باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
جب حسنِ نظر سے ساز ہو جائے گا
آئینۂ حق، مجاز ہو جائے گا
اُٹھ جائے گا پردۂ دوئی آنکھوں سے
حاصل اس سے نیاز ہو جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
O
تدبیر وفا شعار ہو جاتی ہے
تقدیر سے ہم کنار ہو جاتی ہے
آتا ہے جو وقتِ کامیابی اے راز
فطرت بھی شریکِ کار ہو جاتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
واعظ شیریں مقال ہو جاتا ہے
زاہد بھی خوش خیال ہو جاتا ہے
پڑتی ہے نگاہِ مستِ ساقی جس پر
وہ صاحبِ حال و قال ہو جاتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
بگڑی ہوئی اپنی خود بنانا اچّھا
احساں ہے کسی کا کب اُٹھانا اچّھا
احسان سے جو ملے حیاتِ جاوید
اس زیست سے موت کا ہے آنا اچّھا
 

الف عین

لائبریرین
O
بیدادِ فلک کی داد دیتا ہوں میں
ہمّت کے سبق ہزار لیتا ہوں میں
منّت کیشِ ناخدا نہیں ہوں اے راز
اپنی کشتی کو آپ کھیتا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
تکلیفِ سفر میں ایک راحت بھی ہے
دوزخ میں سوادِ صبحِ جنّت بھی ہے
میں وادئ غربت میں نہیں ہوں تنہا
فطرت بھی ساتھ، حسنِ فطرت بھی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مغرور ہوں میں
میخانۂ ہستی سے بہت دور ہوں میں
اب کون بتائے راز اس کافر کو
صہبائے خدا ساز سے مخمور ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
دعوائے سخنوری نہیں ہے مجھ کو
بیمارئ خود سری نہیں ہے مجھ کو
کہتا ہوں غزل بمقتضائے فطرت
سودائے پیمبری نہیں ہے مجھ کو
 

الف عین

لائبریرین
O
آزادِ قیودِ بزمِ ہستی ہوں میں
پابندِ اصولِ حق پرستی ہوں میں
ظاہر میں شکستہ حال ودل ہوں ، لیکن
جو رشکِ عروج ہے وہ پستی ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
تردیدِ خیالِ خام و بیجا کر دے
تصدیقِ اصولِ دین و دنیا کر دے
آخر اے راز یہ خموشی کب تک
اسرارِ جہاں کو آشکارا کر دے
 

الف عین

لائبریرین
O
مشرق کی بھلائی کو بُرا کہتا ہے
مغرب کی بُرائی کو بھلا کہتا ہے
کج بیں تو نہیں تیری نگاہِ حق بین
بندے کو تو اے راز خدا کہتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
بیکار ہر اک قیاس ہو جائے گا
مجروح ہر التباس ہو جائے گا
اٹھے گا نظر سے جب حجابِ باطل
اے راز تو حق شناس ہو جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
راز و نیاز

O
رودادِ بہارِ زندگانی کہئے....!
افسانۂ عہدِ کامرانی کہئے
کس طرح کٹے گی رات ورنہ اے راز
بہتر ہے یہی، کوئی کہانی کہئے
 

الف عین

لائبریرین
O
میں اور جامِ عام، تیرے قرباں
کیا اس سے بنے گا کام، تیرے قرباں
صد شکرِ کرم، تیرے کرم کے صدقے
وہ خاص، وہ لالہ فام تیرے قرباں
 

الف عین

لائبریرین
O
اک جرعہ بنامِ مہر و رافت دے دے
اک جام بحقِ حسنِ خدمت دے دے
یہ بھی نہ سہی، تو پھر خدارا ساقی
اک ساغرِ بادۂ محبت دے دے
 

الف عین

لائبریرین
O
میخانے کو وقفِ اہلِ دوراں کر دے
سامانِ حیات کو فراواں کر دے
امروز کی فکر اب ہے واجب ساقی
دیروز کو نذرِ طاقِ نسیاں کر دے
 

الف عین

لائبریرین
O
دیوانۂ حسنِ یار کر دے مجھ کو
بیگانۂ روزگار کر دے مجھ کو
بیکار ہے بحثِ کفر و ایماں ساقی
مخمورِ مئے بہار کر دے مجھ کو
 

الف عین

لائبریرین
O
اب دُور ہر اختلاف کر دے ساقی
رندوں کی خطا معاف کر دے ساقی
اُٹھ اور گلے لگا کے سب کو للّٰہ
سینہ کینے سے صاف کر دے ساقی
 

الف عین

لائبریرین
O
کچھ حد سے بڑھی ہوئی غم اندوزی ہے
واللہ یہی تو وقتِ دل سوزی ہے
اُٹھ اور دکھا جمالِ مہرِ راحت
لا اور پلا کہ صبحِ نوروزی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
وَا عقدۂ بود و ہست کر دے ساقی
دنیا کو خدا پرست کر دے ساقی
صوفی، میکش، فقیر، مومن، کافر
سب کو، ہاں سب کو مست کر دے ساقی
 
Top