باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
فائدہ بےشک ہوا، لیکن زیاں ہونے کے بعد
دل مرا ہلکا ہوا آنسو رواں ہونے کے بعد
زندگی بھر آرزوئے دل نے رکھا مضطرب
چین پایا بے نیازِ این و آں ہونے کے بعد
بدگماں ہونا بھی ہے اے راز الفت کی دلیل
صاف ہو جائے اگر دل بدگماں ہونے کے بعد
 

الف عین

لائبریرین
O
سراپا آرزو بن کر، مجسّم آرزو ہو کر
تلاشِ یار میں نکلا ہوں وقفِ جستجو ہو کر
طلسمِ زندگانی کی، حیاتِ دہرخانی کی
حقیقت کھل گئی اب محرمِ اسرارِ ہو ہو کر
تماشہ دیکھتا ہوں راز اب حسنِ خود آرا کا
نئے عالم میں ہوں میں خلق سے بیگانہ خو ہو کر
 

الف عین

لائبریرین
O
اے بیخودئ الفت، یہ جوشِ جنوں کب تک
دنیائے محبت میں برباد رہوں کب تک
بے ہوشی و ہشیاری، اللہ یہ نیرنگی
حیران ہوں میں ہو گی تکمیلِ جنوں کب تک
تدبیر نہیں چلتی، تقدیر نہیں بنتی
جینے کی تمنّا میں اے راز مروں کب تک
 

الف عین

لائبریرین
O
شمع بن کر یا تو آتش خانہ مانگ
ورنہ تو سوزِ دلِ پروانہ مانگ
دینے والے کی سخاوت پر نہ جا
ظرف اپنا دیکھ کر پیمانہ مانگ
مانگنے سے کچھ ملا تو کیا ملا
مانگنے کی تو نہ کر پروا، نہ مانگ
مانگنے دے مانگنے والوں کو عقل
راز تو لیکن دلِ دیوانہ مانگ
 

الف عین

لائبریرین
O
یہ کون آیا اٹھا کر پردۂ رخسار گلشن میں
یکایک جو اُجالا ہو گیا میرے نشیمن میں
جو ہوں اہلِ نظر آئیں، بہارِ آتشیں دیکھیں
وفورِ آتشِ گل نے لگا دی آگ گلشن میں
جوانی میں کیا کرتے ہیں ہم یاد اپنے بچپن کو
جوانی کو کیا کرتے تھے یاد اے راز بچپن میں
 

الف عین

لائبریرین
O
ستمگر کی جفا ہے اور میں ہوں
مقدّر کا گلا ہے اور میں ہوں
میں اپنی نامرادی کے تصدق
دلِ بے مدّعا ہے اور میں ہوں
تمہیں مطلب مری آہ و فغاں سے
مرے دل کی صدا ہے اور میں ہوں
کہاں تک راز درسِ زندگانی
فریبِ خودنما ہے اور میں ہوں
 

الف عین

لائبریرین
بظاہر بادۂ الفت سے میں بیہوش رہتا ہوں
مگر باطن کو دیکھو تو سراپا جوش رہتا ہوں
زباں کھولوں تو ہو برہم نظامِ عالمِ امکاں
قرینِ مصلحت ہے یہ کہ میں خاموش رہتا ہوں
سُنوں تو کیا سُنوں، کس کی سُنوں اور کیوں سُنوں آخر
کہ دل سے گفتگو کرتا ہوں اور خاموش رہتا ہوں
کوئی جانے تو کیا جانے مجھے اے راز دنیا میں
زمانہ سازیاں آتی نہیں، روپوش رہتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
حریفِ شیوۂ ابنائے روزگار نہیں
وہ بادہ نوش کہ سرگشتۂ خمار نہیں
عجب جگہ ہے خراباتِ عالمِ امکاں
جو ہوشیار یہاں ہے وہ ہوشیار نہیں
خزاں کی گود میں پائی ہے پرورش میں نے
رہینِ لذّتِ کیفیتِ بہار نہیں
کہاں ہیں اہلِ دل اے راز اس زمانہ میں
خدا کا شکر کوئی میرا رازدار نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O

نکل کر گوشۂ خلوت سے کوئی خودنما کیوں ہو
سکونِ قلب حاصل ہے ، گرفتارِ بلا کیوں ہو
کسی کو اپنا کر لے یا کسی کا کوئی ہو جائے
مگر جب یہ نہ ہو ممکن تو قسمت کا گلا کیوں ہو
بہت آساں ہے دل لینا، مگر مشکل ہے دل رکھنا
نہ ہو جو واقفِ آئینِ الفت، دلربا کیوں ہو
 

الف عین

لائبریرین
O

خدا دنیامیں اُس دن کے لئے رکھے نہ گلشن کو
کہ میں زندہ رہوں اور آگ لگ جائے نشیمن کو
مرا مذہب محبت ہے، میں آزادِ دوعالم ہوں
مبارک راز یہ دیر و حرم شیخ و برہمن کو
 

الف عین

لائبریرین
O

سوز بن جاؤ، ساز بن جاؤ
رونقِ بزمِ ناز بن جاؤ
بے نیازی تو شان ہے اس کی
تم سراپا نیاز بن جاؤ
ہو چکی حدِ بے نیازی بھی
آؤ اب دلنواز بن جاؤ
راز مٹ کر رہِ محبت میں
حاصلِ سوز و ساز بن جاؤ
 

الف عین

لائبریرین
O

ہے اگر ذوقِ تپش کامل تو یوں بسمل بنو
دل سراپا درد ہو اور تم سراپا دل بنو
جادۂ الفت میں مٹ جاؤ جو مٹنا ہو تمہیں
خاک ہونا ہے تو تم خاکِ سرِ منزل بنو
انگلیاں اٹھنے لگیں، پڑنے لگی تم پر نگاہ
اور آ کر بزم میں شمعِ سرِ محفل بنو
راز منزل پر پہنچ جاؤ گے یوں ہی ایک دن
ٹھوکریں کھا کھا کے راہِ عشق میں کامل بنو
 

الف عین

لائبریرین
O

ترے صدقے، بتا اے فطرتِ عشق آفریں مجھ کو
پڑھا لکھا تھا جو کچھ، یاد اب وہ کیوں نہیں مجھ کو
زمانہ کی کشاکش سے رہائی غیرممکن تھی
لہٰذا لازماً ہونا پڑا خلوت گزیں مجھ کو
مرا حسنِ نظر ہے کارفرما، یا حقیقت ہے
نظر آتی ہے اب اے راز کل دنیا حسیں مجھ کو
 

الف عین

لائبریرین
O

اب ہوش میں آ تو بھی، اے جلوۂ جانانہ
دیوانہ تھا جو تیرا، ہے ہوش سے بیگانہ
دنیا کے بکھیڑوں میں پڑ کر یہ ہوا ثابت
دیوانہ ہے فرزانہ، فرزانہ ہے دیوانہ
مٹنا ہے مجھے لازم، مٹ جاؤں گا میں اک دن
رہ جائے گا دنیا میں لیکن مرا افسانہ
تو چشمِ حقیقت سے اے راز اگر دیکھے
دنیا کی یہ آبادی، وحشت کا ہے ویرانہ
 

الف عین

لائبریرین
O

سب کا جہاں میں قبلۂ مقصود ایک ہے
سرحد ملی ہے دیر کی کعبے کی راہ سے
سُن لیں گے پھر تری بھی دلِ شکوہ سنج ہم
ملنے تو دے نگاہ کسی کی نگاہ سے
اے راز اُن سے کیجئے کیا عذرِ بیکسی
عذرِ گناہ ہوتا ہے بدتر گناہ سے
 

الف عین

لائبریرین
O

یہ جو مٹ جائے تو شاید ہو میسّر دیدِ یار
اپنی ہستی ہی نظر آتی ہے اک پردا مجھے
مجھ کو حسرت، اک نظر دیکھا تو کیا دیکھے اسے
وہ خفا اس بات پر دیکھا تو کیوں دیکھا مجھے
وہ تو کیا اے راز اپنا بھی پتا ملتا نہیں
جستجوئے دوست نے آخر کہاں کھویا مجھے
 

الف عین

لائبریرین
O

محبت کی کہانی حشر میں پوری کہاںہو گی
کہ اک دن میں بیاں کیا عمر بھر کی داستاں ہو گی
کہے گا یوں تو اپنی اپنی ہر کوئی قیامت میں
مگر بزمِ زنِ محشر ہماری داستاں ہو گی
مجھے کیا میں تو ہوں منّت پذیرِ تلخئ• دوراں
کسی کو راز اس گلشن میں فکرِ آشیاں ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
O

جلوۂ حسن سے روشن مرا کاشانہ ہے
اب نہ کعبہ ہے نگاہوں میں نہ بُت خانہ ہے
بزمِ امکاں میں نہ تھی پہلے تو رونق ایسی
میرے دم سے مگر آباد یہ و یرانہ ہے
تشنہ لب کس طرح کعبے کو نہ جائیں اے راز
اس خرابہ میں فقط ایک ہی میخانہ ہے
 

الف عین

لائبریرین
O

تقدیر ہوئی یاور، تدبیر کی بَن آئی
وہ آئے ہیں خود کرنے اب عذرِ مسیحائی
تو اپنے ہی جلووں کا ہے آپ ہی شیدائی
اچّھا رے تماشائی، یہ شانِ خودآرائی
وہ چاہتے ہیں سُننا، رودادِ دلِ مضطر
اے کاش پلٹ آئے پھر طاقتِ گویائی
وہ جوش نہیں دل میں، وہ کیف نہیں سر میں
اب یادِ خدا آئی، اے راز تو کیا آئی
 

الف عین

لائبریرین
O
کیا پوچھتے ہو حال مرا، اب یہ حال ہے
آغاز کا خیال نہ فکرِ مآل ہے
خالی دل و دماغ ہیں ہر اک خیال سے
ہاں کچھ خیال ہے تو تمہارا خیال ہے
کیا کشمکش ہے زیست کی اے راز الاماں
جینے کا ذکر کیا مجھے مرنا محال ہے
 
Top