ایک کے بعد نئی ایک کہانی کھلتی

Qamar Shahzad

محفلین
ایک کے بعد نئی ایک کہانی کھلتی
شکر یہ ہے نہ کھلی گر وہ جوانی کھلتی

سب کو ہوتی نہیں محسوس مہکتی مسکان
ہر کسی پر تو نہیں رات کی رانی کھلتی

ثبت انعام سب اس کے ہیں جگر پر میرے
غیر پر کیسے بھلا اس کی نشانی کھلتی

تُو مری نرم مزاجی کی بلائیں لیتا
دوست تجھ پر جو مری شعلہ فشانی کھلتی

وہ سزا مجھ کو فلاں اور فلانی دیتا
بات اس پر جو فلاں اور فلانی کھلتی

جیسے کھلتی ہے کلی قطرہ ءِ شبنم پا کر
وہ مری آنکھ پہ، بھرتے ہوئے پانی کھلتی

عین ممکن تھا قمر شعر سے ظاہر ہوتی
وہ حقیقت نہ جو اشکوں کی زبانی کھلتی
قمر آسی
 
Top