سید عمران

محفلین
ذرا رحم نہ آیا کمزور و ناتواں نانی پر بہت اچھا
ہوا ناتواں جاں پہ ظلم کرنے کی سزا تو ضرور ملنا چاہیے تھی بتیاں تو گل ہونا ہی تھیں بلکہ نانی یاد آگئیں:applause::applause::applause::applause::applause:
ہم نے آخر وقت تک رحم کرنے کی کوشش کی۔۔۔
مگر جب سامنے والے کو اپنی جان پر رحم نہ آیا تو آخر ہم کر ہی کیا سکتے تھے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ہم نے آخر وقت تک رحم کرنے کی کوشش کی۔۔۔
مگر جب سامنے والے کو اپنی جان پر رحم نہ آیا تو آخر ہم کر ہی کیا سکتے تھے!!!
کمر سے یاد آئی اپنی کمر !!!!بھول جاتے ہیں اپنی عمر جھک کے پودے کی کاٹ چھانٹ کر رہے تھے صبح ہائے ہائے کرتے کمر پکڑ کے بیٹھ گئے:crying3:
 

سید عمران

محفلین
نانا کے بڑے بھائی کو سب تائے ابا کہتے تھے۔ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے وہ دنیا سے جاچکے تھے۔ ہر سال عید کے روز نانا اورتائے ابا کی اولادیں تائے ابا کے گھر جمع ہوجاتے۔ پوری ننھیال میں ان دونوں بھائیوں کے بچے چھائے ہوئے تھے۔ وہ ہر فنکش، ہر گیدرنگ کا بڑا حصہ ہوتے۔سمجھو ان کے بغیر زندگی کا ہر رنگ پھیکا تھا۔
عید کے دن اماں ہمیں لے کر نانی کے آجاتیں۔ نانا عید کی نماز کے بعد کرتا پاجامہ، شیروانی اور جناح کیپ پہنتے۔ نانی کے جدی پشتی زیورات نکل آتے جن پر اماں برسوں سے نظریں جمائے بیٹھی تھیں۔مگر نانی بھی پروں پہ پانی نہ پڑنے دیتیں۔ چھوٹے ماموں بے زار طبع تھے۔ کام سب کرتے مگر کسی کام میں دل نہیں لگاتے۔کہیں آنے جانے کے نام سے بے زاری آخری حدوں کو چھونے لگتی۔ عید کے دن تیار ہوجاتے مگر چہرے سے بے زاری نہیں جاتی۔
ہمارے آنے سے نانی کے گھر کی رونقیں دوبالا ہوجاتیں۔ اماں زور و شور سے نانا نانی کو تیار ہونے کے مشورے دیتیں۔ ہم ہزار بے زاری کے باوجود چھوٹے ماموں کو زور زور سے سلام کرتے۔ وہ لاکھ بے زاری دکھاتے، بار بار سلام کرنے کا مطلب جاننے سے اَن جان بنتے مگر ہم بھی عیدی لیے بغیر ان کے سر سے نہ ٹلتے۔ اس شور شرابے اور ہنگامے میں تیار ہوکر تائے ابا کے گھر جاتے۔نعمت خالہ اور بڑے ماموں اپنے اپنے گھروں سے وہاں پہنچتے۔
تائے ابا کے بہت سارے بچے بچیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں۔ ایک بالکل ہڈی جیسی پوتی تھیں جن پر محض چمڑی چڑھی ہوئی تھی۔ ایک کا منہ چوڑا اور چوکور تھا۔ایک شہزادی سی آن بان والی تھیں اور ایک پریوں سی نزاکت والی۔ ہم ہمیشہ ان سب کو گڈ مڈ کردیتے۔ جس کو ہم رانی سمجھتے وہ اصل میں عذرا ہوتی، غزالہ اکثر چندا نکلتی۔ ہم اماں سے پوچھتے:
’’وہ جو ہڈی سی لڑکی ساری لپیٹے تھی وہ چندا تھی؟‘‘
’’ وہ رانی تھی۔‘‘ اماں جواب دیتیں۔
’’اور چوڑے منہ والی عذرا ہے؟‘‘
’’نہیں، چندا۔‘‘
’’اور وہ جو۔۔۔‘‘
’’بس رہنے دو۔‘‘
تائے ابا کے گھر عید ملن پارٹی میں بہت گہما گہمی ہوتی۔ بڑوں کا اتنا بڑا پن لپکتا جھپکتا کہ ہم بچے ایک صوفہ پر دبکے ان کی طمطراقیاں دیکھا کرتے۔
اس پارٹی میں ایک عجیب سی شکل والے عجیب سے انکل ہم سے ہمیشہ ایک عجیب سی بات ضرور کرتے۔ بڑے پیار سے اپنے برابر بٹھاتے اور نہایت متانت سے ٹرے پیش کرتے۔اس میں ہررنگ کی پیسٹری ہوتی۔ہم لینے سے جھجکتے تو فرماتے:
’’بیٹا آپ جس رنگ کی پیسٹری کھاؤ گے اسی رنگ کی گاڑی دلاؤں گا۔‘‘
ہم ہر سال ان کے جھانسے میں آجاتے۔کبھی پنک پیسٹری اٹھاتے کبھی وہائٹ کبھی یلو۔مگر گاڑی کی بجائے ایک عجیب سی مسکراہٹ دیکھنے کو ملتی۔ایک دفعہ پیسٹری کی ٹرے پیش کی ہم نے پیسٹری نہیں اٹھائی۔ وہ عجیب سے انداز میں بولے:
’’آج پکا ہے جو پیسٹری اٹھاؤ گے ویسی گاڑی ملے گی۔‘‘
ہم نے انکار میں سر ہلادیا۔
’’ کیوں؟‘‘ لہجہ میں عجیب سی جھنجھلاہٹ آگئی۔
’’آپ نے ہمیشہ وعدہ کیا مگر آج تک کوئی گاڑی نہیں دلائی۔ہمیں آپ کی کوئی پیسٹری نہیں کھانی۔ آج ہم وہ والا کیک کھائیں گے۔‘‘
ہم نے بڑی سی ٹیبل پر رکھے بڑے سارے کیک پر نظریں جمادیں۔عجیب سے شکل والے انکل کا عجیب سا منہ بن گیا۔ ابا زور زور سے ہنسنے لگے۔ پھر ہر ایک کو ہماری جلی کٹی سنانے لگے۔عجیب سی شکل والے انکل کا منہ مزید عجیب سا ہوگیا۔انہوں نے آئندہ کبھی پیسٹری کی عجیب سی پیشکش نہیں کی۔
ڈرائنگ روم میں نانا اور دیگر حضرات بور ٹاپکس ڈسکس کرنے لگے۔ہم خواتین کی طرف آگئے۔ ہڈی سی خاتون ساری لپیٹے چوڑے منہ والی کے منہ کی لیپا پوتی کررہی تھیں۔ ہم کافی دیر تماشہ دیکھتے رہے۔ چوڑے منہ کی پینٹنگ کی فنشنگ کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ہم لاؤنج میں آگئے۔ساتھ ہی کچن تھا جہاں سے اٹھنے والی خوشبوئیں کہیں اور جانے سے منع کررہی تھیں۔سامنے سجی ہوئی ڈائننگ ٹیبل لوازمات سے اُمڈ رہی تھی۔ہم ترتیب سے لوازمات چکھنے لگے۔اتنے میں اماں گھورتی ہوئی آئیں اور کھڑے ہوکر گھورنے لگیں۔ہم نے پرواہ نہ کی، اپنا کام جاری رکھا۔لیکن اماں نے پرواہ کی اور بازو سے پکڑ کر دالان میں لے آئیں۔
بڑے سارے تخت پر نانی، تائی اماں سمیت دیگر ہمجولیوں کے درمیان شمع محفل بنی بیٹھی تھیں۔ یہاں ہمارا دل لگنے لگے۔ نئے پرانے لوگوں کے شجرۂ نسب کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہوش اڑائے دے رہے تھے۔لیکن نانی کی عقابی نگاہوں سے زیادہ دیر نہ بچ سکے اور کوچۂ بالغاں سے بہت بے آبرو کرکے نکال دئیے گئے۔
ڈرائنگ روم میں بیرون ملک کے مسائل ڈسکس ہورہے تھے، دالان میں اندرون ملک کی خبر لی جارہی تھی، دیگر کمروں میں ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام جاری تھا، ہم یہاں سے وہاں آمد و رفت رکھ کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے لگے۔
دوپہر کو کھانے کے وقت سب ڈائننگ ٹیبل پر آگئے۔قورمہ، پلاؤ، کباب، کھیر، شیر مال اور آخر میں گرم گرم چائے۔کھاپی کر نانی نے زور سے کہا:
’’کھایا پیا کھسکے، کمّو بھائی کِس کے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک ایک کرکے سب کھسکنے لگے، اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ یوں ایک خوشگوار اور گہماگہمی سے بھرپور دن کا اختتام ہوا۔

اب وہ لوگ رہے نہ میل ملاپ،ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے، ساتھ ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ہیں۔ اب ڈرائنگ روم میں کوئی بیرونِ ملک کے مسائل ڈسکس نہیں کرتا۔ دالان میں بچھا بڑا سا تخت ویران ہے۔ اندرون ملک کی خبر گیری رکھنے والے چلے گئے۔ ہم نشیں پنچھی ایک ایک کرکے سب اڑ گئے۔ اب ہڈی جسم پر ساری لپیٹے کوئی چوڑے منہ کی لیپا پوتی کرتا بھی نظر نہیں آتا۔
لاؤنج والے کچن سے عید کے روز بھی خوشبوئیں نہیں اڑتیں۔ نہ ہی ڈائننگ ٹیبل لوازمات سے سجتی ہے۔اب کوئی کسی کے نہیں جاتا، کوئی کسی کو نہیں بلاتا۔ سب اپنے اپنے دیس میں قید ہوکر رہ گئے۔
موبائل دیس میں!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
لاؤنج والے کچن سے عید کے روز بھی خوشبوئیں نہیں اڑتیں۔ نہ ہی ڈائننگ ٹیبل لوازمات سے سجتی ہے۔ اب کوئی کسی کے نہیں جاتا، کوئی کسی کو نہیں بلاتا۔ سب اپنے اپنے دیس میں قید ہوکر رہ گئے۔
موبائل دیس میں!!!
بہت ہی زبردست زبردست زبردست !!!اسقدر حقیقت بھری داستانِ ہے سچ سب کچھ رخصت ہوا اس موئے سیل فون کےساتھ ہر رشتہ رخصت ہوا فقط یاسییت ہے چار سو اور اُن گھروں کا المیہ تو الگ ہے جن کے بچے پردیس میں ہیں !!!!!تہوار سب سے مشکل سے گذرتے اور کچھ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی ہے ۔۔۔
ڈھیر ساری دعائیں شاد و آباد رہیئے اور اتنا خوبصورت لکھتے رہیے :):):):):)
 

اے خان

محفلین
نانا کے بڑے بھائی کو سب تائے ابا کہتے تھے۔ ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے وہ دنیا سے جاچکے تھے۔ہر سال عید کے روز نانا اور تائے ابا کی اولادیں تائے ابا کے گھر جمع ہوتے تھے۔ ویسے بھی پوری ننھیال میں نانا اور تائے ابا کے بچے چھائے ہوئے تھے۔ وہ ہر فنکش، ہر گیدرنگ کا بڑا حصہ ہوتے۔سمجھو ان کے بغیر زندگی کا ہر رنگ پھیکا تھا۔
عید کے دن اماں ہمیں لے کر نانی کے آجاتیں۔نانا عید کی نماز کے بعد کرتا پاجامہ، شیروانی اور جناح کیپ پہنتے۔ نانی کے جدی پشتی زیورات نکل آتے جن پر اماں برسوں سے نظریں جمائے بیٹھی تھیں۔ مگر نانی بھی پروں پہ پانی نہ پڑنے دیتیں۔ چھوٹے ماموں بے زار طبع تھے۔ کام سب کرتے مگر کسی کام میں دل نہیں لگاتے ۔کہیں آنے جانے کے نام سے بے زاری آخری حدوں کو چھونے لگتی۔ عید کے دن تیار ہوجاتے مگر چہرے سے بے زاری نہیں جاتی۔
ہمارے آجانے سے نانی کے گھر کی رونقیں دوبالا ہوجاتیں۔ اماں زور و شور سے نانا نانی کو تیار ہونے کے مشورے دیتیں۔ ہم ہزار بے زاری کے باوجود چھوٹے ماموں کو زور زور سے سلام کرتے۔ وہ لاکھ بے زاری دکھاتے، بار بار سلام کرنے کا مطلب جاننے سے اَن جان بنتے مگر ہم بھی عیدی لیے بغیر ان کے سر سے نہ ٹلتے۔ اس شور شرابے اور ہنگامے میں تیار ہوکر تائے ابا کے گھر پہنچتے۔نعمت خالہ اور بڑے ماموں اپنے اپنے گھروں سے روانہ ہوتے۔
تائے ابا کے بہت سارے بچے بچیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھیں۔ ایک بالکل ہڈی جیسی پوتی تھیں جن پر محض چمڑی چڑھی ہوئی تھی۔ ایک کا منہ چوڑا اور چوکور تھا۔ایک شہزادی سی آن بان والی تھیں اور ایک پریوں سی نزاکت والی۔ ہم ہمیشہ ان سب کو گڈ مڈ کردیتے۔ جس کو ہم رانی سمجھتے وہ اصل میں عذرا ہوتی، غزالہ اکثر چندا نکلتی۔ ہم اماں سے پوچھتے:
’’وہ جو ہڈی سی لڑکی ساری لپیٹے تھی وہ چندا تھی؟‘‘
’’ وہ رانی تھی۔‘‘ اماں جواب دیتیں۔
’’اور چوڑے منہ والی عذرا ہے؟‘‘
’’نہیں، چندا۔‘‘
’’اور وہ جو ۔۔۔‘‘
’’بس رہنے دو۔‘‘
تائے ابا کے گھر عید ملن پارٹی میں بہت گہما گہمی ہوتی۔ بڑوں کا اتنا بڑا پن لپکتا جھپکتا کہ ہم بچے ایک صوفہ پر دبکے ان کی طمطراقیاں دیکھا کرتے۔
اس پارٹی میں ایک عجیب سی شکل والے عجیب سے انکل ہم سے ہمیشہ ایک عجیب سی بات ضرور کرتے۔ بڑے پیار سے اپنے برابر بٹھاتے اور نہایت متانت سے ٹرے پیش کرتے۔ اس میں ہررنگ کی پیسٹری ہوتی۔ ہم لینے سے جھجکتے تو فرماتے:
’’بیٹا آپ جس رنگ کی پیسٹری کھاؤ گے اسی رنگ کی گاڑی دلاؤں گا۔‘‘
ہم ہر سال ان کے جھانسے میں آجاتے۔ کبھی پنک پیسٹری اٹھاتے کبھی وہائٹ کبھی یلو۔ مگر گاڑی کی بجائے ہمیشہ ایک عجیب سی مسکراہٹ دیکھنے کو ملتی۔ ایک دفعہ پیسٹری کی ٹرے پیش کی ہم نے پیسٹری نہیں اٹھائی۔ وہ عجیب سے انداز سے بولے:
’’آج پکا ہے جو پیسٹری اٹھاؤ گے ویسی گاڑی ملے گی۔‘‘
ہم نے انکار میں سر ہلادیا۔
’’ کیوں ؟‘‘ لہجہ میں عجیب سی جھنجھلاہٹ آگئی۔
’’آپ نے ہمیشہ وعدہ کیا مگر آج تک کوئی گاڑی نہیں دلائی۔ہمیں آپ کی کوئی پیسٹری نہیں کھانی۔ آج ہم وہ والا کیک کھائیں گے۔‘‘
ہم نے بڑی سی ٹیبل پر رکھے بڑے سارے کیک پر نظریں جمادیں۔عجیب سے شکل والے انکل کا عجیب سا منہ بن گیا۔ ابا زور زور سے ہنسنے لگے۔ پھر ہر ایک کو ہماری جلی کٹی سنانے لگے۔عجیب سی شکل والے انکل کا منہ مزید عجیب سا ہوگیا۔عجیب سے انکل نے آئندہ کبھی پیسٹری کی عجیب سی پیشکش نہیں کی۔
ڈرائنگ روم میں نانا اور دیگر حضرات بور ٹاپکس ڈسکس کرنے لگے۔ ہم خواتین کی طرف آگئے۔ ہڈی سی خاتون ساری لپیٹے چوڑے منہ والی کے منہ کی لیپا پوتی کررہی تھیں۔ ہم کافی دیر تماشہ دیکھتے رہے۔ چوڑے منہ کی پینٹنگ کی فنشنگ کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ہم لاؤنج میں آگئے۔ساتھ ہی کچن تھا جہاں سے اٹھنے والی خوشبوئیں کہیں اور جانے سے منع کررہی تھیں۔ سامنے سجی ہوئی ڈائننگ ٹیبل لوازمات سے بھری ہوئی تھی۔ہم لائن سے لوازمات چکھنے لگے۔ اتنے میں اماں گھورتی ہوئی آئیں اور کھڑے ہوکر گھورنے لگیں۔ہم نے پرواہ نہ کی، اپنا کام جاری رکھا۔لیکن اماں نے پرواہ کی اور بازو سے پکڑ کر دالان میں لے آئیں۔
بڑے سارے تخت پر نانی، تائی اماں سمیت دیگر ہمجولیوں کے درمیان شمع محفل بنی بیٹھی تھیں۔ یہاں ہمارا دل لگنے لگے۔ نئے پرانے لوگوں کے شجرۂ نسب کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہوش اڑائے دے رہے تھے۔لیکن نانی کی عقابی نگاہوں سے زیادہ دیر نہ بچ سکے اور کوچۂ بالغاں سے بہت بے آبرو کرکے نکال دئیے گئے۔
ڈرائنگ روم میں بیرون ملک کے مسائل ڈسکس ہورہے تھے، دالان میں اندرون ملک کی خبر لی جارہی تھی، دیگر کمروں میں ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام جاری تھا، ہم یہاں سے وہاں آمد و رفت رکھ کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے لگے۔
دوپہر کو کھانے کے وقت سب ڈائننگ ٹیبل پر آگئے۔ قورمہ، پلاؤ، کباب، کھیر، شیر مال اور آخر میں گرم گرم چائے۔کھاپی کر نانی نے زور سے کہا:
’’کھایا پیا کھسکے، کمّو بھائی کِس کے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی ایک ایک کرکے سب کھسکنے لگے، اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ یوں ایک خوشگوار اور گہماگہمی سے بھرپور دن کا اختتام ہوا۔

اب وہ لوگ رہے نہ میل ملاپ،ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے، ساتھ ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ہیں۔ اب ڈرائنگ روم میں کوئی بیرونِ ملک کے مسائل ڈسکس نہیں کرتا۔ دالان میں بچھا بڑا سا تخت ویران ہے۔ اندرون ملک کی خبر گیری رکھنے والے چلے گئے۔ ہم نشیں پنچھی ایک ایک کرکے سب اڑ گئے۔ اب ہڈی جسم پر ساری لپیٹے کوئی چوڑے منہ کی لیپا پوتی کرتا بھی نظر نہیں آتا۔
لاؤنج والے کچن سے عید کے روز بھی خوشبوئیں نہیں اڑتیں۔ نہ ہی ڈائننگ ٹیبل لوازمات سے سجتی ہے۔ اب کوئی کسی کے نہیں جاتا، کوئی کسی کو نہیں بلاتا۔ سب اپنے اپنے دیس میں قید ہوکر رہ گئے۔
موبائل دیس میں!!!
واہ سید صاحب خوبصورت تحریر
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر۔۔۔ اندازِ بیاں نہایت دلکش۔ ہنسا دینے والی تشبہیات اور اداس کر دینے والا اختتام۔
بہت خوش ذائقہ متنجن بنایا آپ نے۔
قبول کیجئیے :lol:
بہت ساری داد
 

سید رافع

محفلین
بچپن میں ہم موزے میں مکھن لگانے والی چھری لگا کر گھومتے تھے تاکہ کسی بھی خطرے کا مقابلہ کر سکیں۔

کے جی ون کلاس میں جب قل اللہ پڑھائی جاتی تو ہم سمجھتے کہ یہ کلاس میں لگی فوکسی کار کی تصویر سے متعلق بات ہو رہی ہے۔

والد میڈیکل کے شعبے سے تھے اور کثیر دوائیں گھر میں تھیں۔ ایک دوپہر ہم نے سوچا کہ اگر ان سب دواؤں میں سے دو دو تین تین گولیاں لیں اور تمام شربتوں کو بھی اور ابال کر پی لیں تو کوئی بیماری نہ ہو گی۔ ابالنے پر سخت بدبو پیدا ہوئی سو وہ محلول پیا نہیں۔

نانی کے برابر والے انڈے بیچتے تھے سو اپنے ماموں زاد بھائی کو ساتھ ملایا اور اسکو نانی کی چھت پر اور خود انڈے والوں کی چھت پر چلے گئے۔ اب جب انڈے اسکی طرف پھینکے تو چند وہ کیچ کر پایا اور باقی گراوٴنڈ والے دادا کے سر پر گرے جو ابھی نہا کر نکلے تھے۔ امی سے خوب ڈانٹ پڑی۔

نانی کے گھر ایک روز خوب بارش تھی۔ سامنے ایک نئے . گھر کا ٹینک بھر رہا تھا۔ ہم نے چھیڑ کے لیے اکڑوں بیٹھ کر آتے تین لڑکوں پر پانی اڑایا۔ انہوں نے جو کولہے پر لات ماری تو ہم ہرے ہرے پانی سے بھرے ٹینک میں۔ ایک سائیکل سوار نے رک کر ہمیں نکالا جبکہ ہم ہچکولے لے رہے تھے۔ یہ کوئی چھ سات برس کی عمر کا واقعہ ہے۔

ہم امریکہ سے آئے ٹیپ ریکارڈ پر ون وے ٹکٹ لگا کر گزرتے راہگیروں اور موٹر سائیکل سواروں کو سنا کر دل ہی دل میں خوب رعب میں آجاتے۔ اس وقت عمر سات برس ہو گی۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوبصورت تحریر۔۔۔ اندازِ بیاں نہایت دلکش۔ ہنسا دینے والی تشبہیات اور اداس کر دینے والا اختتام۔
بہت خوش ذائقہ متنجن بنایا آپ نے۔
قبول کیجئیے :lol:
بہت ساری داد
واہ بٹیا واہ دل خوش کردیا پر آپکا تعلق اُس جنریشن سے نہیں جو متنجن جانتے ہیں یہ کہہ کر آپ نے ہمیں حیران کر دیا ہے !!!!
 
Top