انٹر نیٹ سے چنیدہ

جاسمن

لائبریرین
*جمعہ کا دن اور مُلّا نصرالدین*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی، خیابانِ امیرخسرو سے محترمہ خدیجہ خاتون نے اپنے خط کا آغاز نہایت دلچسپ اور دل خوش کُن فقرے سے کیا ہے۔ فرماتی ہیں:’’آپ جمعہ کے مقدس دن علم کے موتی بکھیرتے ہیں، سیدھے جنت میں جائیں گے‘‘۔

دائیں بائیں مُڑے بغیر سیدھے جنت میں جانے کی خوش خبری سن کر جی خوش ہوا، مگرخوش عقیدہ خاتون کا یہ خوش گوار جملہ پڑھ کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ یہ لطیفہ پچھلے دنوں ہمارے تُرک بھائی اور ’پاکستانی بہنوئی‘ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے سنایا تھا۔ پروفیسر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ ہیں، پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ پاکستان سے محبت کے سبب زندہ دلوں کے شہر لاہور کی دامادی بھی اختیار فرما لی ہے۔ اُردو، پنجابی اور ہندکو روانی سے بول لیتے ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام اوردائرہ علم و ادب پاکستان کے تعاون سے، اسلام آباد میں ’ادبِ اطفال‘ پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیل طوقار فاصلاتی رابطے پر استنبول سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ناسازیِ طبع، بالخصوص گلے کی خرابی کے باعث، آپ نے صرف ابتدائی کلمات کہے۔ آپ کا مقالہ اکادمی ادبیات پاکستان کے صدرنشین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے بہ نفسِ نفیس پڑھ کر سنایا۔ ’’ترکی میں ادبِ اطفال‘‘ موضوع ہو اور ملانصرالدین کا ذکر نہ آئے،کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر طوقار نے ملا جی کا ایسا لطیفہ سنایا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چوں کہ لطیفہ صرف سنا ہے،چناں چہ ڈاکٹر صاحب کی تحریر لفظ بہ لفظ نقل کرنے سے معذرت۔ ہمارے قارئین برادر خلیل طوقار کی زبان کے چٹخارے تونہ لے سکیں گے، مگر اُن کا سنایا ہوا لطیفہ اپنے الفاظ میںسناتے وقت، ہم نے بھی نمک مرچ لگانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے:

ملا نصرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا:
’’ملا صاحب! میرے والدکی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے پوچھا: ’’کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’نہیں۔ وہ نمازپڑھتے تھے، نہ روزے رکھتے تھے، مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں‘‘۔
ملا نے دریافت کیا: ’’عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟‘‘
لڑکے نے بتایا: ’’عام طور پر تو نہیں۔ مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘‘۔
ملا : ’’کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟‘‘
لڑکا: ’’جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگرفوت جمعہ کے دن ہوئے‘‘۔
ملا: ’’عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟‘‘
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا۔ کہنے لگا: ’’جی، وہ تو پورے محلے میں لڑاکا اور جھگڑالو مشہور تھے۔ سب ان کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے۔ مگر ملا صاحب! میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب جمعہ کے متبرک دن فوت ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اگلی دُنیا میں کیسا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے دلاسا دیا: ’’بیٹا! جمعے کے دن تو اُنھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جیسے ہی ہفتے کا دن آئے گا سارا حساب کتاب بے باق کردیا جائے گا!‘‘

لطیفہ تو خیر لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ مگر اس علامتی قصے میں اُن لوگوں کے لیے گہرا سبق ہے، جو آج کے دن سماجی ذرائع ابلاغ پر صرف ’’جمعہ مبارک‘‘ کے پیغامات کی بھرمار کرکے سارا ثواب سمیٹ لینے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔

محترمہ خدیجہ خاتون نے آگے چل کر اپنے خط میں لکھا ہے: ’’آپ اپنے کالموں میں اکثر لکھتے ہیں کہ یہ پنجاب کا روزمرہ ہے، یہ کراچی کا، اور یہ لکھنؤ یا دہلی کا۔ روزمرہ کا مطلب تو ہر روز یا بلاناغہ ہوتا ہے۔پنجاب یا کراچی کے روزمرہ سے کیا مراد ہے؟‘‘

بی بی! بلاشبہ روزمرہ کا لغوی مطلب روزانہ، ہر روز یا آئے دن ہوتا ہے۔ یہ ترکیب فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ ’روز‘ (فارسی) کا مطلب دن اور ’مرہ‘(عربی) کا مطلب ہے بار، جیسے ایک بار، دو بار، تین بار۔ یہ مرکب خود اہلِ فارس نے بنایا ہے۔ اس کا ایک مطلب ’وجہِ معاش‘ بھی ہے۔ مثلاً ’’آہن گری اُن کا روزمرہ تھا‘‘۔ مگر جہاں کوئی لفظ ’اصطلاح‘ کے طور پر استعمال کیا جائے، وہاں اُس لفظ کے صرف مخصوص معنی لیے جاتے ہیں۔ ’روزمرہ‘ ایک اصطلاح بھی ہے۔اصطلاحاً اُس اندازِ بیان، اُس اُسلوب یا بول چال کے اُس طریقے کو ’روزمرہ‘ کہتے ہیں جو کوئی بھی زبان بولنے والے اپنی روزانہ گفتگو میں اختیار کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر امتحان دینے کو انگر یزی میں ‘To take examination’کہا جاتا ہے۔ یہ اُن کے روزمرہ کے مطابق ہے۔ اگر ہم امتحان دینے کو ‘To give examination’کہیں گے تو یہ انگریزی روزمرہ کے خلاف ہوگا۔ تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی کچھ الفاظ ادا کرنے کے لیے ایک خاص اُسلوب ہے۔ جیسے آپ نے خود لفظ ’بلاناغہ‘ لکھا ہے۔ اگر ہم اسے ’بے ناغہ‘ لکھیں تو مفہوم تو ادا ہوجائے گا، مگر یہ ’روزمرہ‘ کے خلاف سمجھا جائے گا۔ ’’تم روز روز آجاتے ہو‘‘ کی جگہ اگر ’’تم دن دن آجاتے ہو‘‘ کہا جائے تو یہ بھی روزمرہ بول چال کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسی جملے کو یوں کہنا البتہ روزمرہ کے موافق ہوگا کہ ’’تم ہر دن آجاتے ہو‘‘۔ اب دیکھیے کھانا، پینا، مارنا وغیرہ ایسے مخصوص افعال ہیں جن کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے۔ مگر اردو زبان میں ’’قسم کھانا، غصہ پینا اور شیخی مارنا‘‘ بولا جاتا ہے، جب کہ ان افعال میں عملاً کھانے، پینے اور مارنے کی گنجائش نکلتی ہی نہیں۔ ہاں شیخی مارنے والے کو مار کھاتے ضرور دیکھا ہے۔

ہمارے ہاں روزمرہ کے خلاف بولنا اور لکھنا بھی اب عام ہوگیا ہے۔ مثلاً یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم درختوں کی شاخوں سے پھل علیحدہ کرنے کو ’پھل توڑنا‘ کہتے ہیں۔ یہاں ’توڑنا‘ کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہتھوڑا لے کرپھلوں کی ایسی تیسی کردی جائے۔ لیکن ’پھول توڑنا‘ اردو زبان جاننے والوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے لیے ’پھول چننا‘ اردو کا روزمرہ ہے۔ اکثر باغچوں اور باغیچوں کی روش پر ’’پھول توڑنا منع ہے‘‘ کا حکمِ امتناع لگا ہوتا ہے۔ دسترخوان پر بھی ’کھانا چنا‘ جاتا ہے، مگراب خود ہماری خاتونِ خانہ کے ’خوان‘ سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ’میز پرکھانا لگا دیا‘ جیسے ’چندیا پر چپت لگا دیا‘۔ اہلِ پنجاب میں ’چپیڑ لگانا‘ روزمرہ ہے۔ روز لگاتے ہوں گے۔ نڈر لوگ ہیں۔

روزمرہ کے مطابق ’دھوکا دیا‘ جاتا ہے، ’حلف لیا‘ جاتا ہے، ’موقع پایا‘ جاتا ہے، ’عزت کھوئی‘ جاتی ہے،’لباس پہنا‘ جاتا ہے، ’ٹوپی اوڑھی‘ جاتی ہے، ’پردہ کیا‘جاتا ہے، ’نقاب ڈالا‘ جاتا ہے، اور سر پر’ دوپٹہ لیا‘ جاتا ہے۔لیکن ’دوپٹہ اوڑھ لینے‘ میں بھی کوئی حرج نہیں۔ تاہم آج کل کی خواتین کچھ حرج محسوس کرنے لگی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیاسی کارکنان بھی روپٹہ گلے ہی میں لٹکائے پھرتے ہیں۔

اگر آپ یوں کہیں کہ ’’ساجد اور ماجد کی تنخواہ برابر ہی ہوگی یا انتیس تیس کا فرق ہوگا‘‘، تو یہ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ روزمرہ یوں ہے کہ دونوں کی تنخواہوں میں بس ’انیس بیس کا فرق‘ ہوگا۔ آپ ہم سے لاکھ کہیں کہ ’’اب زیادہ پانچ سات مت کرو، فوراً آٹھ دو دس ہوجاؤ‘‘ ہم پھر بھی ڈھٹائی سے دانت نکالے یہیں کھڑے رہیں گے (’دانت نکالنا‘ بھی نوٹ فرمائیے) لیکن اگر آپ ہمیں سچ مچ دفعان کرنا چاہیں تو روزمرہ کی رُو سے فقط اعداد بدل دیجیے:

’’بس اب زیادہ تین پانچ نہ کرو، فوراً نو دو گیارہ ہوجاؤ!‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
اگر آپ یوں کہیں کہ ’’ساجد اور ماجد کی تنخواہ برابر ہی ہوگی یا انتیس تیس کا فرق ہوگا‘‘، تو یہ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ روزمرہ یوں ہے کہ دونوں کی تنخواہوں میں بس ’انیس بیس کا فرق‘ ہوگا۔ آپ ہم سے لاکھ کہیں کہ ’’اب زیادہ پانچ سات مت کرو، فوراً آٹھ دو دس ہوجاؤ‘‘ ہم پھر بھی ڈھٹائی سے دانت نکالے یہیں کھڑے رہیں گے (’دانت نکالنا‘ بھی نوٹ فرمائیے) لیکن اگر آپ ہمیں سچ مچ دفعان کرنا چاہیں تو روزمرہ کی رُو سے فقط اعداد بدل دیجیے:

’’بس اب زیادہ تین پانچ نہ کرو، فوراً نو دو گیارہ ہوجاؤ!‘‘
بہت بہترین ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
*جمعہ کا دن اور مُلّا نصرالدین*

*احمد حاطب صدیقی (ابونثر)*

ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی، خیابانِ امیرخسرو سے محترمہ خدیجہ خاتون نے اپنے خط کا آغاز نہایت دلچسپ اور دل خوش کُن فقرے سے کیا ہے۔ فرماتی ہیں:’’آپ جمعہ کے مقدس دن علم کے موتی بکھیرتے ہیں، سیدھے جنت میں جائیں گے‘‘۔

دائیں بائیں مُڑے بغیر سیدھے جنت میں جانے کی خوش خبری سن کر جی خوش ہوا، مگرخوش عقیدہ خاتون کا یہ خوش گوار جملہ پڑھ کر ہمیں ایک لطیفہ یاد آگیا۔ یہ لطیفہ پچھلے دنوں ہمارے تُرک بھائی اور ’پاکستانی بہنوئی‘ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نے سنایا تھا۔ پروفیسر خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ ہیں، پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ پاکستان سے محبت کے سبب زندہ دلوں کے شہر لاہور کی دامادی بھی اختیار فرما لی ہے۔ اُردو، پنجابی اور ہندکو روانی سے بول لیتے ہیں۔ اس ماہ کے آغاز میں اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام اوردائرہ علم و ادب پاکستان کے تعاون سے، اسلام آباد میں ’ادبِ اطفال‘ پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر خلیل طوقار فاصلاتی رابطے پر استنبول سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ناسازیِ طبع، بالخصوص گلے کی خرابی کے باعث، آپ نے صرف ابتدائی کلمات کہے۔ آپ کا مقالہ اکادمی ادبیات پاکستان کے صدرنشین پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے بہ نفسِ نفیس پڑھ کر سنایا۔ ’’ترکی میں ادبِ اطفال‘‘ موضوع ہو اور ملانصرالدین کا ذکر نہ آئے،کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر طوقار نے ملا جی کا ایسا لطیفہ سنایا جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ چوں کہ لطیفہ صرف سنا ہے،چناں چہ ڈاکٹر صاحب کی تحریر لفظ بہ لفظ نقل کرنے سے معذرت۔ ہمارے قارئین برادر خلیل طوقار کی زبان کے چٹخارے تونہ لے سکیں گے، مگر اُن کا سنایا ہوا لطیفہ اپنے الفاظ میںسناتے وقت، ہم نے بھی نمک مرچ لگانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں ہے:

ملا نصرالدین صاحب کے پاس ایک لڑکا آیا اور ان سے پوچھا:
’’ملا صاحب! میرے والدکی آج جمعہ کے مبارک دن وفات ہوئی ہے۔ اگلے جہان میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے پوچھا: ’’کیا آپ کے والد صاحب نماز روزے کے پابند تھے؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’نہیں۔ وہ نمازپڑھتے تھے، نہ روزے رکھتے تھے، مگر خوش قسمتی سے جمعہ کے دن فوت ہوئے ہیں‘‘۔
ملا نے دریافت کیا: ’’عیاشی تو نہیں کرتے تھے؟‘‘
لڑکے نے بتایا: ’’عام طور پر تو نہیں۔ مگر جس روز رشوت کی رقم زیادہ مل جاتی، اُس روز جوا بھی کھیل لیتے، عیاشی بھی کرلیتے۔ اس کے باوجود انھیں جمعہ کے مقدس دن وفات پانے کا شرف حاصل ہوا ہے‘‘۔
ملا : ’’کچھ صدقہ خیرات بھی کرتے تھے؟‘‘
لڑکا: ’’جی نہیں، فقیروں کو بُری طرح پھٹکارکر بھگا دیتے تھے کہ شرم نہیں آتی مانگتے ہوئے؟ مگرفوت جمعہ کے دن ہوئے‘‘۔
ملا: ’’عزیزوں، رشتے داروں اور محلے والوں سے اُن کا سلوک کیسا تھا؟‘‘
یہ سوال سن کر لڑکا جھلا گیا۔ کہنے لگا: ’’جی، وہ تو پورے محلے میں لڑاکا اور جھگڑالو مشہور تھے۔ سب ان کو دیکھتے ہی اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے۔ مگر ملا صاحب! میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ میرے والد صاحب جمعہ کے متبرک دن فوت ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اگلی دُنیا میں کیسا سلوک کیا جائے گا؟‘‘
ملا صاحب نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے دلاسا دیا: ’’بیٹا! جمعے کے دن تو اُنھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جیسے ہی ہفتے کا دن آئے گا سارا حساب کتاب بے باق کردیا جائے گا!‘‘

لطیفہ تو خیر لطیفہ ہی ہوتا ہے۔ مگر اس علامتی قصے میں اُن لوگوں کے لیے گہرا سبق ہے، جو آج کے دن سماجی ذرائع ابلاغ پر صرف ’’جمعہ مبارک‘‘ کے پیغامات کی بھرمار کرکے سارا ثواب سمیٹ لینے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔

محترمہ خدیجہ خاتون نے آگے چل کر اپنے خط میں لکھا ہے: ’’آپ اپنے کالموں میں اکثر لکھتے ہیں کہ یہ پنجاب کا روزمرہ ہے، یہ کراچی کا، اور یہ لکھنؤ یا دہلی کا۔ روزمرہ کا مطلب تو ہر روز یا بلاناغہ ہوتا ہے۔پنجاب یا کراچی کے روزمرہ سے کیا مراد ہے؟‘‘

بی بی! بلاشبہ روزمرہ کا لغوی مطلب روزانہ، ہر روز یا آئے دن ہوتا ہے۔ یہ ترکیب فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ ’روز‘ (فارسی) کا مطلب دن اور ’مرہ‘(عربی) کا مطلب ہے بار، جیسے ایک بار، دو بار، تین بار۔ یہ مرکب خود اہلِ فارس نے بنایا ہے۔ اس کا ایک مطلب ’وجہِ معاش‘ بھی ہے۔ مثلاً ’’آہن گری اُن کا روزمرہ تھا‘‘۔ مگر جہاں کوئی لفظ ’اصطلاح‘ کے طور پر استعمال کیا جائے، وہاں اُس لفظ کے صرف مخصوص معنی لیے جاتے ہیں۔ ’روزمرہ‘ ایک اصطلاح بھی ہے۔اصطلاحاً اُس اندازِ بیان، اُس اُسلوب یا بول چال کے اُس طریقے کو ’روزمرہ‘ کہتے ہیں جو کوئی بھی زبان بولنے والے اپنی روزانہ گفتگو میں اختیار کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر امتحان دینے کو انگر یزی میں ‘To take examination’کہا جاتا ہے۔ یہ اُن کے روزمرہ کے مطابق ہے۔ اگر ہم امتحان دینے کو ‘To give examination’کہیں گے تو یہ انگریزی روزمرہ کے خلاف ہوگا۔ تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی کچھ الفاظ ادا کرنے کے لیے ایک خاص اُسلوب ہے۔ جیسے آپ نے خود لفظ ’بلاناغہ‘ لکھا ہے۔ اگر ہم اسے ’بے ناغہ‘ لکھیں تو مفہوم تو ادا ہوجائے گا، مگر یہ ’روزمرہ‘ کے خلاف سمجھا جائے گا۔ ’’تم روز روز آجاتے ہو‘‘ کی جگہ اگر ’’تم دن دن آجاتے ہو‘‘ کہا جائے تو یہ بھی روزمرہ بول چال کے مطابق نہیں ہوگا۔ اسی جملے کو یوں کہنا البتہ روزمرہ کے موافق ہوگا کہ ’’تم ہر دن آجاتے ہو‘‘۔ اب دیکھیے کھانا، پینا، مارنا وغیرہ ایسے مخصوص افعال ہیں جن کا مفہوم ہر شخص سمجھتا ہے۔ مگر اردو زبان میں ’’قسم کھانا، غصہ پینا اور شیخی مارنا‘‘ بولا جاتا ہے، جب کہ ان افعال میں عملاً کھانے، پینے اور مارنے کی گنجائش نکلتی ہی نہیں۔ ہاں شیخی مارنے والے کو مار کھاتے ضرور دیکھا ہے۔

ہمارے ہاں روزمرہ کے خلاف بولنا اور لکھنا بھی اب عام ہوگیا ہے۔ مثلاً یہ تو ٹھیک ہے کہ ہم درختوں کی شاخوں سے پھل علیحدہ کرنے کو ’پھل توڑنا‘ کہتے ہیں۔ یہاں ’توڑنا‘ کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہتھوڑا لے کرپھلوں کی ایسی تیسی کردی جائے۔ لیکن ’پھول توڑنا‘ اردو زبان جاننے والوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے لیے ’پھول چننا‘ اردو کا روزمرہ ہے۔ اکثر باغچوں اور باغیچوں کی روش پر ’’پھول توڑنا منع ہے‘‘ کا حکمِ امتناع لگا ہوتا ہے۔ دسترخوان پر بھی ’کھانا چنا‘ جاتا ہے، مگراب خود ہماری خاتونِ خانہ کے ’خوان‘ سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ’میز پرکھانا لگا دیا‘ جیسے ’چندیا پر چپت لگا دیا‘۔ اہلِ پنجاب میں ’چپیڑ لگانا‘ روزمرہ ہے۔ روز لگاتے ہوں گے۔ نڈر لوگ ہیں۔

روزمرہ کے مطابق ’دھوکا دیا‘ جاتا ہے، ’حلف لیا‘ جاتا ہے، ’موقع پایا‘ جاتا ہے، ’عزت کھوئی‘ جاتی ہے،’لباس پہنا‘ جاتا ہے، ’ٹوپی اوڑھی‘ جاتی ہے، ’پردہ کیا‘جاتا ہے، ’نقاب ڈالا‘ جاتا ہے، اور سر پر’ دوپٹہ لیا‘ جاتا ہے۔لیکن ’دوپٹہ اوڑھ لینے‘ میں بھی کوئی حرج نہیں۔ تاہم آج کل کی خواتین کچھ حرج محسوس کرنے لگی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سیاسی کارکنان بھی روپٹہ گلے ہی میں لٹکائے پھرتے ہیں۔

اگر آپ یوں کہیں کہ ’’ساجد اور ماجد کی تنخواہ برابر ہی ہوگی یا انتیس تیس کا فرق ہوگا‘‘، تو یہ بھی روزمرہ کے خلاف ہے۔ روزمرہ یوں ہے کہ دونوں کی تنخواہوں میں بس ’انیس بیس کا فرق‘ ہوگا۔ آپ ہم سے لاکھ کہیں کہ ’’اب زیادہ پانچ سات مت کرو، فوراً آٹھ دو دس ہوجاؤ‘‘ ہم پھر بھی ڈھٹائی سے دانت نکالے یہیں کھڑے رہیں گے (’دانت نکالنا‘ بھی نوٹ فرمائیے) لیکن اگر آپ ہمیں سچ مچ دفعان کرنا چاہیں تو روزمرہ کی رُو سے فقط اعداد بدل دیجیے:

’’بس اب زیادہ تین پانچ نہ کرو، فوراً نو دو گیارہ ہوجاؤ!‘‘
بہت خوب باجی اچھی پیشکش ہے۔
لیکن ’پھول توڑنا‘ اردو زبان جاننے والوں کی طبعِ نازک پر گراں گزرتا ہے۔ اس کے لیے ’پھول چننا‘ اردو کا روزمرہ ہے۔ اکثر باغچوں اور باغیچوں کی روش پر ’’پھول توڑنا منع ہے‘‘ کا حکمِ امتناع لگا ہوتا ہے۔
یہاں مجھے لگتا ہے انھوں نے اپنا ذاتی ذوق پیش کیا ہے ۔جون ایلیا جو اہل زبان ہونے کے ساتھ ساتھ عربی فارسی اور عبرانی بھی خوب جانتے تھے ان کا قطعہ ہے:
کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
توڑ لو پھول پھول چھوڑو مت
باغباں ہم تو اس خیال کے ہیں
دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت
 

سیما علی

لائبریرین
ملا صاحب نے اُسے پیار سے سمجھاتے ہوئے دلاسا دیا: ’’بیٹا! جمعے کے دن تو اُنھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مگر جیسے ہی ہفتے کا دن آئے گا سارا حساب کتاب بے باق کردیا جائے گا!‘‘
ہفتے کے حساب کے بارے میں فکر کر لی جائے تو کچھ بہتری کی توقع ہے پر سوئی ہے کہ جمعہ پر اٹک گئی اُسی پر اکتفا ہے بس !
 

یاسر شاہ

محفلین
خراجِ عقیدت"

رکشوں، ٹرکوں اور ہوٹلوں میں اقوالِ زریں اور اشعار آپ نے اکثر پڑھے ہوں گے۔ خوش نویس نیم خواندہ ہونے کی وجہ سے املا کی غلطیاں کرتے ہیں۔
فخرے چکوال
نسیب اپنا اپنا
مہنت کر حسد نہ کر
تیری نظریں ہیں طلوار ۔۔۔ تو میں نے بھی بارہا پڑھا۔ لیکن وہ تو نیم خواندہ تھے، اور اب اسی قسم کی کھیپ یونیورسٹیوں سے یوٹیوب پر شاعری کے چینلز اور فیس بک پیج بنا کر سامنے آرہی ہے۔ جس میں گیتوں اور غزلوں کی ویڈیوز اردو ٹائیٹل کے ساتھ اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تصویروں پر غلط شعر لکھے جاتے ہیں۔ ارتغرل کی تصویر پر یہ شعر بھی دیکھا۔

یہ گازی یہ تیرے پور اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق کھدائی

شاعری کی ویڈیوز میں آتشی گلابی رنگ میں لکھے سب ٹائٹل میں "ہجر و فراک" اور "جانے جاناں" پڑھ کر تو رقت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک دن فیض کی غزل نظر سے گزری، لکھا تھا:
"دلے ریزہ ریزہ گنوا دیا، تنے داغ داغ لٹا دیا"
اور ویڈیو کے نیچے سینکڑوں واہ، واہ کے کومنٹس تھے۔ کچھ لوگ تو وجد میں آکر غش کھا رہے تھے۔ کسی کو بھی دلے اور تنے پر اعتراض نہ تھا سو میں نے بھی شدید امپریس ہوکر کومنٹ میں فرمائش کی کہ
"رنجش ہی صحیح دل ہی دکھانے کے لیے آ"
اور
"یہ عالم شاک کا دیکھا نہ جائے"
پر بھی ویڈیو بناکر فراز کو خراجے عقیدت پیش کریں.
بولے اگلی گھزل ان کی ہی پیش کی جائے گی۔
آخر میں بس ان سے اتنا ہی کہنا چاہوں گی۔۔۔

میں تو اس واسطے چوپ ہوں کے تماشا نا بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گیلا کچھ بھی نہیں
ایک دیوار پہ میں نے بھی شعر یوں لکھا دیکھا:
توندی_باد_مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

پڑھ کے یوں لگا جیسے باد مخالف کی بڑی سی توند ہو اور عقاب اسے دیکھ دیکھ کے گھبرا رہے ہوں۔
 

سید عمران

محفلین
ایک دیوار پہ میں نے بھی شعر یوں لکھا دیکھا:
توندی_باد_مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

پڑھ کے یوں لگا جیسے باد مخالف کی بڑی سی توند ہو اور عقاب اسے دیکھ دیکھ کے گھبرا رہے ہوں۔
اور عقاب باد سے غالبا بادی چیزیں مراد لے رہے ہیں جنہیں کھا کھا کر مخالف سمت میں مخالفت پر توندی نکل آئی ہے!!!
 

فاخر رضا

محفلین
🌺 حقیقی سہیلی 🌺

اس کے گھر میں کچھ چیزیں حیران و پریشاں کر دینے والی تھیں۔ سب سے زیادہ پریشان کر دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے۔ اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے پکڑا گیا ہو۔ دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی پس مردہ سے تھے۔ ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا۔ تو ایک لاوئچ میں۔ یقینا کئی دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی۔بے ادبی ہوتی ہوگی۔ اسے ذرہ احساس نہیں۔ دل میں غبار سا اٹھا چہرہ متغیر ہو گیا۔

اس نے شاید بھانپ لیا تھا تبھی بولی: دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں جہاں ذرا گنجائش ملتی ہے، اٹھا کر پڑھ لیتی ہوں۔
دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے۔

میں کچھ سمجھ نہیں پائی ۔۔۔

وہ گویا ہوئی: باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔ یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائی تھی۔ انھوں نے کہا اس سے دوستی کر لو۔ ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو۔ یہ کتاب تمھیں جواب دے گی۔ تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔ بس یہی سہیلی ہے میری اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ اور یہ کتاب ہر مسئلہ کا حل بتا دیتی ہے۔

کئی مسئلے چند آیات ہی سے سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنک کی ہوئی ہے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو ان ساری آیات کو جلدی سے کنگال لیتی ہوں۔ کبھی زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔اور کبھی کھولتے ہی میرے مسئلے کا حل سامنے مل جاتا ہے۔ تب میرے آنسو بہنے لگتے ہیں رب کی محبت میں۔

بس اسی لئے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔ مثلا کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی۔ کھانا کھلا کر کچن کی طرف جا رہی تھی کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں۔ غصے سے بری حالت ہوئی۔ اتنی مشقت اور پھر یہ جزا۔ ایسے میں کیا کروں۔ قرآن کھولا۔ ایک آیت سامنے تھی۔ برائی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ کل ہی اپنے لئے بندے لائی تھی۔ جا کر نند کو پہنا دیئے۔ اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ کچھ دیر دیکھتی رہی۔ پھر رو پڑی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا۔ بولی بھابھی سسرال میں منفی ماحول نے منفی بنا دیا ہے۔ معاف کر دینا مجھے۔ آپ واقعی بہت اچھی بھابھی ہیں بہنوں سے بھی بڑھ کر۔ اللہ تمھیں خوش رکھے۔ آباد رکھے۔ عجیب سرشاری عطا ہوئی۔۔۔

آج جب آپ آئے میں کھانا بنا چکی تھی۔ دل میں خیال آیا کیسے پورا ہو گا اتنے میں۔ قران کھولا لکھا تھا۔ اگر شکر کرو گے تو میں بڑھا دوں گا۔میں نے پریشانی ہٹا کر شکر ادا کیا۔ فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں۔ چاول نکالنے لگی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی۔ میاں آفس سے آتے حلیم ساتھ لیتے آئے یعنی اللہ نے فوراً ہی مسئلہ حل کیا اور بندوبست کر دیا۔

بس باجی ہر مشکل لمحے میں میرا رجوع اسی کی طرف ہوتا ہے۔ کووڈ میں میاں کا کام چھوٹ گیا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ قران کھولا تو لکھا تھا استغفار کرو بدلے میں تمھیں بارش بھی دونگا۔مال اور اولاد کو بڑھاؤں گا اور باغات اور نہریں عطا کروں گا۔ میں تو حیران رہ گئی۔ استغفار کے اتنے بڑے فائدے۔ سب گھر والوں کو جمع کیا ایک دوسرے سے معافی تلافی کی۔ پھر سوچ سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی۔ جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ ساتھ ہی زبان سے بھی استغفرُاللہ کہتے رہے۔ سید الاستغفار کا بھی ورد رہا۔ آپ یقین جانو تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہوئے۔ ایک خاندان سے عرصے سے ناراضگی تھی۔ معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آئے، باتوں باتوں میں اس نے لیدر کمپنی کی پوسٹ خالی ہونے کا ذکر کیا، ان کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ان کی جاب پکی ہو گئی۔ اور ناراض لوگوں کے راضی ہونے سے جو سکون اترا اسکا تو اندازہ ہی نہیں کئی برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ گویا ہاتھ آگئے۔

وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے محبت سے لگائے بتاتی جا رہی تھی اور میں شرمندہ تھی۔ آج تک قرآن سے ایسا سہیلی والا تعلق نہ تو بنا تھا۔اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔ اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسؤوں کی صورت بہنے لگا۔۔ کاش قرآن کے ظاہری رکھ رکھاؤ جتنی ہی توجہ اسکی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی تو قرب میرے نصیب میں بھی ہوتا۔ اور دکھوں کی گٹھڑیاں آج اٹھائے نہ پھر رہی ہوتی۔ میں مقدس جان کر اس کے اصل پیغام سے ہی محروم ہو گئی۔
Copied
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
🌺 حقیقی سہیلی 🌺

اس کے گھر میں کچھ چیزیں حیران و پریشاں کر دینے والی تھیں۔ سب سے زیادہ پریشان کر دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے۔ اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے پکڑا گیا ہو۔ دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی پس مردہ سے تھے۔ ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا۔ تو ایک لاوئچ میں۔ یقینا کئی دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی۔بے ادبی ہوتی ہوگی۔ اسے ذرہ احساس نہیں۔ دل میں غبار سا اٹھا چہرہ متغیر ہو گیا۔

اس نے شاید بھانپ لیا تھا تبھی بولی: دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں جہاں ذرا گنجائش ملتی ہے، اٹھا کر پڑھ لیتی ہوں۔
دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے۔

میں کچھ سمجھ نہیں پائی ۔۔۔

وہ گویا ہوئی: باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔ یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائی تھی۔ انھوں نے کہا اس سے دوستی کر لو۔ ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو۔ یہ کتاب تمھیں جواب دے گی۔ تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔ بس یہی سہیلی ہے میری اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ اور یہ کتاب ہر مسئلہ کا حل بتا دیتی ہے۔

کئی مسئلے چند آیات ہی سے سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنک کی ہوئی ہے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو ان ساری آیات کو جلدی سے کنگال لیتی ہوں۔ کبھی زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔اور کبھی کھولتے ہی میرے مسئلے کا حل سامنے مل جاتا ہے۔ تب میرے آنسو بہنے لگتے ہیں رب کی محبت میں۔

بس اسی لئے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔ مثلا کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی۔ کھانا کھلا کر کچن کی طرف جا رہی تھی کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں۔ غصے سے بری حالت ہوئی۔ اتنی مشقت اور پھر یہ جزا۔ ایسے میں کیا کروں۔ قرآن کھولا۔ ایک آیت سامنے تھی۔ برائی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ کل ہی اپنے لئے بندے لائی تھی۔ جا کر نند کو پہنا دیئے۔ اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ کچھ دیر دیکھتی رہی۔ پھر رو پڑی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا۔ بولی بھابھی سسرال میں منفی ماحول نے منفی بنا دیا ہے۔ معاف کر دینا مجھے۔ آپ واقعی بہت اچھی بھابھی ہیں بہنوں سے بھی بڑھ کر۔ اللہ تمھیں خوش رکھے۔ آباد رکھے۔ عجیب سرشاری عطا ہوئی۔۔۔

آج جب آپ آئے میں کھانا بنا چکی تھی۔ دل میں خیال آیا کیسے پورا ہو گا اتنے میں۔ قران کھولا لکھا تھا۔ اگر شکر کرو گے تو میں بڑھا دوں گا۔میں نے پریشانی ہٹا کر شکر ادا کیا۔ فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں۔ چاول نکالنے لگی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی۔ میاں آفس سے آتے حلیم ساتھ لیتے آئے یعنی اللہ نے فوراً ہی مسئلہ حل کیا اور بندوبست کر دیا۔

بس باجی ہر مشکل لمحے میں میرا رجوع اسی کی طرف ہوتا ہے۔ کووڈ میں میاں کا کام چھوٹ گیا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ قران کھولا تو لکھا تھا استغفار کرو بدلے میں تمھیں بارش بھی دونگا۔مال اور اولاد کو بڑھاؤں گا اور باغات اور نہریں عطا کروں گا۔ میں تو حیران رہ گئی۔ استغفار کے اتنے بڑے فائدے۔ سب گھر والوں کو جمع کیا ایک دوسرے سے معافی تلافی کی۔ پھر سوچ سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی۔ جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ ساتھ ہی زبان سے بھی استغفرُاللہ کہتے رہے۔ سید الاستغفار کا بھی ورد رہا۔ آپ یقین جانو تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہوئے۔ ایک خاندان سے عرصے سے ناراضگی تھی۔ معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آئے، باتوں باتوں میں اس نے لیدر کمپنی کی پوسٹ خالی ہونے کا ذکر کیا، ان کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ان کی جاب پکی ہو گئی۔ اور ناراض لوگوں کے راضی ہونے سے جو سکون اترا اسکا تو اندازہ ہی نہیں کئی برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ گویا ہاتھ آگئے۔

وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے محبت سے لگائے بتاتی جا رہی تھی اور میں شرمندہ تھی۔ آج تک قرآن سے ایسا سہیلی والا تعلق نہ تو بنا تھا۔اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔ اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسؤوں کی صورت بہنے لگا۔۔ کاش قرآن کے ظاہری رکھ رکھاؤ جتنی ہی توجہ اسکی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی تو قرب میرے نصیب میں بھی ہوتا۔ اور دکھوں کی گٹھڑیاں آج اٹھائے نہ پھر رہی ہوتی۔ میں مقدس جان کر اس کے اصل پیغام سے ہی محروم ہو گئی۔
Copied
ایسا اصول کہیں نہ پڑھا نہ دیکھا کہ قرآن کو کھولیے اور مسئلے کا حل مل جائے گا۔ لیکن مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ متعدد بار میرا اپنا تجربہ ہوا ہے۔ کئی مرتبہ نماز پر جاتا ہوں اور کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے حل کی کوئی آیت امام کی زبان سے سنا دیتا ہے۔ کئی مرتبہ قرآن کھولتے ہی کوئی آیت میرے مسئلے کا حل بتا رہی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ تو مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے ایک مسئلہ درپیش تھا اور صبح جاگتے ہی ایک آیت میری زبان پر جاری ہو گئی جس کا ترجمہ بھی مجھے نہیں آتا تھا۔ گوگل سے وہی الفاظ سرچ کیے تو سورت اور آیت نمبر کا پتا چلا اور جب اس کا ترجمہ دیکھا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہ آیت میرے مسئلے کا ہی حل تھی۔
بہرحال قرآن کا ظاہری اور باطنی ہر دو قسم سے اکرام ضروری ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے محبت سے لگائے بتاتی جا رہی تھی اور میں شرمندہ تھی۔ آج تک قرآن سے ایسا سہیلی والا تعلق نہ تو بنا تھا۔اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔ اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسؤوں کی صورت بہنے لگا۔۔ کاش قرآن کے ظاہری رکھ رکھاؤ جتنی ہی توجہ اسکی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی تو قرب میرے نصیب میں بھی ہوتا۔ اور دکھوں کی گٹھڑیاں آج اٹھائے نہ پھر رہی ہوتی۔ میں مقدس جان کر اس کے اصل پیغام سے ہی محروم ہو گئی۔
بہت اعلیٰ ۔
بخدا بات ہے دل پہ اثر کرنے والی ،ایسا سہیلی والا تعلق
بنا لیا جائے تو بہت سے مسائل بخیر و خوبی حل ہوسکتے ہیں،کیسے ہیں آپ ،یقیناً مصروف ہیں یہی وجہ ہے حاضری محفل پہ کم ہے ۔۔
 

سید عمران

محفلین
🌺 حقیقی سہیلی 🌺

اس کے گھر میں کچھ چیزیں حیران و پریشاں کر دینے والی تھیں۔ سب سے زیادہ پریشان کر دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ کچن میں رکھا تھا جس پر تیل کے نشانات نمایاں تھے۔ اسے بار بار جیسے گیلے ہاتھوں سے پکڑا گیا ہو۔ دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی پس مردہ سے تھے۔ ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر تھا۔ تو ایک لاوئچ میں۔ یقینا کئی دفعہ پیٹھ ہو جاتی ہو گی۔بے ادبی ہوتی ہوگی۔ اسے ذرہ احساس نہیں۔ دل میں غبار سا اٹھا چہرہ متغیر ہو گیا۔

اس نے شاید بھانپ لیا تھا تبھی بولی: دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔ اس لئے جگہ جگہ قرآن رکھ دیئے ہیں جہاں ذرا گنجائش ملتی ہے، اٹھا کر پڑھ لیتی ہوں۔
دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور حل اسی میں ملتا ہے۔

میں کچھ سمجھ نہیں پائی ۔۔۔

وہ گویا ہوئی: باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔ یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائی تھی۔ انھوں نے کہا اس سے دوستی کر لو۔ ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو۔ یہ کتاب تمھیں جواب دے گی۔ تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔ بس یہی سہیلی ہے میری اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ اور یہ کتاب ہر مسئلہ کا حل بتا دیتی ہے۔

کئی مسئلے چند آیات ہی سے سلجھ جاتے ہیں۔ ان آیات پر میں نے ریڈ مارکنک کی ہوئی ہے۔ جب مسئلہ پیش آئے تو ان ساری آیات کو جلدی سے کنگال لیتی ہوں۔ کبھی زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔اور کبھی کھولتے ہی میرے مسئلے کا حل سامنے مل جاتا ہے۔ تب میرے آنسو بہنے لگتے ہیں رب کی محبت میں۔

بس اسی لئے ان نسخوں کی یہ حالت ہے۔ مثلا کل ہی میری نند آئی ہوئی تھی۔ کھانا کھلا کر کچن کی طرف جا رہی تھی کہ اس کی کچھ باتیں کانوں میں پڑیں۔ غصے سے بری حالت ہوئی۔ اتنی مشقت اور پھر یہ جزا۔ ایسے میں کیا کروں۔ قرآن کھولا۔ ایک آیت سامنے تھی۔ برائی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو۔ کل ہی اپنے لئے بندے لائی تھی۔ جا کر نند کو پہنا دیئے۔ اس کی حالت دیکھنے والی تھی۔ وہ کچھ دیر دیکھتی رہی۔ پھر رو پڑی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا۔ بولی بھابھی سسرال میں منفی ماحول نے منفی بنا دیا ہے۔ معاف کر دینا مجھے۔ آپ واقعی بہت اچھی بھابھی ہیں بہنوں سے بھی بڑھ کر۔ اللہ تمھیں خوش رکھے۔ آباد رکھے۔ عجیب سرشاری عطا ہوئی۔۔۔

آج جب آپ آئے میں کھانا بنا چکی تھی۔ دل میں خیال آیا کیسے پورا ہو گا اتنے میں۔ قران کھولا لکھا تھا۔ اگر شکر کرو گے تو میں بڑھا دوں گا۔میں نے پریشانی ہٹا کر شکر ادا کیا۔ فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں۔ چاول نکالنے لگی کہ پڑوس سے بریانی کی ڈش آگئی۔ میاں آفس سے آتے حلیم ساتھ لیتے آئے یعنی اللہ نے فوراً ہی مسئلہ حل کیا اور بندوبست کر دیا۔

بس باجی ہر مشکل لمحے میں میرا رجوع اسی کی طرف ہوتا ہے۔ کووڈ میں میاں کا کام چھوٹ گیا۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ قران کھولا تو لکھا تھا استغفار کرو بدلے میں تمھیں بارش بھی دونگا۔مال اور اولاد کو بڑھاؤں گا اور باغات اور نہریں عطا کروں گا۔ میں تو حیران رہ گئی۔ استغفار کے اتنے بڑے فائدے۔ سب گھر والوں کو جمع کیا ایک دوسرے سے معافی تلافی کی۔ پھر سوچ سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی۔ جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ ساتھ ہی زبان سے بھی استغفرُاللہ کہتے رہے۔ سید الاستغفار کا بھی ورد رہا۔ آپ یقین جانو تین دن کے اندر ہی اس کے اثرات ظاہر ہوئے۔ ایک خاندان سے عرصے سے ناراضگی تھی۔ معافی تلافی کے بعد وہ سب گھر آئے، باتوں باتوں میں اس نے لیدر کمپنی کی پوسٹ خالی ہونے کا ذکر کیا، ان کے تجربے کی بنیاد پر تین گنا تنخواہ اور کئی سہولیات کے ساتھ ان کی جاب پکی ہو گئی۔ اور ناراض لوگوں کے راضی ہونے سے جو سکون اترا اسکا تو اندازہ ہی نہیں کئی برکتوں کی بارش اور خوشیوں کے باغ گویا ہاتھ آگئے۔

وہ بہت سادگی سے قرآن کو سینے سے محبت سے لگائے بتاتی جا رہی تھی اور میں شرمندہ تھی۔ آج تک قرآن سے ایسا سہیلی والا تعلق نہ تو بنا تھا۔اور نہ ہی ایسی رہنمائی میسر تھی۔ اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسؤوں کی صورت بہنے لگا۔۔ کاش قرآن کے ظاہری رکھ رکھاؤ جتنی ہی توجہ اسکی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی تو قرب میرے نصیب میں بھی ہوتا۔ اور دکھوں کی گٹھڑیاں آج اٹھائے نہ پھر رہی ہوتی۔ میں مقدس جان کر اس کے اصل پیغام سے ہی محروم ہو گئی۔
Copied
بہت خوب!!!
 

سید عمران

محفلین
ایسا اصول کہیں نہ پڑھا نہ دیکھا کہ قرآن کو کھولیے اور مسئلے کا حل مل جائے گا۔ لیکن مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ متعدد بار میرا اپنا تجربہ ہوا ہے۔ کئی مرتبہ نماز پر جاتا ہوں اور کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے حل کی کوئی آیت امام کی زبان سے سنا دیتا ہے۔ کئی مرتبہ قرآن کھولتے ہی کوئی آیت میرے مسئلے کا حل بتا رہی ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ تو مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب مجھے ایک مسئلہ درپیش تھا اور صبح جاگتے ہی ایک آیت میری زبان پر جاری ہو گئی جس کا ترجمہ بھی مجھے نہیں آتا تھا۔ گوگل سے وہی الفاظ سرچ کیے تو سورت اور آیت نمبر کا پتا چلا اور جب اس کا ترجمہ دیکھا تو حیران رہ گیا کیونکہ وہ آیت میرے مسئلے کا ہی حل تھی۔
بہرحال قرآن کا ظاہری اور باطنی ہر دو قسم سے اکرام ضروری ہے۔
آپ تو اچھے خاصے بابے نکلے...
بلاوجہ دیس پردیس میں خجل خوار ہورہے ہیں...
ایک آستانہ کھول لیں. پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں...
اور اپنے ذاتی بھیا کو بھاری ترسیلات زر وصول کرنے کے لیے اکاؤنٹنٹ بنا لیں!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ تو اچھے خاصے بابے نکلے...
بلاوجہ دیس پردیس میں خجل خوار ہورہے ہیں...
ایک آستانہ کھول لیں. پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں...
اور اپنے ذاتی بھیا کو بھاری ترسیلات زر وصول کرنے کے لیے اکاؤنٹنٹ بنا لیں!!!
میرا خدا بھی تو وہی ہے جو بابوں کا ہے اس میں ایسی حیرت کیوں 😊
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خدا تو سب کا ایک ہے...
لیکن نوازشات میں فرق ہے...
حیرت ان نوازشات کے ظہور کی اظہار پر ہوئی!!!
اگر ان نوازشات سے آپ کو میں متقی لگا ہوں یا میں خود کو متقی کہلانے کی کوشش کرتا ہوا دکھائی دیا ہوں تو ایسے خیالات کو فوراً جھٹک دیجیے گا۔ (کاش کہ متقی ہو جاؤں) مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے
 

سید عمران

محفلین
توبہ توبہ...
ایسا سوچنے کا خوابوں میں بھی خواب نہ دیکھیے گا!!!
ویسے مذاق کیتا سی...
ہر اہل ایمان اللہ کا ولی ہے...
کما قال اللہ... اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ...
مگر ایمان اور ولایت کے درجات ہیں!!!
 

رباب واسطی

محفلین
کچھ الفاظ جو عام لوگ کم علمی اور پڑھے لکھے لوگ انجانے میں اضافی دھرا جاتے ہیں

اردو گلوب سے نقل

۱۔کان میں سرگوشی
جب سرگوشی کہا گیا تو ’’کان میں‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سرگوشی کان میں ہی ہوتی ہے
۲۔انڈے کی طرح بیضوی
جب بیضوی کہا جائے تو ’’انڈے کی طرح‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بیضاء انڈے کو ہی کہتے ہیں
۳۔پھولوں کا گلدستہ
جب گلدستہ کہا جائے تو ’’پھولوں کا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پھول گلدستوں میں ہوتا ہے
۴۔آب زم زم کا پانی
جب آبِ زم زم کہا جائے تو ’’پانی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آب پانی کوہی کہتے ہیں
۵۔شب قدر کی رات
جب’’شب قدر‘‘ کہا جائے تو ’’رات‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ شب رات کوہی کہتے ہیں
۶۔'حجراسود کا پتھر
جب’’حجراسود‘‘ یا سنگ مرمر کہا جائے تو ’’پتھر‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ حجر یا سنگ پتھر کوہی کہتے ہیں
۷۔ نوشتہ دیوار پر لکھا ہے
جب’’نَوِشْتَہ‘‘ کہا جائے تو ’’لکھا ہے‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ نوشتہ لکھے ہوئے کو ہی کہتے ہیں۔(نوشتہ کا درست تلفظ بروزن فرشتہ ہے)
۸۔ہونٹوں پر زیرلب مسکراہٹ
جب ’’زیرلب‘‘ کہا جائے تو ’’ہونٹوں پر‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ لب ہونٹوں کو ہی کہتے ہیں
۹۔گندے پانی کا جوہڑ
جب ’’جوہڑ‘‘ کہہ دیا تو ’’گندے پانی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جوہڑ گندے پانی کوہی کہتے ہیں
۱۰۔پانی کا تالاب
تالاب میں خود آب موجود ہے۔ ’’پانی کا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۱۱۔صبح تا شام تک یا دس تا بارہ سال تک
جب ’’تا‘‘ کہا جائے تو ’’تک‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۱۲۔بہترین نعم البدل
جب ’’نعم البدل‘‘ کہہ دیا تو ’’بہترین‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کونکہ نعم البدل بہترین کو ہی کہتے ہیں
۱۳۔نمک پاشی چھڑکنا
جب ’’نمک پاشی‘‘ کہہ دیا تو مزید نمک ’’چھڑکنے‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں
۱۴۔زیادہ بہترین
جب بہتر یا بہترین کہا جائے تو ’’زیادہ‘‘ یا’’بہت‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۱۵۔فی الحال ابھی میں نہیں آسکوں گا
جب ’’فی الحال‘‘ کہہ دیا تو ’’ابھی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کونکہ فی الحال میں ابھی کا معنی موجود ہے
۱۶۔ناجائز تجاوزات
جب’’تجاوزات‘‘ کہہ دیا تو ’’ناجائز‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۱۷۔ایصال ثواب پہنچانا
جب ’’ایصال‘‘ کہہ دیا تو ’’پہنچانا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایصال کا معنی پہنچانا ہے
۱۸۔قابلِ گردن زَدنی
صرف ’’گردن زَدنی‘ ‘ کہنا کافی ہے، قابل کہنے کی کوئی ضرورت نہیں
۱۹۔ابھر کر سامنے آئے ہیں
جب ’’ابھر‘‘ ہی گئے ہیں تو ’’سامنے آنے‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔ابھر کا معنی سامنے آنا ہے
۲۰۔تا ہنوز
جب ’’ہنوز‘‘ کہا جائے تو ’’تا‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۲۱۔آنکھیں نمدیدہ ہوگئیں
جب ’’نم دیدہ‘‘ کہا جائے تو ’’آنکھیں‘‘ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ نم دیدہ آنکھیں ہی ہوتی ہیں
۲۲۔روز افزوں بڑھنا
جب ’’افزوں‘‘ کہا جائے تو ’’بڑھنا‘‘ کہنے کی کچھ ضرورت نہیں
۲۳۔نئی جدت
جب ’’جدت‘‘ کہا جائے تو ’’نئی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
۲۲۔سوچی سمجھی سازش
جب ’’سازش‘‘ کہا جائے تو ’’سوچی سمجھی‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں
 
Top