باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
دَورِ فلک نہیں ہے یہ دَورِ بہار ہے
حق کیش و حق نیوش ہر اک بادہ خوار ہے
تمہیدِ داستانِ محبت نہ پوچھئے
تکمیلِ آرزو کا ابھی انتظار ہے
اچّھا فریب کار سہی حسنِ خود نما
اپنی نگاہ پر تو مجھے اعتبار ہے
الزامِ اختیار کی تردید کیا کروں
وہ جانتا ہے جتنا مجھے اختیار ہے
بے شک وہ تلخ گو ہے، مگر بد زباں نہیں
اے خوش کلام، راز صداقت شعار ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
بدگوئیِ دنیا کی اب کیا مجھے پروا ہے
ساقی کا کرم خود ہی سرگرمِ تقاضا ہے
میں جانتا ہوں اس کو، پہچانتا ہوں اس کو
دیکھا ہے اُسے میں نے، ہر رنگ میں دیکھا ہے
امید کی دل سوزی کیا وجہِ سکوں ہو گی
آغاز تمنّا سے، انجام ہُویدا ہے
خوددار ہے یا خود بیں، ہشیار ہے یا غافل
بیگانۂ دنیا سے، دنیا کو غرض کیا ہے
شاید ترے سجدے ہیں ممنونِ ریاکاری
اے راز تجھے اب تک اندیشۂ فردا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کیا پوچھتے ہو نماز کیا ہے
واقف نہیں تم نیاز کیا ہے؟
رندی ہے اساسِ پاکبازی
پینے سے پھر احتراز کیا ہے
کچھ پاسِ ادب ہے، ورنہ واللہ
یہ چرخ، یہ فتنہ ساز کیا ہے
تو اور حریفِ پارسائی
اے راز بتا یہ راز کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
یہی ضد ہے تو اچھا اب سُنو تم داستاں میری
مگر کیا اہلِ محفل بھی سمجھتے ہیں زباں میری
مرے آتے ہی ٹھنڈی پڑ گئی کیوں گرمئ محفل
حریفِ خوش بیاں کیا کہہ رہا تھا داستاں میری
خدا کا خوف، اے توبہ، معاذ اللہ، معاذ اللہ
محبت کیش ہوں میں، زندگی ہے جاوداں میری
نوائے راز اور یوں انجمن آرائے غربت ہو
خلیق(١) و عبقری (٢) شاید سمجھتے ہیں زباں میری

١۔فیض آبادی ٢۔بریلوی
 

الف عین

لائبریرین
O
فریب آگیں نگارِ دہر کی جلوہ طرازی ہے
بظاہر اک حقیقت ہے، حقیقت میں مجازی ہے
نہ ہو برہم، ترے قرباں، نگاہ ِساقئ رعنا
ابھی تو تشنۂ تکمیل ذوقِ پاکبازی ہے
بظاہر کارِ رنداں ہے، مگر اب کیا کہوں تم سے
محبت جس کو کہتے ہیں، وہ حسنِ پاکبازی ہے
کہاں میں اور کہاں حسنِ تکلّم، راز کیا کہئے
نگاہِ آفتابِ عشق کی ذرّہ نوازی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
فرصت ملی جو دَورِ مہ و آفتاب سے
پوچھوں گا رازِ دہر فضیلت مآب سے
حلقہ بگوشِ حسنِ محبت نواز ہوں
آزاد ہوں قیودِ جہانِ خراب سے
وہ بے نقاب جلوہ گرِ بزمِ ناز ہے
اب آنکھ تو ملائے کوئی آفتاب سے
اسرارِ بیخودی و خودی مجھ سے پوچھئے
واقف ہو میں رموزِ مہ و آفتاب سے
کیا واقعی نیاز منش ہیں جنابِ راز
اچھا کبھی ملیں گے فضیلت مآب سے
 

الف عین

لائبریرین
O
ہنوز بادۂ دوشیں کا ہے خمار مجھے
نویدِ کیف نہ دے ساقئ بہار مجھے
کرشمہ سازئ چشمِ کرم کو کیا کہئے
نہ پوچھ، کس نے بنایا ہے میگسار مجھے
حریفِ جبر کہوں یا شریکِ قدر اس کو
بہ لطفِ خاص دیا ہے جو اختیار مجھے
ہنوز روئے حقیقت پہ ہے نقابِ مجاز
ہنوز چشمِ کرم کا ہے انتظار مجھے
مقیمِ دشتِ جبل پور ہوں، مگر اے راز
پیامِ اہلِ وطن کا ہے انتظار مجھے
 

الف عین

لائبریرین
O
ساقی مجھے پینے سے تو پرہیز نہیں ہے
گلشن کی ہوا آج طرب خیز نہیں ہے
میخانۂ الفت ہے کہ فردوسِ مجسم
اس بزم میں زاہد کو بھی پرہیز نہیں ہے
کیا اور بھی ہے اور کوئی ساغرِ خوش کیف
اے راز یہ گل رنگ تو کچھ تیز نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
عشق میں جو خراب ہوتا ہے
بس وہی کامیاب ہوتا ہے
اک ادا ہے ادائے دلداری
دوستوں پر عتاب ہوتا ہے
زندگی ہے تغیّرات کا نام
روز اک انقلاب ہوتا ہے
بے غرض جو کبھی کیا جائے
بس وہ کارِ ثواب ہوتا ہے
کم نظر میری میکشی پہ نہ جا
عیب میں بھی صواب ہوتا ہے
کیا کہوں تجھ سے ناصحِ مشفق
کیا کوئی خود خراب ہوتا ہے
راز ہشیار، ہوشیار اے راز
دورِ صہبائے ناب ہوتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کیا یہ دَورِ نرگسِ مستانہ ہے
محتسب کے ہاتھ میں پیمانہ ہے
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں رازِ حیات
صرف حسن و عشق کا افسانہ ہے
سوز در دل، آہ بر لب، خستہ حال
دیکھنا تو، کون یہ دیوانہ ہے
کم نظر ہے راز، اے قرباں شوم
کس قدر دلچسپ یہ افسانہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کسی کو غیر سمجھے وہ کسی کو رازداں سمجھے
محبت کی حقیقت کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے
یہ وہ منزل ہے جس میں خودفراموشی کی حاجت ہے
خودی کی حد سے جو نکلے، وہی رازِ جہاں سمجھے
بہت سمجھے تو بس اتنا کہ کافر کہہ دیا مجھ کو
مذاقِ حق پرستی کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے
نگاہِ ناز کی افسانہ سازی، اے معاذ اللہ
کوئی حسنِ ادا دیکھے، کوئی طرزِ بیاں سمجھے
زبانِ شعر میں اے راز دل کی بات کہتا ہوں
کوئی اب بے ہنر سمجھے مجھے یا نکتہ داں سمجھے
 

الف عین

لائبریرین
O
نہ احساسِ گراں جانی، نہ فکرِ شادمانی ہے
خدارا ہم نشیں، یہ زندگی کیا زندگانی ہے
اگر حسنِ عمل کا نام اصلِ زندگانی ہے
تو میری نامرادی بھی حریفِ کامرانی ہے
ابھی واقف نہیں دنیا محبت کی حقیقت سے
حقیقت میں محبت ہی تو حسنِ زندگانی ہے
خموش اے راز، یہ بزمِ سخن، یہ محفلِ رنگیں
عجب بے کیف ظالم، تیری طرزِ شعر خوانی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
نہ احساسِ گراں جانی، نہ فکرِ شادمانی ہے
خدارا ہم نشیں، یہ زندگی کیا زندگانی ہے
اگر حسنِ عمل کا نام اصلِ زندگانی ہے
تو میری نامرادی بھی حریفِ کامرانی ہے
ابھی واقف نہیں دنیا محبت کی حقیقت سے
حقیقت میں محبت ہی تو حسنِ زندگانی ہے
خموش اے راز، یہ بزمِ سخن، یہ محفلِ رنگیں
عجب بے کیف ظالم، تیری طرزِ شعر خوانی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
عجب رنگ لائی مری بے گناہی
نگاہوں میں ہے جلوۂ عذر خواہی
گناہِ محبت ہے فطرت میں داخل
گناہِ محبت کی کیا عذرخواہی
زمانہ سے کرتا ہوں قطعِ تعلق
جہاں تک بنی، رسمِ دنیا نباہی
تصرف میں میرے نظامِ جہاں ہے
فقیری کہو اس کو یا بادشاہی
پسند آئے گی راز دُنیا کو کیوں کر
تری صاف گوئی، تری خوش نگاہی
 

الف عین

لائبریرین
O
کیفِ شرابِ عشق سے جب بیخودی نہ تھی
کہنے کو زندگی تھی، مگر زندگی نہ تھی
میخانۂ جہاں میں کبھی میں نے پی نہ تھی
ممنونِ آبِ تلخ مری بیخودی نہ تھی
شاید گناہِ عشق بھی کوئی گناہ ہو
مجھ کو تو اس گناہ پہ شرمندگی نہ تھی
شکرِ خدا و پرسشِ کافر کا شکریہ
اتنی تو خوش نصیب مری بیکسی نہ تھی
الزام ہے یہ راز حقیقت نواز پر
خوددار وہ ضرور تھا لیکن خودی نہ تھی
 

الف عین

لائبریرین
O
جفائے باغباں رکھ دی، بلائے آسماں رکھ دی
مرے حصہ میں فطرت نے بہارِ جاوداں رکھ دی
سُناؤں کیا کسی کو عشرتِ رفتہ کا افسانہ
بیاضِ داستانِ دل، خدا جانے کہاں رکھ دی
خبر کرد ے کوئی آوارگانِ دشتِ غربت کو
کہ میں نے پھر گلستاں میں بِنائے آشیاں رکھ دی
خمارِ دوش و فکر دین و دنیا، کیا قیامت ہے
خدارا، اے مرے ساقی، مئے باقی کہاں رکھ دی
محبت اور یہ سوزِ محبت راز کیا کہنا
خدا نے میرے دل میں دولتِ کون و مکاں رکھ دی
 

الف عین

لائبریرین
O
انیسِ سوز ہوتی ہے، حریفِ ساز ہوتی ہے
ہر اک پردہ میں نغمہ زن تری آواز ہوتی ہے
کہاں ہے تو، کہیں بھی ہو، مگر یہ جانتا ہوں میں
کہ جو دل سے نکلتی ہے تری آواز ہوتی ہے
اسیرانِ قفس کو کاش یہ احساس ہو جائے
شکستہ بازوؤں میں قوتِ پرواز ہوتی ہے
بہت دشوار ہے اسرارِ فطرت کو سمجھ لینا
صدائے سازِ دل اکثر سراپا راز ہوتی ہے
بظاہر نغمہ زن ہو تاہے راز بے نوا لیکن
حقیقت یہ ہے خود فطرت نوا پرداز ہوتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
سکونِ دل نہیں ملتا، پریشانی نہیں جاتی
اُمید و آرزو کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
حقیقت اور دنیا کی حقیقت کیا فسانہ ہے
مگر اہلِ نظر کی بات ہی مانی نہیں جاتی
یہ مانا کامیابِ آرزو ہونا نہیں مشکل
مگر پیرِ طریقت کی تن آسانی نہیں جاتی
کوئی مومن بتاتا ہے، کوئی کافر سمجھتا ہے
مگر جو کچھ حقیقت ہے وہ پہچانی نہیں جاتی
سراپا سوز ہوں، میں ہمنوائے سازِ فطرت ہوں
تعجب ہے مری آواز پہچانی نہیں جاتی
نہ وہ شانِ نوا باقی، نہ وہ حسنِ ادا باقی
مگر اک راز کی طرزِ غزل خوانی نہیں جاتی
 

الف عین

لائبریرین
الحمد للّٰہ


سحر کو مطلعِ مشرق سے جب سورج نکلتا ہے
اُفق سے نورِ بے پایاں کا اک چشمہ ابلتا ہے
چمن میں سبزۂ خوابیدہ بھی کروٹ بدلتا ہے
ہر اک غنچہ چٹکنے کے لئے پیہم مچلتا ہے
تری رحمت سے دَورِ بادۂ گلرنگ چلتا ہے
جمالِ شام جب رنگِ شفق بن کر نکھرتا ہے
نئے انداز سے ہر منظرِ فطرت سنورتا ہے
قمر سطحِ فلک پر ناز سے پھر رقص کر تا ہے
ستارہ ڈوبتا ہے کوئی، تو کوئی ابھرتا ہے
ترا میکش بھی تیرے نام کا اک جام بھرتا ہے
ترے انوار سے معمور ہے ہستی کا ویرانہ
تری الفت نے دنیا کو بنا رکھا ہے دیوانہ
بحمد اللہ میں بھی ہوں شریکِ دورِ میخانہ
مئے توحید سے لبریز ہے میرا بھی پیمانہ
کہ تیری یاد ہے دل میں، زباں پر تیرا افسانہ
 
Top