الف عین

لائبریرین
اکڑشاہ دل میں لگا سوچنے
اسی سوچ میں کھا گیا سو چنے
قوافی کا استعمال دلچسپ تو ہے، لیکن غلط ہے۔ 100 چنے میں س اور چ دونوں پر زبر ہو گا۔
 
اکڑشاہ دل میں لگا سوچنے
اسی سوچ میں کھا گیا سو چنے
قوافی کا استعمال دلچسپ تو ہے، لیکن غلط ہے۔ 100 چنے میں س اور چ دونوں پر زبر ہو گا۔
توجہ فرمانے پر ممنون ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
حضرت! میرے ذہن میں یہ ہے کہ اس شعر میں حرف روی سب سے آخر کی ”ے“ ہے جو ساکن ہے اور اس کا ماقبل یعنی ”ن“ دونوں میں متحرک ہے جس کی وجہ سے ”ن“ کے ماقبل میں کسی قسم کی مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی۔
فاتح
مزمل شیخ بسمل
 
اکڑشاہ نے شاعری کی

تھا موسم سہانا کسی رات میں
اکڑشاہ نکلا تھا برسات میں

اکڑشاہ بے حد نہانے لگا
مزہ خوب رم جھم کا پانے لگا

نہاتے نہاتے خیال آیا ایک
اکڑشاہ کے دل پہ حال آیا ایک

کہ موسم بھی اچھا ہے ، دل بھی جواں
چلا ہونے شاعر کا خود پر گماں

گھر آکر قلم اور کاغذ لیا
بڑے غور سے سوچنے لگ گیا

اکڑ کر ہوا خود سے وہ ہم کلام
کہ یہ رات ہے شعر گوئی کے نام

چناں چہ غزل اک وہ کہنے لگا
خیالوں کی دنیا میں رہنے لگا

نہ آتا تھا کچھ وزن اور قافیہ
غزل سے مگر صفحہ پُر کردیا

خوشی سے اکڑشاہ اچھلنے لگا
اشاعت کو دل اب مچلنے لگا

کہا دل میں ، اب میں بھی کہلاؤں گا
جگر ، غالب ، اکبر اور اقبال سا

یوں پورا کروں دل کا ارمان اب
بناؤں گا نظموں سے دیوان اب

اکڑشاہ بس مسکراتا رہا
خیالی پلاؤ پکاتا رہا

اک اچھے رسالے کو بھیجی غزل
رہا پھر نہ اس سے گیا ایک پل

مہینوں تک اس نے کیا انتظار
پڑھا ہر رسالہ کئی ایک بار

غزل اس کی بالکل نہ شائع ہوئی
جو محنت ہوئی گویا ضائع ہوئی

پھر اک دن لفافہ اسے اک ملا
جو نکلا خط اس سے ، وہ پڑھنے لگا

رسالے کی جانب سے پیغام تھا
اکڑشاہ جیسوں کے وہ نام تھا

کہ اپنی پڑھائی میں محنت کرو
ابھی چھوٹے ہو ، خوب ہمت کرو

تمھیں شاعری سیکھنی ہے اگر
کسی اچھے شاعر سے لو یہ ہنر

اسامہ سے قصے اکڑشاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے
 

قیصرانی

لائبریرین
اکڑ شاہ

’’اکڑ شاہ‘‘ اک شخص نادان تھا
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا


تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی


وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا


خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال


کہ سردی میں وہ گولے گنڈے رکھے
تو گرمی میں وہ ابلے انڈے رکھے


دسمبر میں قلفی کی کھولے دکان
مئی میں رکھے موٹے کپڑوں کے تھان


اکڑ شاہ کی کی چشمے کی دکان
پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘


کسی نے کہا اس سے ’’یہ کیا بھلا؟‘‘
دکاں میں ہے کچھ ، بورڈ پر کچھ لکھا!


اکڑ شاہ نے اس سے اکڑ کر کہا
جو اس کو پڑھے گا ادھر آئے گا


نہ آیا ، مگر کوئی اس کے قریب
اکڑشاہ اکیلا تھا بیٹھا غریب


اچانک ہوا اس کا روشن دماغ
اندھیرے میں جیسے ہے جلتا چراغ


لگا زور سے کرنے اعلان وہ
جو سنتا تھا ہوتا تھا حیران وہ


مرے بھائیو! بہنو! آئو یہاں
اگر چاہیے ’’روٹی کپڑا مکاں‘‘


فریم اپنی پوشاک ، شیشہ ہے نان
دکاں میری ہے آپ کا ہی مکان


وہاں خوب رش پھر تو ہونے لگا
اکڑ شاہ ان سب میں کھونے لگا


اکڑشاہ پہ پہلے چڑھائی ہوئی
کہ جی بھر کے اس کی پٹائی ہوئی


بڑھے پھر دکاں توڑنے پھوڑنے
فریموں کو اس کی لگے موڑنے


اکڑشاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا


اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
(جاری ہے۔۔۔ )
گستاخی معاف، اکڑ شاہ کے بارے ابتدائی دو شعر پڑھ کر ایک کہاوت یاد آ گئی

کہتے ہیں کہ جب بندہ مر جائے تو پوری دنیا میں وہ واحد انسان ہوگا جسے اس امر کی خبر نہیں ہوگی کہ وہ مر چکا ہے۔ Same is with idiot

مجھے اکڑ شاہ کچھ کچھ ویسے لگے :)
 
اکٹر شاہ آخر کو اکٹر شاہ جو ہوا۔

بہت داد قبول فرمائیں۔
پسند فرمانے کا بہت شکریہ۔۔۔
جزاکم اللہ خیرا۔
(از راہِ تفنن: پہلے تو میں آپ کا تبصرہ پڑھ کر کچھ پریشان ہوا کہ آپ کے اس جملے: ”اکٹر شاہ آخر کو اکٹر شاہ جو ہوا۔“ میں کیا چیز کھٹک رہی ہے، پھر میری پروف ریڈنگ کی حس نے بالآخر اس الجھن کو پکٹر(پکڑ) ہی لیا۔۔۔۔۔۔ دیکھیں پکڑ اور پکٹر میں کیا فرق ہے؟:))
 

الف عین

لائبریرین
خوب ’مثردہ‘ سنایا سرسری نے۔ (واقعی، میں نے آج تک ’مژدہ‘ کسی کتاب کی فائل میں درست لکھا نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر کو ڈاکڑ بھی بے حد عام ہے۔ خیر اس میں تو ایک حرف کی ’فضول خرچی‘ بچا لی گئی ہے۔ لیکن ڑ کی جگہ ٹ ر، یعنی ایک حرف مزید ٹائپ کرنے کا اصراف کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک ردیف پسند نہیں آئی۔ خال تو ایک آ سکتا ہے، لیکن حال کس طرح واحد آ سکتا ہے؟
 
خوب ’مثردہ‘ سنایا سرسری نے۔ (واقعی، میں نے آج تک ’مژدہ‘ کسی کتاب کی فائل میں درست لکھا نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر کو ڈاکڑ بھی بے حد عام ہے۔ خیر اس میں تو ایک حرف کی ’فضول خرچی‘ بچا لی گئی ہے۔ لیکن ڑ کی جگہ ٹ ر، یعنی ایک حرف مزید ٹائپ کرنے کا اصراف کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک ردیف پسند نہیں آئی۔ خال تو ایک آ سکتا ہے، لیکن حال کس طرح واحد آ سکتا ہے؟
درست فرمایا بالکل۔۔۔۔
حال والا مصرع بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 
نہاتے نہاتے خیال آیا ایک
اکڑشاہ کے دل پہ حال آیا ایک
یہاں ایک ردیف پسند نہیں آئی۔ خال تو ایک آ سکتا ہے، لیکن حال کس طرح واحد آ سکتا ہے؟
استاد جی! اگر یوں کردوں تو؟
نہاتے ہوئے اک خیال آگیا
اکڑشاہ کے دل پہ حال آگیا
 
حوصلہ افزائی کا شکریہ بھائی!
آپ نے تازہ کلام پوسٹ کرنا بند کردیا یا ہمیں ٹیگ کرنا؟
اسامہ بھیا کو ٹیگ نہ کرنے کی گستاخی کیسے ممکن ہے :)
کافی دنوں سے پوسٹ نہیں کر پا رہا ہوں، صحت کی خرابی کی وجہ سے کچھ لکھ نہیں سکا تھا، بہر حال ابھی کچھ تازہ کلام اصلاح کے لئے اعجاز عبید بھائی کی خدمت میں پیش کیا ہے، اصلاح ہو جائے تو محفل میں پیش کرتا ہوں انشاءاللہ۔
 
اسامہ بھیا کو ٹیگ نہ کرنے کی گستاخی کیسے ممکن ہے :)
کافی دنوں سے پوسٹ نہیں کر پا رہا ہوں، صحت کی خرابی کی وجہ سے کچھ لکھ نہیں سکا تھا، بہر حال ابھی کچھ تازہ کلام اصلاح کے لئے اعجاز عبید بھائی کی خدمت میں پیش کیا ہے، اصلاح ہو جائے تو محفل میں پیش کرتا ہوں انشاءاللہ۔
انتظار رہے گا۔۔۔۔
 
اکڑشاہ کی ذہانت

اکڑشاہ نے دوستوں سے کہا
مجھے تو ذہانت ہوئی ہے عطا

کہا دوستوں نے اکڑشاہ سے
وہ پھنستا ہے اکثر ، اکڑ ہو جسے

اکڑ کر اکڑشاہ کہنے لگا
اکڑ میرے اندر نہیں ہے ذرا

میں کیوں خود کو بے عقل و مجنوں کہوں؟
تواضع کی خاطر غلط کیوں کہوں؟

تبسم چھپا کر کہا دوست نے
اگر تو کہے آزمائیں تجھے

ذہیں ہے تو دے ہم کو تو بارہ سو
سمجھ دار گر ہے تو دے گیارہ سو

اکڑشاہ بولا نہ مانوں گا ہار
مرے پاس کل آنا اے میرے یار!

میں تیئیس دینے کو تیار ہوں
کہ میں تو ذہین اور سمجھ دار ہوں

کہا دوست نے اے ذہیں! چل بتا
بنی مرغی پہلے کہ انڈا بنا؟

اکڑشاہ پہلے ہنسا پھر کہا
جواب اس کا بالکل ہے آسان سا

مجھے پہلے مرغا بنایا گیا
ورق پر پھر انڈا بنایا گیا

پھر اک دن اسی دوست سے جب ملا
تو وہ دوست اس سے یہ کہنے لگا

بہت ہی بڑے ہوگئے بال اب
حجامت کراؤ گے تم اپنی کب؟

بلایا تمھیں گویا حجام نے
دکان اس کی دیکھو وہ ہے سامنے

مگر ٹنڈ بالکل نہ کروانا تم
کہ ہوجاتی ہے ٹھنڈ میں سٹی گم

اکڑشاہ حجامت کرانے چلا
کہ یہ مشورہ اس کو اچھا لگا

جب اگلے دن اس دوست سے وہ ملا
اسے پاکے گنجا وہ حیراں ہوا

کہا دوست نے بھائی! یہ کیا کیا
یہ کس نے تجھے پورا گنجا کیا

بتایا اکڑشاہ نے ہنستے ہوئے
کہ حجام کے پاس کھلّے نہ تھے

دیے میں نے حجام کو سو روپے
کٹے تھے مرے بال بس تیس کے

کہا میں اس سے نہ گھبرا ذرا
تو ستر کا اب پھیر لے استرا

اسامہ سے قصے اکڑشاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے
 
Top