انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
میں نے بکریاں پالنے والے ایک چھوٹے سے فارمر سے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو
اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے
مگر میں نے جب بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں
جب میں نے اس سے تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اسکا جو جواب تھا وہ کمال کا تھا اور اسکا وہی ایک جملہ دراصل کامیاب ہونے کا بہت بڑا راز تھا
اس نے کہا کہ بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں
اس لئے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی
یہ تیرہویں بکری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لئے باعث خیر وبرکت ہے

یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا یہ جملہ ایک طرف
مجھے وہ بات ان پڑھ سادہ لوح گلہ بان کامیابی کا وہ فلسفہ سمجھا گیا جو کامرس کی موٹی موٹی کتابیں مجھے نہ سمجھا سکیں
لوگ رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ یہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔۔
(منقول)
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے پوچھا، اعظم چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہوں گے، مجھے پکوڑے چاہئیں، آپ کو اڈوانس کتنے پیسے دے جاؤں؟
‏چاچا جی نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے مسکرائے ۔
‏"کتنے پیسے دے سکتے ہو"
‏مجھے ایسے لگا، جیسے چاچا جی نے میری توہین کی ہے،
‏مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی یہ سوال بے محل اور تضحیک تھی،
‏میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جی کے سامنے رکھ دئیے،
‏چاچا جی نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے،
‏وہ سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو،
‏کل آ کر اپنے سموسے پکوڑے لے جانا،
‏میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا ، اب بیچاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔
‏میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔
‏وہ کون ہے آپکی ؟؟
‏میرے منہ سے بے اختیار سوال نکلا ۔ چاچا جی تپ گئے،
‏وہ میری ماں ہے ، بیٹی ہے اور بہن ہے ۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں، جنہیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انہیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟
‏پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔
‏تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتےداروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کما لیا۔
‏"اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک"
‏میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، یہ میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے غریب پکوڑے والے کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کر رہے تھے۔
‏چاچا جی کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جا رہے تھے۔
‏میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟
‏اے کاش میں بھی چاچا جی کی آنکھ سے دیکھتا۔
‏ اے کاش تمام صاحبان حیثیت بھی اسی آنکھ کے مالک ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رباب واسطی

محفلین
امام صاحب نے نماز کے دعا شروع کی تو نمازیوں میں سے ایک صاحب بولے
اما م صاحب ملکی معیشت کے لیے بھی دعا کیجیے گا
امام صاحب نے مسکرا کر اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور کہا کہ
یہ پانچ ہزار کا نوٹ مسجد سے ملا ہے۔ جس کا ہو وہ نشانی بتا کر لے لے
چند لوگ کھڑے ہوئے تو امام صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کر کے دعا کروائی اور پھر بولے
یہ پانچ ہزار کا نوٹ میں گھر سے لے کر آیا تھا سودا سلف لینے کے لیے۔ اس نوٹ کے دعویدار خود کو سدھاریں معیشت خودبخود ٹھیک ہو جائے گی
 

سیما علی

لائبریرین
معاشرہ کی اصلاح کے لئے شئیر کی گئی ایک عمدہ، خوبصورت اور سبق آموز تحریر۔۔۔۔۔


*"ڈیجیٹل فاسٹنگ"*

*"پڑھنے کے لائق ایک فکرانگیز تحریر"*

*مجھے تیسرے دن ان کا فون آیا، وہ شرمندہ تھے اور بار بار معذرت کر رہے تھے، میں نے عرض کیا، میں حیران تھا آپ نے کبھی رنگ بیک میں تاخیر نہیں کی، میں نے کال کی، آدھ گھنٹے میں آپ کا جواب آ گیا۔*

*ہمارے تعلقات میں پہلی بار میں نے آپ کو آٹھ فون کیے اور آپ کا تین دن تک جواب نہیں آیا لہٰذا میں پریشان ہوگیا تھا، اللہ کرم کرے آپ خیریت سے ہوں، وہ ہنس کر بولے، میں آپ سے شرمندہ ہوں تاہم میں اللہ کے کرم سے ٹھیک ٹھاک ہوں، صحت مند بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی پریشانی اور تکلیف سے بھی بچا رکھا ہے بس میں تین دن کے لیے "ڈیجیٹل فاسٹنگ" پر تھا*

*اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں دے سکا، ڈیجیٹل فاسٹنگ کا لفظ میرے لیے اجنبی تھا لہٰذا میں نے رک کر پوچھا "کیا مطلب، آپ نے رمضان میں کس قسم کے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں؟" وہ ہنسے اور پھر مطمئن آواز میں بولے" جاوید صاحب میں ہر پندرہ دن بعد تین دن کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن بند کر دیتا ہوں، یہ میرا ڈیجیٹل فاسٹ ہوتا ہے۔*

*میں ان دنوں میں ٹیلی فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کرتا ہوں، میں ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتا اور اخبار بھی نہیں پڑھتا" یہ بات میرے لیے حیران کن تھی چناں چہ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سننا شروع کر دی، یہ بولے، میں ان تین دنوں میں صرف کتابیں پڑھتا ہوں، مارننگ واک کرتا ہوں*


*پہاڑوں میں چلا جاتا ہوں، سڑکوں اور پارکس میں گھومتا ہوں، سموسمہ چاٹ کھاتا ہوں، عام چائے خانوں میں بینچ پر بیٹھ کر دودھ پتی پیتا ہوں، پرندوں کو دانا ڈالتا ہوں، خرگوشوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، صبح جلدی اٹھ کر سورج کو نکلتے اور شام کے وقت ڈوبتے دیکھتا ہوں، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لیکچر دیتا ہوں۔*

*اپنے پرانے کپڑے اور جوتے نکال کر تقسیم کرتا ہوں، بیگم کے ساتھ واک کرتا ہوں، اس کے ساتھ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتا ہوں، چائے کافی پیتا ہوں، تصویروں کی نمائش پر جاتا ہوں، کتابوں کی دکانوں کا چکر لگاتا ہوں اور ناراض دوستوں کے گھر جا کر انھیں راضی کرتا ہوں، میں ان تین دنوں میں وہ سارے کام کرتا ہوں جو میں عام دنوں میں ڈیجیٹل وال کی وجہ سے نہیں کر پاتا"*

*میں نے ہنس کر پوچھا "اور جناب یہ ڈیجیٹل وال کیا ہوتی ہے؟" وہ بھی ہنس پڑے اور بولے "ڈیجیٹل ورلڈ نے ہمارے اور فطرت کے درمیان اور ہم اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے، ہم اب گلہری کو بھی انسٹا گرام اور ٹویٹر پر دیکھتے ہیں، ہم دوستوں، رشتے داروں اور دشمنوں سے بھی فیس بک پر ملاقات کرتے ہیں۔*

*ہم اپنے چاہنے والوں سے بھی واٹس ایپ پر بات کرتے ہیں، اب تو انجینئر، ڈاکٹر، استاد اور قاری سے ملاقات بھی وڈیو کال پر ہوتی ہے اور ہم مولوی صاحب کا خطبہ بھی یوٹیوب لائیو پر سنتے ہیں۔*

*یہ تمام گیجٹس اچھے اور مفید ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے لیے تباہ کن بھی ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ ہم اور زندگی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ہیں اور اس دیوار کی وجہ سے ہم آج کے انسانوں کو فرسٹریشن بھی ہو رہی ہے، ٹینشن بھی اور اینگزائٹی بھی، ہم بلڈ پریشر، شوگر اور کینسر کے مریض بھی بن رہے ہیں۔*

*یہ درست ہے ہم آج کے دور میں ڈیجیٹل ورلڈ سے الگ نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ایک آدھ دن کا ڈیجیٹل فاسٹ رکھ کر خود کو اصل زندگی سے کنیکٹ تو کر سکتے ہیں اور میں یہ کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہا ہوں۔*


*میں پندرہ دن بعد تین دن کا فاسٹ لے لیتا ہوں" میں نے پوچھا "آپ کواس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟" یہ بولے "میری ٹینشن، ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول فوراً نیچے آ جاتا ہے، میرا بلڈ پریشر اور شوگر بھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور مجھے دکھائی اور سنائی بھی دینے لگتا ہے، مجھے اپنی بیوی، اپنے بچے اور پوتے پوتیاں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔*

*مجھے کیاریاں اور کیاریوں کے پھول اور ان پر چڑیاں اور درختوں میں چھپی کوئل بھی دکھائی دینے لگتی ہے، میری ٹیسٹ بڈز بھی امپروو ہو جاتے ہیں اور میں گاجر اور مولی کا ذائقہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔*

*مجھے کافی اور چائے بھی بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میں عام نارمل دنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہو جاتا ہوں اور میرے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں - ان کا کہنا تھا موبائل فون ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔*

*ہم جوں ہی اسے ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہماری زندگی، ہماری زندگی نہیں رہتی، یہ سوشل میڈیا، واٹس ایپ، کالز، ایس ایم ایس، ای میلز اور ٹینشن اور ڈپریشن سے بھری ہوئی آڈیوز اور وڈیوز کے رحم و کرم پر چلی جاتی ہے اور ہم اس کے بعد اندر سے فوت ہونے لگتے ہیں۔*

*لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی زندگی میں کوئی ایک دن موبائل اور ٹیلی ویژن کے بغیر رہ کر دیکھیں آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے گا، آپ کو چند لمحوں میں سامنے بیٹھے لوگ دکھائی اور سنائی دینے لگیں گے۔*

*آپ کو چند لمحوں میں ماں کے چہرے کی جھریاں دکھائی اور چھوٹے بچے یا بچی کے قہقہے سنائی دینے لگیں گے، آپ کو چہرے پر سکون اور دماغ میں ٹھنڈک محسوس ہوگی اور آخری بات " وہ رکے، لمبی سانس لی اور بولے " اور آخری بات آپ کا دن لمبا اور رات پرسکون ہو جائے گی، آپ یقین کرو ہمارا 60 فیصد دن سوشل میڈیا کھا جاتا ہے۔*👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
 
میں نے بکریاں پالنے والے ایک چھوٹے سے فارمر سے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو
اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے
مگر میں نے جب بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں
جب میں نے اس سے تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اسکا جو جواب تھا وہ کمال کا تھا اور اسکا وہی ایک جملہ دراصل کامیاب ہونے کا بہت بڑا راز تھا
اس نے کہا کہ بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں
اس لئے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی
یہ تیرہویں بکری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لئے باعث خیر وبرکت ہے

یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا یہ جملہ ایک طرف
مجھے وہ بات ان پڑھ سادہ لوح گلہ بان کامیابی کا وہ فلسفہ سمجھا گیا جو کامرس کی موٹی موٹی کتابیں مجھے نہ سمجھا سکیں
لوگ رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ یہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔۔
(منقول)
بالکل درست بات ہے لوگ اگر اِس بات کو پہلے ہی جان جائیں تو اِتنی محنت نا کرنی پڑے۔
 
امام صاحب نے نماز کے دعا شروع کی تو نمازیوں میں سے ایک صاحب بولے
اما م صاحب ملکی معیشت کے لیے بھی دعا کیجیے گا
امام صاحب نے مسکرا کر اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا اور کہا کہ
یہ پانچ ہزار کا نوٹ مسجد سے ملا ہے۔ جس کا ہو وہ نشانی بتا کر لے لے
چند لوگ کھڑے ہوئے تو امام صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کر کے دعا کروائی اور پھر بولے
یہ پانچ ہزار کا نوٹ میں گھر سے لے کر آیا تھا سودا سلف لینے کے لیے۔ اس نوٹ کے دعویدار خود کو سدھاریں معیشت خودبخود ٹھیک ہو جائے گی
آج کل یہ تجربہ نا کیا جائے مہنگائی کی وجہ سے کہیں امام صاحب سے ہی نا لڑپڑیں :)
 
آخری تدوین:
معاشرہ کی اصلاح کے لئے شئیر کی گئی ایک عمدہ، خوبصورت اور سبق آموز تحریر۔۔۔۔۔


*"ڈیجیٹل فاسٹنگ"*

*"پڑھنے کے لائق ایک فکرانگیز تحریر"*

*مجھے تیسرے دن ان کا فون آیا، وہ شرمندہ تھے اور بار بار معذرت کر رہے تھے، میں نے عرض کیا، میں حیران تھا آپ نے کبھی رنگ بیک میں تاخیر نہیں کی، میں نے کال کی، آدھ گھنٹے میں آپ کا جواب آ گیا۔*

*ہمارے تعلقات میں پہلی بار میں نے آپ کو آٹھ فون کیے اور آپ کا تین دن تک جواب نہیں آیا لہٰذا میں پریشان ہوگیا تھا، اللہ کرم کرے آپ خیریت سے ہوں، وہ ہنس کر بولے، میں آپ سے شرمندہ ہوں تاہم میں اللہ کے کرم سے ٹھیک ٹھاک ہوں، صحت مند بھی ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی پریشانی اور تکلیف سے بھی بچا رکھا ہے بس میں تین دن کے لیے "ڈیجیٹل فاسٹنگ" پر تھا*

*اس لیے آپ کو بروقت جواب نہیں دے سکا، ڈیجیٹل فاسٹنگ کا لفظ میرے لیے اجنبی تھا لہٰذا میں نے رک کر پوچھا "کیا مطلب، آپ نے رمضان میں کس قسم کے روزے رکھنا شروع کر دیے ہیں؟" وہ ہنسے اور پھر مطمئن آواز میں بولے" جاوید صاحب میں ہر پندرہ دن بعد تین دن کے لیے موبائل، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن بند کر دیتا ہوں، یہ میرا ڈیجیٹل فاسٹ ہوتا ہے۔*

*میں ان دنوں میں ٹیلی فون کالز، ای میلز اور سوشل میڈیا سے مکمل پرہیز کرتا ہوں، میں ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتا اور اخبار بھی نہیں پڑھتا" یہ بات میرے لیے حیران کن تھی چناں چہ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سننا شروع کر دی، یہ بولے، میں ان تین دنوں میں صرف کتابیں پڑھتا ہوں، مارننگ واک کرتا ہوں*


*پہاڑوں میں چلا جاتا ہوں، سڑکوں اور پارکس میں گھومتا ہوں، سموسمہ چاٹ کھاتا ہوں، عام چائے خانوں میں بینچ پر بیٹھ کر دودھ پتی پیتا ہوں، پرندوں کو دانا ڈالتا ہوں، خرگوشوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، صبح جلدی اٹھ کر سورج کو نکلتے اور شام کے وقت ڈوبتے دیکھتا ہوں، اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو لیکچر دیتا ہوں۔*

*اپنے پرانے کپڑے اور جوتے نکال کر تقسیم کرتا ہوں، بیگم کے ساتھ واک کرتا ہوں، اس کے ساتھ کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھاتا ہوں، چائے کافی پیتا ہوں، تصویروں کی نمائش پر جاتا ہوں، کتابوں کی دکانوں کا چکر لگاتا ہوں اور ناراض دوستوں کے گھر جا کر انھیں راضی کرتا ہوں، میں ان تین دنوں میں وہ سارے کام کرتا ہوں جو میں عام دنوں میں ڈیجیٹل وال کی وجہ سے نہیں کر پاتا"*

*میں نے ہنس کر پوچھا "اور جناب یہ ڈیجیٹل وال کیا ہوتی ہے؟" وہ بھی ہنس پڑے اور بولے "ڈیجیٹل ورلڈ نے ہمارے اور فطرت کے درمیان اور ہم اور لوگوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی ہے، ہم اب گلہری کو بھی انسٹا گرام اور ٹویٹر پر دیکھتے ہیں، ہم دوستوں، رشتے داروں اور دشمنوں سے بھی فیس بک پر ملاقات کرتے ہیں۔*

*ہم اپنے چاہنے والوں سے بھی واٹس ایپ پر بات کرتے ہیں، اب تو انجینئر، ڈاکٹر، استاد اور قاری سے ملاقات بھی وڈیو کال پر ہوتی ہے اور ہم مولوی صاحب کا خطبہ بھی یوٹیوب لائیو پر سنتے ہیں۔*

*یہ تمام گیجٹس اچھے اور مفید ہیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن یہ اس کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کے لیے تباہ کن بھی ہیں، کیوں؟ کیوں کہ یہ ہم اور زندگی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ہیں اور اس دیوار کی وجہ سے ہم آج کے انسانوں کو فرسٹریشن بھی ہو رہی ہے، ٹینشن بھی اور اینگزائٹی بھی، ہم بلڈ پریشر، شوگر اور کینسر کے مریض بھی بن رہے ہیں۔*

*یہ درست ہے ہم آج کے دور میں ڈیجیٹل ورلڈ سے الگ نہیں ہو سکتے لیکن ہم کم از کم ایک آدھ دن کا ڈیجیٹل فاسٹ رکھ کر خود کو اصل زندگی سے کنیکٹ تو کر سکتے ہیں اور میں یہ کام پچھلے تین چار سالوں سے کر رہا ہوں۔*


*میں پندرہ دن بعد تین دن کا فاسٹ لے لیتا ہوں" میں نے پوچھا "آپ کواس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟" یہ بولے "میری ٹینشن، ڈپریشن اور اینگزائٹی کا لیول فوراً نیچے آ جاتا ہے، میرا بلڈ پریشر اور شوگر بھی ٹھیک ہو جاتی ہے اور مجھے دکھائی اور سنائی بھی دینے لگتا ہے، مجھے اپنی بیوی، اپنے بچے اور پوتے پوتیاں بھی نظر آنے لگتے ہیں۔*

*مجھے کیاریاں اور کیاریوں کے پھول اور ان پر چڑیاں اور درختوں میں چھپی کوئل بھی دکھائی دینے لگتی ہے، میری ٹیسٹ بڈز بھی امپروو ہو جاتے ہیں اور میں گاجر اور مولی کا ذائقہ محسوس کرنے لگتا ہوں۔*

*مجھے کافی اور چائے بھی بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور میں عام نارمل دنوں کے مقابلے میں زیادہ خوش بھی ہو جاتا ہوں اور میرے دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو جاتے ہیں - ان کا کہنا تھا موبائل فون ہماری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔*

*ہم جوں ہی اسے ہاتھ میں پکڑتے ہیں ہماری زندگی، ہماری زندگی نہیں رہتی، یہ سوشل میڈیا، واٹس ایپ، کالز، ایس ایم ایس، ای میلز اور ٹینشن اور ڈپریشن سے بھری ہوئی آڈیوز اور وڈیوز کے رحم و کرم پر چلی جاتی ہے اور ہم اس کے بعد اندر سے فوت ہونے لگتے ہیں۔*

*لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ بھی زندگی میں کوئی ایک دن موبائل اور ٹیلی ویژن کے بغیر رہ کر دیکھیں آپ کا زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہو جائے گا، آپ کو چند لمحوں میں سامنے بیٹھے لوگ دکھائی اور سنائی دینے لگیں گے۔*

*آپ کو چند لمحوں میں ماں کے چہرے کی جھریاں دکھائی اور چھوٹے بچے یا بچی کے قہقہے سنائی دینے لگیں گے، آپ کو چہرے پر سکون اور دماغ میں ٹھنڈک محسوس ہوگی اور آخری بات " وہ رکے، لمبی سانس لی اور بولے " اور آخری بات آپ کا دن لمبا اور رات پرسکون ہو جائے گی، آپ یقین کرو ہمارا 60 فیصد دن سوشل میڈیا کھا جاتا ہے۔*👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
ویسے ڈیجیٹل فاسٹ کا آئیڈیا اچھا ہے لیکن یہ فاسٹ ہفتے میں ایک دن کا رکھ لیں تو بہتر ہے تین دن میں لوگ آپکا نمبر ہی بلاک کردیں گے اتنا صبر نہیں ہے آجکل لوگوں میں۔
 
میں نے بکریاں پالنے والے ایک چھوٹے سے فارمر سے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو
اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے
مگر میں نے جب بکریوں کے ریوڑ پر نظر دوڑائی تو اس میں بارہ نہیں تیرہ بکریاں تھیں
جب میں نے اس سے تیرھویں بکری کے بارے میں پوچھا تو اسکا جو جواب تھا وہ کمال کا تھا اور اسکا وہی ایک جملہ دراصل کامیاب ہونے کا بہت بڑا راز تھا
اس نے کہا کہ بارہ بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرھویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں
اس لئے یہ بکری میں نے گنتی میں شامل نہیں کی
یہ تیرہویں بکری باقی کی بارہ بکریوں کی محافظ ہے اور میرے لئے باعث خیر وبرکت ہے

یقین کریں کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے فلاسفروں کے فلسفے ایک طرف اور اس بکریاں پالنے والے نوجوان کا یہ جملہ ایک طرف
مجھے وہ بات ان پڑھ سادہ لوح گلہ بان کامیابی کا وہ فلسفہ سمجھا گیا جو کامرس کی موٹی موٹی کتابیں مجھے نہ سمجھا سکیں
لوگ رزق کو محنت میں تلاش کرتے ہیں حالانکہ یہ سخاوت میں پوشیدہ ہے۔۔
(منقول)
اگر کوئی بکریاں نہیں پال سکتے تو اپنی آمدنی میں سے ڈھائی پرسنٹ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کریں ۔ اللہ پاک آپ کو اُس کا دس گنا اور رمضان میں ستر گنا تک ثواب عطافرمائے گا ان شاء اللہ تعالٰی
 
کتھارسس catharsis ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، تطہیر اور تجدید حاصل کرتا ہے۔

اگر انسان کتھارسس نہ کرے تو اس کے اندر دبے جذبات و احساسات غصہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اگر یہ غصہ کسی بھی صورت نہ نکلے تو یہ انسان کا خود پر نکلتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کسی نہ کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں انسانی معاشرے میں غصہ، پریشانی، دکھ اور ذہنی دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔

اس کا معنی cleansing اور purification ہے۔ میرے مطابق اس کا مطلب اپنے ہر طرح کے جذبات اور محسوسات کا اظہار ہے۔ جب ہم مختلف موقعوں پر اپنے محسوسات کا ٹھیک طرح سے اظہار نہیں کر پاتے تو ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نا مکمل اور ادھورے محسوسات subconcious میں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔

ہر انسان اپنے ہی انداز میں کتھارسس کرتا ہے۔ کوئی شعر کہہ کر تو کوئی نثر لکھ کر، کوئی تصویر بنا کر تو کوئی مجسمہ تراش کر، کوئی غصہ میں چیختا چلاتا ہے تو کوئی آنکھوں سے نمکین پانی بہاتا ہے تو کوئی خود کلامی کرتا ہے۔
یہ انسان کے مزاج میں کتھارسس کا انداز ہوتا ہے یہ انسان پر ہے کہ وہ تلاش کرے کہ وہ کونسا کام یا طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ کتھارسس کر کے سکون حاصل کر سکتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ ان کے کتھارسس کا طریقہ کیا ہے؟
انسان کتھارسس کے ذریعہ اندر کے غبار کو نکال دیتا ہے تو اس کے اندر زندگی خوشی سے گزارنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے پیار کرنے لگتا ہے۔ کائنات کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔

ہمیں اپنی ذہنی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ براہ راست جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کے لئے Catharsis کی بہت ضرورت ہے۔

زندگی کو بھرپور جینا سیکھیں۔ خوشی کے موقعوں کو کھل کر celebrate کریں۔جب دکھ اور تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کا اظہار کریں۔ کسی کی بات بری لگی تو اس کو بتایں۔ کسی نے مدد کی تو کھل کر شکریہ ادا کریں۔ کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو کھل کر درخواست کریں۔ اگر کسی میں کوئی اچھائی نظر آتی ہے تو کھل کر تعریف کریں۔

ذہنی تناؤ اور بےسکونی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم مثبت اور منفی محسوسات کو دباتے ہیں اور اپنے subconscious میں ان کا baggage لے کر چلتے ہیں۔ اس baggage میں برسوں پرانی عداوتیں، پچھتاوے، محرومیاں، نفرتیں اور شکوے جمع کیے رکھتے ہیں۔ یہ اذیت اور دبے ہوئے احساسات زندگی کی خوشی اور اطمینان چھین لیتے ہیں۔ اپنے baggage کو صاف کرنے کے لئے اپنے اپ کو وقت دیں، اپنے ایسے جذبات اور سوچ کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔

کتھارسس کے کچھ طریقے

1۔ جذبات کا ہمیشہ کھل کر اظہار کریں، کچھ دل میں نہ رکھیں۔ اچھے انداز اور الفاظ کے ساتھ ہر قسم کے جذبات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

2۔ کسی ہمدرد کے سامنے دوسروں سے متعلق اپنے سب جذبات کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، جیسے والدین، دوست وغیرہ

3۔ شاعری کریں، نثر لکھیں، افسانے لکھیں یا تعمیری پیغامات لکھیں۔ فیس بک پر یہ کام بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

4۔ پینٹنگ کریں، مصوری کریں۔

5۔ سپورٹس میں حصہ لیں، اپنی پسند کی کھیل سے دل ہلکا ہوتا ہے۔

6۔ کتابیں پڑھیں، ڈاکومنٹریز دیکھیں، دلچسپ علم سے مستفید ہوں۔

7۔ کسی فلاحی کام میں حصہ لیں، معاشرے کو کچھ دیں، اپنے ملک کے لیے کچھ کریں، اپنے اللہ کے لیے کچھ کریں، مخلوق کو فائدہ پہنچائیں۔

8۔ مراقبہ کریں، اس سے دل کو راحت اور وجدان ملتا ہے، جذبات کلیر ہوتے ہیں۔ بہت قسم کے مراقبات کا ذکر اور طریقہ پیج کی مختلف پوسٹس میں موجود ہے۔

9۔ روزانہ سب لوگوں کو معاف کر کے سویا کریں اس سے لا شعور کی گرہیں کھلتی ہیں۔

10۔ اپنے اللہ کے سامنے اظہار کریں، شکایات کریں، گفتگو کریں۔ اور اس کے بعد دل صاف کر لیں، جب اللہ کو معاملہ دے دیا تو خود بیچ سے نکل جائیں۔

اگر آپ کو یہ سب کچھ کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے تو counselling حاصل کریں، کسی ماہر نفسیات کے سامنے کتھارسس کریں اور اپنے دل اور لا شعور میں سالوں پرانے دبے جذبات، کا اظہار کر کے اپنی زہنی صحت اچھی کریں اور اپنی صلاحیتیں بہال کر کے کھل کر جینا سیکھیں کیونکہ آپ کے لا شعور کا تناؤ نہ صرف آپ کی بلکہ آپ سے منسلک لوگوں کی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہوتا ہے۔
کُھل کر اظہار کرنا یا ہر بات کہنے والی بات کچھ سمجھ نہیں آئی کیونکہ ہر بات آپ بول تو دیں گے لیکن ہر بات سامنے والا سننے اور ٹھنڈے دماغ سے سمجھنے والا ہو آپ کا ہمدرد ہو یہ ضروری نہیں منہ سے نکلی بات پرائی ہوجاتی ہے ۔ لہذا ہر بات سوچ سمجھ کر ہی کی جائے ۔ باقی باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔
 

رباب واسطی

محفلین
باباجی فرماتے ہیں کہ
یہ وٹس ایپ بھی بہت بڑا مبلغ ہے۔ وٹس ایپ پر جو دوست جلدی جلدی روزانہ کی بنیاد پر میسج کرتے رہتے ہیں وہ کانٹیٹکس کی لسٹ میں اوپر اوپر رہتے ہیں اور ایک ہی سکرول ڈاؤن میں سامنے آجاتے ہیں
وٹس ایپ کا یہ عمل ہمیں تبلیغ کرتا ہے کہ اللہ سے روزانہ پانچ وقت رابطے میں رہو گے تو سرفہرست رہو گے ورنہ فہرست میں نیچے سے بھی نچلے درجے پر پہنچتے جاو گے

سب محفلین و عہدیداران اردو محفل فورم کو میری جانب سے عید الفطر مبارک
 

سیما علی

لائبریرین
باباجی فرماتے ہیں کہ
یہ وٹس ایپ بھی بہت بڑا مبلغ ہے۔ وٹس ایپ پر جو دوست جلدی جلدی روزانہ کی بنیاد پر میسج کرتے رہتے ہیں وہ کانٹیٹکس کی لسٹ میں اوپر اوپر رہتے ہیں اور ایک ہی سکرول ڈاؤن میں سامنے آجاتے ہیں
وٹس ایپ کا یہ عمل ہمیں تبلیغ کرتا ہے کہ اللہ سے روزانہ پانچ وقت رابطے میں رہو گے تو سرفہرست رہو گے ورنہ فہرست میں نیچے سے بھی نچلے درجے پر پہنچتے جاو گے

سب محفلین و عہدیداران اردو محفل فورم کو میری جانب سے عید الفطر مبارک
آپکو بھی عید مبارک !جیتی رہیے بہت ساری دعائیں
 
باباجی فرماتے ہیں کہ
یہ وٹس ایپ بھی بہت بڑا مبلغ ہے۔ وٹس ایپ پر جو دوست جلدی جلدی روزانہ کی بنیاد پر میسج کرتے رہتے ہیں وہ کانٹیٹکس کی لسٹ میں اوپر اوپر رہتے ہیں اور ایک ہی سکرول ڈاؤن میں سامنے آجاتے ہیں
وٹس ایپ کا یہ عمل ہمیں تبلیغ کرتا ہے کہ اللہ سے روزانہ پانچ وقت رابطے میں رہو گے تو سرفہرست رہو گے ورنہ فہرست میں نیچے سے بھی نچلے درجے پر پہنچتے جاو گے

سب محفلین و عہدیداران اردو محفل فورم کو میری جانب سے عید الفطر مبارک
ہر چیز کا مثبت پہلو ہوتا ہے ۔آج آپ نے واٹس اپ کا مثبت پہلو بتادیا ۔
لیکن یہ بابا جی کون سے ہیں جو واٹس اپ کے فتوے دے رہے ہیں :)
آپ کو بھی عید کی مبارک
اور میری طرف سے بھی تمام اردو محفل کے ممبران کو دلی عید مبارک!
 

سیما علی

لائبریرین
اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے ۔

مضمون نگاری کے حوالے سے موضوع تھا
" جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں " تبصرہ کیجیے۔

ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل دیتے ہوئے لکھا؛
جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جب کہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں ۔

جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے ۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے ۔

والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو ان کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے ۔

جہاں تک بات رزق کی ہے ، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں "
منقول
_______
 
اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے ۔

مضمون نگاری کے حوالے سے موضوع تھا
" جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں " تبصرہ کیجیے۔

ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل دیتے ہوئے لکھا؛
جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جب کہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں ۔

جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے ۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے ۔

والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو ان کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے ۔


جہاں تک بات رزق کی ہے ، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں "
منقول
_______
بچے نے سار ا غصہ اِس مضمون پر نکال دیا :)
 

سید عمران

محفلین
اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے ۔

مضمون نگاری کے حوالے سے موضوع تھا
" جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں " تبصرہ کیجیے۔

ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل دیتے ہوئے لکھا؛
جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جب کہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں ۔

جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے ۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے ۔

والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو ان کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے ۔


جہاں تک بات رزق کی ہے ، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں "
منقول
_______
جب بندہ شادی کرکے دس گھنٹے جاب کاروبار کرسکتا ہے تو چار گھنٹے پڑھائی نہیں کرسکتا؟؟؟
 

سیما علی

لائبریرین
*گھاٹے کا سودا*
میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا۔۔۔۔۔۔

اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی۔

فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘

یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا۔۔

’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں۔‘‘

ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔۔۔

’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں۔۔۔

‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا۔۔۔۔۔۔

’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا۔۔۔۔

جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی۔

۔۔۔۔۔میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں۔۔۔۔۔

میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے۔۔۔۔۔۔

‘‘ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے سوچا!!!

*یقینا ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں*
 

سیما علی

لائبریرین
*"عُسرِ یُسرَا"*
*اے میرے رب العزت!!*


*زخمی دلوں کو جب تک مرہم نہ ملے یہ ایک درد مسلسل میں رہتے ہیں، لیکن میں جانتی ہوں یہ درد بندگی میں تیرے بندوں کو اور بھی مضبوط اور خالص بناتے ہیں....ہر نقصان کے پیچھے تیری رحمت پوشیدہ ہے...ہر درد کے پیچھے ایک خوشی ہوتی ہے...ہر درد اپنے وقت پر چلا جاتا ہے واپس نہیں آتا نہ ہی اس کا خیال...ہر دکھ بھرے آنسو کے پیچھے پیاری سی مسکراہٹ اپنے آنے کا انتظار کر رہی ہوتی ہے...*
*ہر گہرے سکوت کے بعد ایک خوبصورت روشنی ہمارے انتظار میں ہوتی ہے...تیرا وعدہ ہے ہر تنگی کے ساتھ فراخی ہے....ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے....ہر کرب کے پہلو میں کشادگی ہے...*
*اور میں جانتی ہوں ہر مشکل و پریشانی کے پیچھے تیری بہترین منصوبہ بندی اور حکمت پوشیدہ ہے...اور جب میں یہ سب جان لیتی ہوں تو درد میں بھی ایک مسکراہٹ ہوتی ہے....اور پھر بےشک آنکھ سے آنسو جاری ہوں لیکن اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اے میرے رب تو میرے لیے کافی ہے، تیری محبت ہی ٹوٹے دلوں کی بہتریں دوا ہے۔*
*‏﴿ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۝ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ۝ ﴾*
 
Top