بادۂ کہن۔ مولوی احمد علی

الف عین

لائبریرین
تاریخ تعمیر مزارِ حضرت ابو سعید شہیدؒ
در وسطِ ہند برتری شہرِ جاورہ
ایں بس کہ ہست جائے قرارِ ابوسعید
نواب افتخار علی خاں امیرِ ملک
دارد بجاں عقیدہ بہ کارِ ابوسعید
برجیس قدر ناصر علی خاں ولی عہد
بیتِ رخام ساخت بہ دارِ ابوسعید
احمد برائے سال جو ارشاد یافتم
گفتم محیط فیض مزار ابوسعید ۱۳۵۸ھ
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ دختر
فضلِ یزداں عبیدہ خاتون
ماں باپ کی جاں عبیدہ خاتون
آخر مصرع ہے نام و تاریخ
ہیں زیب مکاں عبیدہ خاتون
(۱۳۴۳ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ پسر
فضلِ خدا دار محمد عابد
نیک اطوار محمد عابد
مخفی مصرع میں ہے نام و تاریخ
عزت آثار محمد عابد
(۱۳۴۸ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ پسر
۲مطیع بردار حکم اللہ و نبی
باتیں اچھی ہیں ان کی خصلت اچھی
کہہ دو جو نام و سال پوچھے کوئی
عبدالماجد ہیں نیک بختِ ازلی
(۱۳۵۰ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ پسر
۳اک بھائی ان کے محمد عابد
دوسرے بھائی عبدالماجد
سالِ ولادت اور نام ان کا
خورشید طالع عبدالواحد
(۱۳۵۶ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ پسر
۴شادابی کشت ہیں محمد ساجد
ریحان بہشت ہیں محمد ساجد
تاریخِ ولادت ان کے نام کے ساتھ
مقبول سرشت ہیں محمد ساجد
(۱۳۶۲ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخ ولادتِ پسر
۵دانشور و حق پسند خالد
عالمِ کونین پسند خالد
ہے نام کی ابتدا محمد
فرزند ارجمند خالد
(۱۳۶۶ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخِ وفات نصرت محمد خاں چیف جج دربارِ جاورہ
بہ فرمانِ خدا آمد بہ صدرِ دولتِ دیواں
ربود آرامِ جاورہ بہ ایں رنج بے درماں
برآمد سالِ رحلت از دو جزو حادثہ احمد
بہم پیوست زیب جنت و نصرت محمد خاں
(۱۹۵۵ء]۱۳۸۳۴۷۲ھ)
 

الف عین

لائبریرین
تاریخِ وفات برادرِ کلاں حافظ قاری زین العابدین صاحب
بھائی زین العابدین کی رحلت پر احمدؔ تاریخ
حج کے ماہ کی سولہ اور سن تیرہ سو چھبیس کہو
(۱۳۲۶ھ)
 

الف عین

لائبریرین
ایک شعر
عالمِ عشق میں آغاز ہے انجام نہیں
صبح اس ملک میں ہوتی ہے مگر شام نہیں

ایک شعر
کرو نہ یاد جفا و وفا ہوا سو ہوا
یہ فکر عہد گزشتہ میں کیا ہوا سو ہوا
 

الف عین

لائبریرین
مختصر غزل
شوق جو دل میں چھپا رکھا تھا کام آہی گیا
آخر اُن کی مہربانی کا پیام آہی گیا
آپ اپنی چارہ گر نکلی مری دیوانگی
خود وہ مجھ کو پوچھنے بالائے بام آہی گیا
تھا سفر سے جسم درماندہ مگر ہمت رہی
استراحت کے لیے آخر مقام آہی گیا
کجروی کے پیچ و خم سے بچ کے یہ نادم غلام
آپ کی خدمت میں اے شاہ انام آہی گیا
 

الف عین

لائبریرین
ایک شعر
ہمارا منہ ہے جو چپ چاپ سب کی سنتے ہیں
بگڑ گئے تو عدو کیا پھر آسماں بھی ہیچ
تین شعر
قصوروار بری ہوں قصور ہے لیکن
بڑا قصور ہے پاجائیں بے قصور سزا
کٹیں وہ ہاتھ جو رشوت کے واسطے ہوں دراز
جلیں وہ دل نہ کریں جو حقوق کی پروا
گماں ہے جرم کی لذت سے پھر پھنسے مجرم
بدل پزیر نہیں بے گناہ کی ایذا

مزید تین شعر
اگرچہ ہے بشری جدوجہد نامحصور
غرض ہے ایک رہیں شاد فطرتاً منظور
امیر شال میں ہے یا فقیر کھال میں ہے
ہر ایک حال میں ہے اُنس کی کشش مستور
جب اپنے اپنے لواحق سے دل ہوئے خوگر
پھر اُنکی رات میں ظلمت نہ اُنکے دن میں نور
 

الف عین

لائبریرین
متفرق اشعار
(۱)
وہ کام ہو کہ مخالف زباں ہلا نہ سکے
وہ نام ہو کہ جسے آسماں مٹا نہ سکے

(۲)
میرے رونے پہ عدو شاد نہ ہوں بھول نہ جائیں
کہ اُسی طرز پہ ہے گردشِ ایام ابھی

(۳)
ہر ایک کے دن کچھ تو گزرتے ہیں خوشی سے
بے درد فلک تجھ کو عداوت ہے مجھی سے

(۴)
جو چاہا آپ نے کیا جو چاہو کیجیے
کیوں مجھ سے باز پُرس یہ جھگڑے کہاں کے ہیں

(۵)
نخل پتھر کھاکے دیتا ہے ثمر
ظلم کے بدلے مدارا چاہیے

(۶)
کریں گے آہ اثر ہو تو ہو نہ ہو تو نہ ہو
انھیں ہماری خبر ہو تو ہو نہ ہو تو نہ ہو
 

الف عین

لائبریرین
دو شعر
نوک اور پلک سے بھی ہے نکلتی کبھی کبھی
میری نگاہ میری نظر سے اُتر گئی
نورِ کرم سے فائدہ عصمت کی حور کو
موتی کی تھی جو اب اترتے اُتر گئی

تین شعر
یہ سچ سہی پدرِ ما امیر و سلطاں بود
مگر امارتِ مرحوم سے ہمیں کیا کام
چچوڑتے ہیں بزرگوں کی ہڈیاں وہ لوگ
جو اپنی ذات میں پاتے نہیں ہیں کوئی نام
سنبھل سنبھل کے قدم پھونک پھونک کے رکھنا
چھپے ہوئے ہیں ترے راستے میں سیکڑوں دام

تلسی داس کا دوہا اور اس کا ترجمہ
دوہا
رام چھبی کم کروں بکھاتی
بانی اینن اینن بن جاتی
ترجمہ
جمالِ یار بیروں از بیانست
زباں بے دیدہ دیدہ بے زبانست

ایک مطلع
تقوی پر اعتماد فریب خیال تھا
ملتے ہی آنکھ ہوش میں آنا محال تھا
ایک طویل مطلع
وہ کہتے ہیں دل تو کچھ بھی نہیں میں کہتا ہوں سب کچھ دل ہی تو ہے
کی عرض کہ ہے یہ بیت اللہ فرمایا آب و گل ہی تو ہے
دو دوہے
(۱)
تیر تفنگ کی چوٹ سے اوٹ ہوئے بچ جائے
دو نیناں کی چوٹ سے اوٹ ہوئے مرجائے
(۲)
پیتم ہم تم ایک ہیں کہن سنن کو دوئے
من سے من کو تولیے دو من کبھی نہ ہوئے
مندرجہ بالا دوہوں کا بیاض میں اندراج ہے۔ لیکن صحت نہیں، دوہے مرحوم کی تخلیق تھے یا محض۔ پسند آئے تھے اور بیا،ض میں درج کرلیے گئے (مرتّب)
 

الف عین

لائبریرین
از قصیدہ گمشدہ، مرتّبہ ۱۹۰۲ء

اے ہماری جان سے پہچان سے باہر خدا
شکر یہ تیرے کرم کا ہو نہیں سکتا ادا
چرخ سورج چاند تارے صاعقہ رعد اور برق
جانور پتھر شجر خار آگ پانی اور ہوا
تیری رحمت کے مظاہر لمحہ لمحہ جلوہ گر
تیری نعمت کے مناظر جابجا صورت نما

قبل از ۱۹۰۷ء

دو رکعتیں ادا کیں گیسو جو رُخ سے سرکا
زہادِ بے خبر کو دھوکا ہوا سحر کا
طوفان اشک میں بھی اٹھتے ہیں سر سے شعلے
جلنا تو دیکھ جاؤ ڈوبے ہوئے شجر کا
فرقت کی تیرہ شب میں شمع حیات عاشق
رہتی ہے جھلملاتی جیسے دیا سحر کا
سچ کہہ رہا ہے قاصد سمجھیں گے وہ نہ صادق
ہاں خط کے ساتھ لے جا ٹکڑا کوئی جگر کا

ایضاً قبل از ۱۹۰۷ء

ابھی سے پڑ گئے ہمت کے پاؤں میں چھالے
ہے آگے وادیِ پُرخار دیکھیے کیا ہو
ہوا ہے جس سے نہ جاں بر کوئی مریض وہی
لگا ہے جان کو آزار دیکھیے کیا ہو

ایضاً قبل از ۱۹۰۷ء

حضرت دل کیا کسی سے چار آنکھیں ہو گئیں
کہئے تو کیوں نقش بر دیوار آنکھیں ہو گئیں
جس طرف پلٹیں صفیں اُلٹیں کئے میدان صاف
ذوالفقار حیدر کرار آنکھیں ہو گئیں
کون سا وہ میکدہ ہے جس کے دو ساغر ہیں یہ
اُن کی آنکھیں دیکھ کر سرشار آنکھیں ہو گئیں
 

الف عین

لائبریرین
ناتمام

ضبط کب تک رازِ پنہاں آشکارا ہو تو ہو
اُن سے ملیے عزت و جاں کا خسارا ہو تو ہو
راستہ دشوار منزل دور مقصد ناپدید
طے سفر اُس کی عنایت کا سہارا ہو تو ہو
ہجر میں چاروں طرف اندھیر ہی اندھیر ہے
روشنی آنکھوں میں وہ آنکھوں کا تارا ہو تو ہو
ناز سے جو آسماں پر بھی قدم رکھتے نہیں
اُن سے ملنا، اوج پر اپنا ستارا ہو تو ہو
صبر اور پرہیز کی تاثیر میں کچھ شک نہیں
یہ علاج اے چارہ ساز دل ہمارا ہو تو ہو
قفل وہ بھی زنگ بستہ کب کھلے کنجی بغیر
دل کشادہ تیری نظروں کا اشارہ ہو تو ہو
منحرف قسمت جہاں برگشتہ وہ بیداد گر
احمدؔ ایسی زندگی تم کو گوارا ہو تو ہو
 

الف عین

لائبریرین
ناتمام

تصوّر سے ترے دل خوش ہے اس کو شاد رہنے دے
وہ گھر جس گھر میں تو آباد ہے آباد رہنے دے
بہار آئی ہے گلبن جھومتے ہیں پھول ہنستے ہیں
کوئی سنتا نہیں بلبل تری فریاد رہنے دے
نشانہ مجھ کو تیروں کا بنا گر تیرا دل چاہے
مگر اپنی گلی میں اے ستم ایجاد رہنے دے
 

الف عین

لائبریرین
ناتمام
میں دامِ آزمودہ نہ صیاد دیدہ ہوں
وحشت مری سرشت ہے از خود رمیدہ ہوں
بے کار جدوجہد ہے اے مہربانِ طبیب
افعی گزیدہ میں نہیں مردم گزیدہ ہوں
غمگین کس مپرسی کی بود و نمود کیا
میں دیدہ یتیم کا اشکِ چکیدہ ہوں
ہم سینہ چاک عشق سے شرمندہ عذر خواہ
مجنوں کو ناز ہے کہ گریباں دریدہ ہوں
 
Top