹیوں کے ساتھ لاڈ پیار میں نے ماؤں کی بنسبت باپ کے اندر زیادہ دیکھا ہے، نیز ان کو ڈانٹ کی بجائے شفقت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ بیٹے ذرا سخت جان اور بسا اوقات ڈانٹ ڈپٹ کے متقاضی ہوتے ہیں، جو زیادہ تر والد ہی کیا کرتا ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
مشرقی معاشرے میں ٹین ایجر کی عمر پہنچنے پر عوما لڑکیوں کیساتھ بے جا سختی برتی جاتی ہے۔ جیسے پردہ کرو، گھر میں رہو، باہر کم جاؤ، لڑکوں سے بات نہ کرو وغیرہ۔ بچیوں کیساتھ یہ رویہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اس سے انکے دل میں احساس محرومی اجاگر ہوتا ہے اور امتیازی سلوک کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ والدین کو سمجھنا چاہئے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے جذبات، احساسات ایک جیسے ہیں۔ اگر مجبوراً سختی کرنی ہی ہے تو دونوں کیساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔
 
جاسمن آپی بہت بہت شکریہ آپ نے بہت ہی اہم موضوع کا آغاز کیا۔
مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ نبیل بھیا نے بہت اہم بات کی کہ بچوں کی تربیت کے لئے والدین کا تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس لڑی کی بدولت بحیثیت والدین ہم سب کے تجربات اور خیالات ایک دوسرے کی تربیت کا ذریعہ بنیں گے۔ محمد وارث بھیا نے بالکل درست کہا کہ ہمارے ہاں ماں ہیرو اور باپ ولن سمجھا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، یہیں سے تو اولاد کے دل میں باپ کے لئے عزت کی بجائے خوف پیدا ہونا شروع ہوتا ہے اور فاصلے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔
امید ہے کہ محترم شاہد شاہ بھیا میرے اختلاف کو درگزر فرمائیں گے؛ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں بیٹیوں کو پردہ کرنے کی تلقین کو بے جا کہنا کم از کم میں تو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہی سمجھتا ہوں۔ بچپن سے پردہ کرنا احساسِ محرومی کی وجہ بنے یا نہ بنے لیکن جوان ہونے کے بعد انہیں پردہ کرنے کا کہنا یقیناً احساسِ محرومی کی وجہ بننے کے ساتھ ساتھ مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اور پھر جوان بیٹی کی پردہ نہ کرنے کی عادت چھڑوانا بھی تو کوئی آسان کام نہیں۔ زینب کے دل ہلا دینے والے واقعہ کے بعد ہمیں اوپن مائینڈڈ سے تھوڑا نیرو مائینڈڈ ہونا ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے رابعہ بصری صاحبہ کی یہ تحریر پڑھنے لائق ہے۔

الحمدوللہ میں دو بچوں کا باپ ہوں، بچوں کی تربیت کے حوالے سے میں اپنے تجربے کا خلاصہ یوں بیان کروں گا کہ "ہم اپنی اولاد کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، پہلے ہمیں خود ویسا بننا پڑے گا"۔
میں بچوں کو نماز پڑھنے کا نہیں کہتا، جب وہ اپنے بابا یا ماما کو نماز پڑھتے دیکھتے ہیں تو خود ہی آکر ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
گھر میں کوئی بزرک آئے تو میرا بڑا بیٹا ان کے احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا باپ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔
کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا بھی میرے بچوں نے گھر سے ہی سیکھا ہے۔
اور میں نے یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کو کرتے ہوئے دیکھ کر سیکھا ہے۔

میری تمام محفلین سے گزارش ہے کہ بچوں کی تربیت کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کی خاطر جو اقدامات انہوں نے کیئے ہیں شریکِ محفل کریں تا کہ ہم سب ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر سکیں۔ جزاک اللہ۔
 
میرا بڑا بیٹا رایان علی غالباً 6 برس کا تھا، ایک دن کانچ کا گلاس توڑ بیٹھا، ماں نے ڈانٹا، پھر ڈرایا کہ آنے دو بابا کو، آج تو وہ تمہاری ٹانگیں توڑیں گے‘‘۔ میں دفتر سے واپس آیا تو رایان علی مجھ سے لپٹنے کی بجائے سہما ہوا کھڑا رہا۔ پوچھا تو بیگم نے ساری روداد سنائی۔ میں نے رایان علی سے پوچھا کہ بیٹا گلاس کیسے ٹوٹا؟ اس معصوم نے میز پر سے دوسرا گلاس اٹھایا اور زمین پر گرا دیا :)۔ (میں آج بھی وہ واقعہ یاد کر کے ہنس پڑتا ہوں)۔ بیگم دوسرے گلاس کے نقصان پر غصہ ہوگئیں کہ آپ دونو باپ بیٹا بس نقصان ہی کرنا۔ میں نے تیسرا گلاس اٹھایا اور رایان علی سے کہا کہ بیٹا آپ کے ہاتھ ابھی چھوٹے ہیں اور آپ نے گلاس کو اس بڑے حصے سے پکڑا اس لئے آپ کے ہاتھ سے پھسل گیا،اب آپ گلاس کو اس حصے سے پکڑیں، یہ حصہ چھوٹا ہے اور آپ کے ہاتھ سے نہیں گرے گا۔ رایان علی نے گلاس پکڑا، گلاس نہیں گرا۔ رایان علی فوراً گلاس اٹھائے مسکراتا ہوا اپنی ماما کے پاس بھاگا جو ٹوٹے ہوئے گلاس کی کرچیاں سمیٹ کر بڑبڑاتی ہوئی کوڑا دان میں ڈالنے گئی تھیں۔ ’’ماما، ماما، گاس نی ٹوٹا‘‘۔ اس کے بعد میں نے بیگم کو سمجھایا کہ پلیز میں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت دوستانہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں، اگر آپ ابھی سے مجھے اس کی نظر وں میں ظالم باپ کے روپ میں پیش کریں گی تو وہ مجھ سے دور ہو جائے گا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ اس کے بعد آج تک رایان علی سے ایک بھی گلاس نہیں ٹوٹا۔

کچھ عرصہ بعد رایان علی اپنے کزن کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اس کا کھلونا ٹوٹ گیا، کزن نے کہا کہ اب تو تمہاری خیر نہیں، تمہارے بابا تمہیں بہت ماریں گے۔ رایان علی نے بڑے اطمینان سے کہا ’’میرے بابا مجھے مارتے نہیں، جب وہ پوچھیں گے تو میں سچ سچ بتادوں گا کہ مجھ سے ٹوٹا، تو وہ مجھے نیا کھلونا لا دیں گے‘‘۔ جب یہ بات مجھے بیگم نے بتائی تو میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا خوش ہوا، یہ سوچ کر کے میرا بیٹا مجھ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے مجھ پر بھروسہ کرتا ہے، اس کے دل میں اپنے باپ کو لے کر ایسا کوئی خوف نہیں جو اسے جھوٹ بولنے پر مجبور کرے۔ اور اس بات کی اہمیت آپ سب والدین بخوبی سمجھتے ہیں۔
(شاید اس اعتماد کی وجہ یہ تھی کہ جب اس سے پہلی بار گلاس ٹوٹا تھا تو اس کے بابا نے اسے ڈانٹنے کی بجائے گلاس پکڑنے کا طریقہ سکھایا تھا)
 
اگر آپ سب تنگ نہ پڑ گئے ہوں تو مزید ایک بات آپ کو بتانا چاہوں گا۔
میرے گھر میں موبائل کو پاسورڈ لگانے کا رواج میں نے بہت پہلے ہی ختم کر دیا تھا اور ایک دوسرے کا موبائل استعمال کرنے کی عام اجازت ہے۔ ہم میاں بیوی ایک دوسرے کا موبائل استعمال کرتے ہیں۔ میرا بیٹا اپنے کھیل کے اوقات میں میرے یا اپنی ماما کے موبائل پر گیمز کھیل سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک شاید یہ غیر اخلاقی بات ہو لیکن میرے نزدیک اس کی افادیت بہت زیادہ ہے۔ کل کو میرے بچے جوان ہوں گے، ان کے پاس بھی موبائل ہوں گے تو یقیناً گھر کے ماحول کے مطابق اپنے موبائل کو پاسورڈ نہیں لگا سکیں گے۔ ایسی صورت میں وہ اپنے موبائل میں کوئی بھی غیر اخلاقی مواد رکھنے سے قاصر رہیں گے جسے گھر کے دوسرے افراد دیکھ سکیں، وہ بیہودہ پیغامات سے بھی کافی حد تک بچے رہیں گے اور بیہودہ ویب سائیٹس سے بھی باز رہیں گے۔ نتیجہ اللہ ہی بہتر جانے لیکن بہتری کی کوشش تو کرنی چاہیئے۔
 
ہمارے ہاں جس کمرے میں مہمان بیٹھے ہوں وہاں بچوں کا جانا ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، خاص کر جب باپ کے دوست بیٹھے ہوں تو بچوں کو وہاں نہ جانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ بچے اگر باپ کے کسی دوست کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھیں تو ڈانٹ دیا جاتا ہے کہ تمہارا کیا مطلب ہے اس بات سے؟ مجھے بھی ایسا ہی ماحول ملا۔ لیکن میں نے اپنی زات تک کچھ تبدیلی پیدا کی، اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کو اپنے ساتھ لے جاتا، اپنے دوستوں سے ملواتا۔ جب کوئی دوست گھر آتا تو دونوں بھائیوں کو بھی دوستانہ ماحول میں بٹھا لیتا، اگر دوست نے کوئی زاتی بات کرنی ہوتی تو دونوں بھائیوں کو معذرت کے ساتھ اٹھنے کا کہہ دیتا۔ مجھے رشتے داروں کی طرف سے سمجھایا گیا کہ بیٹا چھوٹے بھائیوں پر تم نے اپنا بڑا بھائی ہونے کا رعب ہی ختم کر دیا ہے۔ سر پر باپ بھی نہیں، ایسے میں چھوٹے بھائیوں پر سختی نہیں رکھو گے تو بھائی بگڑ جائیں گے۔ ڈر تو لگا لیکن خود کو سمجھایا کہ اپنے بھائیوں پر بھروسہ رکھنا چاہیئے۔ میرے بھائی بھی مجھے اپنے دوستوں سے ملاتے، اپنی گپ شپ کے دوران مجھے ساتھ بٹھاتے۔

ایک فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے دونوں بھائیوں کے دوستوں کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی کہ میرے بھائی کس قسم کے دوستوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میرے بھائی کسی ایسے شخص کو دوست ہی نہ بناتے جسے وہ مجھ سے ملا نہ سکیں۔ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ بھائیوں کے دوستوں کو جاننے کی وجہ سے ہم تینوں بھائیوں کاحلقہءِ احباب بڑھ گیا۔ آج الحمدوللہ کہیں بھی جانا ہو اپنا کوئی دوست مل جاتا ہے یا اپنے بھائیوں میں سے کسی ایک کا۔

یہی طریقہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ بھی رکھا ہوا ہے۔ میں اپنے بچوں کو اپنے دوستوں سے ملاتا ہوں اور ان کے دوستوں سے ملتا ہوں، ان کے ساتھ کھیلتا ہوں، ان کے بارے میں جانتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ بات بہت اہم ہے کہ مجھے اپنے بچوں کے دوستوں کے بارے میں کافی معلومات رہتی ہے۔
 

شاہد شاہ

محفلین
امید ہے کہ محترم شاہد شاہ بھیا میرے اختلاف کو درگزر فرمائیں گے؛ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مختلف معاشروں میں بچوں کی تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں بیٹیوں کو پردہ کرنے کی تلقین کو بے جا کہنا کم از کم میں تو اسلامی تعلیمات کے برعکس ہی سمجھتا ہوں۔ بچپن سے پردہ کرنا احساسِ محرومی کی وجہ بنے یا نہ بنے لیکن جوان ہونے کے بعد انہیں پردہ کرنے کا کہنا یقیناً احساسِ محرومی کی وجہ بننے کے ساتھ ساتھ مزید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اور پھر جوان بیٹی کی پردہ نہ کرنے کی عادت چھڑوانا بھی تو کوئی آسان کام نہیں۔ زینب کے دل ہلا دینے والے واقعہ کے بعد ہمیں اوپن مائینڈڈ سے تھوڑا نیرو مائینڈڈ ہونا ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے رابعہ بصری صاحبہ کی یہ تحریر پڑھنے لائق ہے
جی یہی تو کہہ رہا تھا کہ اگر سختی کرنی ہے تو شروع سے کریں۔ اور لڑکیوں اور لڑکوں کیساتھ ایک جیسا برتاؤ کریں۔ عموما مشرقی معاشرے میں لڑکیوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے جبکہ لڑکوں کو کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ دوغلہ رویہ ہے۔ اگر لڑکیوں پر پردہ پابند کرتے ہیں تو لڑکوں پر بھی اسی طرح کی پابندیاں لگائیں کہ لڑکیوں کے پیچھے جانے پر فلاں فلاں سزا ملے گی۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
 
مشرقی معاشرے میں ٹین ایجر کی عمر پہنچنے پر عوما لڑکیوں کیساتھ بے جا سختی برتی جاتی ہے۔ جیسے پردہ کرو، گھر میں رہو، باہر کم جاؤ، لڑکوں سے بات نہ کرو وغیرہ۔ بچیوں کیساتھ یہ رویہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اس سے انکے دل میں احساس محرومی اجاگر ہوتا ہے اور امتیازی سلوک کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ والدین کو سمجھنا چاہئے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے جذبات، احساسات ایک جیسے ہیں۔ اگر مجبوراً سختی کرنی ہی ہے تو دونوں کیساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔
یہ تاثر غالباً آپ نے میڈیا کی معلومات پر قائم کیا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ تاثر غالباً آپ نے میڈیا کی معلومات پر قائم کیا ہے
میرے خیال میں شاہد "شاہ" صاحب کی بات کُلی غلط نہیں ہے، پاکستان میں ابھی تک اور خاص طور پر دیہات اور قصبوں میں بچیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درست فرمایا وارث بھائی۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ بیوی اگربچوں کے سامنے شوہر سے جھگڑا یا بحث کرے تو بھی بچے عام طور پر کسی ایک (ترجیحی طور پر ماں) کے طرف دار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز ہیں جن میں میاں بیوی آپس میں گالم گلوچ کیا کرتے تھے، اب ان کے بچے لگ بھگ دس سال کی عمر کے قریب ہیں اور بے دریغ اپنے والد کو گالیاں دیتے اور بدتمیزیاں کرتے ہیں۔
جھگڑا تو دُور کی بات ہےبچے عام باتوں میں بھی والدہ ہی کی طرفداری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم چھ بھائی ہیں، بچپن میں ہم گھر میں لڈو کھیلا کرتے تھے کبھی کبھار امی ابو شامل ہو جاتے تھے، کوئی بھائی بھی ابو کا پارٹنر بننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ اگر وہ دونوں اکیلے کھیلتے تھے تو ہم چھ کے چھ بھائی امی کی طرفداری کرتے تھے اور والد صاحب مرحوم بغیر کسی حمایتی کے ایک کھلاڑی اور چھ مشورہ دینے والوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے اور ہر بار ہار جاتے تھے۔ :)
 

شاہد شاہ

محفلین
جھگڑا تو دُور کی بات ہےبچے عام باتوں میں بھی والدہ ہی کی طرفداری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم چھ بھائی ہیں، بچپن میں ہم گھر میں لڈو کھیلا کرتے تھے کبھی کبھار امی ابو شامل ہو جاتے تھے، کوئی بھائی بھی ابو کا پارٹنر بننے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ اگر وہ دونوں اکیلے کھیلتے تھے تو ہم چھ کے چھ بھائی امی کی طرفداری کرتے تھے اور والد صاحب مرحوم بغیر کسی حمایتی کے ایک کھلاڑی اور چھ مشورہ دینے والوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے اور ہر بار ہار جاتے تھے۔ :)
ابا کی ہار میں بھی جیت پوشیدہ ہوتی ہے
 

یاز

محفلین
ہمارے معاشرے اور خصوصاً دیہی ماحول میں تربیتِ اطفال کے لئے بہت سے طریقے (یا ٹریننگ ایڈ کہہ لیں) مروج تھے یا ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک ان ٹریننگ ایڈز میں سے "کُٹ لگانے" کو سب سے افضل گردانا جاتا تھا۔ "طعن و تشنیع" فضیلت میں اس سے کچھ کم ہوا کرتا تھا۔
مقامِ شکر ہے کہ وقت کے ساتھ کچھ شعور بڑھا ہے اور اب لوگ بچوں کی تربیت کے لئے زیادہ سنجیدہ ہو کر سوچتے ہیں، اور اہم بات یہ کہ بچوں کے جذبات اور مسائل کا ادراک کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
 
Top