باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
اس نوک جھونک کا انجام سوائے مناظرہ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ راز اپنی ”رفیقِ زندگی“ کے جواب میں ایک لمبی تقریر میں مشرقی عورت کی ناروا آزادی اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور اپنی شریکِ حیات سے ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں۔ اس کے بدلہ میں انہیں ”رفیقِ زندگی ‘ کے بڑھتے ہوئے غصّہ کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ باہمی شکر رنجی کی شکل میں نظر آتا ہے:
مناظرہ :
رفیقِ زندگی، یہ بات کیا ہے
کہ نقشہ دہر کا بگڑا ہوا ہے
عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے
خدا کے فضل کا بس آسرا ہے
نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر
ٹھکانہ ہی نہیں گویا کہیں پر
اسی کا نام شاید ہے ترقی
کہ خانم کو نہیںکچھ فکر گھر کی
یقینا اس کا حق ہے سیرِ گلشن
اگر جلتا ہے جل جائے نشیمن
اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے
اسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے
....
جواباً انہیں یہ سننے کو ملتا ہے:
بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں
بہت بہتر، میں ایسی بے ہنر ہوں
بڑی کم ظرف ہوں میں، خود نما ہوں
بہت کج خلق ہوں میں، بیوفا ہوں
مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں
خودی و خودسری کا آئنا ہوں
مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی
کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟
....
بات بگڑتی دیکھ کر راز چرب زبانی سے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ”رفیقِ زندگی“ کی تعریف کے پُل باندھ دیتے ہیں۔ ”رفیقِ زندگی“ اس تعریف کے پردہ میں پوشیدہ الزامات اور شکوہ سے بے خبر نہیں ہے۔ دونوں کی نوک جھونک بہت دلچسپ ہے۔ قاری کو دونوں کے لب و لہجہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ شکر رنجی مصنوعی سی ہے اور بالآخر ملاپ کی شکل اختیار کر لے گی:
شکر رنجی :
رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں!
انیسِ خاطرِ راز پریشاں
میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا
تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا
جہاں میں تو ہی میری رازداں ہے
مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے
سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر
مجسّم آئنہ یا راز یکسر
الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے
جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے؟
بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے
مری تعریف کا دفتر کھلا ہے
یقینا کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں
شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں؟
معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے
ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟
نہیں ایسا نہیں، ہرگز نہیں ہے
مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے
عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل
سمجھنا ہو گیا ہے اس کا مشکل
خودی ہے یا مجسّم حق پرستی؟
معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی
کبھی تصویر ہے جور و جفا کی
کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی
کبھی خاموش، مثلِ بے زباں ہے
کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے
میں اب سمجھی،میں اب سمجھی حقیقت
مری کمزوریوں پر تو نظر ہے
جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت!
مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟
بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت
معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت !
....
اس منزل پر پہنچ کر راز خود کو مجبور پاتے ہیں اور معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بے راہ روی اور عورت کی آزاد خیالی اتنے اہم مسائل نہیں ہیں کہ ان پر جھگڑا کر کے گھر کا سکون برباد کیا جائے۔ ملاپ میں اس قصّہ کا انجام جس طرح ہوتا ہے وہ پڑھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ بھی لاتا ہے :
ملاپ :
رفیقِ زندگی! دلگیر کیوں ہے
سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے
غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے
شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے
پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے
لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے
ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے
مگر اس برہمی میں دلکشی ہے
میں قرباں! یہ ادائے بے نیازی
میں صدقے! یہ طریقِ دل نوازی
چلو جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا
معمّا ہوں معمّا میں سراپا
مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے
مری طینت حریفِ آسماں ہے
ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت
ریاکاری ہے گویا میری فطرت
ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے
مری چشمِ غضب، جادو اثر سے
میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے
نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے
نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم!
بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم
دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی
مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی
کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی
دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی
مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے
کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے
بڑے آئے کہیں کے ناز بردار
پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار
ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
جلانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے
یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے؟
مجسّم شعر ہوں، نغمہ ہوں، لَے ہوں
کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں
تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے
تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے
بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا
کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا
 

الف عین

لائبریرین
راز کے ”رموز و نکات“ :
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راز ایک مضمون کے مختلف عناصر جستہ جستہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس بیان میں نفس مضمون کے تسلسل اور فکری ارتقا کی جانب خاص توجہ رکھتے ہیں۔ مشرقی عورت سے متعلقہ نظموںکی ترتیب کے سلسلہ میں پچھلے صفحات میں اس کا اجمالی ذکر ہو چکا ہے۔ یہی طریقِ فکر راز کی ان نظموں میں بھی نمایاں ہے جن میں انہوں نے دنیا اور اس کی کم سوادی کا شکوہ کیا ہے۔ ”(1) نکتۂ لطیف، (2) نیرنگِ جہاں، (3) ترکِ تکلف، (4) ترکِ تعلق اور (5) ترکِ دنیا“ اس زنجیر کی پانچ کڑیاں معلوم ہوتی ہیں، جو اسی ترتیب سے ” مصحفِ راز“ میں پیش کی گئی ہیں۔
ان نظموں میں راز کی قنوطیت پسندی بہت نمایاں ہے۔ اس سے قبل اُن کی خاموش • طبع، سنجیدہ مزاجی، راہِ عام سے گریز اور عُزلت گزینی کا ذکر ہو چکا ہے اور ان ذاتی حالات کی جانب بھی اشارہ کیا جا چکا ہے جنہوں نے راز کو عمر بھر چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ ان کی قنوطیت نے انہیں دنیا اور اہلِ دنیا سے جس طرح مایوس کر دیا، اس کے بعد کسی ہم نفس کا نہ ملنا باعثِ حیرت نہیں ہے۔ انہیں چاروں طرف ہوس و خود غرضی، دنیا داری اور زمانہ سازی دکھائی دیتے ہیں اور ان کی سادہ اور حق پرست طبیعت ان سے دو چار ہونا تو درکنار، کسی طرح کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ہے۔
مندرجہ بالا نظموں سے پہلے وہ کلیدِ کامرانی میں خود کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا سے الگ تھلگ رہ کر گزر مشکل ہے، مگر اس خیال کو عملی جامہ پہنانا ان کے لئے ناممکن ثابت ہوتا ہے اور وہ ترکِ دنیا کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ”کلیدِ کامرانی“ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
بجا ہے جو تجھے شکوہ ہے کس مپرسی کا
یہ سچ ہے کوئی یہاں پر نہیں ترا دمساز
بپا ہے شورِ قیامت زمانے میں ہر سو
سُنے توکوئی سُنے کس طرح تری آواز
بلند ہے تری تخئیل، فکر عالی ہے
ترے خیالِ رسا کی ہے عرش تک پرواز
حریفِ تابِ تکلّم ہے تیری خاموشی
نوا فروش ہے باطن میں تیرے دل کا ساز
مگر زمانہ میں اہلِ نظر ہیں کم ایسے
جو تاڑلیں تری صورت سے تیرے دل کا راز
جو اہلِ دل ہیں وہ خود درد مند رہتے ہیں
بنے تو کوئی بنے کس طرح ترا دمساز
نکل تو گوشۂ خلوت سے، مصلحت یہ ہے
شریکِ بزمِ سخن ہو کے ہو نوا پرداز
کسی کو اپنا بنا لے، کسی کا تو ہو جا
کسی پہ ناز ہو تجھ کو، کسی کو تجھ پر ناز
یہی کلید ہے بس ایک کامرانی کی
”زمانہ با تو نہ سازد، تو با زمانہ بساز“
وہ کہنے کو تو یہ کہہ گئے کہ کامرانی کا راز ”زمانہ با تو نہ سازد، تو بازمانہ بساز“، مگر خود وہ عمر بھر اس پر عمل نہیں کر سکے۔ ظاہر ہے کہ وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے تھے۔ انہیں اس باب میں اپنی کوتاہی کا خوب علم تھا:
ایک عالم میں ہو گیا رُسوا اپنی فطرت کی بے ریائی سے
اور وہ دنیا سے برگشتہ خاطر ہو کر یہ کہتے تھے کہ
اہلِ جہاں سے کوئی تعلق نہیں مجھے
وہ ہیں خدا فروش تو میں ما سِوا فروش!
پھر بھلا وہ زمانہ سازی کیسے کر سکتے تھے۔ لہٰذا فکری طور پر ان کی زندگی ”زمانہ با تو نہ سازد، تو با زمانہ ستیز“ سے زیادہ ہم آہنگ و قریب رہی اور عملی طور پر اس نبردآزمائی میں انہوں نے خاموشی اور گوشہ نشینی کو آلۂ کار بنا یا۔
اختصار کے پیشِ نظر نظموں میں اپنے خیالات و معتقدات کے تدریجی اور ارتقائی اظہار کی کوشش کی تقلید اور تائید میں راز کی ان پانچ نظموں کے چیدہ چیدہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ نکتۂ لطیف سے ترکِ دنیا تک، راز کی فکر و بیان کا سفر دلچسپ بھی ہے اور معنی خیز بھی
وقفِ خزاں ہے حسنِ گلستانِ آرزو
قلبِ امید، جورِ فلک سے ہے داغدار
ناواقفِ رموزِ محبت ہےں ہم نشیں
بیگانۂ اصولِ مروّت ہیں غم گسار
زاہد فریب کار ہے، واعظ ہے خود نما
نا گفتنی ہے صوفئ صافی کا حالِ زار
مطرب ہے مستِ بادۂ نغماتِ خودسری
شاعر ہے کم نگاہ و خود آرا و خام کار
بس، اے فریب خوردۂ دنیائے رنگ و بو
تا چند یہ حکایتِ غم ہائے روزگار
لاریب، کم نظر ہے زمانہ، ضرور ہے
بیشک فریب کار ہے دنیا، فریب کار
عمرِ دو روزہ در غمِ عالم مکُن خراب
خاموش باش و حسنِ عمل را نگاہ دار
.... (نکتۂ لطیف)
مکدّر مطلعِ بزمِ جہاں ہے
مرے ساقی، مئے صافی کہاں ہے؟
فضائے میکدہ ہے ابر آلود
تپش آموز دل ، برقِ تپاں ہے
تحیّر خیز ہے رنگِ زمانہ
عجب نیرنگئ دَورِ زماں ہے
فریب آگیں ہے دعوائے محبت
وفا دشمن حریفِ خوش بیاں ہے
ریاکاری ہے اصلِ پاکبازی
خلوص اک پردۂ جورِ نہاں ہے
خموش اے راز جویائے حقیقت
خدا کا نام لے کیوں سرگراں ہے
.... (نیرنگِ جہاں)
راز آخر تا بکے سرگشتۂ زہد و ورع؟
پارہ پارہ اب لباسِ پارسائی کیجئے
دے چکے برسوں زمانے کو فریبِ ناروا
اب ضرورت ہے حقیقت تک رسائی کیجئے
کر چکے بس کر چکے سجدے نمائش کے لئے
اب کسی گوشہ میں چھپ کر جبّہ سائی کیجئے
دیجئے گویا زباں کو اب خموشی کا سبق
بے زبانی کو حریفِ خوش نوائی کیجئے
چھوڑیے اب یہ تکلف، بے ریا ہو جائیے
الغرض، نذرِ حقیقت خودنمائی کیجئے
.... (ترکِ تکلف)
نہ پوچھ مجھ سے فسانہ غم محبت کا
کہ یہ فسانہ کسی کو سنا نہیں سکتا
نہ چھیڑ مجھ کو مرے ہمدم ورفیق، نہ چھیڑ
کسی کو رازِ محبت بتا نہیں سکتا
نہ پوچھ مجھ سے سبب میری کم نگاہی کا
حریمِ راز کا پردہ اٹھا نہیں سکتا
مری نگاہ میں اب جلوۂ حقیقت ہے
فریبِ حسنِ محبت میں کھا نہیں سکتا
سلام اہلِ وفا کو ، سلام دنیا کو
کہ اب کسی کو میں اپنا بنا نہیں سکتا
.... (ترکِ تعلق)
راز آخر تا بکے سرگشتۂ دنیائے دوں؟
چھوڑ یہ ہنگامہ زارِ دہر، ہو خلوت گزیں
تا بکے شکوہ گزارِ انقلابِ روزگار
تا کجا منّت پذیرِ آرزوئے دل نشیں
کامیابِ آرزو ہونا بہت دشوار ہے
کامیابِ آرزو کوئی بھی ہو سکتا نہیں
دل کو دے درسِ قناعت، ہو توکّل آشنا
لے خوشی سے جو ملے، وہ زہر ہو یا انگبیں
چند روزہ ہے یہ دنیا اور اس کا رنج و غم
فکر کرانجام کی، فکرو ں سے کچھ حاصل نہیں
(ترکِ دنیا)
....
 

الف عین

لائبریرین
راز کی اس یاسیت کی جانب عبدالقادر سروری (٭) نے یوں اشارہ کیا ہے:
”راز کی شاعری اردو شاعری کی روایتی قنوطیت کی طرف زیادہ مائل ہے۔ اصغر گونڈوی کے بعد سے اکثر شاعروں نے شعر سے رنج و ملال کے اثرات کو گھٹانے کی کوشش شروع کی تھی۔ لیکن یاس و حرماں اُردو شاعری کے خمیر میں اس قدر جاگزیں ہو گئے ہیں کہ وقتاً فوقتاً نمایاں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ راز کی قنوطیت زیادہ تر ان کے ذاتی حالات کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اس زمانہ کی بے مہریوں کا بھی دخل ہے۔“
راز اپنی ایک رباعی میں اس موقف کی تائید کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں:
دنیائے دنی سے ہے محبت تجھ کو
افکار سے کس طرح ہو فرصت تجھ کو
بیکار ہے جستجوئے راحت اے راز
دوزخ میں کہاں ملے گی جنّت تجھ کو
....
چند تجرباتِ منظوم :
نظم ہو یا غزل، غنائی بحروں کا استعمال ان کی دلکشی کو دوچند کر دیتا ہے۔ غنائی بحروں سے مراد وہ بحریں ہیں جو اپنی ہیئت میں موسیقیت رکھتی ہیں اور بلند آواز میں پڑھنے سے جن کا اتار چڑھاؤ کانوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے۔ ایسی بحریں عموماً قدرے طویل ہوتی ہیں۔ راز نے اپنی بہت سی نظموں میں ایسی بحریں استعمال کی ہیں۔ چونکہ ان کا کلام
٭ جدید اردو شاعری: کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور – 1942ء
یوں بھی معنویت سے بھرا ہوا ہے اور اس میں لفظی بازی گری کا فقدان ہے، چنانچہ غنائی بحروں میں کہی گئی نظمیں پڑھئے تو انہیں گنگنانے کو بے اختیار دل چاہتا ہے اور ان کی اثر پذیری بڑھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
پچھلے صفحوں میں راز کی دو نظموں ”الحمد للّٰہ“ اور ”اعترافِ محبت“ کا تفصیلی ذکر ہو چکا ہے۔ دونوں کی بحر غنائیت سے بھرپور ہے۔ ”کسی کی یاد میں“، ”انتظار“ اور ”تدبیرِ منزل“ بھی موسیقیت سے مملو ہیں۔ ان تینوں نظموں میں راز نے ٹیپ کے مصرع کی تکرار سے ان کا سماں باندھا ہے۔ عنوان و مضمون کی مناسبت سے راز نے انتخابِ الفاظ، طرزِ بیان اور ٹیپ کے مصرع کی بندش و مطابقت میں اپنی قادرالکلامی کے جوہر دکھائے ہیں۔ اگر ”کسی کی یاد میں“ امید و تمنّا کی سرخوشی کا تاثر پیدا کرتی ہے تو ”انتظار“ حسرت ویاس کی آئینہ دار ہے اور” تدبیرِ منزل“ دعوتِ استقلال دیتی ہے۔تینوں نظموں کے چند بند اس موقف کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں:
شفق کی سرخی فلک پہ دوڑی، نمودِ شب کی نوید لائی
کُھلا وہ جوڑا عروسِ شب کا، وہ زُلف اس کی جہاں پہ چھائی
وہ تارے چمکے، وہ چاند نکلا، یہ حسنِ فطرت کی دلربائی
مگر ابھی تک تری تجلّی کہیں بھی مجھ کو نظر نہ آئی
کہاں ہے آ جا، جھلک دکھا جا، مرے ستارے ، مرے ستارے!
یہ رات کا وقت، ہو کا عالم، یہ قلبِ روشن کی تیرہ حالی
نظر ہے حیراں، اُداس دنیا، تری ضیا سے فضا ہے خالی
یہ قلبِ مضطر کی بیقراری، یہ آرزوؤں کی پائمالی
تو اپنے جلووں کو عام کر دے، دکھا دے اب شانِ خوش جمالی
کہاں ہے آ جا، جھلک دکھا جا، مرے ستارے ، مرے ستارے!
.... (کسی کی یاد میں)

روشن تھا ماہِ کامل، روشن تھا ہر ستارا
فرشِ زمیں پہ یکسر تھا فرش چاندنی کا
برپا تھی بزمِ عشرت، سامانِ عیش بھی تھا
میری نظر کو لیکن تھا انتظار تیرا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا، افسوس تو نہ آیا
کنجوں میں سو رہے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
ساکت تھا پتّہ پتّہ، خاموش سب تھے غنچے
مصروفِ خوابِ نوشیں مرغانِ خوشنوا تھے
ہاں، اک چکور تنہا فریاد کر رہا تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا، افسوس تو نہ آیا
.... (انتظار)
تجھے کیا فکر ہے اے دل! تجھے کس بات کا کھٹکا
خدا کا نام لے، اٹھ اور سرگرم سفر ہو جا
اگر دشوار ہے منزل تو ہونے دے، نہ تو گھبرا
نہیں زادِ سفر ممکن ،نہ ہو، اس کی نہ کر پروا
خدا خود میرِ ساماں است اربابِ توکّل را
تذبذب کا بکے، اب شانِ استقلال پیدا کر
تلاشِ رہبرِ منزل ہے کیاِ،خود اپنا بن رہبر
بھرسہ رکھ خدا پر اور اپنے دست و بازو پر
تجھے کیا غم، اگر کوئی نہیںہے ہم سفر تیرا
خدا خود میرِ ساماں است اربابِ توکّل را
.... (تدبیرِ منزل)
 

الف عین

لائبریرین
اُردو نظم اپنی ہیئت میں غزل کی طرح مخصوص مقتضیات کی پابند نہیں ہے جبکہ غزل ردیف، قوافی، وزن، بحر، مطلع اور مقطع کی متعدد پابندیوں میں محصور ہے۔ روایتی نظم صرف ردیف اور قوافی کی پابند ہوتی ہے۔ نہ صرف وہ مطلع اورمقطع کی بندش سے آزاد ہے، بلکہ بحر کے التزام میں بھی آزادی اور اجتہاد ممکن ہے۔ علاوہ ازیں نظم صرف ایک ہی مضمون یا خیال پیش کرتی ہے جبکہ غزل کا ہر شعر ایک مختلف جذبہ، احساس یا خیال بیان کرتا ہے۔ چونکہ راز کو ”جدید نطم“ یا ”نثری نظم“ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لئے ان کا ذکر یہاں تحصیلِ لا حاصل ہے۔ روایتی اُردو نظم کی مذکورہ بالا خصوصیات شاعر کو ہیئت کے تجربوں کی دعوت دیتی ہے۔ راز نے اپنی نظم گوئی میں اس دعوت کا فائدہ اٹھایا ہے اور کئی نطموں میں ہیئت کے نئے تجربوں سے ان کے زیر و بم، دلکشی، اثر پذیری اور معنویت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش کم و بیش ہر جگہ خوشگوار ہے اور کہیں بھی مصنوعی نہیں معلوم ہوتی۔راز کے درج بالا تجربوں کو چند مثالوں سے مختصراً واضح کیا جا سکتا ہے:
باغِ آرزو : اس نظم میں باغِ آرزو کی مرقع کشی راز نے اپنے مخصوص انداز میں کی ہے۔ نپے تلے مصرعے، سادہ زبان اور لطیف ترکیبوں سے مرصّع یہ نظم ان وارفتگانِ آرزو کے انہماک پر اظہارِ افسوس کرتی ہے جو گردشِ ایام اور اس کے نتائج سے بیگانہ بیٹھے ہوئے ہیں:
اک گلشنِ راحت فزا
اک لالہ زارِ رنگ و بو
اک باغ، باغِ دلکشا
گہوارۂ جوشِ نمو
دنیائے عبرت خیز میں پیشِ نظر ہے چار سو
بادہ کشانِ آرزو
حلقہ بگوشِ بیخودی
وارفتگانِ آرزو
منّت پذیرِ سرخوشی
ساغر بلب، راحت بجاں، ممنونِ لطفِ زندگی
بیٹھے ہوئے ہیں بے خبر
پروائے ننگ و نام سے
واقف نہیں مطلق مگر
وہ گرشِ ایام سے
صد حیف کوئی دہر میں غافل ہو یوں انجام سے
ہر بند کا پہلا مصرع تیسرے کا اور دوسرا مصرع چوتھے کا ہم قافیہ ہے اور پانچواں (ٹیپ کا) مصرع چوتھے کا ہم قافیہ ہے، مگر وزن میں وہ سابقہ دو مصرعوں کے برابر ہے۔ اس ہیئت سے نظم کا زیر و بم بہت دلکش ہو گیا ہے۔
....
مصوّر : یہ نظم پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند آٹھ مصرعوں سے تشکیل دیا گیا ہے، مگر ان مصرعوں کی ترتیب سے بند کی ہیئت بدل گئی ہے۔ یہ تنوع نظم کو حسنِ صورت بخشتا ہے اور نظم کی چھوٹی بحر سے جو تشنگی کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے، اس کی جانب قاری کی توجہ جمنے نہیں دیتا۔ نظم کا پہلا اور آخری بند نمونہ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں:

نقاشِ حسنِ فطرت
صورت کشِ حقیقت
عکاسِ بزمِ فطرت
بیٹھا ہوا ہے تنہا
بے فکر و مطمئن سا
خاموش اس طرح ہے
تصویر ہے وہ گویا
دنیائے رنگ و بو کی
اب یاد آ رہا ہے
دل کو جلا رہا ہے
اُس کو ستا رہا ہے
گزرا ہوا زمانہ
بھولا ہوا فسانہ
لب پر ہے اس کے گویا
دل دوز یہ ترانہ
افسوس اے جوانی !
 

الف عین

لائبریرین
باب 5
رباعیاتِ راز

دلدارئ دوست کا فسانہ کہئے
یا قصّۂ شوخئ زمانہ کہئے
جو کچھ کہئے اس انجمن میں اے راز
با طرزِ لطیف و شاعرانہ کہئے

راز کی یہ رباعی محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں ہے۔ اُن کی غزلیہ اور منظوم شاعری کا تجزیہ شاہد ہے کہ یہ رباعی ان کے مسلکِ شاعری کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کی رباعی گوئی بھی انہیں نقوش پر گامزن ہے۔ راز اپنی رباعیات میں بھی اسی میانہ روی اور اعتدالِ فکر و بیان کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ان کا طرّء امتیاز ہے۔
” مصحفِ راز“ میں رباعیوں کی تعداد ایک سو پینتالیس (145) ہے۔ راز نے اپنی شعر گوئی کو غزلوں، نظموں اور رباعیوں تک محدود رکھا ہے اور کسی اور صنفِ سخن میں طبع آزمائی نہیں کی ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ شاعری اُن کے لئے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک فطری ذریعہ تھی اور کسی سطح پر دادخواہی انہیں مقصود نہیں تھی۔ ان کے اس جذبہ کی آسودگی کے لئے مثنوی یا کسی اور صنفِ سخن کی انہیں ضرورت محسوس نہیں ہوئی
شعر کہتا ہوں کہ ہوں مجبور ذوقِ طبع سے
راز کچھ خواہش نہیں مجھ کو نمود و نام کی
رباعی ایک مشکل صنفِ سخن ہے۔ شاید اسی لئے بیشتر شعراءنے اس کی جانب کم ہی توجہ دی ہے۔ چار مصرعوں میں بات کو مکمل اور موثر طور پر ادا کرنا زبان و بیان پر مکمل قدرت چاہتا ہے۔ سیّد امداد امام اثر رُباعی کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”رُباعی وہ صنفِ شاعری ہے جس کے لئے حکیمانہ مضامین کی حاجت ہے۔ شاعر کو لازم ہے کہ مسائلِ اخلاق و تمدّن و معاشرت و مذہب و دیگر مضامینِ جلیلہ سے اپنے کلام کو زینت دے۔ اگر پست خیالی کی طرف اس کے کلام کا میلان ہو گا تو اس کی رباعی نگاری بامراد تاثیر پیدا نہ کر سکے گی۔ چونکہ یہ صنفِ شاعری عروضی ترکیب کی رو سے بہت محدود صورت رکھتی ہے، شاعر کو لازم ہے کہ منقح مسائل کو اس طرح موزوں کرے کہ تھوڑے لفظوں سے بہت معنی پیدا ہوں اور چوتھا مصرع بہت پُر مضمون اور پُر زور اور ایسا ہو کہ گویا ہرمصرعہ ہائے سابق کا خلاصہ یا نتیجہ ہو۔ اہلِ واقفیت سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس صنفِ شاعری کے لئے زیادہ تر داخلی مضامین کی حاجت ہے۔ مسائلِ اخلاق و تمدّن و معاش و معاد کے علاوہ عشقیہ مضامین بھی اس میں موزوں کیے جا سکتے ہیں ،بشرطیکہ ایسے مضامین پست خیالی کے عیب سے پاک متصور ہوں۔“
اُن کی باقی شاعری کی طرح راز کی رباعی گوئی بھی تقریباً تمام کی تمام ان کے داخلی جذبات و محسوسات کی پروردہ ہے۔ عشق ومحبت، تدبیر و تقدیر، غربت کی شکایت، وحدت و کثرت، زندگی کی بے ثباتی، فطرت کی ہمہ گیری وغیرہ ،جس موضوع پر بھی انہوں نے دادِ سخن دی ہے ،اس میں جذبہ کی سچائی اور داخلیت کی کارفرمائی صاف نظرآتی ہے۔ چونکہ وہ فنِ عروض سے بخوبی واقف تھے، ان کی رباعیاں فنی اعتبار سے تنقید سے بالاتر ہیں اور اپنے دلچسپ طرزِ بیان، سادگی اور گُھلاوٹ سے ذہن پر اچھا اثر چھوڑتی ہیں۔ راز نے اپنی رباعی گوئی کو انتخابِ مضامین کے ضمن میں زیادہ وسیع نہیں رکھا ہے اور محدود موضوعات پر ہی طبع آزمائی کی ہے۔
اس سے پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ راز فطرت اور اس کی ہمہ گیری کے پرستار ہیں۔ وہ فطرت کی بوقلمونی میں وحدت کی روح جاری و ساری جانتے ہیں۔ اپنے اس طرزِ فکر کو وہ غزل، نظم اور رباعی میں یکساں خلوص اور صفائی سے پیش کرتے ہیں گویا یہ خیال صرف ایک شاعرانہ بات نہیں ہے بلکہ وہ اس کی صداقت کے دل سے قائل ہیں اور انہیں اسے دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کو ئی عذر نہیں ہیں:
ہر سازِ سخن ہے پردہ دارِ صد راز
ہر پردۂ ساز میں ہے تیری آواز
اے مطربِ خوشنوائے بزمِ معنی
پردہ پردہ میں تو ہے نغمہ پرداز
کعبہ دیکھا، شرار خانہ دیکھا
دنیا کا ہر ایک کارخانہ دیکھا
ہر ایک مکاں میں ترے جلوے دیکھے
ہر ایک تیرا نگار خانہ دیکھا
اگر چشمِ دل وَا ہو تو صبح اور شام کی وہ قدرتی آمد و شد جس کی جانب انسان آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ہے، خالقِ کائنات کی ربوبیت اور عظمت کے عرفان کی چنگاری دلوں میں مشتعل کر سکتی ہے :
تشریقِ جمال صبحِ عشرت دیکھی
تنویرِ سواد شامِ راحت دیکھی
اک روز میں دو کرشمہ ہائے دلکش
اے شاہدِ کُل تیری کرامت دیکھی

اور جو اپنے چاروں طرف اس ہمہ گیر ربوبیت کی کرشمہ سازیاں دیکھنے سے معذور ہیں، ان کی حالت پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے :
گل ہائے نظر نواز خنداں دیکھے
فطرت کے ہزار راز عریاں دیکھے
فردوسِ جہاں کی ہر روش پر میں نے
محمود نما ایاز حیراں دیکھے
راز بایں ہمہ توصیف و تشکر، خود کو حرفِ شکات لب پر لانے سے روک نہیں سکے ہیں۔ دنیا میں قانونِ فطرت کی تعمیل میں بہر کیف حسن کے ساتھ بدصورتی، نیکی کے ساتھ برائی اور امیری کے ساتھ غریبی ہے۔ اس کی مصلحت کو پوری طرح سمجھنا انسان کے لئے ممکن نہیں ہے اور اگر کوئی شخص رنج و آلام اور ابتلائے زمانہ کا شکار ہی رہا ہو تو اس کے لبوں پر حرفِ شکایت کا آ جانا حیرت کا مقام نہیں ہے :
اک بات تھی بے نقاب کر دی تو نے
برباد سب آب و تاب کر دی تو نے
افسوس! کہ اس میں رنگِ غربت بھرکر
تصویرِ جہاں خراب کر دی تو نے
پھر بھی راز ایک حرفِ شکایت کو اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ وہ انہیں اس راہ سے ہٹا دے جس پر ان کا وجدان انہیں عمر بھر چلاتا رہا ہے :
دیوانۂ حسنِ بے ریائی ہوں میں
پروانۂشمعِ آشنائی ہوں میں
خود دار ہوں، خودار یقینا اے راز
آئینۂ روئے حق نمائی ہوں میں

چنانچہ فوراً ہی سنبھل کر ان کا حیرت کدۂ عالم کا مشاہدہ کرنا اور حیرت و تعجب سے یوں کہنا ایک فطری بات ہے :
کچھ حسن کی تنویر نظر آتی ہے
کچھ عشق کی تاثیر نظر آتی ہے
دنیاہے کہ بُت خانۂ آذر اے راز
جو چیز ہے تصویر نظر آتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
انہیں اس کا بھی احساس و علم ہے کہ ”بُت خانۂ آذر“ کی یہ بے شمار تصاویر دراصل ایک ہی حقیقت کا پرتو ہیں۔ ان کی صدرنگی ایک ہی رنگ سے مستعار ہے۔ وہ اس جہانِ رنگ و بو کو حیرت و مسرت سے دیکھتے ہیں، مگر ان کی نظر اس کی بوقلمونی کی حقیقت سے خوب واقف ہے :
یہ باغِ جہاں، یہ لالہ زارِ کثرت
یہ محفلِ نازِ شاہدانِ فطرت
ظاہر میں تو اک جہان ِ رنگ و بو ہے
باطن میں مگر ہے بوستانِ وحدت

چنانچہ انہیں اپنی حق شناسی پر پورا اعتماد ہے :

بیکار ہر اک قیاس ہو جائے گا
مجروح ہر التباس ہو جائے گا
اٹھے گا نظر سے جب حجابِ باطل
اے راز تو حق شناس ہو جائے گا

البتہ انہیں اس کا یقین نہیں تھا کہ دنیا ان کی اس حق شناسی اور حق پرستی کی قرار واقعی داد دے گی۔ دنیا اور دنیاداری سے ان کی بیزاری اور گوشہ نشینی کی جانب پچھلے صفحات میں اشارہ کیا جا چکاہے اور ان کے اسباب کا ذکر بھی ہو چکا ہے۔ ہر شخص کو دنیا میں گزر کرنے کے لئے اہلِ دنیا سے کچھ نہ کچھ تو ربط و ضبط رکھنا ہی پڑتا ہے ا ور بہت دنیا داری بھی کرنی ہوتی ہے۔ البتہ دنیا سازی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ راز کی عزلت گزینی اور دنیا سے دل برداشتگی ان کی طبیعت کا تقاضہ تھی۔ اس میں کبر و نخوت یا کسی احساسِ برتری کا دخل ہرگز نہیں تھا۔ اخلاق اور مروّت ان کی طبیعت اور تہذیب کا حصّہ تھے اور وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ البتہ سکون انہیں تنہائی اور گوشہ نشینی میں ہی ملتا تھا۔ اس میں ان کی زندگی کی واماندگیوں کو بڑا دخل تھا۔ دنیا نے ان کی خاموشی کو کچھ اور ہی معنی پہنائے تھے۔ اس کا راز کو احساس تھا، مگر چونکہ ان کا دل بالکل صاف تھا وہ اس ضمن میں بالکل مطمئن تھے۔دنیا اور اس کی بے ثباتی پر انہوں نے کہا ہے کہ :

دنیا پہ تو اپنا دل نہ شیدا کر
بے جا خواہش نہ دل میں پیدا کر
زنہار ا گرہے پاسِ ایماں تجھ کو
بت خانۂ دہر میں نہ سجدا کر
ہر گل ہے فریب کار، توبہ توبہ
عیّار و ستم شعار، توبہ توبہ
کیوں باغِ جہاں سے ہو نہ دل کو وحشت
ہے رشکِ خزاں، بہار توبہ توبہ
دنیائے دنی سے ہے محبت تجھ کو
افکار سے کس طرح ہو فرصت تجھ کو
بیکار ہے جستجوئے راحت اے راز
دوزخ میں کہاں ملے گی جنّت تجھ کو

اور دنیا کی انگشت نمائی پر یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دل کو سمجھایا کہ :

دنیا یہ سمجھتی ہے کہ مغرور ہوں میں
مے خاۂ ہستی سے بہت دور ہوں میں
اب کون بتائے راز اس کافر کو
صہبائے خدا ساز سے مخمور ہیں میں
آزادِ قیودِ بزمِ ہستی ہوں میں
پابندِ اصولِ حق پرستی ہوں میں
ظاہر میں شکستہ حال و دل ہوں لیکن
جو رشکِ عروج ہے وہ پستی ہوں میں

لیکن گاہے گاہے وہ دنیا میں اہلِ دل کی کمی سے الجھ کر زبانِ قلم پر حرفِ شکایت بھی لے آتے ہیں اور اس سے اور اس کے بندھنوں سے اپنے منفرد انداز میں آزادی کا اعلان کرتے ہیں :

دنیا کہتی ہے یہ کہ تو ہے مجھ سے
واللہ عجیب گفتگو ہے مجھ سے
معلوم نہیں ہے راز اس کو شاید
گلزارِ جہاں میں رنگ و بو ہے مجھ سے

دراصل راز کو زندگی اور اس کی آزمائشوں نے جو سبق پڑھایا تھا اور جس سبق کو ان کے تصوف کی تربیت اور ریاض نے جِلا دی تھی، اس نے انہیں ایک نئی دنیا سے معتارف کرا دیا تھا جہاں ہوس اور خودنمائی کا گزر نہیں ہے ، جو حق نیوشی کی روشنی سے منور ہے اور جہاں پہنچ کر من و تو کا فرق مٹ جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی پہنائیوں میں جو لطف آتا تھا، اس کے سامنے اس دنیا کی وقعت بہت کم تھی۔ درج ذیل چار رباعیوں میں انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے :

رونق دہِ بزمِ نازِ دنیا تو ہے
شیدائے جمالِ شمعِ عقبیٰ تو ہے
کیا دیدِ رُخِ حبیب ہو گی اے راز
بیگانۂ جلوہ ہائے معنیٰ تو ہے
جب سرد یہ جوش آز ہو جائے گا
وا، دیدۂ امتیاز ہو جائے گا
آئے گا نظر جمالِ معنیٰ ہر سو
دنیا سے تو بے نیاز ہو جائے گا
جب سارا جہانِ راز سو جاتا ہے
اک عالم بے خودی میں کھو جاتا ہے
ہوتا ہے نیاز اس سے حاصل مجھ کو
بیدار میرا نصیب ہو جاتا ہے
جب حسنِ نظر سے ساز ہو جائے گا
آئینۂ حق، مجاز ہو جائے گا
اُٹھ جائے گا پردۂ دوئی آنکھوں سے
حاصل اس سے نیاز ہو جائے گا

وہ یہ سادہ اور مختصر ساپیام بار بار دُہراتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ خود اعتمادی اور خودداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، محبت میں دنیا کے سارمے امراض کا علاج مخفی ہے اور خودپرستی کی بجائے خداپرستی میں سکون اور اطمینانِ دل کا راز پنہاں ہے اور اس راہ میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو حسنِ عمل اور نیک نیتی پر یقین رکھتا ہو:

ہنگامۂ سوز و ساز برپا کر دے
نذرِ آتش، خیالِ بے جا کر دے
دُنیا میں اگر ہے جستجوئے راحت
وقفِ غمِ عشق، فکرِ دنیا کر دے
شیدائے خودی و خود پرستی کیوں ہے
پابندِ طریقِ بزمِ ہستی کیوں ہے
اُٹھ، توڑ یہ قید و بندِ لا یعنی تو
انساں ہو کر اسیرِ پستی کیوں ہے
بگڑی ہوئی اپنی خود بنانا اچّھا
احساں ہے کسی کا کب اُٹھانا اچّھا
احساں سے جو ملے حیاتِ جاوید
اُس زیست سے موت کا ہے آنا اچّھا
اس لئے وہ یوں دُعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہیں کہ :
وا عقدۂ بود و ہست کر دے ساقی
دنیا کو خدا پرست کر دے ساقی
صوفی، میکش، فقیر، مومن، کافر
سب کو ہاں سب کو مست کر دے ساقی
دیوانۂ حسنِ یار کر دے مجھ کو
بیگانۂ روزگار کر دے مجھ کو
بیکار ہے بحثِ کفر و ایماں ساقی
مخمورِ مئے بہار کر دے مجھ کو

امید ہے کہ یہ دُعا رائیگاں نہیں جائے گی کیونکہ یہ اُن کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ہے اور
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
اختتامیہ

راز کی شاعری نہ صرف متنوع اور دلکش ہے، بلکہ منفرد بھی۔ ان کی غزلوں کی لطافتِ بیان، نفاست، سلیۂ اظہار، لہجہ کا رکھ رکھاؤ اور حلاوت دل کے ساز پر مضراب کا کام کرتی ہے۔ ان کی منظومات میں مقصدیت، انتخابِ الفاظ اور زبان و بیان کی صد رنگی نہایت دلکش اور پُر اثر ہے۔ انہوں نے غزلیات ، منظومات و رباعیات میں راہِ عام سے ہٹ کر اپنے منفرد انداز میں دادِ سخن گوئی دی ہے اور ان کی یہ کوشش جذبہ کی صداقت اور اظہارِ خیال کے خلوص کی وجہ سے کہیں بھی مصنوعی نہیں معلوم ہوتی، بلکہ اپنے تاثر اور دلپذیری میں یکتا ہے۔
راز نے گلشنِ اردو کو اپنی شعر گوئی کے ذریعہ بے شمار نہایت خوبصورت پھول دیے ہیں۔ اگر کسی سطح پر دنیائے اردو میں کوئی ایسا پروگرام یا ادارہ ہوتا جو ماض • قریب و بعید کے صاحبِ طرز ادبا و شعراءکو ”دریافت“کر کے دلدادگانِ شعر و ادب کے سامنے پیش کرتا تو نہ معلوم راز (مرحوم) کی طرح اور کتنے شعراءاپنے فن سے اردو کو مالا مال کر جاتے۔ اردو کی زبوں حالی اور اربابِ اردو کی تاریخی بے حسی کے پیشِ نظر ایسی امید حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہو جب اہلِ اردو تذکروں کی شکل میں ہی اس کام کے لئے تیار ہو جائیں۔
یہ مختصر مطالعہ اُردو دنیا کو راز چاندپوری سے دوبارہ متعارف کرانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ راز کی شعرگوئی نہ صرف ان کے دلی جذبات کا پُرخلوص اظہار ہے ،بلکہ ان کی اس عقیدت پر دال بھی ہے جو ان کو اہلِ دل سے تھی۔
راز اہلِ دل سے اب تک یہ عقیدت ہے مجھے
شعر کے پردے میں حالِ دل کہے جاتا ہوں میں
مایوس نہیں ہوں میں ابھی اہلِ چمن سے
مانا کہ کوئی میرا ہم آواز نہیں ہے
 

الف عین

لائبریرین
سراپا سوز ہوں میں، ہم نوائے سازِ فطرت ہوں
تعجب ہے مری آواز پہچانی نہیں جاتی

(راز)
 

الف عین

لائبریرین
رِندوں کو اس قدر تری رحمت پہ ناز تھا
توبہ نہ کی اگرچہ درِ توبہ باز تھا
بیخود تمام عمر رہا بے پئے ہوئے
مستِ نگاہِ ناز بڑا پاکباز تھا
اب کیا بتاؤں لذّتِ دیدارِ ہم نشیں
اتنی خبر ہے بس، کہ وہ جلوہ طراز تھا
سچ پوچھئے تو دن تھے وہی حاصلِ حیات
جب دل رہینِ لذّتِ سوز و گداز تھا
اچھا ہوا کہ کوئی نہ مطلب سمجھ سکا
راز غریب محوِ نواہائے راز تھا
 

الف عین

لائبریرین
O

دہر میں اہلِ نظر کو چین کب حاصل ہوا
برق اُدھر چمکی، اِدھر بیتاب میرا دل ہوا
اوّل اوّل عشق میں اک بیخودی طاری رہی
رفتہ رفتہ پھر قیامت خیز سازِ دل ہوا
وہ مری آہ و بُکا تھی خام کاری کی دلیل
ہو گیا خاموش ذوقِ عشق جب کامل ہوا
بحرِ ہستی بھی تھا شاید اک سرابِ آرزو
جتنا میں آگے بڑھا، دور اُتنا ہی ساحل ہوا
راز جب افکارِ دنیا سے ذرا فرصت ملی
طائرِ تخئیل سوئے لامکاں مائل ہوا
 

الف عین

لائبریرین
O

سُنے گا دردِ دل کی داستاں کیا
بنے گا کوئی میرا رازداں کیا
کرے گا دشمنی اب آسماں کیا
مٹائے گا مجھے دورِ زماں کیا
لگی ہے آگ دل میں، تشنہ لب ہوں
علاج اس کا ہے اے پیرِ مغاں کیا
حقیقت کھل گئی ہے آرزو کی
میں اب ہوں گا کسی سے بدگماں کیا
زمانہ کم نظر ہے، عیب بیں ہے
نظر والا نہیں کوئی یہاں کیا
یہ عالم اور یہ غفلت، خدارا
نئے سر سے تو ہو گا پھر جواں کیا
میں پروانہ ہوں شمعِ لامکاں کا
بنوں گا گرمئ بزمِ جہاں کیا
میں نغمہ سنجِ حسنِ زندگی ہوں
کوئی ہے راز میرا ہم زباں کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
O

نظر نواز ہر اک سمت حسن یار ہوا
نگاہِ شوق پہ اب مجھ کو اعتبار ہوا
ضیائے حسن نے روشن کیا نگاہوں کو
میں آج شاہدِ معنی سے ہمکنار ہوا
بہارِ گلشنِ ہستی تھی دید کے قابل
مری نگاہ کو لیکن نہ اعتبار ہوا
اب اپنے حسنِ نظر کا کرے نہ کیوں ماتم
وہ کم نگاہ جو شرمندۂ بہار ہوا
یہ رازِ حسن و محبت ہے کیا کہوں اے راز
حریفِ دردِ جدائی خیالِ یار ہوا
 

الف عین

لائبریرین
O

سبب نہ پوچھئے دنیا سے بے نیازی کا
نیاز مند ہوں فطرت کی دل نوازی کا
غلط، غلط، کہ میں اتنا تو کم نگاہ نہیں
کہ دیکھوں حسن، رُخِ شاہدِ مجازی کا
ابھی تو ذوقِ ہوس بھی ہے تشنۂ تکمیل
بڑی ہے بات، نہ لے نام عشق بازی کا
جمالِ روئے حقیقت نظر نواز ہوا
کمال دیکھئے ذوقِ نظارہ بازی کا
زمانہ کہتا ہے بے باک، کیا کروں اے راز
سبق پڑھا نہیں میں نے زمانہ سازی کا
 

الف عین

لائبریرین
O

کچھ ایسے لحن سے مطرب نوا فروش ہوا
کہ سازِ قلب کا ہر تار نغمہ کوش ہوا
نگاہِ ساقئ· میکش نواز ، کیا کہنا
کہ ایک جام میں ٹھنڈا خودی کا جوش ہوا
فرازِ عرش سے آوازِ مرحبا آئی
جب آستانِ محبت پہ سجدہ کوش ہوا
کمالِ بادہ پرستی اسی کو کہتے ہیں
کہ جرعہ نوشِ محبت بھی مے فروش ہوا
خمارِ بادۂ ہستی ، ارے معاذ اللہ
خدا کا شکر کہ اب راز حق نیوش ہوا
 

الف عین

لائبریرین
O

طریقِ عشق میں جو خستہ و خراب ہوا
وہ اپنے مقصدِ ہستی میں کامیاب ہوا
نگاہِ شوق کو جب حد کا اضطراب ہوا
جمالِ شاہدِ مقصود بے نقاب ہوا
ضیائے شمعِ حقیقت، کمالِ جلوہ گری
کہ بزمِ دہر کا ہر جلوہ آفتاب ہوا
گناہگارِ محبت، گناہگارِ وفا
گناہ کر کے نہ شرمندۂ حساب ہوا
ہمیشہ حدِّ ادب کو نگاہ میں رکھا
رہِ طلب میں نہ میں خستہ و خراب ہوا
حریفِ راہِ محبت پہ رحمتیں ہوں مدام
غریب، پہلی ہی منزل میں کامیاب ہوا
ہٹا نہ راز کبھی مرکزِ محبت سے
ہزار بار زمانہ میں اِنقلاب ہوا
 

الف عین

لائبریرین
O

وہ حیراں نہ ہو گا، پریشاں نہ ہو گا
جو ممنونِ الطافِ یاراں نہ ہو گا
یہ فطرت ہے، مغرور کافر کی فطرت
مسلمان ہو کر بھی انساں نہ ہو گا
ہوس سے امیدِ محبت ہے بے جا
کہ شعلہ کبھی برقِ جولاں نہ ہو گا
یہ فصلِ بہار اور خوش کیف منظر
تو کیا آج توبہ پہ احساں نہ ہو گا
غنیمت ہے ، یہ دَورِ رنگیں غنیمت
نہ ہو گا، کبھی پھر یہ ساماں نہ ہو گا
حریفانِ خوش خواں ہیں محوِ ترنّم
تو کیا رازِ حق گو غزل خواں نہ ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
O

بڑا کرم، ترے قرباں، نگاہِ ناز کیا
نیاز مند کو دنیا سے بے نیاز کیا
یہ احترام حقیقت، یہ پاسِ اہلِ نظر
کہ کم نگاہ کو سرگشتۂ مجاز کیا
خرد، کہ حسنِ تخیل پر اپنے نازاں تھی
جنابِ عشق نے منّت کشِ نیاز کیا
ہمیشہ شاہدِ تسلیم کی پرستش کی
کبھی نہ دامنِ امید کو دراز کیا
نگاہِ ساقئ رعنا کا لطفِ خاص اے راز
کہ اہلِ ذوق کو ہمرازِ سوز و ساز کیا
 

الف عین

لائبریرین
O

حسن کیا چیز ہے ، محبت کیا
خواب ہے ، خواب کی حقیقت کیا
منقلب ہو رہا ہے نظمِ جہاں
اور بھی ہو گی اب قیامت کیا
خود پرستی ہے ، خود نوازی ہے
اُٹھ گئی رسمِ مہر و اُلفت کیا
اک فریبِ خیال ہیں دونوں
حسنِ اخلاق کیا ، مروّت کیا
ہے نظر میں جمالِ صبحِ وطن
روح پرور ہو شامِ غُربت کیا
اہلِ دل ہیں یہاں نہ اہلِ نظر
نکتہ سنجی کی ہے ضرورت کیا
راز سب سے ہوا ہے بیگانہ
کھل گئی دہر کی حقیقت کیا
 
Top