انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
*کراچی کا نوحہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی وحشتوں کا شہر
یہاں اب ون وے ڈرائیونگ کوئی جرم نہیں ،ملک بھر سے گداگر ہر گلی اور روڈ پر حملہ آور ہیں سارے فٹ پاتھ پر ایک چھوٹی سی دکان کا مالک پچاس کرسیاں رکھ کے دیسی بن کباب اور چائے پراٹھا بیچتا ہے۔ یہاں لاکھوں بغیر رجسٹریشن کے رکشے بھتا دے کر روڈ پر دس دس مسافروں کو منی بس کی طرح چلاتے ہیں۔ پچاس ساٹھ لاکھ لوگوں نے بغیر زمین خریدے مکان بنا لیئے ہیں اور اس میں کرائے پر چلانے کے لیے دکانیں بنا لی ہیں۔ یہاں اب کمرشل گاڑیوں کی کوئی فٹنس نہیں ہوتی۔ اس شہر میں پانچ ہزار ایسے ڈمپر چلتے ہیں جن پر کوئی رجسٹریشن نمبر نہیں ہوتا لیکن اکثر پر لکھا ہوتا ہے "دعوت تبلیغ زندہ باد". ان ڈمپرز کو کبھی ٹریفک پولیس اہلکار نہیں روکتے۔ کار اور موٹر سائیکل والوں پر چالان اور بھتا دونوں نافذ ہیں۔ یہاں دس لاکھ سے زیادہ افغان گلی گلی ٹرائی وہیلر پر کچرا اٹھاتے ہیں اور پیسے ہر گھر سے لیتے ہیں کیونکہ بلدیہ اب مین روڈ سے کچرا اٹھاتی ہے جہان افغانی ڈمپ کرتے ہیں۔ یہاں مقامی اور غیر مقامی ہزاروں لوگ اسلحہ لے کر عورتوں اور مردوں سے موبائل فون اور نقدی چھینتے ہیں کبھی پکڑے جائیں تو جلد ضمانت پر واپس کر پھر لوٹتے ہیں۔ یہاں ہر روڈ پر مغرب سے پہلے موبائیل آتی ہیں اور ہر ٹھیلے والے سے روزانہ ایک طے شدہ رقم وصول کرتیں ہیں اور اس کے عوض انہیں آدھا روڈ کور کرکے ٹھیلا لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔ آپ کو غیر قانونی روڈ کٹنگ کروانی ہو پانی کا ناجائز کنکشن چاہیے تو آپ ایسے لوگوں سے آسانی سے کرواسکتے ہیں جو متعلقہ محکموں کی اجازت کے بغیر یہ کام کرتے ہیں۔ اگر آپ نے مکان کی تعمیر شروع کی ہے تو علاقے کی موبائل اتنی جلدی آپ کے پلاٹ پر آتی ہے کہ آپ کی تعمیر سے گلی میں گاڑیوں کو گزرنے میں تکلیف ہوگی لہذا آپ ان کا خیال رکھیں وہ آپ کو تنگ نہیں کریں گے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
اگر کسی کو اوپر لکھی کسی ایک بات پر بھی شک ہو تو خود چیک کر سکتا ہے۔
پہلے یہ سندھ کا دارالخلافہ کراچی تھا پھر قومی اتحاد کی ضرورت کے تحت منی پاکستان بنا اور اب یہ دنیا کا سب سے بڑا تین کروڑ آبادی والا ایک گاؤں ہے، ہاں اس گاؤں میں کہیں چھوٹے چھوٹے اسلام آباد بھی ہیں جہاں نظام خاصہ بہتر ہے۔ سب حکمرانوں نے اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیا ہے کہ انہیں اس گاؤں کے لوگوں سے خطرہ ہے۔
یہ میرا شہر ہے جہاں میں نے بچپن میں سڑکیں دھلتی دیکھی ہیں اور رات کو سیسنا جہاز سے مچھر مار اسپرے ہوتا دیکھا ہے۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
*عثمانی ترکیوں کی بے مثل و بے نظیر عادات👇*

*(1) قہوہ اور پانی:*
جب عثمانی ترکوں کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس کے سامنے قہوہ اور سادہ پانی پیش کرتے، اگر مہمان پانی کی طرف ہاتھ بڑھاتا وہ سمجھ جاتے کہ مہمان کو کھانے کی طلب ھے تو پھر وہ بہترین کھانے کا انتظام کرتے اور اگر وہ قہوہ کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو وہ جان لیتے کہ مہمان کو کھانے کی حاجت نہیں ھے۔

*(2) گھر کے باہر پھول:*
اگر کسی گھر کے باہر پیلے رنگ کے پھول رکھے نظر آتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ اس گھر میں مریض موجود ھے آپ اس مریض کی وجہ سے گھر کے باہر شور شرابہ نہ کریں اور عیادت کو آسکتے ہیں اور اگر گھر کے باہر سرخ پھول رکھتے ہوتے تو یہ اشارہ ہوتا کہ گھر میں بالغ لڑکی ہے لہذا گھر کے آس پاس بازاری جملے نہ بولے جائیں اور اگر آپ پیغامِ نکاح لانا چاہتے ہیں تو خوش آمدید۔

*(3) ہتھوڑا:*
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے، ایک بڑا ایک چھوٹا، اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔

*(4) صدقہ:*
عثمانی ترکوں کے صدقہ دینے کا انداز بھی کمال تھا کہ ان کے مالدار لوگ سبزی فروش یا دوکانداروں کے پاس جا کر اپنے نام سے کھاتہ کھلوا لیتے تھے اور جو بھی حاجت مند سبزی یا راشن لینے آتا تو دوکاندار اس سے پیسہ لیئے بغیر اناج و سبزی دے دیتا تھا یہ بتائے بغیر کہ اس کا پیسہ کون دے گا، کچھ وقت بعد وہ مالدار پیسہ ادا کر کے کھاتہ صاف کروا دیتا۔

*(5) تریسٹھ سال:*
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں، اللّٰه اللّٰه کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا، کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی، یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے.♥
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
گھر کے باہر دو قسم کے ڈور بیل (گھنٹی نما) ہتھوڑے رکھے ہوتے، ایک بڑا ایک چھوٹا، اگر بڑا ہتھوڑا بجایا جاتا تو اشارہ ہوتا کہ گھر کے باہر مرد آیا ھے لہذا گھر کا مرد باہر جاتا تھا اور اگر چھوٹا ہتھوڑا بجتا تو معلوم ہوتا کہ باہر خاتون موجود ہے لہذا اس کے استقبال کے لئیے گھر کی خاتون دروازہ کھولتی تھی۔
اور دو پہر میں جب سب لوگ سورہے ہوتے تھے تولڑکے بالے چھوٹا ہتھوڑا بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے ۔ :)
سلطنتِ عثمانیہ میں ایسا ہوتا ہو یا نہیں لیکن عثمانیہ کالونی کراچی میں تو ایسا ہی ہوتا تھا۔
کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی، یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے.♥
اس بات سے شدید اختلاف ہے ۔ مسلمانوں کے زوال کی ذمہ داری اگر کسی پر ڈالی جاسکتی ہے تو صرف مسلمانوں پر ۔ مسلمانوں کا زوال کسی بیرونی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کی اپنی کارکردگی ( بلکہ عدم کارکردگی) کا منطقی نتیجہ ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اس بات سے شدید اختلاف ہے ۔ مسلمانوں کے زوال کی ذمہ داری اگر کسی پر ڈالی جاسکتی ہے تو صرف مسلمانوں پر ۔
ہمیں صد فی صد آپکی اس بات سے اتفاق ہے کہ مسلمانوں پر مسلمانوں کے زوال کی ذمہ داری ہے ۔
ہمیں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیا اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت محمد ﷺ کے امتی ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے ہم امتی ہونے کا حق ادا کرنا بھول گئے، ہم اپنی زندگیوں کو آپ کے بتائے ہوئے احکامات پر چلانے کی بجائے ایسے کاموں میں ملوث ہو گئے جس کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔
ہم بہترین مذہب کہ ساتھ بد ترین قوم بنتے جارہے ہیں ۔
مذہب سے دوری کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی بھول گئے ہیں۔ بے راہ روی کا شکار ہیں ، جس کی وجہ سے ہم میں اخلاقی زوال، بے حیائی، جھوٹ، چغل خوری، مکر و فریب، غرور و تکبر سرایت کرگئے ہیں۔
اللہ پاک فرماتے ہیں
وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا: ”اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ’
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ: ”اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔”
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پچاس سال پیشتر پی آئی ڈی سی ہاؤس کراچی کے قریب محض ایک پان کا کھوکھا ہوا کرتا تھا جہاں ایک خاتون پان لگا کر دیتیں جو بہت پسند کئے جاتے تھے،

ان کے ساتھ ان کا بیٹا شریف پان لگاتے تھے ،شریف جب پان میں مصالحہ ڈالتے اس کا جسم ایک خاص توازن اور تال سے ہلتا تھا،

خاتون کے ہاتھ کی پان اور انکے بیٹے شریف کا انداز لوگوں کو بھایا اور دکان چل نکلی،

یہ خاتون آگے چل کر اماں کے نام سے مشہور ہوئیں انکا اصل نام مریم بی بی تھا،

اماں دراصل حسین گنج لکھنؤ کے نواب صاحب کی اہلیہ بیگم خلیق الزماں کے ہاں پان لگانے پر مامور تھیں،

بیگم صاحبہ اور نواب صاحب دونوں کا پاندان ان ہی کے سپرد اور مہمانوں کو لگے ہوئے پان پیش کرنا انکی زمہ داری تھی۔

تقسیم کے بعد جب نواب صاحب کی بساط پلٹ گئی تو اماں کراچی آ گئیں ، ان کے شوہر سرکاری نوکر تھے جو نہ ا سکے، اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا،

اماں لکھنؤ میں چونکہ نواب صاحب کے اعلیٰ مرتب مہمانوں کو پان پیش کرنے پر مامور تہیں لہذا ان کے پان بھی اسی معیار کے ہوتے تھے،

چونے میں دودھ ملاتیں جس کے سبب چونے کی تیزی زائل ہوجاتی اور منہ کٹنے کا خدشہ باقی نہ رہتا،

ان کے ہاتھ میں پان لگاتے کتھے چونے کا ایسا توازن تھا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے،

اعلیٰ معیار کے کرارے پان میں ان کے ہاتھوں کا جادو سرچڑھ کر بولتا ،

نوابوں کے ہاں کام کرنے کے سبب ان کی گفتگو میں سلیقہ رہتا تھا،

یہی وجہ بنی جب انہوں نے 1961ع میں پان کا ایک کھوکھا لگایا جو آگے چل کر 1969ع میں کھوکھے کے نزدیک ہی ایک "دکان میں منتقل ہوگیا جس کا نام ہوگیا "شریف اینڈ اماں پان ہائوس" ۔

اس دکان کی شہرت کو دیکھ کر ایک موسیٰ ملباری نام کے ایک نے پان کی دکان میں اضافہ کیا ۔

آنے والے برسوں تک کئی دکانیں کھل گئیں مگر شریف اینڈ اماں کی شان کسی دکان میں نہ آ سکی،

19 اپریل 1982کو اماں کا انتقال ہوگیا،

پان کی دکان اور اس کی شہرت آج بھی ہے مگر رونق جو اماں کے دم قدم سے تھے پھر لوٹ نہ آئی ۔۔🥲
 
پچاس سال پیشتر پی آئی ڈی سی ہاؤس کراچی کے قریب محض ایک پان کا کھوکھا ہوا کرتا تھا جہاں ایک خاتون پان لگا کر دیتیں جو بہت پسند کئے جاتے تھے،

ان کے ساتھ ان کا بیٹا شریف پان لگاتے تھے ،شریف جب پان میں مصالحہ ڈالتے اس کا جسم ایک خاص توازن اور تال سے ہلتا تھا،

خاتون کے ہاتھ کی پان اور انکے بیٹے شریف کا انداز لوگوں کو بھایا اور دکان چل نکلی،

یہ خاتون آگے چل کر اماں کے نام سے مشہور ہوئیں انکا اصل نام مریم بی بی تھا،

اماں دراصل حسین گنج لکھنؤ کے نواب صاحب کی اہلیہ بیگم خلیق الزماں کے ہاں پان لگانے پر مامور تھیں،

بیگم صاحبہ اور نواب صاحب دونوں کا پاندان ان ہی کے سپرد اور مہمانوں کو لگے ہوئے پان پیش کرنا انکی زمہ داری تھی۔

تقسیم کے بعد جب نواب صاحب کی بساط پلٹ گئی تو اماں کراچی آ گئیں ، ان کے شوہر سرکاری نوکر تھے جو نہ ا سکے، اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا،

اماں لکھنؤ میں چونکہ نواب صاحب کے اعلیٰ مرتب مہمانوں کو پان پیش کرنے پر مامور تہیں لہذا ان کے پان بھی اسی معیار کے ہوتے تھے،

چونے میں دودھ ملاتیں جس کے سبب چونے کی تیزی زائل ہوجاتی اور منہ کٹنے کا خدشہ باقی نہ رہتا،

ان کے ہاتھ میں پان لگاتے کتھے چونے کا ایسا توازن تھا جو کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے،

اعلیٰ معیار کے کرارے پان میں ان کے ہاتھوں کا جادو سرچڑھ کر بولتا ،

نوابوں کے ہاں کام کرنے کے سبب ان کی گفتگو میں سلیقہ رہتا تھا،

یہی وجہ بنی جب انہوں نے 1961ع میں پان کا ایک کھوکھا لگایا جو آگے چل کر 1969ع میں کھوکھے کے نزدیک ہی ایک "دکان میں منتقل ہوگیا جس کا نام ہوگیا "شریف اینڈ اماں پان ہائوس" ۔

اس دکان کی شہرت کو دیکھ کر ایک موسیٰ ملباری نام کے ایک نے پان کی دکان میں اضافہ کیا ۔

آنے والے برسوں تک کئی دکانیں کھل گئیں مگر شریف اینڈ اماں کی شان کسی دکان میں نہ آ سکی،

19 اپریل 1982کو اماں کا انتقال ہوگیا،

پان کی دکان اور اس کی شہرت آج بھی ہے مگر رونق جو اماں کے دم قدم سے تھے پھر لوٹ نہ آئی ۔۔🥲
بہت ہی زبردست
اگر شاید آپ اِس کو بیان نا کرتیں تو ہمیں معلوم ہی نا ہوپاتا
یہ پان کی دوکان یا کھوکھا کہاں پر تھا؟
 

یاسر شاہ

محفلین
فقر سے ڈرانے والے #شیطانی #لشکر کے #ایجنٹ نہ بنو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒکا ایک ملفوظ:۔ 🥀
کچھ لوگ مولانا کے پاس آئے اور مہنگائی کی شکایت کی اور کہا کہ کیا ہم حکومت کے سامنے مظاہرے کرکے اپنی بات پیش کریں؟
حضرت ؒ نے ان سے فرمایا :
مظاہرے کرنا اہلِ باطل کا طریقہ ہے۔ پھر سمجھایا کہ دیکھو! انسان اور چیزیں، دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ہیں،جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں ایمان اور اعمالِ صالحہ کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ہوکر اُوپر اٹھ جاتا ہے اور مہنگائی میں کمی آجاتی ہے اور جب انسان کی قیمت اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کے گناہوں اور معصیتوں کی کثرت کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ہوجاتا ہے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا ! تم پر ایمان اور اعمالِ صالحہ کی محنت ضروری ہے، تاکہ اللہ پاک کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور چیزوں کی قیمت گرجائے۔
پھر فرمایا:
لوگ فقر سے ڈراتے ہیں، حالانکہ یہ شیطان کا کام ہے۔ اس لیے تم لوگ جانے انجانے میں شیطانی لشکر اور ایجنٹ مت بنو۔ اللہ کی قسم ! اگر کسی کی روزی سمندر کی گہرائیوں میں کسی بند پتھر میں بھی ہوگی تو وہ پھٹے گا اور اس کا رزق اسے پہنچ کر رہے گا۔ مہنگائی اُس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لیے اللہ پاک نے لکھ دی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مہنگائی اُس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لیے اللہ پاک نے لکھ دی ہے۔
بے شک بےشک ۔۔۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا اور سب سے بہترین رازق ہے اور زمین پر جتنے بھی چلنے پھرنے والے ہیں ان سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں سب کو رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔۔۔اور اُسکا کوئی تعلق مہنگائی سے نہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر کسی عثمانی ترک کی عمر تریسٹھ سال سے بڑھ جاتی اور اس سے کوئی پوچھتا کہ آپکی عمر کیا ہے؟ تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیاء و ادب کرتے ہوئے یہ نہ کہتا کہ میری عمر تریسٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ھے بلکہ یہ کہتا بیٹا ہم حد سے آگے بڑھ چکے ہیں، اللّٰه اللّٰه کیسا ادب کیسا عشق تھا ان لوگوں کا، کیسی بہترین عادات تھی ان لوگوں کی، یہی وجہ تھی کہ عالم کفر نے سلطنت عثمانیہ کے غداروں سے مل کر ٹکڑے کر ڈالے.♥
بے شک بے شک یہی حیاء و ادب اور عشقِ رسول صل اللہ علیہ وسلم ہی عالمِ کفر کے ٹکڑے کرنے کو کافی ہے ۔۔
 
بے شک بےشک ۔۔۔
بے شک اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا اور سب سے بہترین رازق ہے اور زمین پر جتنے بھی چلنے پھرنے والے ہیں ان سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں سب کو رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔۔۔اور اُسکا کوئی تعلق مہنگائی سے نہیں۔
درست بات ہے مہنگائی کتنی بھی ہو جائے اللہ پاک سب کو رزق دیتا ہے یاسر شاہ صاحب نے خوب لکھا ہوا ہے کہ بندہ اپنے اعمال پر غور کرے رزق اُسے مل ہی جائے گا اگر زندگی ہوگی تو رزق بھی مل جائے گا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
زہر بھی تریاق ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔۔
آج سے تقریباً پینتالیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ مَیں اُن دنوں اسلام آباد میں ایک سائنسی تحقیقاتی ادارے میں بحیثیت ٹیکنیکل فوٹو گرافر ملازمت کرتا تھا۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ آتش جوان تھا اور پھر مَیں غیر شادی شدہ تھا، اس لیے ہر قسم کی گھریلو ذمّے داریوں سے بالکل آزاد تھا۔ خوب فراغت کے لمحات میسّر تھے۔ اسی فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے راول پنڈی کی ایک مارکیٹ میں مَیں نے اپنا ذاتی فوٹو اسٹوڈیو کھول لیا اور صبح سے شام تک کے لیے وہاں ایک ملازم رکھ لیا۔ شام کو آفس سے آنے کے بعد اسٹوڈیو کا کام میں سنبھال لیا کرتا۔

میری دکان دو حصّوں پر مشتمل تھی، ایک حصّے میں خوب صورت تصویروں سے مزیّن شوکیس، کرسیاں اور کائونٹرز بناکر اسے شوروم کی شکل دے دی تھی، جب کہ دوسرے حصّے میں اسٹوڈیو تھا، جہاں لوگوں کی تصاویر کھینچی جاتی تھیں۔ دونوں حصّوں کے درمیان ایک دروازہ تھا، جسے تصویر اتارتے وقت بند کردیا جاتا۔ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کا زمانہ تھا۔ تصویر اتارکر پرنٹ بنانے تک کا تمام عمل مکمل اندھیرے میں کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسٹوڈیو کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا ڈارک روم بھی تھا، جہاں فوٹو گرافی سے متعلق آلات اور اس میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز وغیرہ رکھے رہتے تھے۔

میرے گھر والے ان دنوں وادئ کہسار مَری میں رہائش پذیر تھے، اس لیے مَیں نے اپنی رہائش کا عارضی انتظام اسٹوڈیو ہی میں کر رکھا تھا۔ یہ نہ صرف فوٹو اسٹوڈیو تھا، بلکہ اکثر مَری سے آنے والے میرے دوستوں کے لیے ایک ریسٹ ہائوس بھی تھا۔ جب بھی کوئی دوست کسی غرض سے راول پنڈی آتا، تو میرے ہی اسٹوڈیو میں ٹھہرتا۔ اُن دنوں کسی قسم کی دہشت گردی یا چوری چکاری کا کوئی خوف نہیں تھا، اس لیے رات سوتے ہوئے دکان کا شٹر مکمل بند کرنے کے بجائے نیچے سے ایک ڈیڑھ فٹ کھلا چھوڑدیتا، تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہو، البتہ اسٹوڈیو اور شوروم کا درمیانی دروازہ بند کردیتا۔

ایک روز حسبِ معمول اسٹوڈیو میں سویا اور صبح اٹھ کر جب شوروم کا دروازہ کھولا تو وہاں ایک خارش زدہ کتّے کو دیکھ کر ٹھٹھک کر رہ گیا، وہ میری کرسی پر بڑے آرام سے سو رہا تھا، شاید جِلدی بیماری کے سبب اس کے تقریباً تمام بال جَھڑچکے تھے اور جسم پر جا بہ جا پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ یہ مکروہ اور دل خراش منظر میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ غصّے میں جوتا اٹھا کر اسے دے مارا، جو اسے لگنے کے بجائے اچھل کر کائونٹر پر سجے ہوئے فریم پر جا لگا اور شیشے کے کئی فریم ٹوٹ کرچکنا چُور ہوگئے۔ میرے حملے سے بچ کر کتّا تو فوراً ہی بھاگ کھڑا ہوا، مگر میرا ناقابلِ تلافی نقصان بھی کرگیا۔

میں شٹر اوپر کرکے اس کے پیچھے بھاگا۔ آس پاس کے دکان داروں کے لیے یہ نہایت مضحکہ خیز اور دل چسپ منظر تھا۔ ایک نے تو آواز لگائی، ’’جاوید صاحب! کیسا زبردست خوب صورت گاہک آیا ہے صبح صبح، آج پورے دن بڑی برکت ہوگی۔‘‘ ایک دکان دار نے استفسار کیا۔ ’’اسے شناختی کارڈ کے لیے تصویر بنوانی تھی یا رشتے کے لیے فوٹو!‘‘ سب ہی اس عجیب و غریب صورتِ حال اور میری بے بسی پر ہنس رہے تھے اور مَیں اپنے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کشن اور کرسی سے بہت کراہیت محسوس ہورہی تھی۔



کشن کو تو آگ لگادی، چوں کہ کتّا براہِ راست کرسی پر نہیں بیٹھا تھا، اس لیے اسے سرف اور فنائل سے اچھی طرح دھو دیا۔ اسی روز میراایک قریبی دوست مَری سے آیا، اسے اپنی دکھ بھری داستان سنائی، تو بجائے دکھ بانٹنے کے اس نے بھی میرا خوب مذاق اڑایا۔ دراصل میرا یہ دوست بہت رحم دل اور حسّاس طبیعت کا ہے، خصوصاً جانوروں کے حوالے سے۔ کہیں راہ چلتے کسی لاوارث کتّے کے پلّے پر نظر پڑ جائے، تو اس کا وارث بننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتا، فوراً اس کے دل میں پدرانہ شفقت مچل اٹھتی ہے۔ کہیں سے کوئی پلاسٹک کا پیالہ خریدکر اور اس میں دودھ ڈال کر اسے پلائے بغیر وہاں سے نہیں ٹلتا۔

اُس رات میرا یہ دوست میرے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں ٹھہرا۔ دوسری صبح جب میری آنکھ کھلی، تو دیکھا وہی کتّا پھر میری کرسی پر دبک کر چین کی نیند سو رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی میرا خون کھول اٹھا، مَیں نے فیصلہ کیا کہ آج اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ بھلے تنظیمِ حقوقِ حیوان والے مجھے پھانسی پر ہی کیوں نہ چڑھادیں۔ کتّے کی نیند میں مخل ہوئے بغیر مَیں نے اپنے دوست کو جگایا تاکہ وہ بھی اس دل نشین منظر سے فیض یاب ہو۔ مجھے اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کتّے کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر کہیں میرے دوست کی ممتا جاگ اٹھی، تو پھر وہ اسے کبھی مارنے نہیں دے گا، لیکن جوں ہی اس کی نظر اس بدبخت کتّے پر پڑی، نہایت کراہیت سے ناک چڑھا کر بولا۔ ’’اسے مار ہی دو تو اچھا ہے۔‘‘

اس کی طرف سے این او سی ملتے ہی اسے مارنے کی ایک زبردست تدبیر میرے ذہن میں آئی۔ میرے پاس اس وقت فوٹو گرافی میں استعمال ہونے والے جو کیمیکلز تھے، ان میں ایک انتہائی زہریلا کیمیکل ’’پوٹاشیم فیری سائنائیڈ‘‘ بھی موجود تھا۔ پیکنگ پر احتیاط کی خصوصی ہدایات درج تھیں۔ سوچا، اگر کسی طرح یہ زہر اسے کھلادوں، تو اس بن بلائی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل جائے گا۔ لہٰذا اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مَیں نے اسے نہایت پیار سے پچکار کر دکان سے باہر نکالا۔ میری کھوٹ سے پاک محبّت پا کر وہ بڑے لاڈ سے دُم ہلانے لگا۔

بیکری قریب ہی تھی، وہاں سے دو پیسٹریز خریدیں۔ خیال تھا کہ ایک میں زہر ڈال کر اسے کھلادوں گا، تاکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے اور اس کے مرنے کی خوشی میں دوسری خود کھالوں گا۔ زہریلی پیسٹری جوں ہی اس کے سامنے رکھی، وہ بھوکا تو تھا، فوراً ہی نگل گیا۔ اب میں اس کی موت کا منتظر تھا، مگر پیسٹری کھانے کے بعد بھی للچائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے دُم ہلانے لگا، تو میں نے اپنے حصّے کی پیسٹری بھی زہرآلود کرکے اسے پیش کردی۔ اسے بھی وہ فوراً ہی چٹ کرگیا۔

اب مجھے یقین تھا کہ چند لمحوں میں اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجائے گی، لہٰذا اس خدشے کے پیشِ نظر کہ اگر اس کی موت میری دکان کے سامنے ہوگئی، تو میری سفّاکیت اور اس کی مظلومیت کا اشتہار نہ بن جائے، یہ سوچ کر ایک بڑا سا پتھر لے کر اس کی طرف اچھالا تاکہ وہ کہیں دور جاکر اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کرے۔ وہ میرے وار سے خود کو بچا کر دور بھاگا اور اگلی گلی میں مڑگیا۔ واپس آکر میں نے کرسی کو بھی جلادیا۔ اس کے بعد وہ نہیں آیا، میں نے بھی شکر کیا کہ بلا ٹلی۔

اس واقعے کے کوئی پانچ چھے ماہ بعد ایک شخص میری دکان پر کیمرے کی فلم خریدنے آیا۔ اس کے ساتھ سفید بالوں والا ایک خوب صورت کتّا بھی تھا۔ وہ شخص فلم لے کر واپس جانے لگا، تو کتّے کا قد اور اس کا انداز دیکھ کر مجھے کچھ شک گزرا کہ کہیں یہ وہی کتّا تو نہیں، جسے میں نے زہر دیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس گاہک نے بتایا کہ ’’یہ ہمارا پالتو کتّا ہے۔ کچھ عرصے قبل خارش کی بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا، چوں کہ پالتو تھا، اس لیے اسے مارنے کو ہمارا دل نہیں مانا۔ اسے بھگانے کی بہت کوشش کی، مگر یہ نہیں گیا، بلکہ گلیوں ہی میں اِدھرادھر آوارہ پھرتا رہا، پھر کچھ دنوں بعد یہ خودبخود ٹھیک ہونا شروع ہوگیا۔

اس کے خوب صورت بال بھی نکل آئے اور اب یہ بالکل ٹھیک ہوگیا ہے۔‘‘ اس پر میں نے اسے بتایا کہ یہ خودبخود ٹھیک نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے علاج کی خاطر میرے پاس بھیجا تھا، چوں کہ اس کا علاج اس زہر میں تھا، جو میرے پاس موجود تھا، مَیں نے اسے مارنے کے لیے جو زہر دیا، وہ اس کے لیے تریاق ثابت ہوا اور نادانستگی میں اس کا علاج ہوگیا۔ پھر زہر دینے کا تمام واقعہ اسے سنادیا۔ اگرچہ اس بات کو عرصہ گزرگیا، مگر مَیں اس حیرت انگیز اور دل چسپ واقعے کو آج تک فراموش نہیں کرسکا۔
(محمد جاوید، اقبال ٹائون، راول پنڈی)
 

ملک پاکستان کی قدر کریں!​

کفار کے ممالک میں نہ جائیں !

آج کل جو ایک فتنہ مسلمانوں میں بہت پھیلا ہوا ہے،حد سے زیادہ اور ہماری سوچ سے بھی زیادہ، وہ یہ ہے کے کفار کے ممالک کی طرف ہجرت کرنا،سفر کرنا اور ادھر ہی اقامت کرنا۔
قرآن کریم میں ہے:
’’وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْيَہُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ‘‘ (البقرۃ:۱۲۰)
یعنی: ’’۔(اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی، یہاں تک کہ آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کرلیں‘‘۔ ’’ان کا دین‘‘ یعنی ان کا محرف شدہ دین جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے الگ ہے، ان کے دین کی جب تک آپ اتباع نہیں کر لیں گے، اس وقت تک یہ آپ سے راضی نہیں ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیتِ مبارکہ جن کے اخلاقِ مبارکہ کی گواہی خود اللہ پاک دے رہے ہیں کہ: ’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ میری اور آپ کی شخصیت کچھ بھی نہیں ہے ان کے مقابلے میں، جب ان سے راضی نہیں ہوتے تو مجھ سے اور آپ سے کیسے راضی ہوسکتے ہیں؟ یہ ہو نہیں سکتا، جتنا مرضی ان کو خوش کرنے کی کوشش کی جائے، یہ اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے، جب تک اپنا دین چھوڑ کر ہم اُن کا مذہب نہ اختیارکرلیں ۔ اور یہ ہو رہا ہے، وہاں اتنی مساجد، تحفیظ اور دعوت کے باوجود مسلمان کا بچہ عیسائیت کی طرف جا رہا ہے اور اگر بچہ بچ بھی جائے، یعنی ا گر بالفرض پہلی نسل بچ بھی جاتی ہے، اگرچہ ایسا بھی بہت کم ہوتا ہے،بیس تیس فیصد یا زیادہ سے زیادہ ستر فیصد اسلام پر قائم رہتی ہے، لیکن پھر آگے ان کی نسل بمشکل بیس فیصد بھی اسلام پر قائم نہیں رہتی،آپ غیر مسلم ممالک میں جائیں، آپ جتنا بھی تلاش کرلیں، آپ کو ایسا شخص نہیں ملے گا جو خود بھی مسلمان ہو، اس کا باپ بھی مسلمان ہو،دادا بھی مسلمان ہو، ہوسکتا ہے میرے علم میں نہ ہو اور ایسی مثال ہو کہ تیسری نسل بھی مسلمان ہو، مگر میں آج تک ایسے کسی شخص سے نہیں ملا۔اور پھر مسلمان ممالک کو چھوڑ کر غیر مسلم ممالک کی طرف جانا کوئی آج کل کی بات نہیں، بہت پرانی بات ہے،سو سو سال، ڈیڑھ سو سال پہلے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان باہر گئے، اب اُن کی نسلوں میں کوئی مسلمان نہیں ملتا، سو سال تو دور کی بات ہے، جو ستر سال پہلے گئے، ان کی نسلوں میں بھی کوئی مسلمان نہیں ملتا۔
اب آپ یہ بھی دیکھیں کہ قیامت تک جتنی نسل ہوگی، یہ اپنے ملک چھوڑ کر باہر جانے والے ان سب کے کفر میں مبتلا ہونے کا سبب بن گیا، کیونکہ مسلم ملک میں ہی رہنے کی صورت میں ہوسکتا ہے نسلیں گمراہ ہوجائیں، لیکن پھر بھی مسلمان تو رہیں گے اور اگر ہم نیک بن جائیں اور اسلامی ملک میں ہی قرا ر پکڑیں تو ان شاء اللہ! اس کی برکت ہماری نسلوں تک جائے گی۔ سورۂ کہف میں جن یتیم بچوں کا ذکر ہے:’’ أَبُوْھُمَا صَالِحًا‘‘ ان کا ساتواں دادا صالح تھا تو اگر ہم نیکی اختیار کریں تو نیکی اور ایمان کی خو شبو اور برکت نسلوں تک جائے گی۔ اور یہ دیکھو! بجائے اس کے کفار اسلام قبول کرتے اور مسلمانوں کی طرف ہجرت کرتے، اُلٹا مسلمان ان کی طرف جا رہے ہیں اور یہ بات کبھی مت کہنا کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میںتکا لیف ہیں۔ مدینہ شریف میں بھی تکلیف تھی، جب مسلمان مکّہ سے ہجرت کر کے آئے، اس وقت مدینہ شریف کا نام بھی یثرب تھا اور بہت خطرناک بخار پھیلا ہوا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کچھ برداشت کرتے چلے آئے، اپنے اہل و عیال، گھر بار چھوڑ چھا ڑ کر چلے، سوچا تک نہیں کسی نے کہ روم کی طرف چلے جائیں، اس وقت تو یورپ وغیرہ نہیں تھا ۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ یہ ایک صحابی ہیں،جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا مقاطعہ فرمایا تو روم کے بادشاہ کی طرف سے ان کے لیے ایک خط آیا تھا کہ اگر آپ کے بڑے آپ سے ناراض ہیں تو ہم آپ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس آ جائیں، جو بھی آپ چاہتے ہیں وہ آپ کو مل جائے گا، اتنا ناراض اور غصّہ ہوئے کہ اس خط کوتندور میں جھونک دیا، خوش نہیں ہوئے ۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج کل جب کوئی کہے کہ ہم غیرمسلم ملک یورپ یا جو بھی ملک ہو اس کی طرف ہجرت کر رہے ہیں تو ہم کہتے ہیں: مبارک باد، میں سمجھتا ہوں یہ بات ایمان کے خلاف ہے، یہ بات خطرناک ہے، بہت ہی خطرناک، اگر وہ ملک ایسا ہے جس نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے، ان کو مارا ہے، ان پر قیامت ڈھائی تو آپ ان کو اس ملک میں جانے پر مبارکباد پیش کر رہے ہیں؟ آپ کو کہنا چاہیے کہ لعنت ہو اس ملک پر،کتنا مسلمانوں پر ظلم کیا ہے، کتنا ظالم ملک ہے، کس طرح کا سلوک کیا ہے اس نے مسلمانوں کے ساتھ اور آپ ایسے ملک میں جا رہے ہیں؟ بجائے اس کے ہم یہ کہتے ہیںکہ: مبارک ہو۔ کس بات کی مبارک باد؟ اس بات کی کہ ان کی اولاد،اولاد کی اولاداور یہ خود، ان کا ایمان کمزور ہو رہا ہے؟ ان کا ایمان خطرہ میں پڑرہا ہے؟ ان کے بچے جو تیسری چوتھی نسل ہے، وہ مرتد ہو رہے ہیں؟ اور یہ ہو رہا ہے،مسلمان بہت بڑی تعداد میں مرتد ہو رہے ہیں۔ صرف ارجنٹائن میں ۳۰؍ لاکھ مسلمان عیسائی بن چکے ہیں، یہ صرف ارجنٹائن کی بات بتا رہا ہوں، اور ایسے لاکھوں مسلمان ہیں جو اپنا دین چھوڑ رہے ہیں، وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم نے حدیث پاک پر عمل نہیں کیا۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا، کچھ لوگوں نے (کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی، پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آخر کیوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہونا چاہیے) کہ وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں۔‘‘
کیسی خطرناک بات ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فر ما رہے ہیں کہ: میں بری ہوں اس مسلمان سے جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، ڈرنا چاہیے ہمیں بہت زیادہ۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ پر شرط لگائیں، میں اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہوں، دین قبول کرنا چاہتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط پر بیعت فرمایا کہ: ’’آپ نے ایک اکیلے اللہ تعالیٰ کی ذات کی عبادت کرنی ہے، شرک نہیں کرنا،نماز قائم کرنی ہے،زکاۃ دینی ہے، نماز قائم کرنی ہے، مسلمان کی نصرت کرنی ہے اور کافروں کا ملک چھوڑ کر مسلمانوں کی طرف آنا ہے۔‘‘ یعنی کہ آپ سوچیں کہ اسلام قبول کرنے کی ایک شرط تھی کافروں کے ملک کو چھوڑنا اور مسلمانوں کے ملک کی طرف آنا ۔
بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ آج کل جو لوگ دھڑادھڑ اُن ممالک کی طرف جا رہے ہیں، وہ کفر کی خدمت کر رہے ہیں،کفر کو مضبوط کررہے ہیں،آپ ذرا گن لیں کہ کتنے ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ اِدھر سے نکل چکے ہیں،ہزارو ں کی تعداد میں یا لاکھوں کی تعداد میں؟ یہ اگر ادھر واپس آجائیں تو اس ملک کو کتنی ترقی ہوگی؟ مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوگا! اور اگر کفرستان کی طرف جائیں گے تو ظاہر سی بات ہے ان کو ترقی ہو گی، اس طرح کفر مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے ممالک کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
علماء کرام نے سخت ضرورت کی بنا پر ان ممالک کی طرف سفر کرنے کی گنجائش دی ہے،اس کی کچھ شرائط بھی لگائی ہیں کہ اگر آپ علاج کے لیے جا رہے ہیں اور علاج بھی ایسا ہو جو آپ کے ملک میں نہیں ہے، اور اگر ایسا علاج آپ کے ملک میں موجود ہے تو اجازت نہیں یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے واپس آکر آپ اپنے ملک کی خدمت کریں گے، یا دعوت و تبلیغ کے لیے جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں، لیکن یہ شریعت میں ہے ہی نہیں کہ ادھر ہی ہجرت کر کے وہیں اقامت اختیار کر لی جائے۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں پیداہوا،ماں پاکستانی، باپ پاکستانی، ادھر ہی تعلیم و تربیت حاصل کی، پرورش پائی، ادھرہی کی آب و ہوا میں پلا بڑھا اور جب پھل دینے کا وقت آیا ہے تو کفرستان کی طرف چلا جاتا ہے، وہاں جا کر پھل دیتا ہے، ان کی خدمت کر کے ان کو فائدہ پہنچاتا ہے اور مسلمانوں کو محروم کردیتا ہے، آپ دیکھ لیں: مسلمانوں کی اس سوچ کی وجہ سےاچھا ڈاکٹر اب ادھر اتنی آسانی سے نہیں ملتا ۔
ایک اور بہت رنج کی بات کہ ہمارے ہاں پاکستان میں کچھ اسکول اور تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو اس بات کو فخریہ طور پر پیش کرتے ہیں کہ ہم آپ کے بچے کو ایسی تربیت دیں گے کہ یہ باہر ملک یورپ وغیرہ چلا جائے گا، وہاں سیٹل ہوجائے گا، اور ہم بہت فخر اور خوشی سے اپنے بچے کو اس اسکول میں داخل کراتے ہیں، بچپن ہی سے اس کا یہ ذہن بن جائے گا کہ میں نے باہر جانا ہے، ادھر ہی رہنا ہے، اب یہ بھی ایک خیانت ہے اس ملک سے،اور اس خیانت پر ہم فخر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاباش! بہت اچھا! حالانکہ آپ ایمانداری سے سوچیں ذرا، اگر کسی اور ملک کا اسکول بچے کو اس بات کی تربیت دے کہ پاکستان کی طرف چلا جائے تو ہم کیا اس بات سے خوش ہوں گے؟
ہم مسلمان اپنے ممالک کو اپنے ہاتھ سے تباہ کر رہے ہیں اور صرف یہ پاکستان میں نہیں ہے، یہ بات ہر جگہ ہی بہت پھیل چکی ہے ، ترکی میں غیر قانونی طور پر سمندر پار کرتے ہوئےکتنے لوگ ڈوب گئے، غرق ہوگئے، صرف اس لیے کہ ادھر کی قومیت کا کارڈ مل جائے۔ اگر ہم اس کارڈ کو حرام سمجھیں،لعنت سمجھیں، یہ کہہ دیں کہ بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے؟ آپ کیا اللہ تعالیٰ کو جواب دیں گے اپنی اولاد کے بارے میں؟ بجا ئے یہ کہ آپ ان لوگوں کو جو کفّار کے ممالک میں جارہے ہیں، ان کو دعوت دے کر ادھر بلاتے، آپ خود ادھر جارہے ہیں، یہ تو بہت ہی تعجب کی بات ہے۔ اگر ہم اسی طرح بولتے رہیں گے تو کفار کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا تناسب کم ہوتا جائے گا۔ اور ایک بہت شرم کی بات ان مسلمانوں کے لیے جو ہر وقت اسی تگ ودو میں رہتے ہیں کہ کسی طرح وہاں کا کارڈ مل جائے، کسی طرح ہم ادھر جا کر مقیم ہو جائیں، فرانس یا کوئی اور کفّار کے ملک کا باشندہ اپنے ہم وطن سے یہ کہے کہ میں برطانیہ یا آ سٹریلیا کی طرف جا رہا ہوں،مجھے ادھر کا ویزا مل گیا ہے، ادھر ہی رہوں گا تو ا س کاہم وطن اس سے ناراض اور خفا ہو جاتا ہے، غصّہ سے کہتا ہے کہ کیا آپ اپنے ملک سے محبت نہیں رکھتے؟ اپنے ملک کو آپ چھوڑ کر کیسے جا رہے ہیں؟ کفار کی سوچ دیکھو اور مسلمانوں کی سوچ دیکھو، بہت ہی شرم کا مقام ہے۔ اوربعض ممالک میں میرے علم میں ہے کہ اس ملک کی شہریت یا کارڈ دینے سے پہلے باقاعدہ طور پر ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ میں اس ملک کے ساتھ مکمل طور پر وفاداری کروں گا،میری تمام تر اطاعت اور اخلاص اس ملک کے ساتھ ہے، یہ حلف لیا جاتا ہے،اب اس کا کیا مطلب؟ مسلمان کا دشمن جب اس کا دوست بن گیا تو مسلمان کا کیاحال ہو گا؟یہ ایک قاعدہ ہے کہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے، اب جس نے اس طرح حلف لیا وہ گویا دشمن کا دوست بن گیا اور مسلمانوں کا دشمن بن گیا اور آپ اس دشمن بن جانے پر اس کو مبارکباد پیش کررے ہیں؟ ہمارے ایمان کا کیا حال ہو گیا ہے؟ جو اس کارڈ میں عزت کو تلاش کر رہا ہے تو وہ ذرا خود اپنا محاسبہ کرے کہ وہ ایمان کے کس درجہ پر ہے؟ یہ تو منافقین کی صفت ہے کہ منافقین کافروں سےعزت لینا چاہتے تھے ، ہمارے ا یمان کا حصّہ کہاں چلا گیا؟
مسلمان کی لڑائی اللہ کے لیے ہے اور کفار کی لڑائی شیطان کے لیے اور طاغوت کے لیے ہے، مسلمانوں کی اور کفار کی لڑائی یہ دونوں کبھی بھی مل نہیں سکتیں، دونوں کے مقاصد بالکل الگ الگ ہیں، اب جب یہ دونوں ایک ہی ملک میں رہ رہے ہیں اور وہ ملک کفار کا ہے،اکثریت وہاں کفار کی ہے تو جب اگر لڑائی ہوتی ہے تو کس کا جھنڈا اُٹھایا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ کا یا طاغوت و شیطان کا؟ظاہر سی بات ہے شیطان کا ہی جھنڈا اُٹھایا جائے گا ۔
آج کل چونکہ لوگوں کی اصلاح کی طرف توجہ کم ہے، ملک کی قدر دانی دل سے نکل گئی ہے، اس لیے ملک کی ناقدری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک تباہ ہو جاتا ہے تو ہو جائے، ہم نے تو ادھر ہی جانا ہے، یہ بات بالکل ہی غلط ہے، پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے، اس کو محفوظ کرنا، اس کی حفاظت کرنا یہ ایمان کا حصّہ ہے۔ مدینہ شریف میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہجرت کی تو یہ سب قریش تھے، لیکن مدینہ شریف کو محفوظ کرنے کے لیےقریشیوں سے لڑے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کے مدینہ شریف اب مسلمانوں کاایک قلعہ ہے ،ایک مرکزہے، اس کو محفوظ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان بھی آج کل مسلمانوں کا مرکز ہے، مسلمانوں کے لیے اس کو محفوظ کرنا بھی ضروری ہے، مگر اللہ کی عظیم نعمت کی ناشکری کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر جگہ کچرا ہے،روڈ یں بالکل خراب ہیں، عوام ٹھیک نہیں ہے، بجلی جاتی ہے تو کئی دن بعد آتی ہے، مہنگائی اتنی ہے کہ کھانے پینے کے اخراجات تک پورا کرنا مشکل ہے۔ لیکن جب ہم یورپ وغیرہ کے حالات دیکھیں گے تو ہم کہیں گے کہ: الحمد للہ! ہمارا ایمان محفوظ ہے،ہماری اولادوں کا ایمان محفوظ ہے،ہر چیز برداشت ہو سکتی ہے، مگر ایمان کی کمزوری،ایمان کے ضائع ہونے کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پکے نمازی وہ اُدھر جا کربھی نماز پڑھتے ہیں، مگر آپ دیکھیں گے کہ والدین جو یہاں سے نکلتے ہیں، جو نمازی ہوتے ہیں پچاس فیصد وہاں جا کر مسجد جانا چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے بچے نماز ہی چھوڑ دیتے ہیں، مسلمان ہیں تو بس برا ئے نام کے،پھر کسی عیسائی کے ساتھ شادی کر لیتے ہیں ۔ مسلمان کو تو تمنا کرنی چاہیے کہ میں نے نیک لوگوں اور دین داروں کے ساتھ رہنا ہے،موت کے بعد بھی مسلمانوں کے ساتھ دفن ہونا ہے، بعض واقعات دیارِ غیر میں ایسے بھی ہو ئے ہیں کہ مخصوص جگہ جہاں پر مسلمانوں کو دفناتے ہیں وہ نہیں ملی، مجبوراً کافروں کے قبرستان میں دفنایا، العیاذ باللہ۔
بخاری شریف کی حدیث شریف ہے کہ: تین چیزیں جس میں ہیں وہ ایمان کی مٹھاس پا لے گا: ایک یہ کہ اس کے نزدیک سب سے محبوب اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو، اس کا کیا مطلب ہے؟ انسان نے اگر دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت رکھنی ہے تو اسی وقت رکھ سکتا ہے جب دل سے دنیا کو نکال دے، جب تک دل میں دنیا کی محبت ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آ سکتی، انسان اگر دل سے اس دنیا کی محبت کو نکال دے تو یوں سمجھ لیں کہ آدھی پریشانیاں ختم ہو گئیں۔ آپ گن لیں ہماری اکثر پریشانیاں دنیا کی محبت کی وجہ سے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سنتوں پر اتباع کی برکت سے ملے گی، دوسرا ہمارے جو تعلقات ہوں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہوں، اگر ہم اس بات پر عمل کرتے ہوں، جو بھی تعلقات رکھیں صرف اللہ ہی کے لیے رکھیں تو کوئی پریشانی نہیں ہو گی، لیکن جب ہم دنیا کے لیے اور دنیا کو خوش کرنے کے لیے تعلقات رکھتے ہیں تو پھر پریشان ہو جاتے ہیں کہ میں نے اس کو اتنا دیا تھا،اس نے بدلہ میں میرے ساتھ کیا کیا؟ کیسا رویہ اختیار کیا؟ اور اگر تعلق اللہ کے لیے تھا تو کہے گا کہ جو آتا ہے ٹھیک ہے، جو چلا جائے وہ بھی کوئی حرج کی بات نہیں، تیسری چیز وہ کفر کی طرف واپس لوٹنے کو اتنا برا سمجھے،جتنا برا آگ میں ڈالے جانے کو سمجھتا ہے، انسان کتنا ڈرتا ہے آگ میں ڈالے جانے سے، اسی طرح کفر کی زندگی سے،اس کی عادات و صفا ت سے ڈرنا چاہیے، اگر ہمارے دل میںکفر کی زندگی سے بغض اور نفرت ہے تو کفار کے ممالک کی طرف جانے کا اتنا اشتیاق کیوں؟ اور پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا اس کی قدر کیوں نہیں؟ جتنا ہمارے دل میں کفر سے نفرت و بغض ہوگا اتنا ہی ہم کفرستان کی طرف جانے سے نفرت کریں گے اور پاکستان میں رہنے کو اپنی سعادت سمجھیں گے۔
آج کل لوگ کہتے ہیں کہ یار! ہم یورپ، یو کے وغیرہ کی طرف گئے، کیا صفائی کیا انتظامات ہیں! ایسے درخت اور ہریالی ہے، دنیا جہاں کی سہولیات ادھر موجود ہیں، ادھر پاکستان میں اگر آپ ائیرپورٹ پر پہنچتے ہیں تو اتنا پوچھتے تنگ کرتے ہیں کہ کہاں جانا ہے؟ کہاںسے آئے ؟ادھر اتنا احترام ہے،اتنی عزت دیتے ہیں، کوئی نہیں پوچھتا کہ کہا ں جانا ہے؟ ہر طرح کی آزادی ہے، اب یہ بہت بڑی کوتاہی اور غلطی ہے دین اور شریعت کی نظر میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ مسلمانوں کے بچوں کی کیا حالت ہے؟ اس کا دین و ایمان محفوظ ہے یا نہیں؟ ادھر جو لوگ دنیا کی طرف جا رہے ہیں ان کی کیا کیفیت ہے؟ یہ نہیں بتاتے کہ وہاں کی خواتین کی مجموعی حالت کیا ہے؟کس حال میں وہ پھرتی ہیں؟ وہاں پر والدین کو کیا درجہ دیا جاتا ہے؟ انسان جب بوڑھا ہو جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے؟
ہمارے یہاں کراچی میں، کسی مالدار نے اپنے بچے کوباہر بھیج دیا کہ اچھی زندگی گزار لے، تف ہے ایسی سوچ پر، کفار کے ملک کی رنگینیاں دیکھ کر وہ ادھر کا ہی ہوکر رہ گیا، ماں باپ پھر کس کو یاد رہتے ہیں؟ ان کا بیٹا وہاں پر ڈاکٹر بن گیا،خود پر فالج گر گیا، بہت بیمار ہوگیا، اب دل میں حسرت پیدا ہوئی کہ موت سے پہلے اپنے بیٹے کو دیکھ لوں،اس کو فون کیا کہ ادھر آجائیں، آپ کو مرنے سے پہلے صرف ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں، اس نے جواب میں کہا: ہمارے پاس آنے کاٹائم نہیں ہے ،فون کرتے رہے، مگر اس نے فون نہیں اُٹھایا، یہی حسرت دل میں لیے مر گیا: ’’فَاعْتَبِرُوْا یَا اُو لِیْ الْاَبْصَارِ‘‘ ... ’’تو اے (بصیرت کی)آنکھیں رکھنے والو! عبرت پکڑو۔‘‘ (الحشر)
لوگ ایک غلط مفروضہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، پہلی بات تو یہ کہ اس وقت جب یہ مسلمان مکّہ میں تھے کوئی بھی مسلمانوں کا ملک نہیں تھا، جس کی طرف یہ ہجرت کرتے، دوسر ا مکہ میں اُن پر بہت ظلم ڈھائے جا رہے تھے، مشرکین کی طرف سے بہت مشکل اور تکلیف میں تھے، اپنے دین پر نہیں قائم رہ پا رہے تھے، پاکستان میں آپ کو کون منع کرتا ہے دین پر عمل کرنے سے؟اور یہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم تھا، حبشہ کا نجاشی بھی ایک بہت اچھا انسان تھا اور بعد میں انہوںنے اسلام بھی قبول کر لیا تھا اور پھر جب مسلمان مدینہ شریف میں آگئے تو پھر کبھی کسی نے نام تک نہیں لیا اور نہ کبھی سوچا کہیں اور جانے کا اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنا کہ اس وقت کے اور آج کے فتنوں میں بہت زیادہ فرق ہے، جیسے جیسے ہم زمانۂ نبوت سے دور ہوتے جا رہے ہیں، فتنے چاروں طرف سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔یورپ اور دیگر کفّار کے ممالک میں جس فتنے نے ایک کثیر تعداد میں مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے،جس نے نہ عالم کو چھوڑا ہے،نہ داعی کو،نہ تصوف والے کو، سب کو لگا دیا ہے، وہ عورتوں کا فتنہ ہے، جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔‘‘
خواتین کا فتنہ کس قدر خطرناک ہے؟! ایک واقعہ سناتا ہوں عبرت کے لیے، ایک بہت ہی نیک شخص حافظِ قرآن جہاد کے لیے سفر پر چل دئیے،عیسائیوں سے مقابلہ ہوا، عیسائیوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے کہ ان کی نظر ایک خاتون پر پڑی،عورت پر نظر پڑتے ہی اس کے حسن کے فتنے میں گرفتار ہوگیا، اس کو خط بھیجا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اس نے کہا کہ میری آپ کی شادی کیسے ہوسکتی ہے؟ آپ مسلمان ہیں، میرے والد کہہ رہے ہیں کہ آپ عیسائی بن جاؤ، پھر ہی آپ مجھ سے شادی کر سکتے ہیں،اس نے مسلمانوں کی فوج چھوڑ دی اور دینِ اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر لی،اس لڑکی سے شادی کی اور پھر اس کی اولاد بھی ہو گئی،کچھ عرصہ کے بعد مسلمان ان سے ملنے اور ان کو دیکھنے کے لیے آئے کہ دیکھیں کس حال میں ہیں؟ پوچھا کہ آپ کے قرآن پاک کا کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ صرف ایک آیت یاد ہے: ’’رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ‘‘ ، ’’ کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے کہ اے کاش! وہ مسلمان ہوتے۔‘‘ (الحجر)
ایک اور حدیث شریف سناتا ہوں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’ ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے بخار ہو گیا تو اس نے کہا کہ میری بیعت فسخ کر دیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا، پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میری بیعت فسخ کر دیجیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا، آخر وہ (خود ہی مدینہ سے) چلا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مدینہ بھٹی کی طرح ہے، اپنی میل کچیل دور کردیتا ہے اور صاف مال کو رکھ لیتا ہے۔‘‘ جو صحیح طور پر مسلمان ہیں،وہی مسلمانوں کے ملک میں قرار پکڑتے ہیں، باقی یہاں سے بھاگنے اور نکلنے کی فکر کرتے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کواس خطرناک فتنے اور تمام فتنوں سے بچائے،ہمارے اور ہماری اولادوں کے اسلام کی حفاظت فرمائے،دین پر ثابت قدمی اور استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین)
اِس تحریر کو یہاں سے لیا گیا ہے لنک
 

رباب واسطی

محفلین
مرحوم کس طرح فوت ہوئے تھے؟

تعزیت کے آنے والے لوگ مرنے والے کے کسی قریبی عزیز سے پہلے تعزیت کے کلمات کہتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر کوی یہ سوال پوچھتا ہے کہ مرحوم کس طرح فوت ہوے تھے؟

دراصل یہ سوال تعزیت کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے چنانچہ مرحوم کا وہ عزیز وفات سے تین چار روز قبل کے واقعات خصوصاً مرنے سے چند گھنٹے قبل کے واقعات پوری تفصیل سے سناتا ہے اور کسی ایک خاص مقام پر پنہچ کر دھاڑیں مارنے لگتا ہے

تھوڑی دیر بعد کوی دوسرا شخص تعزیت کے لیے آتا ہے اور پوچھتا ہے "مرحوم کیسے فوت ہوے تھے"؟

چنانچہ وہ یہ داستان غم ایک بار پھر پوری تفصیل سے سناتا ہے اور مقررہ وقت پر پھر سے دھاڑیں مارنے لگتا ہے
یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک تعزیت کرنے والے آتے رہتے ہیں اور پوچھتے رہتے ہیں کہ آخر مرحوم کس طرح فوت ہوے تھے؟

حتٰی کہ مرحوم کا وہ عزیز نڈھال ہو جاتا ہے اور پھر وہ ہر تعزیت کرنے والے کو آنکھوں آنکھوں میں بتاتا ہے کہ دراصل مرحوم کس طرح فوت ہوے تھے!!!!!!
 

رباب واسطی

محفلین
عورت تو پاؤں کی جوت ہوتی ہے

میں نے بیشتر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ پیسہ ہاتھ کی میل اور عورت پاوں کی جوتی ہوتی ہے۔ تا ہم حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے لوگوں کی کؔثیر تعداد کو اس جوتی اور میل کے لیے ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے۔
یہ میل تو کچھ لوگوں کے ہاتھ آجاتی ہے مگر بیشتر اس کے لیے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
البتہ شادی کی بدولت جوتی سب کا مقدر بنتی ہے بلکہ کئی ایک تو جوتی کے بجائے جوتیوں کی خواہش کرتے ہیں اور یہ خواہش اس وقت پوری ہو جاتی ہے جب وہ مزید شادیاں کرتے ہیں۔

اس کو کہتے ہیں اپنی جوتی اپنا سر
 

سیما علی

لائبریرین
’’رزق‘‘
’’اگر آپ کو جلدی نہ ہو تو دو منٹ کے لیے رک جاؤں؟‘‘
رکشا ڈرائیور نے اجازت مانگی۔ مجھے جلدی نہیں تھی۔
اس نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے رکشا روکا۔
ریسٹورنٹ کے باہر بہت سے غریب لوگ انتظار میں بیٹھے تھے۔ رکشا والا کاؤنٹر پر گیا اور کچھ پیسے ادا کیے۔
قطار میں بیٹھے ایک شخص کو بریانی مل گئی۔
رکشا دوبارہ چلا تو میں نے کہا : تم تو خود غریب آدمی ہو، یہاں کیوں پیسے دیے؟
اس نے کہا : رکشا چلانے سے پہلے میں مزدوری کرتا تھا۔ جس دن دہاڑی نہیں لگتی تھی، یہاں بیٹھنے سے رزق ملتا تھا۔ انہی دنوں ایک بابا ملا ، جب مزدوری ملتی، ان بابا کے کہنے پر میں یہاں آ کر کسی کو بریانی کھلاتا، پھر پتا چلاکہ "جو رزق بانٹتا ہے، اسے یہاں قطار میں بیٹھنا نہیں پڑتا‘‘

"مبشر زیدی"
 

سیما علی

لائبریرین
*آسیہ عمران*
*ڈبل ہنڈیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
ماں کی بیٹی کے ساتھ بات چیت تھی ۔
بیٹی شکائتا کہہ رہی تھی۔
دن بھرگدھوں کی طرح ہانڈی ،چولہا کرتی ہوں مجال ہے کسی کو احساس تک ہو۔
ستائش کا کوئی لفظ ، جملہ تک میسر نہیں آتا۔
ماں نے جوابا عجیب بات کہی۔
*ڈبل ہنڈیا نہ پکایا کرو میری بچی ۔*
بیٹی کی حیرانگی پر گویا ہوئیں ۔
ایک وہ ہنڈیا جو کھانے کے لئے بناتی ہو۔ دوسری اسی دوران اہتمام سےاپنےاندر پکاتی ہو۔خطرناک دوسری والی ہے۔
ذرا سوچویہ سورج جو روز تمھیں روشنی دیتا ہے۔ یہ رات جو تمھیں سکون دینے کو آتی ہے ۔ دریا سمندر ،بارش جس کا ایک سائیکل ہمہ وقت کام کرتا ہے۔یہ نیند جو تمھیں تروتاز ہ کرتی ہے ۔یہ پھل سبزیاں جو روز تمھیں میسر ہیں ۔
آج تک تم نے ان سب کی کتنی ستائش کی شاید معمول میں ان نعمتوں کا سوچا بھی نہ ہو۔
یہ سب ستائش سے بے پرواہ اپنا اپنا کام کیے جا تے ہیں۔ گویا سبق دیتے ہیں تم بھی اپنا فرض،اپنے حصہ کا کام یکسوئی سے ادا کیے جاؤ کہ یہی تمھاری ڈیوٹی ہے۔
گھر تمھارا ہے، رشتے تمھارے ہیں ان کی کئیر کرنے کی طاقت تمھیں دی گئی ۔ تمھارا تو فرض ہے جس کی ادائیگی پر مالک نے ستائش کا دن مقرر کررکھا ہے۔انعام میں جنت کا انعام بھی تیار ہے۔
یاد رکھو
دل و دماغ خالی ہوں ان سے اصل کام نہ لیا جائے تو قبضہ ہو جاتا ہے ۔
شیطان نے یہی کیا آپ کے خالی دل و دماغ پر قبضہ جمایا ہے ۔
*کرنے کا کام ایک ہے* ۔
قبضہ چھڑاؤ ۔
وہاں وہ رکھو جو رکھنے کا ہے ۔فرض پہچانو،
مقصد حیات تلاش کرو،
رب نے آپکو پیدا کیاہے تو یقین رکھو
*یہاں کوئی خاص کام خالص آپ سے لیا جانا ہے۔*
جس کی تلاش صرف آپ ہی کر سکتی ہیں ۔
ہو سکتا ہے ۔
آپ کا کام اس گلو کا ہو جو ٹوٹوں کوجوڑتی ہے یا آپ وہ بلب ہوں جس کی روشنی راستہ دکھاتی ہے یا آپ آکسیجن ہوں کہ جس سے زندگی کی بقا ہےیا آپ مرہم ہوں جو زخم مندمل کرتاہے یا آپ وہ سوئی ہوں جو نامناسب حالات میں دھاگے سے نئے نقوش ابھارتی ہے ۔ یا آپ وہ کدال ہوں جو ننھے پودوں کے لئے زمین نرم کرتی ہے۔
میری بچی
روح کو خالص غذا دینا
سوچ و فکرکو اس سے لبا لب بھر دینا
آپ کا کام ہے ۔
غذا بھی تو خاص ہے۔
اوپر آسمان سے بھیج گئی ۔
وحی کی صورت
میری بچی
قرآن کو تھام لو۔
کوئی جگہ ،کوئی رخنہ ،کوئی لمحہ اچکنے والے کے لیے نہ چھوڑو۔۔۔
منقول
 

سیما علی

لائبریرین
نعمت خانہ
مجھے ڈرائیور کی ضرورت تھی ابا جی سے ذکر کیا تو انہوں نے گاؤں سے مظہر احمد کو بھجوا دیا۔ ابا جی نے اُس کی بہت تعریف کی تھی۔ بہت نیک اور شریف لڑکا ہے۔ دسویں پاس ہے۔ اسے رکھ لو۔ اس کی ماں تمہیں دعائیں دے گی اور ماں کی دعائیں میرا سب سے بڑا ویک پوائنٹ تھا۔
میں دعائیں ہاتھ سے کیسے جانے دیتا فورا مظہر احمد کو بھیجنے کا کہہ دیا۔ وہ گاڑی چلانا جانتا تھا کچھ دن کی ٹریننگ کے بعد اُس نے باقاعدہ چارج سنبھال لیا۔ ابا جی مظہر کے بارے میں ٹھیک کہتے تھے اس کا اندازہ مجھے اُس دن ہو گیا۔
صبح جاگنگ سے واپسی پر سرونٹ کواٹر سے آتی تلاوت کی آواز نے میرے قدم روک لیے۔ یہ مظہر احمد تھا۔ میرا وہ سارا دن بہت اچھا گزرا میں اپنے دل کی خوشی کی وجہ نہیں جان پایا مگر میں خوش تھا بہت خوش اور پھر میں اکثر خوش رہنے لگا۔ روزمرّہ کی مصروفیت بزنس کے معاملات سب کچھ ویسا ہی تھا فرق صرف اتنا تھا کہ اب مجھے چیزیں پریشان نہیں کیا کرتی تھیں۔
دل کو اُٹھا کر کسی نے پُرسکون جگہ پر رکھ دیا تھا۔ دل نے بے چین ہونا، پریشان ہونا کیوں چھوڑ دیا؟ شاید میں جان نہ پاتا اگر مظہر احمد کی اپنی والدہ سے ہونے والی گفتگو نہ سنتا۔
بھیگی آواز سے وہ اپنی والدہ کو حال احوال بتا رہا
اماں میں بہت خوش ہوں
تیری دعاؤں کا پھل ہے اماں۔ دعاؤں کا پھل میٹھا ہوتا ہے نا ۔۔۔۔! تُو ہی تو کہا کرتی ہے۔ پورے بیس ہزار تنخواہ ہے۔ جلد ہی پیسے بھیجوں گا۔
دو پہیوں سے چار کا یہ سفر بڑا انوکھا ہے اماں ۔۔۔! تیرے سائیکل چلانے والے کملے مظہر کو الله نے بہت نواز دیا. جانتی ہے اماں ۔۔۔؟ میں بہت سوچتا رہا کیسے چلتی ہے یہ گاڑی؟ موٹر کیسے کام کرتی ہے اس کی؟ پھر تیری بات یاد آئی اماں ۔۔۔جب میں چھوٹے ہوتے تجھ سے پوچھا کرتا تھا۔ بسیں کیسے چلتی ہیں اماں؟ تو تُو کہا کرتی تھی میں کیا جانوں پُتر۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں یہ الله کے حُکم سے چلتی ہیں محض اُس کے فضل سے چلتی ہیں۔ سو بسم الله پڑھ کر سوار ہؤا کر پُتر۔ یہ منزلوں پر پہنچاتی ہیں۔ تُو ٹھیک کہتی تھی اماں۔ یہ محض اُس کے حُکم سے چلتی ہیں۔
اماں جب بھی گاڑی میں بیٹھتا ہوں سو کیا ہزار بسم الله پڑھ کر بیٹھتا ہوں۔ اماں تیرا مظہر بھٹے پر شدید گرمی میں سڑا کرتا تھا. مالک اکثر مزدوری بھی نہیں دیا کرتا تھا۔ بھٹے میں پکتی اینٹیں بھی تیرے مظہر کی محنت کی گواہ تھیں اماں! مظہر احمد کی آواز میں محسوس ہونے والی ِکن ِمن اس فقرے کے بعد موسلا دھار بارش میں بدل گئی تھی۔ میں اُس بارش میں بھیگ رہا تھا کچی مٹی کی طرح بہہ رہا تھا اُس کی سسکی میں چُھپے شُکر کی کیفیت میرے اندر ڈیرہ ڈالنے لگی تھی۔ بے شک وہ بہت صابر اور شاکر تھا۔
وہ اپنی والدہ کو بتا رہا تھا۔ شدید گرمی میں ٹھنڈی کار میں بیٹھتا ہوں تو اُس مزدور کی خوشی کا خیال آتا ہے جس کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دی گئی ہو۔ تیرے مظہر کی ساری مزدوریاں رب نے جمع کر رکھی تھیں اماں ۔۔۔ َیک مُشت ادا کر دیں اُس کی آواز بھاری ہوتی جا رہی تھی۔
ہاں اماں آیتہ الکرسی پڑھ کر بیٹھتا ہوں چاروں قُل بھی پڑھتا ہوں اماں. صاحب جی کے لیے دعا کرتا ہوں لو بھلا کیسے نہیں کروں گا اماں۔ الله اُن کو سکون اور خوشیاں عطا فرمائے اُن کے کاروبار میں برکت دے۔
آمین میں نے زیرِ لب کہا
اُس کی والدہ نے بھی یقینا آمین کہا ہو گا
میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ 😢😭🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
وہ ایک معمولی نوکری پر اتنا شاکر تھا جتنا شاید میں ہزار نعمتوں پر بھی نہیں تھا۔ رب کا اس طرح شکر ادا کرنے والا کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔ مظہر احمد خاص تھا بہت خاص۔ دادی کے گاؤں والے گھر کے باورچی خانے میں جالی والی ایک الماری ہؤا کرتی تھی جسے نعمت خانہ کہتے تھے۔ وہ کھانے پینے کا سامان اور خاص طور پر ابلا دودھ اس میں ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھا کرتی تھیں۔ مظہر احمد نے میرے دل کو اُٹھا کر نعمت خانے میں رکھ دیا تھا۔ زندگی کو بھی جیسے اُبال آ گیا تھا۔
اُس پر بالائی کی موٹی تہہ جمنے لگی تھی۔ میں مظہر احمد کا احسان مند تھا۔ اس نے مجھے شکر کرنا سکھا دیا تھا۔🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
اے مالکِ برحق ہمیں شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمادے ۔آمین ثم آمین
 

رباب واسطی

محفلین
شادی کی رسومات

مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہویی کہ پاکستان میں شادی کے لییے لڑکے اور لڑکی کا راضی ہونا کافی نہیں، بلکہ ان کے والدین کا راضی ہونا ضروری ہے، تا ہم وہ اس سلسلے میں اولاد کی مرضی ضرور دریافت کرتے ہیں۔ اگر لڑکا لڑکی "ہاں" کردیں تو یہ شادی ہوجاتی ہے اور اگر "نہ" کہیں__________تو بھی شادی ہو ہی جاتی ہے۔
مجھے یہاں ایک شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ بارات میں بے شمار لوگ تھے جو پیدل چل رہے تھے اور دولہا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ دولہا کو گھوڑے پہ بٹھانے کی رسم میرے لییے ناقابل فہم تھی ممکن ہے اس کا تعلق گھوڑے کی ذہنی سطح یا "ہارس پاور" وغیرہ سے ہو۔ بارات میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سر پر کچھ صندوق اٹھاے ہوے تھے۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اس میں دلہن وغیرہ کے لییے قیمتی پارچہ جات ہیں جو دلہن والوں کو دکھا کر دولہا واپس اپنے گھر لے جاے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ان کپڑوں کو "وری" کے کپڑے کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ "وری" سن کر میں بہت چونکا کیونکہ ہمارے بھی یہ لفظ موجود ہے اور انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن معنوں میں پاکستان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وری (worry) کا مطلب "پریشانی" ہے۔ اور جن کپڑوں کو یہاں "وری" کہا جاتا ہے وہ بھی پریشانی ہی کے زمرّے میں آتے ہیں کیونکہ بلا وجہ اٹھا کر دلہن کے گھر لے جانا پڑتا ہے جبکہ انہیں واپس دولہا کے گھر ہی آنا ہوتا ہے۔

ماخوذ: خند مکرر (عطا الحق قاسمی)
 

رباب واسطی

محفلین

پرانے وقتوں کی بات ہے، ایک غریب شخص کام کاج کی تلاش میں مختلف شہروں کی خاک چھانتا رہا مگر اسے کوئی بھی کام نہ مل سکا.
تھک ہار کر وہ چرچ میں چلا گیا، اور اونچی آواز میں کہنے لگا "خداوندا تو مجھے کب تک غریب رکھے گا"
پادری نے جب یہ الفاظ سنے تو اس شخص کو ڈانٹا کہ ایسے دعا نہیں کرتے. وہ غریب شخص کہنے لگا کہ ٹھیک ہے پھر آپ مجھے کوئی کام دے دیں، تاکہ میں یہ الفاظ پھر نہ دہرا سکوں.
پادری کہنے لگا ٹھیک ہے مجھے اس چرچ کے لیے ایک کاتب کی ضرورت ہے، جو یہاں آنے جانے والوں کے علاوہ چرچ کے اخراجات کا حساب لکھا کرے ، تم یہ کام سنبھال لو ماہانہ پچاس ڈالر کے علاوہ کھانا اور رہائش بھی میرے ذمے ہوگی.
اس شخص نے فوراً حامی بھر لی، پادری نے اسے کھاتہ رجسٹر اور قلم دے دیا، اور یوں وہ شخص چرچ کا کاتب بن گیا. وہ روزانہ پادری کو ہر چیز کے متعلق تفصیل سے بتاتا رہتا تھا، جب اسے کام کرتے ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا تو پادری نے کہا ذرا اپنا حساب کتاب لکھنے والا رجسٹر لے کر آؤ تاکہ اس ہفتے کی آمدن اور اخراجات کا موازنہ کیا جاسکے، وہ شخص کہنے لگا جناب مجھے تو لکھنا پڑھنا آتا ہی نہیں، میں تو زبانی ہر چیز کا حساب رکھتا ہوں.
پادری نے کہا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم لکھ پڑھ نہیں سکتے، مجھے تو ایسے شخص کی ضرورت تھی جو پڑھا لکھا ہو، تم میری طرف سے یہ پچاس ڈالر لو اور جاؤ جاکر کوئی دوسرا کام تلاش کرو.
وہ شخص پچاس ڈالر لیکر جب چرچ سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ دو شخص آپس میں باتیں کررہے تھے، ایک شخص دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ میں نے تمھیں پچاس ڈالر قرض دیے ہیں، اب تم ان سے کوئی تجارت کا کام کرو، اپنا نفع حاصل کرو اور بعد میں مجھے میری اصل رقم لوٹا دو.
اس شخص نے جب یہ گفتگو سنی تو سوچنے لگا کہ پچاس ڈالر تو میرے پاس بھی ہیں، مجھے بھی تجارت کرکے دیکھنی چاہیے..
وہ گیا اور بازار میں اچھی طرح گھوم پھر کر دیکھا، اس نے دیکھا کہ اس شہر کے امرا ٹماٹر سے روٹی کھاتے ہیں مگر عجیب بات تھی کہ ٹماٹر وہاں اگتا نہیں تھا، دور دراز کے علاقوں سے جب ٹماٹر آتا تو طویل سفر اور گرم موسم کے باعث رستے میں خراب بھی ہوجاتا تھا اس وجہ سے اس کام میں سرمایے اور وقت کے خسارے کے پیش نظر بس دو تین تاجر ہی یہ کام کرتے تھے، اور وہ منہ مانگے دام بھی وصول کرتے تھے - - -
اس شخص نے دور دراز کے علاقوں سے ٹماٹروں کو یہاں لاکر فروخت کرنے کا ارادہ بنا لیا -
وہ پہلے بھی مختلف شہروں کا سفر کرتا رہا تھا، اسے پتا تھا کہ کہاں پر ٹماٹر سستا اور کثرت سے پایا جاتا ہے - وہ سیدھا وہیں گیا اور وہاں سے جب ٹماٹر خرید کر لایا اور بہت کم منافع کے ساتھ انہیں فروخت کرنا شروع کیا تو پہلے دن ہی سارے ٹماٹر ہاتھوں ہاتھ بک گئے اور اسے اچھا خاصا منافع بھی حاصل
ہوا -
اسے یہ کام پسند آگیا، اور پھر کرتے کرتے ایک دن وہ اس علاقے کا بڑا تاجر بن گیا - اس نے اپنے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے لیے نوکر بھی رکھ لیے -
ایک دفعہ وہ سفر کرتے ہوئے کسی ایسی جگہ پر گیا جہاں ہسپانوی زبان بولی جاتی تھی جس سے وہ نابلد تھا - وہ ایک ریستوران میں کھانا کھانے گیا تو اسے کھانوں کے نام پلے نہیں پڑ رہے تھے - اس نے اپنے ایک نوکر کو بلا کر کہا کہ! " ذرا ان کھانوں کے نام تو سمجھ کر مجھے بتاؤ -" نوکر نے حیرانی سے کہا جناب آپ اتنے بڑے تاجر ہیں مگر آپ کو ہسپانوی زبان نہیں آتی - اس شخص نے کہا اس لیے کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں - تو نوکر نے کہا جناب آپ ان پڑھ ہوکر ایک بڑے تاجر ہیں، سوچیں اگر دو چار جماعتیں پڑھ لیتے تو پتا نہیں کتنے بڑے تاجر ہوتے اور آج نجانے کہاں ہوتے - اس شخص نے جواب دیا! " ہونا کہاں تھا، اگر دو چار جماعتیں پڑھ جاتا تو آج پچاس ڈالر ماہوار پر چرچ میں پادری کا کاتب ہوتا......"
ایک عربی کہاوت کا اردو اردو ترجمہ
 
Top