اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

زیک

مسافر
زیک، بہت ادب سے گذارش کروں گا کہ الفاظ سےکھیل کر اصل سوال کو الجھانے کا طریق آپ پر نہیں جچے گا۔ بچگانہ طریق ہے۔ میرا سوال بہت واضح ہے کہ آپ کے بقول جو چیز سائنس سے ثابت نہ ہو اس پر یقین کرنے والے پر افسوس کرنا چاہئے۔ جواب درکار ہے کہ خدا پر آپ یقین رکھتے ہیں یا نہیں؟ کیوں کہ خدا سائنس سے ثابت نہیں۔ دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو یہ اصول غلط ہے جو آپ نے پیش کیا ہے اور یا اصول درست ہے لیکن آپ واقعی اسی اصول پر خدا کو نہیں مانتے۔ مکرر عرض کروں گا کہ الجھائے بغیر جرات اور ایمانداری سے جواب دیں۔
میں واقعی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہومیوپیتھی کو صحیح طریقے سے تجربات کر کے پرکھنے کی بجائے اس پر خدا کی طرح بن دیکھے ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟
 

یاز

محفلین
ویسے ایک سنجیدہ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے علاوہ بھی ہومیوپیتھی کہیں پائی جاتی ہے؟
 

طمیم

محفلین
خاکسار بھی محترم رانا صاحب سے متفق ہے کہ ہومیوپیتھی ادوایات میں اصل کو ثابت کرنا کسی مشین یا ٹیسٹ سے فی الحال ممکن نہیں ۔ لیکن اگر ان سے افاقہ ہوتا ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے ۔ میں اس کا پلاسبو ایفیکٹ سے اس وجہ سے بھی تعلق نہیں جوڑ سکتا کیونکہ اگر مریض یا کسی شخص کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کوئی دوا لے رہا ہے یا اس کا علاج کیا جارہا ہے تو پھر بھی اگر وہ دوا اپنی علامات کے ساتھ اس شخص پر کام کررہی ہے تو کیا یہ بھی پلاسبو ایفیکٹ ہے ۔
میرے خیال میں جیسا کہ تابکاری لہروں کو دیکھنے کے لئے خاص آلات کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہومیوپیتھی ادویات کو بھی دیکھنے کے لئے خاص آلات کی ضرورت ہوسکتی ہے جو کہ ابھی تک میسر نہیں ہیں ۔
ایک بات میرے مشاہدہ میں خاص طور پر آئی جس کا ذکر کرنا خاص طور پر ضروری سمجھتا ہوں کہ ہومیوپتھی ادویات میں ہر دوا کی اپنی علامات ہوتی ہیں یعنی ہر بخار پر ہر دوا اس طرح مؤثر کام نہیں کرے گی ۔ اس کے لئے بیمار کی بیماری کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔ اسی بات کا ذکر محترمی رانا صاحب نے بھی اپنے علاج کے دوران آنے والی صورتحال میں بیان کیا ہے۔
ہومیوپیتھی علاج سے متعلق میری زندگی میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ خاکسار عرصہ 18 سال سے ہومیوپیتھی ادویات استعمال کررہا ہے، اس لئے عام زندگی میں پیش آنے والی امراض اور ان سے شفا پانے کے بعد کسی خاص سائنسی ثبوت کا دیکھنے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
ایک بڑی مثال موسمی الرجی کی ہے یعنی یہاں جرمنی جب بھی درختوں پر پولن کا موسم آتا تھا الرجی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی تھی، آنکھوں ، ناک بلکہ پورے چہرے کے جلد پر خارش ہوتی تھی، چھینکیں لگاتار آتی تھیں۔ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتا وہ کارٹی سون سے علاج کرتا مرض فوری طور پر غائب ہوجاتا جیسے ہی کارٹی سون کا اثر ختم ہوتا مرض زیادہ شدت سے حاوی ہوجاتا ۔ حتی کہ بعض دفعہ ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا اور تین گنا زیادہ طاقت میں کارٹی سون کی خوراک استعمال کرنا پڑی۔ اسی طرح ڈاکٹروں نے کارٹی سون کے علاوہ دیگر ادویات بھی استعمال کروائیں لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ حتی کہ عام ہومیوپیتھی ادویات بھی نہیں کام کررہی تھیں۔
اس کے بعد میں نے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے مشورہ سے چند خاص قسم کے درختوں سے پتے اور ٹہنیاں اُتاریں (ان درختوں کی اقسام کے بارہ میں مجھے اپنے الرجی ٹیسٹ سے معلومات ملی تھیں) ان سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر صاحب نے نئی ہومیوپیتھی دوا تیار کی ۔ جسے میں نے ایک عرصہ تک استعمال کیا اور اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مرض سےشفا پاچکا ہوں۔
 

زیک

مسافر
خاکسار بھی محترم رانا صاحب سے متفق ہے کہ ہومیوپیتھی ادوایات میں اصل کو ثابت کرنا کسی مشین یا ٹیسٹ سے فی الحال ممکن نہیں ۔ لیکن اگر ان سے افاقہ ہوتا ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے ۔ میں اس کا پلاسبو ایفیکٹ سے اس وجہ سے بھی تعلق نہیں جوڑ سکتا کیونکہ اگر مریض یا کسی شخص کو یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کوئی دوا لے رہا ہے یا اس کا علاج کیا جارہا ہے تو پھر بھی اگر وہ دوا اپنی علامات کے ساتھ اس شخص پر کام کررہی ہے تو کیا یہ بھی پلاسبو ایفیکٹ ہے ۔
میرے خیال میں جیسا کہ تابکاری لہروں کو دیکھنے کے لئے خاص آلات کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہومیوپیتھی ادویات کو بھی دیکھنے کے لئے خاص آلات کی ضرورت ہوسکتی ہے جو کہ ابھی تک میسر نہیں ہیں ۔
ایک بات میرے مشاہدہ میں خاص طور پر آئی جس کا ذکر کرنا خاص طور پر ضروری سمجھتا ہوں کہ ہومیوپتھی ادویات میں ہر دوا کی اپنی علامات ہوتی ہیں یعنی ہر بخار پر ہر دوا اس طرح مؤثر کام نہیں کرے گی ۔ اس کے لئے بیمار کی بیماری کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔ اسی بات کا ذکر محترمی رانا صاحب نے بھی اپنے علاج کے دوران آنے والی صورتحال میں بیان کیا ہے۔
ہومیوپیتھی علاج سے متعلق میری زندگی میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ خاکسار عرصہ 18 سال سے ہومیوپیتھی ادویات استعمال کررہا ہے، اس لئے عام زندگی میں پیش آنے والی امراض اور ان سے شفا پانے کے بعد کسی خاص سائنسی ثبوت کا دیکھنے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
ایک بڑی مثال موسمی الرجی کی ہے یعنی یہاں جرمنی جب بھی درختوں پر پولن کا موسم آتا تھا الرجی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی تھی، آنکھوں ، ناک بلکہ پورے چہرے کے جلد پر خارش ہوتی تھی، چھینکیں لگاتار آتی تھیں۔ جب بھی ڈاکٹر کے پاس جاتا وہ کارٹی سون سے علاج کرتا مرض فوری طور پر غائب ہوجاتا جیسے ہی کارٹی سون کا اثر ختم ہوتا مرض زیادہ شدت سے حاوی ہوجاتا ۔ حتی کہ بعض دفعہ ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا اور تین گنا زیادہ طاقت میں کارٹی سون کی خوراک استعمال کرنا پڑی۔ اسی طرح ڈاکٹروں نے کارٹی سون کے علاوہ دیگر ادویات بھی استعمال کروائیں لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا۔ حتی کہ عام ہومیوپیتھی ادویات بھی نہیں کام کررہی تھیں۔
اس کے بعد میں نے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے مشورہ سے چند خاص قسم کے درختوں سے پتے اور ٹہنیاں اُتاریں (ان درختوں کی اقسام کے بارہ میں مجھے اپنے الرجی ٹیسٹ سے معلومات ملی تھیں) ان سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر صاحب نے نئی ہومیوپیتھی دوا تیار کی ۔ جسے میں نے ایک عرصہ تک استعمال کیا اور اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مرض سےشفا پاچکا ہوں۔
کیا آپ نے
Allergen immunotherapy کا ذکر سنا ہے؟ میرے الرجسٹ نے تو مجھے اسی طرح الرجن کے ٹیکے لگا کر الرجی کا علاج کیا تھا
 

رانا

محفلین
کیا کوئی دوائی اثر رکھتی ہے اس کے لئے تجربات باقاعدہ پروٹوکال کے تحت کئے جاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا bias نہ ہو۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی علاج نہ بھی کیا جائے یا مریض کو محض چینی، پانی یا ہوا دے دی جائے تو بھی اکثر وہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں ثابت کیا جاتا ہے کہ ماڈرن میڈیسن کی کوئی دوائی کسی خاص مرض کے لئے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ ایسے تجربات ہومیوپیتھ نہیں کرتے اور جب ریسرچرز نے ہومیوپیتھی کی دوائیوں پر ایسے تجربات کئے ہیں تو ان کو پلاسیبو سے بہتر نہیں پایا۔
ہومیوپیتھی والے بھی دواؤں کو چیک کرنے کے لئے تجربات کرتے ہیں ۔ وہ تجربات ہوسکتا ہے کہ ایلوپیتھی طریق کار سے مختلف ہوں لیکن بہرحال ہومیوپیتھک میں باقاعدہ پروونگ کا ایک طریق کار موجود ہے جس کے تحت دوا کے اثرات کو جانچا جاتا ہے۔ ایک دوا کی پوٹنسی بنانے کے بعد اسے مختلف صحت مند انسانوں کو استعمال کرائی جاتی ہے۔ ہومیوپیتھی کے بنیادی اصول کے تحت جسم اس پوٹنسی کے خلاف ردعمل دکھاتا ہے۔ یہ دوا مسلسل کچھ وقفوں سے استعمال کرائی جاتی ہے۔ اور جتنے افراد اس پروونگ کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں ان میں سے کسی کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اسے دوا دی جارہی ہے یا سادہ پانی۔ لیکن پروونگ کرنے والوں کو علم ہوتا ہے کہ کن مریضوں کو دوا دی جارہی ہے۔ پھر ان سب کی علامات کا جائزہ لے کر بہت چھان بین کرکے ایک جیسی علامات کو اس دوا کے تحت لکھا جاتا ہے۔ پھر انہی علامات والے مریضوں پر اسے استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسا ایک ٹرائل اتفاقی بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے ایسے کئی تجربات جو پبلش ہوئے ہوں ان کا باقاعدہ جائزہ لے کر سسٹمیٹک ریویو کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر دوائی کا اثر کیسا ہے۔
چونکہ ہوائی کیپسول سے بھی کئی مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کسی دوائی کا اثر پلاسیبو سے خاطرخواہ بہتر ہو۔
پھر کیا وجہ ہے کہ پلاسیبو ہر جگہ نہیں چلتا۔ مثلا کھانسی کی بیماری کے لئے کراچی کے ہومیوپیتھ کو بھی دکھایا لیکن اثر نہ ہوا۔ پھر ابھی جب کھانسی دوبارہ ہوئی تو ایک کتاب سے ملتی جلتی علامات کے تحت پانچ دوائیں منتخب کیں اور ایک دوا کی علامات تو اتنی ملتی تھیں کہ یقین تھا کہ اس سے ٹھیک ہوجاؤں گا۔ لیکن اس دوا نے کچھ بھی فائدہ نہ کیا۔ جب ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے جو دوا دی وہ بھی وہی تھی جو خاکسار پہلے ہی استعمال کررہا تھا۔ فرق تھا تو صرف طاقت کا۔ خاکسار تیس میں استعمال کررہا تھا جبکہ ڈاکٹر کو علم بھی نہیں تھا کہ میں وہ دوا استعمال کررہا ہوں لیکن اس نے وہی دوا ایک ہزار طاقت میں تجویز کی۔ یہ بھی ہومیوپیتھی کا ہی ایک اصول ہے کہ لمبے عرصے سے چلتی ہوئی بیماریوں میں اونچی طاقت کام کرتی ہے۔ کیا وجہ کے کراچی کے ڈاکٹر کے ہاتھوں گومڑ تو ٹھیک ہوگیا لیکن کھانسی پر پلاسبو اثر نہ ہوسکا۔ خاکسار کی اپنی تجویز کردہ دوا سے بھی پلاسبو اثر نہ ہوا حالانکہ علامات ملتی تھیں۔ لیکن دوسرے ڈاکٹر نے وہی دوا ایک ہزار طاقت میں دی تو اثر ہوا۔ اس سے پہلے اونچی طاقت کا یہ اصول خاکسار کو بھی ذہن میں نہیں تھا۔

پلاسیبو کے اثر کے تحت مرض جب ختم ہوتا ہے تو اس کی سائنسی وجہ کیا ہے؟ کیونکہ آپ کو سب سے بڑا اعتراض ہی یہی ہے کہ مادہ یا ایٹم تو اس دوا میں موجود ہی نہیں تھا تو پھر مرض کیسے ٹھیک ہوگیا؟ تو پلاسیبو کے تحت ٹھیک ہونے والے مرض کی وضاحت درکار ہے کہ کونسا مادہ اس کی وجہ بنا؟

میں واقعی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہومیوپیتھی کو صحیح طریقے سے تجربات کر کے پرکھنے کی بجائے اس پر خدا کی طرح بن دیکھے ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے؟
آپ سے کس نے کہا کہ بن دیکھے ایمان لایا جاتا ہے۔
1- اوپر پروونگ کا طریق کار بیان کیا ہے وہ پرکھنے کے لئے ہی ہے۔
2- جب اتنے مریض شفا یاب ہورہے ہوں تو پھر بن دیکھے ایمان لانا کیسے ہوگیا۔ مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا کہ ماتھے کے گومڑ کا دور ہونا اور دوسری صورت میں مسلسل سالوں تک اس کو ماتھے پر سجائے رکھنا۔ کیا یہ ثبوت نہیں؟ یہ تو ذاتی مثال ہے ورنہ ایسی کتنی ہی لوگوں کی مثالیں ہیں۔
آپ کا کہنا صرف یہ ہے کہ یہ پلاسبو اثر ہے۔ اس کی جب تک آپ وضاحت نہیں کرتے کہ پلاسبو اثر کے تحت ماتھے کا فزیکل وجود رکھنے والا گومڑ کیسے گھل گیا یا دس سال کی کھانسی بغیر کسی مادے کے استعمال کے کیسے دور ہوگئی، اس پر مزید بات کرنا لاحاصل ہے۔ کہ مرض کا دور ہونا آپ کو بھی مسلم ہے۔ دوا میں ایٹموں کا نہ ہونا ہومیو معالجین کو مسلم ہے۔
 

زیک

مسافر
ہومیوپیتھی والے بھی دواؤں کو چیک کرنے کے لئے تجربات کرتے ہیں ۔ وہ تجربات ہوسکتا ہے کہ ایلوپیتھی طریق کار سے مختلف ہوں لیکن بہرحال ہومیوپیتھک میں باقاعدہ پروونگ کا ایک طریق کار موجود ہے جس کے تحت دوا کے اثرات کو جانچا جاتا ہے۔
پروونگ بالکل بھی randomized controlled trial نہیں ہے۔ اس میں تو صحتمند لوگوں کو دوائی دی جاتی ہے۔ کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ نہ ہی رینڈم
 

طمیم

محفلین
کیا آپ نے
Allergen immunotherapy کا ذکر سنا ہے؟ میرے الرجسٹ نے تو مجھے اسی طرح الرجن کے ٹیکے لگا کر الرجی کا علاج کیا تھا
جی بالکل اس کا بھی ذکر سنا ہے۔ یہ بھی ایسا ہی طریقہ کار ہے کہ جسم میں موجود سسٹم کو ایکٹو کیا جاتا ہے کہ وہ بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آپ کو شفاء مل گئی۔ ہومیوپیتھی میں بھی جسم کے اندر مخصوص پیغام کو بھیج کر جسم کے اندر موجود سسٹم کو ایکٹو کیا جاتا ہے کہ اپنا کام کرے۔
یہاں ڈاکٹر ہر دفعہ کارٹی سون سے ہی الرجی بھگاتے رہے تھے ۔ اسی طرح شہر کے سب سے بڑے ہسپتال نے بھی ایک ہفتہ ہسپتال میں رکھنے کے بعد یہ جواب دے کر گھر بھیج دیا تھا کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ جب کہ ہر قسم کے ممکنہ ٹیسٹ کرچکے تھے۔ میں نے یہ واقعہ ایک مثال کے طور پر بیان کیا ہے ۔ ورنہ جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے کہ روزمرہ زندگی میں اگر ہومیوپیتھی طریق علاج سے افاقہ ہورہا ہے تو اس میں بھی اثر موجود ہے۔ ورنہ ان گذشتہ اٹھارہ سالوں میں الرجی والے واقعہ کے علاوہ ایلوپیتھیک دوائی استعمال نہیں کی۔ ہمیشہ ھومیوپیتھی سے ہی اللہ تعالیٰ شفاء دے رہا ہے۔
 

طمیم

محفلین
الرجن کے کم سے زیادہ مقدار میں ٹیکے لگا کر۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں یہ کام صفر مقدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
ہومیوپتھی میں اگر کام کم مقدار سے ہوجاتا ہے تو اچھی بات ہے ۔ مقصد ہم دونوں کا ایک ہی ہے کہ علاج ہو۔ صفر مقدار نہیں ہے صرف اس کو چیک کرنے والا پیمانہ ابھی ایجاد نہیں ہوا یعنی اتنا حساس آلہ جو کہ اتنی کم مقدار کو بھی چیک کرسکے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ہومیوپتھی میں اگر کام کم مقدار سے ہوجاتا ہے تو اچھی بات ہے ۔ مقصد ہم دونوں کا ایک ہی ہے کہ علاج ہو۔ صفر مقدار نہیں ہے صرف اس کو چیک کرنے والا پیمانہ ابھی ایجاد نہیں ہوا یعنی اتنا حساس آلہ جو کہ اتنی کم مقدار کو بھی چیک کرسکے۔
ایک مالیکیول سے کم تو صفر ہی ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

طمیم

محفلین
اسی طرح عام طور پر ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ ہومیوپیتھی ادوایات کا کوئی نقصان نہیں ہے ۔ اس بارہ میں بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے مستند ڈاکٹر کے مشورہ کے بغیر ادویات کا استعمال ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں بھی جسم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
 

طمیم

محفلین
ایک مالیکیول سے کم تو صرف ہی ہوتا ہے۔
بات یہی ہے کہ اس بارہ میں جیسا کہ پہلے ہی محترمی رانا صاحب بھی بیان کرچکے ہیں کہ ابھی اس میں دوا کی اس طرح موجودگی ثابت کرنا ممکن نہیں ۔
لیکن اس سے اگر افاقہ ہورہا ہے اور مریض شفا پارہے ہیں تو جسے استعمال کرنا ہے کرلے۔ اگر کسی نے نہیں کرنا وہ دوسرے طریقہ علاج استعمال کرلے۔
ورنہ تو کرنے والے پلسبو چھوڑ کر اور بھی طریقہ علاج دنیا میں استعمال ہورہے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
پلاسیبو کے تحت ٹھیک ہونے والے مرض کی وضاحت درکار ہے کہ کونسا مادہ اس کی وجہ بنا؟
گوکہ ہماری شراکت اس لڑی میں محض معلومات کی غرض سے ہے، لیکن رانا کا اٹھایا ہوا سوال ہمارے بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ پلاسیبو ایفیکٹ کی سائنسی توجیہ کیا کی گئی ہے؟؟
 
زیک یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں خالی کیپسول سے بھی ہمیں پلاسیبو ایفیکٹ کے تحت آرام آجاتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی تو اتنی کثرت سے دنیا میں بطور "طب" رائج ہوگئی لیکن "خالی کیپسول" اپنا لوہا نہ منواسکے۔
ممکن ہے کہ کسی نے کبھی مریض کو خالی کیپسول یا چینی بھی دی ہو لیکن ہم نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ اس کو مستقل پیشہ ورانہ پریکٹس کسی نے بنایا ہو۔
 

زیک

مسافر
زیک یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کریں خالی کیپسول سے بھی ہمیں پلاسیبو ایفیکٹ کے تحت آرام آجاتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی تو اتنی کثرت سے دنیا میں بطور "طب" رائج ہوگئی لیکن "خالی کیپسول" اپنا لوہا نہ منواسکے۔
ممکن ہے کہ کسی نے کبھی مریض کو خالی کیپسول یا چینی بھی دی ہو لیکن ہم نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ اس کو مستقل پیشہ ورانہ پریکٹس کسی نے بنایا ہو۔
ہومیوپیتھی اور دوسرے quack یہی تو کرتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
Top