اوجِ تخیّل ۔ اشعار شامل کیجے۔

غالب کے شعر کا در حقیقت مطلب صرف اتنا تھا کہ
گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیِ جاوید نہیں

جس پر انھوں نے اتنا شور مچایا۔ ہمارے عوام ہر چیز کو دل پر لے لیتی ہیں۔
 
محمد احمد بھائی، بہت ہی اچھی لڑی آغاز کی ہے ، بہت دعائیں۔
بہت سے اشعار واقعی اس لڑی سے تعلق رکھتے تھے مگر کچھ اشعار ایسے ضرور ہوئے کہ جن کو پڑھ کو یہ احساس ہوا کہ شاید یہ لڑی سے اس درجہ کا تعلق نہیں رکھتے جس درجہ کا تعلق درکار ہے۔ بہرحال اچھی لڑی ہے ۔
ویسے تو برادرم سید عاطف علی نے بھرپور بات کی ہے اسی کی ذیل میں، ناچیز بھی دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ شاعری کے زمروں کو فقط شاعری تک محدود رکھنے سے محفل کی رونق دو چند ہوگی، البتہ اگر کسی شاعر کی شخصیت یا شاعری پر گفتگو کرنا چاہیں تو ایک علیحدہ لڑی بنا لی جائے۔
 

یاز

محفلین
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

(ظہیر کاشمیری)​
 
عشق اول در دلِ معشوق پیدا می شود
تا نہ سوزد شمع کے پروانہ شیدا می شود

عشق اول معشوق کے دل میں پیدا ہوتا ہے
جب تلک شمع نہ جلے پروانہ کیونکر جلے
 

عباد اللہ

محفلین
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
غالب
 
آخری تدوین:
کہتا ہے مجھ سے کہ اس ارض و سما کو پار کر
چھوڑے گا ظالم مرا مرغِ تخیل مار کر ۔۔

پُر تخیل شعر یاد کرتے کرتے فی البدیہہ یہ شعر ہوا ہے ۔۔۔
 

طالب سحر

محفلین
تو ہم آنجا رسی بلے بی پای
دیدہ یک دم ببند و باز کشای

امیر خسرو

تو بھی بے شک بغیر قدموں کے وہاں پہنچ سکتا ہے، بس ایک لمحے کے لیے آنکھ بند کر لو اور پھر کھول کر دیکھ
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 

یاز

محفلین
ٹک میر جگرِ سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا

(میر تقی میر)​
 

طالب سحر

محفلین
شاعری سمجھو ۔ اور پھر شاعری کو شاعری سمجھو اور مزید یہ کہ شاعر کی شاعری کو بھی سمجھو ۔
حقیقی شاعری تو وہ ہے جو بخیل کو فیاض کر دیتی ہے ۔بزدل کو شیر دل کر دیتی ہے ۔ تنگ نظر کو وسعت نظر بخشتی ہے۔قاسی القلب کو رقیق القلب کر تی ہے۔ظالم کو ہمدردی پر آمادہ کر دیتی ہے۔انتقام کو عفو سے بدلتی ہے ۔ لیکن ایسا محض اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم شعر کی روح تک اتریں ۔
ورنہ شعر کیا شاعری کیا شاعر کیا اور ہم کیا ۔
شعر کو اپنی فکر سے کی تنگی سے جانچنا زیبا نہیں ۔ المعنی فی البطن الشاعر پر محمول کرو ۔

سید عاطف علی کی نذر:

مرا از بس کہ زیبا بود بندش
نہ دردل بلکہ درجاں رفت بنشست

امیر خسرو

میری ذات کے لیے تو بندش شعر اس قدر زیبا تھی کہ نہ صرف دل میں جا گزیں ہوئی بلکہ روح میں پیوست ہو گئی
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عاطف علی کی نذر:
مرا از بس کہ زیبا بود بندش
نہ دردل بلکہ درجاں رفت بنشست

امیر خسرو
میری ذات کے لیے تو بندش شعر اس قدر زیبا تھی کہ نہ صرف دل میں جا گزیں ہوئی بلکہ روح میں پیوست ہو گئی
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
ممنون ہوں طالب سحر صاحب آپ نے تو نیناں ملائی کے اپنا سا کر لیا۔ :)

شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا۔

ضیا عزیزی جے پوری۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کچھ اس انداز سے چھیڑا تھا میں نے نغمۂ رنگیں
کہ فرطِ ذوق سے جھومی ہے شاخِ آشیاں برسوں
اصغر گونڈوی
 
Top