پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

علی وقار

محفلین
ایک تھا موڑھا!!!
image.jpg
یہ موڑھے سٹائل کی کرسی ہے۔ پتہ نہیں اسے موڑھا کہتے ہیں یا نہیں۔
دو موڑھے میں نے کچھ عرصے پہلے خریدے تھے۔ ان کی تصویر کھینچ ہے بھیجتی ہوں۔
ریختہ کے مطابق،

موڑھا​



اصل: سنسکرت

موڑھا کے اردو معانی​


اسم, مذکر

  • سر کنڈے کی بنی ہوئی کُرسی، سرکنڈوں سے بنائی اور بانوں سے بُنی ہوئی بے تکیے کی یا تکیے دار کُرسی جس کی بیٹھک کا گھیرا بھی بانوں سے بنا ہوتا ہے نیز اس وضع کی کسی اور چیز سے بنی ہوئی نشست گاہ،
 

علی وقار

محفلین
سروتا۔۔۔
بالخصوص چھالیہ کاٹنے کا آلہ۔۔۔
کسی زمانہ میں اس کی اتنی اہمیت تھی کہ شادی بیاہ کے گانوں میں اس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوتا تھا۔۔۔
پیارے نندویا سروتا کہاں بھول آئے۔۔۔
اب یہاں پیارے نندویا کی کیا اہمیت تھی وہ اُس زمانہ کے لوگ جانیں۔۔۔
ہم کسی کا پردہ فاش نہیں کریں گے۔۔۔
سروتے کو گاہے دیگر مقاصد مثلاً اخروٹ وغیرہ کاٹنے میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔۔۔
زیادہ تاؤ دلانے کی صورت میں فاعل کی جانب نشانہ درست کرکے مارا جاتا تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے تھے!!!
image.jpg
سروتا سے متعلقہ آرٹیکل:
سروتا بنانے والے صدیوں پرانے لوہار
 

جاسمن

لائبریرین
رکشے پہ گھر کی طرف آ رہی تھی کہ ایک بے حال سا بندہ دو موڑھے لے کے ایک طرف بیٹھا نظر آیا۔ رکشے کو روکتے روکتے دیر ہوئی۔ رکشہ رکا تو پیچھے گئی اور دیکھا تو موڑھے بہت اچھے تھے۔ مضبوط بنے ہوئے تھے۔ محنت سے اور اچھے میٹیریل سے۔ قیمت سولہ سو، آپ کے لیے پندرہ سو لگ جائیں گے۔ کسی دوسرے شہر سے آیا تھا۔ نمبر بھی اپنا اسے دیا تھا لیکن فون نہیں آیا۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ اسے رکشے میں آگے بٹھایا اور بینک تک گئے اور پیسے دیے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
مدھانی۔۔۔
ٹھنڈے یخ دودھ میں لکڑی کی یہ مدھانی چلاتے تھے۔۔۔
اس سے مکھن دودھ کے اوپر آجاتا تھا۔۔۔
باقی جو پانی بچتا تھا اسے چھاچھ کہتے ہیں۔۔۔
لسی کی دوکانوں پر کہیں کہیں مدھانی نظر آجاتی ہے۔۔۔
بعض اوقات اس سے حلیم وغیرہ بھی گھوٹا جاتا ہے۔۔۔
شہروں میں تو پہلے ہی اس کا تصور عام نہ تھا اب تو دیہاتوں میں بھی معدوم ہوتا جارہا ہے!!!

image.png
آجکل اِس کی جگہ جوسر مشین نے لے لی ہے
 

سید عمران

محفلین
ہمارے گھر بھی تھا اور سسرال میں بھی۔ اب دونوں جگہ نہیں ۔البتہ میں ابھی چند ماہ پہلے شاہی بازار سے لائی تھی۔ مجھے اچھا لگتا ہے یہ۔ مفید بھی ہے۔
صبح تصویر لوں گی اس کی۔

میرے گھر میں ہیں۔ میں نے خود بنوائی تھیں۔ اب پرانی ہو چکی ہیں۔ لیکن تصویر بنا کر ضرور بھیجوں گی۔

پنجابی میں پوڑی کہتے ہیں۔ ہمارے گھر میں چھت پہ پڑی ہے۔ اس کی تصویر بھیجوں گی۔
کافی تصاویر بھیجنا آپ کے ذمہ باقی ہے۔۔۔
ہم نے بھی آپ کے ذمہ کافی کام لگادیا!!!
 

سید عمران

محفلین
IMG-20200811-135005.jpg

یہ پانی پلانے والے لگتے ہیں۔
نیز ماشکی، سقہ اور بہشتی میں کیا فرق ہے؟
پرانے زمانے کی تصاویر دیکھ کر معلوم ہوا کہ کپڑے بھلے پھٹے پرانے ہوں، پاؤں میں جوتا نہ ہو۔۔۔
لیکن ننگے سر کوئی نہیں ہوتا تھا۔۔۔
آج تو مسجد میں سر نہیں ڈھکتے!!!
 

سید عمران

محفلین
دستی پنکھا

چوں کہ دستی پنکھے کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں چناں چہ اس کا جمشید دستی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
دستی پنکھا آج بھی کسی حد تک مستعمل ہے تاہم اتنا زیادہ نہیں جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔
اب بجلی کے پنکھوں کا چلن عام ہے جسے چلانے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بس اٹھ کر اس دیوار تک جانا ہے جس پر پنکھا چلانے کا بٹن لگا ہے۔۔۔
اصل مشقت دستی پنکھا جھلنے کے وقت جھیلنی پڑتی تھی جس جھل جھل کے دست شل ہوجاتے تھے۔۔۔
بجلی نہ ہونے کی صورت میں بھی دستی پنکھوں کی طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ لوگ باگ گھروں میں جنریٹر یا یو پی ایس لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔
دستی پنکھے کا دستہ یعنی پنکھا پکڑنے کی ڈنڈی تلوار کی طرح لہرا لہرا کر دشمنوں کی ہوا اکھیڑنے کے کام بھی آتی تھی اور پنکھے کو ہلا ہلا کر خاطر خواہ ہوا برآمد کرنے کے کام بھی۔۔۔
برآمد شدہ ہوا کا مین ٹارگٹ منہ ہوا کرتا تھا مگر گاہے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی یہ ہوا کھلائی جاتی تھی۔۔۔
اس ڈنڈی کا ایک اور استعمال تھا کہ جسم کے وہ دور افتادہ علاقے جن تک دستِ انسانی کی رسائی نہ ہوپاتی وہاں کھجانے کے کام آتی۔۔۔
انگریزی والے فین کی طرح دستی پنکھا کسی کا فین نہیں تھا بلکہ لوگ دستی پنکھےکے فین تھے اور اسے جھلنے والے کے گرد ان مفت خوروں کی طرح بیٹھ جاتے تھے جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کرکھانے والے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں!!!

image.jpg
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اب بجلی کے پنکھوں کا چلن عام ہے جسے چلانے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بس اٹھ کر اس دیوار تک جانا ہے جس پر پنکھا چلانے کا بٹن لگا ہے۔۔۔
کراچی میں ایک مرتبہ ایک شخص انہیں بیچنے کے لیے یہ فضیلت بیان کر رہا تھا کہ یہ بغیر بجلی والے پنکھے ہیں ۔
بغیر بجلی والے پنکھے !!!
بغیر بجلی والے پنکھے !!!
 

علی وقار

محفلین
دستی پنکھا

چوں کہ دستی پنکھے کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں چناں چہ اس کا جمشید دستی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
دستی پنکھا آج بھی کسی حد تک مستعمل ہے تاہم اتنا زیادہ نہیں جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔
اب بجلی کے پنکھوں کا چلن عام ہے جسے چلانے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بس اٹھ کر اس دیوار تک جانا ہے جس پر پنکھا چلانے کا بٹن لگا ہے۔۔۔
اصل مشقت دستی پنکھا جھلنے کے وقت جھیلنی پڑتی تھی جس جھل جھل کے دست شل ہوجاتے تھے۔۔۔
بجلی نہ ہونے کی صورت میں بھی دستی پنکھوں کی طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ لوگ باگ گھروں میں جنریٹر یا یو پی ایس لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔
دستی پنکھے کا دستہ یعنی پنکھا پکڑنے کی ڈنڈی تلوار کی طرح لہرا لہرا کر دشمنوں کی ہوا اکھیڑنے کے کام بھی آتی تھی اور پنکھے کو ہلا ہلا کر خاطر خواہ ہوا برآمد کرنے کے کام بھی۔۔۔
برآمد شدہ ہوا کا مین ٹارگٹ منہ ہوا کرتا تھا مگر گاہے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی یہ ہوا کھلائی جاتی تھی۔۔۔
اس ڈنڈی کا ایک اور استعمال تھا کہ جسم کے وہ دور افتادہ علاقے جن تک دستِ انسانی کی رسائی نہ ہوپاتی وہاں کھجانے کے کام آتی۔۔۔
انگریزی والے فین کی طرح دستی پنکھا کسی کا فین نہیں تھا بلکہ لوگ دستی پنکھےکے فین تھے اور اسے جھلنے والے کے گرد ان مفت خوروں کی طرح بیٹھ جاتے تھے جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کرکھانے والے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں!!!

image.jpg
ہمت فین۔
 

جاسمن

لائبریرین
دستی پنکھا

چوں کہ دستی پنکھے کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں چناں چہ اس کا جمشید دستی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
دستی پنکھا آج بھی کسی حد تک مستعمل ہے تاہم اتنا زیادہ نہیں جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔
اب بجلی کے پنکھوں کا چلن عام ہے جسے چلانے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بس اٹھ کر اس دیوار تک جانا ہے جس پر پنکھا چلانے کا بٹن لگا ہے۔۔۔
اصل مشقت دستی پنکھا جھلنے کے وقت جھیلنی پڑتی تھی جس جھل جھل کے دست شل ہوجاتے تھے۔۔۔
بجلی نہ ہونے کی صورت میں بھی دستی پنکھوں کی طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ لوگ باگ گھروں میں جنریٹر یا یو پی ایس لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔
دستی پنکھے کا دستہ یعنی پنکھا پکڑنے کی ڈنڈی تلوار کی طرح لہرا لہرا کر دشمنوں کی ہوا اکھیڑنے کے کام بھی آتی تھی اور پنکھے کو ہلا ہلا کر خاطر خواہ ہوا برآمد کرنے کے کام بھی۔۔۔
برآمد شدہ ہوا کا مین ٹارگٹ منہ ہوا کرتا تھا مگر گاہے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی یہ ہوا کھلائی جاتی تھی۔۔۔
اس ڈنڈی کا ایک اور استعمال تھا کہ جسم کے وہ دور افتادہ علاقے جن تک دستِ انسانی کی رسائی نہ ہوپاتی وہاں کھجانے کے کام آتی۔۔۔
انگریزی والے فین کی طرح دستی پنکھا کسی کا فین نہیں تھا بلکہ لوگ دستی پنکھےکے فین تھے اور اسے جھلنے والے کے گرد ان مفت خوروں کی طرح بیٹھ جاتے تھے جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کرکھانے والے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں!!!

image.jpg
دستی پنکھا میں نے بہت استعمال کیا ہے۔ہم ہفتے کے اختتام پہ اور اس کے علاوہ بھی گاؤں جایا کرتے تھے۔ گاؤں میں اکثر بجلی چلی جاتی تھی، بچے بہت چھوٹے تھے۔ رات کا بہت سا حصہ انھیں پنکھا جھلتے گزرتا تھا۔ مچھر بھی ہوتے تھے تو میں ہاتھ بدل لیتی تھی لیکن پنکھا جھلنا نہیں چھورٹی تھی۔ اب تو یو پی ایس ہیں، بہت سہولتیں ہو گئی ہیں۔
 
Top