باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
جوشِ جنوں ہے، آمدِ فصلِ بہار ہے
دیکھو تو کوئی میرے گریباں میں تار ہے
چھائی ہوئی ہے ایک اداسی ہر اک طرف
میں سوگوار ہوں کہ جہاں سوگوار ہے
آسودۂ سکوں نہیں کوئی بھی دہر میں
ہنگامہ خیز ہستئ اپائدار ہے
مستِ ازل ہوں راز مرا پوچھنا ہی کیا
پی تھی کچھ ایسی میں نے کہ اب تک خمار ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
مداوا سوزِ فرقت کا دلِ غمناک ہو جائے
کوئی آہِ رسا ایسی کہ قصّہ پاک ہو جائے
بصارت ہے تو اسکی ہے، بصیر ت ہے تو اُس میں ہے
مصیبت پر ہر اک کی آنکھ جو نمناک ہو جائے
تجلّی گاہ بن جائے یہی حسنِ حقیقی ہے
غبارِ خودنمائی سے اگر دل پاک ہو جائے
حقیقت منکشف ہو جائے گی اے راز دنیا کی
اگر اپنی حقیقت کا تجھے ادراک ہو جائے
 

الف عین

لائبریرین
سخت جانی کا گلا کیوں کرے بسمل کوئی
واہ کیا جاں سے گزرنا بھی ہے مشکل کوئی
راہِ الفت میں ملا جو بھی وہ بیخود ہی ملا
ہوش والا نہ ملا رہبرِ منزل کوئی
سختئ راہِ محبت سے نہ گھبرا اے راز
حوصلہ مند کو مشکل نہیں مشکل کوئی
 

الف عین

لائبریرین
O
اہلِ توحید اگر صاحبِ عرفاں ہو تے
جتنے بتخانے ہیں سب کعبۂ ایماں ہوتے
وائے، برباد نہ ہوتی جو متاعِ امید
آج ہم دہر میں کیوں بے سرو ساماں ہوتے
ہم سے اپنوں کا بھی احسان اٹھایا نہ گیا
کس طرح غیر کے شرمندۂ احساں ہوتے
شوقِ دیدار کی ہے اب یہ تمنّا اے راز
جتنے جلوے ہیں نہاں وہ بھی نمایاں ہوتے
 

الف عین

لائبریرین
O
اپنے دل کو چھوڑ کر کون و مکاں دیکھا کیے
وائے غفلت! وہ کہاں تھا، ہم کہاں دیکھا کیے
اور کیا رکھا تھا دنیا میں جسے ہم دیکھتے
عمر بھر نیرنگئ دورِ زماں دیکھا کیے
دیکھنے کی چیز ہو گی اور بھی کچھ دہر میں
راز ہم تو حسن کی نیرنگیاں دیکھا کیے
 

الف عین

لائبریرین
O
کوئی حریف ہی نہیں جلوۂ بے نقاب کا
آج ہوا ہے سامنا واقعی آفتاب کا
لطف ستم نما سہی، جَور کرم نما سہی
یہ تو دلوں کی بات ہے، کام ہے کیا حساب کا
مستِ مئے سخن ہے راز، مستِ مئے خودی نہیں
ماہِ تمام ہے مگر بندہ ہے آفتاب کا
 

الف عین

لائبریرین
O
اس بزمِ تماشا میں تماشا ہے مگر شاذ
آنکھوں کے لئے جلوۂ معنیٰ ہے مگر شاذ
بر آتی ہے امید، نکل جاتی ہے حسرت
دنیا میںکبھی ایسا بھی ہوتا ہے مگر شاذ
ہر پردے میں وہ حسنِ جہاں تاب ہے پنہاں
وہ سامنے بھی آتا ہے، آتا ہے مگر شاذ
میخانۂ وحدت کا وہ بیخود ہوں میں اے راز
کثرت کا بھی احساس تو ہوتا ہے مگر شاذ
 

الف عین

لائبریرین
O
سوزِ غم سے نہیں ہے دل میں داغ
بلکہ روشن ہے آرزو کا چراغ
شرطِ الفت ہے حوصلہ مندی
ایک دل ہے ہزارہا ہیں داغ
ساقئ جاں نواز، جانِ راز
دُھل گئے آج دل کے سارے داغ
 

الف عین

لائبریرین
O
شمعِ الفت ہے ضوفشاں دل میں
مایۂ حسن ہے نہاں دل میں
منکشف ہو چکا ہے رازِ جہاں
اب کہاں شورِ این و آں دل میں
میکشی جزوِ حق پرستی ہے
سوچتے کیا ہیں بدگماں دل میں
یہ زمیں اور راز فکرِ سخن
کیا سمائی ہے مہرباں دل میں
 

الف عین

لائبریرین
O
بزمِ ہستی، دورِ زمانہ
میری کہانی، میرا فسانہ
کون بتائے کون ہے عاشق
شمعِ شبستاں یا پروانہ
میری ہستی ایک حقیقت
اور حقیقت ایک فسانہ
راز کی نغمہ سنجی توبہ
ایک حقیقت ، ایک فسانہ
(23 مارچ 1956 ء)
 

الف عین

لائبریرین
O
دلکش تو ہے فضا چمنِ روزگار کی
لیکن میں جانتا ہوں حقیقت بہار کی
دشمن کو دوست، غیر کو اپنا بنا لیا
کیا بات ہے نگاہِ محبت شعار کی
مجبور بھی نہیں ہو میں مختار بھی نہیں
واللہ کیا ہے شان مرے اختیار کی
میں بدگماں نہیں ہوں، مگر اتنی بات ہے
رکھنی ہے لاج تم کو مرے اعتبار کی
یہ بزمِ نائے و نوش، یہ دَورِ مئے سخن
نیت بخیر راز تہجّد گزار کی
(24 مئی 1958ء)
 

الف عین

لائبریرین
O
آدمی جب بے نیازِ کفر و ایماں ہو گیا
صاحبِ دل ہو گیا وہ اور انساں ہو گیا
جب خودی و بیخودی کی منزلیں طے ہو گئیں
مرکزِ اسرارِ فطرت، قلبِ انساں ہو گیا
شیخ کو مجبوریوں کی داد دینی چاہئے
جب نہ کافر بن سکا تو وہ مسلماں ہو گیا
اے ترے قرباں، ترے صدقے، نگاہِ حق شناس
بتکدہ بھی اب حریفِ کعبۂ جاں ہو گیا
وہ مسلماں ہے نہ ہندو، ہاں محبت کیش ہے
غالباً اب راز حق آگاہ انساں ہو گیا
(24 جنوری 1959 ء)
 

الف عین

لائبریرین
دیا نراین نگم
(مالک و مدیر، مجلّۂ زمانہ، کانپور)

انقلابِ جہاں ہے حیرت خیز
رنج آموز اور غم انگیز!
رنگ نیرنگِ عالمِ فانی
کھا چکا ہے ہزارہا مانی
آہ! وہ اہلِ دل، وہ اہلِ کمال
روح پرور تھا جن کا حال و قال
نازشِ محفلِ سخن نہ رہے
رونق افزائے انجمن نہ رہے
یہ ستم دیکھئے زمانے کا
موت عنوان ہے فسانے کا
آہ، وہ مصدرِ خلوص و کرم
آہ! وہ صاحبِ نظر، وہ نگم
آہ وہ قدردانِ اہلِ کمال
تھا زمانے میں آپ اپنی مثال
دردِ ملّت کا رازدار تھا وہ
صاحبِ دل تھا، غمگسار تھا وہ
تھی یہ افتاد اس کی فطرت کی
عمر بھر اُس زباں کی خدمت کی
ہند کی جو زبان ہے گویا
دوستی کا نشان ہے گویا
جب تک اُردو زبان ہے باقی
مٹ نہیں سکتا اس کا نام کبھی



(1943ء)
 

الف عین

لائبریرین
بیادِ سیماب
(المتوفی: کراچی (3 جنوری 1951 ء)


حیف، صد حیف، وہ نوا پرور

ملکِ شعر و سخن کا پیغمبر
نکتہ سنجِ رموزِ بزمِ ازل
رازدارِ حریمِ نظم و غزل
آشنائے اصولِ زیر و بم
واقفِ راز ہائے کیف و کم
خوش نوا، خوش بیاں، ادیب شہیر
شاعرِ عصر و صاحبِ توقیر
نے نوازِ حریمِ سوز و ساز
نغمہ پیرائے بزمِ ناز و نیاز
خوش نظر، حق نگر، محبت کیش
میرِ میخانۂ سخن درویش
وہ حقیقت شناسِ حسنِ مجاز
نغزِ گفتار و صاحبِ اعجاز
ناز بردارِ شاہدِ اردو
عاشقِ زارِ شاہدِ اردو
رہبرِ حق نما و خوش گفتار
سالکِ راہ و قافلہ سالار
وہ کلیمِ عجم، وہ سحر طراز
قدسیانِ سخن کا ہم آواز
اُٹھ گیا بزمِ دہر سے، ہیہات
ہو گیا آج فاش رازِ حیات
ملکِ شعروسخن ہے اب ویراں
خاک بر سر ہیں ہند و پاکستاں
شاعرِ بے مثال تھا سیماب
صاحبِ حال و قال تھا سیماب
 

الف عین

لائبریرین
بیادِ اختر(1)


سُنسان جنگل، پُرہول منظر
ہمدم ہے کوئی اپنا نہ رہبر
غم کی گھٹائیں چھائی ہیں سر پر
شکرِ کرم او چرخِ ستمگر!
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
کس کو سُناؤں اپنی کہانی
کس کو دکھاؤں سوزِ نہانی
یہ زندگی ہے کیا زندگانی
اس زندگی سے مرنا ہے بہتر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
یہ دشتِ غربت اور یہ مصیبت
افسوس قسمت، صد حیف قسمت
ظالم ہے کتنی معصوم فطرت
چھڑکا نمک پھر زخمِ جگر پر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
مجھ سے چھڑایا، وہ میرا پیارا
وہ میرا پیارا، آنکھوں کا تارا
غربت میں مجھ کو بے موت مارا
بے رحم قسمت، ظالم مقدّر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
رمزِ سخن سے وہ باخبر تھا
ذوقِ ادب سے وہ بہرہ ور تھا
خوش کار و خوش خو، وہ خوش نظر تھا
وہ کون؟ اختر، ہاں میرا اختر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
اے میرے مالک، تیری عنایت
رنگیں بنا دی میری حکایت
آتا ہے لب پر حرفِ شکایت
دل سے نکل کر، بیتاب ہو کر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
حکمت سے تیری کیا دُور تھا یہ
قدرت سے تیری کیا دُور تھا یہ
رحمت سے تیری کیا دُور تھا یہ
رہتا جہاں میں کچھ اور اختر !
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
دنیا پڑی تھی، سارا جہاں تھا
مارا تو اس کو جو نوجواں تھا
مرنے کے قابل، میں ناتواں تھا
آیا نہ تجھ کو کچھ رحم مجھ پر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
دنیا ہے فانی، یہ میں نے مانا
دنیا سے آخر، ہے سب کو جانا
لیکن کہیں ہے میرا ٹھکانا
یہ تیری جنت، دوزخ ہے یکسر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
کہنے دے مجھ کو اے میرے داور
رحمت ہے تیری شاید ستمگر
ظالم نے مارا وہ تیر دل پر
جینا ہوا ہے اب مجھ کو دوبھر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
ذوقِ جبیں کو ٹھکرا دیا کیوں
حسنِ یقیں کو شرما دیا کیوں
قلبِ حزیں کو تڑپا دیا کیوں
تجھ کو ملا کیا یہ داغ دے کر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
میری دُعا سے یہ بے نیازی
ہر التجا سے یہ بے نیازی
اہلِ وفا سے یہ بے نیازی
کافر ہو، آئے جو تیرے در پر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
گستاخ ! یہ کیا طرزِ فغاں ہے
بیباک کتنی تیری زباں ہے
اُس بارگہ میں شعلہ فشاں ہے
جلتے ہیں جس جا جبریل کے پر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر !
(1944ء)
1 پیدائش: 29 اکتوبر 1923ء(کانپور) - وفات: 25 دسمبر 1943ء(جبل پور)
2 1940ءمیں راشدہ راز نے اور 1941ءمیں رابعہ راز نے عین عالمِ شباب میں داغِ مفارقت دائمی دیا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
سوزِ نہاں
(بیادِ رفیقۂ حیات المتوفی 31 جنوری 1955ء)

کس سے کہئے حدیثِ سوز و ساز
ہم نفس ہے اب نہ کوئی دمساز
حیف، صد حیف، وہ رفیقِ حیات
ہمدمِ جاں نثار و محرمِ راز
واقفِ شیوہ ہائے مہر و وفا
آشنائے رموز و سوز و ساز
خوش نوا، خوش مذاق، خوش آئیں
نکتہ سنجِ حریمِ ناز و نیاز
عندلیبِ ترانہ سازِ وفا
طوطئ خوش نوائے گلشنِ راز
حق نگر، خودشناس، صاحبِ دل
بے نیازِ فریبِ حسنِ مجاز
رازدانِ جہانِ رنگ و بو
ناز پروردۂ بہارِ نیاز
شمعِ بزمِ حیاتِ راز حزیں
روشنئ غریب خانۂ راز
وہ فرشتہ خصال، وہ معصوم
عابدہ، زاہدہ، سجود نواز
صابر و شاکر و حلیم و سلیم
صاحبِ ظرف و خوش نظر ہمراز
کم سخن، باوقار، نکتہ سرا
خوش بیاں، برمحل نوا پرداز
رہروِ خوش خرامِ منزلِ زیست
دوربیں، واقفِ نشیب و فراز
بے نیازِ ستایش و تحسیں
پاسدارِ رموزِ سوز و گداز
ناز بردارِ سرور و مشہود
روحِ محمود و غمگسارِ ”ایاز“
وہ مجسّم محبت و رافت
وہ سراپا غزل بہ شکلِ نیاز
وہ انیس و جلیسِ دیرینہ
وہ رفیق و شفیقِ سوز و ساز
سوئے خلدِ بریں روانہ ہوئی
رہ گیا اب جہاں میں تنہا راز
( 1955 ء)

٭ سرور راز، مشہود راز، محمود راز : ابنائے راز
 
Top