انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
مفتی تقی عثمانی صاحب نے کتب بینی کے دوران پسندیدہ واقعات جمع کیے اور ’’تراشے‘‘ نامی کتاب میں سمو دئیے۔ بعض اوقات انٹر نیٹ بشمول سوشل میڈیا پر ایسا مفید اور کارآمد مواد نظر سے گزرتا ہے جس کے بارے میں خواہش ہوتی ہے کہ کہیں محفوظ ہوجائے جس سے بوقت ضرورت استفادہ کیا جاسکے۔ اسی غرض کے لیے لڑی ہذا تشکیل دی جارہی ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ابا جان! مجھے قرآن نہیں, گاڑی چاہئیے تھی"
ایک نوجوان اپنے کالج سے گریجوایٹ ہونے والا تھا۔ پچھلے کچھ مہینوں سے اسے قریب ہی موجود ایک گاڑیوں کے شوروم میں موجود سپورٹس کار بہت پسند تھی۔ چونکہ اس کے ابا جان وہ کار لے کر دے سکتے تھے تو اس نے اپنے ابا جان کو کہہ رکھا تھا کہ اسے گریجوایشن کے تحفے میں وہی کار چاہئیے
جیسے جیسے گریجوایشن کی تقریب کا دن قریب آ رہا تھا ویسے ویسے نوجوان کا اپنے تحفے کا انتظار بھی اپنے عروج پہ جا رہا تھا۔ بلآخر تقریب کے دن کی صبح کو اس کے ابا نے اس کو اپنے خاص مطالعے کے کمرے میں بلایا۔ اس کے والد نے اس کو بتایا کہ ایسے ذہین اور محنتی بیٹے کے باپ ہونے پہ ان کو کتنا فخر ہے اور یہ بھی کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں۔
پھر انہوں نے اس کو ایک غلاف میں لپٹا ہوا ڈبہ تحغے میں دیا۔ کچھ مایوسی اور کچھ تجسس کے ساتھ اس نے وہ تحفہ کھولا تو اس میں ایک نہایت خوبصورت چمڑے کے دستے والا قرآن شریف موجود تھا۔ یہ دیکھنا تھا کہ غصے کے مارے اس کی رنگت سرخ پڑ گئی اور وہ اپنے ابا پہ چلا اٹھا "اپنی اتنی ساری دولت ہونے کے باوجود آپ نے مجھے صرف یہ قرآن تحفے میں دیا؟" اور پھر وہ اس انمول تحفے کو وہیں رکھ کر نکلا اور گھر چھوڑ کر چلا گیا
بہت سال گزر گئے وہ پلٹ کر اپنے ابا کے گھر نہیں گیا۔ اب وہ ایک کامیاب بزنس مین تھا اور اس کے پاس نہایت خوبصورت بنگلا تھا اور بہت اچھی بیوی تھی۔ اب اسے کبھی کبھی اپنے ابا کی یاد ستاتی تھی کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہونگے اور شاید انہیں اس کی ضرورت بھی ہو گی۔ وہ سوچتا کہ اسے اپنے ابا کو ملنے جانا چاہئیے۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنے ابا کو ملنے جاتا ایک دن اسے اطلاع ملی کہ اس کے ابا انتقال کر گئے ہیں اور وصیت میں اپنا سب کچھ اس کے نام کر گئے ہیں۔ اسے افراتفری اور غم کے عالم میں ابا کے گھر جانا پڑ گیا۔
جب وہ ابا کے گھر پہنچا تو اس کا دل غم کی شدت سے بھر گیا اور ایک پچھتاوے کا احساس اس کے سینے میں جاگ اٹھا۔ تدفین سے فراغت کے بعد وہ اپنے ابا کے ضروری سامان کا جائزہ لے رہا تھا تو تبھی اسے وہی تحفے والا قرآن ویسے ہی بالکل نئی حالت میں پڑا ہوا ملا جیسا وہ سالوں پہلے اسے چھوڑ کر گیا تھا۔
آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اس نے قرآن شریف کو کھولا اور اس کے اوراق پلٹنے لگا۔ یونہی اوراق پلٹتے ہوئے اس نے ایک صفحے پہ دیکھا کہ اس کے ابا نے ایک آیت پہ نشان لگایا ہوا تھا۔ وہ "سورہ رعد" کی اٹھائسویں آیت تھی۔
"بے شک اللہ کی یاد دلوں کو سکون بخشتی ہے"
اس نے یہ آیت پڑھی۔ تبھی قرآن کی پچھلی جانب سے کوئی چیز نیچے گری۔ وہ ایک کار کی چابی تھی۔ اسی کے پسند کردہ شوروم میں موجود کار کی چابی, رسید کے ساتھ ۔ چابی کے ساتھ موجود رسید میں اس کی گریجوایشن والی تاریخ لکھی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ مکمل قیمت ادا کر دی گئی ہے۔
"زندگی میں کتنی ہی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم اللہ پاک کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں کو صرف اس وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں کیونکہ وہ ہماری توقعات کے مطابق لبادے میں نہیں ہوتیں۔.
 

سید عمران

محفلین
نمبرز اور غیر مشروط محبت:

تحریر: محمد وجیہ الدین عمیر

ذرا تصور کیجیے کہ آپ کو کیسا محسوس ہوگا اگر ایک دن آپ کا بیٹا جو ابھی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہو وہ آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہے کہ ابو میں آپ کی عزت تبھی کروں گا، آپ کا خیال تبھی رکھوں گا اور آپ کی بات تبھی مانوں گا جب آپ کی تنخواہ میں تیس فیصد اضافہ ہوجائے گا اور آپ کی تنخواہ ادریس صاحب جتنی ہوجائے گی؟

غالب امکان یہی ہے کہ آپ کو اسکی یہ بات پسند نہیں آئے گی، اسکی یہ شرط احمقانا لگے گی، آپ کو شاید غصہ بھی آئے کہ وہ آپ کا موازنہ ادریس صاحب سے کیوں کر رہا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ اسے سمجھائیں کہ بیٹا ہمیں رشتے ہر حال میں احسن طریقے سے نبھانے چاہئیں ، رشتوں کو نبھانے کا انحصار پیسوں پر نہیں ہوتا، ہمیں تو ایک دوسرے کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے، کسی کی کمائی دیکھ کر، اسکا بینک بیلنس دیکھ کر آپ رشتے نہیں نبھاتے، رشتوں کی بنیاد تعلق، احساسات اور جذبات پر ہوتی ہے، کمائی کے 'نمبرز' پر نہیں، ایسے نمبرز اور حساب کتاب کی بنیاد پر رشتے نبھانا بیوقوفی ہے اور دوسروں کی کمائی سے موازنہ کرنا بھی عقلمندی کا کام نہیں۔

اب اگر واقعی یہ بات ٹھیک ہے تو پھر ہم میں سے اکثر والدین یہی بیوقوفی کیوں کرتے ہیں جب بات انکے بچوں کی پرورش کی آتی ہے؟ والدین اپنے ان بچوں کو زیادہ عزت کیوں دیتے ہیں، ان سے زیادہ محبت کیوں کرتے ہیں اور انکا زیادہ خیال کیوں رکھتے ہیں جنکے پڑھائی میں 'نمبرز' زیادہ آتے ہیں اور ان بچوں سے رویہ سخت اور اکثر اوقات نامناسب کیوں رکھتے ہیں جن بچوں کے نمبرز کم آتے ہیں؟ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے؟ ایسا کرنے سے بچوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑے گا، کیا ہم نے کبھی سوچا؟

آپ کا بیٹا اگر آپ کی تنخواہ کا موازنہ ادریس صاحب کی کمائی سے کرے تو آپ کو بہت برا لگے گا، تو پھر آپ کیوں اپنے ایک بچے کا موازنہ دوسرے بچوں سے کرتے ہیں؟ جب ہر بچے کی قابلیت، سوچ، ترجیحات، ذہانت الگ ہیں تو کیا انکا دوسروں سے موازنہ کرنا کوئ عقلمندی کا کام ہے؟

ہم اپنے بچوں سے کتنا پیار کریں، انکی عزت نفس کا کتنا خیال رکھیں اور ان سے کیسا رویہ رکھیں کیا اسکا تعلق امتحانات میں آنے والے نمبرز سے ہونا چاہئے؟ یقیناً نہیں۔

نمبرز، گریڈز اور جی پی ایز انسان کی کامیابی کے نا تو ضامن ہیں اور نہ ہی اسکی قابلیت اور اہمیت کا پیمانہ۔

اگر بچوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند بنانا ہے اور انہیں مستقبل کیلئے تیار کرنا ہے تو ہمیں ان سے غیر مشروط محبت کرنی ہوگی اور انکو اس بات کا احساس دلانا ہوگا کہ وہ ہمارے لیے ہر حال میں اہم ہیں اور محض چند نمبرز انکی محبت ہمارے دل میں کم نہیں کرسکتے۔
 

سید عمران

محفلین
کتھارسس catharsis ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، تطہیر اور تجدید حاصل کرتا ہے۔

اگر انسان کتھارسس نہ کرے تو اس کے اندر دبے جذبات و احساسات غصہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اگر یہ غصہ کسی بھی صورت نہ نکلے تو یہ انسان کا خود پر نکلتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کسی نہ کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں انسانی معاشرے میں غصہ، پریشانی، دکھ اور ذہنی دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔

اس کا معنی cleansing اور purification ہے۔ میرے مطابق اس کا مطلب اپنے ہر طرح کے جذبات اور محسوسات کا اظہار ہے۔ جب ہم مختلف موقعوں پر اپنے محسوسات کا ٹھیک طرح سے اظہار نہیں کر پاتے تو ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نا مکمل اور ادھورے محسوسات subconcious میں اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔

ہر انسان اپنے ہی انداز میں کتھارسس کرتا ہے۔ کوئی شعر کہہ کر تو کوئی نثر لکھ کر، کوئی تصویر بنا کر تو کوئی مجسمہ تراش کر، کوئی غصہ میں چیختا چلاتا ہے تو کوئی آنکھوں سے نمکین پانی بہاتا ہے تو کوئی خود کلامی کرتا ہے۔
یہ انسان کے مزاج میں کتھارسس کا انداز ہوتا ہے یہ انسان پر ہے کہ وہ تلاش کرے کہ وہ کونسا کام یا طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ کتھارسس کر کے سکون حاصل کر سکتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ ان کے کتھارسس کا طریقہ کیا ہے؟
انسان کتھارسس کے ذریعہ اندر کے غبار کو نکال دیتا ہے تو اس کے اندر زندگی خوشی سے گزارنے کی امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے پیار کرنے لگتا ہے۔ کائنات کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔

ہمیں اپنی ذہنی صحت کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ براہ راست جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کے لئے Catharsis کی بہت ضرورت ہے۔

زندگی کو بھرپور جینا سیکھیں۔ خوشی کے موقعوں کو کھل کر celebrate کریں۔جب دکھ اور تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کا اظہار کریں۔ کسی کی بات بری لگی تو اس کو بتایں۔ کسی نے مدد کی تو کھل کر شکریہ ادا کریں۔ کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو کھل کر درخواست کریں۔ اگر کسی میں کوئی اچھائی نظر آتی ہے تو کھل کر تعریف کریں۔

ذہنی تناؤ اور بےسکونی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم مثبت اور منفی محسوسات کو دباتے ہیں اور اپنے subconscious میں ان کا baggage لے کر چلتے ہیں۔ اس baggage میں برسوں پرانی عداوتیں، پچھتاوے، محرومیاں، نفرتیں اور شکوے جمع کیے رکھتے ہیں۔ یہ اذیت اور دبے ہوئے احساسات زندگی کی خوشی اور اطمینان چھین لیتے ہیں۔ اپنے baggage کو صاف کرنے کے لئے اپنے اپ کو وقت دیں، اپنے ایسے جذبات اور سوچ کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔

کتھارسس کے کچھ طریقے

1۔ جذبات کا ہمیشہ کھل کر اظہار کریں، کچھ دل میں نہ رکھیں۔ اچھے انداز اور الفاظ کے ساتھ ہر قسم کے جذبات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

2۔ کسی ہمدرد کے سامنے دوسروں سے متعلق اپنے سب جذبات کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، جیسے والدین، دوست وغیرہ

3۔ شاعری کریں، نثر لکھیں، افسانے لکھیں یا تعمیری پیغامات لکھیں۔ فیس بک پر یہ کام بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

4۔ پینٹنگ کریں، مصوری کریں۔

5۔ سپورٹس میں حصہ لیں، اپنی پسند کی کھیل سے دل ہلکا ہوتا ہے۔

6۔ کتابیں پڑھیں، ڈاکومنٹریز دیکھیں، دلچسپ علم سے مستفید ہوں۔

7۔ کسی فلاحی کام میں حصہ لیں، معاشرے کو کچھ دیں، اپنے ملک کے لیے کچھ کریں، اپنے اللہ کے لیے کچھ کریں، مخلوق کو فائدہ پہنچائیں۔

8۔ مراقبہ کریں، اس سے دل کو راحت اور وجدان ملتا ہے، جذبات کلیر ہوتے ہیں۔ بہت قسم کے مراقبات کا ذکر اور طریقہ پیج کی مختلف پوسٹس میں موجود ہے۔

9۔ روزانہ سب لوگوں کو معاف کر کے سویا کریں اس سے لا شعور کی گرہیں کھلتی ہیں۔

10۔ اپنے اللہ کے سامنے اظہار کریں، شکایات کریں، گفتگو کریں۔ اور اس کے بعد دل صاف کر لیں، جب اللہ کو معاملہ دے دیا تو خود بیچ سے نکل جائیں۔

اگر آپ کو یہ سب کچھ کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے تو counselling حاصل کریں، کسی ماہر نفسیات کے سامنے کتھارسس کریں اور اپنے دل اور لا شعور میں سالوں پرانے دبے جذبات، کا اظہار کر کے اپنی زہنی صحت اچھی کریں اور اپنی صلاحیتیں بہال کر کے کھل کر جینا سیکھیں کیونکہ آپ کے لا شعور کا تناؤ نہ صرف آپ کی بلکہ آپ سے منسلک لوگوں کی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہوتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
عربوں کو اونٹ کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان کی طبیعت میں نخوت ، غيرت اور سختی کا عنصر بہت پایا جاتا ہے ...
ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان میں طاقت ، جراءت اور اکڑ پن کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے....
انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لیے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے ....
حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں اس لیے ان میں ناچ گانے کی طرف میلان زیادہ پایا جاتا ہے....
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جس کو جس حیوان کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادتیں غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتی ہیں... اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ....

ہمارے زمانے میں فارمی مرغی کھانے کا رواج بن چکا ہے... چنانچہ ہم بھی مرغیوں کی طرح صبح و شام چوں چوں تو بہت کرتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے ہمیں ﺫبح کردیا جاتا ہے ... فارمی مرغی کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہم میں سستی کاہلی کی، ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کی ، سر جھکا کر چلنے کی اور پستی میں رہنے کی عادتیں پیدا ہوچکی ہیں.
 

سید عمران

محفلین
حال ہی میں بھارت میں شائع ہونے والی کتاب” *کالکی اوتارا* “ نے دنیا بھر ہلچل مچا دی ہے۔ اس کتاب میں يہ بتایا گیا ہے کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں جس *کا کالکی اوتار* کا تذکرہ ہے, وہ *آخری رسول محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* بن عبداﷲ ہیں۔

اس کتاب کا مصنف اگر کوئی مسلمان ہوتا تو وہ اب تک جیل میں ہوتا اور اس کتاب پر پابندی لگ چکی ہوتی مگراس کے مصنف پنڈت وید پرکاش برہمن ہندو ہیں,(یہ ساری تحقیقات انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لکچرز سننے کے بعد کی جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی) پنڈت وید پرکاش الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔
وہ سنسکرت کے معروف محقق اور اسکالر ہیں۔ انہوں نے اپنی اس تحقیق کو ملک کے آٹھ مشہور معروف محققین پنڈتوں کے سامنے پیش کیاہے جو اپنے شعبے میں مستند گرادنے جاتے ہیں۔ ان پنڈتوں نے کتاب کے بغور مطالعے اور تحقیق کے بعد يہ تسلیم کیاہے کہ کتاب میں پیش کيے گئے حوالے جات مستند اور درست ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا نام ” *کالکی اوتار*“ یعنی تمام کائنات کے رہنما رکھا ہے۔
ہندووں کی اہم مذہبی کتب میں ايک عظیم رہنما کا ذکر ہے۔ جسے " *کالکی اوتار*“ کا نام دیا گیا ہے, اس سے مراد *حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* ہیں جو مکہ میں پیدا ہوئے۔ چنانچہ تمام ہندو جہاں کہیں بھی ہوں، ان کو کسی کالکی اوتار کا مزید انتظار نہیں کرنا ہے، بلکہ محض اسلام قبول کرنا ہے، اور آخری *رسول صلی اﷲ علیہ وسلم* کے نقش قدم پر چلنا ہے جو بہت پہلے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ اپنے اس دعوے کی دليل میں پنڈت وید پرکاش نے ہندووں کی مقدس مذہبی کتاب” *وید*“ سے مندرجہ ذیل حوالے دلیل کے ساتھ پیش کےے ہیں۔
1۔ ”وید“ کتاب میں لکھا ہے کہ
” *کالکی اوتار*“ بھگوان کا آخری اوتار ہو گا جو پوری دنیا کو راستہ دکھائے گا۔ان کلمات کاحوالہ دينے کے بعد پنڈت ویدپرکاش يہ کہتے ہیں کہ يہ صرف *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے معاملے میں درست ہو سکتا ہے۔
2۔”ہندوستان“ کی پیش گوئی کے مطابق” *کالکی اوتار*“ ايک جزیرے میں پیدا ہوں گے اور يہ عرب علاقہ ہے، جیسے جزیرة العرب کہا جاتا ہے۔
3۔ مقدس کتاب میں لکھا ہے کہ
” *کالکی اوتار*“ کے والد کا نام ’‘ *وشنو بھگت*“ اور والدہ کا نام ” *سومانب*“ ہوگا۔ سنسکرت زبان میں ” *وشنو*“ *ﷲ* کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور” *بھگت*“ کے معنی غلام اور بندے کے ہیں۔ چنانچہ عربی زبان میں
” *وشنو بھگت*“ کا مطلب اﷲ کا بندہ یعنی ” *عبداﷲ*“ ہے۔ سنسکرت میں ” *سومانب*“ کا مطلب امن ہے جو کہ عربی زبان میں ” *آمنہ*“ ہو گا اور آخری رسول ( * *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم*) کے والد کا نام *عبداﷲ* اور والدہ کا نام *آمنہ* ہے۔
4۔وید کتاب میں لکھا ہے کہ ” *کالکی اوتار*“ زیتون اور کھجور استعمال کرے گا۔ يہ دونوں پھل *حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم* کو مرغوب تھے۔ وہ اپنے قول میں سچا اور دیانت دار ہو گا۔ مکہ میں *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے لئے *صادق* اور *امین* کے لقب استعمال کيے جاتے تھے۔
5۔ ” *وید* “ کے مطابق” *کالکی اوتار*“ اپنی سر زمین کے معزز خاندان میں سے ہو گا اور يہ بھی *محمد صلی ﷲ علیہ وسلم* کے بارے میں سچ ثابت ہوتا ہے کہ آپ قریش کے معزز قبیلے میں سے تھے، جس کی مکہ میں بے حد عزت تھی۔
6۔ہماری کتاب کہتی ہے کہ بھگوان ” *کالکی اوتار*“ کو اپنے خصوصی قاصد کے ذريعے ايک غار میں پڑھائے گا۔ اس معاملے میں يہ بھی درست ہے کہ *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* مکہ کی وہ واحد شخصیت تھے، جنہیں اﷲ تعالی نے غار حرا میں اپنے خاص فرشتے حضرت جبرائیل کے ذريعے تعلیم دی۔
7۔ ہمارے بنیادی عقیدے کے مطابق بھگوان ” *کالکی اوتار*“ کو ايک تیز ترین گھوڑا عطا فرمائے گا، جس پر سوار ہو کر وہ زمین اور سات آسمانوں کی سیر کر آئے گا۔ *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کا” *براق* پر معراج کا سفر“ کیا يہ ثابت نہیں کرتا ہے؟
8۔ ہمیں یقین ہے کہ بھگوان *”کالکی اوتار*“ کی بہت مدد کرے گا اور اسے بہت قوت عطا فرمائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ بدر میں *ﷲ* نے *محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کی فرشتوں سے مدد فرمائی۔
9۔ ہماری ساری مذہبی کتابوں کے مطابق” *کالکی اوتار*“ گھڑ سواری، تیز اندازی اور تلوار زنی میں ماہر ہوگا۔
پنڈت وید پرکاش نے اس پر جو تبصرہ کیا ہے۔ وہ اہم اور قابل غور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھوڑوں، تلواروں اور نیزوں کا زمانہ بہت پہلے گزر چکا ہے۔اب ٹینک، توپ اور مزائل جیسے ہتھیار استعمال میں ہیں۔ لہذا يہ عقل مندی نہیں ہے۔ کہ ہم تلواروں، تیروں اور برچھیوں سے مسلح ” *کالکی اوتار*“ کا انتظار کرتے رہیں۔حقیقت يہ ہے کہ مقدس کتابوں میں ” *کالکی اوتار*" کے واضح اشارے *حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم* کے بارے میں ہیں جو ان تمام حربی فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ ٹینک توپ اور مزائل کے اس دور میں گھڑ سوار، تیغ زن اور تیرا نداز کالکی اوتار کا انتظار نری حماقت ہے۔
 

سید عمران

محفلین
شوگر،بلڈ پریشر ،معدہ ،جگر،کولیسٹرول ، یورک ایسڈ،گردوں اور ان جیسی بڑی بڑی امراض سے بچنے کے لٸے ہمیں پانچ کام کرنا ہونگے۔

1-کھانا
سب سے زیادہ بیماریاں گلے ہوئے کھانے سے ہوتی ہیں۔
گلے ہوئے کھانے اور پکے ہوئے میں فرق ھے۔جسطرع ایک سیب پکا ہوا ہوتا ھے۔
اور ایک گلا ہوا۔گلا ہوا سیب أپ أرام سے چمچ کے ساتھ بھی کھا سکتے ہیں۔اور اسے چبانا بھی نہیں پڑے گا۔
مٹی کے برتن میں کھانا أہستہ أہستہ پکتا ھے۔اس کے برعکس سلور، سٹیل ، پریشر ککر یا نان سٹک میں کھانا گلتا ھے۔تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں۔ یقین جانیں جن لوگوں نے برتن بدل لٸے ان کی زندگی بدل جائے گی۔

2-کوکنگ أٸل
کوکنگ أٸل وہ استعمال کریں جو کبھی جمے نہ۔۔۔
اگر أپ اپنے گھر کی دیوار پر پر ہاتھ پھیریں تو ہاتھ کو مٹی لگتی ھے۔کیونکہ مٹی جمتی ھے۔
دنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں وہ زیتون کا تیل ھے۔لیکن یہ مہنگا ھے۔
ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لٸے سرسوں کا تیل ھے۔یہ بھی جمتا نہیں۔سرسوں کا تیل واحد تیل ھے جو ساری عمر نہیں جمتا۔اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ھے۔
ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات بھی اسی لٸے کی جاتی ھے۔کیونکہ یہ ممکن نہیں ھے۔
سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دو گے۔اس کو جمنے نہیں دیتا۔ اس کی زندہ مثال اچار ھے۔جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ھے اس کو فنگس نہیں لگتی۔اور انشا ٕاللہ جب یہ ہی سرسوں کا تیل أپ کے جسم کے اندر جائے گا تو أپ کو کبھی بھی فالج ،مرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا۔أپ کے گردے فیل نہیں ہونگے۔پوری زندگی أپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے۔
کیونکہ؟
سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتاھے۔جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا۔
سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں۔ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں۔
أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ھے۔

3- نمک (نمک بدلو)

نمک ہوتا کیاھے؟
نمک انسان کا کردار بناتاھے۔ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے۔
یا پھر بندہ بڑا نمک حرام ھے۔
نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتاھے۔ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے أیا ہو۔اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گلابی (Pink) نمک ھے۔
پنک ہمالین نمک(Pink Himalya salt) 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 4000 روپے کا نوے گرام اور چالیس ہزار روپے کا 900 گرام بکتا ھے۔اور ہمارے یہاں 10 روپے کلو ھے۔
بدقسمتی دیکھیں ہم گھر میں أیوڈین ملا نمک لاتے ہیں۔
جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا وہ ہم کھانا چھوڑ دیا۔
اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں۔

4- میٹھا
ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے۔
اور میٹھا اللہ تعالی نے مٹی میں رکھا ھے۔یعنی گنا اور گڑ
اور ہم نے گڑ چھوڑ کر چینی کھانا شروع کر دی۔
خدارہ گڑ استعمال کریں۔

5-پانی
انسان کے لٸے سب سے ضروری چیز پانی ھے۔
جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔
پانی بھی ہمیں مٹی سے نکلا ہوا ہی پینا چاہیٸے۔پوری دنیا میں أب زم زم سب سے بہترین پانی ھے۔اور اس کے بعد پنچاب کا پانی ھے۔
اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی گندم استعمال کرو۔لیکن گندم کو کبھی بھی چھان کر استعمال نہ کریں۔
گندم جس حالت میں أتی ھے اسے ویسے ہی استعمال کریں۔ یعنی سوجی میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر
کیونکہ ہمارے أقا کریم حضرت محمدﷺ بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے۔
تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہیٸے۔
1-مٹی کے برتن
2-سرسوں کا تیل
3-گڑ
4-پتھر والا نمک
5-زمین کے اندر والا پانی
زمین کے اندر والا پانی مٹی کے برتن رکھ کر مٹی کے گلاس میں ںپیٸں۔
اور ان ساری چیزوں کے ساتھ گندم کا أٹا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ہم یہ ساری چیزیں کیوں لیں؟
یہ ساری چیزیں ہم نے اس لٸے لینی ہیں کہ اللہ تعالیﷻ نے ہمیں مٹی سے پیدا کیا ھے۔اور ہم نے واپس بھی مٹی میں ہی جانا ھے۔
اور طب یونانی کی تھیوری بھی یہی ھے۔اطبا ٕ اسے ارکان کے تناظر میں دیکھیں اور اپنے اکابرین فن کو خراج تحسین پیش کریں۔کیونکہ طب یونانی کی تھیوری بالکل قرأن کے مطابق ھے۔
 

سید عمران

محفلین
*دیوار*


وہ دونوں بھائی چالیس سال سے آپس میں اتفاق سے رہ رہے تھے ۔ ایک بہت بڑا زرعی فارم تھا جس میں ساتھ ساتھ گھر تھے۔
دونوں خاندان ایک دوسرے کا خیال رکھتے، اولادوں میں بھی بہت پیار اور محبت تھی۔

ایک دن دونوں بھائیوں میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور ایسا بڑھا کہ نوبت گالی گلوچ تک جا پہنچی۔

چھوٹے بھائی نے غصے میں دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھائی کھدوا کر اس میں قریبی نہر کا پانی چھوڑ دیا تا کہ ایک دوسرے کی طرف آنے جانے کا راستہ ہی نہ رہے۔

اگلے روزبڑے بھائی نے ایک ترکھان کو اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے۔ اس نے میر ے اور اپنے گھروں کے درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھائی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا تاکہ نہ میں اس کی شکل دیکھوں اور نہ ہی اس کا گھر میری نظروں کے سامنے آئے۔اور یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔

ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سےضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .
موقع دیکھنے کے بعد ترکھان بڑےبھائی کو ساتھ لے کر قریبی قصبے میں گیا اور چار پانچ کاریگروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گیا۔

ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور یہ کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔

صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ۔
غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں تو ایک بہترین پل بنا ہوا تھا ۔

*ترکھان کی اس حرکت پر حیران ہوتا ہوا وہ جونہی اس پل کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا*
چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑے کبھی کھائی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتےرہے۔ چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میں نے با پ جیسے بڑے بھائی کا دل دکھایا مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے تعلق نہیں توڑنا چاہتا۔

بڑے نے جب اپنے چھوٹےبھائی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا بھی دل بھر آیا اور سوچنے لگا کہ غلطی جس کی بھی تھی مجھے یوں جذباتی ہو کر معاملہ بگاڑنا نہیں چاہیے تھا۔

*دونوں اپنے اپنے دل میں شرمندہ ، آنکھوں میں آنسو لئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے۔*

بڑے بھائی نے ترکھان کو ڈھونڈنے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ وہ اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ بڑا بھائی جلدی سے اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ اپنی اجرت تو لیتے جاؤ۔

ترکھان نے کہا اس پل کو بنانے کی اجرت آپ سے نہیں لوں گا بلکہ اس سے لوں گا جس کا وعدہ ہے

*"جو شخص اللّٰہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے کہ لئے لوگوں میں صلح کروائے گا، اللّٰہ جلد ہی اسے عظیم اجر سے نوازے گا۔"*

یہ کہہ کر ترکھان نے اللّٰہ حافظ کہا اور چل دیا۔

*✍ اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس ترکھان کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں نہ کہ لوگون کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا سبب بنیں۔۔۔*

*برائے مہربانی دیواریں نہیں پل بنائیں ۔“*
 

سید عمران

محفلین
جہنم کا تعارف*
1/ جہنم میں گرایا گیا پتھر 70 سال بعد جہنم کی تہ میں پہنچتا ہے- (مسلم)
2/ جہنم کے ایک احاطہ کی دو دیواروں کے درمیان 40 سال کی مسافت کا فاصلہ ہے- (ابو یعلی)
3/ جہنم کو میدان حشر میں لانے کے لے 4 ارب 90 کروڑ فرشتے مقرر ہوں گے-(مسلم)
4/ جہنم کا سب سے ہلکا عذاب آگ کے دو جوتے پہننے کا ہوگا جس سے جہنمی کا دماغ کھولنے لگے گا- (مسلم)
5/ جہنمی کی ایک داڑھ (بڑا دانت) احد پہاڑ سے بھی بڑی ہوگی- (مسلم)
6/ جہنمی کے جسم کی کھال 42 ہاتھ (63 فٹ) موٹی ہوگی- ( ترمذی)
7/ جہنمی کے دونوں کندھوں کے درمیان تیزرو سوار کی 3 دن کی مسافت کا فاصلہ ہوگا- (مسلم)
8/ دنیا میں تکبر کرنے والوں کو چیونٹیوں کے برابر جسم دیا جائے گا-(ترمذی)
9/ جہنمی اس قدر آنسو بہائيں کے کہ ان میں کشتیاں چلائی جاسکیں گی-(مستدرک حاکم)
10/ جہنمیوں کو دیے جانے والے کھانے (تھوہر) کا ایک ٹکڑا دنیا میں گرا دیا جائے تو ساری دنیا کے جانداروں کے اسباب معیشیت برباد کردے- (احمد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ)
11/ جہنمیوں کو پلائے جانے والے مشروب کا ایک ڈول (چند لٹر) دنیا میں ڈال دیا جائے تو ساری دنیا کی مخلوق کو بدبو میں مبتلا کردے- (ابو یعلی)
12/ جہنمیوں کے سر پر اس قدر کھولتا ہوا گرم پانی ڈالا جائے گا کہ وہ سر میں چھید کرکے پیٹ میں پہنچ جائے گا اور پیٹ میں جو کچھ ہوکا اسے کاٹ ڈالے گا اور یہ سب کچھ (پیٹھ سے نکل کر) قدموں میں آگرے گا- (احمد)
13/ کافر کو جہنم میں اس قدر سختی سے ٹھونسا جائے گا جس قدر نیزے کی انی دستے میں سختی سے گاڑی جاتی ہے-(شرح اسنہ)
14/ جہنم کی آگ شدید سیاہ رنگ کی ہے- (جس میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے گا) ( (مالک)
15/ جہنمیوں کو آگ کے پہاڑ "صعود" پر چڑھنے میں 70 سال لگيں گے اترے گا تو پھر اسے چڑھنے کا حکم دیا جائے گا- (ابو یعلی)
16/ جہنمیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گرز اتنے وزنی ہوں گے کہ انسان اور جن مل کر بھی اسے اٹھانا چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے- (ابو یعلی)
17/ جہنم کے سانپ قد میں اونٹوں کے برابر ہونگے اور ان کے ایک دفہ ڈسنے سے کافر 40 سال تک اس کے زہر کی جلن محسوس کرتا رہے گا- (حاکم)
18/ جہنم کے بچھو قد میں خچر کے برابر ہوں گے ان کے ڈسنے کا اثر کافر 40 سال تک محسوس کرتا رہے گا- (حاکم)
19/ جہنمیوں کو جہنم میں منہ کے بل چلایا جائے گا- (مسلم)
20/ جہنم کے دروازے پر عذاب دینے والے 4 لاکھ فرشتے موجود ہونگے جن کے چہرے بڑے ہیبت ناک اور سیاہ ہوں گے کچلیاں باہر نکلی ہوں گی سخت بے رحم ہوں گے اور اس قدر جسیم کہ دونوں کندھوں کے درمیان پرندے کی 2 ماہ کے مسافت کا فاصلہ ہوگا- (ابن کثیر)
یہ ہے وہ ہولناک اور المناک عقوبت خانہ آخرت جس کا قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بار بار جہنم کے نام سے ذکر کیا گیا ہے-
اللہ تعالی ہم میں سے ہر مسلمان کو اپنے فضل و کرم اور احسان عظیم کے صدقے اس سے محفوظ اور مامون فرما‏ئے، بے شک وہ بڑا بخشنہار اور رحم فرمانے والا ہے اور جو چاہے وہ کرنے پر قادر ہے- آمین..!!
☜ *اللّہم اجرنی من النّار*
☜ *اللّہم اجرنی من النّار*
 

سید عمران

محفلین
ایک عربی خاتون نے کہا کہ میں بینک سے قرضہ لینے گئی.
بینک منیجر خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتی ہیں؟
میں نے عاجزی سے جواب دیا کہ میں آپ کی طرح منیجر ہوں.
بینک منیجر میرے احترام میں کھڑی ہوئی، میرا اور گھر والوں کا حال احوال پوچھا.
پھر گھنٹی بجا کر قہوہ اور کیک لانے کے لئے کہا،
اس کے بعد مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں کی منیجر ہیں؟
میں نے جواب دیا کہ میں وٹس ایپ گروپ کی منیجر ہوں.
یہ سن کر منیجر نے مجھے فوراً بینک سے باہر نکال دیا، حالانکہ میرا دل کیک میں اٹکا ہوا تھا جو بہت لذیذ نظر آرہے تھے !!!

(عربی سے مأخوذ، مُتَرجِم)
 

سید عمران

محفلین
ظاہری طور پر اوور تھنکنگ (یعنی زیادہ سوچنا) اتنی بری چیز نہیں لگتی۔ ۔ ۔ سوچنا تو اچھی بات ہے نا؟

لیکن اوورتھنکنگ مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

جب آپ زیادہ سوچتے ہیں تو آپ کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت دھندلا جاتی ہے اور آپ کے سٹریس (یعنی ذہنی دباؤ) میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ منفی سوچ میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ یوں آپ کو کام کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔

اگر یہ مسئلہ آپ کو جانا پہچانا معلوم ہوتا ہے تو آپ کو اوورتھنکنگ سے آزاد کرنے کے لیے یہاں دس آسان تدابیر بتائی جا رہی ہیں۔

١۔ آگاہی ہی تبدیلی کی شروعات ہے
اس سے پہلے کہ آپ اپنی اوورتھنکنگ کی عادت کا مقابلہ کرنا شروع کریں آپ کو اپنی اوورتھنکنگ کے بارے میں ہوشیار اور مطلع ہونا ضروری ہے۔ جب بھی آپ خود کو بے چینی۔ ۔ ۔تذبذب ۔ ۔ ۔ہچکچاہٹ یا ذہنی دباؤ کا شکار پائیں ایک لمحے کے لیے رک جائیں۔ صورتِ حال اور اپنے ردِ عمل کا جائزہ لیں۔ آگاہی کے اسی لمحے میں آپ کو اس تبدیلی کا اشارہ مل جائے گا جو آپ کی ضرورت ہے۔

٢۔ یہ نہ سوچیں کہ کون سے کام بگڑ سکتے ہیں بلکہ ان کاموں پر دھیان دیں جو ٹھیک ہو سکتے ہیں
بہت سی حالتوں میں اوور تھنکنگ کی وجہ صرف ایک ہی احساس بنتا ہے: (وہ ہے) "خوف"۔ جب آپ اپنی توجہ تمام منفی باتوں کے رونما ہونے پر مرکوز کرتے ہیں تو بے کار رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ آئندہ جب آپ کو ایسا لگے کہ آپ منفی سمت واپس جانے لگے ہیں تو رک جائیں۔ اپنی توجہ ان کاموں کی طرف کر لیں جو ٹھیک جا سکتے ہیں اور انہی خیالات کو حاضر اور مقدم رکھیں۔

٣۔ خود کو خوشی کی طرف موڑ لیں
بعض اوقات خود کو خوش۔ ۔ ۔مثبت اور مفید متبادل راستوں پر ڈال دینا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مراقبہ۔ ۔ ۔ رقص کرنا۔ ۔ ۔ کوئی ساز سیکھنا۔ ۔ ۔ سلائی کڑھائی کرنا۔ ۔ ۔ مصوری یا رنگ سازی جیسی چیزیں آپ کو مسائل سے دور کر دیتی ہیں اور حد سے زیادہ تجزیہ کرنا ختم ہو جاتا ہے۔

٤۔ حالات کو ظاہری تناسب سے پرکھیں
باتوں کو ضرورت سے زیادہ بڑا بنا دینا یا منفی بنا دینا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔ آئندہ جب آپ خود کو کسی بات کا بتنگڑ بناتا ہوا پائیں۔ ۔ ۔ خود سے ضرور پوچھیں کہ یہ معاملہ اگلے پانچ سالوں میں کتنا اہم ہو گا۔ یا اگلے ماہ یہ مسئلہ کس نہج پہ ہو گا؟ بس یہ سادہ سا سوال۔ ۔ ۔ یعنی خیالات میں وقت کی حد کو بدل دینا اوور تھنکنگ کو ختم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

٥۔ پرفیکشن کا انتظار چھوڑ دیں
ہم میں سے جو لوگ پرفیکشن یعنی بے نقص ہونے کی حالت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ اس انتظار کو بالکل ابھی اور اِسی وقت ختم کر سکتے ہیں۔ بلند نظر ہونا زبردست بات ہے لیکن پرفیکشن کی تاک میں رہنا خیالی۔ ۔ ۔ ناممکن۔ ۔ ۔ غیر افادی اور کمزور کرنے والا عمل ہے۔ جیسے ہی آپ کو یہ خیال آئے کہ "اِس کام کو پرفیکٹ ہونا چاہیئے" اُسی لمحے آپ نے خود کو یاد دلانا ہے کہ پرفیکشن کا اتنظار کبھی بھی ترقی کرنے اور سیکھنے جتنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔

٦۔ خوف کے بارے اپنا طرزِ فکر بدل ڈالیں
چاہے آپ ماضی کی کسی ناکامی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں یا کوشش کرنے کے عمل سے گھبراتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اگر آپ پہلے کامیاب نہیں ہوئے تھے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر دفعہ وہی نتیجہ برآمد ہو گا۔ یاد رکھیں ہر موقع ایک نئی شروعات ہے اور ایک نئے آغاز کا درجہ ہے۔

٧۔ کام کی ایک حد مقرر کریں
ٹائمر (timer) کو پانچ منٹ پر سیٹ کر کے خود کو سوچنے۔ ۔ ۔ پریشان ہونے اور تجزیہ کرنے کا وقت دیں۔ ٹائمر کا وقت گزر جانے کے بعد ١٠ منٹ کاغذ اور قلم کے ساتھ گزاریں۔ ۔ ۔ وہ سب باتیں لکھ ڈالیں جو آپ کو پریشان کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ ذہنی دباؤ کی وجہ بنتی ہیں یا خوف میں مبتلا رکھتی ہیں۔ اس کاغذ کو اب پھاڑ دیں اور دس منٹ پورے ہونے پر کاغذ کو پھینک کر آگے بڑھ جائیں اور کسی تفریح میں مصروف ہو جائیں۔

٨۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ مستقبل کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے
فیوچر کو کوئی بھی پریڈِکٹ نہیں کر سکتا۔ ہم نے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اِسی لمحے میں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ موجودہ لمحے کو مستقبل کی فکر میں گزار دیتے ہیں تو آپ خود کو اپنے وقت سے محروم کر رہے ہیں۔ مستقبل کے بارے سوچ کر وقت گزارنا مفید اور زرخیز نہیں ہے۔ یہ وقت آپ ان چیزوں پر صرف کریں جو آپ کو خوشی دیتی ہیں۔

٩۔ اپنی بہترین کوشش کو تسلیم کر لیں
اوور تھنکنگ کو پیدا کرنے والا خوف اکثر اس احساس پر قائم ہوتا ہے کہ آپ بہت اچھے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ بہت ذہین نہیں۔ ۔ ۔ زیادہ محنتی یا زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ جب آپ کسی کام میں اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر چکیں تو محنت کے انجام کو اُسی حالت میں قبول کر لیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کامیابی کسی حد تک ان چیزوں پر منحصر ہو جو ابھی آپ کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ۔ ۔ آپ جو کچھ کر سکتے تھے آپ نے کر تو دیا۔

١٠۔ شکر گزار رہیں
آپ کو کبھی خوشگوار خیال یا غمگین خیال ایک ساتھ نہیں آ سکتے۔ ۔ ۔ تو کیوں نہ اپنا وقت مثبت سوچ کے ساتھ گزارا جائے۔ ہر صبح اور ہر شام ان چیزوں کی فہرست بنائیں اور اُس لِسٹ میں وہ سب چیزیں لکھیں جن کے لیے آپ خوش اور شکر گزار ہیں۔ ایک شکرگزار ساتھی تلاش کریں اور اس کے ساتھ lists کا تبادلہ کریں تا کہ وہ شخص آپ کے ارد گرد موجود اچھی چیزوں کا گواہ بن جائے۔

اوور تھنکنگ ایسی چیز ہے جو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر آپ کے پاس اس سے نمٹنے کا عمدہ نظام موجود ہے تو آپ منفی۔ ۔ ۔ خوف پیدا کرنے والی اور دباؤ ڈالنے والی سوچ پہ قابو پا سکتے ہیں اور اسے کچھ فائدہ مند۔ ۔ ۔ زرخیز اور موثّر میں بدل سکتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
آج صبح میں جوگنگ کررہا تھا، میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مجھ سے آدھا کلومیٹر دور تھا
میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے تھوڑا آہستہ دوڑ رہا ہے، مجھے بڑی خوشی محسوس ہوئی، میں نے سوچا اسے ہرانا چاہئے
تقریبا ایک کلو میٹر بعد مجھے اپنے گھر کی جانب ایک موڑ پر مڑنا تھا، میں نے تیز…‏…دوڑنا شروع کر دیا
کچھ ہی منٹوں میں، میں دھیرے دھیرے اس کے قریب ہوتا چلا گیا
جب میں اس سے 100 فٹ دور رہ گیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی، جوش اور ولولے کے ساتھ میں نے تیزی سے اسے پیچھے کردیا
میں نے اپنے آپ سے کہا کہ
"یس!! میں نے اسے ہرادیا"

حالانکہ اسے معلوم ہی نہیں تھا…‏…کہ ریس لگی ہوئی ہے

اچانک مجھے احساس ہوا کہ اسے پیچھے کرنے کی دھن میں، میں اپنے گھر کے موڑ سے کافی دور آگیا ہوں
پھر مجھے احساس ہوا کہ میں نے اپنے اندرونی سکون کو غارت کردیا ہے، راستے کی ہریالی اور اس پر پڑنے والی سورج کی نرم شعاعوں کا مزہ بھی نہیں لے سکا
چڑیوں کی…‏…خوبصورت آوازوں کو سننے سے محروم رہ گیا
میری سانس پھول رہی تھی، اعضاء میں درد ہونے لگا، میرا فوکس میرے گھر کا راستہ تھا اب میں اس سے بہت دور آگیا تھا

تب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہماری زندگی میں بھی ہم خوامخواہ کمپیٹیشن کرتے ہیں، اپنے co-workers کے ساتھ، پڑوسیوں،…‏…دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ، ہم انہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان سے بہت بھاری ہیں، زیادہ کامیاب ہیں، یا زیادہ اہم ہیں، اور اسی چکر میں ہم اپنا سکون، اپنے اطراف کی خوبصورتی، اور خوشیوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے

اس بیکار کے مقابلے کا سب سے بڑا پرابلم یہ ہےکہ یہ کبھی ختم نہ…‏…ہونے والا چکر ہے

ہر جگہ کوئی نا کوئی آپ سے آگے ہوگا، کسی کو آپ سے اچھی جاب ملی ہوگی، کسی کو اچھی بیوی، اچھی کار، آپ سیے زیادہ تعلیم، آپ سے ہینڈسم شوہر، فرمانبردار اولاد، اچھا ماحول، یا اچھا گھر وغیرہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ خود اپنے آپ میں بہت زبردست ہیں، لیکن اس کا…‏…احساس تب تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ اپنے آپ کو دوسروں سے کمپیئر کرنا چھوڑ ناں دیں

بعض لوگ دوسروں پر بہت توجہ دینے کی وجہ سے بہت نروس اور غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان پر فوکس کیجئے
اپنی ہائٹ، ویٹ، شخصیت، جو کچھ بھی حاصل ہے اسی سے لطف اٹھائیں
اس…‏…حقیقت کو قبول کیجئے کہ اللہ نے آپ کو بھی بہت کچھ دیا ہے
اپنے آپ پر فوکس کیجئے
صحت مند زندگی گزاریئے
اپنے بچوں کو کبھی بھی کسی دوسرے سے کمپیئر نہ کریں
کبھی ان سے نہ کہیں کہ
"دیکھ!!‏فلاں کا بچہ کتنا اچھا ہے"۔

مقابلہ بازی یا تقابل ہمیشہ
زندگی کے لطف پر ڈاکہ ڈالتے ہیں
یہ آپ کی زندگی کے مزے کو کرکرا کر دیتے ہیں

تقدیر سے کوئی مقابلہ نہیں، سب کی اپنی اپنی تقدیر ہوتی ہے، تو صرف اپنے مقدر پر فوکس کیجئے.
‏دوڑیئے ضرور! مگر اپنی اندرونی خوشی اور سکون کیلئے

خوش رہیں ❤!!
خوشیاں بانٹتےرہیں❤
 

سید عمران

محفلین
کہتے ہیں کہ ایک بار ایک شکاری جنگل سے ایک تیتر کا بچہ پکڑ کر لاتا ہے اوراسے اپنے گھر میں ایک الگ پنجرے میں رکھتاہے اورخوب کاجو، کشمش, بادام کھلاتاہے....
جب تیتر بڑا ہوجاتاہے تو اسے پنجرے کے ساتھ ہی لیکر جنگل جاتا ہے.....
وہاں جال بچھاتا ہے اورسدھائے ہوئے تیتر کو وہیں پنجرے میں رکھ کر خود جھاڑی کے پیچھے چھپ جاتاہے اور تیتر سے بولتایے کہ "بول بیٹا بول" تیتر اپنے مالک کی آواز سن کر زور زور سے چلاتا ہے....
اسکی آواز سن کرجنگل کےسارے تیتر (یہ سوچ کرکہ یہ اپنے قوم کاہے ضرورکسی پریشانی میں ہے,چلو مدد کرتے ہیں... )
کھینچے چلے آتے ہیں اور شکاری کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں.....
شکاری مسکراتے ہوئے آتاہے اور پالتو تیتر کو الگ اور سارے تیتروں کو الگ جھولے میں ڈال کر گھر لاتاہے.....
پھر اپنے پالتو تیتر کے سامنے پکڑے گئے سب تیتروں کو ایک ایک کر کے کاٹتاہے مگر پالتو تیتر اف تک نہیں کرتا کیوں کہ اسے اپنے حصہ کی خوراک کاجو,کشمش,بادام جو مل رہاتھا...."
کم وبیش یہی حالت آج کے مسلمانوں کی بھی ہوگئی ہے........
شکاری (یہود، نصاری، اہل ہنود، کفار اور منافقین) نے ایسے نہ جانے کتنے ہی تیتر پال رکھے ہیں جن کی وجہ سے مسلم قوم دشمن کے جال میں پھنستی ہے اور یہ کٹتا ہوا دیکھتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے کیونکہ انکو انکے حصہ کی خوراک مل جاتی ہے.......!!!
 

سید عمران

محفلین
صرف 2 ماہ میں پورا ملک مسلمان ہوا !

مالدیب بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے،یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے.

مالدیب کی 100% آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے.

عجیب بات یہ ہے کہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے.

مگر یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا ؟

یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک
مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں.

وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ

مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت(جن) مسلط تھا،وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ
کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے
نمودار ہوتا تھا اور لوگ سمندر کے کنارے بنے بت خانہ میں ایک دوشیزہ کو بناؤ سنگھار کرکے رکھ دیتے وہ عفریت
رات اس بت خانے میں گزارتا اور صبح وہ لڑکی مردہ
پائی جاتی اور لوگ اس کی لاش کو جلاتے.

عفریت کے لئے دوشیزہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی ہوتا تھا اس بار قرعہ اندازی میں ایک بیوہ بڈھیا کی بیٹی کا نام
نکلا تھا رو رو کر بڈھیا نڈھال ہوچکی تھی گاؤں کے لوگ بھی بڈھیا کے گھر جمع تھے ،دور سے آئے اس مسافر نے بھی
بڈھیا کے گھر کا رخ کیا اس کے استفسار پر اسے سب کچھ بتایا گیا کہ عفریت کے مظالم کتنے بڑھ گئے ہیں.

مسافر نے بڈھیا کو دلاسہ دیا اور عجیب خواہش کا اظہار کیا کہ آج رات آپ کی بیٹی کی جگہ بت خانے میں مجھے بٹھایا جائے،پہلے تو وہ لوگ خوف کے مارے نہ مانے کہ عفریت غصہ ہوئے تو ان کا انجام بد ہوسکتا ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا وہ راضی ہوگئے،مسافر نے وضو کیا اور بت خانے میں داخل ہو کر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی
عفریت آیا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلا گیا،لوگ صبح نہار بت خانہ کے باہر جمع ہوئے تاکہ لاش جلائی جا سکے لیکن مسافر کو زندہ دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئے.

یہ مسافر مشہور مسلم داعی،مبلغ اور سیاح ابو البرکات
بربری تھے،ابو برکات کی آمد اور عفریت سے دو دو ہاتھ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی بادشاہ نے
شیخ کو شاہی اعزاز کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا شیخ ابو برکات نے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی بادشاہ نے اسلام قبول کیا اور صرف 2 کے اندر مالدیب کے سب لوگ بدھ مت سے تائب ہو کر مسلمان ہوچکے تھے.

یہ 1314ء کی بات ہے اس مبلغ اور داعی نے مالدیب کو اپنا مسکن بنایا لوگوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی، ہزاروں مسجدیں تعمیر کیں،اور مالدیب میں ہی فوت ہوئے اسی مٹی پر ہی دفن ہوئے.

کہنے کو ابو البرکات بربری ایک شخص لیکن تنہا ایک امت کا کام کر گئے،آج بھی ان کو برابر اجر مل رہا ہوگا۔“
 

سید عمران

محفلین
کامیابی کا راز

استاد نے کلاس میں موجود تمام بچوں کوایک خوب صورت ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گیا۔کچھ لمحوں کے لیے کلا س میں خاموشی چھاگئی ،ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بے تاب نظروں سے دیکھ رہا تھااور ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ ان کے لیے خود کو روکنا مشکل ہورہا تھا۔دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آکر کلاس روم کا جائزہ لیا۔پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں جبکہ باقی تمام بچے ٹافی کھاکر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کررہے تھے۔استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اورپڑھانا شروع کردیا۔
کچھ سالوں بعد استاد ،جس کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا ،نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی ۔کافی تگ و دُو کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی میں کافی ترقی کرچکے ہیں اور ان کا شمار کامیاب افراد میں ہوتاہے۔پروفیسر والٹر نے اپنی کلاس کے باقی طلبہ کا بھی جائزہ لیا،معلوم ہواکہ ان میں اکثر لوگ ایک عام سی زندگی گزاررہے تھے جبکہ کچھ افراد ایسے بھی تھے جن کو سخت معاشی اور معاشرتی حالات کا سامنا تھا۔
اس تمام تر کاوش اورتحقیق کا نتیجہ پروفیسر والٹر نے ایک جملے میں نکالااور وہ یہ تھا کہ’’جو انسان دس منٹ تک صبر نہیں کرسکتا وہ زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا۔‘‘اس ریسرچ کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی او ر اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑگیا۔کیونکہ پروفیسر والٹر نے بچوں کو جو ٹافی دی تھی اس کا نام ’’مارش میلو‘‘تھا جو فوم کی طرح نرم تھی ۔اس تھیور ی کے مطابق دنیا کے کامیاب ترین افراد میں اور بہت ساری خوبیوں کے ایک ساتھ ایک خوبی ’’صبر‘‘ کی بھی پائی جاتی ہے۔کیونکہ یہ خوبی انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے جس کی بدولت انسان سخت حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتااور یوں وہ ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتاہے۔
تاریخ کے کامیاب ترین شخصیات کی زندگیوں پر اگر نظر دوڑائیں تو سرِ فہرست حضور نبی کریم ﷺ کا نام آتا ہے ۔ان کی زندگی کے اکثرواقعات ایسے ہیں جہاں بظاہر نقصان نظر آرہا تھا مگر آپ ﷺ نے اپنی بصیرت سے ان کو قبول کیا ، صبر سے کام لیا اور پھراگلے وقتوں میں اس کے بہترین ثمرات نکلے۔اس مثال کا ایک واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے ، جس میں کفارکی طرف سے ناانصافی پر مبنی غیر مناسب شرائط کا مطالبہ تھا۔آپ ﷺ نے اس معاہدے کو قبول کیااور پھرکچھ عرصے بعد دنیا نے اس بصیرت کا شاندار نتیجہ فتحِ مکہ کی صورت میں دیکھا۔
اپنی فطرت اور عادت میں’’صبر‘‘شامل کرنے والوں کو ہمیشہ کامیابی ملتی ہے۔اسلامی آداب میں بھی عجلت اور جلدی بازی سے منع کیا گیا ہے ۔چنانچہ قرآن حکیم میں اللہ ارشاد فرماتاہے ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ جبکہ اس کے برعکس جن افراد میں اس صفت کی کمی ہوتی ہے اس کو ہمیشہ نقصان اٹھانا پڑتاہے ۔نفسیات کی رُو سے ’’بے صبری‘‘ کا مطلب انسان کا اپنے پریشان کن جذبات کو درست طریقے سے سمجھ نہ پانا ہے۔جیسے جیسے انسان کو پریشان کن جذبات تنگ کرتے ہیں وہ بے صبرا ہوتا جاتاہے۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں پیش آنے والے ٹریفک حادثات کی بنیادی وجہ ’’بے صبری‘‘ ہے ۔بالخصوص پاکستان میں اس کی شرح بہت زیادہ ہے ۔لوگ ٹریفک سگنل پر ایک منٹ تک انتظا ر نہیں کرسکتے،جلدی نکلنے کی کوشش میں وہ تیز رفتاری اختیار کرتے ہیں اور اسی تیز رفتاری میں وہ اپنا اور دوسروں کا جانی اور مالی نقصان کرڈالتے ہیں ۔
خاندانی مسائل پر کام کرنے والے اداروں کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہاںازدواجی رشتوں میں اختلافات اور طلاق کی بڑی وجہ بے صبری اور جلدی بازی ہے۔حساس رشتوں میں صبر سے کام نہیں لیا جاتا،جلد بازی میں فیصلہ کرلیا جاتا ہے اور نوبت طلاق تک جاپہنچتی ہے،جس پر بعد میں خوب پچھتاوا ہوتاہے مگر ۔۔۔وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتاہے۔دیگر خاندانی اور معاشرتی رشتے بھی اسی وجہ سے زوال کا شکارہو جاتے ہیں۔
صبر سے کام لے کر اَمر ہوجانے والوں میں ایک نام سقراط کا بھی ہے ،جس کو فلسفے کی دنیا کا امام جانا جاتاہے ۔ اس نے ناموافق حالات اور قید وبند کی مشکلات کے باوجود صبر کا دامن تھامے رکھا۔ اپنے نظریات کی پاداش میں اس کو قید کیا گیا۔جیل میں اس کی خیرخواہوں نے اسے نکالنا چاہا مگر وہ نہ مانا،بالآخر اس کو زہر کا پلاکر موت دے دی گئی ،وہ بظاہر مرگیا مگراس کا نام اوراس کے افکار و نظریات آج بھی زندہ ہیں ۔
ایڈیسن جس کی غیر معمولی ایجادات کی بدولت آج ساری دنیااس کو جانتی ہے ،وہ اتنا بڑا سائنسدان نہ ہوتا اگر اس کی والدہ نے سکول سے آئے ہوئے خط کو پڑھ کر صبر سے کام نہ لیا ہوتا،جس میں لکھا تھا کہ’’ آپ کا بچہ انتہائی ناقابل ہے او ر ہمارا سکول اس کو مزید نہیں پڑھاسکتا۔‘‘نفسیاتی طورپر اس مشکل گھڑی میں انہوں نے کوئی جلد بازی نہیں کی اور نہ سکول کے خلاف کوئی شکایت کی بلکہ بہت ہی خوب صورت انداز میں اپنے بیٹے کویقین دلایا کہ وہ ایک عظیم انسان بن سکتا ہے اور پھرواقعی وہ نالائق بچہ،ایک بڑاسائنس دان بن گیا۔
’’مارش میلو تھیوری‘‘کے تناظر میں اگر ہم ان تمام واقعات اور شخصیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مشکل حالات کے باوجود بھی انہوں نے صبر سے کام لیا، جلد بازی نہیں کی اور نہ ہی سطحی فیصلے کیے ،جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد اور مشن میں کامیا ب ہوگئے اور آج دنیا ان کے ناموں کے گُن گاتی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
*۞ تین قانون ۞..*

*قدرت نے ہم انسانوں کے ارد گرد اپنے تین فطرتی قانون جما رکھے ہیں ہماری ساری زندگی انھی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے..*
*پہلا قانونِ فطرت: اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے ۔ اسی طرح اگر دماغ کو اچھی فکروں سے نہ بھرا جائے تو کج فکری اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے...!*
*دوسرا قانون فطرت: جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہی بانٹتا ہے, خوش انسان خوشی بانٹتا ہے۔ غمزدہ انسان غم بانٹتا ہے, عالم علم بانٹتا ہے۔ مذہبی اور دیندار انسان دین بانٹتا ہے۔ خوف زدہ انسان خوف بانٹتا ہے...!*
*تیسرا قانون فطرت: آپ کو زندگی سے جو کچھ بھی حاصل ہو اسے ہضم کرنا سیکھیں, اس لئے کہ کھانا ہضم نہ ہونے پر بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں ۔ اسی طرح مال وثروت ہضم نہ ہونے کی صورت میں ریاکاری بڑھتی ہے ۔ بات نہ ہضم ہونے پر چغلی بڑھتی ہے ۔ تعریف نہ ہضم ہونے کی صورت میں غرور میں اضافہ ہوتا ہے ۔ مذمت کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے دشمنی بڑھتی ہے ۔ غم ہضم نہ ہونے کی صورت میں مایوسی بڑھتی ہے ۔ اقتدار اور طاقت نہ ہضم ہونے کی صورت میں غرور میں اضافہ ہوتا ہے....!*
︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗
︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘
 

سید عمران

محفلین
*خُوشی کے ہارمونز*

4 ہارمونز جو انسان میں خوشی کا تعین کرتے ہیں۔

ایک دن صبح میں پارک میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا اس نے باتوں باتوں میں کہا کہ وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو بڑا نا شکرا پن ہے کیونکہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ہماری زندگی میں سب کچھ بہتر تھا۔ میں نے پوچھا۔
"تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟"
"میں نہیں جانتی. ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن میں خوش نہیں ہوں."

پھر میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ؟
"کیا میں خُوش ہوں؟"
میرےاندر سے آواز آئی "نَہیں۔۔۔!!!"
اب، اس واقعہ سے میں بےچین ہوگیا۔
میں نے خُوشی کی اصل وجہ سمجھنے کے لئے مطالعہ شروع کر دیا،
لیکن مُجھے کُچھ خَاص نہیں مِلا.
میں نے اپنی تلاش تیز کی کئی مضامین پڑھ لئے، بہت سے لائف کوچ سے بات کی لیکن کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا.

آخر میں میرے ایک ڈاکٹر دوست نے مجھے خوشی کے ہارمونز کے بارے میں بتایا ان ہارمونز کے اخراج سے ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔
میں نے اُن پر عملدرآمد کیا اور اب میں خُوش رہنے لگا ہوں.

اُس نے کہا،
چار ہارمون ہیں جن کے اخراج سے انسان خُوشی محسوس کرتا ہے:
1. *Endorphins*، اینڈورفنس
2. *Dopamine* ڈوپامائین
3. *Serotonin*، سیروٹونائین
and اور
4. *Oxytocin* آکسی ٹوسین

*ہمارے اندر خُوشی کا احساس ان چار ہارمونز کی وجہ سے ہوتا ہےاس لئےضُروری ہے کہ ہم ان چار ہارمونز کے بارے میں جانیں*۔

▪پہلا ہارمون *اینڈورفنس* ہے :
جب ہم ورزش کرتے ہیں تو ہمارا جسم درد سے نپٹنے کیلئے اینڈورفنس خارج کرتا ہے تاکہ ہم ورزش سے لطف اٹھا سکیں۔ اسکے علاوہ جب ہم کامیڈی دیکھتے ہیں، لطیفے پڑھتے ہیں اس وقت بھی یہ ہارمون ہمارے جسم میں پیدا ہوتا۔ اسلئے خوشی پیدا کرنے والے اس ہارمون کی خوراک کیلئے ہمیں روزانہ کم از کم 20 منٹ ایکسرسائز کرنا اور کچھ لطیفے اور کامیڈی کے ویڈیوز وغیرہ دیکھنا چاہیئے۔

▪دوسرا ہارمون *ڈوپامائین* ہے:
زندگی کے سفر میں، ہم بہت سے چھوٹے اور بڑے کاموں کو پورا کرتے ہیں، جب ہم کسی کام کو پورا کرتے تو ہمارا جسم ڈوپامائین کو خارج کرتا ہے. اور اس سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔
جب آفس یا گھر میں ہمارے کام کے لئے تعریف کی جاتی تو ہم اپنے آپ کو کامیاب اور اچھا محسوس کرتے ہیں، یہ احساس ڈوپامائین کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ عورتیں عموماً کھر کا کام کرکے خوش کیوں نہیں ہوتی اسکی وجہ یہ ہیکہ گھریلو کاموں کی کوئی تعریف نہیں کرتا۔
جب بھی ہم نیا موبائیل، گاڑی، نیا گھر، نئے کپڑے یا کچھ بھی خریدتے ہیں تب بھی ہمارے جسم سے ڈوپامائین خارج ہوتا ہے۔اور ہم خوش ہوجاتے ہیں.
اب، آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ شاپنگ کرنے کے بعد ہم خوشی کیوں محسوس کرتے ہیں۔

▪تیسرا ہارمون *سیروٹونائین*:
جب ہم دوسروں کے فائدہ کیلئے کوئی کام کرتے ہیں تو ہمارے اندر سے سیروٹونائین خارج ہوتا ہے اور خوشی کا احساس جگاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر مفید معلومات فراہم کرنا، اچھی معلومات لوگوں تک پہنچانا، بلاگز، Quora اور فیس بک پر پر عوام کے سوالات کا جواب دینا اسلام یا اپنے اچھے خیالات کی طرف دعوت دینا ان سبھی سے سیروٹونائین پیدا ہوتا ہے اور ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔

▪چوتھا ہارمون *آکسی ٹوسین* ہے:
جب ہم دوسرے انسانوں کے قریب جاتے ہیں یہ ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔
جب ہم اپنے دوستوں کو ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو جسم اکسیٹوسین کو خارج کرتا ہے۔
واقعی یہ فلم 'منا بھائی' کی جادو کی چھپی کی طرح کام کرتا ہے۔ جب ہم کسی کو اپنی باہوں میں بھر لیتے ہیں تو آکسی ٹوسین خارج ہوتا ہے اور خوشگواری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

خُوش رہنا بہت آسان ہے:
ہمیں اینڈروفنس حاصل کرنے کے لئے ہر روز ورزش کرنا ہے۔
ہمیں چھوٹے چھوٹے ٹاسک پورا کرکے ڈوپامائین حاصل کرنا ہے۔
دوسروں کی مدد کرکے سیروٹونائین حاصل کرنا ہے۔
اور
آخر میں اپنے بچوں کو گلے لگا کر، فیملی کے ساتھ وقت گزار کر اور دوستوں سے مل کر آکسی ٹوسین حاصل کرنا ہے۔

اس طرح ہم خُوش رہیں گے۔ اور جب ہم خوش رہنے لگیں گے تو ہمیں اپنے مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔

*اَب آپ سَمجھ گئے ہوں گے کہ بچہ اگر خَراب موڈ میں ہو تو اُسے فوری گلے لگانا کیوں ضُروری ہے؟*

بچوں کیلئے:
1.موبائیل یا ویڈیو گیم کے علاوہ گراونڈ پر جسمانی کھیل کھیلنے کی ہمت افزائی کریں۔ (اینڈروفنس)

2. چھوٹی بڑی کامیابیوں پر بچے کی تعریف کریں، اپریشیئٹ کریں۔(ڈوپامائین)

3. بچے کو اپنی چیزیں شیئر کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی عادت ڈالیں۔اسکے لئے آپ خود دوسروں کی مدد کرکے بتائیں۔(سیروٹونائین)

4. اپنے بچے کو باہوں میں بھر کر پیار کریں۔(آکسی ٹوسین)

*خُوش رہیں۔*
خُوشیاں بانٹتے رہیں۔
 

سید عمران

محفلین
#شادیاں جلدی کیوں نہیں ہوتیں؟؟

شادیاں نہ ہونا کتنا بڑا ایشو اور غور طلب مسئلہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جس وقت آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں ٹھیک اسی وقت پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ایک لڑکی تیس سال کی ہو چکی ہے شادی کے انتظار میں اور ان کے بالوں میں سفیدی لگی ہے۔ جن کی تعداد لگ بھگ پچاس لاکھ بنتی ہے۔ ایک اوسط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ لڑکیاں شادی کے منتظر ہیں۔

اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناطے ہمیں یہ مسئلہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ پچھلے تین چار ماہ سے کی ہم اس پہ ریسرچ کر رہے تھے کہ شادیوں کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے اور اس رکاوٹ کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں, ہم نے تقریباً تین ہزار سے اوپر لوگوں سے بات کی ان کی رائے لی۔ پھر ان تمام آراء کی گروپ بندی کی.. ہم نے چھوٹی چھوٹی پرچیاں بنائیں۔ اور پھر ان کا آپس میں ربط تلاش کیا۔

ہماری اس تحقیق اور سروے کے مطابق شادیوں کے ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹیں چار ہیں۔ جو نیچھے تفصیل سے لکھے گئی۔

1 #جہیز یا #ولور
سب سے بڑی رکاوٹ جہیز یا ولور ہے والدین کو اکثر اوقات رشتہ تو مل جاتا ہے مگر جہیز یا ولور کیلئے پیسے نہیں ہوتے۔ جہیز کا مطلب ہے کہ بیوی کے والدین کو اتنا ذلیل کرنا کہ پھر وہ پوری زندگی قرض ہی ادا کرتے رہیں جبکہ ولور کا مطلب ہے کہ بیٹی کے شوہر کو نکاح سے پہلے مقروض کرکے اپنی بیٹی کو کسی مقروض کے گھر بھیج دیا جائے۔ اس مسئلے نے تقریباً تمام غریب اور متوسط درجے کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً 28 لاکھ شادیاں نہیں ہوئی یا نہیں ہو رہیں۔

2 #ذات_پات
یہ وہ ناسور ہے جس نے کسی طبقے کو نہیں چھوڑا، امیر غریب سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ یہ دوسری بڑی بیماری ہے جس نے معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے. اس ذات پات کی وجہ سے روزانہ ایک ہزار سے زیادہ رشتے رد کئے جاتے ہیں۔ یعنی اگر صرف ذات پات کا مسئلہ ہی حل ہو جائے تو 20 لاکھ شادیاں کچھ دنوں میں ہو جائیں ۔

3 #بزدلی_لالچ_آئیڈیل
یوں تو تقریباً ہر مسئلے کی وجہ ہی بزدلی ہوتی ہے اور یہ وسیع موضوع بھی ہے.مگر ہم یہاں خاص طور پر بزدلی کو ایک بہت بڑا ناسور سمجھتے ہیں ۔کچھ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی اسلئے نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں یہ پڑھے، پھر جاب کرے اور پھر شادی ہو جائے تاکہ ان کی زندگی بہتر گزرے۔ مگر پڑھنے ، جاب دیکھنے اور پھر سال دو سال ان کے پیسے کھانے کے بعد لڑکی کو کہا جاتا ہے کہ اب خود رشتہ دیکھ لے۔ جبکہ وہ بیچاری 35 سال عمر کراس کرچکی ہوتی ہے۔ بزدل صرف والدین نہیں ہوتے بچیاں بھی ہوتی ہیں۔ مجھے کئی سو لوگوں نے یہ رائے بھی دی کہ ان کو وہ ہیرو یا آئیڈیل نہیں ملتا جو ان کو چاہئے، پھر وہ ایک دن ویلنٹائن کے انتظار میں صرف ویلن کو گلے لگا لیتی ہیں۔ کچھ لڑکیاں لاڈلی بنی ہوتی ہیں تو وہ شادی اسلئے نہیں کرتی کیونکہ انکو ڈر ہوتا ہے یہ مزے وہاں نہیں ملنے لگے۔ بزدلی سے شادی نہ ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لڑکی یا لڑکے کو عشق ہوجائے اور گھر والے نہ مانے پھر بھی ایک نمایاں تعداد شادی کرنے میں شرم محسوس کرتی ہیں۔

4 #دوسری_شادیاں
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ خوف سا ہے کہ دوسری شادی پتہ نہیں کتنا بڑا ظلم ہے۔ ایک تو ہماری زبانوں میں دوسری بیوی کا نام اتنا خوفناک ہے سوتن، بن، وغیرہ۔ جس سے لوگ ڈر جاتے ہیں. انڈین کلچر, رسومات, فلمیں ڈرامے اور سوپ سیریلز نے پاکستانی لوگوں کی زندگیاں خراب کردی ہیں.. دوسری شادی کو ایک معاشرتی ناسور بنا کر رکھ دیا گیا ہے.. عورت ہی عورت کی دشمن ہے.. جبکہ مرد اگر انصاف کر بھی سکتا ہو تو دوسری شادی کا نام نہیں لے سکتا..

حل:-

ہمیں چاہیے کہ ایک بھرپور تحریک چلائیں..

شادی ہالوں, دھوم دھام والی شادیوں، جہیز ، ولور, سجاوٹ پہ بے پناہ اخراجات, نمود و نمائش, قیمتی اور انتہائی مہنگے ڈریس, اور ذات پات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔

لڑکی والوں کے گھر کھانے پہ مکمل پابندی لگا دی جائے..

نکاح انتہائی سادہ اور مسجد میں کیا جائے..

مہندی, مایوں اور دیگر خرافات پہ سخت پابندی اور سزائیں ہوں..

شادی کے جملہ اخراجات دلہے کی ایک تنخواہ یا ماہانہ آمدنی سے زیادہ نہ ہوں..

نکاح کی دستاویزات اور مراحل بہت آسان ہوں..

بارات بینڈ باجہ پہ پابندی ہو.. نکاح پہ صرف دلہے کے گھر والے ہی آئیں..

شادی کا بڑا فنکشن صرف اور صرف ولیمہ ہو.. وہ بھی دلہا کی استطاعت کے مطابق..

جبکہ حکومت کو چاہئے کہ ایک قانون بنائے جس کہ رو سے کسی لڑکی یا لڑکے کو تب تک یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملے جب تک وہ نکاح نامہ ساتھ نہ لائے۔

حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ جہیز ، ولور اور لڑکیوں کی شادی سے پہلے جابز پر مکمل پابندی لگائے۔ جاب صرف شادی شدہ خواتین کو دی جائے..

سوسائٹی یہ بھی کرسکتی ہے کہ مشترکہ شادیوں کو ترویج دی جائے جہاں صرف ایک سادہ ڈش اور زیادہ سے زیادہ شادیاں ہوں..

دوسری شادی کا رواج عام کیا جائے.. جن مردوں کی مالی اور اسبابی استطاعت میسر ہے ان کی بیویاں اپنا ظرف بڑا کریں.. اللہ اجر دینے والا ہے..

جس محلے یا یونین کونسل میں کوئی بیوہ یا مطلقہ عورت موجود ہو وہاں کا چیئرمین اس کی دوسری شادی کے لئے معاونت کا ذمہ دار ہو..

انڈین میڈیا کی جہالت اور بھارتی رسومات ختم کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات, خانگی نظام اور شادی کے اصل طریقہ کار کی مناسب تشہیر کی جائے..

یاد رکھیں..

جلدی شادیوں کا نہ ہونے سے زنا بڑھ رہا ہے۔
نسوانیت ختم ہورہی ہیں۔
مردانگی ضائع ہو رہی ہے،
بے راہ روی عام ہورہی ہے,
معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہورہی ہیں..
چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ ریپ اور قتل و غارت ہورہی ہے..
اغلام بازی اور امرود پرستی کی نحوست بڑھ رہی ہے..

اگر اب بھی کچھ نہ سوچا گیا تو آنے والا وقت مزید تباہی و بربادی کے ساتھ ہمارا منتظر ہے

اور سب سے بڑھ کر ہم سب نے اس کا جواب دینا ہے اللہ کے ہاں ۔
 

سید عمران

محفلین
*وہ لوگ جو اپنے گھرانوں کے بچوں کے کردار کی بہترین تربیت کے خواہشمند ہیں، انکی خدمت میں کچھ گزارشات ہیں جن سے*
*ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے بچوں میں پاکیزگی پیدا ہوگی*.

*بچوں کو زیادہ وقت تنہا مت رہنے دیں*

*آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہو جاتے ہیں…. یہ قطعاً غلط ہے* بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں

اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھنے مت دیں. کیونکہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے. جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

*بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں. تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے.*

*بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں کو بھی ان کے ساتھ کمرہ بند کرکے نہ بیٹھنے دیں*.

اگر آپ کا بچہ اپنے کمرے میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک کرتے رہیں.

*بچوں کو فارغ نہ رکھیں فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے* اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے. بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں جب انکا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا فوراً اثر قبول کرتا ہے. اس لئے انکی دلچسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں.

*ٹی وی اور انٹرنیٹ وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں بلکہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہیں اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں.*

- *ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لئے بہترین ہوتے ہیں* تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی گہری نیند سوئے.

*بچوں کے دوستوں اور مصروفیات پر گہری نظر رکھیں*

*یاد رکھیں والدین بننا فل ٹائم جاب ہے. اللّہ تعالی نے آپکو اولاد کی نعمت سے نواز کر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہے.*

*بچوں کو رزق کی کمی کے خوف سے پیدائش سے پہلے ہی ختم کردینا ہی قتل کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اولاد کی ناقص تربیت کرکے انکو جہنم کا ایندھن بننے کے لئے بے لگام چھوڑ دینا بھی انکے قتل کے برابر ہے.*

*اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں.

کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے.

*بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں.*

*_حضرت عمر رضی اللّہ تعالیٰ اپنے گھر کی بچیوں اور بچوں پر اس بات میں سختی کرتے تھے.

*ان دو حالتوں میں لیٹنے سے سفلی خیالات زیادہ آتے ہیں. بچوں کو دائیں کروٹ سے لیٹنے کا عادی بنائیں.*

*بلوغت کے نزدیک بچے جب واش روم میں معمول سے زیادہ دیر لگائیں تو کھٹک جائیں اور انہیں نرمی سے سمجھائیں.* اگر ان سے اس معاملے میں بار بار شکایت ہو تو تنبیہ کریں. لڑکوں کو انکے والد جبکہ لڑکیوں کو ان کی والدہ سمجھائیں.

*بچوں کو اجنبیوں سے گھلنے ملنے سے منع کریں اور اگر وہ کسی رشتہ دار سے بدکتا ہے یا ضرورت سے زیادہ قریب ہے تو غیر محسوس طور پر پیار سے وجہ معلوم کریں*

*بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دیں تاکہ انکی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے.*

❺❶- *بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں.*

آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ کے بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے بھری ہے. مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دور میں پرائیویسی نام کا عفریت میڈیا کی مدد سے ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے

*اس سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچائیں. کیونکہ نوعمر بچوں کی نگرانی بھی والدین کی ذمہ داری ہے*۔

*یاد رکھیں آپ بچوں کے ماں باپ ہیں، آج کے دور میں میڈیا والدین کا مقام بچوں کی نظروں میں کم کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہاہے. ہمیں اپنے بچوں کو اپنے مشفقانہ عمل سے اپنی خیرخواہی کا احساس دلانا چاہئے اور نوبلوغت کے عرصے میں ان میں رونما ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے متعلق رہنمائی کرتے رہنا چاہیے تاکہ وہ گھر کے باہر سے حاصل ہونے والی غلط قسم کی معلومات پہ عمل کرکے اپنی زندگی خراب نہ کر لیں.*

❻❶- بچوں کو بستر پر تب جانے دیں جب خوب نیند آ رہی ہو اور جب وہ اٹھ جائیں تو بستر پر مزید لیٹے مت رہنے دیں۔

نیز والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سرزنش کرتے ہوئے بھی باحیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں. ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بےباکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔

❽❶-تیرہ چودہ سال کے ہوں تو لڑکوں کو انکے والد اور بچیوں کو انکی والدہ سورۃ یوسف اور سورۃ النور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم، عالمہ سے پڑھوائیں کہ کس طرح *حضرت یوسف علیہ السلام* نے بے حد خوبصورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی مالک عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں. بدلے میں *اللّہ تعالی*ٰ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے. اس طرح بچے بچیاں *ان شاءاللّہ تعالیٰ* اپنی پاکدامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت و پاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے۔

*_آخر میں گذارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھا دیں کہ اس دنیا میں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے تو_ * ان شاءاللہ تعالیٰ* آخرت میں *اللّہ سبحان وتعالیٰ* کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے._

*اللّہ تعالیٰ* امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور اس کے چیلوں سے اپنی حفظ و امان میں رکھے
آمین___!!!!
 

سید عمران

محفلین
*اساتذہ کے لیے مفید مشورے *

✒ اپنے طالب علموں کی غلطیوں کو درگزر کریں کیونکہ نہ تو فرشتے ہیں اور نہ شیاطین..اور آپ انکے مربی ہیں..
ڈسپلن کے معاملے میں بیشک کوئی سمجھوتہ نہ کریں لیکن سزا دیتے وقت اعتدال کا دامن نہ چھوڑیں
چھوٹی غلطی پہ آخری درجے کی سزا نہ دیں

✒اپنے طالب علموں کے لیے اپنی محبت اور فکر کا اظہار کریں اس سے انکے دلوں میں آپکے لیے جگہ بنے گی...

✒یاد رکھیں کے بہت سے لوگ اپنے اساتذہ کے حوصلہ افزائی والے ایک جملے سے عظیم بن گئے اور بلندیوں پہ پہنچ گئے تو آپ بهی عظیم لوگ بنانے والے بنیں...

✒اپنے معاملات کو طلبہ کے ساتھ اچھا رکھیں تاکہ آپ موت کے بعد بهی انکی دعاؤں کا حصہ بنے ر هیں...
بد زبانی سے تو ھر حال میں بچیں بد زبانی آپ کی شخصیت کو گہنا دیتی ھے
طلباء و طالبات کی عزت نفس کا بھی دھیان رکھیں

✒آپکے سبق کا ہر منٹ طالب علم کا حق ہے اگر آپ ضائع کرتے ہیں تو قیامت کے دن آپ سے سوال هوگا...

✒نوجوان نسل کی اصلاح کر کے اپنے لیے صدقہ جاریہ بنائیں...
انہیں ضرور اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کروائیں تاکہ وہ اپنی عملی زندگی ایک باعمل مسلمان کے طور پر گزاریں

✒آپکے بهی بچے ہیں جو آپ جیسے اساتذہ کے پاس تعلیم حاصل کر رہے ہیں آپ لوگوں کے بچوں کے ساتھ اچھا معاملہ کریں تاکہ آپکے بچوں کے ساتھ بهی اچھا ہو...

✒اپنی نیت کو خالص رکھیں آپ کا کام نبیوں والا کام ہے ،اجر کی امید اور اخلاص سے کام کریں تو آپکا پورا دن نیکیوں میں لکھا جائے گا۔
 
Top