باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O

کس نے برباد کیا ، کون تھا دشمن میرا
آہ وہ مایۂ امید ، وہ گلشن میرا
کس نے گل چیں کو دیا میرے گلستاں کا پتہ
ہم صفیروں میں نہ تھا کوئی بھی دشمن میرا
خارِ حسرت ہی سہی ، برگِ تمنّا نہ سہی
شکر، صد شکر، کہ خالی نہیں دامن میرا
اس کی ویرانی کا باعث ہے مری پابندی
میں ہوں آزاد تو آباد ہو گلشن میرا
بادۂ عشق سے ناپاک ہے تو رہنے دو
گردِ دنیا سے مگر پاک ہے دامن میرا
میری تقدیر میں تھا فا ئزِ منزل ہونا
اپنی تدبیر کو رویا کرے رہزن میرا
اپنے کردار پہ پڑتی نہیں ظالم کی نظر
شیخ کہتا ہے کہ دشمن ہے برہمن میرا
فطرتِ اہلِ جہاں کو ہے سمجھنا مشکل
دوست، دشمن ہے مرا-دوست ہے دشمن میرا
حیف یہ اہلِ چمن اور یہ اغماض اے راز
کیا کہوں، کون ہوں، کس جا تھا نشیمن میرا
 

الف عین

لائبریرین
O

تماشہ تھا مری نظروں کا تا حدّ نظر جانا
قیامت بن گیا، حدّنظر سے پھر گزر جانا
قیامت اور کیا ہو گی، قیامت ہے یہی شاید
بہ یک گردش نظامِ بزمِ عالم کا بکھر جانا
نقوشِ کاروانِ زندگی معدوم ہیں یکسر
عجب اک سانحہ ہے بے جرس اس کا گزر جانا
زمانہ بے دلیلِ راہ آگے بڑھ نہیں سکتا
خلافِ مصلحت ہے خضر منزل کا ٹھہر جانا
خودی و بیخودی میں صرف اتنا سا تفاوت ہے
یہاں پر با خبر رہنا، یہاں سے بے خبر جانا
یہ مانا میں نے ،ذوقِ دید سے مجبور ہے لیکن
نگاہِ شوق کا اچھا نہیں حد سے گزر جانا
مری تدبیر بے معنی، مرا حسنِ عمل توبہ
مشیت ہی کو تھا منظور قسمت کا سنور جانا
کرشمہ ہے فقط اہلِ وطن کی خوش نگاہی کا
پرستارِ وطن کا دشتِ غربت میں ٹھہر جانا
ضرورت ہے، ضرورت سے ہر اک مجبور ہوتا ہے
خلافِ مصلحت ہے گو خلافِ راہبر جانا
مری خوددار فطرت کو گوارا ہو نہیں سکتا
حریفِ بے ہنر ہونا، حضورِ کم نظر جانا
بہت گستاخ ہوں بےباک ہوں، اے راز میں لیکن
ادب آموزِ محفل ہے، مرا حد سے گزر جانا
 

الف عین

لائبریرین
O

کیا کہا بے نیاز ہے شاید
حسن سرگرم ناز ہے شاید
دل بھی خرّم ہے، روح بھی شاداں
سوزِ پنہاں میں ساز ہے شاید
اور کیا ہو گی وجہِ خاموشی
خوفِ افشائے راز ہے شاید
ایک مدّت سے جادہ پیما ہوں
راہِ الفت دراز ہے شاید
عشق کہتی ہے جس کو ایک دنیا
بادۂ دل گداز ہے شاید
حسن خود بیں ہے، عشق ہے خوددار
یہ بھی ناز و نیاز ہے شاید
پاسِ انفاس اور اس کا خیال
بس یہی تو نماز ہے شاید
شکوۂ جورِ حسن، اے توبہ
مدعی عشق باز ہے شاید
واعظِ شہر اور حق گوئی
اس میں تو کوئی راز ہے شاید
مفتئ· خوش مذاق کا فتویٰ
مے کشی کا جواز ہے شاید
بادۂ عشق اور یہ پرہیز
سخت بدکیش راز ہے شاید
 

الف عین

لائبریرین
O
نامرادی و پُرسشِ احباب
زندگی ہو گئی ہے اک عذاب
ہو گیا سازِ قلب پھر گویا
شکر، صد شکر، اے نگاہِ عتاب
وحدہ لا شریک لہ گویم
میں نہیں جانتا حساب و کتاب
منصفی ، اے نگاہِ نکتہ چیں
دیکھ پہلے خود اپنے عیب و صواب
کوئی کہہ دے یہ راز میکش سے
دَور میں آ گیا ہے پھر مہتاب
 

الف عین

لائبریرین
O

کامیابی کی کیجئے تدبیر
بس یہی ہے نوشتۂ تقدیر
کیا نرالا ہے دہر کا دستور
مجرمِ عشق، لائقِ تعزیر
باوفا ہوں، یہ ہے قصور مرا
بے خطا ہوں، یہ ہے مری تقصیر
کیا یہ کوئی ہے آئنہ خانہ
بزمِ ہستی ہے عالمِ تصویر
کوئی پہچانتا ہے کیا اس کو
غالباً ہے یہ راز کی تصویر
 

الف عین

لائبریرین
O

بظاہر راہرو بن کر، بباطن رہنما ہو کر
رہا میں ساتھ دنیا کے حقیقت آشنا ہو کر
یہ جلوہ، جلوۂ رنگیں! یہ صورت، صورتِ زیبا
کوئی دنیا کو کیا دیکھے گا تجھ سے آشنا ہو کر
یہ مانا اہلِ عالم کی ریاکاری مسلّم ہے
مگر کیا تم بھی ملتے ہو کسی سے بے ریا ہو کر
نہ وہ دنیا نظر میں ہے، نہ وہ دنیا کی رنگینی
خدا معلوم کس عالم میںہوں تجھ سے جدا ہو کر
یہ طرزِ شعرخوانی، رحم کر اربابِ محفل پر
تجھے کیا ہو گیا اے راز آخر خوشنوا ہو کر
 

الف عین

لائبریرین
O
بہار اور یہ رنگینئ· ادائے بہار!
کسی کے حسن کا آئینہ ہے فضائے بہار
بہت لطیف ہے، پُرکیف ہے فضائے بہار
نگاہِ نرگسِ بد بیں میں خاکِ پائے بہار
خبر ہے کچھ تجھے اس کی بھی اے خدائے بہار
کہ اک غریب ہے منّت کشِ جفائے بہار
یہ حسنِ سروسمن، یہ شبابِ لالہ و گل
الٰہی خیر، کہ سرمست ہے ہوائے بہار
فریب خوردۂ رنگِ چمن کوئی ہو گا
مری نگاہ میں ہے جلوۂ خدائے بہار
گلہ فضول ہے گل چیں کی کم نگاہی کا
کہ باغباں ہی نہیں رمزِ آشنائے بہار
بنامِ نرگسِ شہلا، بجانِ تشنہ لبی
ادھر بھی اک نگہِ لطف اے خدائے بہار
خموش راز! یہ اندازِ گفتگو ، توبہ
کہاں ہے ساقئ· رعنا و خو شنوائے بہار؟
 

الف عین

لائبریرین
O
تعزیرِ جنوں ممکن، تعزیر سے کیا حاصل
آزادِ دو عالم ہوں، زنجیر سے کیا حاصل
انجامِ تمنّا کی تفسیر سے کیا حاصل
اک خوابِ پریشاں کی تعبیر سے کیا حاصل
دیوانہ سہی لیکن دیوانۂ اُلفت ہوں
پابندِ محبت ہوں، زنجیر سے کیا حاصل
بیکار ہے ہر شورش، بیکار ہے ہر کاوش
ہونا ہے جو کچھ ہو گا، تدبیر سے کیا حاصل
ناکامئ· قسمت کا اے راز ہے کیوں شکوہ
دلدارئ· فطرت کی تشہیر سے کیا حاصل
 

الف عین

لائبریرین
O
لاکھ ہوں وقفِ بیخودی میکدۂ مجاز میں
روح مری ہے جبّہ سا بارگۂ نیاز میں
میرے مرض کا تھا علاج اس کی نگاہِ ناز میں
لکھی ہوئی تھیں گردشیں قسمتِ چارہ ساز میں
کون یہ مٹ کے رہ گیا کون یہ خوش نصیب تھا
نقشِ قدم کسی کے ہیں رہ گزرِ نیاز میں
میری نگاہِ شوق بھی کتنی ادا شناس ہے
لیتی ہے درسِ زندگی مدرسۂ مجاز میں
کہتا ہوں آج برملا، راز میں قصّۂ وفا
ہے کوئی درد آشنا محفلِ سوز و ساز میں
 

الف عین

لائبریرین
O
عبث ہے فکرِ یکسوئی جہاں میں
زمانہ مبتلا ہے این و آں میں
ازل میں تفرقہ ایسا پڑا تھا
ابھی تک ہوں تلاشِ کارواں میں
سُنیں، جو اہلِ دل ہوں سُننے والے
بیاں کرتا ہوں کچھ اپنی زباں میں
فریبندہ ہیں، جتنے ہیں مناظر
لگا دو آگ اب بزمِ جہاں میں
سُنائے جاؤ راز اپنی کہانی
کوئی خوش گو نہیں اب کارواں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
فریب خوردۂ امیدِ ناروا ہوں میں
تخیّلات کی دنیا میں کھو گیا ہوں میں
میں کیا بتاؤں کہ ہوں کون اور کیاہوں میں
کمالِ حسنِ خود آرا کا آئنا ہوں میں
تلاش میں ہوں کسی کی ازل سے سرگرداں
کوئی بتائے مجھے، کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
حریفِ اہلِ نظر ہوں، نگاہ والا ہوں
تری نگاہ سرِ بزم دیکھتا ہوں میں
حسین کوئی نہیں اس نگار خانے میں
مری نگاہ یہ کہتی ہے حسن زا ہوں میں
حریفِ راہِ محبت کو مژدۂ منزل
کہ راہ و رسمِ منازل سے آشنا ہوں میں
مرے کلام میں مضمر ہے زندگی اے راز
رموزِ حسن و محبت سے آشنا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
کنجِ عزلت سے زیادہ کہیں آرام نہیں
یہ وہ دنیا ہے جہاں صبح نہیں شام نہیں
میری تقدیر، اسیرِ غمِ ایام ہوں میں
اس میں کچھ شا ئبۂ گردشِ ایام نہیں
آرزوؤں نے پریشان بنا رکّھا ہے
جسم آرام میں ہے، روح کو آرام نہیں
میری ناکامئ تدبیر پہ ہنسنے والے
اور تو کیا کہوں، ناکام ہوں، خودکام نہیں
کیا حسیں اور نہیں کوئی زمانہ بھر میں
لیکن اے دوست مرا حسنِ نظر عام نہیں
دیکھ لیتا ہوں جہاں بھی تو نظر آتا ہے
شکر، صد شکر، کہ سرگشتۂ اوہام نہیں
راز کیا یاد نہیں تجھ کو وہ پیمانِ ازل
حیف! عشّاق کے دفتر میں ترا نام نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
سوزِ پنہاں میں رنگِ ساز نہیں
بے خبر تو نگاہِ ناز نہیں؟
رنگِ بزمِ جہاں، معاذ اللہ
کوئی حق بین و حق نواز نہیں
جس کو کہتے ہیں شاہدِ عالم
اس سے حاصل مجھے نیاز نہیں
آشنائے جمالِ معنی ہوں
خوش نگاہی پہ مجھ کو ناز نہیں
راز دنیا سے بے نیاز توہے
اہلِ دل سے وہ بے نیاز نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
کیا تماشا ہے، کسی بات کا مقدور نہیں
اور پھر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجبور نہیں
خود لگا رکھی ہے یہ قیدِ تعیّن تو نے
ورنہ وہ کعبہ و بتخانہ میں محصور نہیں
وقتِ ہمّت ہے یہی، اے قدمِ شوق سنبھل
دیکھ وہ منزلِ مقصود ہے، کچھ دور نہیں
چل تو ہی حوصلہ کر، رسمِ کہن کر تازہ
ارنی گو کوئی اے راز سرِ طور نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
لذّتِ درد و کیفِ آہ نہیں
اب مجھے زندگی کی چاہ نہیں
جادہ پیمائے عرصۂ ہستی
دوربیں کیوں تری نگاہ نہیں
جو نہ جاتی ہو کوئے جاناں تک
مجھ کو معلوم ایسی راہ نہیں
ایک خواجہ کے سب ہیں حلقہ بدوش
ہم فقیروں میں کوئی شاہ نہیں
مسجدیں تو بہت ہیں دنیا میں
لیکن اے راز خانقاہ نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
خواہشِ عیش نہیں، فکرِ کم و بیش نہیں
مطمئن ہوں کہ کوئی مرحلہ درپیش نہیں
مے پرستانِ محبت ہیں ہوس کے بندے
کفر آبادِ جہاں میں کوئی حق کیش نہیں
نشۂ بادۂ ہستی سے ہے مخمور جہاں
میگسارانِ ازل عاقبت اندیش نہیں
کیف افزائے سکوں ہے مئے تسلیم و رضا
اب میں سرگشتۂ افکارِ کم و بیش نہیں
اہلِ دل ہیں نہ یہاں اہلِ نظر ہیں اے راز
حیف! اس بزم میں اپنا کوئی ہم کیش نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
چشمِ میکش نواز کے قرباں
نرگسِ سحر ساز کے قرباں
کھل گئی، کھل گئی گرہ دل کی
بادۂ جاں نواز کے قرباں
ناز بردار اب ہے نازِ حسن
اپنے حسنِ نیاز کے قرباں
قلبِ خوابیدہ ہو گیا بیدار
مطربِ سحر ساز کے قرباں
جس نے دنیا سے بے نیاز کیا
راز اس دلنواز کے قرباں



O
کافرِ الفتِ ساقی کوئی میخوار نہیں
حیف! ان بادہ پرستوں پہ کہ دیں دار نہیں
اہلِ محشر میں جو پرسش کا سزاوار نہیں
ایک میں تو ہوں، کوئی اور گنہگار نہیں
جتنے میکش ہیں، مئے ہوش کے متوالے ہیں
کیا خراباتِ جہاں میں کوئی ہشیار نہیں
آج بھی برقِ تجلّی ہے سرِ طور ، مگر
حوصلہ مند کوئی طالبِ دیدار نہیں
تو جو دشوار سمجھتا ہے رہِ الفت کو
تجھ کو دشوار ہے لیکن مجھے دشوار نہیں
قابلِ رحم ہے احباب کی حالت اے راز
مدعی سب ہیں مگر ایک بھی غمخوار نہیں
 

الف عین

لائبریرین
O
شریکِ دَورِ مئے ناب و خوشگوار ہوں میں
مُریدِ پیرِ خراباتِ روزگار ہوں میں
ہنوز منظرِ بزمِ ازل ہے پیشِ نظر
ہنوز شاہدِ معنی سے ہم کنار ہوں میں
ضیائے حسن سے معمور ہے فضائے جہاں
ہر ایک جلوہ یہ کہتا ہے شاہکار ہوں میں
شریکِ بزمِ محبت ہوں ایک مدّت سے
کسی امید پہ مصروفِ انتطار ہوں میں
اٹھا نقاب، دکھا اب جمالِ جاں پرور
فریب خوردۂ صد حسنِ رہ گزار ہوں میں
امینِ رازِ طلسمِ حیات ہوں اے راز
حریفِ شیوۂ اربابِ روزگار ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
O
وہ ایک لمحہ جو گزرا ہے بظاہر مے پرستی میں
وہی ہے حاصلِ عمرِ دوروزہ بزمِ ہستی میں
میں کافر ہوں، بہت اچھا، مگر اے زاہدِ حق بیں
کسی کی دید ہوتی ہے مجھے تو خود پرستی میں
محبت اک متاعِ بیش قیمت ہے، یقینا ہے
کوئی گاہک نہں اس کا مگر بازارِ ہستی میں
خدا کا نام لیتا ہے زمانہ، رسمِ دنیا ہے
مگر یادِ خدا آتی ہے اکثر تنگدستی میں
یہ شیخ و برہمن، یہ رہبرانِ کوئے خودبینی
کہاں سے آ گئے آخر یہ کافر بزمِ ہستی ہیں
جوازِ میکشی اچھا ملا، اے راز کیا کہنا
کہ خود پیرِ شریعت بھی ہے شامل مے پرستی میں
 

الف عین

لائبریرین
O
جب آہِ بے اثر کی تاثیر دیکھتا ہوں
تدبیرِ خود نما کی تقدیر دیکھتا ہوں
بُت خانۂ جہاں کی تقدیر، اللہ اللہ
تخریب دیکھتا ہوں، تعمیر دیکھتا ہوں
حسنِ نظر کا شاید کوئی فریب ہو گا
اُس کی نظر میں اپنی توقیر دیکھتا ہوں
پڑھتا ہوں جب کبھی میں افسانۂ محبت
قرآنِ زندگی کی تفسیر دیکھتا ہوں
یہ بزمِ شعر و حکمت، یہ مسندِ فضیلت !
میں راز بے ہنر کی تقدیر دیکھتا ہوں
 
Top