باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
فکرِ دنیا اور عقبیٰ کی پریشانی کے ساتھ
کون جائے سوئے کعبہ کُفرسامانی کے ساتھ
چشمِ ظاہر بیں سمجھ سکتی نہیں اس راز کو
میکشی ہے جُزوِ ایماں ذوقِ روحانی کے ساتھ
خیر، جو کچھ بھی ہو، لیکن اے حریفِ کامیاب
مجھ کو ہمدردی ہے تیری اس پریشانی کے ساتھ
راز یہ طرزِ تکلّم اور یہ بزمِ سخن!
کوئی نسبت بھی ہے یاروں کی غزل خوانی کے ساتھ
 

الف عین

لائبریرین
O
پردہ جو خودی کا اٹھ گیا ہے
ذرّہ ذرّہ اک آئینا ہے
کیوں دل سے نکل کے آئے لب پر
وہ راز کہ جانِ مدّعا ہے
تدبیر نہ بن سکی تقدیر
معلوم ہوا کوئی خدا ہے
خاموش زباں نہ ہلنے پائے
ہونے دے جو کچھ بھی ہو رہا ہے
اے راز! کوئی غزل خدارا
محفل پہ جمود چھا رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
دُنیا سے مجھے مطلب، دُنیا تو ہے دیوانی
سُنتا ہوں میں دنیا کی، کرتا ہوں غزل خوانی
اے بےخودئ اُلفت، اعجاز ہے یہ تیرا
مطلق نہیں اب مجھ کو احساسِ گراں جانی
اک عالمِ حیرت ہے، صورت کدۂ عالم
دیکھو گے اسے جتنا، بڑھ جائے گی حیرانی
اشعار کے پردہ میں اسرارِ حقیقت ہیں
اے راز یہ خوش گوئی، یہ طرزِ غزل خوانی
 

الف عین

لائبریرین
O
اب کیا بتاؤں تم کو میں رازِ عشق بازی
دیکھی بھی ہے کسی نے فطرت کی دلنوازی
او چشمِ مستِ ساقی، یہ تیری مے فروشی
آلودہ ہو نہ جائے، دامانِ پاکبازی
عرفانِ حق و باطل جتنا ہوا ہے مجھ کو
اُتنی ہی ہو گئی ہے دنیا سے بے نیازی
ناکامیوں سے آخر اے راز کیوں ہو بد دل
دیکھی ہے میں نے اکثر قسمت کی چارہ سازی
 

الف عین

لائبریرین
O
جلوہ نما یہ کون سرِ بزمِ ناز ہے
تجھ کو بھی کچھ خبر نگۂ امتیاز ہے؟
ممکن نہیں کہ ہو تجھے حاصل سکونِ دل
اے بے خبر ابھی تو گرفتار آز ہے
جاتا کدھر ہے راہروِ عرصۂ حیات
ایمان و کفر میں بھی تجھے امتیاز ہے؟
بس تو پہنچ چکا درِ رفعت مآب تک
تیری نظر اسیرِ نشیب و فراز ہے
یہ نغمہ ہائے روح فزا، راز، مرحبا
ہر شعر میں نہاں اثرِ جاں نواز ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
اس بزمِ تماشا میں کیا طرفہ تماشا ہے
حیرت زدۂ جلوہ، ہر دیدۂ بینا ہے
سرگشتۂ دنیا کیوں تقدیر کا شکوا ہے
سوچا ہے کبھی تو نے، کیا تیری تمنّا ہے
جینے کا مزا تجھ کو حاصل ہو تو کیوں کر ہو
صہبائے محبت سے خالی تری مینا ہے
روشن ترے جلووں سے ہے کعبۂ و بُتخانہ
اے شمعِ حرم تجھ سے دُنیا میں اُجالا ہے
اے راز سکونِ دل کیوں کر ہوتجھے حاصل
آباد ترے دل میں امّید کی دُنیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کیا کہوں تیری نظر محدود ہے
ورنہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے
ناز ہے حسنِ تعلق پر مجھے
میں ہوں ساجد اور وہ مسجود ہے
سعئ لا حاصل سے آخر فائدہ
کیوں تجھے فکرِ زیان و سود ہے
میر و غالب، آتش و ناسخ کہاں
راز البتّہ ابھی موجود ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
چشمِ حیرت خیز سے اہلِ نظر دیکھا کیے
دید کے قابل نہ تھی دُنیا، مگر دیکھا کیے
کس طرف جاتی ہے، کیا کرتی ہے آہِ نارسا
شام سے تا صبح، تا حدِ نظر دیکھا کیے
نور و ظلمت حاجبِ نظارۂ باطن رہے
اہلِ ظاہر جلوۂ شام و سحر دیکھا کیے
خوش نظر جتنے تھے پہنچے منزلِ مقصود پر
کم نظر لیکن نگاہِ راہبر دیکھا کیا کیے
عرصۂ ہستی سے گزرا راز میں کچھ اس طرح
میری ہمّت، میری جرۂت، ہمسفر دیکھا کیے
 

الف عین

لائبریرین
O
اللہ اللہ، کیا نظر کا حسنِ عالمگیر ہے
دیکھتا ہوں جس طرف تنویر ہی تنویر ہے
عقلِ دوراندیش اب واماندۂ تدبیر ہے
کیا اسے تقدیر کہتے ہیں، یہی تقدیر ہے
ہو چکا جمعیتِ خاطر کا ساماں ہو چکا
عرصۂ ہستی میں برپا شورِ دار و گیر ہے
یاد آتا ہے وطن، لیکن میں جا سکتا نہیں
راز خاکِ کانپور کچھ ایسی دامن گیر ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
احساسِ زیست ہے دلِ مضطر لیے ہوئے
آئینۂ خیال ہے جوہر لیے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں گوشۂ عزلت میں مطمئن
رودادِ حسن و عشق کا دفتر لیے ہوئے
آتا نہیں نظر کہیں منزل کا کچھ نشاں
کس سمت جا رہا ہے مقدّر لیے ہوئے
سرمایۂ حیات ہے یہ داغِ آرزو
کیا چیز ہے مرا دلِ مضطر لیے ہوئے
اے راز عرفِ عام میں کہلاتی ہے غزل
تصویرِ زندگی ہے سخنور لیے ہوئے
 

الف عین

لائبریرین
O
فائدہ کیا ہے خود نمائی سے
لیجئے کام بے ریائی سے
پارسا اور میں ، ارے توبہ!
رند کو کام پارسائی سے؟
ایک عالم میں ہو گیا رُسوا
اپنی فطرت کی بے ریائی سے
آرزو اب یہی ہے دل میں راز
کاش ملتا کبھی فضائی سے
 

الف عین

لائبریرین
O
پی کر شرابِ عشق جو سرشار ہو گئے
بارِ غمِ جہاں سے سبک سار ہو گئے
لب آشنا جو خواہشِ دیدار ہو گئی
پہلے سے بھی زیادہ وہ خوددار ہو گئے
راہِ طلب میں حدِ ادب سدّ راہ تھی
آگے قدم بڑھانے سے ناچار ہو گئے
دُنیا ہمارے حال کی جُویا ہے کس لئے
عُزلت گزیں ہوئے کہ گنہگار ہو گئے
پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں راز
آگے قدم بڑھا کہ گرفتار ہو گئے
 

الف عین

لائبریرین
O
حسنِ فطرت ہے یہاں جلوہ نما میرے لئے
ذرّہ ذرّہ دہر کا ہے آئنا میرے لئے
اک ترا جلوہ ہے جس کی دید میں مصروف ہوں
ورنہ بزمِ دہر میں ہے اور کیا میرے لئے
ایک جلوہ اور اتنی صورتیں، شانِ خدا
منظرِ بُت خانہ ہے حیرت فزا میرے لئے
بندۂ اہلِ محبت ہوں، صداقت کیش ہوں
ایک ہیں ناآشنا و آشنا میرے لئے
بندۂ حلقہ بگوشِ کاتبِ تقدیر ہوں
شکوۂ تقدیر ہے ننگِ رضا میرے لئے
مرحبا، اے دیدۂ بینا، ترا حسنِ نظر
شمعِ بتخانہ بھی ہے قبلہ نما میرے لئے
نکتہ سنجِ بزمِ معنی ہوں ازل سے راز میں
نغمۂ سازِ سخن ہے جاں فزا میرے لئے
 

الف عین

لائبریرین
O
مایۂ زیست و جانِ راحت ہے
ہائے کیا چیز یہ محبّت ہے
دوست دشمن ہیں یا ہیں دشمن دوست
کیا زمانہ ہے، کیا قیامت ہے
جلوۂ بزمِ دہر، اے توبہ
میری نظروں میں حسنِ فطرت ہے
رازدارِ حریمِ جانانہ....!
مثلِ تصویر محوِ حیرت ہے
راز یہ ذوقِ شعر گوئی بھی
برسبیلِ اصولِ فطرت ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کیوں پوچھتے ہو کہ حال کیا ہے
اچّھا ہوں یہ قیل و قال کیا ہے
کیا کام خودی و خودسری سے
بندہ ہوں، مری مجال کیا ہے
کیوں کر کہوں راز کی ہے یہ بات
میں کون ہوں اور حال کیا ہے
اے راز یہی ہے بے کمالی
ورنہ مجھ میں کمال کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
شکایت اور پھر نازِ نگاہِ روح پرور کی
یقینا رحم کے قابل ہے حالت قلبِ مضطر کی
طوافِ کوچۂ دل کر رہا ہوں ایک مدّت سے
نظر آ جائے وہ تو ختم ہو گردش مقدّر کی
تو ہے مختارِ کُل میں ہوں قناعت کیش اے ساقی!
مگر کچھ کہہ رہی ہے تشنہ کامی میرے ساغر کی
مجھے دعوائے خوش گوئی نہیں اے راز محفل میں
کہ خوش آیندہ ہے طرزِ تکلّم ہر سخنور کی
 

الف عین

لائبریرین
O
خود نمائی ہے، خود پرستی ہے
واہ کیا رنگِ بزمِ ہستی ہے
کیا کہا ایک بار پھر کہنا
خود پرستی بھی حق پرستی ہے
اک فریبِ نظر ہے سر تا سر
ہے بلندی کہیں نہ پستی ہے
صرف امّید پر ہے یہ قائم
قصرِ دنیا کی کوئی ہستی ہے
سر بسجدہ ہے بتکدے میں راز
بس یہی حدِ حق پرستی ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
کون کہتا ہے کہ دُنیا راز ہے
یہ تو اس کی جلوہ گاہِ ناز ہے
کیا بتاؤں تجھ کو وجہِ میکشی
بات کہنے کی نہیں، اک راز ہے
جان دینی بھی نہیں مشکل مجھے
کتنا دلکش عشق کا آغاز ہے
خودغرض ہے برہمن بھی شیخ بھی
ایک دنیا، ایک عقبیٰ ساز ہے
”ہست چیزے ماورائے شاعری“
نغمہ پردازِ حقیقت راز ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
یہ شانِ خود نمائی، یہ جوشِ خود پرستی
دیوانہ ہو گیا ہے او ننگِ بزمِ ہستی؟
سُنتا ہوں آج کل ہے صہبائے عشق سستی
صہبائے عشق؟ توبہ توبہ، ہوس پرستی
کیا بات کہہ رہا ہے، تو کس سے کہہ رہا ہے
دنیا سے اٹھ چکی ہے اے راز حق پرستی
 

الف عین

لائبریرین
O
بے آب و رنگِ مطلق دنیائے رنگ و بو ہے
ساقی کہاں ہے لانا وہ گُل جو شعلہ رو ہے
اہلِ نگاہِ گلشن کب سے ہیں گُل بدامن
صد حیف! تو ابھی تک پابندِ رنگ و بو ہے
میں اور فکرِ دُنیا ، میں اور فکرِ عقبیٰ
محدود کیا اسی تک دنیائے آرزو ہے
پیشِ نظر ہیں ہر سو صد جلوہ ہائے معنی
لیکن نظر ابھی تک سرگرمِ جستجو ہے
اربابِ پاک باطن اے راز کیا سُنیں گے
بے لطف ہے یہ نغمہ، حق ہے نہ اس میں ہو ہے
 
Top