کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
اے وعدہ فراموش رہی تجھ کو جفا یاد
یہ بھول بھی کیا بھول ہے یہ یاد ہے کیا یاد
وہ سُنتے ہیں کب دل سے مری رام کہانی
فرماتے ہیں، کچھ اور بھی ہے اسکے سوا یاد؟
بندے سے ہے کیوں پرسشِ اعمال الٰہی؟
انسان کو رہتی ہے کہاںاپنی خطا یاد؟
اُستاد نے اچھا سبقِ عشق پڑھایا
جب اس کو بھلاتا ہوں، یہ ہوتا ہے سوا یاد
تم بھولتے ہو آج کی بات آج ہی اکثر
مشکل ہے اگر وعدہء فردا نہ رہا یاد
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یادِ خدا کرتے ہیں، کر لے نہ خدا یاد
معشوق سے اے داغ تغافل کا گلہ کیا؟
کیوں یاد کرے تجھ کو؟ کرے اُس کی بلا یاد
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
اے وعدہ فراموش رہی تجھ کو جفا یاد
یہ بھول بھی کیا بھول ہے یہ یاد ہے کیا یاد
وہ سُنتے ہیں کب دل سے مری رام کہانی
فرماتے ہیں، کچھ اور بھی ہے اسکے سوا یاد؟
بندے سے ہے کیوں پرسشِ اعمال الٰہی؟
انسان کو رہتی ہے کہاںاپنی خطا یاد؟
اُستاد نے اچھا سبقِ عشق پڑھایا
جب اس کو بھلاتا ہوں، یہ ہوتا ہے سوا یاد
تم بھولتے ہو آج کی بات آج ہی اکثر
مشکل ہے اگر وعدہء فردا نہ رہا یاد
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یادِ خدا کرتے ہیں، کر لے نہ خدا یاد
معشوق سے اے داغ تغافل کا گلہ کیا؟
کیوں یاد کرے تجھ کو؟ کرے اُس کی بلا یاد