ماہی احمد

لائبریرین
میرے نزدیک بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
اس میں بہت مسائل ہیں اور بے حد باریکیاں ہیں۔ بچوں کی اور ماں باپ کی نفسیات دونوں کا اس میں بے حد دخل ہے۔ پھر محدود وسائل، ہمت اور استطاعت کے ساتھ درست فیصلے کرنا اور اُن پر عملدرامد کرنا یا کروانا بے حد مشکل کام ہے۔
اللہ پاک نے انسان کو اس مشکل سے نمٹنے کا حوصلہ ہمت اور راستے دیے ہیں۔۔۔ دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔ باقی آسرا دعا کا ہے:)
 
بعض لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ کلاس میں اول نہ آئے تو پڑھائی میں کمزور ہے۔
ہمارے محلہ میں ایک بچے کے میٹرک میں اچھے نمبر آئے۔ اپنا سکول ٹاپ کیا اور بورڈ کی ٹاپ 20 پوزیشنز میں شامل تھا۔
امی آنٹی کو مبارکباد دینے گئیں، تو ان کا منہ بنا ہوا تھا کہ اتنی محنت کروائی، لیکن بورڈ ٹاپ نہیں کیا۔
اس کے بعد ایف ایس سی میں میڈیکل رکھوایا اور ایڈیشنل میتھ بھی کروایا۔
پھر ہم اس محلہ سے شفٹ ہو گئے تھے۔
اب نہیں معلوم کہ وہ ناسا کے کس خلائی سٹیشن میں بیٹھا ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
بعض لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ کلاس میں اول نہ آئے تو پڑھائی میں کمزور ہے۔
ہمارے محلہ میں ایک بچے کے میٹرک میں اچھے نمبر آئے۔ اپنا سکول ٹاپ کیا اور بورڈ کی ٹاپ 20 پوزیشنز میں شامل تھا۔
امی آنٹی کو مبارکباد دینے گئیں، تو ان کا منہ بنا ہوا تھا کہ اتنی محنت کروائی، لیکن بورڈ ٹاپ نہیں کیا۔
اس کے بعد ایف ایس سی میں میڈیکل رکھوایا اور ایڈیشنل میتھ بھی کروایا۔
پھر ہم اس محلہ سے شفٹ ہو گئے تھے۔
اب نہیں معلوم کہ وہ ناسا کے کس خلائی سٹیشن میں بیٹھا ہے۔
اللہ اکبر!!!
 

جاسمن

لائبریرین
اصل میں اس بھیڑ میں "نمبر نمبر" کی آواز نے بہت ستم ڈھایا ہے۔ دوسرا اساتذہ بھی ٹیوشن وغیرہ کے چکر میں اس کو بڑھاوا دے دیتے ہیں۔
کسی کی کیا بات کروں۔۔۔۔ جب عشبہ نرسری میں تھی۔۔۔ اس کی ٹیچر نے مجھے کہا اس کو ٹیوشن رکھوا دیں۔ میں نے اس کو کہا۔۔۔ آپ کے پاس ہی نہ رکھوا دوں۔۔۔۔ نرسری کی طالبہ ہے۔ گھر جاتی ہے۔ قاری صاحب آجاتے ہیں۔ ایک شام بچتی ہے۔ وہ بھی ٹیوشن کی نذر کر دوں گا تو کھیلے گی کس وقت۔۔۔ پرنسپل کہتی باقی بچوں کے والدین بھی ان کو پڑھاتے ہیں ٹیوشنز۔۔۔ مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ میں نے کہا۔۔۔ وہ گدھوں کے بچے ہیں۔ یہ ذوالقرنین کی بچی ہے اور انسان ہی رہے گی۔۔۔ اس سکول سے ہٹوا لیا میں نے۔۔۔ اب الحمداللہ ٹھیک جا رہی ہے۔۔۔ مجھے کون سا اس سے ون ٹو کلاس میں راکٹ بنوانے ہیں۔

یہی بات۔ بچپن مار دیتے ہیں ہم اس دوڑ میں۔ میری بیٹی خود ہی پڑھائی کی بہت فکر کرتی ہے۔ خود بھی پریشان ہوتی ہے ساتھ میں ہمیں بھی پریشان کرتی ہے۔ عجیب صورتحال ہوتی تھی۔ وہ پڑھائی کو لے کے پریشان اور میں اسے کہتی کہ تم کھیلو۔ یہی دن ہیں کھیلنے کے۔ آؤ گڑیا پولے (بچپن میں وہ پٹولے کو پولے کہتی تھی) کھیلیں۔ وہ اپنی سہیلیوں سے کہتی ہے کہ میرے والدین نے مجھ پہ پڑھنے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا۔ مارکس کو لے کے وہ خود پریشان ہو تو ہم اسے تسلی دیتے ہیں۔ جتنے مرضی نمبر آئیں، ہم خوش ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے بچے/بچی کے نمبرز ہیں۔ ہمیں کسی سے کیا! میری ایک سہیلی کے بیٹے کے نمبر میرے بیٹے سے ہمیشہ زیادہ آتے ہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اپنے بیٹے کو اس بات کا طعنہ کبھی نہیں دیا۔
اب میرے بیٹے کے بہترین دوست کے مارکس میرے بیٹے سے کافی زیادہ ہیں تو ماشاءاللہ۔ اللہ انھیں اور بھی ترقیاں اور کامیابیاں دے۔ قسمت اچھی کرے۔ آمین!
ہر بچے کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر بچے کی اپنی شخصیت اور اپنی خوبیاں اور کامیابیاں ہیں۔ ماشاءاللہ ہمارا بیٹا کہانیاں لکھتا اور شاعری کرتا ہے۔ ذہین ہے۔ لوگوں کے لئے دل میں ہمدردی رکھتا اور سماجی کام کر کے خوش ہوتا ہے۔ الحمدللہ۔
اللہ سب کے بچوں کے مقدر اچھے کرے۔ نیک بنائے۔ دونوں جہانوں میں کامیاب کرے۔ اس وبا سمیت ہر بری بیماری، بری تقدیر سے پناہ دے۔ آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
یہی بات۔۔۔۔ یہ قصے اب ہمیں سمجھ آنے لگے ہیں کہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے، اس چکر میں بس ایک دوڑ ہے جس میں بچوں کو دوڑنا ہے۔۔۔۔ آپ نے یہ بات سمجھی اور سٹینڈ لیا۔۔۔۔ جبکہ آپ سے پچھلی نسل، جس کے لئیے یہ سب نیا تھا کیونکہ اس سے پہلے ٹیوشنز اکیڈمیز کا کانسیپٹ ہی نہیں تھا وہ بھولے بھالے ان عجیب و غریب باتوں میں آ جاتے ہیں۔۔۔ پھر معاملات وہ رخ اختیار کرتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔ یو نو مجھے لگتا ہے اگر آپ کو مجھے اور اور لوگوں کو ان باتوں کا شعور ہے تو ہمیں بہت نرمی اور فہم سے ان پیرنٹس کی مدد کرنی چاہئیے جو ان چیزوں کو ایسے نہیں سمجھتے۔۔۔۔ مطلب، کون سے ماں باپ ہوں گے جنہیں اپنا بچہ عزیز نہ ہو گا۔ بات کرنے سے معاملات سدھرتے ہیں، میں نے یہ جانا ہے۔

ماہی! میں تو کئی والدین کو سمجھاتی یا سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ کئی لوگ سمجھ بھی جاتے ہیں الحمدللہ۔ لیکن کچھ لوگ نہیں بھی سمجھتے۔
حسد ساری نیکیوں کو کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھاتی ہے۔ بھائی بہنوں کے بچوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے، دور کیوں جائیں۔ وہ ڈاکٹر بن رہا ہے تو ہمارے بچے نے بھی ڈاکٹر ہی بننا ہے۔ وہ انجینئر بن چکا ہے تو ہمارا بچہ کیوں پیچھے رہے۔۔۔ آہ!
ہم نے ساتویں میں محمد کو کیڈٹ کالجز کے لئے اپلائی کروایا۔ کسی کے ٹیسٹ میں کامیاب ہوا کسی میں نہیں۔ لیکن پی اے ایف سرگودھا کے سب ٹیسٹ پاس کر کے ایک ہفتہ والے میڈیکل کے لئے ہم سرگودھا گئے۔ وہاں ایک ہفتہ ہم ماں بیٹا رہے اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کر لئے۔ میں استخارے بھی کرتی رہی اور سب ماحول دیکھتی رہی۔
پھر میں نے بہت اچھی طرح سوچ و بچار کیا اور اس نتیجہ پہ پہنچی کہ ہم اپنے چھوٹے سے بچے کو والدین اور ایک گھریلو زندگی سے دور کر کے مشینی زندگی اور اجنبیوں کے حوالے کر دیں اور اس کے بچپن کو ختم کر دیں۔ کیوں؟ یہ تو پھر پوری زندگی کے لئے مہمان بن جائے گا۔ فون پہ کیسے ہو؟ ٹھیک ہوں۔ کوئی دوست بنایا؟ ہاں جی. جیسے چند سوال جواب۔۔۔
اور وہاں۔۔۔ سو جاؤ۔ اٹھ جاؤ۔ کھانا کھا لو۔ پڑھ لو۔ بس مشین جیسی زندگی۔ نہ بابا نہ۔ اتنا چھوٹا بچہ!
پھر اب وہ کہنے لگا کہ اماں میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی بہترین ادارے میں پڑھوں۔ کہیں باہر کے کسی اچھے ادارے میں۔ لیکن یہ ممکن نہیں تو گورنمنٹ کالج لاہور۔۔۔
میرا اپنا دل کرتا ہے کہ اسے کسی اچھے ادارے میں داخل کراؤں لیکن ابھی سے اسے ہاسٹل اور دوستوں کے اور اجنبی اساتذہ کے حوالے کر دوں! وہ جیسے مرضی خیالات اس کے اندر بھر دیں۔ آنکھوں سے دور۔۔۔ ابھی تو نازک عمر ہے۔۔۔ نہیں۔
ایف ایس سی کے بعد۔۔ ان شاءاللہ۔ اللہ ہمارے بچوں کے حق میں بہترین فیصلے کرے۔ ہمارے کئے تمام فیصلوں کے نتائج ان کے حق میں بہترین بنائے۔ آمین!
ثم آمین!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اور میں نے یہ بھی سوچا کہ وطن کی خدمت، لوگوں کے کام آنے کے اور بھی طریقے ہیں۔ روزگار بھی اللہ کہیں نہ کہیں پہ لگائے گا ہی ان شاءاللہ۔ بس تعلیم حاصل کرو جس میدان میں چاہو۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
اپنے بچوں کے ساتھ بحثیت دوست کیسے انوالوڈ رہنا ہے:)
مجھے اپنے ارد گرد "آج" سے متعلق مثالیں نہیں ملتیں۔۔۔ آپی "آج" کی مثال ہیں تو نوٹ کرنا تو بنتا تھا۔:)

دوست/سہیلی بننا چاہیے ورنہ آپ کے بچے باہر دوست تلاش کریں گے اپنے دل کی بات بتانے کے لئے۔ باہر بھی دوست ہونے چاہئیں لیکن "پکا دوست" آپ کو ہی بننا چاہیے۔
ہمارے بچے اپنے دل کی بات ہم سے کرتے ہیں۔ وہ ہم سے ایسی باتیں بہت آرام سے کر لیتے ہیں جو کسی سے نہیں کی جا سکتیں۔ انھیں ذاتی باتیں کرنے کے لئے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی الحمدللہ۔
اور دوسری طرف جہاں ماں باپ دونوں لائق اور خیر سے نامور بھی ہیں وہاں پریشر اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور وہی اُن بچوں کے زوال کا باعث ہے
واقعی۔ اور پھر اپنی مثالیں دے دے کے بچوں کا سوا ستیاناس کر دیتے ہیں۔:)
 

سیما علی

لائبریرین
واقعی۔ اور پھر اپنی مثالیں دے دے کے بچوں کا سوا ستیاناس کر دیتے ہیں۔:)
ہمارے بیٹے کا ایک دیرینہ دوست ،والد اُنکے بے حد نامی گرامی ،ساری زندگی کا احساسِ کمتری بچے میں انجییکٹ کر دیا۔۔۔۔سچ ہمیں ماں اور باپ دونوں کی دماغی حالت پہ افسوس ہوتا ہے ۔۔۔کہ انکے احساسِ برتری نے بچوں سے اُنکا تخشص چھین لیا۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت بہترین تحریر ہے۔ میرے دل کی آواز۔ واقعی ہمارے ہاں اکثر والدین یہی رویے اپناتے ہیں۔ بچوں کو اپنی جاگیریں سمجھتے ہیں۔ مقابلہ کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔
تھری ایڈیٹس سے بہت پہلے سے میری سوچ تھی کہ اپنی پسند کے مضامین کا چناؤ کرنا چاہیے۔ لیکن کچھ ایسے بھی اساتذہ تھے اور ہیں جو ایسے مضامین رکھوانا چاہتے ہیں جن میں مارکس آتے ہیں۔
پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔
تفریح بالکل ختم۔ پھر مقابلہ کرنا۔۔۔ ایک ماں کو دیکھا کہ اپنے ننھے منے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ رٹا لگواتی جا رہی ہیں۔ بابا! اسے ارد گرد دیکھنے دیں۔ مزے کرنے دیں۔
نتیجہ کے دن اساتذہ اور والدین کی ملاقات میں کئی بار دیکھا کہ ایک دو نمبر فلاں کے زیادہ اور ہمارے بچے کے کم تو شامت آ گئی بچے کی اور اسی وقت سب کے سامنے۔
بچے کی بھی عزت نفس ہے۔۔۔ اس کی بڑے پرواہ نہیں کرتے۔
نیرنگ نے آنکھوں دیکھے واقعات لکھے ہیں اور یہ سب ہم بھی دیکھتے رہتے ہیں۔
یہ اختیاری مضامین والی بھی خوب رہی۔ بعینہ ایسا ہے۔ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ جو مضمون رکھنا چاہتے ہیں وہ میسر ہی نہیں ہوتا۔ مطلب کالج اسکول میں اس کا استاد ہی میسر نہیں۔ فلسفہ اس کی ایک سب سے بڑی مثال ہے۔
اور سب کے سامنے مار پٹائی۔۔۔۔ یا ڈانٹ ڈپٹ۔۔۔ یہ تو غیر انسانی فعل ہے۔۔۔ قسم سے۔۔۔ اور یہ قصہ صرف اسکول تک ہی محدود نہیں۔ والدین بچوں کو پکنک پر لیکر نکلتے ہیں اور پارک میں ڈانٹ پڑ رہی ہوتی ہے۔ بھئی پھر نکلے ہی کیوں ہو۔ وہیں پڑے رہتے۔ میں یہ نہین کہتا کہ بچوں کو ڈانٹنا بالکل ہی بری بات ہے۔ انسان کو سختی نرمی ہر طرح چلنا پڑتا ہے۔ پر عزت نفس تو مجروح نہ ہو۔

میں تو اپنے بچوں کو خوب سیر کرواتی رہتی ہوں۔ ڈھیروں کتابیں لے کے دیتی ہوں الحمدللہ۔ بورڈ گیمز تو محمد اب تک آن لائن منگواتا اور مقامی دکانوں سے بھی لیتا رہتا ہے۔ایمی گڑیا پٹولے ابھی بھی کھیلتی ہے۔ گھڑسواری، تیراکی، فٹ بال، تیکوانڈو۔۔۔ بہت کچھ کھیلا۔ کرونا کے باعث اب باہر کم جاتے ہیں لیکن ہر اتوار کو بورڈ گیمز کے لئے محمد کے کئی دوست گھر آتے ہیں۔صبح سے دوپہر تک کھیلتے ہیں۔
میں اچھے دوست بنانے کے حق میں بھی ہوں۔ دوستوں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے! میری بیٹی کی بھی سہیلیاں ہیں اور بیٹے کے بھی ماشاءاللہ بہت دوست ہیں۔
جب میرے بچے چھوٹے تھے تو میں ان کے ساتھ کوکلا چھپاکی، کیکلی، ریل گاڑی، پتنگ بازی اور بھی کئی کھیل کھیلتی تھی۔ اب بھی ہم کبھی کبھی کھیلتے ہیں کوئی نہ کوئی کھیل۔
کچھ ڈرامے میں اور بیٹی اکٹھے دیکھتے ہیں۔ بازار جانا ہو تو میری بیٹی کے ساتھ خریداری میں ہم دونوں کو مزہ آتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی سہیلیاں ہیں۔
ہم نے بچوں کے چھوٹے ہوتے گڈی گڑیا کی شادیاں بھی کی ہیں۔
ایک بار مجھے لگا یہ میری اماں اپنی باتیں بتا رہی ہیں۔۔۔ :) ہم بہن بھائی بیت بازی کرتے تھے۔۔۔ اور اماں نے ذوق ایسا بیدار کیا کہ کوئی ماٹھا شعر بھی مقابلے میں سنا دیتا تو ہم کھیل ختم کر کے اس کی کلاس لگا لیتے تھے۔۔۔

لیکن شاید ہم بھی کہیں غلطیاں کرتے ہیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ بچوں بڑوں سب کی قسمت اچھی کرے۔ سب کے لئے بہترین فیصلے کرے۔ ہمیں بڑی غلطیوں سے پناہ دے اور ہم سے کچھ بھی غلطی یا خطا ہو جائے تو نتائج اچھے ہی نکلیں۔ پیارا اللہ ہم پہ ہمیشہ لطف و کرم کرے۔ ہمیشہ مہربان رہے۔ آمین!
ثم آمین!
بے شک۔۔ کہ یہ ایک بہت پیچیدہ عمل ہے۔ جس میں نفسیات کے ساتھ ساتھ موجود وسائل اور دیگر عوامل بھی اپنے پورے وزن سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کے لیے آسانیاں کرے۔ آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیں بہت نرمی اور فہم سے ان پیرنٹس کی مدد کرنی چاہئیے جو ان چیزوں کو ایسے نہیں سمجھتے۔۔۔۔ مطلب، کون سے ماں باپ ہوں گے جنہیں اپنا بچہ عزیز نہ ہو گا۔ بات کرنے سے معاملات سدھرتے ہیں، میں نے یہ جانا ہے۔
کوئی لائحہ عمل ہے آپ کے ذہن میں؟ شروعات تو کبھی بھی کی جا سکتی ہیں۔۔ سو اب بھی دیر نہیں ہوئی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بعض لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ کلاس میں اول نہ آئے تو پڑھائی میں کمزور ہے۔
ہمارے محلہ میں ایک بچے کے میٹرک میں اچھے نمبر آئے۔ اپنا سکول ٹاپ کیا اور بورڈ کی ٹاپ 20 پوزیشنز میں شامل تھا۔
امی آنٹی کو مبارکباد دینے گئیں، تو ان کا منہ بنا ہوا تھا کہ اتنی محنت کروائی، لیکن بورڈ ٹاپ نہیں کیا۔
اس کے بعد ایف ایس سی میں میڈیکل رکھوایا اور ایڈیشنل میتھ بھی کروایا۔
پھر ہم اس محلہ سے شفٹ ہو گئے تھے۔
اب نہیں معلوم کہ وہ ناسا کے کس خلائی سٹیشن میں بیٹھا ہے۔
میں تو ایک ایسے "ناہنجار" باپ سے بھی مل چکا ہوں جس کے بیٹے نے بورڈ ٹاپ کیا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی خوش نہ تھا کہ پتا نہیں اگر ڈاکٹر نہ بنا اور اگے محنت نہ کی اس نے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہی بات۔ بچپن مار دیتے ہیں ہم اس دوڑ میں۔ میری بیٹی خود ہی پڑھائی کی بہت فکر کرتی ہے۔ خود بھی پریشان ہوتی ہے ساتھ میں ہمیں بھی پریشان کرتی ہے۔ عجیب صورتحال ہوتی تھی۔ وہ پڑھائی کو لے کے پریشان اور میں اسے کہتی کہ تم کھیلو۔ یہی دن ہیں کھیلنے کے۔ آؤ گڑیا پولے (بچپن میں وہ پٹولے کو پولے کہتی تھی) کھیلیں۔ وہ اپنی سہیلیوں سے کہتی ہے کہ میرے والدین نے مجھ پہ پڑھنے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا۔ مارکس کو لے کے وہ خود پریشان ہو تو ہم اسے تسلی دیتے ہیں۔ جتنے مرضی نمبر آئیں، ہم خوش ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے بچے/بچی کے نمبرز ہیں۔ ہمیں کسی سے کیا! میری ایک سہیلی کے بیٹے کے نمبر میرے بیٹے سے ہمیشہ زیادہ آتے ہیں۔ ہم خوش ہوتے ہیں اور اپنے بیٹے کو اس بات کا طعنہ کبھی نہیں دیا۔
اب میرے بیٹے کے بہترین دوست کے مارکس میرے بیٹے سے کافی زیادہ ہیں تو ماشاءاللہ۔ اللہ انھیں اور بھی ترقیاں اور کامیابیاں دے۔ قسمت اچھی کرے۔ آمین!
ہر بچے کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ہر بچے کی اپنی شخصیت اور اپنی خوبیاں اور کامیابیاں ہیں۔ ماشاءاللہ ہمارا بیٹا کہانیاں لکھتا اور شاعری کرتا ہے۔ ذہین ہے۔ لوگوں کے لئے دل میں ہمدردی رکھتا اور سماجی کام کر کے خوش ہوتا ہے۔ الحمدللہ۔
اللہ سب کے بچوں کے مقدر اچھے کرے۔ نیک بنائے۔ دونوں جہانوں میں کامیاب کرے۔ اس وبا سمیت ہر بری بیماری، بری تقدیر سے پناہ دے۔ آمین!
ہمارے گھر میں بھی ہے ایک ایسا سیمپل۔۔۔ جو اتنے نمبر لے چکا ہے کہ میرے ایف ایسی سی کے نمبر دوگنے ہو کر بھی اتنے نہیں بنتے۔۔۔۔ پھر بھی روتی رہتی ہے۔۔۔۔ نکمی سارے جہان کی۔۔۔۔
 
Top