خرم شہزاد خرم

لائبریرین
گرمیوں کی ایک رات تھی ہم سب ایک عزیز کی شادی پر گے ہوئے تھے جہاں سے واپسی بہت لیٹ ہوئی گھر پہنچے تو بجلی نہیں تھی۔ سب گرمی ختم کرے کے لیے فریج سے پانی کی بوتل نکالتےاور پانی پیتے۔ میں ساتھ بیٹھا یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ جو بھی فریج کا دروازہ کھولتا اس کے ایک ہاتھ میں موم بتی ہوتی اور دوسرے ہاتھ سے فریج کا درازہ کھولتا پھر موم بتی فریج کے اندر رکھتا اور پانی کی بوتل نکال کر دروازہ بند کر دیتا۔ میں نے سوچا اس طرح سب کو پریشانی ہو رہی ہے اور ویسے بھی میں بہت بڑا سائنس دان بھی تھا تو میں نے ایک موم بتی جلا کر فریج کے اندر ہی رکھ دی اب جو دروازہ کھولتا پہلے سے ہی فریج میں روشنی ہوتی اور پانی کی بوتل کال کر فریج بند کر دیتا۔ جب سب نے پانی پی لیا اور آرام سے بیٹھ گے کچھ ہی دیر میں جلنے کی بو آنے لگی بڑے بھائی نے کہا کہ جلنے کی بو کہا سے آ رہی ہے پھر اچانک سے چھوٹے بھائی کو یاد آیا فریج کے اندر جو موم بتی رکھی تھی اس کو دیکھتے ہیں جب دیکھا تو موم بتی سے فریج کی چھت پگلنا شروع ہو گئی ہے اور اگر کچھ دیر ہو جاتی تو فریج کی پلاسٹک کو آگ لگ جاتی۔ یہ کیس ابو جی کے پاس گیا پھر اس کے بعد تاریخ خاموش ہے اور راقم کے علاوہ اس کے اثرات کہیں بھی موجود نہیں ہیں:LOL:
 

سیما علی

لائبریرین
گرمیوں کی ایک رات تھی ہم سب ایک عزیز کی شادی پر گے ہوئے تھے جہاں سے واپسی بہت لیٹ ہوئی گھر پہنچے تو بجلی نہیں تھی۔ سب گرمی ختم کرے کے لیے فریج سے پانی کی بوتل نکالتےاور پانی پیتے۔ میں ساتھ بیٹھا یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ جو بھی فریج کا دروازہ کھولتا اس کے ایک ہاتھ میں موم بتی ہوتی اور دوسرے ہاتھ سے فریج کا درازہ کھولتا پھر موم بتی فریج کے اندر رکھتا اور پانی کی بوتل نکال کر دروازہ بند کر دیتا۔ میں نے سوچا اس طرح سب کو پریشانی ہو رہی ہے اور ویسے بھی میں بہت بڑا سائنس دان بھی تھا تو میں نے ایک موم بتی جلا کر فریج کے اندر ہی رکھ دی اب جو دروازہ کھولتا پہلے سے ہی فریج میں روشنی ہوتی اور پانی کی بوتل کال کر فریج بند کر دیتا۔ جب سب نے پانی پی لیا اور آرام سے بیٹھ گے کچھ ہی دیر میں جلنے کی بو آنے لگی بڑے بھائی نے کہا کہ جلنے کی بو کہا سے آ رہی ہے پھر اچانک سے چھوٹے بھائی کو یاد آیا فریج کے اندر جو موم بتی رکھی تھی اس کو دیکھتے ہیں جب دیکھا تو موم بتی سے فریج کی چھت پگلنا شروع ہو گئی ہے اور اگر کچھ دیر ہو جاتی تو فریج کی پلاسٹک کو آگ لگ جاتی۔ یہ کیس ابو جی کے پاس گیا پھر اس کے بعد تاریخ خاموش ہے اور راقم کے علاوہ اس کے اثرات کہیں بھی موجود نہیں ہیں:LOL:
بہت خوب اثرات اب تک ہیں کہ نہیں؟؟؟؟
غضب ہے فریج کی چھت پگھل گئی:LOL:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کمال ہےسید عمران صاحب۔۔۔ کمال۔ بہت ہی اعلی اور عمدہ۔۔۔ آپ کے انداز تحریر کے کیاکہنے۔۔۔ شکرگزار ہوں کہ یہاں کا راستہ دکھلایا۔۔۔۔ :bighug::bighug::bighug:
 

سید عمران

محفلین
نانا نانی کو اچانک لگا چھوٹے ماموں اکیلے رہ گئے ہیں۔ فیصلہ ہوا ان کی شادی کردی جائے۔سارا خاندان اکٹھا ہوگیا۔ زور و شور سے لڑکیاں دیکھی جانے لگیں۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا کہ اماں، نانی، نعمت خالہ اور بڑی ممانی سویرے کہیں جا نہ رہی ہوں اور سر شام کہیں سے آ نہ رہی ہوں۔
اُس دن نعمت خالہ نے ممانی کو فون کیا:
’’بھابھی جان کل صبح لڑکی دیکھنے جانا ہے۔‘‘
ممانی کی طبیعت ناساز تھی، ناگواری سے بولیں:
’’تمہیں تفریح کا اچھا بہانہ مل گیا، کھایا پیا، باتیں بنائیں اور ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس آگئیں۔ مجھ سے مزید یہ گورکھ دھندا نہیں ہوتا، اب جلدی سے کوئی لڑکی پسند کرو اور جان چھڑاؤ۔‘‘
نعمت خالہ نے فون بند کرنے سے پہلے ممانی کو ساتھ لے جانا بندکرنے کا فیصلہ کرلیا۔اب ممانی کو ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔
نعمت خالہ کی تفریح جاری تھی، لڑکیاں اسی زور و شور سے دیکھی جانے لگیں۔
اس روز خوب گھٹا چھائی ہوئی تھی۔آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور زمین پر پانی برس رہا تھا۔ گُل آنٹی کا معمول تھا جہاں بارش شروع ہوئی تیز آواز سے ڈیک پر گانا لگادیا، موسم ہے عاشقانہ۔گانے کی آواز سن کر ستّر سالہ بخاری صاحب پر عاشقانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے بڑا سا نیکر پہن کر ٹیرس پر آجاتے۔محلہ کی خواتین جو بارش میں کپڑے سکھانے کے بہانے لان میں جمع ہوکر نہا رہی ہوتیں دُم دبا کے گھروں میں چھپ جاتیں۔

کافی دیر سے دروازہ کی گھنٹی بج رہی تھی جو موسم ہے عاشقانہ کی تیز آواز میں سنائی نہیں دی۔ پتا اس وقت چلا جب دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا۔ ہم دیر تک بستر پر پڑے رہے اس آس پر کہ کوئی اور دروازہ کھولے، لیکن کوئی اور بھی اسی آس میں بستر پر پڑے تھے۔ ناچار ہمیں ہی دروازہ تک جانا پڑا۔ دروازہ کھولا تو سر سے پانی ٹپکاتی دانش کی امی ہمیں سائیڈ دے کر اندر آگئیں:
’’امی کہاں ہیں؟‘‘
’’ شاید آپ کو یاد نہیں آپ ہمارے گھر میں ہیں۔‘‘ان کی معلومات میں اضافہ کیا گیا۔
’’تو۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ تیز اور خونخوار نظروں سے گھورا۔
’’مطلب آپ کی امی ہمارے گھر کیا کرنے آئیں گی۔ اور اگر آئی بھی ہوں تو ہمیں نہیں معلوم اس وقت کہاں ہیں۔‘‘
’’تمہاری امی کا پوچھا ہے۔‘‘ لہجہ میں غراہٹ تھی۔ ہم نے گھبرا کر انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اماں کو بلانے چلے گئے۔
اگلی صبح سویرے سویرے اماں کی تیاریاں تیزی سے جاری تھیں:
’’آج کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ ہمارے پوچھنے پر تیزی تیزی بتانے لگیں:
’’دانش کی امی نے لڑکی بتائی ہے، امی جان اور نعمت خالہ کے ساتھ جانا ہے۔اس سے پہلے کہ پھر بارش شروع ہو میں نکلتی ہوں۔ گھر کا دھیان رکھنا، کوئی گھنٹی بجائے تو دروازہ نہ کھولنا، سودے کا سامان آچکا ہے، جمعدار جاچکا ہے، ماسی کو منع کردیا ہے کہ آج نہ آئے، اور ہاں کوئی گھر سے باہر نہ جائے۔۔۔۔‘‘
جاتے جاتے بھی اماں کی آواز دیر تک آتی رہی۔ ہم نے کچھ سنی کچھ ان سنی کی۔ وہی یکسانیت سے بھرپور بور ٹاپک۔ ہم نے بے چینی سے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر نعمت خالہ کے گھر فون ملا دیا:
’’ہیلو!‘‘ گڑیا تھی۔
’’نعمت خالہ گئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ہاں خالہ جان اور نانی جان کے ساتھ گئی ہیں، آج پھر لڑکی دیکھنی ہے۔‘‘ آواز سے پتا چل رہا تھا منہ بنانے کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔
’’فلسفی اور چیتا ہیں؟‘‘
’’ صبح سے بارش ہورہی تھی، اسکول وین نہیں آئی، ظاہر ہے گھر پر ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا ہم آرہے۔‘‘
’’آجاؤ۔‘‘
فون بند کرکے ہم نے گھر کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد نعمت خالہ کے گھر تھے۔سب نے صبح سویرے ناشتہ کرلیا تھا، اب بھوک لگ رہی تھی۔
’’کھانے میں کیا ہے؟‘‘ ہم نے کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد پوچھا۔
’’بریڈ، جام، بٹر، بالائی۔‘‘ گڑیا فریج میں جھانک کر بتانے لگی۔
’’افوہ، یہ سب تو ناشتہ میں کھالیا۔لنچ کے لیے کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ گڑیا نے بے زاری سے منہ بنایا۔
’’عجیب لڑکی ہو، تمہیں کچھ پکانا نہیں آتا۔‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’یہ لڑکی کے نام پر دھبا ہے۔‘‘ چیتا غرایا۔
’’میں اس موضوع پر کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘ فلسفی نے متانت سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ ہم نے اور چیتے نے بیک وقت کہا۔
’’کیوں کہ مجھے جو کہنا ہے وہ اسے پہلے سے معلوم ہے۔‘‘ لہجہ میں مزید متانت اتر آئی۔
گڑیا کے منہ بنانے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔
’’جتنی محنت تم منہ بنانے میں کرتی ہو، کاش اتنی محنت کچھ پکانے میں کرلیتیں۔‘‘ فلسفی نے یخ بستہ آہ بھر کر آسمان کی جانب دیکھا۔
گڑیا منہ بناتی ہوئی اٹھی اور پیر پٹختی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
’’یہ کچن میں بلا وجہ گئی ہے یا کچھ پکانے؟‘‘ ہم نے مشکوک لہجہ میں پوچھا۔ ہمارے شک نے دونوں کو مشکوک کردیا۔
’’جھانک کر دیکھتے ہیں۔‘‘ فلسفی نے کہا اور تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔
سب لان سے ہوکر پچھلی جانب گئے اور کچن کی کھڑی سے جھانکنے لگے۔
گڑیا کچن میں لگے کارڈ لیس فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سب کو پتا چل گیا کہ دوسری طرف نورین ہے۔
’’پکا پتا ہے نا یہی چیزیں ڈلتی ہیں؟‘‘ گڑیا کے لہجہ میں بے یقینی کا عالم تھا۔
’’یہ چپکے چپکے نورین سے کوئی ترکیب پوچھ رہی ہے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی، سب نے تائید میں سر ہلادئیے۔
ہم بڑے لاؤنج میں آگئے۔ دیکھتے ہیں گڑیا کیا گل کھلاتی ہے،آج ہمیں کیا پکا کر کھلاتی ہے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ کچن سے برتن گرنے کی زور دار آواز آئی۔ ساتھ ہی گڑیا چیخنے لگی۔ سب کچن کی طرف دوڑے۔ دیکھا کوکر زمین پر گرا ہوا ہے، اس میں سے رہ رہ کر آمیزہ نما کوئی شے بہہ بہہ کر باہر آرہی ہے۔گڑیا ایک سائیڈ پر کھڑی خوفزدہ انداز میں چیخ رہی ہے۔
’’یہ کیا تماشا ہے؟‘‘ فلسفی تلملا یا۔
’’تماشا کیا مطلب؟ایک تو تم لوگوں کے لیے کچھ بناؤ اوپر سے باتیں بھی سناؤ۔‘‘ گڑیا غرائی۔ فلسفی کا لہجہ سن کر اس کے خوف نے غصہ کا روپ دھار لیا تھا۔
’’اس میں کیا پکا رہی تھیں؟‘‘ فلسفی تھوڑا نرم پڑا۔
’’مجھے کیا پتا کیا پک رہا تھا؟‘‘ گڑیا نے کندھے اچکائے۔
’’مطلب؟‘‘ اس کی بات سن کر ہمیں حیرت ہوئی۔
’’مطلب یہ کہ جب پکتا تب معلوم ہوتا یہ کیا چیز ہے۔‘‘ رسان سے بتایا گیا۔
’’مطلب یہ کہ معلوم ہی نہیں کیا پک رہا ہے اور کیا پکا رہی ہو؟‘‘ فلسفی اسے پکانے لگا۔
’’کیا مطلب مطلب لگا رکھا ہے، اب خاموش ہوجاؤ سب۔‘‘ چیتا جھنجھلا گیا۔ پھر گڑیا سے مخاطب ہوا:
’’جلدی بتاؤ اس میں کیا تھا؟‘‘
’’بتایا نا کہ کچھ معلوم نہیں اس کا کیا نام تھا۔ نورین کہہ رہی تھی جب پک جائے تب اچھا سا نام رکھ لینا۔‘‘
سب سمجھ گئے نورین کو بھی نہیں معلوم تھا کیا پکایا جائے۔ الٹا سیدھا جو سمجھ میں آیا گڑیا کو بتایا اور جلدی سے ٹہلایا۔ گڑیا بھی نورین کی چالبازی سمجھ گئی۔ تیزی سے فون کی جانب لپکی۔
سب سمجھ گئے تھے، آج گڑیا کے ہاتھوں نورین کا پکنا پکا ہے!!!
 
آخری تدوین:
نانا نانی کو اچانک لگا چھوٹے ماموں اکیلے رہ گئے ہیں۔ فیصلہ ہوا ان کی شادی کردی جائے۔سارا خاندان اکٹھا ہوگیا۔ زور و شور سے لڑکیاں دیکھی جانے لگیں۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا کہ اماں، نانی، نعمت خالہ اور بڑی ممانی سویرے کہیں جا نہ رہی ہوں اور سر شام کہیں سے آ نہ رہی ہوں۔
اُس دن نعمت خالہ نے ممانی کو فون کیا:
’’بھابھی جان کل صبح لڑکی دیکھنے جانا ہے۔‘‘
ممانی کی طبیعت ناساز تھی، ناگواری سے بولیں:
’’تمہیں تفریح کا اچھا بہانہ مل گیا، کھایا پیا، باتیں بنائیں اور ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس آگئیں۔ مجھ سے مزید یہ گورکھ دھندا نہیں ہوتا، اب جلدی سے کوئی لڑکی پسند کرو اور جان چھڑاؤ۔‘‘
نعمت خالہ نے فون بند کرنے سے پہلے ممانی کو ساتھ لے جانا بندکرنے کا فیصلہ کرلیا۔اب ممانی کو ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔
نعمت خالہ کی تفریح جاری تھی، لڑکیاں اسی زور و شور سے دیکھی جانے لگیں۔
اس روز خوب گھٹا چھائی ہوئی تھی۔آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور زمین پر پانی برس رہا تھا۔ گُل آنٹی کا معمول تھا جہاں بارش شروع ہوئی تیز آواز سے ڈیک پر گانا لگادیا، موسم ہے عاشقانہ۔گانے کی آواز سن کر ستّر سالہ بخاری صاحب پر عاشقانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے بڑا سا نیکر پہن کر ٹیرس پر آجاتے۔محلہ کی خواتین جو بارش میں کپڑے سکھانے کے بہانے لان میں جمع ہوکر نہا رہی ہوتیں دُم دبا کے گھروں میں چھپ جاتیں۔

کافی دیر سے دروازہ کی گھنٹی بج رہی تھی جو موسم ہے عاشقانہ کی تیز آواز میں سنائی نہیں دی۔ پتا اس وقت چلا جب دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا۔ ہم دیر تک بستر پر پڑے رہے اس آس پر کہ کوئی اور دروازہ کھولے، لیکن کوئی اور بھی اسی آس میں بستر پر پڑے تھے۔ ناچار ہمیں ہی دروازہ تک جانا پڑا۔ دروازہ کھولا تو سر سے پانی ٹپکاتی دانش کی امی ہمیں سائیڈ دے کر اندر آگئیں:
’’امی کہاں ہیں؟‘‘
’’ شاید آپ کو یاد نہیں آپ ہمارے گھر میں ہیں۔‘‘ان کی معلومات میں اضافہ کیا گیا۔
’’تو۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ تیز اور خونخوار نظروں سے گھورا۔
’’مطلب آپ کی امی ہمارے گھر کیا کرنے آئیں گی۔ اور اگر آئی بھی ہوں تو ہمیں نہیں معلوم اس وقت کہاں ہیں۔‘‘
’’تمہاری امی کا پوچھا ہے۔‘‘ لہجہ میں غراہٹ تھی۔ ہم نے گھبرا کر انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اماں کو بلانے چلے گئے۔
اگلی صبح سویرے سویرے اماں کی تیاریاں تیزی سے جاری تھیں:
’’آج کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ ہمارے پوچھنے پر تیزی تیزی بتانے لگیں:
’’دانش کی امی نے لڑکی بتائی ہے، امی جان اور نعمت خالہ کے ساتھ جانا ہے۔اس سے پہلے کہ پھر بارش شروع ہو میں نکلتی ہوں۔ گھر کا دھیان رکھنا، کوئی گھنٹی بجائے تو دروازہ نہ کھولنا، سودے کا سامان آچکا ہے، جمعدار جاچکا ہے، ماسی کو منع کردیا ہے کہ آج نہ آئے، اور ہاں کوئی گھر سے باہر نہ جائے۔۔۔۔‘‘
جاتے جاتے بھی اماں کی آواز دیر تک آتی رہی۔ ہم نے کچھ سنی کچھ ان سنی کی۔ وہی یکسانیت سے بھرپور بور ٹاپک۔ ہم نے بے چینی سے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر نعمت خالہ کے گھر فون ملا دیا:
’’ہیلو!‘‘ گڑیا تھی۔
’’نعمت خالہ گئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ہاں خالہ جان اور نانی جان کے ساتھ گئی ہیں، آج پھر لڑکی دیکھنی ہے۔‘‘ آواز سے پتا چل رہا تھا منہ بنانے کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔
’’فلسفی اور چیتا ہیں؟‘‘
’’ صبح سے بارش ہورہی تھی، اسکول وین نہیں آئی، ظاہر ہے گھر پر ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا ہم آرہے۔‘‘
’’آجاؤ۔‘‘
فون بند کرکے ہم نے گھر کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد نعمت خالہ کے گھر تھے۔سب نے صبح سویرے ناشتہ کرلیا تھا، اب بھوک لگ رہی تھی۔
’’کھانے میں کیا ہے؟‘‘ ہم نے کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد پوچھا۔
’’بریڈ، جام، بٹر، بالائی۔‘‘ گڑیا فریج میں جھانک کر بتانے لگی۔
’’افوہ، یہ سب تو ناشتہ میں کھالیا۔لنچ کے لیے کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ گڑیا نے بے زاری سے منہ بنایا۔
’’عجیب لڑکی ہو، تمہیں کچھ پکانا نہیں آتا۔‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’یہ لڑکی کے نام پر دھبا ہے۔‘‘ چیتا غرایا۔
’’میں اس موضوع پر کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘ فلسفی نے متانت سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ ہم نے اور چیتے نے بیک وقت کہا۔
’’کیوں کہ مجھے جو کہنا ہے وہ اسے پہلے سے معلوم ہے۔‘‘ لہجہ میں مزید متانت اتر آئی۔
گڑیا کے منہ بنانے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔
’’جتنی محنت تم منہ بنانے میں کرتی ہو، کاش اتنی محنت کچھ پکانے میں کرلیتیں۔‘‘ فلسفی نے یخ بستہ آہ بھر کر آسمان کی جانب دیکھا۔
گڑیا منہ بناتی ہوئی اٹھی اور پیر پٹختی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
’’یہ کچن میں بلا وجہ گئی ہے یا کچھ پکانے؟‘‘ ہم نے مشکوک لہجہ میں پوچھا۔ ہمارے شک نے دونوں کو مشکوک کردیا۔
’’جھانک کر دیکھتے ہیں۔‘‘ فلسفی نے کہا اور تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔
سب لان سے ہوکر پچھلی جانب گئے اور کچن کی کھڑی سے جھانکنے لگے۔
گڑیا کچن میں لگے کارڈ لیس فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سب کو پتا چل گیا کہ دوسری طرف نورین ہے۔
’’پکا پتا ہے نا یہی چیزیں ڈلتی ہیں؟‘‘ گڑیا کے لہجہ میں بے یقینی کا عالم تھا۔
’’یہ چپکے چپکے نورین سے کوئی ترکیب پوچھ رہی ہے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی، سب نے تائید میں سر ہلادئیے۔
ہم بڑے لاؤنج میں آگئے۔ دیکھتے ہیں گڑیا کیا گل کھلاتی ہے،آج ہمیں کیا پکا کر کھلاتی ہے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ کچن سے برتن گرنے کی زور دار آواز آئی۔ ساتھ ہی گڑیا چیخنے لگی۔ سب کچن کی طرف دوڑے۔ دیکھا کوکر زمین پر گرا ہوا ہے، اس میں سے رہ رہ کر آمیزہ نما کوئی شے بہہ بہہ کر باہر آرہی ہے۔گڑیا ایک سائیڈ پر کھڑی خوفزدہ انداز میں چیخ رہی ہے۔
’’یہ کیا تماشا ہے؟‘‘ فلسفی تلملا یا۔
’’تماشا کیا مطلب؟ایک تو تم لوگوں کے لیے کچھ بناؤ اوپر سے باتیں بھی سناؤ۔‘‘ گڑیا غرائی۔ فلسفی کا لہجہ سن کر اس کے خوف نے غصہ کا روپ دھار لیا تھا۔
’’اس میں کیا پکا رہی تھیں؟‘‘ فلسفی تھوڑا نرم پڑا۔
’’مجھے کیا پتا کیا پک رہا تھا؟‘‘ گڑیا نے کندھے اچکائے۔
’’مطلب؟‘‘ اس کی بات سن کر ہمیں حیرت ہوئی۔
’’مطلب یہ کہ جب پکتا تب معلوم ہوتا یہ کیا چیز ہے۔‘‘ رسان سے بتایا گیا۔
’’مطلب یہ کہ معلوم ہی نہیں کیا پک رہا ہے اور کیا پکا رہی ہو؟‘‘ فلسفی اسے پکانے لگا۔
’’کیا مطلب مطلب لگا رکھا ہے، اب خاموش ہوجاؤ سب۔‘‘ چیتا جھنجھلا گیا۔ پھر گڑیا سے مخاطب ہوا:
’’جلدی بتاؤ اس میں کیا تھا؟‘‘
’’بتایا نا کہ کچھ معلوم نہیں اس کا کیا نام تھا۔ نورین کہہ رہی تھی جب پک جائے تب اچھا سا نام رکھ لینا۔‘‘
سب سمجھ گئے نورین کو بھی نہیں معلوم تھا کیا پکایا جائے۔ الٹا سیدھا جو سمجھ میں آیا گڑیا کو بتایا اور جلدی سے ٹہلایا۔ گڑیا بھی نورین کی چالبازی سمجھ گئی۔ تیزی سے فون کی جانب لپکی۔
سب سمجھ گئے تھے، آج گڑیا کے ہاتھوں نورین کا پکنا پکا ہے!!!
جیسا کو تیسا ،
آپ کے ساتھ بہت اچھا ہوا،
 

سیما علی

لائبریرین
’’جلدی بتاؤ اس میں کیا تھا؟‘‘
’’بتایا نا کہ کچھ معلوم نہیں اس کا کیا نام تھا۔ نورین کہہ رہی تھی جب پک جائے تب اچھا سا نام رکھ لینا۔‘‘
سب سمجھ گئے نورین کو بھی نہیں معلوم تھا کیا پکایا جائے۔ الٹا سیدھا جو سمجھ میں آیا گڑیا کو بتایا اور جلدی سے ٹہلایا۔ گڑیا بھی نورین کی چالبازی سمجھ گئی۔ تیزی سے فون کی جانب لپکی۔
سب سمجھ گئے تھے، آج گڑیا کے ہاتھوں نورین کا پکنا پکا ہے!!!
واہ واہ کیا کہنے آپکو یہ سب کھلائیں گی گڑیا؀
قورمہ اسٹو، پسندہ، کوفتہ، شامی کباب
مگر اب یہ سب خیالی ہی کھانا ہیں ۔
آپکے شوق کی نذر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیالی پلاؤ میں میرا ساتھہ دیجھے
محبت اور چاھت کو بھون لیجھے
پھر انتظار کی آنچ میں اسے دم دیجھے
اگر پک گئ تو نوش فر مائیں
جی نہ چاھے تو دم پر پڑا رھنے دیجھے
انتظار میں جل جل کر خاک ھو جائے گا
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
نانا نانی کو اچانک لگا چھوٹے ماموں اکیلے رہ گئے ہیں۔ فیصلہ ہوا ان کی شادی کردی جائے۔سارا خاندان اکٹھا ہوگیا۔ زور و شور سے لڑکیاں دیکھی جانے لگیں۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا کہ اماں، نانی، نعمت خالہ اور بڑی ممانی سویرے کہیں جا نہ رہی ہوں اور سر شام کہیں سے آ نہ رہی ہوں۔
اُس دن نعمت خالہ نے ممانی کو فون کیا:
’’بھابھی جان کل صبح لڑکی دیکھنے جانا ہے۔‘‘
ممانی کی طبیعت ناساز تھی، ناگواری سے بولیں:
’’تمہیں تفریح کا اچھا بہانہ مل گیا، کھایا پیا، باتیں بنائیں اور ہاتھ ہلاتے ہوئے واپس آگئیں۔ مجھ سے مزید یہ گورکھ دھندا نہیں ہوتا، اب جلدی سے کوئی لڑکی پسند کرو اور جان چھڑاؤ۔‘‘
نعمت خالہ نے فون بند کرنے سے پہلے ممانی کو ساتھ لے جانا بندکرنے کا فیصلہ کرلیا۔اب ممانی کو ساتھ نہیں لے جایا جاتا۔
نعمت خالہ کی تفریح جاری تھی، لڑکیاں اسی زور و شور سے دیکھی جانے لگیں۔
اس روز خوب گھٹا چھائی ہوئی تھی۔آسمان پر بادل گرج رہے تھے اور زمین پر پانی برس رہا تھا۔ گُل آنٹی کا معمول تھا جہاں بارش شروع ہوئی تیز آواز سے ڈیک پر گانا لگادیا، موسم ہے عاشقانہ۔گانے کی آواز سن کر ستّر سالہ بخاری صاحب پر عاشقانہ کیفیت طاری ہوجاتی۔ ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے بڑا سا نیکر پہن کر ٹیرس پر آجاتے۔محلہ کی خواتین جو بارش میں کپڑے سکھانے کے بہانے لان میں جمع ہوکر نہا رہی ہوتیں دُم دبا کے گھروں میں چھپ جاتیں۔

کافی دیر سے دروازہ کی گھنٹی بج رہی تھی جو موسم ہے عاشقانہ کی تیز آواز میں سنائی نہیں دی۔ پتا اس وقت چلا جب دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑایا جانے لگا۔ ہم دیر تک بستر پر پڑے رہے اس آس پر کہ کوئی اور دروازہ کھولے، لیکن کوئی اور بھی اسی آس میں بستر پر پڑے تھے۔ ناچار ہمیں ہی دروازہ تک جانا پڑا۔ دروازہ کھولا تو سر سے پانی ٹپکاتی دانش کی امی ہمیں سائیڈ دے کر اندر آگئیں:
’’امی کہاں ہیں؟‘‘
’’ شاید آپ کو یاد نہیں آپ ہمارے گھر میں ہیں۔‘‘ان کی معلومات میں اضافہ کیا گیا۔
’’تو۔۔۔ کیا مطلب؟‘‘ تیز اور خونخوار نظروں سے گھورا۔
’’مطلب آپ کی امی ہمارے گھر کیا کرنے آئیں گی۔ اور اگر آئی بھی ہوں تو ہمیں نہیں معلوم اس وقت کہاں ہیں۔‘‘
’’تمہاری امی کا پوچھا ہے۔‘‘ لہجہ میں غراہٹ تھی۔ ہم نے گھبرا کر انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اماں کو بلانے چلے گئے۔
اگلی صبح سویرے سویرے اماں کی تیاریاں تیزی سے جاری تھیں:
’’آج کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ ہمارے پوچھنے پر تیزی تیزی بتانے لگیں:
’’دانش کی امی نے لڑکی بتائی ہے، امی جان اور نعمت خالہ کے ساتھ جانا ہے۔اس سے پہلے کہ پھر بارش شروع ہو میں نکلتی ہوں۔ گھر کا دھیان رکھنا، کوئی گھنٹی بجائے تو دروازہ نہ کھولنا، سودے کا سامان آچکا ہے، جمعدار جاچکا ہے، ماسی کو منع کردیا ہے کہ آج نہ آئے، اور ہاں کوئی گھر سے باہر نہ جائے۔۔۔۔‘‘
جاتے جاتے بھی اماں کی آواز دیر تک آتی رہی۔ ہم نے کچھ سنی کچھ ان سنی کی۔ وہی یکسانیت سے بھرپور بور ٹاپک۔ ہم نے بے چینی سے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر نعمت خالہ کے گھر فون ملا دیا:
’’ہیلو!‘‘ گڑیا تھی۔
’’نعمت خالہ گئیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ہاں خالہ جان اور نانی جان کے ساتھ گئی ہیں، آج پھر لڑکی دیکھنی ہے۔‘‘ آواز سے پتا چل رہا تھا منہ بنانے کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔
’’فلسفی اور چیتا ہیں؟‘‘
’’ صبح سے بارش ہورہی تھی، اسکول وین نہیں آئی، ظاہر ہے گھر پر ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا ہم آرہے۔‘‘
’’آجاؤ۔‘‘
فون بند کرکے ہم نے گھر کا دروازہ بند کیا اور باہر نکل گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد نعمت خالہ کے گھر تھے۔سب نے صبح سویرے ناشتہ کرلیا تھا، اب بھوک لگ رہی تھی۔
’’کھانے میں کیا ہے؟‘‘ ہم نے کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد پوچھا۔
’’بریڈ، جام، بٹر، بالائی۔‘‘ گڑیا فریج میں جھانک کر بتانے لگی۔
’’افوہ، یہ سب تو ناشتہ میں کھالیا۔لنچ کے لیے کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ گڑیا نے بے زاری سے منہ بنایا۔
’’عجیب لڑکی ہو، تمہیں کچھ پکانا نہیں آتا۔‘‘ ہم جھنجھلا گئے۔
’’یہ لڑکی کے نام پر دھبا ہے۔‘‘ چیتا غرایا۔
’’میں اس موضوع پر کچھ نہیں بولوں گا۔‘‘ فلسفی نے متانت سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ ہم نے اور چیتے نے بیک وقت کہا۔
’’کیوں کہ مجھے جو کہنا ہے وہ اسے پہلے سے معلوم ہے۔‘‘ لہجہ میں مزید متانت اتر آئی۔
گڑیا کے منہ بنانے کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔
’’جتنی محنت تم منہ بنانے میں کرتی ہو، کاش اتنی محنت کچھ پکانے میں کرلیتیں۔‘‘ فلسفی نے یخ بستہ آہ بھر کر آسمان کی جانب دیکھا۔
گڑیا منہ بناتی ہوئی اٹھی اور پیر پٹختی ہوئی کچن میں چلی گئی۔
’’یہ کچن میں بلا وجہ گئی ہے یا کچھ پکانے؟‘‘ ہم نے مشکوک لہجہ میں پوچھا۔ ہمارے شک نے دونوں کو مشکوک کردیا۔
’’جھانک کر دیکھتے ہیں۔‘‘ فلسفی نے کہا اور تیزی سے باہر کی جانب لپکا۔
سب لان سے ہوکر پچھلی جانب گئے اور کچن کی کھڑی سے جھانکنے لگے۔
گڑیا کچن میں لگے کارڈ لیس فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد سب کو پتا چل گیا کہ دوسری طرف نورین ہے۔
’’پکا پتا ہے نا یہی چیزیں ڈلتی ہیں؟‘‘ گڑیا کے لہجہ میں بے یقینی کا عالم تھا۔
’’یہ چپکے چپکے نورین سے کوئی ترکیب پوچھ رہی ہے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی، سب نے تائید میں سر ہلادئیے۔
ہم بڑے لاؤنج میں آگئے۔ دیکھتے ہیں گڑیا کیا گل کھلاتی ہے،آج ہمیں کیا پکا کر کھلاتی ہے۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ کچن سے برتن گرنے کی زور دار آواز آئی۔ ساتھ ہی گڑیا چیخنے لگی۔ سب کچن کی طرف دوڑے۔ دیکھا کوکر زمین پر گرا ہوا ہے، اس میں سے رہ رہ کر آمیزہ نما کوئی شے بہہ بہہ کر باہر آرہی ہے۔گڑیا ایک سائیڈ پر کھڑی خوفزدہ انداز میں چیخ رہی ہے۔
’’یہ کیا تماشا ہے؟‘‘ فلسفی تلملا یا۔
’’تماشا کیا مطلب؟ایک تو تم لوگوں کے لیے کچھ بناؤ اوپر سے باتیں بھی سناؤ۔‘‘ گڑیا غرائی۔ فلسفی کا لہجہ سن کر اس کے خوف نے غصہ کا روپ دھار لیا تھا۔
’’اس میں کیا پکا رہی تھیں؟‘‘ فلسفی تھوڑا نرم پڑا۔
’’مجھے کیا پتا کیا پک رہا تھا؟‘‘ گڑیا نے کندھے اچکائے۔
’’مطلب؟‘‘ اس کی بات سن کر ہمیں حیرت ہوئی۔
’’مطلب یہ کہ جب پکتا تب معلوم ہوتا یہ کیا چیز ہے۔‘‘ رسان سے بتایا گیا۔
’’مطلب یہ کہ معلوم ہی نہیں کیا پک رہا ہے اور کیا پکا رہی ہو؟‘‘ فلسفی اسے پکانے لگا۔
’’کیا مطلب مطلب لگا رکھا ہے، اب خاموش ہوجاؤ سب۔‘‘ چیتا جھنجھلا گیا۔ پھر گڑیا سے مخاطب ہوا:
’’جلدی بتاؤ اس میں کیا تھا؟‘‘
’’بتایا نا کہ کچھ معلوم نہیں اس کا کیا نام تھا۔ نورین کہہ رہی تھی جب پک جائے تب اچھا سا نام رکھ لینا۔‘‘
سب سمجھ گئے نورین کو بھی نہیں معلوم تھا کیا پکایا جائے۔ الٹا سیدھا جو سمجھ میں آیا گڑیا کو بتایا اور جلدی سے ٹہلایا۔ گڑیا بھی نورین کی چالبازی سمجھ گئی۔ تیزی سے فون کی جانب لپکی۔
سب سمجھ گئے تھے، آج گڑیا کے ہاتھوں نورین کا پکنا پکا ہے!!!

زبردست!
زبردست!
زبردست!
 

سید عمران

محفلین
Top