بادۂ کہن۔ مولوی احمد علی

الف عین

لائبریرین
پیش لفظ

ہم اپنے تہذیبی اثاثے کے بڑے حصے سے اس وجہ سے محظوظ ہوتے رہے ہیں کہ جن گوشوں میں وہ محفوظ ہیں وہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوتی یا وہ لوگ اُس کی پرواہ نہیں کرتے جن کے پاس وہ محفوظ ہیں۔ بسا اوقات اُن کی قدر و قیمت کا تعیّن کرنے میں لوگوں کو تامّل ہوتا ہے اور صواب دید کے مطابق اُسے رکھتے ہیں یا رد کردیتے ہیں۔ نہ جانے کتنا کچھ ہمارا خزانہ ضائع ہوگیا اور ضائع ہوتا رہا اور ضائع ہوتا رہے گا۔ کچھ اداروں نے اس کی کوشش ضرور کی ہے کہ اس طرح کی چیزوں کو محفوظ کریں اور ممکن ہو تو لوگوں کے سامنے لائیں اور یہ طے کرنے کا کام اہلِ علم اور اہلِ مذاق پر چھوڑیں کہ اُن کی قدر و قیمت کیا ہے۔ ہمارے قصّے کہانیاں، ہمارے مذہبی عقائد پر مبنی ادب ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بہ سینہ پہنچنے والی روایات، صندوقوں میں بند دستاویزات؛ یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن میں ہماری تہذیب کے ارتقا کا نسل در نسل لوگوں کے رویّوں کا غرض کہ انسانی قافلے کی سمت و رفتار کا سادے نقش و نشان انھیں چھپے ہوئے یا کھوئے ہوئے گوشوں میں موجود ہے جنھیں سامنے لانا ضروری ہے۔ احمد علی صاحب مرحوم اُس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صدیوں کی بندھی ہوئی روایات اور اُن کی اقدار کے پاسدار تھے۔ شعر و شاعری تو یوں بھی اردو کلچر کا ایک لازمی حصہ ہی ہے لیکن ایک زمانہ تھا کہ ہر پڑھے لکھے شخص کی آزمائش ہی اس پیمانے پر پورا اترنے سے ہوتی تھی کہ وہ اپنے افکار و خیالات اور عقائد کے اظہار کے لیے اور طریقوں کے علاوہ شعر و شاعری میں کتنا کمال دکھاتا ہے۔ اُس نسل نے اپنے افکار و خیالات کا بڑا حصہ اسی شکل میں چھوڑا ہے۔ احمد علی صاحب کا زمانہ وہ تھا جب سرسیّد احمد خاں کی تہذیب کے اثرات پوری دنیائے علم و ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ شاعری میں حالیؔ کا طرز عموماً اس لئے مقبول تھا کہ اُس کے ذریعے پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بڑے حلقے تک پیغام پہنچایا جاسکتا تھا۔ پھر خواہ جذبات عاشقانہ ہو یا مصلحانہ، سادگیِ بیان میں جو ایک جادو تھا، جسے داغؔ اور اُن کے دبستان کے لوگوں نے دریافت کیا اور اُسے بہت فروغ دیا تھا اُس کی مقبولیت عام تھی۔ چنانچہ احمد علی صاحب مرحوم اپنی اور روایات کے ان پہلو سے ذہنی طور پر زیادہ قریب تھے جس کا اظہار اُن کے اس مجموعے ’بادۂ کہن‘ میں ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اُن کے خاندان کے افراد نے خصوصاً عبدالواحد صاحب نے مدتوں بیرونِ ملک میں زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ احمد علی صاحب کے کلام کو بھلایا نہیں بلکہ اُس کی اشاعت کا بڑے سلیقے سے اہتمام کیا۔
پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی
 

الف عین

لائبریرین
عرضِ مرتّب

’بادۂ کہن‘ کی اشاعت میں ’پدرم سلطان بود‘ کا سوقیانہ پن ہرگز کارفرما نہیں ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ والدِ محترم کی شاعری کی بیاض جو نصف صدی تک صرف خاندانی ورثہ بنی رہی، اُس کو ورثۂ عامّہ بنانے کی تحریک نہ صرف میرا ارادہ تھا بلکہ اس ارادے کی حوصلہ افزائی جن اربابِ ادب نے فرمائی اُن کا تہِ دل سے شکرگزار بھی ہوں اور یہاں فرداً فرداً اُن اسمائے گرامی کا ذکر بھی لازم ہے۔
سب سے اوّل تو صدیق الرحمن قدوائی صاحب نے اس ترتیب پر پیش لفظ عنایت فرماکر از حد ممنون فرمایا ہے، بعد ازاں ایوانِ غالب کے ناظم شاہد ماہلی صاحب کا اور ’صدا‘ کے مدیر اقبال مرزا صاحب کا عملی تعاون، جس کے تحت مرتّب نے تُرکی سے آکر ایوانِ غالب ہی میں قیام کیا اور اپنی ہی نگہداشت میں اس مرحلے کی تمام منازل طے کیں۔ خاندانی افراد میں سیّد محمد ذوالفقار، اُن کے صاحبزادے سروش، بڑے بھائی عبدالماجد صاحب، اُن کے صاحبزادے ریحان ماجد کی تگ و دو اور انٹرنیٹ سے دو شہروں کے درمیان ترسیل کے سلسلے قابلِ ذکر ہیں۔
علاوہ ازیں سرورق کی مصوّری اور صفحۂ اوّل کی خطاطی عزیزم نعمان اشرف صدیقی کی مرہونِ منّت ہے جو سعودی عرب کی بحریہ میں ملازم ہیں اور جبیل میں مقیم ہیں، جن کی نوازش اور عنایت بھی میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔

ع. واحد​
 

الف عین

لائبریرین
مناجات


مناجات بفرمائش ناصر علی خاں ولی عہد جاورہ

اے خدا اے بادشاہ اے کارساز
اے خدا اے مالکِ بندہ نواز
گمرہی سے میری حالت ہے تباہ
معصیت کے زنگ سے دل ہے سیاہ
دین کے کاموں سے وحشت ہے مجھے
ناروا خوشیوں سے رغبت ہے مجھے
بندگی کا فرض مجھ پر بار ہے
میری نیکی سے بدی کو عار ہے
صدق سے خالی ہے مری زندگی
زندگی ہے سر بسر شرمندگی
میری طاعت بے اثر بے جان ہے
لفظ بے معنی مرا ایمان ہے
آپ خود اپنی نظر میں خوار ہوں
نفس اور شیطاں کا خدمت گار ہوں
پھنس گیا حرص و ہوس کے جال میں
پڑگیا دھوکے سے اک جنجال میں
میں ہوں اور دنیا کی جنت کے مزے
عیش کے عشرت کے راحت کے مزے
کام ہے بس مجھ کو اپنے کام سے
بے خبر ہوں کام کے انجام سے
یہ نہ جانا عیش ماتم خیز ہے
یہ نہ سمجھا شہد زہر آمیز ہے
قاعدہ تیرا بدل سکتا نہیں
آنے والا وقت ٹل سکتا نہیں
پھر ہیں بیگانے عزیز و یار سب
عقل و حکمت زور و زر بے کار سب
آتشیں دریا ہے اور منجدھار ہے
تو کرم کردے تو بیڑا پار ہے
پیشوائے مُرسلیں کے واسطے
رحمت للعالمین کے واسطے
تو نے نعمت دی ہے زحمت سے بچا
تو نے عزت دی ہے ذلّت سے بچا
لاج رکھ لے میری تو ستّار ہے
بخش دے سب جرم تو غفّار ہے
مہربانی سے بدل دے میرا حال
دور ہوں دل سے گناہوں کے خیال
ہے یہاں کی زندگی ناپائیدار
آخرت کی جائے ہے جائے قرار
وقتِ رخصت ایک تیرا دھیان ہو
مطمئن دل ہو، قویٰ ایمان ہو
تیری مرضی کے زباں پر ہوں کلام
سامنے آنکھوں کے ہو دارالسلام
قیدِ تن سے روح جب آزاد ہو
پاس تیرے شاد ہو آباد ہو
پوری فرما دے مری یہ آرزو
ہے ترے قران میں لاتقنطوا
نیک و بد پر عام ہے احساں ترا
ہو قبول احمد علی کی یہ دعا
۱۹۳۸ء
 

الف عین

لائبریرین
غزل

اُن سے ہر روز نہ ملنے کی شکایت کیسی
دل ناداں یہ حکومت پہ حکومت کیسی
دی بلندی مجھے اونچے سے گرانے کے لیے
یہ زمانے کی شرارت ہے عنایت کیسی
منزلِ یار بھی ہے سامنے دلدار بھی ہے
عیش فردوس ہے اے شیخ عبادت کیسی
رنج و راحت غم و شادی کے سبب ہیں معلوم
ہم سمجھتے ہیں فقط آپ کو قسمت کیسی
آنکھیں شرماتی ہیں نظروں کو جھجک ہوتی ہے
چشم بددور ملی تم کو لطافت کیسی
دین سے دور رہا کرتے ہیں دنیا سے نفور
وحشیوں نے ترے پائی ہے فراغت کیسی
صبر نے آکے ہلاکت سے بچایا دل کو
کام آتی ہے بُرے وقت رفاقت کیسی
لطفِ آغاز عیاں زحمتِ انجام نہاں
پھنس گئے جال میں ہم ہو گئی غفلت کیسی
نہ ہوئیں صوفی مغرور کی نذریں منظور
مل گئی خاک میں قارون کی دولت کیسی
جان دنیا سے جدا ہونے لگی جب سمجھی
کہ بری ہوتی ہے ناجنس کی صحبت کیسی
سازگاری سے بہم مل نہ سکے تُند حریف
ہو گئی دین میں دنیا میں عداوت کیسی
ملنے والے ترے سمجھے ہیں نہ سمجھوگے کبھی
صبر کیا چیز ہے ہوتی ہے قناعت کیسی
نہیں اے واعظو! مطلب سے کوئی دل خالی
بندگی اپنی غرض کی ہے عبادت کیسی
آج تک زندگی افسردہ دلی میں گزری
میرے حصے میں الم بھی نہیں راحت کیسی
مدعا زیر زمیں روئے زمیں پر تگ و دو
قبر میں ملتی ہے دنیا میں فراغت کیسی
سامنے وادیِ پُرخار ہے میں آبلہ پا
اے خدا تیری مدد چاہیے ہمّت کیسی
نغمہ سنجی ہے تری بلبلِ خوش لہجہ عبث
کان پھولوں کے ہیں بیکار سماعت کیسی
عشق سے مرتے ہو اور عشق پہ مرتے بھی ہو
مرض الموت سے احمدؔ یہ محبت کیسی
****
 

الف عین

لائبریرین
(اُسی بحر میں دوسری غزل)

آئے ہو بہر تسلّی تو اجازت کیسی
یہ تو رخصت ہے مری آپ کی رخصت کیسی
جان بے صبر ہے جاتی رہی غیرت کیسی
ہوئی نازل یہ مصیبت پہ مصیبت کیسی
ہم نہیں جانتے بیگانگی کہتے ہیں کسے
تم نہیں جانتے ہوتی ہے مروت کیسی
غلغلہ آہ و بکا شور و فغاں واویلا
دھوم سے آئی مرے گھر شبِ فرقت کیسی
قتل فرماؤ تو احسانِ شہادت سمجھوں
یہ عقیدت ہے تو پھر مجھ سے عداوت کیسی
دوستو مجھ کو بڑا کہتے ہو دیکھو تو ذرا
چال کیسی ہے ادا کیسی ہے صورت کیسی
میکدے میں تمھیں دیکھا تو کہا اے زاہد
یہ خدا جانے کہ تھی آپ کی نیت کیسی
کامیابی پہ مرے جلتے ہیں ناحق دشمن
یہ بھی دیکھیں کہ اٹھائی ہے مشقّت کیسی
دلِ ناداں غمِ الفت کو غذا سمجھا ہے
زہر کھانے کی اسے ہو گئی عادت کیسی
خود ہی تم دیکھ لو کیسے ہیں تمھارے برتاؤ
پوچھتے کیا ہو کہ ہے تیری طبیعت کیسی
عقل ہے جان ہے ایماں ہے غرض جو کچھ ہے
مال ہے آپ کا لے لیجیے قیمت کیسی
اُس طرف شرم و حیا اور ادھر پاسِ ادب
ہو گئی عین ملاقات میں فرقت کیسی
میں ہی بن جاتا ہوں خود اپنی شکایت کا جواب
سامنے اُن کے بدل جاتی ہے صورت کیسی
چارہ یہ ہے کہ تغافل ہی سے باز آجائیں
میں کہ تم سے بھی ہوں محروم عنایت کیسی
سخت مشکل ہے کہ جن باتوں سے توبہ کی تھی
پھر انھیں باتوں میں لگتی ہے طبیعت کیسی
مست ہوں رقص پہ آنکھیں ہیں تو نغموں پر کان
بے محل حضرتِ واعظ یہ نصیحت کیسی
بے طلب محفلِ اغیار میں پہنچے احمدؔ
شرم آتی نہیں جاتی رہی غیرت کیسی
باز آ باز آ یہ طور بُرے ہیں احمد
دور از حال تری ہو گئی حالت کیسی
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

ان سے شکوہ کیا جاہل ٹھہرا
میں ہی خود پردۂ حائل ٹھہرا
عشق ناکام نہیں ہوسکتا
وہی رستہ وہی منزل ٹھہرا
نہ ملی کون و مکاں میں راحت
تم کو دیکھا تو میرا دل ٹھہرا
ڈھنگ ملنے کے نرالے دیکھے
مٹ گیا جو وہی واصل ٹھہرا
جو ہوا آپ کا منظورِ نظر
وہی شایانِ سلاسل ٹھہرا
ہوئی کونین سے الفت سب کو
تو جو کونین کا حاصل ٹھہرا
مقصدِ خاص تھا جس دل میں رقم
وہی دل صفحۂ باطل ٹھہرا
بٹ گیا تفرقہ نفس و کمال
جسے دیکھا وہی کامل ٹھہرا
مے کشوں کو ترے تسکین کہاں
بحرِ ذخار بھی ساحل ٹھہرا
چشم ہر سو نگراں پیدا کر
کھائی چوٹ اس نے جو غافل ٹھہرا
تھا فلک سے بھی سوا طاقت میں
جو ترے راز کا حامل ٹھہرا
پھر کسی دید کے قابل نہ رہا
جو تری دید کے قابل ٹھہرا
خضر بھی چھوڑ گئے رستے میں
شوق سالارِ قوافل ٹھہرا
زندہ وہ تھا جو رہا مثل چراغ
جل کے بھی رونقِ محفل ٹھہرا
حیف اے دل کہ رہا تو محروم
آئینہ دید کے قابل ٹھہرا
ہم وہ آئینہ ہیں جو آئینہ
آئینہ گر کے مقابل ٹھہرا
دو جہاں دیں تو توجہ نہ کرو
میں فقط آپ کا سائل ٹھہرا
غیرتِ عشق اگر ہے احمدؔ
دوسروں کو نہ وسائل ٹھہرا
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل



پھر نہ جنت میں بھی وہ دل ٹھہرا
جو ذرا تیرے مقابل ٹھہرا
ساربان کچھ تو مرا دل ٹھہرے
دے ذرا ناقۂ محمل ٹھہرا
مرنے جینے کو میرے طے نہ کیا
تمھیں یہ کام بھی مشکل ٹھہرا
صاف دل میں ہے ترے ظلم کا نقش
جس طرح رخ پہ ترے تِل ٹھہرا
کیا سحر ہے کہ تری آنکھوں میں
سرمہ بھی جادوئے بابل ٹھہرا
اُسے دیکھا تو ہوئے سب خاموش
جھوٹ سچ قصہ باطل ٹھہرا
راز کا پاس تھا ہم کو ورنہ
اس طرح کب کوئی بسمل ٹھہرا
دین کو رو ہی رہا تھا کہ مجھے
روکنا جان کا مشکل ٹھہرا
مجھ کو دوزخ میں جلاتا ہی رہا
پھر بھی تو حور شمائل ٹھہرا
چشم بددور ترا جوش طرب
نالہ آہنگِ عنادل ٹھہرا
خود کشی عشق کو سب کہتے ہیں
جو مری زیست کا حامل ٹھہرا
فتنہ پرداز کو دی تھی ترغیب
اپنا میں آپ ہی قاتل ٹھہرا
کچھ تو احساس تجھے بھی ہو مرا
کوئی تو مدِ مقابل ٹھہرا
میرے رونے پہ تری بزم ہے خوش
نوحہ گر مطرب محفل ٹھہرا
پیچ در پیچ تمھاری باتیں
اور میں سادہ خصائل ٹھہرا
سب نے مانا تھا مسیحا جس کو
وہ مرا دشمنِ قاتل ٹھہرا
موت سے کام مجھے کیا احمدؔ
اُس کے مقتولوں میں داخل ٹھہرا
****
 

الف عین

لائبریرین
غزل

یہ دل جاں سے گزر جائے تو اچھا
وفا میں نام کر جائے تو اچھا

مجھے دیکھا طبیبوں نے تو بولے
کہ یہ بیمار مرجائے تو اچھا

مجھے راحت ہے مرجانا بھی لیکن
شبِ فرقت گزر جائے تو اچھا

بہت دلچسپ ہے ناصح تری بات
مگر دل میں اتر جائے تو اچھا

کہاں تک خوف بہ سیل و حوادث
اگر سر سے گزر جائے تو اچھا

دمِ آخر کا حال اُن کو نہ بھیجو
وہاں پوری خبر جائے تو اچھا

عزیزوں سے کیا احمدؔ نے انکار
وہ ظالم بھی مُکر جائے تو اچھا
 

الف عین

لائبریرین
غزل
(ذوقؔ کی زمین میں)


لطف ہر بات سے ہر حال میں حاصل ہوتا
ذوقِ الفت سے خبردار اگر دل ہوتا
دل نہیں سنگ سے بدتر ہے اگر دل ہوتا
ایک آئینہ ترے منہ کے مقابل ہوتا
نہ ملا مقتلِ عشاق میں زاہد کا پتہ
آتا میدان میں گر وہ کسی قابل ہوتا
شوقِ دیدار میں اتنا تو اثر ہو مجنوں
دامنِ چاک ترا پردۂ محمل ہوتا
کچھ تجھے کچھ مجھے دونوں کو مزہ آ جاتا
تیری دزدیدہ نگاہوں سے جو بسمل ہوتا
ہمیں مل جائیں اگر دیکھنے والی آنکھیں
خار بھی گل کا یہاں دید کے قابل ہوتا
اٹھ گئے یار سب آغازِ محبت ہی میں
پار ہوتے اگر اس بحر کا ساحل ہوتا
دیکھ سکتی اسے اے دیدہ دیدار طلب
رخِ روشن جو مثال مہِ کامل ہوتا
دم نکل جاتا خوشی سے یہ بشارت سن کر
جو مرے قتل پہ آمادہ وہ قاتل ہوتا
صبر اور ہجر کی ایذا پہ بہت مشکل تھا
چیخ اٹھتا جو تری یاد سے غافل ہوتا
مل نہ جاتی جو اسے آہ و فغاں کی رخصت
سانس لینا ترے دل خستہ کو مشکل ہوتا
جس پہ قرباں ہے احمدؔ وہ ادا ہے کچھ اور
بوالہوس تھا جو تری شکل پہ مائل ہوتا
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل



ہے یہی یار کی خوشی نغمہ شکر گائے جا
رنج و الم اٹھائے جا چوٹ پہ چوٹ کھائے جا
جو تیرے جاں نثار ہیں دیر سے بے قرار ہیں
تیرِ نظر چلائے جا چشم خوں بہائے جا
مجھ کو ہے اے ستم شعار شرکتِ غیر ناگوار
صرف مجھے ستائے جا صرف مجھے منائے جا
ہوں تو ہوں راہ میں خطر راہ روئے حرم نہ ڈر
عین ظفر ہے یہ سفر آگے قدم بڑھائے جا
ہوش میں آ چلے ہیں ہم مطرب خوش نوا نہ تھم
ساز وہی بجائے جا راگ وہی سنائے جا
وہم و گماں کا جوش ہے جان و بدن کا ہوش ہے
دل میں ابھی سمائے جا نقش خودی مٹائے جا
بارشِ ابر ہو ادھر تابش برق ہو اُدھر
روئیں گے ہم بھی زار زار تو یوں ہی مسکرائے جا
سن کے پیام کیا کہا ہنس کے جواب کیا دیا
قاصدِ خوش خبر مجھے ذکر یہی سنائے جا
گرتی ہیں بجلیاں گریں جلتی ہیں بستیاں جلیں
زیرِ نقاب کچھ نہ کچھ اپنی جھلک دکھائے جا
پوری اگر ہے جستجو ہوکے رہے گا روبرو
احمدؔ رہ نورد تو اُس کا پتہ لگائے جا
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

گھنی زلفوں میں الجھایا گیا ہوں
بلا کے پیچ میں لایا گیا ہوں
محبت کے طریقے مجھ سے پوچھو
بہت اس راہ میں آیا گیا ہوں
بڑے دلکش تھے تاج و تختِ شاہی
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
مری فریاد بے معنی سنے کون
بغیر آتش کے جلوایا گیا ہوں
یہ مجھ پر بے سبب ظلم و ستم کیوں
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
یہ ذلت ہے مجھے عزت سے بہتر
تری ٹھوکر سے ٹھکرایا گیا ہوں
کہاں پاؤں ٹھکانہ بیٹھنے کا
تری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
بھلا اب کس کے در پہ سر جھکاؤں
فرشتوں سے میں پُجوایا گیا ہوں
میں ہوں اسرارِ فطرت کا خزینہ
دلِ انساں میں دفنایا گیا ہوں
کہاں قیدِ توہّم سے رہائی
بہت مضبوط بندھوایا گیا ہوں
لگے کیا دل مرا ویراں جہاں میں
کہ جنت سے نکلوایا گیا ہوں
سمجھنے سے مرے حکمت ہے عاجز
بہت پیچیدہ بنوایا گیا ہوں
مصیبت سے نہیں اک دم جدائی
میں جب سے ہوش میں لایا گیا ہوں
مجھے کیا کامیابی سے خوشی ہو
ہزاروں بار ترسایا گیا ہوں
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

زہر دیتے بھی نہیں زعم مسیحائی بھی
تپ فرقت ہے طبیبو! غمِ تنہائی بھی
حسن اور حسن پہ ہے دعوے یکتائی بھی
بدلی نیت کی طرح سمت جبیں سائی بھی
موت کے منہ میں جیا کرتے ہیں زخمی تیرے
زہر بھی ہے دم خنجر میں مسیحائی بھی
عشق کے حملہ اول ہی میں دل ختم ہوا
ہوش پرواں ہوئے ٹھہری نہ توانائی بھی
جب گری برقِ تجلی تو رہا خشک نہ تر
آگ میں اہلِ نظر بھی ہیں تماشائی بھی
اپنی آزادی کو روتی ہے قفس میں بلبل
آئی کیا خاک جو اُس وقت سمجھ آئی بھی
ساری امیدیں تر و تازہ ہیں آخر دم تک
ہیں غضب تیرے ستم بھی ستم آرائی بھی
جب مری جاں سے ہے وابستہ تری مشق ستم
جور کے ساتھ ہو کچھ حوصلہ افزائی بھی
مدد اے خضر کے رستے ہیں بہت پیچیدہ
فکر گردش میں ہے چکر میں ہے دانائی بھی
ہوں صفا کیش تو اغیار ہیں یاروں سے سوا
نہ ہو اخلاص تو اغیار بھی ہیں پھر بھائی بھی
اک ترے غم نے کیا سارے غموں کو زائل
ہے فلاطون زمانہ ترا سودائی بھی
آبِ رحمت کی جگہ برق ہی گرتے دیکھی
گر مری خشک زراعت پہ گھٹا چھائی بھی
عشق ہے عشق تو پھر ہجر کی برداشت کہاں
چارہ بے فائدہ بے کار شکیبائی بھی
اس نے تو آپ بلایا تھا کہ حالات سنے
میں ہی گم ہوگیا جاتی رہی گویائی بھی
اے خرد ہم پہ گراں ہے یہ ترا لطفِ مدام
دلِ بیمار کو درکار ہے تنہائی بھی
بُتِ مغرور کی ٹھوکر بھی میسّر نہ ہوئی
کی عزیزوں نے بہت ناصیہ فرسائی بھی
ان سے ملنے کے لیے شوقِ طلب تھا رہبر
بے خبر عقل تھی نادان تھی دانائی بھی
چشمِ بیمار کی چولیں بھی نہ سنبھلیں اے دل
دیکھ لی ہم نے تری معرکہ آرائی بھی
چھوڑا اس قصے کو اے نامہ بر اتنا کہہ دے
پائی جاتی ہے کچھ امیدِ پذیرائی بھی
کھوج اس آہوئے رم دیدہ کا ملنا معلوم
بادہ پیما تھی یہ بادیہ پیمائی بھی
خوف ہے رنگ بنا لائیں نہ دونوں مل کر
سادگی بھی تری آفت ہے خودآرائی بھی
کی نئے جور کی تمہید جو اُس ظالم نے
حال پر میرے عنایت کوئی فرمائی بھی
اپنی کچھ فکر نہیں راز نہاں کا ہے خیال
میری رسوائی میں ہے آپ کی رسوائی بھی
خویش و احباب کو جن کے لیے تم نے چھوڑا
احمدؔ ان کو نہیں اقرارِ شناسائی بھی
*****
 

الف عین

لائبریرین
غزل

رنج وغم سے باغ دنیا کی فضا خالی نہیں
جس میں گل بے خار ہوں ایسی کوئی ڈالی نہیں
ہیں جوان و پیر اُس کے دامِ گیسو میں اسیر
قحبۂ دنیا کسی کو چھوڑنے والی نہیں
کچھ نہیں آتا سمجھ میں آپ کا سحر و فسوں
جاورے کا رہنے والا ہوں میں بنگالی نہیں
قتل سے بچنے کی مجھ پر بدگمانی کیوں ہوئی
آج تک میں نے کوئی بات آپ کی ٹالی نہیں
سادہ گو ہوں میں نہیں آتیں سخن آرائیاں
لیکن اے شاعر یہ حالِ دل ہے نقالی نہیں
خوں چکانی کی عجب ایجاد ہے اے نیش عشق
جلد سینے پر مرے چسپاں ہے یہ جالی نہیں
منزلِ اول ہی میں دہری الجھ کر رہ گیا
اس کی نظروں میں یہ باغ دہر ہے مالی نہیں
میکدے میں کم ہیں رندوں کی سیہ مستی کے جوش
بدلیاں کعبے سے آئی ہیں مگر کالی نہیں
رفتہ رفتہ شادمانی کی امنگیں مٹ گئیں
نام کی ہے زندگی جب فارغ البالی نہیں
پہلے ہی حملے میں عقل و دیں کو غارت کردیا
تیری آنکھیں ہیں بہت عیار متوالی نہیں
واپسیں دم تک رہا فرقِ مراتب کا لحاظ
ہم نے اپنی بات اُن کے کان پر ڈالی نہیں
دل وہ پتھر ہے جو ذوقِ دید سے محروم ہو
آنکھ ہے کس کام کی گر دیکھنے والی نہیں
گوشِ محرم چاہیے رندوں کے رمزوں کے لیے
شیخ یہ اسرار کی مجلس ہے قوالی نہیں
دل لگاکر کچھ نہ کچھ لکھیں بھی تو احمدؔ علی
لیں سخن کی داد کس سے ہند میں حالیؔ نہیں
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

بر زمینِ بہادر شاہ ظفر

خلشِ غم تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
اشک ریزی سرِ محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
شبِ فرقت، شبِ رحلت ہی نہ ہو اے یارو
کہ مری جان پہ مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جب نہیں کچھ بھی تو بدلے ہوئے تیور کیسے
تیز چتون تری قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
دل نے دنیا سے کیا قطعِ تعلق شاید
کہ فراغت مجھے حاصل کبھی ایسی تو نہ تھی
کستے جاتے ہیں مگر نارِ نظر کے پھندے
مجھے تکلیف سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی
نزع ہے موت نہیں دیکھیے کیا ہو انجام
کوئی اس راہ میں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی
جل گئی قہر کی گرمی سے مری کشتِ امید
تیری عادت مہِ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی
کیا نظر بھی تری بدلی مری قسمت کی طرح
جو مرے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی
کاش خلوت کا ارادہ ہو کہ جلوت اُن کی
جسم اور جان میں حائل کبھی ایسی تو نہ تھی
لٹ گیا قافلہ پھولوں کا چمن میں شاید
سُنی فریادِ عنادل کبھی ایسی تو نہ تھی
روؤں تو ہنستے ہیں شکووں پہ خفا ہوتے ہیں
بات بگڑی ہوئی اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
کچھ ہوا قصدِ تلافی کہ طبیعت اُن کی
میری دلجوئی پہ مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
چوٹ کچھ دل میں لگی ہے نگہ بسمل کی
مضطرب شوخیِ قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی
ناخدا پیش نہ آئے کہیں طوفانِ بلا
کہ مجھے حسرتِ ساحل کبھی ایسی تو نہ تھی
ضبط شاید کششِ حسن سے مغلوب ہوا
روح پرواز پہ مائل کبھی ایسی تو نہ تھی
نذرِ جاں لے کے وہ خوش بھی ہیں کرم پر ہے کرم
جنس یہ قدر کے قابل کبھی ایسی تو نہ تھی
جان بیتاب ہے اور موت کے آثار احمدؔ
غم زدہ رخصت محمل کبھی ایسی تو نہ تھی
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل
آغا جان عیشؔ کی زمین میں

جب دیا دل کہ دل دیے ہی بنی
وہ کیا کام جو کیے ہی بنی
اُس کو دیکھا تو دل دیے ہی بنی
پھر جو اس نے کہا کیے ہی بنی
دیے امید نے بڑے دھوکے
اُن نصیبوں پہ بھی جیے ہی بنی
سحر تھا التفاتِ ساقی میں
جس کو ساغر دیا پیے ہی بنی
رازداری رہی جنوں میں بھی
چاک سینے کے تھے سیے ہی بنی
شوق نے کردیا ہمیں ناچار
جو نہ کرنا تھا وہ کیے ہی بنی
کیسے بچتے کہ اُن کا ایما تھا
بار سر پر اٹھا لیے ہی بنی
دشمنِ جاں ہوئی وفاداری
مر رہے تھے مگر جیے ہی بنی
تھک گئے تھے اٹھا اٹھا کے ستم
چھپ کے مرقد میں دم لیے ہی بنی
اُن کے تارِ نظر سے آخرکار
زخمِ تیرِ نظر سئے ہی بنی
دیکھتا کیوں کر اُن کی ناامیدی
جان مطلوب تھی دیے ہی بنی
مضطرب کی دعا خدا کی پناہ
ان کو خود معذرت کیے ہی بنی
مدتوں نزع میں رہے آخر
بیوفائی ہمیں کیے ہی بنی
اس مصیبت کا لیں وہ کیوں الزام
جو مصیبت مرے لیے ہی بنی
جب دیا اس نے بزمِ غیر میں جام
زہر کا گھونٹ تھا پئے ہی بنی
عشق پر بس نہ چل سکا احمدؔ
سر تسلیم خم کیے ہی بنی
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

تن من میں ایک آگ سمائی ہوئی سی ہے
یہ خود نہیں لگی ہے لگائی ہوئی سی ہے
پرہیز یادِ یار سے کیوں کر ہو اے طبیب
تصویر اس کی دل میں سمائی ہوئی سی ہے
وہ اور مجھ کو پوچھنے آئیں، نہیں نہیں
یہ بات نامہ بر کی بنائی ہوئی سی ہے
اے غمگسار ہم ہیں ازل سے شکستہ دل
جو دل پہ چوٹ آئی ہے کھائی ہوئی سی ہے
آنکھوں کا رنگ و روپ تو آنکھوں سے دیکھ جاؤ
پتلی ہر ایک خوں میں نہائی ہوئی سی ہے
کیا جانے وہ ابھی ستمِ ہجر بعدِ وصل
تدبیر یہ کسی کی بتائی ہوئی سی ہے
جاری ہر ایک سانس پہ ہے موت کا عمل
آئی نہیں قضا مگر آئی ہوئی سی ہے
جاں جفا پسند کو راحت کہاں نصیب
کم بخت کچھ ازل کی ستائی ہوئی سی ہے
کیا حفظِ راز ہو کہ سمجھنے لگے عزیز
لگتی نہیں جو آنکھ لگائی ہوئی سی ہے
ہستی ہماری اُس متکبّر کے سامنے
اک مشتِ خاک وہ بھی اڑائی ہوئی سی ہے
راضی ہیں ہم رضا پہ تری اے ستم شعار
احمدؔ کی ہر مراد برائی ہوئی سی ہے
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل
یوں عالم خراب بنا اور بگڑ گیا
گویا طلسم خواب بنا اور بگڑ گیا
نقشہ تھا وہ ہماری حیات و ممات کا
دریا میں جو حباب بنا اور بگڑ گیا
کیا کہیے کیا نہ کہیے جو وہ نکتہ چیں ملے
سو بار یہ حساب بنا اور بگڑ گیا
اچھی تھی شکل بدر کی گھٹنے سے گھٹ گئی
رُخ کا ترے جواب بنا اور بگڑ گیا
نازاں ہے شیخ قدرے مقامِ بلند پر
یہ خانماں خراب بنا اور بگڑ گیا
پھر دل کو سوزِ دل طلب ذوقِ نو کی ہے
یعنی جگر کباب بنا اور بگڑ گیا
طوفان اشک و آہ و فغان سے ہزار بار
بالائے سر سحاب بنا اور بگڑ گیا
ہو عُمر عمرِ نوح بھی تو اعتبار کیا
دنبالہ شباب بنا اور بگڑ گیا
بے درد تو نے کی نہ مرے آنسوؤں کی قدر
کیا کیا درِخوشاب بنا اور بگڑ گیا
رند شکستہ حال کے مدفن کی خاک تھی
جو ساغرِ شراب بنا اور بگڑ گیا
سب زندگی نمائشِ امید و یاس تھی
پیشِ نظر سراب بنا اور بگڑ گیا
سب ولولے مٹا دیے فکرِ مآل نے
ہنگامہ شباب بنا اور بگڑ گیا
ایسا مکاں بنا کہ ہمیشہ بنا رہے
یہ کیا کہ اک حباب بنا اور بگڑ گیا
جمنے لگی ہے چہرے پہ کچھ کچھ نگاہِ شوق
جلوہ ترا کتاب بنا اور بگڑ گیا
احمدؔ جہاں میں عیش جہاں کی نمود کیا
ساغر میں اک حباب بنا اور بگڑ گیا
***
 

الف عین

لائبریرین
غزل

ہوا زاہد بھی آخر معترف سوزِ محبت کا
کہ سیدھا راستہ نکلا اسی دوزخ میں جنّت کا
کہاں اب وصل کے نغمے کہاں اب ہجر کے نوحے
کہیں ہنسنا ہے غفلت کا کہیں رونا ہے شامت کا
جہاں مشتاق محشر خیز جلوہ حسن بے ہمتا
مناسب تھا جو اُس نے وعدہ فرمایا قیامت کا
کوئی مظلوم سہ سہ کر جفائیں مرگیا شاید
رہی امید راحت کی نہ اندیشہ مصیبت کا
مقدر کا لکھا ہوتا ہے پر اکثر یہ دیکھا ہے
موافق تیری مرضی کے عمل ہے میری قسمت کا
جو یوں آساں نہیں اس کی ادائیں دلفریبی میں
ہمیں کھانا پڑا دھوکا مدارا پر عنایت کا
فلک نے چاند اور سورج کو لے کر مدتوں ڈھونڈا
نہ پایا تیری سیرت کا نہ دیکھا تیری صورت کا
ہوئی ہے شب کہاں دشتِ طلب کے جادہ پیما کو
جہاں ہردم ہے دن کی روشنی میں خوف غارت کا
یہ مانا عشق عصیاں ہے مگر اے مہرباں واعظ
ہمارا جرم ضامن ہوگیا خود ہی شفاعت کا
جدائی میں رہا تیرا مریض سخت جاں برسوں
مثالِ جاں بلب کوئی گھڑی کا کوئی ساعت کا
ذرا سی رہ گئی ہے اے فلک آرام لینے دے
نہ میں سائل ہوں عزت کا نہ میں طالب ہوں عشرت کا
محبت نے مجھے محفوظ رکھا ہر مصیبت سے
تباہی خیز تھا حملہ زمانے کی عداوت کا
نکالا آپ نے کوچے سے اپنے اور ہم نکلے
مگر کس طرح گویا قصد ہے دنیا سے رحلت کا
نہ اتنا تنگ کر ظالم کہ نوبت آہ تک پہنچے
لب فریاد مضطر قفل ہے بابِ اجابت کا
لبوں تک آتے آتے خندہ شیون بن گیا احمدؔ
بہت مشکل ہے دل میں بند رکھنا جوشِ حسرت کا
***
 
Top