بادۂ کہن۔ مولوی احمد علی

الف عین

لائبریرین
غزل

اپنا تو کام ہے در و دیوار دیکھنا
شاید کہ ہو نصیب رخ یار دیکھنا
دیکھا ہے جس نے تجھ کو پھر اُس کی نگاہ میں
ہے دیکھنا جہاں کا بیکار دیکھنا
ہیں دیکھتی بہار کی حسن آفرینیاں
کیا دیکھنا ہے یہ گل و گلزار دیکھنا
وہ مل گئے تو دل کا جنوں اور بڑھ گیا
ضد ہے کہ اب نگاہ میں سو بار دیکھنا
طالب ہوں حوصلے کے موافق نگاہ کا
میری طرف بھی چشم ستمگار دیکھنا
ہمت نہ ہار اے دل درماندہ راہ میں
وہ سامنے ہے جلوہ گہِ یار دیکھنا
جو دیکھنے کی چیز تھی دیکھی نہیں گئی
زخم کہن ہے دیدہ تو آزار دیکھنا
آنکھ اُن کی آنکھ اور نظر ان کی ہے نظر
آتا ہے جن کو خار میں گلزار دیکھنا
کیا دیکھیے کہ سامنے گرتی ہیں بجلیاں
بے پردہ چھپ گیا بُت عیار دیکھنا
آنکھوں میں آفتاب سما جائے بھی تو کیا
ممکن نہیں تجلیِ رخسار دیکھنا
واعظ بھی میکدے میں رہے کل تمام رات
شان آپ کی ہوئے ہیں جو بیدار دیکھنا
چھولیں قدم نہ اس مہ تاباں کے ہاتھ سے
پیچھے لگی ہوئی ہے شبِ تار دیکھنا
دید و شنید ساقی و مطرب نہیں تو پھر
سننا عذاب جاں دل آزار دیکھنا
سو دام ہیں چھپے ہوئے بلبل کی راہ میں
نادان ہو نہ جائے گرفتار دیکھنا
دنیا کے ملک و مال نہ جنت کی آرزو
احمدؔ کو ایک رہ گزرِ یار دیکھنا
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

ہر دم جدید شان ہے تو جلوہ گر نہ ہو
عالم اس انقلاب سے زیر و زبر نہ ہو
جادو ہے اُس نگاہِ فسوں گر کے تیر میں
ہو دل میں غرق جلدِ بدن کو خبر نہ ہو
ہونے لگا ہے مآل سے انساں کا مول بھی
بے قدر آدمی ہے اگر سیم و زر نہ ہو
اب مجھ میں صبر و ضبط کی طاقت نہیں رہی
اے پردہ دار پردہ کہیں پردہ در نہ ہو
شکوہ زمیں سے ہے نہ گلہ آسمان سے
وہ باغ ہم لگاتے ہیں جس میں ثمر نہ ہو
افسوس ہوں عدو کی سخن سازیاں درست
لیکن ہماری آہ و بُکا معتبر نہ ہو
فرمایا آپ نے تو سلام وکلام ترک
لازم ہے احتیاط مگر اس قدر نہ ہو
یہ کم نہیں کہ آپ عیادت کو آئے ہیں
یہ سچ نہیں کہ آہ و فغاں میں اثر نہ ہو
مطلب یہ ہے کہ فرضِ محبت ادا کریں
پروا نہیں جو میری وفا بار ور نہ ہو
خود مست ہوں خیال میں اس مے پرست کے
کچھ غم نہیں اگر شبِ فرقت سحر نہ ہو
تو پوچھتا نہیں تو کوئی پوچھتا نہیں
غفلت مجھے قبول مگر اس قدر نہ ہو
باتیں کرو نہ مجھ سے مگر بزمِ غیر میں
لے لو اگر سلام تو غم اس قدر نہ ہو
خط اپنے لے کے آپ نہ آؤں تو کیا کروں
جب اپنا رازدار کوئی نامہ بر نہ ہو
احمدؔ علی سزا ہے یہ نقصانِ عشق کی
دردِ جگر ہو لذتِ دردِ جگر نہ ہو
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

دل جان کا عذاب ہے الفت اگر نہ ہو
سر ہے وبال دوش اگر دردِ سر نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے نہ ہو جس میں تیری یاد
کس کام کی وہ آنکھ ہے جس میں نظر نہ ہو
اے بلبلِ حزیں مرے قابو میں دل نہیں
اس درد سے خدا کے لیے نوحہ گر نہ ہو
واعظ وہی تو سب سے زیادہ ہیں مستحق
جن میں تمام عیب ہوں کوئی ہنر نہ ہو
اللہ رے خلش تری تیکھی نگاہ کی
ہوتا ہے شک جگر میں کوئی نیشتر نہ ہو
ہمت کی شان یہ ہے کہ زخموں پہ زخم کھائیں
لیکن ہمارے جسم پہ داغِ سپر نہ ہو
سب جان و ملک و مال کیا صرف عشق میں
سودا وہی ہے جس میں ضرر کا خطر نہ ہو
دیکھا نہیں بہم سروساماں زمانے میں
مثلِ صدف گہر ہو میسّر تو سر نہ ہو
وہ موت زیست آئے جو تیرے خیال میں
وہ زیست موت جو ترے در پر بسر نہ ہو
مقصد ترا عیاں مری منزل ہے ناپدید
اے قیس غمگسار مرا ہمسفر نہ ہو
عالم کو مثل گور نہ سمجھے تو کیا کرے
وہ بدنصیب جس کا ترے دل میں گھر نہ ہو
انصاف کیجیے یہ بھی کوئی راہ و رسم ہے
تم کو ہماری ہم کو تمھاری خبر نہ ہو
فانی جہاں میں سر بہ فلک ہیں عمارتیں
سیلاب کوئی درپےِ دیوار و در نہ ہو
احمدؔ اسی میں خیر ہے راضی رضا پہ رہ
اے بے خبر حریفِ قضا و قدر نہ ہو
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

سامنے یار و کوئے یار سجدہ گہِ نیاز ہو
پڑھتے رہیں تمام عمر ایسی اگر نماز ہو
ہے یہ کمی نیاز کی جو نہ عزیزِ ناز ہو
خسروی بندگی میں ہے بندہ اگر ایاز ہو
پاؤں شکستہ راہ بند پھر یہ ستم پہ ہے ستم
تیر فگن ہر اک طرف دیدۂ نیم باز ہو
اُن کی نظر سے پاگئے خوش ہیں وہ رنج سے مرے
غم نہیں اب جو حشر تک ہجر کی شب دراز وہ
درد و الم کی داستاں خاک اثر کرے وہاں
زمزمۂ طرب جہاں آہِ جگر گداز ہو
قلزمِ عشق کا سفر خود ہے وسیلہ خود ظفر
ہے وہی منزل مراد غرق جہاں جہاز ہو
ایک دل اور ہزار غم ایک گل اور ہزار خار
حیف کہ جائے عندلیب پنجۂ شاہباز ہو
سہل ہیں باریابیاں محفلِ یار میں اگر
عشق میں شمع کی طرح سوز کے ساتھ ساز ہو
ہم پہ ستم ہوں بے شمار غیر پہ لطف بار بار
عشق و ہوس میں چاہیے اتنا تو امتیاز ہو
زہر ہے وہ دوا نہیں قہر ہے وہ شفا نہیں
چارہ گری روا نہیں درد جو دل نواز ہو
بن گئی جنتِ حیات پیرِ مغاں کی ایک بات
پیش نگاہِ سومنات قبلہ جاں حجاز ہو
دولتِ حسن بے قیاس پیرہنِ فقیر تنگ
کاش یہ چادرِ فلک دامن حرص و آز ہو
دل ہے وہ ارجمند جو خاک ہو راہِ دوست میں
سر ہے وہ سر بلند جو دار پہ سرفراز ہو
پردے عجیب طرح کے عقل پہ ہیں پڑے ہوئے
ذکر ہر اک زبان پر پھر بھی نہ فاش راز ہو
ہو جو ذرا سی خاکِ پا دیدۂ کور کو عطا
آئینۂ خدا نما صورت ہر مجاز ہو
احمدؔ رنجِ دوست کو چھوڑ دیں اُس کے حال پر
کوئی نہ غمگسار ہو کوئی نہ چارہ ساز ہو
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

برائے طرحی مشاعرہ ۱۲/اگست ۱۹۴۱ء
(مصرعِ طرح: جب تک کہ یہ زمین رہے اس آسماں سے دور)

مستِ مئے الست ہیں سود و زیاں سے دور
رندوں کی زندگی ہے غمِ ایں و آں سے دور
افکار سے فگار ہیں امن و اماں سے دور
حرماں نصیب جو ہیں ترے آستاں سے دور
ہونا اگر ہے فتنۂ آخر زماں سے دور
رہنا کبھی نہ درگہِ پیرِ مغاں سے دور
تاریک شب سیاہ گھٹا دشت ہولناک
میں رہ نورد آبلہ پا کارواں سے دور
رہزن لگے ہوئے ہیں مسافر کے آس پاس
اچھا نہیں سفر میں رہیں کارواں سے دور
تو پوچھتا نہیں تو کوئی پوچھتا نہیں
پھرتے ہیں خوار و زار ترے آستاں سے دور
گنج رواں کے واسطے رنجِ روان ہے شرط
آرامِ جاں کو ڈھونڈئے آرامِ جاں سے دور
شوخی نے وصل و ہجر کا جھگڑا مٹا دیا
جاں ہے قرینِ عمر بھی عمرِ رواں سے دور
آیا جو عشق دل میں تو رخصت ہوئی خرد
رہتا ہے میزبان یہاں مہماں سے دور
تدبیر کوئی شیخِ حرم آپ ہی بتائیں
دل سخت بے قرار ہے کوئے بتاں سے دور
دیکھے ہیں ترے عہد میں اے موجد ستم
جو تازہ تازہ جور تھے وہم و گماں سے دور
مطلوب جستجو ہے بیابان و کوہ میں
اک آہوئے رمیدہ سراغ و نشاں سے دور
اُن کے لیے جہنم دنیا بھی ہے بہشت
ہے جن کی بود و باش چنیں و چناں سے دور
کج طبع و راست باز ہیں اتنی ہے دوستی
جتنے میں کوئی تیر ہو مل کر کماں سے دور
رونے پہ اس کے روتے ہیں احباب زار زار
اک عندلیب ہے چمن و آشیاں سے دور
احمدؔ ہوئے نہ سیر کبھی دل کی سیر سے
ہیں اُن کے لالہ زار و گلستاں خزاں سے دور
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل


دگرگوں دم بدم رودادِ عالم ہوتی جاتی ہے
شیاطیں کی طرف اولادِ آدم ہوتی جاتی ہے
فلک بے مہر گیتی دشمن و معشوق بے پروا
مری ہر آرزو سرمایۂ غم ہوتی جاتی ہے
یہ ہے عقدِ محبت آپ کے کھینچے سے کیا حاصل
گرہ کیسی بھی ہو کھینچے سے محکم ہوتی جاتی ہے
تصور جمتا جاتا اور پردے اٹھتے جاتے ہیں
مرے دل میں تری صورت مجسم ہوتی جاتی ہے
محبت ہے محبت پھر تو راحت ہے اذیت بھی
نمک پاشی تری زخموں پہ مرہم ہوتی جاتی ہے
مری افتادگی سے سرکشی بھی دب گئی آخر
کہ گردن اس بُتِ مغرور کی خم ہوتی جاتی ہے
یہ ڈر ہے خود بدولت بھی کہیں رسوا نہ ہوجائیں
مری دیوانگی مشہورِ عالم ہوتی جاتی ہے
شریکانِ طریقت میں نہ پھیلے درہمی کیوں کر
توجہ شیخ کی مصروفِ درہم ہوتی جاتی ہے
ستم تیرا کرم نکلا خدا یاد آگیا مجھ کو
متاعِ آخرت کچھ کچھ فراہم ہوتی جاتی ہے
بڑھی ہے کس قدر احمدؔ توجہ عام لوگوں کی
محبت کی پریشانی بھی اب کم ہوتی جاتی ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل
(اپریل ۱۹۴۳ء)

دنیا سے نہ رکھ امید وفا بے مہر بھی ہے مکار بھی ہے
تمہید ستم ہے اس کا کرم عیار بھی ہے دلدار بھی ہے
طیارے اڑاتا پھرتا ہے پھر گر گر کر مرتا بھی ہے
انسان میں دو ضد ہیں یکجا مجبور بھی ہے محتاج بھی ہے
جو میں نے کیا اُس نے دیکھا یہ شرم عذاب سے بھی ہے سوا
ہرچند کہ شاہنشاہ مرا ستّار بھی ہے غفّار بھی ہے
ہر وعدہ تسلی کا نسخہ ہر وعدے کی شرطیں ہوش رُبا
اللہ رے یار کی عیاری اقرار بھی ہے انکار بھی ہے
اک مکھی قند پہ آسودہ ہے دوسری شہد میں آلودہ
بازار جہاں سے گزر جانا آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
پوچھا ہے کہ تم کیا لائے ہو بے گنتی اداؤں کے بدلے
پترے ہیں کرم کے کھلے ہوئے سنسار کا پالن ہار بھی ہے
ایماں ہے ریائی کفر کھلا ہوتا ہے دیکھیے فیصلہ کیا
میزان عمل میں تُلنے کو تسبیح بھی ہے زنّار بھی ہے
بستی ہو پہاڑ ہو یا جنگل رہزن کا خطر ہے نہ چور کا ڈر
اس قافلے میں اک مرد خدا رہبر بھی ہے سالار بھی ہے
تاریک ہے شب گھنگھور گھٹا جگنو کی چمک ہے راہنما
اس دل کو نصیحت کیا کیجیے سرشار بھی ہے بیزار بھی ہے
بے شک ہے بڑی فردِ نسیاں لیکن اے رحمت حیلہ طلب
میرے ہر جرم کے پہلو میں افسوس بھی استغفار بھی ہے
بے بود و نمود کے دھوکے میں احمدؔ یہ گرفتاری کب تک
گمراہ نظر کی غلط بینی صحرا بھی گل و گلزار بھی ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل
(قبل از ۱۹۳۰ء، بہ طرح: ’کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے‘)

آپ کو دیکھ لیں یہ مقصد بینائی ہے
آپ کو جان میں یہ مطلب دانائی ہے
پاس رہنے کا طلبگار ہے سودائی ہے
یہی کافی ہے کہ دل تیرا تمنائی ہے
اے فلک تجھ کو عبث زعم توانائی ہے
ناتوانوں کی مددگار شکیبائی ہے
کبھی پوری نہ ہوئی پھر بھی وہی ہے امید
مینہ برستا نہیں مدت سے گھٹا چھائی ہے
ہمیں اس آہوئے رمدیدہ کا ملنا ممکن
دل کے بہلانے کو یہ بادیہ پیمائی ہے
اپنی عزت کی مجھے فکر نہیں خوف یہ ہے
میری رسوائی میں خود آپ کی رسوائی ہے
دیکھیے صبر و تحمل کا نتیجہ کیا ہو
کہ بہت حوصلہ فرما شب تنہائی ہے
کامیابی ہے سبب تازہ تمناؤں کا
فائدہ کیا جو تمنا کوئی برآئی ہے
بے وفا بھائی ہو تو غیر ہے وہ بھائی نہیں
باصفا غیر ہو تو غیر نہیں بھائی ہے
تم کو منظور ہو تو لطف و کرم فرماؤ
یوں تو ہر ایک حسیں میں ستم آرائی ہے
آپ کا ذکر وظیفہ ہے مرا محفل میں
آپ کی یاد مری مونس تنہائی ہے
برگ خاموش ہوئے گل ہمہ تن گوش ہوئے
باغ میں کوئی خبر بادِ صبا لائی ہے
دور ہوتی نہیں بگڑی ہوئی عادت دل کی
چوٹ پر چوٹ لگی پھر وہی خودرائی ہے
ختم ہوجائے کسی طرح کے یکسوئی ہو
دانش و عشق میں جو معرکہ آرائی ہے
شعر کوئی نہ ہوا خونِ جگر سے رنگیں
نہیں احمدؔ یہ غزل قافیہ پیمائی ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل
(مئی ۱۹۴۳ء)

رد کر وہ خواہشیں ہیں تپاں دل کے آس پاس
بسمل ہیں اور بھی ترے بسمل کے آس پاس
جاں نذر کرنے آئے ہیں مشتاق سر بکف
دربارِ عید ہے مرے قاتل کے آس پاس
آخر لگامِ ناقہ ہوئی قیس کو نصیب
صدہا امید وار تھے محمل کے آس پاس
پھندے لگائے بیٹھے ہیں صیاد بھی وہیں
گل بھی کھلے ہوئے ہیں عنادل کے آس پاس
آیا نہیں زباں پہ ابھی صرف مدعا
رحمت کا اک حصار ہے سائل کے آس پاس
باطل کی ایک فوج ہیں سودائیانِ عشق
دانا تمام رہ گئے ساحل کے آس پاس
انجام دیکھنے پہ بھی ہے گمرہی وہی
چکر لگائے جاتے ہیں باطل کے آس پاس
جن کو سند ملی ہے وہی باریاب ہیں
کافی نگاہ بان ہیں محفل کے آس پاس
اک بے نوا گدا کی رسائی وہاں کہاں
مقتل دکھائی دیتے ہیں منزل کے آس پاس
دشوار ہے طلسم ہلاکت سے اجتناب
جلوے نظر فریب ہیں غافل کے آس پاس
ناداں خرد کو دخل نہیں کارِ عشق میں
پھرتی ہے میرے عقدہ مشکل کے آس پاس
احمدؔ کبھی تو ہوگی نظر التفات کی
رہتا ہوں اپنے مرشدِ کامل کے آس پاس
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

(بموقع صلح یورپ ۱۲/مئی ۱۹۴۵ء)

صلح یورپ سے نیا دور نمایاں ہوگا
قصہ جنگ و جدل خواب پریشاں ہوگا
عجب انداز سے عالم میں بہار آئے گی
کہ ہر اک دشت و بیاباں چمنستاں ہوگا
ساز پتّوں کو بنادیں گے ہوا کے جھونکے
خود بخود زمزمہ پرداز گلستاں ہوگا
سبز پوشاک نہالانِ چمن کی ہوگی
لالہ و گل سے ہر اک سرو چراغاں ہوگا
ڈالیاں وجد میں مستوں کی طرح جھومیں گی
سر بر شاخ پہ اک مرغ خوش الحاں ہوگا
بلبلیں نغمہ سرا ہوں گی خیابانوں میں
سبزہ صحن پہ طاؤس بھی رقصاں ہوگا
عام ہوجائے گی انعامِ سرور اندوزی
جابجا مجمعِ احباب خراماں ہوگا
ناز و انداز حسینوں کے بدل جائیں گے
دشمنِ جاں نہ کوئی دشمنِ ایماں ہوگا
بگڑی بن جائے گی یارانِ طریقت کی بات
دست مشتاق میں محبوب کا داماں ہوگا
خرد و عشق میں ہوجائے گی الفت باہم
چاک داماں نہ کوئی چاک گریباں ہوگا
جان دے دیں گے مگر آن نہ جانے دیں گے
رشتہ جاں سے سوا رشتہ پیماں ہوگا
آدمی ظاہر و باطن میں موافق ہوں گے
دل میں جو راز نہاں رکھتے تھے عریاں ہوگا
ایک ہو جائیں گے سب ایک خدا کے بندے
ساغرِ دل میں بھرا بادہ عرفاں ہوگا
جو ہے آرام رساں اس کو ملے گا آرام
جو ہے آزار رساں داخلِ زنداں ہوگا
ناتوانوں سے توانا کو محبت ہوگی
زیر دستوں کا زبردست نگہباں ہوگا
بھینس لاٹھی کا تعلق نہ رہے گا باقی
خادمِ قوم ہی اب قوم کا سلطاں ہوگا
ہوں گے راعی پدر اور اُن کی رعایا اطفال
قصر شاہی میں نہ در ہوگا نہ درباں ہوگا
جستجو ہوگی مددگار کو محتاجوں کی
درد مندوں کے ہر اک درد کا درماں ہوگا
سن کے آواز بہی خواہ تڑپ جائیں گے
کسی دکھ سے جو کوئی غم زدہ نالاں ہوگا
آپ مشاطہ گری کرکے جماوے گی صبا
بال زلفوں کا اگر کوئی پریشاں ہوگا
میزباں شوق سے مصروفِ ضیافت ہوں گے
مدعا جن کا رضا جوئیِ مہماں ہوگا
علم و حکمت کے رواں ہوں گے ہزاروں چشمے
درس میں کوئی فلاطوں کوئی لقماں ہوگا
ہنر و فن کے مظاہر بھی عجائب ہوں گے
آدمی دیکھ کے انگشت بدنداں ہوگا
ذلّتِ جہل کی تہمت سے بچے گی دنیا
جاہل انساں نہیں اک طرح کا حیواں ہوگا
خود غرض اپنی امیدوں میں رہیں گے ناکام
مقصد حرص و حسد موجب حرماں ہوگا
ساتھ عصیاں کے لگی ہوگی سزائے عصیاں
خود خطا کار خطا کرکے پشیماں ہوگا
جرم بھی اور جرائم کا محرک بھی ہے
جھوٹ فہرست بداعمال کا عنواں ہوگا
اپنی توہین سے مکار ہر اک جلسے ہیں
منہ چھپانے کے لیے سر بہ گریباں ہوگا
فتنہ انگیز منافق کو نہ پوچھے گا کوئی
جس جگہ جائے گا مطعون و پریشاں ہوگا
فرقہ بندی غضب قوم کا باعث ہوگی
خانمانِ تفرقہ پرواز کا ویراں ہوگا
بات سچی بھی دغا باز کی سمجھیں گے جھوٹ
اپنی تشہیر سے بدنام پشیماں ہوگا
پاک ہوجائے گی انواعِ جرائم سے زمیں
اس پہ نازل کرم و رحم کا باراں ہوگا
ہوگی افراط ہر اک جنس کی بازاروں میں
قافلہ نفع پرستوں کا گریزاں ہوگا
نہ کہیں خرمنِ دہقاں پہ گرے گی بجلی
قحط کا خوف نہ اندیشۂ طوفاں ہوگا
مثلِ اجناس جواہر کی فراوانی سے
سنگریزے کی طرح گوہر غلطاں ہوگا
احمد اب ختم کرو اپنا خیالی ارشاد
جو سخن سنج کے انداز میں ہزیاں ہوگا
تم ہی سمجھاؤ کہ آئے گا سمجھ میں کیوں کر
راز جو پردۂ تقدیر میں پنہاں ہوگا
پیش بینی پہ تمھاری سخن آرائی ہے
کہ جہنم کی جگہ روضۂ رضواں ہوگا
ہوگی رفتار زمانے کی وہی جس کے لیے
خالقِ خلق شہنشاہ کا فرماں ہوگا
***
 

الف عین

لائبریرین
قدیم گمشدہ غزل
(۵/دسمبر ۱۹۰۵ء)


گدام دیدہ گرائش کناں بجانِ منست
کہ سجدہ گاہِ ملک خاکِ آستاں من است
زبونِ دستِ ستم تاب ضبط آہ مخواہ
حذر ز جستِ خدنگے کہ در کمان من است
بہ ترک تازی اخواں سکوت آساں نیست
زہے شکیب کہ در قلب ناتواں من است
ہوائے دہر بہ بالم نہ ساخت افتادم
فرازِ کنگرۂ عرش آشیاں من است
تپش بہ مہر در افزائش وز گمرہیم
رواں بہ وادیِ بے آب کارواں من است
چرا نہ بہرہ دہندم ز شادمانی شاں
اگر مصیبت بے گانگاں ازاں من است
ز سر کشانِ جہاں ریمنم بہ پستی خویش
کہ زیرِ فرش زمیں عرش آسماں من است
غزل کے چند اشعار قبل ۱۹۰۸ء
ز خیالِ ما سوایت درِ دل فراز دارم
چہ نیاز ہا کہ باتو من بے نیاز دارم
ستم درشت کیشاں نہ گزاردم بدستاں
بدر آو قبلہ ام شو کہ سرِ ناز دارم
بہ دلِ یگانہ بینم اثر دگر نہ گنجد
نہ بسومنات میلے نہ سرِ حجاز دارم
 

الف عین

لائبریرین
ایضاً

بدمستی منعم از شراب است
بنیادِ مسرتش بہ آب است
عقلم در چہرہ دست نقشم
کنجشک بہ جنگل عقاب است
اے خواجہ مناز کن نہادت
ہم ز آتش و باد و خاک و آب است
آبستن از ہاست ہر راز
ناکام کسے کہ کامیاب است
بند ہجرت خوش است لیکن
آزادی بندگاں ثواب است
 

الف عین

لائبریرین
چند قدیم اشعار

یارب کرمے بر منِ مسکیں تو کریمی
تو منعم و جواد تو رحمن و رحیمی
علّام غیو بستی ستّارِ عیوبی
کشاف کمر و بستی و غفّار اثیمی
نعماء تو بے غایت و الاء تو بے حد
الطاف تو بے خضر کہ ذو فضلِ علیمی
 

الف عین

لائبریرین
مزید دو اشعار


ز جہنم بہ گداز آمدہ جانم دادند
لختے از شعلہ تراشیدہ زبانم دادند
جاں ربودند و رہِ جہاں نبودند
شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند
 

الف عین

لائبریرین
تضمین بر مصرعِ حافظؔ

کے دلم خواست کہ از خانہ بزنداں بروم
خار زارِ بگزینیم ز گلستاں بروم
ہمچو وحشت زدگاں سوئے بیاباں بروم
خرم آں روز کزیں منزل ویراں بروم
راحت جاں طلبم و ز پی جاناں بروم
تضمین بر مطلعِ کشفیؔ
بارِ دگر اے تُرکِ سبکتاز نگاہے
دل می پند اے چشم فسوں ساز نگاہے
بسمل پسند اے قدر انداز نگاہے
دزدیدہ فگندی بمن از ناز نگاہے
قربانِ نگاہ تو شوم باز نگاہے
 

الف عین

لائبریرین
ترانہ

(بمثالِ حمد برائے طفلانِ مدرسہ اسلامیہ)

اللہ میاں آقا تو ہے
ہم بندے ہیں مولیٰ تو ہے
سب کو پالنے والا تو ہے
سب کو سنبھالنے والا تو ہے
رزق ہیں تیرا کھاتے پیتے
تیرے جلائے سب ہیں جیتے
سیدھا رستہ ہم کو دکھادے
پڑھنا لکھنا ہم کو سکھادے
اچھی باتیں ہمیں بتانا
اور بُرے کاموں سے بچانا
مانگتے ہم ہیں تجھ سے دعائیں
تو پوری کرتا ہے مرادیں
سمجھیں بڑی دولت اور عزت
تیری اطاعت تیری عبادت
اپنی مدد خود کرنا سیکھیں
جینا سیکھیں مرنا سیکھیں
حکم پہ تیرے جان کھپائیں
دین پہ اپنا لہو بہائیں
اپنے بڑوں کا کہنا مانیں
اسی میں اپنی بھلائی جانیں
تیری طاعت کام ہو اپنا
تیرے جہاں میں نام ہو اپنا
کرنا سب کچھ تیرے لیے ہو
جینا مرنا تیرے لیے ہو
روزے رکھیں پڑھیں نمازیں
جو حاجت ہو تجھی سے مانگیں
روز افزوں ہو وطن ہمارا
پھولے پھلے یہ چمن ہمارا
شاد رہیں سرکار ہمارے
اور اُن کے شہزادے سارے

***
 
Top