فراز امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے۔۔۔۔۔ احمد فراز

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا ہے بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن
غریبِ شہر کسی سایہءشجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن
بہارِ قرب سے پہلے اُجاڑ دیتی ہیں
جدائیوں کی ہوائیں محبتوں کے چمن
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن
پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن
یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جُرمِ سخن
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن
ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فراز سلامت ہے یار کا دامن
احمد فراز
 

عبدالحسیب

محفلین

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب انتخاب اپیا۔ کیا کہنے آپ کے ذوق سلیم کے۔ :)

اب اگر یہ بھی پرمزاح ہوگیا۔ تو میرا اعتبار اٹھ جائے گا ان شاعروں سے بھی
 

سید زبیر

محفلین
لاجواب انتخاب
، بہت خوب
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلئہ مذہب کبھی بنامِ وطن
 

ارم ناز

محفلین
لین مدھو ۔۔میرا اپ کے اس پوسٹ پر پہلا کمنٹ ہے:) اچھی غزل ہے ۔ غلطی ابھی نا نکلایے گا اردو میں ۔
 
بہت شکریہ عمدہ شیئرنگ
میں شاعری میں اتنی خاص دلچسپی نہیں رکھتا لیکن ہمارے اردو کے استاد اکثر و بیشتر یہ سرخ رنگ والا شعر پڑھتے رہتے ہیں اس لیے پسند آئی۔:)
 
بہت خوب اور سرخ نشان والا شعر تو اس وقت سیاست صورتحال کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔
شکریہ ۔جی آپ نے بجا فرمایا ۔اب بھی اتنا عرصہ گذر جانے کا بعد بھی ہماری سیاسی اور ملکی صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ۔اس لیے یہ شعر شاید سدا بہار ہی کہلایا کہ ہر دور کے لیے یکساں مفید بیٹھتا ہے :)
 
Top