مکمل کتاب یہاں ملاحظہ فرمائیں

اکڑ شاہ

’’اکڑ شاہ‘‘ اک شخص نادان تھا
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا


تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی


وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا


خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال


کہ سردی میں وہ گولے گنڈے رکھے
تو گرمی میں وہ ابلے انڈے رکھے


دسمبر میں قلفی کی کھولے دکان
مئی میں رکھے موٹے کپڑوں کے تھان


اکڑ شاہ کی کی چشمے کی دکان
پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘


کسی نے کہا اس سے ’’یہ کیا بھلا؟‘‘
دکاں میں ہے کچھ ، بورڈ پر کچھ لکھا!


اکڑ شاہ نے اس سے اکڑ کر کہا
جو اس کو پڑھے گا ادھر آئے گا


نہ آیا ، مگر کوئی اس کے قریب
اکڑشاہ اکیلا تھا بیٹھا غریب


اچانک ہوا اس کا روشن دماغ
اندھیرے میں جیسے ہے جلتا چراغ


لگا زور سے کرنے اعلان وہ
جو سنتا تھا ہوتا تھا حیران وہ


مرے بھائیو! بہنو! آئو یہاں
اگر چاہیے ’’روٹی کپڑا مکاں‘‘


فریم اپنی پوشاک ، شیشہ ہے نان
دکاں میری ہے آپ کا ہی مکان


وہاں خوب رش پھر تو ہونے لگا
اکڑ شاہ ان سب میں کھونے لگا


اکڑشاہ پہ پہلے چڑھائی ہوئی
کہ جی بھر کے اس کی پٹائی ہوئی


بڑھے پھر دکاں توڑنے پھوڑنے
فریموں کو اس کی لگے موڑنے


اکڑشاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا


اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
(جاری ہے۔۔۔)
 
آخری تدوین:
بہت خوب، مکمل ہو جانے دو، پھر اصلاح کی دیکھی جائے گی
جزاکم اللہ خیرا۔
توجہ فرمانے پر ممنون ہوں۔
ذوق و شوق میں یہ سلسلہ شروع کرنا ہے، ہر ماہ ایک قسط شائع کی جائے گی، یہ پہلی قسط ہے۔ اگر اصلاح فرمادیں تو نوازش ہوگی۔
 

الف عین

لائبریرین
اب دوبارہ تفصیل سے دیکھی ہے یہ، اصلاح کی جرورت نہیں، بس دو ایک جگہ ’اکڑ شہ‘ نظم ہوا ہے، وہاں اسی طرح لکھا جائے، بجائے مکمل شاہ کے۔
 
بہت مزیدار مثنوی ہے اسامہ بھائی ۔ بہت ساری داد قبول فرمائیے۔
لیکن بھلا یہ کیا کہ ہمیں اگلی قسط کے لیے پورے ایک ماہ انتظار کرنا پڑے۔ اس مدت کو ہوسکے تو کم کردیجیے۔ ہر ہفتہ کیسا رہے گا۔ اس طرح آپ کی کتاب بھی جلد مکمل ہوجائے گی اور ہمارے جذبۂ تجسس کی بھی تسکین ہوپائے گی۔
 
بہت مزیدار مثنوی ہے اسامہ بھائی ۔ بہت ساری داد قبول فرمائیے۔
لیکن بھلا یہ کیا کہ ہمیں اگلی قسط کے لیے پورے ایک ماہ انتظار کرنا پڑے۔ اس مدت کو ہوسکے تو کم کردیجیے۔ ہر ہفتہ کیسا رہے گا۔ اس طرح آپ کی کتاب بھی جلد مکمل ہوجائے گی اور ہمارے جذبۂ تجسس کی بھی تسکین ہوپائے گی۔
تعریف اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ جناب!
ساری داد قبول ہے۔:)
اپنی پوری کوشش کروں گا کہ یہ سلسلہ(جو اس حیثیت سے مجھے بہت محبوب ہے کہ اس کی برکت سے آپ حضرات کی دعائیں اور رہنمائیاں ملتی رہیں گی) جلد سے جلد آگے بڑھے ، یا کم از کم رکنے سے محفوظ رہے۔
 
اکڑشاہ کی چشمے کی دکان کے بعد اب دوسری قسط حاضرِ خدمت ہے:​
اکڑشاہ کی آموں کی دکان
اکڑشہ نے چشمے کی چھوڑی دکاں
وہ آموں کی لے آیا کچھ پیٹیاں
ابھی آم کا تھا نہ آیا زماں
جبھی پیٹیوں میں تھیں بس کیریاں
دکان آم کی وہ سجانے لگا
یہ آواز پھر وہ لگانے لگا
یہ چم چم سے میٹھے مرے آم ہیں
بہت کم مرے آم کے دام ہیں
”دسہری“ کی قیمت ہے دس دس روپے
ہیں ”انوررٹول“ آم سستے بڑے
ہے ”لنگڑے“ کی رفتار بے حد بھلی
بناکر پیو جوس ”چونسے“ کا بھی
جو سنتے تھے اعلاں چلے آتے تھے
مگر پھر وہ واپس چلے جاتے تھے
کہ آتا خریدار کوئی قریب
تو کہتا اکڑشہ کہ اے خوش نصیب!
یہ سب آم مل تو تمھیں جائیں گے
مگر کچھ دنوں میں پہنچ پائیں گے
ابھی آپ سے ہے یہی التماس
فقط ایک ’’الماس‘‘ ہے میرے پاس
یہ دیکھو ، یہ سونگھو ، نرا آم ہے
یہ کیری نہیں ہے ، ہرا آم ہے
خریدار کہنے لگے چل چکھا
اگر تو ہے سچا ، چکھا کر دکھا
چکھایا جو اس نے تو کچے تھے آم
چکھاتا رہا آم اپنے تمام
چکھے سب نے لیکن خریدے نہیں
گرا ہوکے بے ہوش اکڑ شہ وہیں
بڑی دیر بعد اس کو ہوش آیا تب
کہ سب کیریاں ہوگئیں ختم جب
اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی مثنوی کی قسط ہے۔ ماشء اللہ۔ بس ان کچے آموں پر بھی ایک داغ لگ گیا ہے، اسے دور کر دیں۔
چکھا
اور
دکھا
قوافی بدل دیں۔ یہ درست نہیں۔
 
اب اگر نیا تم نےقصہ چھیڑا​
رکھنا اُس میں حصہ میرا​
نظم سن کے یہ ہوتی ہے گدگدی​
کمال کا ہوتا ہے مذاحِ سرسری​
بہت خوب محمد اسامہ سَرسَری بھیا ،۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔​

بہت شکریہ جناب ، آپ تو شاعری بھی کرلیتے ہیں، یا بھولے سے کرلی؟:)
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top