داغ بزمِ دشمن میں نہ کھلنا گلِ تر کی صورت ۔ داغ دہلوی

فاتح

لائبریرین
بزمِ دشمن میں نہ کھلنا گلِ تر کی صورت​
جاؤ بجلی کی طرح آؤ نظر کی صورت​
نہ مٹانے سے مٹی فتنہ و شر کی صورت​
نظر آتی نہیں اب کوئی گذر کی صورت​
سوچ لے پہلے ہی تو نفع و ضرر کی صورت​
نامہ بر تجھ کو بھلا دیں گے وہ گھر کی صورت​
کیا خبر کیا ہوئی فریاد و اثر کی صورت​
کہ ادھر کب نظر آتی ہے ادھر کی صورت​
بگڑی شوریدہ سری سے مرے گھر کی صورت​
وہی دیوار کی صورت ہے جو در کی صورت​
چھپ کے بیٹھے ہو اگر مجھ سے چلو یونہی سہی​
میں بھی اٹھنے کا نہیں پردۂ در کی صورت​
اس کو دیکھے کوئی محفل میں، یہ کس کی طاقت​
ہر بشر دیکھنے لگتا ہے بشر کی صورت​
بارِ تشبیہ سے دہرے وہ ہوئے جاتے ہیں​
کیوں رگِ جاں سے ملائی تھی کمر کی صورت​
نامہ بر جان کے میں اس کے قدم لیتا ہوں​
جب بنا کر کوئی آتا ہے سفر کی صورت​
نہیں معشوق کوئی حسن و ادا سے خالی​
اس پہ صورت بھی مرے رشکِ قمر کی صورت​
اے جنوں! خاکِ بیاباں کو بیاباں سمجھوں​
میری آنکھوں میں ابھی پھرتی ہے گھر کی صورت​
ان کے جانے کا وہ صدمہ، وہ مری تنہائی​
اور روتی ہوئی وہ شمعِ سحر کی صورت​
رشک آئینے سے کیا، وہم تو اس بات کا ہے​
تیرے دل میں نہ پھرے آئینہ گر کی صورت​
خط میں لکھا تھا کہ آتا ہے کلیجا منہ کو​
اب دکھائیں انہیں کس منہ سے جگر کی صورت​
وصف حورانِ بہشتی کے سنے، اے واعظ!​
سب سے اچھی ہے جو اچھی ہے بشر کی صورت​
لبِ پاں خوردہ کی شوخی پہ نہ اترا ظالم​
ملتی جلتی ہے مرے زخمِ جگر کی صورت​
خواب راحت سے جو اٹھے ہیں وہ کلمہ پڑھتے​
نظر آئی ہے کسی پاک نظر کی صورت​
آج آنکھیں نہیں یا میں نہیں، دیکھو تو غضب​
کہ دکھائی ہے مجھے غیر کے گھر کی صورت​
آئے تھے گھر میں مرے آگ ببولا بن کر​
ٹھنڈے ٹھنڈے وہ گئے بادِ سحر کی صورت​
ہاتھ آنکھوں پہ شبِ وصل عبث رکھتے ہو​
میری صورت نہ سہی، دیکھو سحر کی صورت​
آپ نے کی ہیں عبث شرم سے نیچی آنکھیں​
چبھ گئی یہ بھی ادا دل میں نظر کی صورت​
دل سے نکلے تو پھرے خانہ خرابوں کی طرح​
تم نے برسوں کبھی دیکھی نہیں گھر کی صورت​
منتظر ہجر میں ہم، وصل میں مشتاق ہو تم​
نظر آتی نہیں دونوں کی سحر کی صورت​
در و دیوار کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا​
ان کے آتے ہی بدل جاتی ہے گھر کی صورت​
کوئی دم کوئی گھڑی کل نہیں پڑتی دل کو​
میں بیاں کس سے کروں آٹھ پہر کی صورت​
لیے جاتا ہے ہمیں جوشِ جنوں صحرا کو​
دیکھتے جاتے ہیں منہ پھیر کے گھر کی صورت​
حضرتِ داغؔ تو شاعر ہیں، ہوا باندھتے ہیں​
نہ دعا کی کوئی صورت، نہ اثر کی صورت​
نواب مرزا خان داغؔ دہلوی کے مجموعۂ کلام "مہتابِ داغ" سے انتخاب
 

شیزان

لائبریرین
بھئی واہ۔۔
اِتنا عمدہ کلام اور وہ بھی مکمل۔۔
بےحد شکریہ فاتح بھائی اس عنایت کا:)۔۔ لطف آ گیا
 
Top