ایک غزل ۔ بیادِ خواجہ میر درد ۔ کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک غزل پیش ہے طوالت کے لیے معذرت کے ساتھ

غزل
۔۔۔


کوئی بتلائے کیا یہ غم کم ہے
وہ بھی کہتے ہیں تجھ کو کیا غم ہے

مجھ کو ہر شے سے وہ مقدّم ہے
آرزو دل میں جو مجسّم ہے

دل کا آئینہ ہو اگر صیقل
ہاتھ میں تیرے ساغر جم ہے

کچھ منازل ہیں زیست کی جن میں

نہ کوئی بدرقہ نہ ہمدم ہے

عہد طفلی گیا، شباب گیا
زندگی ہے کہ اب بھی مبہم ہے

روح کے زخم آج بول اٹھے
جھوٹ ہے یہ کہ وقت مرہم ہے

زندگی نے اتارے اتنے نقاب
اب خوشی ہے خوشی نہ غم غم ہے

آج جو جشن تاج پوشی ہے
کل یہی باز گشت ماتم ہے

مصلحت ہے جو مسکراتا ہوں
زندگی ورنہ جبر پیہم ہے

آج فرصت ملی تو دیکھا یہ
کتنا بے رنگ آج موسم ہے

کوئی بلبل کا گریہ بھی دیکھے
یوں تو ہر پھول پہ ہی شبنم ہے

ایک تم ہی مری نہیں سنتے
مانتا ورنہ ایک عالم ہے

جانے دستک یہ دل پہ کس کی ہے
اک صدائے طلب دما دم ہے

یہ ثواب و عذاب کا قصہ

ٰسب طفیل گناہ آدم ہےٰ

پھر سے کہہ دوں ، کہیں نہ بھولو تم
وہ ارادہ مرا مصمم ہے

سن کے عاطف کا نام وہ بولے
اپنے فن میں تو وہ مسلّم ہے

۔۔۔
سید عاطف علی
مارچ 2023

 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زندگی نے اتارے اتنے نقاب
اب خوشی ہے خوشی نہ غم غم ہے
بہت خوب بھیا ۔
واقعی شاعری جینا سکھاتی ہے ۔انتہائی خوبصورت شعر ۔
جانے دستک یہ دل پہ کس کی ہے
اک صدائے طلب دما دم ہے
واہ واہ کیا کہنے ۔
ڈھیروں داد و تحسین بھیا
کیا کمال شعر ہے ۔
جیتے رہیے ۔
 
Top