بڑھتے ہوئے بچوں کے معاملات و مسائل اور ان کا حل

جاسمن

لائبریرین
ہم میں سے بہت سے محفلین کے بچے اب اس دور میں ہوں گے جب بچپن ہاتھ چھڑا رہا ہوگا اور ٹین ایج کی چمکیلی عمر دستک دے رہی ہوگی۔یا پھر یہ دور بس آنے والا ہوگا۔
یہ عمر کا خاصا نازک دور ہوتا ہے۔س عمر میں بچوں کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ والدین گڑبڑا جاتے ہیں کہ ان کا کیا حل ہو۔بچوں کو کیا بتائیں اور کیا نہ بتائیں۔
چونکہ ہمارا معاشرہ ایک مشرقی معاشرہ ہے اور ہم "شرم و حیا کے مارے"بچوں کو صحیح طور پہ راہنمائی فراہم نہیں کرتے تو وہ مدد کے لئے باہر دیکھتے ہیں اور پھر الٹی پلٹی باتیں پلو میں باندھ لیتے ہیں۔
میں کافی عرصہ سے چاہ رہی تھی کہ ہم محتاط الفاظ میں بڑھتی عمر کے بچوں کے معاملات پہ بات کریں۔
 
ہم میں سے بہت سے محفلین کے بچے اب اس دور میں ہوں گے جب بچپن ہاتھ چھڑا رہا ہوگا اور ٹین ایج کی چمکیلی عمر دستک دے رہی ہوگی۔یا پھر یہ دور بس آنے والا ہوگا۔
یہ عمر کا خاصا نازک دور ہوتا ہے۔س عمر میں بچوں کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ والدین گڑبڑا جاتے ہیں کہ ان کا کیا حل ہو۔بچوں کو کیا بتائیں اور کیا نہ بتائیں۔
چونکہ ہمارا معاشرہ ایک مشرقی معاشرہ ہے اور ہم "شرم و حیا کے مارے"بچوں کو صحیح طور پہ راہنمائی فراہم نہیں کرتے تو وہ مدد کے لئے باہر دیکھتے ہیں اور پھر الٹی پلٹی باتیں پلو میں باندھ لیتے ہیں۔
میں کافی عرصہ سے چاہ رہی تھی کہ ہم محتاط الفاظ میں بڑھتی عمر کے بچوں کے معاملات پہ بات کریں۔
ماشاء اللہ ،
وقت ضرورت کے تحت بچوں کے ساتھ دوستانی رویہ رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ سے کرسکیں ،بےجا روک ٹوک بھی کسی طور مناسب نہیں۔
باقی بات کچھ دیر بات تھوڑا کام سے فارغ ہو جاؤ۔
 

جاسمن

لائبریرین
میری بیٹی نے پہلے اپنی جماعت میں جن لڑکیوں کے ساتھ مل کے گروہ تشکیل دیا ہوا تھا،تنگ آکر وہ گروہ چھوڑ دیا۔
اماں !وہ لڑکوں کی باتیں کرتی ہیں۔کئی لڑکیوں کے بوائے فرینڈز ہیں اور ان کے ایسے ہی ایشو ہوتے ہیں کہ فلاں مجھ سے ناراض ہے۔فلاں نے مجھے خط لکھا ہے۔وغیرہ۔
جو دوسرا گروہ اختیار کیا،اس میں بھی ایک لڑکی یہی باتیں کرتی ہے جو اب گروہ سے خود ہی نکل گئی ہے۔
کل ہم دونوں یہی باتیں کر رہے تھے۔میں نے اسے پہلے مشورہ دیا تھا کہ اپنے گروہ سے بات کر کے بیچاری مریم کو شامل کر لو۔وہ خود کو تنہا محسوس کرتی ہوگی۔
ایمی:مما!میں نے کوشش کی تھی پر گروہ نہیں مانتا۔مریم بھی ایسی باتیں کرنے لگی ہے۔کہتی اریبہ کو کہ اریبہ تم فکر نہ کرو تمہاری شادی میں ضرور کرافوں گی۔
اماں!ہماری اپنی باتیں ہیں۔یہ شادی شادی کی باتیں وہ کرتی رہتی ہے۔ہم نے اسے گروہ میں شامل نہیں کرنا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے دونوں بڑے بیٹے ٹین ایج میں ہیں اور بلوغت میں قدم رکھ چکے ہیں، بڑا بیٹا سترہ سال کا ہونے والا ہے اور چھوٹا پندرہ سال کا جب کہ بیٹی بارہ سال کی۔ میرے ساتھ تو خیر ان کا دوستانہ نہیں ہے نہ جانے کیوں لیکن اپنی والدہ کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہیں اور وہ مجھ سے مشورہ کرتی ہے ان کے مسائل پر۔
 

جاسمن

لائبریرین
میری بیٹی ابھی چھٹی جماعت میں ہے۔چوتھی جماعت تک لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔پانچویں سے الگ ہیں لیکن سکول میں تعامل ہوتا ہے۔
 
کھیلاو سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے،
یہ ایک کہاوت ہے اور آپ محفلین نے بھی سنی ہوئی گی ،بچوں کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح سے پیش آنا چاہیے ،جائز ضرورت کو کبھی نظر انداز مت کریں بے جا ضد پر ہمیشہ نرم رویہ رکھیں ،بڑھتی عمر کے بچوں کےساتھ مارپیٹ اور ڈانٹ سے گریز کریں ۔طعنہ،طنز بچوں میں بغاوت پیدا کرتے ہیں ،گھر میں شام یا رات کے کھانے کے بعد بچوں اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر بیٹھنے کی عادت ڈالیں ،پرمزاح گفتگو کے ساتھ گھر اور بچوں کے ذاتی مسائل اور تعلیمی مسائل پر دلچسپی سے گفتگو کریں،دینی اوردنیاوی مسائل کے حوالوں سے کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دلائیں۔بلوغت میں قدم رکھتے بچوں میں جسمانی تبدیلوں کا آغاز ہو جاتا ہے ،بچوں کو اس حوالے سے آگاہی بہت ضروری ہے،آپ اپنی جانب سے ان مسائل پر بچوں کے ساتھ گفتگو کا آغاز کریں،شرم وحیاء کی بنا پر اکثر بچے بات کرنے سے کتراتے ہیں ،یہ جھجک ہی اکثر بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے ۔وہ گھر سے باہر غلط معلومات کی بنا پر ذہنی انتشار کا شکار رہتے ہیں ۔آج کل اکثر ٹی وی چینلز پر بچوں کو آگاہی فراہم کرنے کے حوالوں سے اشتہارت بھی چلائے جارہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ٹین ایج میں داخل ہوتے ہوئے بچوں کو اس حوالے سے معیاری کتب کا تحفہ پیش کیا جانا چاہیے۔ براہِ راست بات کرنا بھی کافی حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ٹین ایج میں داخل ہوتے ہوئے بچوں کو اس حوالے سے معیاری کتب کا تحفہ پیش کیا جانا چاہیے۔ براہِ راست بات کرنا بھی کافی حد تک مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
معیاری کتب میں نے ےلاش کیں۔۔۔نہیں ملیں۔۔۔۔کچھ راہنمائی!!@
 
میری بیٹی نے پہلے اپنی جماعت میں جن لڑکیوں کے ساتھ مل کے گروہ تشکیل دیا ہوا تھا،تنگ آکر وہ گروہ چھوڑ دیا۔
اماں !وہ لڑکوں کی باتیں کرتی ہیں۔کئی لڑکیوں کے بوائے فرینڈز ہیں اور ان کے ایسے ہی ایشو ہوتے ہیں کہ فلاں مجھ سے ناراض ہے۔فلاں نے مجھے خط لکھا ہے۔وغیرہ۔
جو دوسرا گروہ اختیار کیا،اس میں بھی ایک لڑکی یہی باتیں کرتی ہے جو اب گروہ سے خود ہی نکل گئی ہے۔
کل ہم دونوں یہی باتیں کر رہے تھے۔میں نے اسے پہلے مشورہ دیا تھا کہ اپنے گروہ سے بات کر کے بیچاری مریم کو شامل کر لو۔وہ خود کو تنہا محسوس کرتی ہوگی۔
ایمی:مما!میں نے کوشش کی تھی پر گروہ نہیں مانتا۔مریم بھی ایسی باتیں کرنے لگی ہے۔کہتی اریبہ کو کہ اریبہ تم فکر نہ کرو تمہاری شادی میں ضرور کرافوں گی۔
اماں!ہماری اپنی باتیں ہیں۔یہ شادی شادی کی باتیں وہ کرتی رہتی ہے۔ہم نے اسے گروہ میں شامل نہیں کرنا۔
اللہ کریم ہماری بیٹوں اور بہنوں کو شعور اور حیاء کی دولت سے نوازے ،آمین
آپی فی زمانہ ہمارے اسکول کالج یونیورسٹی اور ٹیویشن سینٹر میں اسے مشاغل کھلے عام اساتذہ کی ناک کے نیچے ہورہے ہیں،میں تمام اساتذہ یا تمام طالب علموں پر بات نہیں کر رہا ،مگر اکثریت اس مرض میں مبتلا ہے۔شوشل میڈیا کے آزادانہ استعمال ،شوشل میڈیا پر رومانی محبت والے اشعار بمعہ تشریحی تصویر ،اخلاقی ضابطے سے آزاد پوسٹیں بھی اس بگڑی صورتحال کی وجہ بنتی ہیں۔
اس مشغلے کی ابتداء بعض اوقات گھر کے آزادانہ ماحول سے ہی ہوتی ہے۔جب گھر میں تمام افراد مل بیٹھ کر ٹی وی پر ڈرامے دیکھ رہے ہوتے ہیں،ان ڈراموں میں رومانی ڈائیلاگ اور اکثر رومانی منظر بھی شائقین کی دلچسپی کے لیے ڈالے جاتے ہیں ،انڈین فلموں کا حال تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،جب یہ تمام چیزیں گھر کے ماحول کا حصہ ہو تو پھر کچھ اس قسم کے رومانی مشاغل میں نوجوانی میں قدم رکھتے بچوں کی دلچسپی کی وجہ ہوتی ہے۔
اکثر گھروں میں بھائی کی شادی کے بعد اپنے سے چھوٹی بہنوں کی موجودگی کی پرواہ کرے بغیر بھیا جی کی نئی نویلی دلہن کو محبت بھری نظروں سے دیکھنا اور بے حجابانہ چاہ ،چونچلے بھی ذہنی ہیجان میں مبتلا کرتا ہے،یہ وہ گناہ ہے جس میں نفس کے لیے لذت ،سرور اور نشہ ہوتا ہے،ایسا حالات سے دوچار لڑکیاں اپنے ابتدائی نوجوانی کے ایام میں اس گناہ کے راستے پر چل پڑھتی ہیں ،جس کی منزل خاندان کی بدنامی ہوتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے میری ایک ساتھی نے کہا ہے کہ بہشتی زیور میں بچوں کے بلوغت میں جانے کے حوالے سے کچھ معلومات ہیں۔ان شاءاللہ وہ بھی پڑھتی ہوں۔۔۔
 
screenshot_237.png

آپی یہ کتاب دیکھ لیں ۔یہ پی ڈی ایف میں ہے۔ڈاؤن لوڈ بھی ہو سکتی ہے۔
 
بڑھتے بچوں کے مسائل۔بلوغت کی شروعات اور راہنمائی وغیرہ
دیکھتے ہیں، امید ہے کہ سبھی اس بارے میں تلاش کریں تو اچھا مجموعہ ہوجائے گا۔ میرے پاس کمپیوٹر ہی میں بچوں کے متعلق کافی کتابیں ہیں، فارغ ہوکر شئیر کرتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
میری بیٹی 13 سال کی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ اس سے تمام معاملات پر گفتگو رہے۔

یہاں ہیلتھ کلاس میں چھٹی جماعت سے سیکس ایڈ، ڈرگز وغیرہ کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ پھر بھی بحیثیت والدین اس بارے میں بچوں سے بات کرنا انتہائی اہم ہے۔ دو تین کتب بھی بلوغت سے متعلق اسے لا کر دیں جو بچوں کے نقطہ نظر سے تھیں
 
آخری تدوین:
میری بیٹی 13 سال کی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ اس سے تمام معاملات ہر گفتگو رہے۔

یہاں ہیلتھ کلاس میں چھٹی جماعت سے سیکس ایڈ، ڈرگز وغیرہ کے متعلق پڑھایا جاتا ہے۔ پھر بھی بحیثیت والدین اس بارے میں بچوں سے بات کرنا انتہائی اہم ہے۔ دو تین کتب بھی بلوغت سے متعلق اسے لا کر دیں جو بچوں کے نقطہ نظر سے تھیں
زیک بھائی آپ اس وقت جس معاشرے میں رہائش پذیر ہیں وہ یہاں کے حالات اور ماحول سے بہت مختلف ہے۔وہاں سرکاری سطح پر تعلیم اور تربیت کے اعلی انتظامات ہیں ۔
 

لاریب مرزا

محفلین
بچے جب بچپن کی عمر سے ہاتھ چھڑا کر بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ جب ہم نے تدریس کے شعبے میں قدم رکھا تو ایک فقرہ ہمیں گڑبڑانے کے لیے کافی ہوتا تھا "میم!! اس نے گندی بات کی ہے۔" اور پھر پوری جماعت شروع ہو جاتی کہ بات کیا ہوئی ہے۔ ہمارے لیے خاصی آکورڈ صورت حال بن جاتی۔ غصے سے لال پیلے ہونے کے علاوہ کوئی اور ردعمل سمجھ میں نہ آتا۔ اب تو خیر ہم خاصے تحمل اور تسلی سے بچوں کے مسائل سن بھی لیتے ہیں اور حل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

بطور استاد ہم نے ایک بات پلو سے باندھ رکھی ہے اور وہ ہے بچے کی بات کو توجہ سے سننا اور اس کو اہمیت دینا۔ عہدہ تبدیل ہونے کے بعد ہم نے بچوں کے لیے اپنے رویے میں مزید لچک پیدا کی ہے۔ بلوغت کی عمر میں بچے یونہی الجھن کا شکار ہوتے ہیں، والدین اور اساتذہ کے منفی رویے ان کے تناؤ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
 

لاریب مرزا

محفلین
میرے دونوں بڑے بیٹے ٹین ایج میں ہیں اور بلوغت میں قدم رکھ چکے ہیں، بڑا بیٹا سترہ سال کا ہونے والا ہے اور چھوٹا پندرہ سال کا جب کہ بیٹی بارہ سال کی۔ میرے ساتھ تو خیر ان کا دوستانہ نہیں ہے نہ جانے کیوں لیکن اپنی والدہ کے ساتھ گپ شپ لگاتے ہیں اور وہ مجھ سے مشورہ کرتی ہے ان کے مسائل پر۔
ایسا عموماً ہوتا ہے کہ بچوں کی ذہنی ہم آہنگی باپ کی نسبت ماں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کا زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزرتا ہے اور بچوں کے لیے ماں کے رویے میں زیادہ لچک ہوتی ہے۔
 
Top