سیما علی

لائبریرین
نعمت خالہ چین چلی گئیں!!!

خالو پی آئی اے میں انجینئر تھے۔ تین سال بیرون ملک ٹرانسفر ملازمت کا حصہ تھا، سو رشتہ داروں سے دور چین کی بنسری بجانے چین چلے گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم چلتے ہو تو چین کو چلیے اٹھا لائے۔ محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ چین کے کیا حالات ہیں۔ وہاں جا کر نعمت خالہ کے بگڑنے کے چانسز تو نہیں!!!

روانگی سے قبل نعمت خالہ بلک بلک کے روئیں اور سب کو رُلا دیا۔ نانی کا حال سب سے برا تھا:
’’ہائے میری بچی پرائے دیس جارہی ہے، جانے دوبارہ کب ملاقات ہو۔‘‘ نعمت خالہ مزید بلکنے لگیں۔

اماں مضبوط اعصاب کی مالک تھیں، آنسو تو کیا، مجال ہے چہرہ پر کوئی تاثر بھی آیا ہو۔
سب نعمت خالہ کو چھوڑنے گاڑیوں میں لدے ائیر پورٹ پہنچے۔ لاؤنج میں جانے سے قبل نعمت خالہ نے بلک بلک کر رونے کا سین دوبارہ آن کرنا چاہا مگر اماں نے جھڑک دیا:
’’بس کردو۔ گھر میں تو ٹھیک تھا، یہاں سب کے سامنے ہمیں تماشا نہ بناؤ۔‘‘
’’بڑی ظالم ہو تم باجی۔‘‘ نعمت خالہ آنسو پونچھ پونچھ کر نڈھال ہوگئیں مگر اماں کو کوئی فرق نہ پڑا۔

ہمارا دل بجھ رہا تھا۔ اچانک سب کزنز ساتھ چھوڑ جائیں گئے۔ سب مزے، ساری شرارتیں، لوگوں کو ستانا پھر ان کی شکلیں دیکھ کر ہنستے ہنستے دہرے ہوجانا ماضی کا حصہ بننے جارہا تھا۔ ہماری آنکھیں نم ہوگئیں۔

نعمت خالہ نے ائیر پورٹ لاؤنج میں داخل ہونے سے قبل آخری بار سب کو مڑ کر دیکھا اور پھر بلک بلک کر رونے لگیں۔
’’توبہ۔ اتنا تو اپنی شادی پر بھی نہیں روئی تھی۔‘‘ اماں سے زیادہ ڈرامہ بازیاں برداشت نہیں ہوتی تھیں۔

سب بجھے دل کے ساتھ گھر واپس آگئے۔ ایسا لگا جیسے خالی ہاتھ رہ گئے ہوں۔ زندگی خوشیوں سے خالی ہو۔
’’ دوبارہ کب ملیں گے۔ پورے تین سال بعد؟‘‘ ہم نے نانی سے پوچھا۔
’’معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے اس عرصہ شہر میں سکون رہے گا۔‘‘جانے نانی کن باتوں پر جلی بیٹھی تھیں۔ ہم جل کر رہ گئے۔

چند دن اداسی میں گزرے۔ ابھی دل کی اداسی دور نہ ہوئی تھی کہ ایک دن ایک چمتکار ہوگیا!!!

اس روز چھٹی تھی۔ صبح کے آٹھ بجے ہوں گے، ہم سو رہے تھے، اچانک شور شرابے سے آنکھ کھل گئی۔ لاؤنج میں برتن کھڑکھڑانے کی آوازوں کے ساتھ بہت سارے لوگوں کے زور زور سے بولنے کی آوازیں گڈ مڈ ہورہی تھیں۔ ہم آنکھ ملتے تجسس کے عالم میں لاؤنج میں آئے۔ ڈائننگ ٹیبل ناشتے کے لوازمات سے سجی ہوئی تھی۔ سامنے نعمت خالہ بیٹھی زور زور سے ہنس رہی تھیں۔ ہمیں یقین نہ آیا۔ کیا خواب ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔تبھی فلسفی، چیتا اور گڑیا پاس آگئے۔ سب ہنس رہے تھے۔ فلسفی نے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا:
’’ابھی تک نیند میں ہو؟‘‘ ہم چکرا کر گرنے کی ایکٹنگ کرنے ہی والے تھے کہ نعمت خالہ بول پڑیں:
’’ایک دھپ دوں گی۔ اتنی دیر ہوگئی، نہ سلام نہ دعا۔‘‘ ان کی آواز سن کر ہم حواسوں میں آگئے لیکن حیرت کے سمندر سے باہر نہ آسکے۔
’’کل تمہارے خالو نے اطلاع دی کہ اگلے روز کراچی جانے والے جہاز میں سیٹیں خالی ہیں، کراچی کا چکر لگا آتے ہیں۔ سب فوراً تیار ہوگئے۔‘‘

معلوم ہوا خالو کو سہولت حاصل تھی کہ جہاز میں سیٹیں خالی ہوں تو فیملی کا سفر مفت۔ نعمت خالہ نے چائنا قیام کے دوران اس سہولت کے تمام تر فوائد حاصل کیے۔ چین سے ہر دوسرے تیسرے مہینہ یوں منہ اٹھائے چلی آتیں کہ لوگ دوسرے محلہ سے نہیں آتے۔کسی روز گھنٹی بجتی اور دروازہ پر نعمت خالہ مع لاؤ لشکر کھڑی ہوتیں۔ اماں تو پہلے ہی بے زار تھیں، اب تو نانی بھی چڑنے لگیں:
’’اب ٹک کر بیٹھ جاؤ بی بی۔ کچھ گھر گرہستی پر بھی دھیان دو۔ بار بار چھٹیوں سے بچوں کی پڑھائی پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘‘ مگر نعمت خالہ پر کسی چیز کا اثر نہیں پڑتا۔

نعمت خالہ کا کمال تھا کہ ہر دفعہ جاتے ہوئے پہلے روز کی طرح بلک بلک کر روتیں۔ مگر اب کوئی ان کے رونے پر نہیں روتا۔ سب کو معلوم تھا جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہ گزریں گے کہ دوبارہ آجائیں گی۔ سب کی سرد مہری کے باوجود ان کا رونا دھونا اسی زور و شور سے جاری رہا۔

اس روز نعمت خالہ تین دن کے لیے آئی تھیں۔ تین دن شاپنگ اور شرارتوں میں ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا۔ چوتھے روز روانگی تھی۔ اب کوئی انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے نہیں جاتا تھا۔ گھر کے دروازے سے ٹہلا دیتےتھے۔ چین سے آنے کو مذاق بنانے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ اماں کا فلسفہ تھا۔

فلائیٹ کا ٹائم نکل رہا تھا۔ باہر ڈرائیور ہارن پہ ہارن دینے لگا۔ اندر نعمت خالہ کے رونے کا سین آن تھا۔ اماں اور نانی بڑی مشکلوں سے کھینچ کر گاڑی تک لائیں۔ گاڑی جانے کے بعد سب سکون کا سانس لیتے ہوئے اندر آگئے۔ ڈرائیور کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ نانی پریشان ہوگئیں۔ خدا خیر کرے۔ نانی بے چینی کے عالم میں ٹہل رہی تھیں تبھی گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔ نانی کے اوسان بحال ہوئے:
’’خدایا تیرا شکر۔‘‘ ابھی نانی کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ دروازہ کی گھنٹی بجی۔ نانی کی پیشانی پر پھر فکر مندی کی لکیریں ابھر آئیں:
’’ ڈرائیور نے گاڑی سے اتر کر بیل کیوں بجائی؟‘‘ نانی بڑبڑاتی ہوئی دروازہ تک گئیں۔ دروازہ کھلتے ہی نعمت خالہ کے زور دار قہقہہ کی آواز آئی:
’’ہاہاہاہا۔ ہم چانس کی سیٹوں پر گئے تھے۔ جہاز میں کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔اب کل جائیں گے۔ ڈرائیور کو اسی لیے روک رکھا تھا۔ ‘‘ نعمت خالہ ہنس ہنس کر بتا نے لگیں۔ اماں غصہ سے کھول رہی تھیں۔ نانی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں!!!

اگلے روز سامان دوبارہ پیک ہوا۔ ڈرائیور باہر دوبارہ انتظار کرنے لگا۔ سب نعمت خالہ کو دوبارہ رخصت کرنے دروازہ پر جمع ہوگئے۔ نعمت خالہ نانی سے لپٹ کر بلک بلک کے رونے لگیں۔ ہماری آنکھیں باہر کو آگئیں:
’’کل والے سین کو چوبیس گھنٹے تو گزرنے دیں۔‘‘ نعمت خالہ کے رونے کو بریک لگ گئے۔ رونا دھونا بھول کر ہمیں گھورنے لگیں:
’’بچو تم کیا جانو اپنوں سے جدائی کا غم۔‘‘ جذباتی ڈائیلاگ مارنے کی کوشش کی گئی۔
’’لیکن وہ والی جدائی آپ ہونے کب دیتی ہیں؟‘‘ ہماری حیرت کا طلسم ٹوٹ نہیں رہا تھا۔تبھی نعمت خالہ کے بھاری بھرکم ہاتھ کی زور دار دھپ کمر پر پڑی۔ طلسم ہوشربا کے سب ہوش اڑ گئے۔ ایک ہی دھپ ہماری زباں بندی کرگئی، ہمیں چاروں شانے چت کرگئی۔
جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے، یہ تو سنا تھا۔۔۔

پر آج معلوم ہوا کبھی کبھار طاقت کی بھی ہوتی ہے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
بہاولپور سے گھنٹہ ڈیڑھ کی مسافت پر احمد پور شرقیہ نامی چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہاں قدیم زمانہ کی ایک نہایت بوڑھی خاتون رہتی تھیں۔ یہ ابا کی نانی ہیں۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ دونوں ابا کے ماموں ہیں۔خاندان بھر میں دونوں بڑے ماموں، چھوٹے ماموں کے نام سے مشہور ہیں۔

عصر کا وقت ہوگا، سب بچے گھر کی چھت پر کھیل رہے تھے۔ نیچے صحن میں بڑے ماموں نہا کر سفید براق لباس پہنے چارپائی پر لیٹے ابا سے باتیں کرنے میں مشغول تھے۔باتوں کے دوران سر پر پہنی جناح کیپ اتار کر سائیڈ پر رکھی تو چمکدار ٹنڈ لشکارے مارنے لگی۔ تبھی کرکٹ بال ہمارے ہاتھ سے چھوٹ کر چھت پر پڑے پانی سے ٹکرائی، پھر کسی کی پرواہ اور لحاظ کیے بغیر نیچے صحن کی جانب رواں دواں ہوگئی۔اس کا براہِ راست نشانہ بڑے ماموں کی ٹنڈ تھا۔ بال ٹنڈ سے ٹکرائی اور نہایت آہستگی سے لباس داغدار کرتی ہوئی ان کے پہلو میں جا براجمان ہوئی۔

شروع کے چند لمحات تو بڑے ماموں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا۔ جب سمجھ میں آیا تو چھت کی جانب منہ اٹھا کر بآوازِ بلند ہمیں جو سمجھانا شروع کیا تو ہمیں لینے کے دینے پڑگئے۔ اماں کی سنجیدگی دنیا بھر میں مشہور تھی۔ انہیں کم ہی کسی بات پر ہنسی آتی تھی لیکن بڑے ماموں کے سر سے ٹپکتا پانی باریک لکیر کی صورت میں منہ پر آنے لگا تو اماں سے برداشت نہ ہوسکا۔ وہیں چارپائی پر بیٹھے بیٹھے منہ پھیر کر دوہری ہوگئیں۔

بڑے ماموں کچھ دیر کوس پیٹ کر دوبارہ نہانے چلے گئے۔ فی الحال ان کا منہ کسی کو منہ دکھانے قابل نہ رہا تھا۔ اماں بھی برآمدے کے پار بنے کمرے میں چلی گئیں جہاں ان کو جی بھر کے ہنسنا تھا۔

آج ٍکسی رشتہ دار کے یہاں دعوت تھی۔ سب تیار ہوگئے۔ چھوٹے ماموں نہیں گئے۔ نانی کے پاس رک گئے۔ چھوٹی ممانی آخر وقت تک سمجھاتی رہیں کہ نانی چائے مانگیں تو چائے کا سامان کہاں ڈھونڈنا ہے۔ چھوٹے ماموں سر ہلاتے رہے۔ لیکن صاف محسوس ہورہا تھا کہ سمجھ کچھ نہیں رہے ہیں صرف ممانی کو ٹال رہے ہیں۔

رات کو واپسی ہوئی تو نانی سور ہی تھیں۔ دونوں ممانیاں پریشان ہوگئیں:
’’ یہ سونے کا کون سا وقت ہے؟‘‘
’’معلوم نہیں۔ اماں نے شام کو چائے مانگی تھی۔ چائے پی کر جو سوئیں تو میں نے بھی نہیں اٹھایا۔‘‘ چھوٹے ماموں نے اطمینان سے کہا۔
چھوٹی ممانی ڈرتے ہوئے قریب گئیں۔ نانی کا سانس چیک کیا۔ سانس آرہا تھا۔ انہوں نے شکر ادا کیا۔ سب لباس تبدیل کرنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔رات کے گیارہ بجے ہوں گے۔ چھوٹے شہروں میں اس وقت سناٹا چھا جاتا ہے۔ تبھی چھوٹی ممانی نے شور مچا دیا:
’’ اماں ابھی تک نہیں اٹھیں۔ ڈاکٹر کو بلائیں۔‘‘
بڑے ماموں سونے کے لیے لیٹ چکے تھے۔ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ لباس تبدیل کیا اور قصبہ کے کمپوڈر نما ڈاکٹر کولے آئے۔ اس نے نہایت غیر ماہرانہ انداز میں نانی کا معائنہ کیا پھر نہایت ماہرانہ انداز میں پوچھا:
‘‘اماں کوئی دوا تو نہیں لیتیں؟ لگتا ہے کسی دوا کی زیادہ ڈوز لے لی ہے۔اس کی غنودگی کا اثر ہے۔‘‘
سب چھوٹے ماموں کو دیکھنے لگے۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔
’’میری طرف دیکھیں۔‘‘ چھوٹی ممانی بولیں۔ ’’آپ نے اماں کو کیا کھلایا تھا؟‘‘
’’اماں نے شام کو چائے مانگی، وہ میں نے بناکردے دی۔ بسکٹ ان کے پاس رکھے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ نہیں کھایا۔ فوراً ہی سونے لیٹ گئی تھیں۔‘‘
چھوٹی ممانی کو کچھ شک ہوا وہ ماموں کا ہاتھ پکڑ کر باورچی خانہ میں لے گئیں۔ نہ جانے وہاں کیا تفتیش کی واپس آکر کمپوڈر نما ڈاکٹر کو بتانے لگیں:
’’میں اچھی طرح سمجھا کر گئی تھی کہ چائے کی پتی کہاں رکھی ہے۔اس کے باوجود انہوں نے چائے کی پتی کے بجائے تمباکو کی پتی ڈال دی جو اماں پان میں ڈالتی ہیں۔‘‘

ممانی کی بات سن کر سب تیز نظروں سے چھوٹے ماموں کو گھورنے لگے۔ کمپوڈر نما ڈاکٹر سر جھکا کر کچھ لکھنے لگا۔ اماں تیزی سے اٹھ کر ساتھ والے کمرے کی جانب لپکیں۔ کوئی نہ جان سکا اماں کہاں گئیں۔ لیکن ہم نے دیکھ لیا تھا اماں حلق سے امڈتے قہقہے ضبط کرنے میں ناکام ہورہی ہیں۔ اب کمرے میں چھپ کر زور زور سے ہنسیں گی۔

انہیں ہرگز گوارا نہ تھا کہ دنیا میں مشہور ان کی سنجیدہ مزاجی اور وقار کا بھرم سرعام سرنگوں ہوجائے!!!
جناب عمران!!!!!
البیلے پن کی راحتیں بھولا نہیں ہوں میں
بچپن کی کچھ حماقتیں بھولا نہیں ہوں میں
واہ واہ بے حد مزیدار ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
لوگوں کو مصیبت میں نانی یاد آتی ہے ہمیں چھٹیوں میں. اسکول میں چھٹیاں تھیں، ہم نانی کے گھر آگئے. انجم بھی آگئی. نانی کے گھر کا دروازہ انجم کے دروازے کے عین سامنے تھا. انجم کا ناک نقشہ ایسا نہ تھا جسے فخریہ بیان کیا جائے. بھاری جسم اور پکا رنگ. اس پہ اس کا اعٹماد سب کا خون کھولاتا.
"مجھے اس اعتماد کا راز پتا ہے." فلسفی بولا.
"کیا؟"
"نکڑ پہ بیٹھے بھائی کلّن."فلسفی نے انکشاف کیا.
"وہ کیسے؟"
"دونوں کے درمیان پرچہ بازی ہوتی ہے." اس کا لہجہ پراسرار ہوگیا.
"تمہیں کیسے پتا؟" گڑیا دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر اس کے پاس آگئی.
"ایک مرتبہ مجھ سے بھی پرچی بھجوائی تھی." بے ساختہ بول دیا.
"تم نے اس کی پرچی کلن کو دی تھی؟" گڑیا اس کے سامنے آگئی. وہ دوسری طرف دیکھنے لگا.
"کیا لالچ دیا تھا؟" گڑیا کو غصہ آنے لگا.
"پان کا."
"نانی کو بتاؤں؟"
"رہنے دو. اس نے پان نہیں کھلایا. اس کا بدلہ لینا چاہیے." فلسفی دھمکی خاطر میں نہ لایا.
"کیا کر سکتے ہو؟" چیتے نے پوچھا.
"سوچتے ہیں."
ان دنوں اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کا بھوت سوار تھا. فلسفی ابن صفی کے ناول بھی لے آیا. ہم نے ایک ناول پڑھا. ختم کرنے کے بعد بھی پتا نہ چلا کہ کیا پڑھا. ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا.
"ایک آئیڈیا ہے." ہم نے سب کو متوجہ کیا. سب متوجہ ہوگئے.
"انجم کو اغوا کرلیتے ہیں."
"چار آنے بھی نہیں لگیں گے." فلسفی نے منع کردیا.
"آئیڈیا." چیتے نے چٹکی بجائی. سب بور ہوگئے.
"سن تو لو." سب جماہیاں لینے لگے. اس نے پرواہ نہ کی. مسلسل بولنے لگا. سب مسلسل سننے لگے.
"ایک پرچہ لکھتے ہیں. اگر پیسوں سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو انجم کو اغوا کرلیں گے."
"شمالی پہاڑیاں کہاں ہوتی ہیں؟" فلسفی کو حیرت ہوئی.
"اشتیاق احمد کے ناول میں." چیتا غرایا.
"بریف کیس زیادہ بڑا نہیں ہوجائے گا. اس کی جگہ تھیلی کرلو. دینے میں آسانی رہے گی." انجم کے بدلہ میں بریف کیس جتنی رقم فلسفی کو ہضم نہیں ہوئی.
"تھیلی غیر جاسوسی لفظ ہے. کسی مجرم کو تھیلی میں رقم لیتے نہیں سنا." چیتے نے آئیڈیا مسترد کردیا.
"تم نے ہمیں مجرم کہا؟" گڑیا غرائی.
"بے وقوف مت بنو. اور کاغذ قلم لے کر آؤ." چیتے نے کام پر لگادیا.
"کیوں؟"
"خط لکھنا ہے." فلسفی ساری بات سمجھ گیا. خط فلسفی نے لکھا. ہمارے نزدیک سب سے پختہ رائٹنگ اسی کی تھی. خط انجم کے ابا کے نام لکھا گیا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے. اگر آپ نے رقم سے بھرا بریف کیس شمالی پہاڑیوں پہ نہ رکھا تو ہم انجم کو اغوا کرلیں گے."
"یہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟" ہمیں کھٹکنے لگا.
"اس طرح کا خط کسی مجرم کا یاد نہیں آرہا." ہم نے اپنے خدشات ظاہر کیے.
"تمہیں نہیں پتا. ابن صفی کے مجرم ایسے ہی لکھتے ہیں." ہم متاثر ہوگئے. خط دروازے سے اندر ڈالنے کی ذمہ داری ہماری لگی. دوپہر کے سناٹے میں خط ڈالنے گئے. جاتے وقت جتنی تیزی دکھائی، واپسی پر رفتار اس سے تین گنا زیادہ تھی.
اب شام کا انتظار شروع ہوگیا.
شام کو انجم کی اماں ہاتھ میں خط لیے آگئیں. تیر کی طرح نانی کے پاس پہنچیں. بچوں کی رائٹنگ پہچان لی گئی تھی. ایسی چوکڑی محلہ بھر میں نہیں تھی. بقول نانی شریفوں کا محلہ تھا. انجم کی اماں آگ لگا گئیں. نانی نے سب کو بلالیا.
"کم بختو دھمکی نامہ لکھا ہے یا خیریت نامہ. یا تو سلام دعا کرلو، خیریتیں پوچھ لو یا لڑکیاں اٹھوا لو. ناک کٹادی محلہ بھر میں. آنے دو نانا کو." نانی کو ہنسی آرہی تھی. لیکن موقع غصہ کرنے کا تھا. سو غصہ دکھانے لگیں.
نانی خط ہمارے حوالے کرکے چلی گئیں. ہم نے دوبارہ خط پڑھا.
"محترم انکل السلام علیکم.
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے....."
" اسی پر تو ہم کھٹک رہے تھے." ہم نے اعلان کیا. سب فلسفی کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے!!!

رات کو نانا آگئے. نانا مارنے پر گُھرکنے کو ترجیح دیتے تھے.

تین دن تک مسلسل گُھرکتے رہے!!!
کیا سچ میں ہواتھا ایسا۔ ۔ ۔ مطلب اتنی عقلمندی ۔ ۔:ROFLMAO:
 

صابرہ امین

لائبریرین
فلسفی کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ نعمت خالہ کے پاس گیا۔ انہوں نے ہری جھنڈی دکھا دی۔وہ باہر سے مٹی کی نئی گلک لے آیا۔
’’خالی گلک سے پیسے ملیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’پیسے ہر جگہ سے مل سکتے ہیں۔ ہاتھ میں ہنر ہونا چاہیے۔‘‘ فلسفہ بگھار کر لان میں آگیا ۔ کیاری کی خشک مٹی گلک پر رگڑی۔ اس کی آب و تاب ماند ہوگئی۔ جھاڑ پونچھ کر اندر لایا۔ اسٹول اٹھایا اور الماری پر رکھی گڑیا کی گلک اتار لی۔ کافی وزنی تھی۔ توڑی تو خوب سارے پیسے نکلے۔ تھوڑے سے پیسے نئی گلک میں ڈالے ،باقی اپنی جیب میں۔ گڑیا جب پیسے ڈالنے گلک اٹھاتی نعمت خالہ کے پاس ضرور آتی:
’’یہ ہلکی کیوں لگ رہی ہے؟‘‘
’’وہم ہوگا۔‘‘
’’وہم سے وزن کم ہوجاتا ہے کیا؟‘‘ گڑیا ہمیشہ وہم میں مبتلا رہی!!!
اففف دو نمبریاں ۔ ۔ :D
 

سیما علی

لائبریرین
جناب دوبارہ پڑھیں آپکی حما قتیں تو لطف دوبالا ہوگیا اور جناب
کرنل شفیق الرحمان کی ’حماقتیں اور مزید حماقتیں ،لہریں ،کر نیں کی یاد تازہ ہوگئی۔بلاشبہ آپ میں میں کرنل صاحب کا رنگ جھلکتا ہے۔بہت ڈھیر دعائیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
نانی کی سہیلی کی پوتی کی شادی تھی۔ تعلقات ایسے تھے کہ سب گھر والوں کو مدعو کیا گیا۔ حیدرآباد کے ایک بڑے ہوٹل میں قیام کا بندو بست تھا۔ صبح سویرے ایک بڑی وین میں کراچی سے حیدرآباد پہنچے،کمروں میں پہنچے تو ناشتہ آپہنچا۔ ہاف فرائی ایگ، بریڈ، مکھن، جام اور گرم گرم چائے۔ ناشتے کے بعد جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ دوپہر کو دولہا کے گھر دعوت تھی ، رات کو ہوٹل کے لان میں تقریب۔ہم بچے نانی اور ان کی دو سہیلیوں کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں تھے۔ نانی کی ایک سہیلی کو ہم بی بی کہتے تھے۔ روٹی پکانا ہو یا روٹی کھانا وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی تھیں۔ سب سے جلدی نانی اور ان کی سہیلیاں تیار ہوئیں۔ فقط منہ دھو کر کپڑے بدل لیے۔ پھر جو شروع ہوئیں تو گفتہ ناگفتہ سب باتیں ہونے لگیں۔ ایک خاص پوائنٹ پر آکر بچوں کی موجودگی کا نوٹس لیا تو نانی ڈانٹنے لگیں:
’’ بچو، جاکر دیکھو تمہاری مائیں تیار ہوئیں یا نہیں۔‘‘
سب سمجھ گئے ماؤں کا بہانہ ہے ۔ اصل میں ہمیں بھگانا ہے۔ دلچسپ اور تہلکہ خیز خاندانی انکشافات سے محروم ہونے کا دل تو نہیں تھا لیکن مجبوراً کمرے سے نکلنا پڑا۔ باہر نکل کر کمروں میں جھانکا تاکی شروع ہوئی۔
’’اس طرح جھانکنا بری بات ہے۔‘‘ گڑیا کو ایٹی کیٹس یاد آگئے۔
’’کوئی نہیں ہے۔ سب کے دروازے کھلے ہیں۔ ہوٹلوں میں پرائیویسی نہیں ہوتی۔‘‘ فلسفی نے فلسفہ کا نیا قانون جھاڑا۔ گڑیا منہ بنا کر رہ گئی۔ چیتا طنزیہ ہنسی ہنسنے لگا۔ فلسفی کو غصہ آگیا۔ قبل اس کے لڑائی شروع ہوتی ایک کمرے میں آصف نظر آیا۔ سب اندر داخل ہوگئے۔ ممانی کپڑے دکھارہی ہیں اور وہ منع کررہا ہے۔
’’دیکھو یہ لوگ تو تیار بھی ہوگئے۔ کچھ ان سے ہی سیکھ لو۔‘‘ ہمیں معلوم تھا ممانی نے ہماری تعریف نہیں کی محض آصف کو ترغیب دی ہے۔
کمپٹیشن میں آکر آصف بے دلی سے ایک سوٹ لے کر واش روم میں چلا گیا۔ ہم نیچے اتر کر ڈائننگ ہال میں چلے گئے۔ویٹر کو بلایا، کمرہ نمبر بتایا اور میزبان کے خرچہ پر کولڈ ڈرنکس کا مفتا اڑایا۔ لفٹ سے اوپر آئے، کمرے میں جھانکا، نانیاں اسی مشکوک انداز میں باتیں کررہی تھیں، ہمیں دیکھ کر مشکوک انداز سے گھورا، ہم اسی طرح مشکوک بنے باہر آگئے۔ برابر والے کمرے میں گئے۔ اماں اور نعمت خالہ کو دیکھ کر پتا نہیں چل رہا تھا کہ تیار ہوچکی ہیں یا سلسلہ جاری ہے۔ ہمیں دیکھ کر دونوں نے ہاتھ کے اشارے سے باہر کا راستہ دکھایا، ہم نے باہر کا راستہ دیکھ لیا۔
تفریح کا نیا ذریعہ ڈھونڈا گیا۔ لفٹ سے اوپر نیچے آنے جانے لگے۔ گراؤنڈ فلور پر لفٹ کے عین سامنے کاؤنٹر تھا۔ اس کے پیچھے صاحب بہادر تھے۔ کوئی دسواں چکر ہوگا کہ صاحب بہادر نے ہمیں روک لیا:
’’بچو آپ کون سے کمرے میں ہیں؟‘‘
’’ہم نے کمرہ نمبر بتایا۔ اس نے ہمیں بتایا اب اگر بلا ضرورت آئے تو بڑوں کے پاس لے جایا جائے گا۔ بڑوں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی وہ خود ہی ہمارے پاس آگئے۔ منیجر نے نجانے کیا کہا ہمیں خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ ان نظروں کو کوئی خاطر میں نہ لایا۔ سب کو معلوم تھا یہاں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور گھر جاتے جاتے سب بھول جائیں گے۔
رات کو لان میں تقریب تھی۔ ممانی نے لڑکے والوں سے سسرال کی برائی شروع ہی کی تھی کہ نعمت خالہ پہنچ گئیں۔
’’بھابھی جان آپ ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں، کسی اور کی بات ہورہی تھی۔‘‘ ممانی جل کر رہ گئیں۔
جہاں دیدہ خواتین ہونٹ دبا کر مسکرانے لگیں۔
دولہا دولہن اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ دولہن کا رنگ گہرا سانولا تھا، دولہا فقط کالا تھا۔
’’میں نے آج تک اتنے بے ہودہ دولہا دولہن نہیں دیکھے۔‘‘ فلسفی نے سرگوشی کی۔ نعمت خالہ نے سن لی۔ کمر پر دھول رسید کی۔ فلسفی گرتے گرتے بچا۔ کرسی سے اٹھا اور دور جاکر بیٹھ گیا۔
’’میں نے آج تک ایسے دولہا دولہن نہیں دیکھے جو ہر پوز سے بے ہودہ دکھائی دیں۔‘‘ فلسفی نے منہ بنایا۔
’’بتا ؤں امی کو؟‘ ‘ گڑیا نے دھمکی دی۔
’’کاش تمہیں بھی ایسا ہی دولہا ملے۔‘‘ فلسفی نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا۔گڑیا شکایت لگانے نعمت خالہ کے پاس بھاگی۔ ہم جان بچا کے وہاں سے بھاگے۔
تقریب سے فارغ ہوکر رات گئے کمروں میں آئے۔ نانی سارا دن شکایت کرتی رہیں باتھ روم میں عجیب سی بو ہے۔
’’کون جاتا ہے؟‘‘ انہوں نے ہمیں گھورا۔
’’ہم نہیں ہیں۔‘‘ فلسفی نے فوراً انکار کردیا۔ چیتا کچھ کہنے سے ہچکچایا پھر بولا:
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’بی بی۔‘‘
تمہیں کیسے معلوم؟‘‘
’’مجھے شک تھا۔ وہ ہر کام نیچے بیٹھ کر کرتی ہیں۔ کموڈ کیسے استعمال کرتیں۔ شام کو جب باتھ روم گئیں تو میں نے دروازہ کھول کر دیکھ لیا۔ وہ باتھ ٹب میں بیٹھی۔۔۔‘‘ نانی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا منہ بھینچ دیا۔

اظہارِ آزادیِ رائے پر ہر زمانے میں پابندی رہی ہے!!!
رات کو لان میں تقریب تھی۔ ممانی نے لڑکے والوں سے سسرال کی برائی شروع ہی کی تھی کہ نعمت خالہ پہنچ گئیں۔
’’بھابھی جان آپ ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں، کسی اور کی بات ہورہی تھی۔‘‘ ممانی جل کر رہ گئیں۔
جہاں دیدہ خواتین ہونٹ دبا کر مسکرانے لگیں۔

آپ کی کیا عمر ہو گی اس وقت ۔ ۔ یہ باتیں بھی سمجھ آگئیں ۔ ۔ اسٹار پلس کے چائلڈ اسٹار ۔ ۔ :ROFLMAO::LOL:
 

سید عمران

محفلین
رات کو لان میں تقریب تھی۔ ممانی نے لڑکے والوں سے سسرال کی برائی شروع ہی کی تھی کہ نعمت خالہ پہنچ گئیں۔
’’بھابھی جان آپ ہمیں کچھ کہہ رہی ہیں؟‘‘
’’نہیں، کسی اور کی بات ہورہی تھی۔‘‘ ممانی جل کر رہ گئیں۔
جہاں دیدہ خواتین ہونٹ دبا کر مسکرانے لگیں۔

آپ کی کیا عمر ہو گی اس وقت ۔ ۔ یہ باتیں بھی سمجھ آگئیں ۔ ۔ اسٹار پلس کے چائلڈ اسٹار ۔ ۔ :ROFLMAO::LOL:
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں!!!!
 
Top