نیرنگ خیال

لائبریرین
میری اپنے جم انسٹرکٹر سے گپ شپ رہتی ہے۔ اس موضوع پر بھی گفتگو رہتی ہے کہ لڑکے اب جم نہیں آتے۔ زیادہ تر میری طرح بڑی عمر کے لوگ خود کو فٹ رکھنے کو تو آجاتے ہیں، لیکن وہ جو چھوٹی عمر میں کسرتی جسم بنانے کا شوق ہوتا ہے وہ خال خال نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے؟ وہ مجھے مختلف وجوہات بتاتے رہتے ہیں، کہ جسمانی محنت و مشقت سے بچوں کی جان جاتی ہے۔ موبائلز پر لگے رہتے ہیں، بہت ہوا تو سنوکر کلب چلے جاتے ہیں۔زیادہ تر وقت شیشہ پینے میں بتا دیتے ہیں اور پھر یہ کہ اکثر والدین بھی پسند نہیں کرتے کہ بچے جم جائیں۔ یہ میرے لیے بڑی حیرانی کی بات تھی ، کہ بچہ سنوکر کھیل لے تو قبول ہے مگر جم نہ جائے۔ میں نے ان سے عرض کی اس بات کو ہضم کرنا میرے لیے کس قدر مشکل ہے۔ وہ ہنس پڑے۔ کہتے میرے پاس تو اکثر ایسے والدین آتے رہتے ہیں کہ آپ ہمارے بچے کو سمجھائیں کہ یہ ورزش وغیرہ میں وقت ضائع مت کرے۔ اور چند دن گزرے کے اسی بات کا مشاہدہ بھی ہوا۔

رات جم میں ایک لڑکے کے والد صاحب آئے، وہ اپنے بیٹے کی ورزش پر اس قدر خفا تھے کہ انہوں نے جم کے مالک سے کہا کہ اس کو ایک گھنٹہ سے زیادہ یہاں مت رہنے دیں۔ یہ یہاں نو بجے آیا کرے اور دس بجے یہاں سے اس کو بھیج دیا کریں۔ جم کے مالک نے ان سے کہا کہ آپ کو اپنے بیٹے کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ محنت سے کسرت کرتا ہے ۔ عام لڑکوں کی طرح سنوکر بلئیرڈ اور موبائل پر وقت نہیں ضائع کر رہا بلکہ اپنی صحت پر توجہ دیتا ہے۔ تو وہ بزرگ فرمانے لگے، کہ اس کی خواہش پر ہی جم بھیجا ہے اسے۔ اس نے ابھی میٹرک کے پیپرز دیے ہیں، ابھی اس کا کالج شروع ہوجائے گا، اگر یہی چلن رہا تو پڑھ لیے یہ صاحب۔ میں نے پوچھا کہ میٹرک کے کیا حالات ہیں، تو پتا چلا کہ وہ بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیکر بورڈ کے نمایاں طلباء میں شامل ہے۔ میں نے عرض کی، کہ حضرت! پڑھ تو وہ پہلے ہی رہا ہے۔ مزید کیا بوجھ ڈالیے گا اس پر۔ کہنے لگے دو گھنٹے جم میں ضائع کر دیتا ہے۔ روزانہ ایک گھنٹہ دوستوں کے ساتھ گزار دیتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے پڑھے گا کس وقت۔ اس طرح تو بن گیا یہ ڈاکٹر۔ اللہ اکبر! میں نے اس بچے کی طرف دیکھا، جو اپنے تین دوستوں میں انتہائی خجالت بھرا چہرہ لیے کھڑا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ حضرت مجھے اپنے بچوں ساتھ دیکھ لیں، تو بچے برباد کرنے کے جرم میں مجھ سے میرے ہی بچے چھین لیں۔ کہ تم اپنے بچوں کو کھیلنے کا کہتے ہو۔ دماغ خراب ہے تمہارا۔ جم کے مالک نے کہا کہ وہ ایک گھنٹہ سے زیادہ اس بچے کو یہاں قیام نہ کرنے دے گا۔ اور اس نے لڑکے سے کہا کہ بیٹا! آپ اپنی ورزش کے درمیان جو وقفہ لیتے ہیں، اس کا دورانیہ کم کر دیں۔ بچہ سر ہلا کر رہ گیا۔

بعد میں اس بچے کو دیکھتا رہا۔ وہ ویسے ورزش نہیں کر پا رہا تھا، جیسے جنون سے وہ روز کر رہا ہوتا ہے۔ وہ بیقراری سے ایک دیوار سے دوسری تک جاتا اور پھر اپنی ورزش کرنے کی کوشش کرنے لگتا۔

مجھے دکھ ہو رہا ہے اس ذہنیت پر۔ آپ کا بچہ اٹھانوے فیصد نمبر لیتا ہے۔ بغیر کہے پڑھتا ہے، آپ کا اتنا فرمانبردار ہے کہ آپ علی الاعلان دس لوگوں میں آکر اس کی بےعزتی کرتے ہیں اور وہ چوں تک نہیں کرتا۔ خدارا، ان کو باغی مت بنائیے۔ ان پر احسان کیجیے۔ اگر آپ ڈاکٹر نہیں بن سکے تو یہ بوجھ اپنے بچے پر مت لادیے۔ ایسا ذہن جو گھٹن میں رہے گھٹ جاتا ہے۔ وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ کیا ہے جو کل کلاں وہ بچہ ڈاکٹر بھی بن گیا۔ اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کا دور تو آپ برباد کر رہے ہیں، اس کا ازالہ کون کرے گا۔ اپنے بچوں پر رحم کیجیے۔ ان کو کھیلنے دیجیے۔ یوں بھی موجودہ دور میں گنتی کے ہی چند بچے جسمانی کھیلوں کی طرف مائل ہیں۔ ان کو ان کا حق دیجیے۔

ہم گلہ کرتے ہیں کہ بچے کھیلتے نہیں۔ ہم اپنے دور میں اتنا کھیلا کرتے تھے، یہ کرتے تھے وہ کرتے تھے۔ کیسے کھیلیں بچے؟ کیسے؟ ان پر پانی بھری روئی لاد رکھی ہے آپ نے۔ اس بوجھ سے ان کا چلنا مشکل ہے۔ ان کے اپنی ذات کے لیے دو سے تین گھنٹے آپ کو برداشت نہیں۔ وہ بچہ ہے آپ کا۔ آپ کی انویسٹ منٹ نہیں ہے۔ کہ کل کو آپ کو دس گنا منافع دے گا۔ اس کو معاشرے کا صحتمند انسان بنائیے۔صرف کماؤ پوت نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو ہنر کی راہ پر مت لگائیں۔ اس کو اچھا برا نہ سمجھائیں۔ مگر اس کو زندہ رہنے کا حق دیں۔ اس کو گدھا مت بنائیں کہ آپ کہیں تو گھاس چرے، آپ جو بھی بوجھ کہیں وہ ڈھوئے۔ اس سے اس کا بچپنا اس کی اٹھتی جوانی مت چھینیں۔ کل کلاں وہ چھپ کر آپ سے یہ سب کرنے لگا۔ پھر آپ کیا کریں گے؟

۱۲ نومبر ۲۰۱۹
 

محمداحمد

لائبریرین
بہترین!

بچوں کو صرف پڑھائی میں ہی کھپا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔

ہمارے ہاں تو مسائل یہ ہیں کہ بچوں کے لئے گھر کے نزدیک ڈھنگ کے پارک تک نہیں ہیں۔ جو ہیں وہ انتظامیہ کی عدم توجہ اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ سڑکیں گلیاں اس قابل نہیں ہیں کہ وہاں چہل قدمی تک کی جا سکے۔ بہرکیف جسمانی کھیل، بچوں کی جسمانی افزائش کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ہم سب کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

مزید یہ کہ ہمیں دل سے آپ کی یہ تحریر پسند آئی اور ہم محض اس لئے آپ کی تعریف نہیں کر رہے کہ آپ ہمارے بہت اچھے دوست ہیں اور ہماری روزانہ آپ سے علیک سلیک ہوتی ہے اور یہ کہ ہم کسی بھی قسم کی "انجمن" کے رُکن نہیں ہیں۔ اور نہ ہم آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ بدلے میں ہماری کسی تحریر ی حرکت کی پذیرائی کریں۔ :)
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہم گلہ کرتے ہیں کہ بچے کھیلتے نہیں۔ ہم اپنے دور میں اتنا کھیلا کرتے تھے، یہ کرتے تھے وہ کرتے تھے۔ کیسے کھیلیں بچے؟ کیسے؟ ان پر پانی بھری روئی لاد رکھی ہے آپ نے۔ اس بوجھ سے ان کا چلنا مشکل ہے۔ ان کے اپنی ذات کے لیے دو سے تین گھنٹے آپ کو برداشت نہیں۔ وہ بچہ ہے آپ کا۔ آپ کی انویسٹ منٹ نہیں ہے۔ کہ کل کو آپ کو دس گنا منافع دے گا۔ اس کو معاشرے کا صحتمند انسان بنائیے۔صرف کماؤ پوت نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو ہنر کی راہ پر مت لگائیں۔ اس کو اچھا برا نہ سمجھائیں۔ مگر اس کو زندہ رہنے کا حق دیں۔ اس کو گدھا مت بنائیں کہ آپ کہیں تو گھاس چرے، آپ جو بھی بوجھ کہیں وہ ڈھوئے۔ اس سے اس کا بچپنا اس کی اٹھتی جوانی مت چھینیں۔ کل کلاں وہ چھپ کر آپ سے یہ سب کرنے لگا۔ پھر آپ کیا کریں گے

نین بھیا کیا کہنے یہ آپ نے ہمارا پسندیدہ موضوع چُن لیا سچ ہمارے ایک کولیگ خیر سے یہُ تو آپ نے با پ کا حال سنایا ہم نے اللّہُ کی مار سے دونوں ماں باپ اسقدر سنکی دیکھے اور پھر اُنکی تینوں بیٹیاں۔ زندگی عذاب بنائی رکھی دونوں نے مل کے بچیوں کی دو تو اللّہ اللّہ کرکے ڈاکٹر بن گئیں پر تیسری انجئینر تو ضرور بنی مگر ماں باپ کے پالگل پن کی نذر اُسکا بچپن اور لڑکپن دونوں ہوگیا ہم اسکے چشم دید گواہ ہیں۔تیسری پڑھ کر بھی پریشان حال نفسیاتی مریضہ بن گئی۔۔۔
افسوس صد افسُوس اُن ماں باپ پر جو اولاد کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اور اگر کوئی سمجھائے تو اُسے غلط پیرائےمیں لے جاتے ہں سچ بہت دُکھ ہوتا ہے ۔ہم تو گھنٹوں اس بات پر روتے ہں کہ ہم رضا کا مقابلہ کیوں اُس وقت اُسکے کلاس کے اُس بچے سے کرتے تھے جسکے اُس سے دو نمبر زیادہ آ ئے ہوتے تھے ۔کیونکہ یقیناً ہم اُسے بہت تکلیف پہنچاتے تھے illogical comparison کرکے ۔۔اسی لئیے 3 Idiots ہماری All time favourite فلم ہے ۔جب دیکھتے ہیں تو روتے ہیں کہ خاص طور ہم نے دانستگی میں یا نادانستگی میں کیونکہ بیٹا ایک ہی تھا تو توقعات بھی زیادہ تھیں لیکن وہ ہمیشہ کہتا ہے نہیں آپ نے کبھی مجھ پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کیا ۔ اُس نے کہا مجھے انجینر نہیں بننا اکاؤنٹس پڑھنا ہے تو ہم نے فوراً مان لیا پر پھر بھی کبھی دل اُداس ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ صحیح کہا آپ نے خداُرا ان بچوں سے اپنے شوق کی تکمیل کے لئیے ان معصوموں سے انکا بچپن ، اعتماد ،لڑکپن اور جوانی مت چھینیں ۔۔۔۔کیونکہ یہ پھولوں کی طرح ہیں پودوں کی تراش خراش ضرور کریں اُنکو کھلنے میں مدد ضرور دیں۔پر لللُّہ جھٹکوں سے توڑیں نا ورنہ نقصان کا ازالہ ممکن نہیں۔۔۔۔
نین بھیا بے شمار دعائیں ،اسقدر حساس موضوع پر لکھنے کے لئیے۔۔:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
نین بھیا ایک بہترین تحریر ایک انتہائی اہم موضوع پر۔ مجھے امید ہے کہ سوچ کا زاویہ آہستہ آہستہ بدل جائے گا۔۔۔۔ اور بہتری آئے گی۔۔۔۔ ہر ایکشن ری ایکشن کے محرکات ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔۔ گو کہ میں آپکی بات سے اتفاق کرتی ہوں اور میں خود اسی سکول آف تھاٹ سے ہوں کہ بچوں پر تعلیم کو "بوجھ" نہیں بنایا چاہئیے۔۔۔۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایسے والدین خود کیسی ذہنی کیفیت میں ہوں گے جو بچوں پر اتنا پریشر ڈالتے ہوں گے، ہیں تو وہ بھی انسان۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ڈراسٹک شفٹ آف ایرا نے ان کو ایک ایسے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہو جو کہ درحقیقت ایک مقابلہ ہے ہی نہیں۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نین بھیا ایک بہترین تحریر ایک انتہائی اہم موضوع پر۔ مجھے امید ہے کہ سوچ کا زاویہ آہستہ آہستہ بدل جائے گا۔۔۔۔ اور بہتری آئے گی۔۔۔۔ ہر ایکشن ری ایکشن کے محرکات ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔۔ گو کہ میں آپکی بات سے اتفاق کرتی ہوں اور میں خود اسی سکول آف تھاٹ سے ہوں کہ بچوں پر تعلیم کو "بوجھ" نہیں بنایا چاہئیے۔۔۔۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایسے والدین خود کیسی ذہنی کیفیت میں ہوں گے جو بچوں پر اتنا پریشر ڈالتے ہوں گے، ہیں تو وہ بھی انسان۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ڈراسٹک شفٹ آف ایرا نے ان کو ایک ایسے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہو جو کہ درحقیقت ایک مقابلہ ہے ہی نہیں۔۔۔

یہ بات تو بالکل درست کہی!

ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں (چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی)۔

اور والدین یہ سوچتے ہیں کہ معاش کے لئے جو پریشانیاں ہم نے اُٹھائی ہیں وہ ہمارے بچوں کو نہ اُٹھانا پڑ جائیں۔ اور جب یہ سوچ اعتدال کے دائرے سے باہر نکلتی ہے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسلام ہمیں اسی لئے دنیا کی بے وقعتی کا بھی بار بار احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اعتدال کا رستہ اختیار کریں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہترین!

بچوں کو صرف پڑھائی میں ہی کھپا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔
درست بات ہے۔۔۔

ہمارے ہاں تو مسائل یہ ہیں کہ بچوں کے لئے گھر کے نزدیک ڈھنگ کے پارک تک نہیں ہیں۔ جو ہیں وہ انتظامیہ کی عدم توجہ اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ سڑکیں گلیاں اس قابل نہیں ہیں کہ وہاں چہل قدمی تک کی جا سکے۔ بہرکیف جسمانی کھیل، بچوں کی جسمانی افزائش کے لئے بہت ضروری ہیں۔ ہم سب کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
یہ بہت ضروری ہے۔ لاہور میں کرکٹ گراؤنڈز صرف پیسے دے کر میسر آتے ہیں۔ اور بچوں کے پاس کہاں سے آئے اتنے روپے کے بکنگ کروا سکیں۔ جبکہ سوسائٹیز میں اس کا کچھ حال نہیں۔

مزید یہ کہ ہمیں دل سے آپ کی یہ تحریر پسند آئی اور ہم محض اس لئے آپ کی تعریف نہیں کر رہے کہ آپ ہمارے بہت اچھے دوست ہیں اور ہماری روزانہ آپ سے علیک سلیک ہوتی ہے اور یہ کہ ہم کسی بھی قسم کی "انجمن" کے رُکن نہیں ہیں۔ اور نہ ہم آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ بدلے میں ہماری کسی تحریر ی حرکت کی پذیرائی کریں۔ :)
ہاہاہاہاہاہاااااا۔۔۔۔۔ کوچہ تعریفاں بغیر کسی انجمن کی رکنیت کے۔۔۔۔ جلد ہی بنیاد رکھی جائے گی۔۔۔ آپ کی محفل میں۔۔۔۔ بکنگ کروائیں :devil3:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھیا کیا کہنے یہ آپ نے ہمارا پسندیدہ موضوع چُن لیا سچ ہمارے ایک کولیگ خیر سے یہُ تو آپ نے با پ کا حال سنایا ہم نے اللّہُ کی مار سے دونوں ماں باپ اسقدر سنکی دیکھے اور پھر اُنکی تینوں بیٹیاں۔ زندگی عذاب بنائی رکھی دونوں نے مل کے بچیوں کی دو تو اللّہ اللّہ کرکے ڈاکٹر بن گئیں پر تیسری انجئینر تو ضرور بنی مگر ماں باپ کے پالگل پن کی نذر اُسکا بچپن اور لڑکپن دونوں ہوگیا ہم اسکے چشم دید گواہ ہیں۔تیسری پڑھ کر بھی پریشان حال نفسیاتی مریضہ بن گئی۔۔۔
افسوس صد افسُوس اُن ماں باپ پر جو اولاد کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اور اگر کوئی سمجھائے تو اُسے غلط پیرائےمیں لے جاتے ہں سچ بہت دُکھ ہوتا ہے ۔ہم تو گھنٹوں اس بات پر روتے ہں کہ ہم رضا کا مقابلہ کیوں اُس وقت اُسکے کلاس کے اُس بچے سے کرتے تھے جسکے اُس سے دو نمبر زیادہ آ ئے ہوتے تھے ۔کیونکہ یقیناً ہم اُسے بہت تکلیف پہنچاتے تھے illogical comparison کرکے ۔۔اسی لئیے 3 Idiots ہماری All time favourite فلم ہے ۔جب دیکھتے ہیں تو روتے ہیں کہ خاص ہم نے دانستگی میں یا نادانستگی میں کیونکہ بیٹا ایک ہی تھا تو توقعات بھی زیادہ تھیں لیکن وہ ہمیشہ کہتا ہے نہیں آپ نے کبھی مجھ پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کیا ۔ اُس نے کہا مجھے انجینر نہیں بننا اکاؤنٹس پڑھنا ہے تو ہم نے فوراً مان لیا پر پھر بھی کبھی دل اُداس ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ صحیح کہا آپ نے خداُرا ان بچوں سے اپنے شوق کی تکمیل کے لئیے ان معصوموں سے انکا بچپن ، اعتماد ،لڑکپن اور جوانی مت چھینیں ۔۔۔۔کیونکہ یہ پھولوں کی طرح ہیں پودوں کی تراش خراش ضرور کریں اُنکو کھلنے میں مدد ضرور دیں۔پر لللُّہ جھٹکوں سے توڑیں نا ورنہ نقصان کا ازالہ ممکن نہیں۔۔۔۔
نین بھیا بے شمار دعائیں ،اسقدر حساس موضوع پر لکھنے کے لئیے۔۔:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
کمال کیا۔۔۔ درستی کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔۔۔ جب بھی احساس ہوجائے تب ہی فورا سدھار کر لینا چاہیے۔۔۔ اپیا آپ نے اپنی زندگی کے حوالے سے کمال بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ اللہ تعالی آپ پر رحمتیں نازل کرے۔ اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھیا ایک بہترین تحریر ایک انتہائی اہم موضوع پر۔ مجھے امید ہے کہ سوچ کا زاویہ آہستہ آہستہ بدل جائے گا۔۔۔۔ اور بہتری آئے گی۔۔۔۔ ہر ایکشن ری ایکشن کے محرکات ہوتے ہیں۔۔۔ انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔۔۔۔ گو کہ میں آپکی بات سے اتفاق کرتی ہوں اور میں خود اسی سکول آف تھاٹ سے ہوں کہ بچوں پر تعلیم کو "بوجھ" نہیں بنایا چاہئیے۔۔۔۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایسے والدین خود کیسی ذہنی کیفیت میں ہوں گے جو بچوں پر اتنا پریشر ڈالتے ہوں گے، ہیں تو وہ بھی انسان۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ڈراسٹک شفٹ آف ایرا نے ان کو ایک ایسے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہو جو کہ درحقیقت ایک مقابلہ ہے ہی نہیں۔۔۔
اصل میں اس بھیڑ میں "نمبر نمبر" کی آواز نے بہت ستم ڈھایا ہے۔ دوسرا اساتذہ بھی ٹیوشن وغیرہ کے چکر میں اس کو بڑھاوا دے دیتے ہیں۔
کسی کی کیا بات کروں۔۔۔۔ جب عشبہ نرسری میں تھی۔۔۔ اس کی ٹیچر نے مجھے کہا اس کو ٹیوشن رکھوا دیں۔ میں نے اس کو کہا۔۔۔ آپ کے پاس ہی نہ رکھوا دوں۔۔۔۔ نرسری کی طالبہ ہے۔ گھر جاتی ہے۔ قاری صاحب آجاتے ہیں۔ ایک شام بچتی ہے۔ وہ بھی ٹیوشن کی نذر کر دوں گا تو کھیلے گی کس وقت۔۔۔ پرنسپل کہتی باقی بچوں کے والدین بھی ان کو پڑھاتے ہیں ٹیوشنز۔۔۔ مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ میں نے کہا۔۔۔ وہ گدھوں کے بچے ہیں۔ یہ ذوالقرنین کی بچی ہے اور انسان ہی رہے گی۔۔۔ اس سکول سے ہٹوا لیا میں نے۔۔۔ اب الحمداللہ ٹھیک جا رہی ہے۔۔۔ مجھے کون سا اس سے ون ٹو کلاس میں راکٹ بنوانے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ بات تو بالکل درست کہی!

ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں (چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی)۔

اور والدین یہ سوچتے ہیں کہ معاش کے لئے جو پریشانیاں ہم نے اُٹھائی ہیں وہ ہمارے بچوں کو نہ اُٹھانا پڑ جائیں۔ اور جب یہ سوچ اعتدال کے دائرے سے باہر نکلتی ہے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسلام ہمیں اسی لئے دنیا کی بے وقعتی کا بھی بار بار احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اعتدال کا رستہ اختیار کریں۔
حق بات کہی آپ نے احمد بھائی۔۔۔ اور ہم بھی یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم کو آپ کی بات اچھی لگی اس لیے ہی یہ نعرہ بلند کیا۔ نہ کہ بقا برائے انجمن باہمی ستائش کی رکنیت کے زیر اثر
 

جاسمن

لائبریرین
بہت بہترین تحریر ہے۔ میرے دل کی آواز۔ واقعی ہمارے ہاں اکثر والدین یہی رویے اپناتے ہیں۔ بچوں کو اپنی جاگیریں سمجھتے ہیں۔ مقابلہ کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔
تھری ایڈیٹس سے بہت پہلے سے میری سوچ تھی کہ اپنی پسند کے مضامین کا چناؤ کرنا چاہیے۔ لیکن کچھ ایسے بھی اساتذہ تھے اور ہیں جو ایسے مضامین رکھوانا چاہتے ہیں جن میں مارکس آتے ہیں۔
پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔
تفریح بالکل ختم۔ پھر مقابلہ کرنا۔۔۔ ایک ماں کو دیکھا کہ اپنے ننھے منے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ رٹا لگواتی جا رہی ہیں۔ بابا! اسے ارد گرد دیکھنے دیں۔ مزے کرنے دیں۔
نتیجہ کے دن اساتذہ اور والدین کی ملاقات میں کئی بار دیکھا کہ ایک دو نمبر فلاں کے زیادہ اور ہمارے بچے کے کم تو شامت آ گئی بچے کی اور اسی وقت سب کے سامنے۔
بچے کی بھی عزت نفس ہے۔۔۔ اس کی بڑے پرواہ نہیں کرتے۔
نیرنگ نے آنکھوں دیکھے واقعات لکھے ہیں اور یہ سب ہم بھی دیکھتے رہتے ہیں۔
میں تو اپنے بچوں کو خوب سیر کرواتی رہتی ہوں۔ ڈھیروں کتابیں لے کے دیتی ہوں الحمدللہ۔ بورڈ گیمز تو محمد اب تک آن لائن منگواتا اور مقامی دکانوں سے بھی لیتا رہتا ہے۔ایمی گڑیا پٹولے ابھی بھی کھیلتی ہے۔ گھڑسواری، تیراکی، فٹ بال، تیکوانڈو۔۔۔ بہت کچھ کھیلا۔ کرونا کے باعث اب باہر کم جاتے ہیں لیکن ہر اتوار کو بورڈ گیمز کے لئے محمد کے کئی دوست گھر آتے ہیں۔صبح سے دوپہر تک کھیلتے ہیں۔
میں اچھے دوست بنانے کے حق میں بھی ہوں۔ دوستوں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے! میری بیٹی کی بھی سہیلیاں ہیں اور بیٹے کے بھی ماشاءاللہ بہت دوست ہیں۔
جب میرے بچے چھوٹے تھے تو میں ان کے ساتھ کوکلا چھپاکی، کیکلی، ریل گاڑی، پتنگ بازی اور بھی کئی کھیل کھیلتی تھی۔ اب بھی ہم کبھی کبھی کھیلتے ہیں کوئی نہ کوئی کھیل۔
کچھ ڈرامے میں اور بیٹی اکٹھے دیکھتے ہیں۔ بازار جانا ہو تو میری بیٹی کے ساتھ خریداری میں ہم دونوں کو مزہ آتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی سہیلیاں ہیں۔
ہم نے بچوں کے چھوٹے ہوتے گڈی گڑیا کی شادیاں بھی کی ہیں۔

لیکن شاید ہم بھی کہیں غلطیاں کرتے ہیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ بچوں بڑوں سب کی قسمت اچھی کرے۔ سب کے لئے بہترین فیصلے کرے۔ ہمیں بڑی غلطیوں سے پناہ دے اور ہم سے کچھ بھی غلطی یا خطا ہو جائے تو نتائج اچھے ہی نکلیں۔ پیارا اللہ ہم پہ ہمیشہ لطف و کرم کرے۔ ہمیشہ مہربان رہے۔ آمین!
ثم آمین!
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
اصل میں اس بھیڑ میں "نمبر نمبر" کی آواز نے بہت ستم ڈھایا ہے۔ دوسرا اساتذہ بھی ٹیوشن وغیرہ کے چکر میں اس کو بڑھاوا دے دیتے ہیں۔
کسی کی کیا بات کروں۔۔۔۔ جب عشبہ نرسری میں تھی۔۔۔ اس کی ٹیچر نے مجھے کہا اس کو ٹیوشن رکھوا دیں۔ میں نے اس کو کہا۔۔۔ آپ کے پاس ہی نہ رکھوا دوں۔۔۔۔ نرسری کی طالبہ ہے۔ گھر جاتی ہے۔ قاری صاحب آجاتے ہیں۔ ایک شام بچتی ہے۔ وہ بھی ٹیوشن کی نذر کر دوں گا تو کھیلے گی کس وقت۔۔۔ پرنسپل کہتی باقی بچوں کے والدین بھی ان کو پڑھاتے ہیں ٹیوشنز۔۔۔ مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ میں نے کہا۔۔۔ وہ گدھوں کے بچے ہیں۔ یہ ذوالقرنین کی بچی ہے اور انسان ہی رہے گی۔۔۔ اس سکول سے ہٹوا لیا میں نے۔۔۔ اب الحمداللہ ٹھیک جا رہی ہے۔۔۔ مجھے کون سا اس سے ون ٹو کلاس میں راکٹ بنوانے ہیں۔
یہی بات۔۔۔۔ یہ قصے اب ہمیں سمجھ آنے لگے ہیں کہ یہ سب پیسے کا کھیل ہے، اس چکر میں بس ایک دوڑ ہے جس میں بچوں کو دوڑنا ہے۔۔۔۔ آپ نے یہ بات سمجھی اور سٹینڈ لیا۔۔۔۔ جبکہ آپ سے پچھلی نسل، جس کے لئیے یہ سب نیا تھا کیونکہ اس سے پہلے ٹیوشنز اکیڈمیز کا کانسیپٹ ہی نہیں تھا وہ بھولے بھالے ان عجیب و غریب باتوں میں آ جاتے ہیں۔۔۔ پھر معاملات وہ رخ اختیار کرتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔۔۔۔ یو نو مجھے لگتا ہے اگر آپ کو مجھے اور اور لوگوں کو ان باتوں کا شعور ہے تو ہمیں بہت نرمی اور فہم سے ان پیرنٹس کی مدد کرنی چاہئیے جو ان چیزوں کو ایسے نہیں سمجھتے۔۔۔۔ مطلب، کون سے ماں باپ ہوں گے جنہیں اپنا بچہ عزیز نہ ہو گا۔ بات کرنے سے معاملات سدھرتے ہیں، میں نے یہ جانا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
یہ بات تو بالکل درست کہی!

ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں (چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی)۔

اور والدین یہ سوچتے ہیں کہ معاش کے لئے جو پریشانیاں ہم نے اُٹھائی ہیں وہ ہمارے بچوں کو نہ اُٹھانا پڑ جائیں۔ اور جب یہ سوچ اعتدال کے دائرے سے باہر نکلتی ہے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسلام ہمیں اسی لئے دنیا کی بے وقعتی کا بھی بار بار احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اعتدال کا رستہ اختیار کریں۔
بہت اعلیٰ سب سے افسوس یہ ہوتا ہے کہ
اصل میں اس بھیڑ میں "نمبر نمبر" کی آواز نے بہت ستم ڈھایا ہے۔ دوسرا اساتذہ بھی ٹیوشن وغیرہ کے چکر میں اس کو بڑھاوا دے دیتے ہیں۔
کسی کی کیا بات کروں۔۔۔۔ جب عشبہ نرسری میں تھی۔۔۔ اس کی ٹیچر نے مجھے کہا اس کو ٹیوشن رکھوا دیں۔ میں نے اس کو کہا۔۔۔ آپ کے پاس ہی نہ رکھوا دوں۔۔۔۔ نرسری کی طالبہ ہے۔ گھر جاتی ہے۔ قاری صاحب آجاتے ہیں۔ ایک شام بچتی ہے۔ وہ بھی ٹیوشن کی نذر کر دوں گا تو کھیلے گی کس وقت۔۔۔ پرنسپل کہتی باقی بچوں کے والدین بھی ان کو پڑھاتے ہیں ٹیوشنز۔۔۔ مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ میں نے کہا۔۔۔ وہ گدھوں کے بچے ہیں۔ یہ ذوالقرنین کی بچی ہے اور انسان ہی رہے گی۔۔۔ اس سکول سے ہٹوا لیا میں نے۔۔۔ اب الحمداللہ ٹھیک جا رہی ہے۔۔۔ مجھے کون سا اس سے ون ٹو کلاس میں راکٹ بنوانے ہیں۔
واہ واہ شاباش “یہ ذوالقرنین کی بچی ہے اور انسان ہی رہے گی۔۔۔ اس سکول سے ہٹوا لیا میں نے۔۔۔ اب الحمداللہ ٹھیک جا رہی ہے۔۔۔ مجھے کون سا اس سے ون ٹو کلاس میں راکٹ بنوانے ہیں”اصل بات یہی ہے جو سمجھ کی ہے ۔پر افسوس تو یہ ہے کہ بھیا ہم نے اپنے بچوں کواُولادِ آدم ہی سمجھنا چھوڑ دیا ہے ۔۔اور دوسری طرف جہاں ماں باپ دونوں لائق اور خیر سے نامور بھی ہیں وہاں پریشر اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور وہی اُن بچوں کے زوال کا باعث ہے ۔۔۔۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ بات تو بالکل درست کہی!

ہم سب ہی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مسابقتی دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں (چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی)۔

اور والدین یہ سوچتے ہیں کہ معاش کے لئے جو پریشانیاں ہم نے اُٹھائی ہیں وہ ہمارے بچوں کو نہ اُٹھانا پڑ جائیں۔ اور جب یہ سوچ اعتدال کے دائرے سے باہر نکلتی ہے تو ہم افراط و تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسلام ہمیں اسی لئے دنیا کی بے وقعتی کا بھی بار بار احساس دلاتا ہے اور ہمیں یہ بھی کہتا ہے کہ ہم اعتدال کا رستہ اختیار کریں۔
اب آپ یہ ہی دیکھیے کہ جب پاکستان میں یہ انٹرنیٹ وغیرہ عام ہو رہا تھا تو اسے سیدھی سیدھی بے راہ روی سمجھا جاتا تھا، والدین اس سے خوف کھاتے تھے جیسے یہ کوئی عفریت ہو جو ان کے بچوں کو نگل جائے گا۔۔۔۔ اب دیکھیے، کلاسز ہی آنلائن ہو رہی ہیں، باقی سب چھوڑیے! مطلب ہوں گے چند جو انتہائی خراب دماغ کے ہوں گے مگر عمومی طور پر لوگ لاعلمی میں مارے جاتے ہیں۔۔۔۔ بھلا والدین سے بڑھ کر بھی کوئی بچے کو چاہ سکتا ہے؟
 

ماہی احمد

لائبریرین
بہت بہترین تحریر ہے۔ میرے دل کی آواز۔ واقعی ہمارے ہاں اکثر والدین یہی رویے اپناتے ہیں۔ بچوں کو اپنی جاگیریں سمجھتے ہیں۔ مقابلہ کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں۔
تھری ایڈیٹس سے بہت پہلے سے میری سوچ تھی کہ اپنی پسند کے مضامین کا چناؤ کرنا چاہیے۔ لیکن کچھ ایسے بھی اساتذہ تھے اور ہیں جو ایسے مضامین رکھوانا چاہتے ہیں جن میں مارکس آتے ہیں۔
پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔ پڑھو۔۔۔
تفریح بالکل ختم۔ پھر مقابلہ کرنا۔۔۔ ایک ماں کو دیکھا کہ اپنے ننھے منے بچے کو سکول چھوڑنے جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ رٹا لگواتی جا رہی ہیں۔ بابا! اسے ارد گرد دیکھنے دیں۔ مزے کرنے دیں۔
نتیجہ کے دن اساتذہ اور والدین کی ملاقات میں کئی بار دیکھا کہ ایک دو نمبر فلاں کے زیادہ اور ہمارے بچے کے کم تو شامت آ گئی بچے کی اور اسی وقت سب کے سامنے۔
بچے کی بھی عزت نفس ہے۔۔۔ اس کی بڑے پرواہ نہیں کرتے۔
نیرنگ نے آنکھوں دیکھے واقعات لکھے ہیں اور یہ سب ہم بھی دیکھتے رہتے ہیں۔
میں تو اپنے بچوں کو خوب سیر کرواتی رہتی ہوں۔ ڈھیروں کتابیں لے کے دیتی ہوں الحمدللہ۔ بورڈ گیمز تو محمد اب تک آن لائن منگواتا اور مقامی دکانوں سے بھی لیتا رہتا ہے۔ایمی گڑیا پٹولے ابھی بھی کھیلتی ہے۔ گھڑسواری، تیراکی، فٹ بال، تیکوانڈو۔۔۔ بہت کچھ کھیلا۔ کرونا کے باعث اب باہر کم جاتے ہیں لیکن ہر اتوار کو بورڈ گیمز کے لئے محمد کے کئی دوست گھر آتے ہیں۔صبح سے دوپہر تک کھیلتے ہیں۔
میں اچھے دوست بنانے کے حق میں بھی ہوں۔ دوسروں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے! میری بیٹی کی بھی سہیلیاں ہیں اور بیٹے کے بھی ماشاءاللہ بہت دوست ہیں۔
جب میرے بچے چھوٹے تھے تو میں ان کے ساتھ کوکلا چھپاکی، کیکلی، ریل گاڑی، پتنگ بازی اور بھی کئی کھیل کھیلتی تھی۔ اب بھی ہم کبھی کبھی کھیلتے ہیں کوئی نہ کوئی کھیل۔
کچھ ڈرامے میں اور بیٹی اکٹھے دیکھتے ہیں۔ بازار جانا ہو تو میری بیٹی کے ساتھ خریداری میں ہم دونوں کو مزہ آتا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی سہیلیاں ہیں۔
ہم نے بچوں کے چھوٹے ہوتے گڈی گڑیا کی شادیاں بھی کی ہیں۔

لیکن شاید ہم بھی کہیں غلطیاں کرتے ہیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ بچوں بڑوں سب کی قسمت اچھی کرے۔ سب کے لئے بہترین فیصلے کرے۔ ہمیں بڑی غلطیوں سے پناہ دے اور ہم سے کچھ بھی غلطی یا خطا ہو جائے تو نتائج اچھے ہی نکلیں۔ پیارا اللہ ہم پہ ہمیشہ لطف و کرم کرے۔ ہمیشہ مہربان رہے۔ آمین!
ثم آمین!
آپ کے اس مراسلے سے میں نے بہت کچھ نوٹ کر لیا ہے آئندہ کے لئیے:)
بہت شکریہ یہ سب شئیر کرنے کا:)
 

ماہی احمد

لائبریرین
۔۔اور دوسری طرف جہاں ماں باپ دونوں لائق اور خیر سے نامور بھی ہیں وہاں پریشر اور بھی بڑھا دیتے ہیں اور وہی اُن بچوں کے زوال کا باعث ہے ۔۔۔۔
آپ کی اس بات سے مجھے یہ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی یہ بات یاد آ گئی (بہت معذرت اگر یہ لڑی اس کے لئیے نامناسب ہے مگر مجھ سے رہا نہ گیا).:)
 

سیما علی

لائبریرین
لیکن شاید ہم بھی کہیں غلطیاں کرتے ہیں۔ بس اللہ سے دعا ہے کہ بچوں بڑوں سب کی قسمت اچھی کرے۔ سب کے لئے بہترین فیصلے کرے۔ ہمیں بڑی غلطیوں سے پناہ دے اور ہم سے کچھ بھی غلطی یا خطا ہو جائے تو نتائج اچھے ہی نکلیں۔ پیارا اللہ ہم پہ ہمیشہ لطف و کرم کرے۔ ہمیشہ مہربان رہے۔ آمین!
ثم آمین!
جاسمن بٹیا!!!!!
سب سے بڑی دعا یہی ہے بس جو پریشانیاں ہم نے دیکھیں ہیں اللّہ بچوں بڑوں کسی کو نہ دیکھائے لیکن خاص طور پر ہمارے بچوں کو کیونکہ ہم اُنکو دیکھ کے جیتے ہیں۔۔بے شک وہ رحمنٰ و رحیم ہے اُس بڑھ کے نہیں کوئی ہمارا حا ل جاننے والا ۔مالک ہم سب کے لئیے آسانیاں عطا فرمائے آمین الہی آمین:in-love:
 

محمداحمد

لائبریرین
میرے نزدیک بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
اس میں بہت مسائل ہیں اور بے حد باریکیاں ہیں۔ بچوں کی اور ماں باپ کی نفسیات دونوں کا اس میں بے حد دخل ہے۔ پھر محدود وسائل، ہمت اور استطاعت کے ساتھ درست فیصلے کرنا اور اُن پر عملدرامد کرنا یا کروانا بے حد مشکل کام ہے۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
جاسمن بٹیا!!!!!
سب سے بڑی دعا یہی ہے بس جو پریشانیاں ہم نے دیکھیں ہیں اللّہ بچوں بڑوں کسی کو نہ دیکھائے لیکن خاص طور پر ہمارے بچوں کو کیونکہ ہم اُنکو دیکھ کے جیتے ہیں۔۔بے شک وہ رحمنٰ و رحیم ہے اُس بڑھ کے نہیں کوئی ہمارا حا ل جاننے والا ۔مالک ہم سب کے لئیے آسانیاں عطا فرمائے آمین الہی آمین:in-love:
آمین!
 
Top