باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
اک بات تھی بے نقاب کر دی تو نے
برباد سب آب و تاب کر دی تو نے
افسوس! کہ اس میں رنگِ غربت بھر کر
تصویرِ جہاں خراب کر دی تو نے
 

الف عین

لائبریرین
O
تدبیر کی زور آزمائی دیکھی
تاثیرِ دُعا کی خودنمائی دیکھی
تقدیرِ رسا کی نارسائی توبہ !
دیکھی، دیکھی، تری خدائی دیکھی
 

الف عین

لائبریرین
O
یہ بزم، یہ سوز و ساز کیا کہنا ہے
یہ دَورِ نیاز و ناز کیا کہنا ہے
جس بزم کی رونق ہوں حریفانِ ازل
اُس بزمِ سخن کا اے راز کیا کہنا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
ہر نقش کو بے نقاب کر دیتا ہے
مستور کو بے حجاب کر دیتا ہے
کیا چیز ہے مہرِ ارتباط و اخلاص
جو ذرّہ کو آفتاب کر دیتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
ساقی! یہ سکوت، یہ خموشی کب تک
یہ طرزِ کرم، یہ ناز کوشی کب تک
آخر کوئی حدِ بے نیازی بھی ہے
پیاسی رہے روحِ حق نیوشی کب تک
 

الف عین

لائبریرین
مشاہدات

O
دلدارئ دوست کا فسانہ کہئے
یا قصّۂ شوخئ زمانہ کہئے
جو کچھ کہئے اس انجمن میں اے راز
با طرزِ لطیف و شاعرانہ کہئے
 

الف عین

لائبریرین
O
ساقی سے اگر سلام ہو جاتا ہے
نظارۂ حسنِ عام ہو جاتا ہے
وہ عالمِ کیف و نور، اللہ اللہ
آئینہ ہر ایک جام ہو جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
مخمورِ مئے بہار ہو جاتا ہوں
خوش وقت و کامگار ہو جاتا ہوں
واللہ، بیک نگاہِ مستِ ساقی سے
فطرت سے ہمکنار ہو جاتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
O
جب عشق سے ساز باز ہو جاتا ہے
انساں دنیائے راز ہو جاتا ہے
بیگانۂ فکرِ دین و دنیا ہو کر
دلدادۂ سوز و ساز ہو جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
جب عشق سخن طراز ہو جاتا ہے
وَا، بابِ نیاز و ناز ہو جاتا ہے
آخر ہوتی ہے ختم بحثِ من و تو
محمود نما ایاز ہو جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
جب راہِ طلب میں راز کھو جاتا ہوں
منزل سے بہت قریب ہو جاتا ہوں
تھک جاتے ہیں پاؤں جبکہ چلتے چلتے
تو یاد میں رہنما کی سو جاتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
O
جب سارا جہانِ راز سو جاتا ہے
اک عالمِ بیخودی میں کھو جاتا ہے
ہوتا ہے نیاز اس سے حاصل مجھ کو
بیدار مرا نصیب ہو جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کچھ حسن کی تنویر نظر آتی ہے
کچھ عشق کی تاثیر نظر آتی ہے
دنیا ہے کہ بتخانۂ آذر اے راز
جو چیز ہے تصویر نظر آتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
بلبل کی نوا میں خود ستائی دیکھی
طوطی کی صدا میں ژاژ خائی دیکھی
ہم مشرب و ہم نوا ہیں دونوں، لیکن
ہر اک کی الگ الگ خدائی دیکھی
 

الف عین

لائبریرین
O
گل ہائے نظر نواز خنداں دیکھے
فطرت کے ہزار راز عریاں دیکھے
فردوسِ جہاں کی ہر روش پر میں نے
محمود نما ایاز حیراں دیکھے
 

الف عین

لائبریرین
O
اربابِ جہاں کی مے پرستی دیکھی
وہ کیفِ نظر، وہ شانِ مستی دیکھی
خود کام و خدا فروش پایا سب کو
دیکھی، اے راز بزمِ ہستی دیکھی
 

الف عین

لائبریرین
O
ہر رند کے غمگسار ہو جاتے ہیں
بے وجہ گناہ گار ہو جاتے ہیں
اربابِ جہاں کا ظرفِ عالی، توبہ
اک جام میں ہوشیار ہو جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
داد و فریاد

O
تصدیقِ خیالِ خام ہو جائے گی
تخئیل کی روک تھام ہو جائے گی
اک جُرعۂ تلخ کی ہے حاجت اے راز
دنیا شیریں کلام ہو جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
O
یہ واعظِ خوش کلام، اللہ اللہ
شرمندۂ ذوقِ عام، اللہ اللہ
افسانہ تراش اور حق گو، توبہ!
دیں اس کو بھی جام، اللہ اللہ
 

الف عین

لائبریرین
O
لاریب کہ رہنمائے دوراں تو ہے
گم کردۂ راہ کا نگہباں تو ہے
قربان اس ادّعائے خوش فہمی کے
دنیا کافر ہے بس مسلماں تو ہے
 
Top