باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
محبت


پلا اے ساقئ بزمِ محبت
فسردہ ہو چلا اب جوشِ الفت
دگرگوں ہو گیا اب رنگِ محفل
شکستہ ہو نہ جائے ساغرِ دل
خُمارِ دوش ہے اب روح فرسا
مکدّر ہے فضائے بزمِ دُنیا
کوئی ساغر بنامِ حق پرستی
وہ ساغر جو بڑھا دے کیفِ ہستی
وہ جامِ آتشیں جانِ محبت
جو چمکاتا ہے حسنِ روئے فطرت
بدل دیتا ہے نظمِ بزمِ ہستی
سکھاتا ہے خودی کو حق پرستی
دکھاتا ہے جمالِ آئنہ ساز
بتاتا ہے حریمِ ناز کے راز
منور ہوتے ہیں جس سے دل و جاں
بنا دیتا ہے جو انساں کو انساں
وہ ساغر ہاں وہی ساغر خدارا
محبت خیز ہے جس کا نظارا
شرابِ عشق سے مخمور کر دے
خیالِ ماسوا کو دور کر دے
بیاں کرنی ہے رودادِ محبت
دکھانی ہے مجھے اس کی حقیقت
محبت شمعِ بزمِ انس و جاں ہے
محبت حسنِ فطرت بے گماں ہے
محبت ہے بِنائے بزمِ امکاں
محبت ہے مدارِ چرخِ گرداں
محبت نغمۂ سازِ جہاں ہے
محبت پردۂ رازِ جہاں ہے
محبت پرتوِ نورِ ازل ہے
محبت شعلۂ طورِ ازل ہے
محبت شاہدِ اہلِ نظر ہے
محبت حق نما و حق نگر ہے
محبت خضرِ راہِ اہلِ دل ہے
محبت سجدہ گاہِ اہلِ دل ہے
محبت قبلۂ امن و اماں ہے
محبت کعبۂ پیر و جواں ہے
محبت حسنِ دل کا آئنا ہے
محبت جلوۂ معنی نما ہے
محبت کی حقیقت ہے شریعت
محبت کی شریعت ہے حقیقت
اگر ناخوش نہ ہو پیرِ طریقت
تو کہہ دوں برملا رازِ محبت
ذرا سی بات طرفہ ماجرا ہے
محبت در حقیقت خود خدا ہے
 

الف عین

لائبریرین
قلبِ شاعر


اللہ اللہ، یہ دلِ درد آشنا و بیقرار
کافرِ بدکیش بھی ہے، مومنِ دیوانہ بھی
بندۂ سوزِ محبت، عاشقِ حسن و جمال
شمعِ بزمِ عشق بھی ہے ،حسن کا پروانہ بھی
خوگرِ ذوقِ تمنّا، بے نیازِ آرزو
کعبۂ امّید بھی ہے، یاس کا بُت خانہ بھی
مشرقِ مہرِ مسرّت، مصدرِ رنج و الم
روکشِ بزمِ طرب ہے، غیرتِ غم خانہ بھی
واقفِ رازِ جہاں، بیگانۂ رازِ حیات
مطلعِ انوارِ فطرت بھی ہے، ظلمت خانہ بھی
محشرِ آہ و فغاں، گہوارۂ صبر و سکوں
انجمن کی انجمن ہے، اور خلوت خانہ بھی
میگسارِ حبِّ دنیا، میکشِ فکرِ مآل
غافل و دیوانہ بھی ہے، عاقل و فرزانہ بھی
حق پرست و حق نواز و خودپرست و خود نما
میکشِ خوش نوش بھی ہے، دُرد کا دیوانہ بھی
ماہتابِ دلربائی، آفتابِ زندگی
جلوہ گاہِ حسن بھی ہے، عشق کا کاشانہ بھی
با ہمہ و بے ہمہ ہے، با نیاز و بے نیاز
آشنائے ناز بھی ہے، ناز سے بیگانہ بھی
الغرض سب کچھ ہے ظالم اور پھر کچھ بھی نہیں
کیا نرالی چیز ہے میرا دلِ دیوانہ بھی
 

الف عین

لائبریرین
ترکِ تعلق


نہ پوچھ مجھ سے فسانہ غمِ محبت کا
کہ یہ فسانہ کسی کو سُنا نہیں سکتا
لگی ہے آگ مرے دل میں جل رہا ہوں میں
یہ آگ وہ ہے کہ جس کو بُجھا نہیں سکتا
نہ چھیڑ مجھ کو، مرے ہمدم و رفیق، نہ چھیڑ
کسی کو رازِ محبت بتا نہیں سکتا
خداہے عالم و دانا، مگر خدا کی قسم
خدا کو بھی میں دل اپنا دِکھا نہیں سکتا
نہ پوچھ مجھ سے سبب میری کم نگاہی کا
حریمِ راز کا پردہ اُٹھا نہیں سکتا
زمانے بھر میں ہے مشہور میری کم ظرفی
کہ سوزِ غم کو میں دل میں چھپا نہیں سکتا
قصوروار ہوں بیشک ، سزا کے لائق ہوں
جبیں سے داغِ محبت مٹا نہیں سکتا
نہ دیکھ تو مری جانب، نہ دیکھ اے ہمدم!
تری نگاہ کی میں تاب لا نہیں سکتا
یہ جانتا ہوں کہ میں تیرے بارِ احساں سے
تمام عمر کبھی سر اُٹھا نہیں سکتا
تری نگاہِ کرم کا ہوں بندۂ بے دام
مگر جو دل میں ہے، وہ لب پہ لا نہیں سکتا
مری نگاہ میں اب جلوۂ حقیقت ہے
فریبِ حسنِ محبت میں کھا نہیں سکتا
سلام اُن کو، ہزاروں سلام ہوں اُن پر
کہ جن کا نام زباں پر میں لا نہیں سکتا
سلام اہلِ وفا کو، سلام دنیا کو
کہ اب کسی کو میں اپنا بنا نہیں سکتا
 

الف عین

لائبریرین
راز و نیاز

تمہید:

الٰہی! خیر، یہ کیا ماجرا ہے
دگرگوں رنگِ محفل ہو گیا ہے
وہ محفل، محفلِ حسن و محبت
جہاں تھی جلوہ گستر شمعِ اُلفت
وہ شمعِ سوز آگیں، مہر پرور
ضیابارِ حقیقت تھی جو یکسر
منور جس کے جلوے سے تھی محفل
جوابِ طور تھا کاشانۂ دل
ہوئی ہے اس کو اب خلوت سے نفرت
بنی ہے رونقِ بازارِ اُلفت
کچھ اس انداز سے جلوہ نما ہے
نظر بیگانۂ حسنِ حیا ہے
تکلم میں ہے شانِ خود فروشی
تکلف ہے سراسر گرم جوشی
وفاداری بہ رنگِ مغربی ہے
جفا کیشی کی شاہد خودسری ہے
بڑھا ہے ایسا شوقِ ہرزہ کاری
وبالِ جاں ہوئی ہے خانہ داری
نظام زندگی برہم ہوا ہے
سکونِ دل کا اب حافظ خُدا ہے
رفیقِ زندگی کیوں سرگراں ہے
ترا قصّہ نہیں، یہ داستاں ہے
فسانہ ہے یہ اربابِ جہاںکا
تجھے دھوکا ہے سرّ دلبراں کا
مجھے معلوم ہے رازِ حقیقت
مسلّم ہے ترا صدقِ محبت
مروّت کیش ہے تو، باوفا ہے
خلوص آمیز تیری ہر ادا ہے
مگر اک بات، اچھا پھرکہوں گا
قصیدہ تیری سیرت کا پڑھوں گا

تقریر :

رفئقِ زندگی! اللہ اکبر
قیامت خیز ہے دُنیا کا منظر
عجب اک انقلاب آیا ہوا ہے
جسے دیکھو وہ گھبرایا ہوا ہے
کوئی مستِ شرابِ خودسری ہے
ہوائے ”ہم چو مَن“ سر میں بھری ہے
کوئی خود بیں ہے، کوئی خودنما ہے
برائے نام کچھ ذکرِ خدا ہے
محبت دہر سے عنقا ہوئی ہے
مروت اک تماشا بن گئی ہے
وفاداری ہے افسانوں میں پنہاں
جفاکاری کا دلدادہ ہے انساں
کہاں باقی ہے اب وہ صدقِ الفت
ریاکاری پہ قائم ہے محبت
فریب آمیز ہے حسنِ تکلّم
شرر آلود ہے برقِ تبسّم
تکلف ہے سراسر خوش بیانی
تصنّع ہے فقط شیریں بیانی
غرض دُنیا ہے اور مطلب پرستی
یہی ہے کائناتِ بزمِ ہستی!
غلط ہے کیا کہا؟ میری شکایت
بہت ہی بے مزا ہے یہ حکایت
مگر یہ بات سچّی اور کھری ہے
کہ دنیا مبتلائے خودسری ہے
مثالاً آج کل عورت کی حالت
نہیں کیا موجبِ افسوس و حیرت؟
وہ عورت ، وہ شریکِ زندگانی
مجسّم پیکرِ حسنِ معانی
انیس و غم گسار و نیک سیرت
رفیقِ یاس و حرمان و مصیبت
وفاخو تھی، صداقت آشنا تھی
محب کیش تھی وہ، بے ریا تھی
وہ عورت اب وبالِ جاں ہوئی ہے
سراسر رہزنِ ایماں ہوئی ہے
نظر آوارۂ کوئے خودی ہے
جبیں آئینۂ روئے خودی ہے
ہوئی ہے مبتلائے خود پرستی
تزلزل میں ہے اب ایوانِ ہستی
کرشمہ ہے ہوائے مغربی کا
خدا حافظ ہے شمعِ مشرقی کا
زباں کو روکئے اپنی خدارا!
انہیں باتوں سے دل ہے پارہ پارا
خدا سمجھے، یہ کوئی شاعری ہے
حلاوت کے عوض تلخی بھری ہے
پڑیں پتّھر اس اندازِ بیاں پر
یہ حملے اور پھر اک بے زباں پر
کہاں تک اس طرح طعنے سہوں گی
بڑھے گی بات اگر میں کچھ کہوں گی
کسی سے کیا کہوں رازِ حقیقت
یہ باتیں اور دعوائے محبت!

ناظرہ :

کبھی آتا ہے غصّہ آسماں پر
کبھی پیشِ نظر ہے محفلِ دوش
کبھی ہیں فکرِ فردا سے ہم آغوش
عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے
خدا کے فضل کا بس آسرا ہے
نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر
ٹھکانا ہی نہیں گویا کہیں پر
فضائے بزمِ راحت ہے نظرسوز
صدائے سازِ الفت ہے غم آموز
مکاں ویراں ہے، بے پروا مکیں ہے
حریفِ آسماں گھر کی زمیں ہے
در و دیوار ہیں خاموش یکسر
قیامت ہے یہ وحشت خیز منظر
حریمِ ناز میں ظلمت نہاں ہے
چراغِ خانۂ الفت کہاں ہے؟
اسی کا نام ہے شاید ترقی
کہ خانم کو نہیں کچھ فکر گھر کی
خیالِ بیش و کم سے وہ بَری ہے
نمائش کی ہوا سر میں بھری ہے
یقینا اگلے وقتوں کی ہے یہ بات
محافظ تھی وہ اپنے گھر کی دن رات
مگر یہ دَورِ تہذیب و ترقی
اجازت ہی نہیں دیتا ہے اس کی
کہ اپنے گھر کی بھی اُس کو خبر ہو
نظامِ زندگی پر بھی نظر ہو
اُسے مطلب نہیں کچھ این و آں سے
اُسے فرصت کہاں سیرِ جہاں سے
یقینا اس کا حق ہے سیرِ گلشن
اگر جلتا ہے، جل جائے نشیمن
یقینا اس کا حق ہے دیدِ عالم
کسی کے درد و غم کا اس کو کیا غم
اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے
اُسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے
بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں
بہت بہتر، میں ایسی بے ہُنر ہوں
بڑی خودبیں، بڑی خود کام ہوں میں
زمانے میں بہت بدنام ہوں میں
بڑی کم ظرف ہوں میں، خود نما ہوں
بہت کج خلق ہوں میں، بے وفا ہوں
مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں
خودی و خودسری کا آئنا ہوں
مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی
کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟

شکر رنجی :

رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں
انیسِ خاطرِ رازِ پریشاں
بڑی خوش فہم ہے تو خوش نظر ہے
رموزِ این و آں سے با خبر ہے
میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا
تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا
تو واقف ہے مری فکر و نظر سے
صدائے سازِ دل، سوزِ جگر ہے
جہاں میں تو ہی میری رازداں ہے
مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے
محبت کیش ہوں یا بیوفا ہوں
نیاز آگیں ہوں یا میں خودنما ہوں
سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر
مجسّم آئنہ یا راز یکسر
الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے
جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے
یہ تمہید اور یہ شانِ تکلّم
یہ اندازِ سخن، جانِ تکلّم
بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے
مری تعریف کا دفتر کھلا ہے
میں اس تعریف کے لائق نہیں ہوں
میں اس توصیف کی شائق نہیں ہوں
یقیناً کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں
شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں
معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے
ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟
نہیں ایسا نہیں، ہرگز نہیں ہے
مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہے
حقیقت یا فریبِ ناروا ہے
عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل
سمجھنا ہو گیا ہے اُس کا مشکل
خودی ہے یا مجسّم حق پرستی
معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی
کبھی اک پیکرِ مہر و وفا ہے
سراپا انکسار و التجا ہے
کبھی تصویر ہے جور و جفا کی
کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی
کبھی خنداں ہے مثلِ لالۂ و گل
کبھی نالہ سرا ہے مثلِ بلبل
کبھی خاموش مثلِ بے زباں ہے
کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے
میں ا ب سمجھی ،میں اب سمجھی حقیقت
جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت
بڑے تم نکتہ رس ہو، خوش نظر ہو
نہایت دوربیں ہو، حق نگر ہو
مگر افسوس، یہ نغمہ سرائی
خودی ہے یا سراپا خودستائی
مری کمزوریوں پر تو نظر ہے
مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟
بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت
معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت!

ملاپ :

رفیقِ زندگی دلگیر کیوں ہے؟
سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے؟
غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے
شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے
جمالِ دلنشیں، آتش بجاں ہے
نگاہِ مہر میں برقِ تپاں ہے
ادائے دلبری ہے قہر ساماں
نیازِ ناز ہے شعلہ بداماں
پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے
لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے
تکلّم مظہرِ شانِ جلالی
تبسّم بے نیازِ خوش جمالی
تظر بیگانۂ مہر و محبت
ستم پرور، جفاآگیں، قیامت
ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے
مگر اس برہمی میں دلکشی ہے
میں قرباں، یہ ادائے بے نیازی
میں صدقے، یہ طریقِ دلنوازی
خدارا اک نگاہِ قہرآگیں
شرابِ تلخ بھی ہوتی ہے شیریں
وہ آئی، اب ہنسی آئی کسی کو
کوئی روکے تو دیکھوں اس ہنسی کو
چلو، جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا
معمّا ہوں معمّا میں سراپا!
مگر یہ عقدہ یوں تو حل نہ ہو گا
بتاتی ہوں ابھی میں راز اس کا
بہت بیباک ہوں، بیباک ہوں میں
بڑی چالاک ہوں، چالاک ہوں میں
مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے
مری طینت حریفِ آسماں ہے
خودی ہوں، بیخودی ہوں، خود سری ہوں
جفا جُو ہوں، وفا سے میں بَری ہوں
بڑی مکّار ہوں، عیّار ہوں میں
بڑی خودکام ہوں، خودکار ہوں میں
ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت
ریاکاری ہے گویا میری فطرت
بڑی بے رحم ہوں،جلّاد ہوں میں
بڑی بے درد ہوں، فولاد ہوں میں
ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے
مری چشمِ غضب، جادو اثر سے
کہیں ایسا نہ ہو مسحور ہو کر
کرو سجدے کسی کے آستاں پر
بڑی خوددار ہوں، خوش کار ہوں میں
بڑی فرزانہ و ہشیار ہوں میں
میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے
نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے
حقیقت ہے، نہیں یہ خود فروشی
”جوابِ جاہلاں باشد خموشی“
نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم
بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم؟
سنو گے اور کچھ میری زباں سے
زبانِ نکتہ دان و خوش بیاں سے
دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی
مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی
نظامِ دہر پر قبضہ ہے میرا
بدل سکتی ہوں میں دُنیا کا نقشا
دکھا سکتی ہوں شانِ کبریائی
مٹا سکتی ہوں مردوں کی خدائی
بنا سکتی ہوں اک تازہ جہاں میں
جہانِ تازہ و رشکِ جناں میں
کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی
دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی
سکھا سکتی ہوں آدابِ محبت
بتا سکتی ہوں اسرارِ حقیقت
مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے
کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے
نہ مانو گے، نہ مانو ، خیر، اچھا
انہیں باتوں سے دل ہوتا ہے کھٹّا
بڑے آئے کہیں کے ناز بردار
پڑے اس نازبرداری پہ پھٹکار
ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا
جلانے سے مجھے تم کو ملا کیا؟
نیاز و ناز، توبہ، یہ معمّا
ہوا ہے حل کبھی مجھ سے، نہ ہو گا
جمالِ دلنشیں کہتے ہیں کس کو
نگاہِ سرمگیں کہتے ہیں کس کو
ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے
یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے
مجسّم شعر ہوں، نغمہ ہوں، لَے ہوں
کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں؟
قصیدہ ہوں، غزل ہوں، یا رباعی
تو گویا صنف ہوں اک شاعری کی
تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے
تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے
بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا !
کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا
 

الف عین

لائبریرین
مشرقی خاتون سے


اے کہ تجھ پر منحصر جمعیتِ بزمِ حیات
پیکرِہستی میں تو روحِ پریشانی نہ بن
مشرقی و مغربی تعلیم حاصل کر، مگر
بن کے علّامہ،وبالِ جہل ونادانی نہ بن
اپنے گھر کے آئنہ خانہ میں دیکھ اپنا جمال
محفلِ اغیار میں تصویرِ حیرانی نہ بن
جامۂ تہذیبِ مشرق سے ہے تیری آبرو
مغربی تقلید میں تو ننگِ عریانی نہ بن
اپنے گھر کو دیکھ اور لے اپنے بچوں کی خبر
بس اسی میں خیر ہے، اپنوں سے بیگانی نہ بن
اپنے گھر میں رہ کے اس کو ر وکشِ جنت بنا
غیر کے گلشن میں رشکِ سروِ بُستانی نہ بن
اے عروسِ شرق، مشرق ہے ترا خلوت کدہ
مغربی محفل میں تو شمعِ شبستانی نہ بن
یوسفستانِ محبت ہے بہت تیرے لئے
مصر کے بازار میں جنسِ فراوانی نہ بن
مصلحت یہ ہے کہ رکھ فرقِ مراتب کا خیال
اے مری بلقیس، جویائے سلیمانی نہ بن
مدّعا یہ ہے کہ اپنی حد سے تو آگے نہ بڑھ
مختصر یہ ہے کہ اپنی دشمنِ جانی نہ بن
یاد رکھ، پچھتائے گی، یہ بیخودی اچھی نہیں
ہوش میں آ، دیکھ میں کہتا ہوں دیوانی نہ بن
 

الف عین

لائبریرین
ہندی عورت سے


اے ہوش مند و با خبر
کیوں بن رہی ہے کم نظر
مصرِ محبت چھوڑ کر
تو جا رہی ہے اب کدھر
کنعاں کا یہ رستا نہیں
یوسف یہاں بستا نہیں
راہِ وفا کو چھوڑنا
اخلاص سے منہ موڑنا
اپنوں سے رشتہ توڑنا
غیروں سے ناتا جوڑنا
ہرگز تجھے زیبا نہیں
زیبا نہیں، اچھا نہیں
ہندی ہے تو، طوسی نہ بن
امریکن و روسی نہ بن
دیوی ہے تو جوسی نہ بن
بیگم ہے تو لوسی نہ بن
تقلید غیروں کی نہ کر
قائم رہ اپنی وضع پر
لکھ پڑھ، مگر انسان بن
صدق و وفا کی کان بن
مہر و وفا کی شان بن
جسمِ حیا کی جان بن
تو کون ہے ، کچھ غور کر
رُتبے پہ اپنے رکھ نظر
دنیا میں ہے تیری وفا
ضرب المثل اے باصفا
آئینۂ عصمت نما
ہے تیرا ہی حسنِ حیا
اس حسن کی پردہ دری
لاریب ذلّت ہے تری
مانا کہ تو ہے دیدہ ور
عالم پہ ہے تیری نظر
دنیا کی ہے تجھ کو خبر
اتنا کہوں گا میں مگر
تیری نگاہِ دوربیں
انجام پر پڑتی نہیں
مغرب کا حسنِ خود نما
عبرت کا ہے اک آئنہ
کیوں تیری چشمِ سرمہ سا
لیتی نہیں درسِ حیا
حسنِ نظر سے کام لے
غافل نہ ہو انجام سے
 

الف عین

لائبریرین
خاتونِ مسلم سے


وہ عورت جو کبھی تھی مظہرِ اوصافِ انسانی
وہ عورت منحصر تھا جس پہ نظمِ بزمِ امکانی
وہ عورت فخر تھا مشرق کو جس کی باوفائی پر
وہ عورت جس کی ہستی تھی زمانے بھر میں لاثانی
وہ عورت جس کا دل پروانۂ شمعِ محبت تھا
وہ عورت جس کے دم سے محفلِ اُلفت تھی نورانی
وہ عورت جو سراپا پیکرِ حلم و مروّت تھی
وہ عورت جس کی صورت سے عیاں تھی شانِ انسانی
وہ عورت جس سے خلوت خانۂ مشرق کی رونق تھی
وہ عورت اصل میں جو مشرقی محلوں کی تھی رانی
وہ عورت، ہاں وہی عورت ہے، جو اب بزمِ عالم میں
تماشا بن گئی ہے صورتِ شمعِ شبستانی
کچھ ایسا مغربی تہذیب پر آیا ہے دل اس کا
کہ مشرق کے تمدّن سے ہوئی جاتی ہے بیگانی
نہ وہ ملبوسِ پاکیزہ، نہ وہ طرزِ پسندیدہ
کہ اب اس کا لباسِ فاخرہ ہے ننگِ عریانی
نہ وہ اخلاق و عادت ہے، نہ وہ شانِ محبت ہے
نہ وہ حسنِ تبسّم ہے، نہ وہ طرزِ گل افشانی
حریمِ ناز میں رہنا، دلوں پر حکمراں ہونا
پسند آتا نہیں اس کو کہ ہے ضبطِ سلیمانی
غرض اک شورِ محشر عالمِ مشرق میں برپا ہے
جدھر دیکھو، نظر آتی ہے بربادی و ویرانی
سُن اے خاتونِ مسلم سُن! کہ میں تجھ سے ہی کہتا ہوں
کہاں تو اور کہاں یہ شورشِ پیدا و پنہانی
تجھے تقلیدِ مغرب کی ضرورت ہی نہیں کوئی
کہ تیرے واسطے موجود ہیں احکامِ ربّانی
سنبھل، ہاں اب بھی موقع ہے، سنبھلنا تو اگر چاہے
خرد سے کام لے کچھ، کیوں ہوئی جاتی ہے دیوانی
غنیمت ہے کہ ا ب بھی تو سمجھ لے اس حقیقت کو
”چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی“
 

الف عین

لائبریرین
تبریک
(اعلانِ آزادی کے بعد)


مژدہ باد، اے مرکزِ دَورِ جہاں
اے مرے ہندوستاں، جنت نشاں
آ گیا اب وقتِ آزادی قریب
ہو گیا بیدار، خوابیدہ نصیب
مطلعِ مشرق سے نکلا آفتاب
دید کے قابل ہے رنگِ انقلاب
قسمتِ برگشتہ آئی راہ پر
جگمگا اُٹھے وہ تیرے بام و در
وہ بہار آئی، گیا دورِ خزاں
دیدنی ہے آج رنگِ گلستاں
صحنِ گلشن روکشِ میخانہ ہے
محوِ حیرت نرگسِ مستانہ ہے
ہو مبارک تجھ کو یہ روزِ سعید
میکشوں کے لب پہ ہے ہل من مزید
خوابِ آزادی کی یہ تعبیر ہے
اے میں قرباں! واہ کیا تقدیر ہے
لیکن اے ہندوستاں، میرے وطن !
کم نظر ہیں تیرے شیخ و برہمن
خود پرست و خود نما و خود ستا
اپنی اپنی دُھن میں ہیں نغمہ سرا
تلخئ افکار کا رازِ نہاں
ہو رہا ہے اب زمانے پر عیاں
شیخ سادہ دل، برہمن ہوشیار
خودغرض، آشفتہ سر، آشفتہ کار
بے مروّت، بیوفا، ناآشنا
اپنی اپنی فکر میں ہیں مبتلا
یہ ترے فرزند، یہ تیرے سپوت
یہ ترے دلبند،یہ تیرے سپوت
غالباً واقف نہیں اس راز سے
زندگی بنتی ہے سوز و ساز سے
جانفزا ہے نعرۂ سوزِ وطن
سازِ الفت بھی اگر ہو نغمہ زن
ورنہ دورِ جامِ آزادی ہے کیا
ایک دھوکا، اک فریبِ ناروا
ہے حقیقت ایک سحرِ سامری
ساحرِ خوش کار کی افسوں گری
میری حق گوئی سے تو رنجور ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ”دلّی دور ہے“
 

الف عین

لائبریرین
جامِ اوّلیں


مدّتوں سے تھی طلب جس چیز کی
آگئی وہ ہاتھ آخر آ گئی
دورِ آزادی کا جامِ اۂلیں
مستِ سازِ کم نگاہ و پاک بیں
ضوفشاں مثلِ چراغِ آرزو
کیف آموزِ دماغِ آرزو
شمعِ بزمِ بے خودی و آگہی
رونقِ کاشانۂ فرماں دہی
مشعلِ راہِ نمود و بے نمود
روشنئ دیدۂ بود و نبود
ماہتاب آسمانِ زندگی
آفتابِ ضو فشانِ زندگی
آگیا جب دور میں مستانہ وار
سر بسجدہ ہو گئے بادہ گسار
میکدے پر بے خودی طاری ہوئی
جوئے آبِ تلخ پھر جاری ہوئی
میکشانِ تشنہ کام و خام کار
بندگانِ خود پرستی و خمار
کم نگاہ و خودنما و خودفروش
مستِ صہبائے خودی و دُرد نوش
ناشناسِ رنگ و بوئے زندگی
بے نیازِ حسنِ روئے زندگی
تلخ کام و بدزبان و خیرہ سر
راہ و رسمِ آشتی سے بے خبر
ہو گئے بد مست پی کر تلخ جام
بن گئے پھر بے نیازِ ننگ و نام
صف بہ صف، خنجر بکف، آشفتہ سر
میکدے سے نکلے با صد شور و شر
قتل و غارت کا کیا طوفاں بپا
امتیازِ حق و باطل اٹھ گیا
کر دیا برہم نظامِ زندگی
انتہا ہے جورِ بے بنیاد کی
توڑ ڈالیں سب روایاتِ کہن
ہو گیا بدنام اب نامِ وطن
کیا کہوں میں، دل شکن روداد ہے
مادرِ ہندوستاں، فریاد ہے
 

الف عین

لائبریرین
آزادی کے بعد


ذکرِ آزادی نہ چھیڑ اے ہم نشیں
دردِ دل حد سے نہ بڑھ جائے کہیں
مل گئی ہم کو غلامی سے نجات
میں نے دیکھے ہیں مگر وہ واقعات
روح فرسا، جانگداز و دل خراش
ہو گیا جن سے کلیجہ پاش پاش
خیر جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا
آج کل ہے شورِ محشر کیوں بپا
ہے پریشانی کا آخر کیا سبب
بڑھ گئی حد سے زیادہ کیا طلب
کیوں دلوں میں قدرِ آزادی نہیں
آسماں اپنا ہے، اپنی ہے زمیں
بات کہنے کی نہیں، اک راز ہے
سوز سے لبریز دل کا ساز ہے
خودغرض ہے، خود نما ہے آدمی
بندۂ حرص و ہوا ہے آدمی
رنگِ میخانہ دگرگوں ہے مگر
دوربیں ہے اپنے ”ساقی“ کی نظر
سحر ہے اس کی نگاہِ ناز میں
نغمۂ تسکیں ہے اس کے ساز میں
شورشِ بے جا کا وہ قائل نہیں
جبر و استبداد پر مائل نہیں
صبر سے کچھ کام لینا چاہئے
تلخ و شیریں جام لینا چاہئے
چند روزہ ہے فقط دَورِ خمار
دُور ہو جائے گا اک دن انتشار

...
 

الف عین

لائبریرین
ساقئ میخانۂ ہندوستاں
اپنے رندوں پر ہے کتنا مہرباں
ہیں نظر میں اس کی شیخ و برہمن
لیجئے اب ساغرِ حبِ وطن
دیجئے دادِ عمل اب دیجئے
خدمتِ قوم و وطن اب کیجئے
نغمہ زن ہے مادرِ ہندوستاں

گوش بر آواز ہے سارا جہاں
ہوش میں اب ہم کو آنا چاہئے
گیت آزادی کا گانا چاہئے
 

الف عین

لائبریرین
ہنگامہ زار


ساقئ میخانۂ راز و نیاز
سوزِ دل ہے آج کچھ ہنگامہ ساز
رنگ لایا ہے نیا دورِ زماں
دیدنی ہے منظرِ بزمِ جہاں
کیا قیامت خیز ہے یہ انقلاب
کھا رہا ہے ایک عالم پیچ و تاب
فکرِ دنیا ہے حریفِ زندگی
شوقِ عصیاں ہے، نہ ذوقِ بندگی
اُٹھ گئی ہے دہر سے رسمِ جفا
اب نہیں کوئی کسی کا آشنا
بے اثر ہے نغمۂ حبّ وطن
اپنے مطلب کے ہیں شیخ و برہمن
وحدتِ افکار سے خالی ہےں دل
جذبۂ ایثار سے خالی ہیں دل
ہم نفس ہے اب نہ کوئی غم گسار
گو بظاہر ہیں ہزاروں جاں نثار
وہ محبت، وہ مروّت اب کہاں
وہ شریعت، وہ طریقت اب کہاں
اس طرف بھی اک نگاہِ التفات
ہو چلا برہم نظامِ کائنات
کیا کہا، یہ سچ نہیں، یوں ہی سہی
رنگِ عالم ہے مگر اب دیدنی
دیدنی ہے رنگِ ”بزمِ انتخاب“
بج رہے ہیں ہر طرف چنگ و رباب
میکشانِ کہنہ و نو، صد ہزار
پھر رہے ہیں چار سو دیوانہ وار
نعرہ زن ہیں ”خاکسارانِ جہاں“
گونج اُٹھے ہیں زمین و آسماں
ہوشیار، اے قومِ خفتہ، ہوشیار!
آ گئے میداں میں اب ”مردانِ کار“
خودنمائی سے انہیں الفت نہیں
خودفروشی سے انہیں رغبت نہیں
کارنامے ان کے ہیں مشہورِ عام
ان کے قبضہ میں ہے دورِ صبح و شام
یہ محبت کیش ہیں، حق کوش ہیں
بے نیازِ فکرِ نیش و نوش ہیں
نشۂ خدمت سے یہ سرشار ہیں
سروری کے بس یہی حقدار ہیں
یہ تو سچ ہے، واقعی سچ ہے، مگر
خیر دیکھا جائے گا اب وقت پر
 

الف عین

لائبریرین
رازِ شعرگوئی


جلوۂ نورِ ازل ہے شعمعِ بزمِ کائنات
حسنِ معنی ہے بِنائے نغمۂ سازِ حیات
دیکھنے کی چیز ہے رنگِ فضائے آسماں
یہ ستاروں کا چمکنا، یہ بہارِ گل فشاں
انجمستاں میں ہے کوئی ماہ وش محوِ خرام
میکدہ میں چل رہا ہے روکشِ خورشیدِ جام
کیف آگیں، روح پرور، جاں فروز و دلنواز
قلبِ شاعر ہو رہا ہے خود بخود نغمہ طراز
قصرِ خاور میں ضیا گستر ہے مہرِ صبح تاب
شاہدِ فطرت نے گویا رُخ سے اُلٹی ہے نقاب
طائرانِ خوش نوا ہیں نغمہ سازِ زندگی
اہلِ دل کو دے رہے ہیں درسِ رازِ زندگی
روح افزا ہے فضائے گلستانِ رنگ و بو
موجزن ہے ناز سے صحنِ چمن میں آبجو
چشمِ شاعر محوِ نظارہ ہے اس انداز سے
جیسے واقف ہو کوئی میکش جہاں کے راز سے
یہ محیطِ بیکران و کوہسارِ خود نما
آبجوئے خوش خرام و سبزہ زارِ جانفزا
ابرِ باراں، رعدِ نالاں، برقِ جولان و شرار
یہ فضائے دلفریب و یہ ہوائے خوشگوار
میگسارِ پاک بین و آشنائے سوز و ساز
میفروشِ زندگی و غم گسارِ اہلِ راز
نغمہ زن ہے شاعرِ رنگیں بیان و خوش نظر
بے تکلف کُھل رہے ہیں راز ہائے خیر و شر
 

الف عین

لائبریرین
رفیقۂ حیات


اے رفیقِ زندگی، اے غم گسار و باوفا
باعث تسکینِ دل ہے، راحتِ پہلو ہے تو
ہمدم و دمساز ہے، ہمدرد ہے، ہمراز ہے
محفلِ امکاں میں تنہا، شاہدِ دل جو ہے تو
چپّہ چپّہ، ذرّہ ذرّہ، خاکدانِ دہر کا
تیرے حسنِ دلربا کا ہے فقط آئینہ دار
اے گلِ خوش رنگ و خوش بو، زینت افروزِ چمن
تیرے دم سے گلشنِ ہستی میں ہے رنگِ بہار
ڈھونڈتی رہتی ہیں آنکھیں ہر طرف جلوہ ترا
اہلِ بینش کی نظر میں تو سراپا نور ہے
اے نگارِ شعلہ رو، یہ نور افشانی تری!
وادۂ ایمن ہے دنیا، تو چراغِ طور ہے
تو وہ لیلیٰ ہے کہ اک عالم ہے تیرا قصّہ خواں
مومن و کافر کے لب پر ہے بس افسانہ ترا
نجد ہے صحرائے ہستی، قیس ہر برنا و پیر
جس کو دیکھو، وہ نظر آتا ہے دیوانہ ترا
تیرا سنگِ آستاں ہے اور دنیا کی جبیں
عام ہے سب کے لئے تیری پرستش کا جنوں
شاہ ہو یا ہو گدا، یا رند یا مردِ خدا
حسن کی دیوی! ترے در پر ہر اک ہے سرنگوں
ملکۂ نازک ادا، اے پیکرِ حلم و حیا !
عالمِ امکاں میں تو ہے ناظمِ بزمِ حیات
تو نہ ہو تو ہو پراگندہ کتابِ زندگی
ہے تجھی سے منضبط شیرازۂ نظمِ حیات
فارغ البالی میں تو ہے دلربا و دلنواز
بیکسی میں ہے شریکِ بیکسی و غم گسار
تندرستی کے زمانہ میں انیس و دردمند
اور بیماری کی حالت میں ہے اک تیماردار
الغرض، ہر حال میں ہے تو شریکِ زندگی
زینتِ غربت کدہ بھی، رونقِ کاشانہ بھی
خلوت و جلوت میں یکساں ہے رفیقِ باوفا
گُل بھی ہے تو شمع بھی، بلبل بھی ہے، پروانہ بھی
 

الف عین

لائبریرین
درویش سے


کنجِ عزلت میں ہے کیوں بیٹھا ہوا اندوہگیں
کس لئے تاریک حُجرے میں ہوا ہے جاگزیں
لطفِ جلوت، گوشۂ خلوت میں مل سکتا نہیں
انجمن آرائیاں بھی دیکھ اے پردہ نشیں
لطفِ خلوت تا بہ کے اے حق شناس و حق نگر
فطرتِ خوش کار کے جلووں پہ بھی اب اک نظر
یہ فضائے نیلگوں، یہ محفلِ نجم و قمر
دعوتِ نظّارہ تجھ کو دے رہے ہیں بے خبر
دید کے قابل ہے جلوہ حسنِ صبح و شام کا
کتنا دلکش شعبدہ ہے چرخِ نیلی فام کا
عبرت آگیں ہے کرشمہ گردشِ ایّام کا
میکدہ میں جام خالی ہے تو تیرے نام کا
ملک پر آئی ہوئی ہے اک مصیبت آج کل
سخت خطرہ میں گھری ہے قوم و ملّت آج کل
امتحاں میں پڑ گئی ہے اس کی عزّت آج کل
حوصلہ افزائیوں کی ہے ضرورت آج کل
عرصۂ ہستی میں اک شورِ قیامت ہے بپا
فکرِ آزادی میں اربابِ وطن ہیں مبتلا
گوشۂ خلوت میں تنہا کیوں ہے تو بیٹھا ہوا
سر بکف میداں میں آ، اب حوصلہ ان کا بڑھا
کام کا یہ وقت ہے، کچھ کام کرنا چاہئے
کارزارِ زندگی میں نام کر نا چاہئے
بادۂ مہر و وفا کو عام کرنا چاہئے
انتظامِ دورِ خوش انجام کرنا چاہئے
وجد میں لا اہلِ دل کو اپنے سوز و ساز سے
آشنا کر دے ہر اک کو زندگی کے راز سے
گونج اُٹھے عالمِ امکاں تری آواز سے
کام لے اپنی دُعائے لا مکاں پرواز سے
وقتِ خاموشی نہیں، واللہ اے مردِ خدا !
کیا نہیں احساس کچھ بھی تجھ کو اپنے فرض کا
 

الف عین

لائبریرین
بیادِ یاراں


دیارِ حسن سے گزرا ہوں میں اس شان سے اکثر
سرودِ زندگی بر لب، شرابِ عاشقی در سر
جواں ہمت، جواں فطرت، جواں دولت، جواں قسمت
نگاہِ شوق حق آگیں، مجازِ راہ جاں پرور
جمالِ شاہدِ معنی نقابِ رُخ برافگندہ
جلالِ عشق سے پیدا کمالِ قدرتِ آذر
نگاہِ حسنِ خودآرا کرشمہ سازِ رنگ و بو
بہارِ گلشنِ فطرت قبائے دلبری در بر
فضائے میکدہ خنداں، سوادِ میکدہ روشن
نگاہِ ساقئ رعنا شریکِ گردشِ ساغر
زبانِ میکشاں گویا بصد اندازِ خوش گوئی
بہ ہر صورت، بہ ہر عنواں، طرب انگیز و رقص آور
جفائے حسن پر قرباں، وفائے عشق پر نازاں
غزل خوانِ حقیقت داں، نوا پرداز جادوگر
بساطِ محفلِ رنداں، حریفِ شامِ بت خانہ
ہجومِ ماہ و پرویں بے نیازِ پرسشِ محشر
نیاز و ناز و سوز و ساز و دلبازی و دلداری
نہ ذکرِ گردشِ دوراں، نہ فکرِ جورِ نیلوفر
یکایک گرد بادِ انقلاب آیا بہ ایں شورش
پریشاں ہو گیا دم بھر میں نظمِ زندگی یکسر
نہ وہ محفل، نہ وہ ہمدم، نہ وہ منظر، نہ وہ عالم
خیال و خواب کی دُنیا بگڑ جاتی ہے بن بن کر
یہ تاریکی، یہ سنّاٹا، یہ تنہائی، یہ ویرانہ
نہ کوئی خوش نظر رہرو، نہ کوئی حق نما رہبر
نہ توشہ ہے، نہ گوشہ ہے، بیاباں در بیاباں ہے
سرابِ آرزو کب تک رہے گا یوں نظر پرور
تلاشِ منزلِ مقصود میں پھرتے ہیں آوارہ
قلمکارانِ خوش آئیں، ہنرمندانِ دانشور
تڑپ اٹھتا ہے دل اے راز جب وہ یاد آتے ہیں
خدا جانے کہاں ہوں گے حریفانِ زباں آور
 

الف عین

لائبریرین
مشاعرۂ عالم


”ایں طرفہ حکایت است بنگر“
اربابِ سخن ہیں شعلہ در سر
شاید ہے بہار کا زمانہ
دنیا کی فضا ہے شاعرانہ
وہ عالمِ کیف و کم ہے طاری
اب عام ہوئی ہے میگساری
ساغر در دست ہیں سخنور
آزاد ترانہ اب ہے لب پر
پیتے ہیں دو آتشہ شب و روز
بنتے ہیں زمانہ بھر کے دل سوز
ہے بادۂ تلخ ناگوارا....!
حق بات سے کرتے ہیں کنارا
کامل ہے ہر ایک اپنے فن میں
رونق ہے انہیں سے انجمن میں
کہتا ہے ہر ایک اپنی اپنی
سُنتا نہیں کوئی بھی کسی کی
اکتارہ کوئی بجا رہا ہے
دو تارے پہ کوئی گا رہا ہے
بھولے ہیں اصولِ نغمہ سنجی
پروا نہیں ان کو زیر و بم کی
اب راگ نیا ہے، سُر نئے ہیں
اپنی دُھن میں وہ کھو گئے ہیں
کیا چیز غزل ہے، کیا ترانہ
ٹھمری کا ہے آج کل زمانہ
باقی ہے ابھی قصیدہ خوانی
یعنی مطلب کی ترجمانی
ہے عام مگر فسانہ سازی
شاید ہے یہی زمانہ سازی
چھائی ہوئی ہر طرف ہے ظلمت
مستور ہے جلوۂ حقیقت
دنیا ہے اسیرِ خود پرستی
بے رنگ ہے رنگِ بزمِ ہستی
یہ دورِ بہار کیا خزاں ہے
نخلِ آتش شرر فشاں ہے
وہ بادِ سموم چل رہی ہے
ہر شاخِ گلاب جل رہی ہے
خطرے میں ہر ایک آشیاں ہے
سکتے میں نگاہِ باغباں ہے
اہلِ گلشن کی ہے یہ حالت
گویا آنے کو ہے قیامت
لیکن شعرا ہیں مستِ بادہ
فطرت ان کی ہے کتنی سادہ
افکارِ جہاں سے بے خبر ہیں
ناواقفِ رازِ خیر و شر ہیں
الحق کہ تلخ ہے یہ حقیقت
دم توڑ رہی ہے آدمیت
دیپک کا نہیں ہے یہ زمانہ
گائیں اب میگھ کا ترانہ
ساکن ہے ابھی رگِ محبت
دنیا کو ”غزل“ کی ہے ضرورت
یہ وقت ہے معجزہ دکھائیں
کافر کو حق آشنا بنائیں
 

الف عین

لائبریرین
سامانِ حیات


دل میں آتا ہے کسی سے عہدِ الفت باندھ کر
اس خراب آباد میں رہنے کا ساماں کیجئے
لیجئے درسِ محبت، زُہد و تقویٰ چھوڑ کر
بن کے کافر عشق میں، تجدیدِ ایماں کیجئے
چھیڑیے سازِ الم، ہو جائیے وقفِ غِنا
نالہائے غم سے برہم بزمِ امکاں کیجئے
دیجئے جوشِ جنونِ فتنہ ساماں کو نوید
چاک دامن کیجئے، ٹکڑے گریباں کیجئے
کیجئے قطعِ تعلق دہر و اہلِ دہر سے
چھوڑ کر آبادیاں، سیرِ بیاباں کیجئے
کھینچئے آزارِ الفت، دیجئے دادِ ستم
ہو سکے تو عشق میں کارِ نمایاں کیجئے
لیجئے دل بیچ کر دردِ محبت کے مزے
اور ممکن ہو تو نرخِ درد ارزاں کیجئے
کیجئے روشن سیہ خانے کو نورِ عشق سے
دل کے ہر ذرّہ کو رشکِ مہرِ تاباں کیجئے
اس طرح ہو جائیے وقفِ خیالِ دلربا
آرزوئے ماسِوا کو اس پہ قرباں کیجئے
موت سے بدتر ہے یہ دل کا جمود و بے حسی
راز اب تو اس کو نذرِ سوزِ پنہاں کیجئے
 

الف عین

لائبریرین
جوانی کی کہانی


کوئی درد آشنا ہے کہ سُنے مری کہانی
کبھی میں بھی اک جواں تھا، کبھی تھی مری جوانی
مرا شغل میکشی تھا، مجھے ذوقِ بیخودی تھا
کبھی بھول کر بھی مجھ کو نہ ہوئی تھی سرگرانی
مرا مشغلہ تھا پیہم شب و روز نغمہ سنجی
کہ پسند آ گئی تھی انہیں میری خوش بیانی
شب و روز موجزن تھا مرے دل میں بحرِ اُلفت
مری دسترس سے باہر نہ تھی موجِ کامرانی
تھے اگرچہ گوش شنوا، تھی اگرچہ عقل دانا
نہ سُنی مگر کسی کی، نہ کسی کی بات مانی
یوں ہی بیخودی میں ساری کٹی رات زندگی کی
کُھلی آنکھ جب، تو دیکھا کہ تھا خواب اک جوانی
ہوا نذرِ کسلِ دائم، ہوئی صرفِ رنجِ پیہم
وہ سُرورِ روح پرور، وہ نشاطِ کامرانی
نہیں جوش اب وہ دل میں، نہیں کیف اب وہ سر میں
ہوئی اب خبر یہ مجھ کو کہ شراب تھی جوانی
نہیں نشّۂ شبینہ ، ہے وبال اب تو جینا
کہ بنی ہے صبحِ پیری، سحرِ شبِ جوانی
کروں کس سے میں شکایت، ہے فضول یہ حکایت
کہ ازل سے دشمنِ جاں ہے یہ دَورِ آسمانی
نہ پتا ملا کچھ اس کا، نہ خبر ملی کچھ اس کی
گئی ایسی پھر نہ آئی، کبھی لوٹ کر جوانی
ہے قریب صبحِ محشر، چلو راز سو رہو اب
کہ رہی ہے رات تھوڑی، ہے طویل یہ کہانی
 

الف عین

لائبریرین
سرمایۂ نشاط


میں کیا سُناؤں عہدِ محبت کی سرگزشت
یادش بخیر! دل میں قیامت کا جوش تھا
رہتا تھا مست بادۂ الفت سے روز و شب
اپنی خبر تھی مجھ کو نہ دنیا کا ہوش تھا
سوزِ نہاں سے قلب و جگر داغ داغ تھے
پہلو نہ تھا کوئی سَبَدِ گل فروش تھا
جوشِ جنونِ عشق سے چکّر میں تھا دماغ
گویا میں اپنے گھر ہی میں خانہ بدوش تھا
حد سے بڑھا ہوا تھا مرا جوشِ بے خودی
اغیار کا خیال ، نہ اپنوں کا ہوش تھا
ناصح کا تھا لحاظ ، نہ کچھ محتسب کا ڈر
میں ہر نوائے تلخ سے پُنبہ بگوش تھا
المختصر وہ عہد بھی تھا کچھ عجیب چیز
پہلو میں دل تھا، دل میں محبت کا جوش تھا
وہ حال تھا کبھی، مگر اب تو یہ حال ہے
وقفِ جمودِ قلب کا جوش و خروش ہے
چھائی ہوئی ہے ایک اُداسی سی ہر طرف
دل کیا خموش ہے کہ زمانہ خموش ہے
احساسِ زندگی میں بھی لذّت نہیں رہی
فردا کی ہے امید نہ اب رنجِ دوش ہے
دل بجھ گیا، سُرورِ محبت بھی مٹ گیا
وا حسرتا ! کہ سرد تمنّا کا جوش ہے
نالہ بھی کوئی لب پہ نہیں اب شرر فشاں
صد حیف ! شمعِ سوزِ جگر بھی خموش ہے
اک بے کسی ہے حاصلِ سرمایۂ نشاط
بیچارگی میں نیش کی تلخی بھی نوش ہے
 
Top