بادۂ کہن۔ مولوی احمد علی

الف عین

لائبریرین
نعتیہ کلام و نعتیہ غزل

برائے سالانہ مشاعرہ عید میلاد النبی
نعت (تضمین بر عبدالقادر بیدلؔ عظیم آبادی)


روزِ من گشت شب اے مہر درخشاں مددے
جاں بلب تشنہ ام اے چشمہ حیواں مددے
بخت برگشتہ ام اے خسرو دوراں مددے
سخت درماندہ ام اے قوت یزداں مددے
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
نیکیوں سے میں گریزاں ہوں خطاکار بھی ہوں
نفس و شیطاں کے فریبوں میں گرفتار بھی ہوں
دور جاری مئے غفلت کا ہے سرشار بھی ہوں
مگر آقا تری رحمت سے خبردار بھی ہوں
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
بد ہوں ایسا مری طاعت سے گنہ کو ہے عار
کیا عجب ہو مرے سجدوں سے زمیں بھی بیزار
دل پشیماں نہیں بیکار ہے سب استغفار
کیا کروں کس سے کہوں کون ہے میرا غمخوار
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
جانتا ہوں کہ برائی کا بُرا ہے انجام
پھر بھی دن رات مجھے عشرت و لذّت سے ہے کام
نہ رہا میرے لیے کوئی مقامِ آرام
گر نہ جائے کہیں دوزخ میں ترے گھر کا غلام
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
اس طرف ہیں دل و جہل و خرد بے پروا
اس طرف خواہش نفسِ و غضب و حرص و ہوا
چار سو گھیر چکی ہے مجھے فوجِ اعدا
وقت نازک ہے بہت جلد خبر لے مولیٰ
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
جلوہ فرما ہے عدالت میں شہِ عرشِ بریں
لے کے پہنچے ہیں شہید اپنا لباسِ رنگیں
نذر ہونے کو ہیں عشق و عمل صدق و یقیں
یہاں افسوس و ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
جان وہ جان ہے تھا جس میں قیام جاناں
جس طرح دیکھیے اک روضہ رضواں کا سماں
آندھیاں آئیں چمن ہوگیا دشتِ ویراں
آرزو یہ ہے کہ ہو جائے پھر آباد مکاں
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
کہتے احمد ہی مجھے بھی ہیں خواص اور عوام
اور میں اپنے ہی کاموں سے ہوں رسوائے انام
شرم کی بات ہے شاہا جو ہوئے پیش یہ کام
حکم فرما کہ مناسب ہوں عمل نامہ ونام
یا محمد بمن بے سرو ساماں مددے
قبلۂ دیں مددے کعبہ ایماں مددے
 

الف عین

لائبریرین
نعت

اعلیٰ ہوا جو آیا ادنیٰ تری گلی میں
نعمت ہے آخرت کی دنیا تری گلی میں
جانیں نثار کرنے خلقت کھڑی ہوئی ہے
اچھا لگا ہوا ہے میلہ تری گلی میں
کہتے ہیں جس کو جینا اُن کے نصیب میں تھا
جن کے نصیب میں تھا مرنا تری گلی میں
موسیٰ نے جو تماشہ تھا ایک بار دیکھا
اہلِ نظر نے اکثر دیکھا تری گلی میں
اُس کے قدم لیے ہیں منزل نے آپ آکر
چل پھر کے جو مسافر پہنچا تری گلی میں
عصیان و مغفرت کی داد و ستد ہے جاری
کیا خوب ہورہا ہے سودا تری گلی میں
سالک نے جس کی خاطر عالم کو چھان مارا
آخر سراغ اس کا پایا تری گلی میں
ذرّے نہیں ہوا میں اکسیر اڑ رہی ہے
کیونکر پلٹ نہ جائے کایا تری گلی میں
اللہ رے سیر چشمی تیرے بھکاریوں کی
پامال ہورہی ہے دنیا تری گلی میں
احمد علی کو دیکھا رہتا ہے ایک چکر
جانا تری گلی سے آنا تری گلی میں
***
 

الف عین

لائبریرین
نعت برائے مشاعرہ عید میلادالنبی
(منعقدہ ۱۲/ربیع الاول ۱۳۶۱ھ)

دکھایا ہوشیاری نے تماشہ روزِ محشر کا
جہاں طالب ہے تیرے میکدے سے ایک ساغر کا
جہاں صیقل سے شہپر جلوہ زارِ حسن بنتے ہیں
وہاں کیا جم کی ہستی اور کیا درجہ سکندر کا
ملے ہیں جان نثاری کے مزے اس کی عنایت سے
شہیدوں پر ترے احسان ہے دشمن کے خنجر کا
محمد نام سے کیسی محبت ہے کہ ساتھ اُس کے
رہے گا بھی رہا بھی غلغلہ اللہ اکبر کا
تمھارے حسن سے حسن ازل چمکا زمانے میں
نمایاں آئینے میں عکس ہے خوشید انور کا
رہے تیرا تصور ہو ترے در پر جبیں سائی
تمنا ہے یہی دل کی تقاضا ہے یہی سر کا
محمد کے غلام اللہ کے محبوب ہوتے ہیں
کھلا کرتا ہے سائل کی صدا سے قفل اس در کا
خدا شاہی میں یکتا بندگی میں آپ یکتا ہیں
عجب تدبیر سے پیدا کیا پہلو برابر کا
بنایا دل میں عرش کبریائی ایک اُمّی نے
کہاں تھا حوصلہ ناچیز قطرے میں سمندر کا
امید کامیابی ہے اسی نسبت سے وابستہ
غلام کمتریں احمد علی ہے آپ کے گھر کا
***
 

الف عین

لائبریرین
نعت برائے مشاعرہ عید میلادالنبی

(منعقدہ ۱۲/ ربیع الاول ۱۳۶۲ھ)


ہوا جو ہوا حسبِ رائے محمدؐ
خدا کی رضا ہے رضائے محمدؐ
سمجھ سے فزوں ہے ثنائے محمدؐ
کی تھی معجزہ ہر ادائے محمدؐ
اُسی دل میں اللہ کا گھر بھی دیکھا
نظر آئی جس دل میں جائے محمدؐ
یہاں بھی بچایا وہاں بھی بچایا
بہت کام آئی دعائے محمدؐ
کیا جس نے پتھر کو گوہر سے بہتر
وہ اکسیر تھی خاکِ پائے محمدؐ
نہ تھا جز خدا کوئی معراج کی شب
رہا راز ہی ماجرائے محمدؐ
یکایک ہوئی زندہ مردوں کی دنیا
پڑی کان میں جب صدائے محمدؐ
بیاباں خطرناک رستے ہزاروں
نہ چھوٹے کہیں نقشِ پائے محمدؐ
ملے تو نہ لے سلطنت دو جہاں کی
غنی کس قدر ہے گدائے محمدؐ
یہ نسبت سند مغفرت کی ہے گویا
ہمارا خدا ہے خدائے محمدؐ
تخیل نے پرواز کی انتہا تک
نہ پائی مگر ابتدائے محمدؐ
نہ چاہا پھر اس نے کہ دیکھے کسی کو
میسر جسے تھی بقائے محمدؐ
وہی قافلہ قصرِ جنت میں پہنچا
سنی جس نے بانگِ درائے محمدؐ
نہ دنیا کی پروا نہ عقبیٰ کی پروا
کہ دل ہوگیا مبتلائے محمدؐ
یہ سن کر ہوئی حشر والوں کو تسکیں
وہ آئے محمد وہ آئے محمدؐ
خدا کی خوشی خیرخواہی جہاں کی
نہ تھا اور کچھ مدعائے محمدؐ
وہ صحرا کو دیکھے تو بن جائے گلشن
نگاہوں میں جس کی سمائے محمدؐ
ہوا حکم اللہ کا سائلوں کو
دیا جائے گا جو دلائے محمدؐ
نظر ہو تو دیکھے سمجھ ہو تو سمجھے
کہیں کچھ نہیں ماسوائے محمدؐ
شب و روز بھیجو درود اُن پہ احمدؔ
کہ تحفہ یہی ہے برائے محمدؐ
 

الف عین

لائبریرین
نعت برائے مشاعرہ عید میلادالنبی
(منعقدہ ۱۲/ربیع الاول ۱۳۶۳ھ)

اللہ رے احسان فراوانِ محمدؐ
ایک شکر فراموش و ثنا خوانِ محمدؐ
کیا جانے کوئی حکمت و عرفانِ محمدؐ
یونان ہے ایک طفل دبستانِ محمدؐ
اللہ کی طاعت ہے محمدؐ کی اطاعت
اللہ کا فرمان ہے فرمانِ محمدؐ
مرغوب نہیں سدرہ و طوبیٰ کی زیارت
ہے مدِنظر سروِ خرامانِ محمدؐ
اک خضر کا محتاج ہے ظلمت کدۂ دہر
ہر جا ہے رواں چشمۂ حیوانِ محمدؐ
کیا کام یہاں بزدل و روباہ صفت کا
آباد ہے شیروں سے بنستانِ محمدؐ
محشر میں وہی بن گئے فردوس کی صورت
تھے پاؤں میں کچھ خارِ بیابانِ محمدؐ
آغاز تو لولاک لما سے ہے نمایاں
معلوم نہیں درجہ پایانِ محمدؐ
دنیا میں اجالا ہوا سینے کی ضیا سے
خورشید بہ دامن ہے گریبانِ محمدؐ
بنتے ہیں بگڑتے ہیں قوانین جہاں کے
بدلا نہ کوئی نقطہ فرقانِ محمدؐ
آرام کسی وقت نہ دن کو ہے نہ شب کو
سرگشتہ ہے برگشتہ فرمانِ محمدؐ
لیں سلطنتیں فقر و قناعت کو نہ چھوڑا
صدقے ترے اے ہمتِ مردانِ محمدؐ
مقبول ہوئی جس کی لجاجت سے دعا کی
دیکھی نہ گئی زلف پریشانِ محمدؐ
ناکام رہی کثرتِ اعدا کی شرارت
تائید الٰہی تھی نگہبانِ محمدؐ
ہر بات میں پوشیدہ ہدایت کے جواہر
گوہر تھا ہر اک قطرہ بارانِ محمدؐ
محبوب زلیخا ہیں جگر گوشۂ یعقوب
اللہ کے محبوب غلامانِ محمدؐ
محتاجِ رعایا ہیں سلاطینِ زمانہ
سردار زمانہ ہیں گدایانِ محمدؐ
پھیلی ہے وبا حرص کی دنیا ہے پریشاں
سب بھول گئے نسخۂ قرآنِ محمدؐ
خود کردہ تباہی سے مسلمان ہے نالاں
کیوں چھوڑ دیا گوشۂ دامانِ محمدؐ
دنیا کو سمجھتے نہیں یہ کاہ سے بہتر
آسودہ کچھ ایسے ہیں گدایانِ محمدؐ
رستے میں نہ رہ جائے کہیں بلبل ناداں
جنت سے کچھ آگے ہے گلستانِ محمدؐ
محروم ہے افلاک جبیں سائی در سے
اونچی ہے بہت کرسیِ ایوانِ محمدؐ
تاراج ہوئی سلطنتِ قیصر و کسریٰ
ٹھہرا نہ کوئی پیشِ غلامانِ محمدؐ
بندے بھی ہیں آئینہ آرائش بھی
چھپتی ہے چھپانے سے کہیں شانِ محمدؐ
ہے دفترِ ایمان و عمل کا یہی خاصہ
ہوجائیے سو جان سے قربانِ محمدؐ
دنیا سے غرض ان کو نہ عقبیٰ سے تعلق
اک دید کے طالب ہیں گدایانِ محمدؐ
ہر لحظہ سلام و صلوات اُن پہ ہو احمدؔ
بس ایک یہ سوغات ہے شایانِ محمدؐ
***
 

الف عین

لائبریرین
نعت برائے مشاعرہ عید میلادالنبی

(منعقدہ ۱۲/ربیع الاول ۱۳۶۵ھ)

(طرح: ملوں آنکھیں بنی کے آستاں سے)
جدا رہ کر نبی کے آستاں سے
جہاں محروم ہے امن و اماں سے
نبی کا وصف انساں کی زباں سے
نہیں ممکن کہ زائد ہے بیاں سے
محمد رحمۃٌ للعالمین ہیں
لقب کیا ملا وہ بھی کہاں سے
بلندی سبز گنبد کی تو دیکھو
مکاں یہ جا ملا ہے لامکاں سے
قمر تھے آپ اور اصحاب تارے
فروزاں تر زمیں تھی آسماں سے
جو دانا تھے ہوئے گرویدہ سن کر
کلام اللہ اُمّی کی زباں سے
رہا وہ دل میں جیسے دُر صدف میں
جو فرمایا لب گوہر فشاں سے
کبھی تنبیہ شاہانِ جہاں کو
کبھی نسبت فقیرِ ناتواں سے
دلوں کی سلطنت پر فتح پائی
مگر اخلاق سے شیریں بیاں سے
کمال عدل و راحت سے بنایا
موافق بھیڑیوں کو گلہ باں سے
اشاروں پر لگے قربان ہونے
کوئی واقف نہ تھا گنجِ نہاں سے
دکھائیں علم اور حکمت کی راہیں
خبر تھی کس کو اسرارِ نہاں سے
کیا ظاہر غرض آنے کی ہے کیا
کہاں جائیں گے آئے ہیں کہاں سے
طلب کا شوق صوفی کو دلایا
کیا آگاہ رمزِ کن فکاں سے
کھلا ہے رحمتِ عالم کا دربار
تمھیں جو چاہیے لے لو یہاں سے
سخی ایسے کہ سائل کی طلب پر
نہیں نکلی نہیں جن کی زباں سے
تمھارے باغ کی خادم بہاریں
کچھ اُن کو ڈر نہیں بادِ خزاں سے
توقع ہے نظر آؤ تمہی تم
اگر اٹھ جائیں پردے درمیاں سے
تمھاری قیدِ الفت میں گرفتار
ہوا آزاد قیدِ دوجہاں سے
محبت کے بڑے دعوے ہیں لیکن
ثبوت اپنا مخالف ہے یہاں سے
زمیں پر ہم نے چھوڑا در تمھارا
لگیں آنے بلائیں آسماں سے
بھٹکتے پھرتے ہیں صحرا میں بدبخت
جدا ہوکر تمھارے کارواں سے
آغشنی یا غیاث المستغثین
الم زائد ہوئے تاب و تواں سے
مسلمانوں کی جانیں مضطرب ہیں
تمھیں اے جانِ جاں لائیں کہاں سے
قیامت ہے قیامت ہے قیامت
جدائی جان کی آرام جاں سے
مسلماں پر ہے بارش بحر و بر کی
بچا لو فتنہِ آخر زماں سے
نہیں یہ شعر کچھ نشتر ہیں احمدؔ
لگے تھے دل میں نکلے ہیں زباں سے
 

الف عین

لائبریرین
نعت برائے مشاعرہ عید میلادالنبی

( ۱۲/ربیع الاول ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۵/فروری ۱۹۴۶ء)

مدینہ بن گیا جنت حریم مصطفی ہوکر
جہاں آتا ہے پیغامِ اجل بھی مرحبا ہوکر
پریشان حال تھی دنیا گرفتارِ بلا ہوکر
بنا دی آپ نے بگڑی ہوئی حاجت روا ہوکر
زمانے کو ادائے فرض کی تعلیم دینی تھی
اطاعت میں گزاری عمر محبوبِ خدا ہوکر
جہالت سے بنی آدمی کا بیڑا ڈوبنے کو تھا
بچایا آپ نے تشریف لاکر ناخدا ہوکر
لباسِ بندگی میں تھی نہاں شانِ شہنشاہی
گئے ہیں عرش پر مسند نشینِ بوریا ہوکر
فضاؤں نے حجازی کارخانے کی عجب صیقل گری دیکھی
بنے تھے حق نما آئنے پتھر بھی جلا ہوکر
فضیلت کے فلک پر چاند تاروں کی طرح چمکے
زمیں سے جو اڑے ذرے تمھاری خاک پا ہوکر
یہاں دولت یہاں راحت یہاں عزت یہاں عظمت
کہاں جائے کوئی درگاہِ عالی کا گدا ہوکر
ضیائے ہنر اعظم سے روئے ماہِ تاباں ہے
ہوا نورِ محمد جلوہ گر نورِ خدا ہوکر
ہوئے بے قدر جو دل آپ کی الفت سے خالی تھے
چلے کس طرح بازاروں میں سکّہ ناروا ہوکر
ہمیں طاعت کا رشتہ آپ سے رکھنا تھا وابستہ
ہوئی ہیں خشک شاخیں اصل سے اپنی جدا ہوکر
زمیں بھی آسماں بھی دشمنِ جاں ہے خبر لیجیے
یہ دونوں ہم کو پیسے ڈالتے ہیں آسیا ہوکر
بس اتنی بات پر فرمانِ رحمت ہوگیا جاری
کہا تھا ہم نے منہ کیوں کر دکھائیں ناسزا ہوکر
رہے گی نورِ گستر وہ بگولے ہوں کہ آندھی ہو
عجب شمع ہدایت آپ نے دی رہ نما ہوکر
مصیبت میں پھنسایا تھا ہمیں بے جا امیدوں نے
ملا ہے جان کو آرام پابندِ رضا ہوکر
بندھی ہیں رحمت للعالمین سے اپنی امیدیں
زباں پر جن کے آیا شکوہ دشمن دعا ہوکر
چلا ہے شادماں دنیا سے شوقِ دید میں احمدؔ
کوئی جس طرح جائے قیدِ زنداں سے رہا ہوکر
***
 

الف عین

لائبریرین
نعت٭

نہ میں جمشید نہ دارا نہ سکندر ہوتا
ہے تمنا درِ اقدس پہ مرا سر ہوتا
پھر مرے واسطے معراج تھی ہر اک نماز
سامنے گر وہ سراپائے منور ہوتا
قدرت ایسی تھی اگر مرضی و علیٰ ہوتی
کیا شبہ ہے فلکِ برج دو پیکر ہوتا
لطف جینے کا تو جب تھا کہ ہمیشہ ہردم
دل میں یاد آپ کی ذکر آپ کا لب پر ہوتا
نظرِ تربیت اک بار اگر پڑ جاتی
ذرۂ خاک میں گنجینہ گوہر ہوتا
دل میں جم جاتا جو اُس حسنِ مجسم کا خیال
پھر جدھر دیکھیے فردوس کا منظر ہوتا
نظر مہر سے دیکھا نہ کبھی دنیا کو
ورنہ یہ فرشِ زمیں عرشِ بریں پر ہوتا
رہتے بے فکر زمانے کی ستم رانی سے
ہاتھ میں اپنے جو دامانِ پیمبر ہوتا
ہے مزے دار بہت یادِ محمد کی خلش
کاش ہر موئے بدن سوزن و نشتر ہوتا
دشمنوں کو بھی دعا دیتے سزا کے بدلے
کبھی آئینۂ خاطر جو مکدر ہوتا
جان گر آپ کے قدموں پہ فدا ہوجاتی
تو مزہ موت میں جینے سے فزوں تر ہوتا
عاصیوں پر بھی نہ ہوتی نظرِ لطف تو آج
ہونا مسلم کا نہ ہونے کے برابر ہوتا
فیض تقسیم ہوا ظرف کے اندازے سے
چاہتے آپ تو قطرے میں سمندر ہوتا
انتقام آپ کو منظور نہ تھا ورنہ یہیں
دشمنوں کے لیے ہنگامۂ محشر ہوتا
کون سی شے ہے جو آقا نے غلاموں کو نہ دی
ہوتے قابل تو نصیب اپنا بھی یاور ہوتا
شوقِ دیدارِ نبی میں جو زمیں پر گرتا
ایک ایک اشک مرا دانۂ گوہر ہوتا
آپ تھے علم و ہدایت میں خدا کے تلمیذ
ورنہ تھا کون جو دارین کا راہبر ہوتا
احمد اوصافِ نبی فہم سے بالاتر ہیں
کیا بیان کرتا جو سنجانِ ثنا گر ہوتا

٭ لکھی ۱۲/ربیع الاول ۱۳۶۶ھ ہی میں گئی، لیکن طرحی مشاعرے میں نہیں سنائی گئی، غالباً وجہ یہی رہی ہو کہ مشاعرہ طرحی تھا (مرتّب)
 

الف عین

لائبریرین
نعت

حسن کا نقشہ روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
لطف کا معنی خوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
جسم کا قبلہ خانۂ کعبہ روح کا قبلہ صاحبِ خانہ
میرا قبلہ کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
موتی کی لڑیوں سے بہتر کوثر کی لہروں سے خوشتر
گفتارِ دلجوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
صفت کی لاثانی زینت دیکھنے کی باقی نہیں رغبت
پیش نظر ہے روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
باغِ جہاں کو شوق سے دیکھا سیر ہوکر پھولوں کو سونگھا
بسی تھی سب میں بوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
اک تو ہے والضحیٰ کی صورت دوسری ہے واللیل کی آیت
رخسار و گیسوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
جس ترکیب سے چاند ہوا شق ظاہر بھی تھی باطن بھی تھی
زورِ خدا بازوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
پاکر حشر میں رب کو راضی ہو گئے بے غم اکثر عاصی
جس کی نظر تھی سوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
اگلی پچھلی قدر کی راتیں ایک طرف رکھ کر جب تولا
جھک گیا پلّہ سوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
دونوں میں اللہ کو پیارے اور امت کے بڑے سہارے
موئے محمد خوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
اُن کی نورانی دنیا میں بس یہی دن ہے رات یہی ہے
جن کا دھیان ہے سوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
اپنی ذات میں ہے یکتا بھی یکتائی کا راہنما بھی
سروِ قدِ دلجوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
دید ہلال کی احمد ہو روزہ داروں کو مبارک
میرا چاند ابروئے محمد صلی اللہ علیہ وسلّم
***
 

الف عین

لائبریرین
منقبت

(محرم ۱۳۷۱ھ)

ہوا ہے عام زمانے میں احترامِ حسین
جہان فخر سے لیتا رہے گا نامِ حسین
زمیں کی طرح لرزتا تھا عرش اعلیٰ بھی
وہاں جو پیش ہوا آخری سلامِ حسین
بس ایک بات پہ کٹوا دیے گلے اپنے
بہت بلند حقیقت میں ہے مقامِ حسین
رفیق بھول گئے تھے نشے میں ہستی کو
پھر اُن کے بعد کوئی پی سکا نہ جامِ حسین
عروجِ قوم ہے قربانیوں سے وابستہ
جہاں میں گونج رہا ہے یہی پیامِ حسین
حقیر ہو گئے اسباب عیش فانی کے
نکل کے دل سے جب آیا زباں پہ نامِ حسین
عدو زمانے میں مشہور لعن و طعن کے ساتھ
بنا وظیفۂ مخلوق نیک نامِ حسین
جلو میں ہوں گی شہیدوں کی سکیڑوں فوجیں
بہشت میں نظر آئے گا احتشامِ حسین
جو بہرہ یاب ہوئے موت سے رہے محفوظ
زمیں پہ چشمۂ حیوان ہے فیض عامِ حسین
چلی جدھر ادھر اعدا وہیں ہوئے فی النار
تھی ایک برقِ غضب تیغِ بے نیامِ حسین
اُسی زمیں پہ ہوئے قتل قاتلانِ خبیث
وہیں فلک نے لیا اُن سے انتقامِ حسین
جو آروز ہے بقا کی وفا پہ مٹ جاؤ
ہر ایک عہد نے مانا ہے یہ پیامِ حسین
ہوا ہے گردشِ لیل و نہار سے محفوظ
کہ آسمان پہ منقوش ہے دوامِ حسین
غضب کا جوش تھا سہ روزہ سختیوں پر بھی
بڑے شجاع تھے مردانِ تشنہ کامِ حسین
ہوئی ہے سجدہ گہِ خلق خاکِ پاک اُس کی
ہوا تھا دشتِ بلا میں جہاں قیامِ حسین
یہی وسیلۂ بخشش یہی کلیدِ بہشت
کہ صدقِ دل سے ہے احمد علی غلامِ حسین
***
 

الف عین

لائبریرین
خطبہ جمعۃ الوداع

ماہِ رمضاں اے خدا کی مہربانی الوداع
ماہِ قراں اے ہماری شادمانی الوداع
اے رسول اللہ کے پیارے مہینے الفراق
اے صحابہ کے رفیقِ زندگانی الوداع
اے بڑی عظمت بڑی برکت بڑی فرحت کے عہد
اے مسلمانوں کے دورِ کامرانی الوداع
پھر گیا آنکھوں میں پھر اگلے زمانے کا سماں
اے نبوّت کے زمانے کی نشانی الوداع
روزہ داروں سے دلادی فوجِ شیطاں کو شکست
ہے خدا کا زور تیری ناتوانی الوداع
ساری باتیں مان لیں اُس کی خدا نے حشر میں
جس نے اس دنیا میں تیری بات مانی الوداع
تجھ سے صحت جسم کی تجھ سے صفائی روح کی
اے طبیبِ علّتِ جسمی و جانی الوداع
تو نے دی تعلیمِ ہمدردی و غمخواری ہمیں
تجھ سے سیکھی نعمتوں کی قدردانی الوداع
بے بدل نعمت کا جو شاہوں کو مل سکتی نہیں
تیرا سادہ کھانا تیرا سادہ پانی الوداع
اجر صدہا نیکیوں کا ایک نیکی میں تری
اے زمیں والوں پہ فضلِ آسمانی الوداع
صبر کے آئین طریقے ضبط کے تو نے سکھائے
تو نے ہم کو دی کلید کامرانی الوداع
چار ہفتے امتحاں لے کر ہمارے صبر کا
تو نے دلوائی بہشتِ جاودانی الوداع
کیو ں نہ ہوں ہم مطمئن تیری سفارش کا پیام
سن چکے سچے پیمبر کی زبانی الوداع
دیکھنا دعوت میں ہم محروم شرکت سے نہ ہوں
حشر میں جب ہوگی تیری میزبانی الوداع
کرچکی ہوتی شیاطیں کی عداوت پائمال
گر نہ ہوتی ہم پہ تیری پاسبانی الوداع
تو نے مشتِ خاک کو افلاک پر پہنچا دیا
دی زمیں والوں کو اوجِ آسمانی الوداع
اس مخالف دور میں قائم ہے تیری ذات سے
مسجدوں کی زینت و قراں خوانی الوداع
دل ہے رنجیدہ کہ پھر آئندہ ملنا ہو نہ ہو
تجھ سے ہوتے ہیں جدا انسانِ فانی الوداع
***
 

الف عین

لائبریرین
خطبہ جمعۃ الوداع

رمضان اے مہینوں کے سردار الوداع
اے مسلموں کے یار و مددگار الوداع
ہے روشنی میں دن کی طرح تیری رات بھی
دن ہیں بغیر تیرے شب تار الوداع
ہم سب ہیں تیرے لطف و کرم کے امیدوار
محشر میں عاصیوں کے طرفدار الوداع
ایماندار جو کہ ترے حق گزار تھے
ثابت ہوئے بہشت کے حقدار الوداع
آنکھوں میں بھائیو ں کے سمیٹا جو ترا نور
آئینے بن گئے در و دیوار الوداع
بے خوف ہو گئے وہ جہنم کی قید سے
جو تیری قید میں تھے گرفتار الوداع
اُن سے جو تیرے حکم پہ چلتے رہے یہاں
فرمایا حق نے وعدۂ دیدار الوداع
مسلم کی راہ میں جو کئی خار زار تھے
تیرے کرم سے ہو گئے گلزار الوداع
بے حد و بے قیاس ہیں تیری یہ نعمتیں
دیدارِ یار و فرحتِ افطار الوداع
رکھے ہیں تیرے نام رسالت مآب نے
اے ماہِ صبر و اے مہِ غمخوار الوداع
ملتی ہیں نیکیوں کی جزائیں بہشت میں
تیری جزا بہشت کی سرکار الوداع
ہارا ہے تیرے تشنہ لبوں کی سیاہ سے
نفس و ہوس کا لشکر خونخوار الوداع
تو نے کیا ہے زیر شیاطیں کی فوج کو
اے روزہ دار فوج کے سالار الوداع
ہے آسیوں کو تیری تسلی سے امن چیں
زخمی دلوں کے مرہم زنگار الوداع
جنت کی لذتیں ہیں تری بھوک پیاس میں
اے حکمتِ خدا سے خبردار الوداع
نکلے وہ سیکڑوں کے برابر ثواب میں
تجھ میں ہوئے تھے کام جو اک بار الوداع
آنکھوں سے تیری یاد میں نکلا تو بن گیا
آنسو ہر ایک گوہرِ شہوار الوداع
***
 

الف عین

لائبریرین
خطبہ جمعۃ الوداع

(۱۹۴۰ء)

ماہِ رمضاں اے مہِ صوم و تلاوت الوداع
ماہِ رحمت ماہِ برکت ماہِ عظمت الوداع
اے رسول اللہ کی ذات مقدس کے رفیق
تجھ پہ تھی شیدا صحابہ کی جماعت الوداع
ذرّے ذرّے میں نظر آنے لگا حسنِ ازل
وہ نگاہوں کو ملی تجھ سے بصارت الوداع
تو نے شیطانی خیالوں کو دلوں میں دی شکست
بدخصالوں کی بدل دی تو نے حالت الوداع
مسلم غافل کو سمجھا دی تری تعلیم نے
عام احسانِ خدا کی قدر و قیمت الوداع
تجھ سے صحت جسم کی تجھ سے صفائی جان کی
ہے خزانہ فائدوں کا تیری حکمت الوداع
مال و جاہ و سلطنت سے جو نہیں ہوتیں نصیب
مل گئیں وہ نعمتیں تیری بدولت الوداع
وہ مسرت ہے کہ دنیا میں نہیں جس کی مثال
جو ترے افطار میں پاتے ہیں لذت الوداع
راحتیں اُسکی ہیں دن اُسکے ہیں راتیں اُسکی ہیں
ہو گئی جس پر تری چشمِ عنایت الوداع
تو نے سمجھایا کہ ہر اک نیک مقصد کے لیے
ہے کلید کامیابی صبر و ہمت الوداع
کچھ دنوں اللہ کی طاعت کا لے کر امتحاں
تو نے دلوادی مسلمانوں کو جنت الوداع
جس کے تھے حقدار موسیٰ ہاں اُسی انعام کی
ہم خطا کاروں کو تو نے دی بشارت الوداع
مبتلا سب اپنی اپنی فکر میں ہوں گے جہاں
بخشوائے گی وہاں تیری شفاعت الوداع
تو مسلمانوں کی دنیا میں تھا مہمانِ عزیز
تیرے لائق ہوسکی ہم سے نہ خدمت الوداع
تجھ سے اے ماہِ مقدس اے مہِ مسلم نواز
رنج و غم کے ساتھ ہم ہوتے ہیں رخصت الوداع
***
 

الف عین

لائبریرین
بنام محمد عابد

بعمر شش سال ۲۶/اگست۱۹۲۶




آج تم دلّی میں ہو عابد میاں
خوش رہو زندہ رہو عابد میاں
پڑھنے لکھنے کویہاں آئے ہو تم
خوب لکھو اور پڑھو عابد میاں
جو کہ بچے ہوں تمھارے آس پاس
پہلے اُن کو دیکھ لو عابد میاں
جن کی اچھی عادتیں معلوم ہوں
دوستی اُن سے رکھو عابد میاں
عادتیں جن کی بری ہوں اُن سے تم
ہوسکے جتنا بچو عابد میاں
جو جماعت میں تمھارے کام ہوں
شوق سے اُن کو کرو عابد میاں
پڑھنے لکھنے میں جو لڑکے تیز ہوں
اُن سے تم آگے بڑھو عابد میاں
جو بری باتیں ہیں سب سے تم بچو
آدمی اچھے بنو عابد میاں
اچھے بن جانے کو محنت چاہیے
جو پڑے محنت سہو عابد میاں
وقت کاموں کے لیے ہے اس کو تم
مفت میں جانے نہ دو عابد میاں
جامعہ کو تم سمجھ لو اپنا گھر
اُس میں خوش ہوکر رہو عابد میاں
اپنے گھر کو تھوڑے دن کے واسطے
یاد کرنا چھوڑ دو عابد میاں
مدرسے میں جس قدر استاد ہیں
سب کو تم راضی رکھو عابد میاں
جو تمھیں وہ کام کی باتیں سکھائیں
دل سے وہ باتیں سنو عابد میاں
جیسے عالم ہیں تمھارے اوستاد
تم بھی ویسے ہی بنو عابد میاں
کرتے ہیں ماجد میاں آداب عرض
ان کا تم آداب لو عابد میاں
پڑھنے لکھنے کے لیے آئیں یہاں
یہ دعا تم اُن کو دو عابد میاں
جلد لکھنا اس قدر تو سیکھ لو
خط ہمیں لکھنے لگو عابد میاں
خط کے آخر میں دعا کرتا ہوں پھر
تم ہمیشہ خوش رہو عابد میاں

****
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا خط

(نومبر ۱۹۳۶ء)

تم ہو چین ہمارے عابد
سارے گھر کے پیارے عابد
نوّے سال رہو تم جیتے
خوشی مناتے کھاتے پیتے
تم کو رکھے خدا سلامت
اُس کی تم پر رہے عنایت
خط میں تمھارا حال جو آیا
سب کو گھر میں پڑھ کے سنایا
بیٹھے ہیں سب دائیں بائیں
دیتے ہیں سب تم کو دعائیں
پہلے فکر تھی ہو گئے اب خوش
تمارے رہنے سے ہیں سب خوش
میری بھی دو اک باتیں سن لو
خود پڑھ لو اور خوب سمجھ لو
استادوں کا کہنا مانو
اسی میں اپنی بھلائی جانو
اپنے بڑوں کا ادب کرو تم
ہر اک سے جھک جھک کے ملو تم
چھوٹوں سے ہو تمھیں محبت
رکھو میل ملاپ اور ملّت
کام سے اپنے دھیان لگاؤ
کچھ تکلیف بھی ہو تو اٹھاؤ
جامعہ جو بچوں کا گھر ہے
یہ گھر دنیا سے بہتر ہے
دن یہ کام آنے والے ہیں
فائدہ پہنچانے والے ہیں
جو بچے کہنا نہیں سنتے
آخر میں وہ سر ہیں دھنتے
کہتا رہوں گا جو کہنا ہے
آخر میں اب میری دعا ہے
سب کو سنبھالنے والا مالک
دیکھنے بھالنے والا مالک
پڑھنا لکھنا تم کو سکھا دے
سیدھا رستہ تم کو دکھادے
کام تمھارے قاعدے کے ہوں
قاعدے کے ہوں فائدے کے ہوں
اب ہوتا ہوں تم سے رخصت
پھر لکھوں گا ملی جو فرصت
کیا تمھیں اللہ کے حوالے
وہی سنبھالے دیکھے بھالے
***
 

الف عین

لائبریرین
بفرمائش ناصر علی خاں، ولی عہد

فرمانروائے ریاست افتخار علی خاں حسب درخواست شاعرمکین کے جدید مکان ’غریب خانہ‘ کے تشریف لانے پر٭
(تضمین)


زہے جمال ہر آں کس کے روئے خوب تو دید
شگفت ہمچو دل روزہ دار از مہِ عید
زہے جلال کہ از یک نگاہِ خشم آلود
مثال آہوے رم دیدہ شیر شرزہ رمید
ز نوبہارِ جمال و ز شعلہ زار جلال
بہ خار زارِ حسد جانِ بد سگال تپید
بکار بستہ من ناخن تو عقدہ کشا
برائے قفل امید من ابروئے تو کلید
درختِ کہنے چمانست مثل تازہ نہال
چناں سحابِ کرم آب زندگی بارید
ز آسمانِ چہارم بہ خاک دانِ زمین
شگفت نیست چو خورشید روشنی بخشید
شگفت ہست ز تشریف شاہ بندہ نواز
حقیر منزلِ من گشت منزلِ خورشید
روا بود چو ز تغییر شعر و تضمینم
روانِ سعدی جادو بیاں بخود بالید
ز کفشِ پاے ہمایوں نگشت چیزے کم
کلاہ فرقِ نیازیم بمہر و ماہ رسید
ہمیشہ تا بہ جہانست دور لیل و نہار
شب تو باد شب قدر و یوم یوم العید
ایضاً بفرمائش ولی عہد ناصر علی خاں٭
گر قدم رنجہ کند یار بہ کاشانۂ ما
کعبہ طور شود گوشۂ ویرانۂ ما
چشم وا کرد رخ دید طپید و جاں داد
بیشتر نیست ازیں قصہ پروانۂ ما
جلوہ گر شد برہش حور و قصور و فردوس
نظرے کرد و گذشت ایں دل دیوانۂ ما
بمن سوختہ دل مژدہ خوش داد خلیل
سبز در آتش سوزند شود خانۂ ما
ہمہ را بادہ باندازہ کرامت فرمود
مرشد دیر و حرم ساقی میخانۂ ما
پیر ما ضبط نگہداشت و گرنہ دو جہاں
رقصِ مے کرد ز دردِ تہِ پیمانۂ ما
دیدۂ اہلِ جہاں قابلِ دیدار نہ شد
ہست ہر پردہ تماشہ گہِ جانانۂ ما
سالہا سُرمہ صاحب نظراں خواہد بود
طرفہ سُرمہ کردند ز خاکسترِ پروانۂ ما
با وصالش طلب دید ہمانست کے بود
آفریں بر نظر و ہمتِ مردانۂ ما
پست چوں فرشِ زمیں عرش بریں را پنداشت
منزلِ کیست بہ اندیشۂ رندانۂ ما
بزم افسردہ دلاں در طلبش گام روند
حشر، خاستہ از نعرۂ مستانۂ ما
وردِ احمدؔ سخن عارف جیلاں کہ سرود
بے حجابانہ در آ از در کاشانۂ ما
احمدؔ سادہ بہ در قفل ز دو شکوہ کند
روش از پرتوِ خورشید نہ شد خانۂ ما
٭ ۷/جنوری ۱۹۳۷ء
***
 

الف عین

لائبریرین
قصیدہ بر مدحِ افتخار علی خاں بموقع تشریف آوری بمکانِ جدید خدمت میں قصیدہ بزبانِ شاعرپیش کیا گیا٭

اے خدا ترس رئیس و شہِ درویش خصال
گوہر در شرف اخترِ برج اقبال
آپ کی خوبیاں لکھنے سے قلم عاجز ہے
آپ کا خلق بیاں کرنے سے قاصر ہے مقال
ظلمت حرص و ہوا روے و ریا اے دل پاک
آپ کا ظاہر صاف آپ کے باطن کی مثال
حلم ایسا کہ تحرک سے خبردار نہیں
اپنے بدخواہ سے غصہ نہ کدورت نہ ملال
شان و سامانِ امیراں سے دلِ مستغنی
جام جمشید بھی نظروں میں ہے اک جامِ سفال
ہمت و حوصلہ وسعت میں حریفِ دریا
سامنے جس کے نہیں دولت قاروں کچھ مال
ملتے اس واسطے یہ ہیں کہ جدا ہوجائیں
درہم و دستِ کرم جیسے کہ آب و غربال
ذاتِ عالی کو رعایا کی رعایت منظور
چاہتے ہیں کہ ہر اک فردِ بشر ہو خوشحال
آپ ہوجاتے ہیں دکھ سکھ میں غریبوں کے شریک
ہیں یہاں آمر و مامور پدر اور اطفال
عالم پاک سے وابستگی ذرۂ خاک
آپ کا منزلِ احقر میں نزول اجلال
ہے یہ گھر لطف گرامی کی نمایاں تصویر
ہے یہ گل بندہ نوازی کی مجسم تمثال
ہیں ولی عہد بہادر بھی نوازش میں شریک
آپ رکھتے ہیں بہت خادمِ دیریں کا خیال
میں مسلمان موحد ہوں دوئی سے بیزار
دیکھتا صورتِ کثرت میں ہوں وحدت کا جمال
آنکھیں دو ہوتی ہیں آتا ہے نظر دو میں ایک
چاند ہے ایک مگر نام ہیں دو بدر و ہلال
کان ہے ایک جواہر ہیں یہ سب شہزادے
اصل ہے ایک مگر ہیں متعدد اشکال
فرق اشکال سے ناموں میں تعدد ہے تو کیا
برگ و شاخ و ثمر و گل کی حقیقت ہے نہال
اسی گلدستہ شاداب کا اک برگ ہوں میں
اسی مجموعۂ نایاب کا ہوں خیر سگال
رخ زیبا کو ضرورت نہیں آرائش کی
مدحت و شکر سے ہے عہدہ برآئی بھی محال
میں دعا گو ہوں دعا گوئی ہے شیوہ میرا
فرض کرتا ہوں ادا چھوڑ کے سب قال و مقال
واسطے سب کے ہو اللہ کی توفیق رفیق
سب کی تقدیر مددگار ہو نادر اقبال
سب کو دارین میں حاصل ہوں مرادیں ساری
سب رہیں نیک روش نیک عمل نیک خصال
دوسروں کے لیے نافذ ہو یہ حکمِ قسمت
دوست احمد کی طرح شاد ہوں دشمن پامال
وجہ تصدیق ہوئی یہ کہ دل مخلص میں
تھا کئی سال سے اظہارِ عقیدت کا خیال
٭ ۷/جنوری ۱۹۳۷ء
 
Top