انتخابِ کلامِ میر (دیوان اول)

178

کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر، تو وہ کر
پر ہو سکے جو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر

وہ تنگ پوش اک دن دامن کشاں گیا تھا
رکھی ہیں جانمازیں اہلِ ورع نے تہ کر

کیا قصرِ دل کی تم سے ویرانی نقل کریے
ہو ہو گئے ہیں ٹیلے سارے مکان ڈھہ کر

رنگِ شکستہ اپنا بے لطف بھی نہیں ہے
یاں کی تو صبح دیکھی اک آدھ رات رہ کر

ایکوں کی کھال کھینچی، ایکوں کو دار کھینچا
اسرار عاشقی کا پچھتائے یار کہہ کر

طاعت کوئی کرے ہے جب ابر زور جھومے
گر ہو سکے تو زاہد اس وقت میں گنہ کر

کیوں‌تو نے آخر آخر اس وقت منھ دکھایا
دی جان میر نے جو حسرت سے اک نگہ کر​
 
179

شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
حال ہے اور ، قال ہے کچھ اور

وعدے برسوں کے کن نے دیکھے ہیں
دم میں عاشق کا حال ہے کچھ اور

سہل مت بُوجھ یہ طلسمِ‌ جہاں
ہرجگہ یاں خیال ہے کچھ اور

تورگِ جاں سمجھتی ہوگی نسیم!
اُس کے گیسو کا بال ہے کچھ اور

نہ ملیں گو کہ ہجر میں مرجائیں
عاشقوں کا وصال ہے کچھ اور

کوز پشتی پہ شیخ کی مت جاؤ
اُس پہ بھی احتمال ہے کچھ اور

میر تلوار چلتی ہے تو چلے
خوش خراموں کی چال ہے کچھ اور​
 
180

دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چُور
ضبطِ گریہ سے پڑ گئے ناسور

ہم ضعیفوں کو پائمال نہ کر
دولتِ حسن پر نہ ہو مغرور

عرش پر بیٹھتا ہے، کہتے ہیں
گر اُٹھے ہے غبارِ خاطرِ مُور

شکوہء آبلہ ابھی سے میر!
ہے پیارے ہنوز دلی دُور​
 
181

غیروں سے مل چلے تم مستِ شراب ہو کر
غیرت سے رہ گئے ہم یک سُو کباب ہوکر

کل رات مُند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے
دیکھا کیا نہ کر تُو سرمستِ خواب ہو کر

یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشمِ تر سے وہ خونِ ناب ہوکر​
 
182


ہو آدمی اے چرخ، ترکِ گردشِ ایام کر
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دورِ جام کر

دنیا ہے بے صرفہ نہ ہو رونے میں یا کڑھنے میں تو
نالے کو ذکرِ صبح کر، گریے کو وردِ شام کر

جتنی ہو ذلت خلق میں اتنی ہے عزت عشق میں
ناموس سے آ درگزر، بے ننگ ہو کر نام کر

مر رہ کہیں بھی میر جا، سرگشتہ پھرنا تاکجا
ظالم کسو کا سن کہا، کوئی گھڑی آرام کر​
 
183






رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سر رشتہء کار آخرکار

لوحِ تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو، گیا جان سے مار آخر کار

مشتِ خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا
سر کو کھینچے گا فلک تا یہ غبار آخرِ کار

چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس
آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخر کار

اولِ کار محبت تو بہت سہل ہے میر
جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخر کار​
 
184


کوئی ہوتا ہے دل تپش سے بُرا
ایک دم کے لہو نہ پینے پر

دل سے میرے شکستیں الجھی ہیں
سنگ باراں ہے آبگینے پر

جورِ دلبر سے کیا ہوں آزردہ
میر اس چار دن کے جینے پر
 
185

ہم بھی پھرتے ہیں یک حشَم لے کر
دستہء داغ و فوجِ غم لے کر

دست کش نالہ، پیش رو گریہ
آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

مرگ اک ماندگی کاوقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

اس کے اوپر کہ دل سے تھا نزدیک
غم دوری چلے ہیں ہم لے کر

بارہا صید گہ سے اس کی گئے
داغِ یاس آہوئے حرم لے کر

صعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر

دل پہ کب اکتفا کرے ہے عشق
جائے گا جان بھی یہ غم لے کر

شوق اگر ہے یہی تو اے قاصد!
ہم بھی آتے ہیں اب رقم لے کر

میر صاحب ہی چُوکے اے بد عہد!
ورنہ دینا تھا دل قسم لے کر​
 
187

پشتِ پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر

ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر

گرد مے نوش، آؤ شیخِ شہر!
ابر جھوما ہی جا ہے، صحرا پر

یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے
سات پردے ہیں چشمِ بینا پر

فرصتِ عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر

میر کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر​
 
188

جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر
اَن جان اتنے کیوں ہوئے جاتے ہو جان کر

وے لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر

جھمکے دکھا کے باعثِ ہنگامہ ہی رہے
پر گھر سے در پہ آئے نہ تم بات مان کر

تاکشتہء وفا مجھے جانے تمام خلق
تُربت پہ میری خون سے میرے نشان کر

افسانے ماومن کے سنیں میر کب تلک
چل اب کہ سوویں منھ پہ دوپٹے کو تان کر​
 
189

حاصل بجز کدورت اس خاک داں سے کیا ہے
خوش وہ کہ اُٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر

یہ مشتِ خاک یعنی انسان ہی ہے رُوکش
ورنہ اٹھائی کن نے اس آسماں کی ٹکر

منزل کی میر اس کی کب راہ تجھ سے نکلے
یاں خضر سے ہزاروں مرمر گئے بھٹک کر​
 
190

ڑ

زخمِ دروں سے میرے نہ ٹک بے خبر رہو
اب ضبطِ گریہ سے ہے اُدھر ہی کو سب نچوڑ

بلبل کی اوُر چشمِ مروت سے دیکھ ٹک
بے درد یوں چمن میں کسو پھول کو نہ توڑ

کچھ کوہ کن ہی سے نہیں تازہ ہوا یہ کام
بہتیرے عاشقی میں موئے سر کو پھوڑ پھوڑ

بے طاقتی سے میر لگے چُھوٹنے پران
ظالم خیال دیکھنے کا اس کے اب تو چھوڑ​
 
ز

ہوتا نہیں ہے باب اجابت کا وا ہنوز
بسمل پڑی ہے چرخ پہ میری دعا ہنوز

غنچے چمن چمن کھلے اس باغ دہر میں
دل ہی مرا ہے جو نہیں ہوتا ہے وا ہنوز

احوال نامہ بر سے مرا سن کے کہہ اُٹھا
جیتا ہے وہ ستم زدہ مہجور کیا ہنوز

توڑا تھا کس کا شیشہء دل تُو نے سنگ دل
ہے دل خراش کُوچے میں تیرے صدا ہنوز

بے بال و پر اسیر ہوں کنجِ قفس میں میر
جاتی نہیں ہے سر سے چمن کی ہوا ہنوز​
 
192


خبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
ہے گریبان پارہ پارہ ہنوز

آتشِ دل نہیں بجھی شاید
قطرہء اشک ہے شرارہ ہنوز

اشک جھمکا ہے جب نہ نکلا تھا
چرخ پر صبح کا ستارہ ہنوز

عمر گزری دوائیں کرتے میر
دردِ دل کا ہوا نہ چارہ ہنوز​
 
193

مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب کے لہو سے درودیوار ہنوز

دل بھی پُر داغِ چمن ہے پر اسے کیا کیجیے
جی سے جاتی ہی نہں حسرتِ دیدار ہنوز

بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبییب
بہِ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز

بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ!
تُو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرِ خار ہنوز

منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے، یعنی
جیتا، مرنے کو رہا ہے یہ گنہ گار ہنوز

اُڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کُوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز​
 
194

مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
ہوچکے حشر، میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز

اشک کی لغزشِ مستانہ پہ مت کیجو نظر
دامنِ دیدہء گریاں سے مرا پاک ہنوز

بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میر مجھے
اُس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز​
 
س

حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگِ گل گرا نہ، جہاں تھا مرا قفس

مجنوں کا دل ہوں، محملِ لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالہء جرس

اے گریہ اُس کے دل میں اثر خوب ہی گیا
روتا ہوں جب میں سامنے اُس کے تودے ہے ہنس

اُس کی زباں کے عہدے سے کیوں کر نکل سکوں
کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس​
 
196


کیوں کے نکلا جائے بحرِ غم مجھ بیدل کے پاس
آکے ڈوبی جاتی ہے کشتی مری ساحل کے پاس

ہے پریشاں دشت میں کس کا غبارِ ناتواں
گرد کچھ گستاخ آتی ہے چلی محمل کے پاس

بوئے خوں آتی ہے بادِ صبح گاہی سے مجھے
نکلی ہے بے درد شاید ہو کسو گھائل کےپاس

آہ نالے مت کیا کر اس قدر بے تاب ہو
اے ستم کش میر ظالم ہے جگر بھی دل کےپاس​
 
197

مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
آہ افسوس صد ہزار افسوس

یوں گنواتا ہے دل کوئی، مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس

قتل گر تُو ہمیں کرے گا خوشی
یہ توقع تجھ سے یار افسوس

رخصتِ سیرِ باغ تک نہ ہوئی
یوں ہی جاتی رہی بہار، افسوس

خوب بد عہد تُو نہ مل لیکن
میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس​
 
Top