"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
عام سلاطین اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طریق سیاست میں فرق

خلافت فاروقی بسیط عالم میں کہاں سے کہاں تک پھیلی ہے اور کس قدر مختلف ملک، مختلف مذاہب، مختلف قومیں، اس کے دائرے میں داخل ہیں۔ لیکن اس سرے سے اس سرے تک ہر طرف امن و امان اور سکون و اطمینان چھایا ہوا ہے۔ دنیا میں اور بھی ایسے صاحب جاہ جلال سربراہاں حکومت گزرے ہیں جن کی حکومت میں کوئی شخص سر نہیں اتھا سکتا تھا۔ لیکن ان کو یہ بات اس سیاست کی بدولت حاصل ہوتی تھی جس کے اصول یہ تھے کہ بغاوت کے ذرا سے احتمال پر دفعتاً انصاف کا قانون بالکل الٹ دیا جائے۔ ایک شخص کے جرم میں تمام خاندان پکڑا جائے۔ واقعات کے ثبوت میں یقین کے بجائے صرف قیاس سے کام لیا جائے وحشیانہ سزائیں دی جائیں، آبادیاں جلا کر برباد کر دی جائیں۔ یہ اصول قدیم زمانے تک محدود نہ تھے۔ اب بھی یورپ کو باوجود اس تمدن و تہذیب کے انہی قاعدوں سے کام لینا پڑتا ہے۔

لیکن خلافت فاروقی میں کبھی بال برابر انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ عمر بوس والوں نے بار بار عہد شکنی کی، تو ان کو جلا وطن کیا۔ لیکن اس طرح کہ ان کے جائیداد، مال و اسباب کے مفصل فہرست تیار کرا کے ایک ایک چیز کی دوگنی قیمت ادا کر دی۔ نجران کے عیسائیوں نے خود مختاری اور سرکشی کی تیاریاں کیں اور 40 ہزار آدمی بہم پہنچائے تو ان کو عرب سے نکال کر دوسرے ممالک میں آباد کرایا۔ مگر اس رعایت کے ساتھ کہ ان کی جائیداد وغیرہ کی قیمت دے دی۔

اور عاملوں کو لکھ بھیجا کہ راہ میں جدھر سے ان کا گزر ہو ان کے آرام کے سامان بہم پہنچائے جائیں اور جب یہ کہیں مستقل قیام کر لیں تو چوبیس مہینے تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔ (ان تمام واقعات کو ہم ذمیوں کے حقوق میں اوپر لکھ آئے ہیں اور وہاں کتابوں کا حوالہ بھی دیا ہے)۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مشکلات

شاید تم کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایسی رعایا ہاتھ آئی تھی جس میں زیادہ تر اطاعت و انقیاد کا مادہ تھا اور لئے ان کو جابرانہ سیاست کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سچ پوچھو تو درحقیقت دونوں طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ غیر قومیں جو حلقہ اطاعت میں آئی تھیں، پارسی یا عیسائی تھیں جو مدت تک شاہنشاہی کے لقب سے ممتاز رہی تھیں۔ اس لئے ان کو رعیت بننا مشکل سے گوارہ ہو سکتا تھا۔ اندرونی حالت یہ تھی کہ عرب میں بہت سے صاحب ادعا موجود تھے۔ جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثلاً ایک مؤلفۃ القلوب کا گروہ تھا۔ جن کا قول تھا کہ خلافت بنو ہاشم یا بنو امیہ کا حق ہے اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی میں سے نہیں۔ عمرو بن العاص جو مصر کے گورنر تھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو خراج کے معاملے میں تنگ پکڑا تو انہوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ خدا کی قدرت ہے! جاہلیت میں میرا باپ جب کمخواب کی قبا زیب تن کرتا تھا تو خطاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد) سر پر لکڑی کا گٹھا لادے پھرتے تھے۔ آج اسی خطاب کا بیٹا مجھ پر حکومت جتا رہا ہے۔ بنو ہاشم ہمیشہ استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے تیمی اور عدوی خلافت پر کیونکر قبضہ کر بیتھے ہیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے کا علانیہ نقض خلافت کے مشورے ہوتے رہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں کہ "زبیر و جمعے از بنو ہاشم درخانہ حضرت فاطمہ جمع شدہ درباب نقض خلافت مشور ہا بکاری بروند۔" (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 29)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سطوت نے بنو ہاشم کے ادعا کو اگرچہ دبا دیا لیکن بالکل مٹ کیونکر سکتا تھا، اس کے علاوہ عرب کا فطری مذاق آزادی اور خود سری تھا اور یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی فرمانروا کی حکومت کے نیچے نہیں آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اگر امر معاویہ کی طرح اس آزادی اور خود سری کو مٹا کر حکومت کا رعب و داب قائم رکھتے تو چنداں قابل تعجب نہ تھا لیکن وہ عرب کے اس جوہر کو کسی طرح مٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اور چمکاتے تھے۔ بارہا مجامع عام میں لوگ ان پر نہایت آزادانہ بلکہ گستاخانہ نکتہ تنقید کرتے تھے اور وہ گوارا کرتے تھے۔ شام کے سفر میں جب انہوں نے مجمع عام میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معزولی کی وجہ اور اپنی برات بیان کی تو ایک شخص نے نے وہیں اٹھ کر کہا (اسد الغابہ تذکرہ احمد بن حفص الحرومی)

واللہ ما عدلت یا عمر! لقد نزعت عاملاً استعملہ رسول اللہ و غمدت سیفاسلہ رسول اللہ ولقد قطعت الرحم و حسدت ابن العم۔

یعنی " اے عمر! خدا کی قسم تو نے انصاف نہیں کیا۔ تو نے رسول اللہ کے عامل کو موقوف کر دیا۔ تو نے رسول کی کھینچی ہوئی تلوار کو نیام میں ڈال دیا۔ تو نے قطع رحم کیا، تو نے اپنے چچیرے بھائی سے حسد کیا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سب سن کر کہا کہ تم کو اپنے بھائی کی حمایت میں غصہ آ گیا۔ ان حالات کے ساتھ یہ رعب و دات کہ حضرت خالد کو عین اس وقت جب تمام عراق و شام میں لوگ ان کا کلمہ پرھنے لگے تھے، معزول کر دیا تو کسی نے دم نہ مارا اور خود حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی قسم کا خیال دل میں نہ لا سکے۔ امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کی شان و شوکت محتاج بیان نہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام سے ان کو لرزہ آتا تھا۔ عمرو بن العاص کے بیٹھے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا پیٹا تھا۔ عمرو بن العاص کے سامنے ان کو اسی مضروب کے ہاتھ سے کوڑے لگوائے اور باپ بیٹے دونوں عبرت کا تماشا دیکھا کئے۔ سعد وقاص فاتح ایران کو معمولی شکایت پر جواب دہی میں طلب کیا تو ان کے بے عذر حاضر ہونا پڑا۔

ان واقعات سے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سیاست و تدبیر کے فن میں جو کمال حاصل تھا۔ کسی مدبر اور فرمانروا کے حالات میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ان کی حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی۔ آئین حکومت میں شاہ و گدا، شریف و رذیل، عزیز و بیگانہ سب کا ایک رتبہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکومت کی خصوصیتیں

جبلہ بن الایہم غسانی، شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھا اور مسلمان ہو گیا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آ گیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر جواب دیا۔ جبلہ غصے سے بے تاب ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی شکایت سن کر کہا " تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی" اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ "ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی ہمارے آگے گستاخی سے پیش ہو تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمایا "جاہلیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کر دیا" اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و رذیل کی کچھ تمیز نہیں، تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی خاطر سے قانون انصاف کو بدلنا گوارا نہیں کیا۔

ایک دفعہ ملک کے عہدیداروں کو حج کے زمانے میں طلب کیا، اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر کہا کہ جس کو ان لوگوں سے شکایت ہو پیش کرے۔ اس مجمع میں عمرو بن العاص گورنر مصر اور بڑے بڑے مرتبہ کے حکام اور عمال موجود تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بے وجہ مجھ کو سو درے مارے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا اٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ عمرو بن العاص نے کہا امیر المومنین اس طریق عمل سے تمام عمال بے دل ہو جائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا " تاہم ایسا ضرور ہو گا" یہ کہہ کر پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے کہ " اپنا کام کر "۔ آخر عمرو بن العاص نے مستغیث کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ دو سو دینار لے لے اور اپنے دعویٰ سے باز آ جائے۔

ایک دفعہ سرداران قریش ان سے ملاقات کو آئے۔ اتفاق سے ان لوگوں سے پہلے صہیب، بلال، عمار وغیرہ بھی ملاقات کے منتظر تھے۔ جن میں اکثر آزاد شدہ غلام تھے اور دنیاوی حیثیت سے معمولی درجہ کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اول انہی لوگوں کو بلایا اور سرداران قریش باہر بیٹھے رہے۔ ابو سفیان جو زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار تھے۔ ان کو یہ امر سخت ناگوار گزرا اور ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا کہ " کیا خدا کی قدرت ہے۔ غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم لوگ باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ابو سفیان کی یہ حسرت اگرچہ ان کے اقران کے مذاق کے مناسب تھی تاہم ان میں کچھ حق شناس بھی تھے۔ ایک نے کہا " بھائیو سچ یہ ہے کہ ہم کو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نہیں بلکہ اپنی شکایت کرنی چاہیے۔ اسلام نے سب کو ایک آواز سے بلایا۔ لیکن جو اپنی شامت سے پیچھے پہنچے وہ آج بھی پیچھے رہنے کے مستحق ہیں (کتاب الخراج صفحہ 66)۔

قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کی تنخواہیں مقرر کیں تو بڑے رشک و منافرت کا موقع پیش آیا۔ سرداران قریش اور معزز قبائل کے لوگ جو ہر موقع پر امتیاز کے خوگر تھے بڑے دعوے کے ساتھ منتظر رہے کہ تنخواہ کے تقرر میں حفظ مراتب کا خیال کیا جائے گا اور فہرست میں ان کے نام سب سے پہلے نظر آئیں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے تمام خیالات غلط کر دیئے۔ انہوں نے دولت و جاہ، زور قوت، ناموری و شہرت، اعزاز و امتیاز کی تمام خصوصیتوں کو مٹا کر صرف اسلامی خصوصیت قائم کی اور اسی اعتبار سے تنخواہ کم و بیش مقرر کیں۔ جو لوگ اول اسلام لائے تھے یا جہاد میں کارہائے نمایاں کئے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے ان کو غیروں پر ترجیح دی جو ان خصوصیتوں میں برابر درجے پر تھے۔ ان کی تنخواہیں برابر مقرر کیں۔ یہاں تک کہ غلام اور آقا میں کچھ فرق نہ رکھا۔ حالانکہ عرب میں غلام سے بڑھ کر کوئی گروہ خوار و ذلیل نہ تھا۔ اسی موقع پر اسامہ بن زید کی تنخواہ جب اپنے بیٹے سے زیادہ مقرر کی تو انہوں نے عذر کیا کہ واللہ کسی موقع پر مجھ آگے نہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا، ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

اہل عرب کا شعار تھا کہ لڑائیوں میں فخریہ اپنے اپنے قبیلہ کی جے پکارا کرتے تھے۔ اس فخر کو مٹانے کے لئے تمام فوجی افسروں کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ ایسا کریں ان کو سخت سزا دی جائے" ایک دفعہ ایک شخص نے جو ضبہ کے قبیلہ سے تھا لڑائی میں یا آل ضبہ کا نعرہ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خبر ہوئی تو سال بھر کے لئے اس کی تنخواہ بند کر دی۔ اس قسم کے اور بہت سے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 456)۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصول مساوات

اسی اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لئے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ عمرو بن العاص نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنایا تو لکھ بھیجا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اور مسلمان نیچے بیٹھے ہوں اور تم اوپر بیٹھو۔" عمال کو ہمیشہ تاکیدی احکام بھیجتے رہتے تھے کہ کسی طرح کا امتیاز اور نمود اختیار نہ کریں۔

ایک دفعہ ابی بن کعب سے کچھ نزاع ہوئی۔ زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لئے جگہ خالی کر دی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔" یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر و حضر میں جلوت و خلوت میں مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت شے پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے ایلچی مسجد نبوی میں آ کر ڈھونڈتے رہے کہ شاہنشاہ اسلام کہاں ہیں۔ حالانکہ شاہنشاہ وہیں پیوند لگے کپڑے پہنے کسی ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے عمال ان کو اسی برابر کے القاب سے خط لکھتے جس طرح وہ عمال کو لکھا کرتے تھے۔

اس اصول انصاف سے اگرچہ کچھ خاص آدمی جن کے ادعائے شان کو صدمہ پہنچتا تھا۔ دل میں مکدر ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ عرب کا اصلی مذاق تھا۔ اس لئے عام ملک پر اس کا نہایت عمدہ اثر ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں تمام عرب گرویدہ ہو گیا۔ خواص میں بھی جو حق شناس تھے وہ روز بروز معترف ہوتے گئے اور جو بالکل خود پرست تھے وہ بھی میلان عام کے مقابلے میں اپنی خود رائی کے اظہار کی جرات نہ کر سکے۔

اس اصول کے عمل میں لانے سے بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں جو انہی بے ہودہ مفاخر کی بناء پر آپس میں لڑتے رہتے تھے اور جس کی وجہ سے عرب کا سارا خطہ ایک میدان کارزار بن گیا تھا، ان کی باہمی رقابت اور مفاخرت کا زور بالکل گھٹ گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
امیر المومنین کا لقب کیوں اختیار کیا

اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اصول مساوات کے ساتھ اپنے لئے امیر المومنین کا پرفخر لقب کیوں ایجاد کیا۔ اصل یہ ہے کہ اس زمانے تک یہ لقب کوئی فخر کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ اس سے صرف عہدہ اور خدمت کا اظہار ہوتا تھا۔ افسران فوج عموماً امیر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ کفار عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امیر مکہ کہا کرتے تھے۔ سعد بن وقاص کو عراق میں لوگوں نے امیر المومنین کہنا شروع کر دیا تھا (مقدمہ ابن خلدون فصل فی اللقب بامیر المومنین)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس لقب کا خیال تک نہ تھا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ایک دفعہ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم مدینہ میں آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ قاعدہ کے موافق اطلاع کرائی اور چونکہ کوفہ میں رہ کر امیر المومنین کا لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا تھا، اطلاع کرتے وقت یہ کہا کہ امیر المومنین کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو۔ عمرو بن العاص نے اطلاع کی اور یہی خطاب استعمال کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس خطاب کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کیفیت واقعہ بیان کی۔اس لقب کو پسند کیا اور اسی تاریخ سے اس کو شہرت عام ہو گئی ("ادب المفرد" امام بخاری مطبوعہ آرہ صفحہ 184 ) اس موقعہ پر ممکن ہے کہ ایک کوتاہ نظر کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلافت سے اگر کسی قسم کا جاہ و اعزاز مقصود نہ تھا تو انہوں نے خلافت اختیار کیوں کی؟ بے غرضی کا یہ اقتضا تھا کہ وہ اس خوان نعمت کو ہاتھ ہی نہ لگاتے لیکن یہ خیال محض عامیانہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بے شبہ خلافت سے ہاتھ اٹھاتے لیکن دوسرا کون تھا جو اس کو سنبھال لیتا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ قطعی طور سے جانتے تھے کہ یہ بارگراں ان کے سوا کسی سے اٹھ نہیں سکتا! کیا ایسے وقت میں ان کی راست بازی کا یہ تقاضا تھا کہ وہ دیدہ دانستہ لوگوں کی بدگمانیوں کے خیال سے خلافت سے دستبردار ہو جاتے اگر وہ ایسا کرتے تو خدا کو کیا جواب دیتے؟ انہوں نے اسی دن خطبہ میں کہہ دیا تھا کہ۔

لو لا رجائی ان اکون خیر کم لکم و اقوا کم علیکم و اشد کم اطلاعاً بماینوب من مھم امر کم ماتولیت ذلک منکم۔

یعنی " اگر مجھ کو یہ امید نہ ہوتی کہ میں تم لوگوں کے لئے سب سے زیادہ کارآمد سب سے زیادہ قومی اور مہمات امور کے لئے سب سے زیادہ قوی بازو ہوں تو میں اس منصب کو قبول نہ کرتا۔"

اس سے زیادہ صاف وہ الفاظ ہیں جو امام محمد نے مؤطا میں روایت کئے ہیں۔

او علمت ان احداً اقوی علیٰ ھذا الا مرمنی لکان ان اقدم فیضرب عنقی اھون علی۔ (کتاب مذکور مطبوعہ مصطفائی صفحہ 164)۔

یعنی " اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس کام (خلافت) کے لئے مجھ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو خلافت قبول کرنے کی بہ نسبت میرے نزدیک زیادہ آسان تھا کہ میری گردن مار دی جائے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ان الفاظ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس کا ایک حرف بھی صحت اور واقعیت سے ہٹا ہوا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
سیاست

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سیاست کے اصول سے خوب واقف تھے۔ اور یہ وہ خصوصیت ہے جس میں وہ دیگر تمام صھابہ سے علانیہ ممتاز ہیں۔ جو ممالک دائرہ خلافت مین داخل تھے ان کی تین قسمیں تھیں۔ عرب، ایران، شام و مصر۔ اس لئے ہر ایک کی حالت کے مناسب الگ الگ تدبیریں اختیار کیں۔ عراق و ایران میں چونکہ مدت سے مرزبان اور دہقان چلے آتے تھے اور اسلام کی فتح کے بعد بھی ان کا زور اور اقتدار قائم تھا۔ اس لئے ان کی پولٹیکل تنخواہیں مقرر کر دیں جس سے وہ بالکل رام ہو گئے۔ چنانچہ رؤسائے عراق میں ابن التخیر جان بسطام بن رنسی، رفیل، خالد، جمیل کے معقول روزینے مقرر کر دیئے۔شام اور مصر میں رومیوں نے اصلی باشندوں کو صاحب جائیداد نہیں چھوڑا تھا۔ اس لئے ان کی طرف سے چنداں اندیشہ نہ تھا۔ وہ رومی حکومت کی بجائے ایک عادل اور منصف گورنمنٹ چاہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے ساتھ مراعاتیں کیں کہ انہوں نے بارہو کہا کہ ہم کو مسلمان رومیوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہیں۔ غیر قوموں کے ساتھ اگرچہ ان کا برتاؤ عموماً نہایت فیاضانہ تھا۔ چنانچہ اس کی بحث ذمیوں کے حقوق میں گزر چکی ہے۔ لیکن زیادہ تفحص سے معلوم ہوتا ہے کہ شام و مصر کی رعایا پر خاص توجہ مبذول تھی۔

مصر میں مقوقس مصر کا باشندہ اور رومیوں کی طرف سے نائب حکومت تھا۔ اس کے ساتھ شروع سے ایسے برتاؤں کئے کہ وہ ناخریدہ بن غلام بن گیا اور اس کی وجہ سے تمام مصر رعایا دل سے حلقہ بگوش اطاعت ہو گئی، ان باتوں پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ جنگی مقامات پر عرب کے خاندان آباد کرا دیئے اور فوجی چھاؤنیاں قائم کر دیں جن کی وجہ سے سینکڑوں میل تک اثر پہنچا اور کسی بغاوت کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ کوفہ و بصرہ جو عرب کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا، خاص اسی غرض سے آباد کرایا گیا تھا۔ شام اور مصر میں تمام سواحل پر فوجی چھاؤنیاں اسی ضرورت سے قائم کی گئی تھیں۔

خاس عرب میں ان کو مختلف پولٹیکل تدبیروں سے کام لینا پڑا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے بالکل نکال دیا۔ بڑے بڑے ملکی افسروں کو ہمیشہ بدلتے رہتے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاص کے سوا کوئی ایسا گورنر مقرر نہیں ہوا جو مختلف صوبہ جات میں بدلتا نہ رہا ہو۔ ملکی افسروں میں سے جس کی نسبت زیادہ زور پا جانے کا خیال ہوتا تھا، اس کو علیحدہ کر دیتے تھے۔ جو لوگ زیادہ صاحب اثر تھے ان کو اکثر دارالخلافہ سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ان لوگوں نے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی تو فرمایا کہ " آپ لوگ دولت بہت جمع کر چکے ہیں، پھر فرمایا لا تخرجو افسللوا یمیناً و شمالاً (تاریخ یعقوبی صفحہ 181)۔

ایک دفعہ عبد الرحمٰن بن عوف نے پوچھا کہ " آپ ہم لوگوں کو باہر جانے سے کیوں روکتے ہیں" فرمایا کہ اس کا جواب نہ دینا جواب دینے سے بہتر ہے (تاریخ یعقوبی صفحہ 181)۔ اپنے قبیلے کے لوگوں کو کبھی ملکہ عہدے نہیں دیئے۔ صرف نعمام بن عدی کو ضلع کا حاکم مقرر کیا تھا پھر ایک معقول وجہ سے موقوف کر دیا۔ بنو ہاشم کو بھی ملکی عہدنے نہیں دیئے اور اس میں زیادہ تر یہی مصلحت ملحوظ تھی۔

اس وقت تمام عرب میں تین شخص موجود تھے جو مشہور مدبر اور صاحب ادعا تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، چونکہ مہمات ملکی کے انجام دینے کے لئے ان لوگوں سے بڑھ کر تمام عرب میں کوئی شخص ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔ اس لئے سب کو بڑے بڑے عہدے دیئے، لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے اور ایسی تدبیر کرتے کہ وہ قابو سے باہر نہ ہونے پائیں۔ ان کی وفات کے بعد کوئی ایسا شخص نہ رہا جو کو دبا سکتا چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو ہنگامے برپا ہوئے وہ سب انہیں لوگوں کی بدولت تھے۔

سیاست اور پالیٹکس حکومت اور سلطنت کا لازمہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس باب میں تمام دنیا پر جو امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اور بادشاہوں نے پالیٹکس کی ضرورت سے جو جو کام کیے ان کا نام واقعی خدع، مکر، فریب، ظاہر داری اور نفاق تھا۔ بادشاہوں پر موقوف نہیں بڑے بڑے رفارمر اس شائبہ سے خالی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کسی کاروائی پر فریب اور حکمت عملی کا نقاب نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے علانیہ کرتے تھے۔ اور لوگوں کو صاف صاف اس کی مصلحت سے واقف کر دیتے تھے۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو معزول کیا تو تمام اضلاع میں فرمان بھیج دیا کہ ؛

انی لم اعزل خالد اعن سخطۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنوابہ فخفت ان یو کلوا الیہ۔

یعنی " میں نے خالد کو ناراضی یا خیانت کے جرم میں نہیں موقوف کیا بلکہ اس وجہ سے کہ لوگ ان کی طرف زیادہ مائل ہوتے تھے تھے اس لئے میں ڈرا کہ ان پر بھروسہ نہ کر لیں۔"

مثنیٰ کی معزولی کے وقت بھی ایسے ہی خیالات ظاہر کئے اور فرمایا :

لم اعزلھما عن ربیۃ ولکن الناس عظمو ھمافخشیت ان یو کلوا الیھما۔ (طبری صفحہ 2538)۔

بنو ہاشم کو جس وجہ سے ملکی خدمتیں نہیں دیں، حضرت عبد اللہ بن عباس سے صاف اس کی وجہ بیان کر دی۔ چنانچہ ایک دوسرے موقع پر اس کی تفصیل ائے گی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حسن کی سیاست کا ایک بڑا کارنامہ اور ان کی کامیابی کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے حکومت و انتظام کی کل میں نہایت موزوں پرزے استعمال کئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عہدہ داران سلطنت کا عمدہ انتخاب

یہ بات عموماً مسلم ہے کہ جوہر شناسی کی صفت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سب سے بڑھ کر تھی۔ اس کے ذریعہ سے انہوں نے تمام عرت کا قابل آدمیوں اور ان کی مختلف قابلیتوں سے واقفیت پیدا کی تھی اور انہی قابلیتوں کے لحاظ سے ان کو مناسب عہدے دیئے تھے۔ سیاست و انتظام کے فن میں تمام عرب میں چار شخص اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن سمیہ۔ چنانچہ ان سب کو بڑی بڑی ملکی خدمتیں سپرد کیں اور درحقیقت ان لوگوں کے سوا شام و کوفہ و مصر پر اور کوئی شخص قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔

جنگی مہمات کے لئے عیاض بن غنم، سعد وقاص، خالد، نعمان بن مقرن وغیرہ کو انتخاب کیا۔ عمرو معدی کرب اور طلحہ بن خالد اگرچہ پہلوانی اور سپہ گری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے لیکن فوج کو لڑا نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ان دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ ان کو کسی حصہ فوج کی افسری نہ دی جائے۔۔ زید بن ثابت و عبد اللہ بن ارقم انشاء و تحریر میں مستثنیٰ تھے۔ ان کو میر منشی مقرر کیا۔ قاضی شریح، کعب بن سور، سلمان بن ربیعہ، عبد اللہ بن مسعود فصل قضایا میں ممتاز تھے۔ ان کو قضا کی خدمت دی۔ غرض یہ کہ جس کو جس کام پر مقرر کیا وہ گویا اسی کے لئے پیدا ہوا تھا۔ اس امر کا اعتراف دیگر قوموں کے مؤرخوں نے بھی کیا ہے۔ ایک مشہور عیسائی مؤرخ لکھتا ہے کہ " عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوج کے سرداروں اور گورنروں کا انتخاب بلا رد و رعایت کیا اور مغیرہ و عمار کو چھوڑ کر باقی سب کا تقرر نہایت مناسب اور موزوں ہوا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
بے لاگ عدل و انصاف

سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول عام بنایا اور جس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت احکام کو بھی گوارا کر لیتے تھے، یہ تھی کہ ان کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا۔ جس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات سے ناراض ہوتے کہ وہ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کا مطلق پاس نہیں کرتے لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ خاص اپنی آل و اولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتاؤ ہے تو لوگوں کو صبر آ جاتا تھا۔

ان کے بیٹھے ابو شحمہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے اسے 80/ کوڑے مارے اور اسی صدمہ سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ (ابو شحمہ کے قصے میں واعظوں نے بڑی رنگ آمیزیاں کی ہیں۔ لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو شرعی سزا دی اور اسی صدمہ سے انہوں نے انتقال کیا۔ (دیکھو معارف قتیبہ ذکر اولاد عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ)۔ قدامتہ بن مظعون جو ان کے سالے اور بڑے رتنے کے صحابی تھے۔ جب اسی جرم میں ماخوذ ہوئے تو علانیہ ان کو 80/ درے لگوائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
قدیم سلطنتوں کے حالات و انتظامات سے واقفیت

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سیاست کا ایک بڑا اصول یہ تھا کہ قدیم سلطنتوں اور حکمرانوں کے قواعد اور انتظامات سے واقفیت پیدا کرتے تھے اور ان میں جو چیزیں پسند کے قابل ہوتی تھیں، اس کو اختیار کرتے تھے۔ خراج عشور، دفتر رسد، کاغذات، حساب ان تمام انتظامات میں انہوں نے ایران اور شام کے قدیم قواعد پر عمل کیا۔ البتہ جہاں کوئی نقص پایا اس کی اصلاح کر دی۔ عراق کے بندوبست کا جب ارادہ کیا تو حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے نام حکم بھیجا کہ عراق کے دو بڑے زمینداروں کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ یہ زمیندار مع مترجم کے ان کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ سلاطین عجم کے ہاں مال گزاری کی تشخیص کا کیا طریقہ تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 21)۔ جزیہ حالانکہ بظاہر مذہبی لگاؤ رکھتا تھا۔ تاہم اس کی تشخیص میں وہی اصول ملحوظ رکھے جو نوشیرواں نے اپنی حکومت میں قائم کئے تھے۔ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے جہاں نوشیرواں کے انتظامات اور بالخصوص جزیہ کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ

و ھی الوضائع التی اقتدیٰ بھا عمر بن الخطاب حین افتتح بلا دالفرس۔

" یعنی یہ وہی قاعدے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب فارس کا ملک فتح کیا تو ان کی اقتداء کی۔"

اس سے زیادہ صاف اور مصرح، علامہ ابن مسکویہ نے اس مضمون کو لکھا ہے، علامہ موصوف نے جو حکیم اور فلسفی اور شیخ بو علی سینا کے معاصر و ہم پایہ تھے تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام " تجار الامم ہے (تاریخ طبری صفحہ 122) (یہ کتاب قسطنسنیہ کے کتب خانہ مسجد اما صوفیا میں موجود ہے اور میں نے اسی نسخہ سے نقل کیا ہے)۔ اس میں جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انتظامات ملکی کا ذکر کیا، لکھا ہے کہ :

و کان عمر یکثر الخلوۃ بقوم من الفرس یقرئون علیہ سیاسات الملوک ولا سیما ملوک العجم الفضلا ولا سیما النوشروان و انۃ کان معجا بھا کثیر الاقتدا بھا۔

" یعنی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فارس کے چند آدمیوں کو صحبت خاص میں رکھتے تھے، یہ لوگ ان کو بادشاہوں کے آئین حکومت پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ خصوصاً شاہان عجم اور ان میں بھی خاص کر نوشیروان کے اس لئے کہ ان کو نوشیروان کے آئین بہت پسند تھے اور وہ ان کی بہت پیروی کرتے تھے۔"

علامہ موصوف کے بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ عموماً مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جب فارس کا رئیس ہرمزان اسلام لایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو اپنے خاص درباریوں میں داخل کر لیا اور انتظامات ملکی کے متعلق اس سے اکثر مشورہ لیتے رہتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
واقفیت حالات کے لئے پرچہ نویس اور واقعہ نگار

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بڑی کوشش اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ ملک کا کوئی واقعہ ان سے مخفی نہ رہنے پائے۔ انہوں نے انتظامات ملکی کے ہر صیغہ میں پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کر رکھے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک کا ایک ایک جزئی واقعہ ان تک پہنچتا تھا۔ امام طبری لکھتے ہیں۔

و کان عمر لا یخفی علیہ شی فی عملہ کتب الیہ من العراق بخروج من خرج و من الشام بجایزۃ من اجیز فیھا۔

"یعنی عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی۔ عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اور شام میں جن لوگوں کو انعام دیئے گئے سب تحریری اطلاعیں ان کو پہنچیں۔"

عراق کے ایک معرکہ میں سردار لشکر نے عمرو معدی کرب کو دوسرا حصہ نہیں دیا۔ عمرو معدی کرب نے وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا گھوڑا دوغلا ہے اس لئے اس کا حصہ کم ہو گیا۔ معد کرب کو اپنی پہلوانی کا غرور تھا۔ بولے کہ ہاں، دوغلا ہی دوغلے کو پہچان بھی سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فوراً خبر ہوئی۔ عمرو معدی کرب کو سخت تنبیہ کی جس کی وجہ سے ان کو آئندہ پھر ایسی گستاخی کی جرات نہیں ہوئی۔ نعمان بن عدی میسان کے حاکم تھے۔ دولت و نعمت کے مزے میں پڑ کر انہوں نے اپنی بی بی کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر بھی تھا۔

لعل امیر المومنین یسوؤہ تنادمنا الجوسق المتھدم

"غالباً امیر المومنین کو خبر پہنچے گی تو وہ برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندانہ صحبتیں رکھتے ہیں۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو فوراً خبر ہوئی اور ان کو معزول کر کے لکھا کہ ہاں مجھ کو تمہاری یہ حرکت ناگوار گزری۔ (اسد البالغہ ذکر نعمام بن عدی)۔

صحابہ میں حزیفہ بن الیمان ایک بزرگ تھے جس کو اکثر مخفی باتوں کا پتہ لگ جاتا تھا۔ عہد نبوت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محرم راز تھے اور اسی وجہ سے صاحب السر کہلاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک دن ان سے پوچھا کہ منافقین کو جو گروہ ہے ان میں سے کوئی شخص میرے عمالوں اور عہدہ داروں میں بھی ہے، انہوں نے کہا، ہاں ایک شخص ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نام پوچھا لیکن انہوں نے رازداری کے لحاظ سے نام نہیں بتایا۔ حذیفہ کا بیان ہے کہ اس واقع کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس شخص کو معزول کر دیا۔ جس سے میں نے قیاس کیا کہ انہوں نے خود پتہ لگا لیا۔ (اسد الغابہ ذکر حذیفہ بن الیمان)۔ اسی تفحص اور بیدار مغزی کا اثر تھا کہ تمام افسر اور عمال ان کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ علامہ طبری لکھتے ہیں۔

و کانو کاید عون شیئا ولا یاتونہ الاوامر وہ ففہ (طبری صفحہ 2487)۔
"یعنی لوگ کوئی کام ان سے بغیر دریافت کئے نہیں کرتے تھے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
بیت المال کا خیال

بیت المال یعنی خزانہ کا بہت خیال رکھتے اور کسی قسم کی رقم کو اس کے احاطے سے باہر نہیں سمجھتے۔ خانہ کعبہ میں مدت کا چڑھاوا جمع تھا۔ اس کی نسبت فرمایا کہ

لقد ھممت ان الاادع فیھا صفراء ولا بیضاء الاقسمتہ (صحیح بخاری باب کسوۃ الکعبہ)
یعنی " میں نے ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ اس میں سونا چاندی ہے سب لوگوں کو تقسیم کر دوں۔"

ایک دفعہ غنیمت کا مال آیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کو خبر ہوئی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آئیں اور کہا امیر المومنین! اس میں سے میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے۔ کیونکہ میں ذوالقربی میں سے ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ " جان پدر! تیرا ھق میرے خاص مال میں سے ہے لیکن یہ غنیمت کا مال ہے۔ تو نے اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہا۔ وہ بیچاری خفیف ہو کر اٹھ گئیں۔ (مسند امام احمد حنبل)۔

شام کی فتح کے بعد قیصر روم سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دفعہ ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طور پر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں۔ اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ حال معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمہارا تھا لیکن قاصد جو لے گیا تھا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی میں سے ادا کئے گئے۔ غرض وہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کر دیئے گئے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا گیا۔

ایک دفعہ بیمار پڑ گئے۔ لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے۔ مسجد نبوی میں جا کر لوگوں سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑا سے شہد لے لوں (کنز العمال جلد 6، صفحہ 354)۔ اس کاروائی کا مطلب اجازت کے سوا یہ ظاہر کرنا تھا کہ خزانہ عامہ پر خلیفہ وقت کو اتنا اختیار بھی نہیں۔

خلافت سے پہلے وہ تجارت کے ذریعے سے گزر بسر کرتے تھے۔ خلافت کے مہمات میں یہ شغل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ صحابہ کو جمع کر کے اپنی ضروریات بیان کیں اور کہا کہ بیت المال سے میں کس قدر اپنے مصارف کے لئے لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے مختلف رائے دیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ چپ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ " صرف معمولی درجہ کی خوراک اور لباس" چنانچہ ان کے اور ان کی بیوی بچوں کے لئے بیت المال سے کھانا اور کپڑا مقرر ہو گیا (تاریخ طبری واقعات 15ھ)۔ فوجی روزینہ داروں میں جب بدریین (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شریک تھے) کے لئے تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ تو اور لوگوں کے ساتھ پانچ ہزار درہم سالانہ ان کے بھی مقرر ہوگئے۔ کروڑوں روپے کی آمدنی میں فاروق اعظم کو سال بھر میں جو ملتا تھا اس کی یہ تعداد تھی۔

ان کی معاشرت کے حالات میں آگے چل کر تم پڑھو گے کہ وہ اکثر پھٹے پرانے کپڑے پہنتے تھے۔ زمین پر سو رہتے تھے۔ مہینوں گیہوں کا آٹا گھر میں نہیں پکتا تھا۔ اس کی وجہ کچھ رہبانیت اور جوگی پن نہ تھا۔ بلکہ درحقیقت اس سے زیادہ ان کو ملک کی آمدنی میں سے نصیب نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اتفاقیہ کوئی بڑی رقم آ جاتی تھی تو وہ بے دریغ خرچ بھی کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا سے جب نکاح کیا تو ان کے شرف اور خاندان نبوت کے تعلق کی وجہ سے 40 ہزار درہم مہر باندھا اور اسی وقت ادا بھی کر دیا۔

بنو ہاشم كو جو ملكی عہدے نہیں دیئے اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو خوف تھا کہ بنو ہاشم چونکہ خمس میں اپنا حصہ ایک شرعی حق سمجھتے ہیں اس لئے دولت مند ہونے کے باوجود خمس میں سے اپنا حصہ لیں گے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک خمس کے مصارف امام وقت کی رائے پر منحصر ہیں۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث آگے آئے گی۔ انہوں نے بنو ہاشم کی نسبت اپنی اس بدگمانی کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ خمس کا عامل جب مر گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مقرر کرنا چاہا لیکن ان کی طرف سے مطمئن نہ تھے۔ اس لئے بلا کر ان سے کہا کہ فی نفسی منک شئی میرے دل میں تمہاری طرف سے ذرا کھٹکا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا

انی خشیت علیک ان تاتی علی الفی الذی ھوات (کتاب الخراج ابو یوسف صفحہ 64 تا 65)۔
یعنی " مجھے ڈر ہے کہ تم محاصل ملکی پر تصرف نہ کرو۔"

یہ صرف سوء ظن نہ تھا بلکہ وقوع میں بھی آیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عبد اللہ کو عامل مقرر کیا تو انہوں نے بیت المال میں سے بہت سی رقم لے لی اور جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے باز پرس کی تو لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال کے بارے میں جو کفایت شعاری برتی وہ خلافت فاروقی کی کامیابی کا بہت بڑا سبب تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں لوگوں نے جو شورشیں کیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ جنا موصوف نے بیت المال کے متعلق فیاضیانہ برتاؤ کیا۔ یعنی اپنے عزیز و اقارب کو زوالقربی کی بناء پر رقمیں عطا کیں۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو بے انتہا کام درپیش رہتے تھے۔ دارالخلافہ سے سینکڑوں ہزاروں میل تک فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کی ایک ایک حرکت ان کے اشاروں پر موقوف تھی۔ انتظامات حکومت کی مختلف شاخوں کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو۔ فقہ کی ترتیب اور افتاء جو ایک مستقل اور بہت بڑا کام تھا، پھر اپنے ذاتی اشغال جدا تھے۔ تاہم ہم کام وقت پر انجام پاتا تھا اور کسی کام میں کبھی حرج نہیں ہوتا تھا۔ نہاوند کا سخت معرکہ جس میں تمام ایران امنڈ آیا تھا درپیش تھا کہ عین اسی زمانے میں سعد وقاص گورنر کوفہ کی شکایت گزری۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اگرچہ بہت تنگ وقت ہے تاہم سعد کی تحقیقات نہیں رک سکتی۔ چنانچہ کوفہ سے فوجوں کی روانگی کا انتظام بھی ہوتا رہا اور ساتھ ہی بڑی کدو کاوش سے سعد کی تحقیقات بھی ہوئی۔ جزیرہ والوں نے قیصر سے مل کر جب شام پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس سرعت سے تمام اضلاع سے فوجیں بھیجیں کہ جزیرہ کے تمام ناکے روک دیئے اور اہل جزیرہ قیصر تک پہنچ بھی نہ سکے۔ زیاد بن جدیر، دو ملکی تحصیل پر مامور تھے۔ انہوں نے ایک عیسائی کے گھوڑے کی قیمت بیس ہزار قرار دے کر محصول طلب کیا۔ اس نے کہا کہ گھوڑا آپ رکھ لیجیئے اور 19 ہزار مجھ کو حوالہ کیجئے۔ دوبارہ عیسائی ان کی سرحد سے گزرا تو اس سے پھر محصول مانگا۔ وہ مکہ معظمہ پہنچا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صرف اس قدر کہا کہ تم مطمئن رہو۔ عیسائی زیاد بن جدیر کے پاس واپس آیا اور اور دل میں ارادہ کر چکا تھا کہ ایک ہزار اور دے کر گھوڑے کو واپس لے۔ یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فرمان پہلے پہنچ چکا تھا کہ سال بھر میں دو دفعہ ایک چیز کا محصول نہیں لیا جا سکتا۔

ایک اور عیسائی کو اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔ وہ عین اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچا جب وہ حرم میں خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اسی حالت میں اس نے شکایت کی۔ فرمایا دوبارہ محصول نہیں لیا جا سکتا۔ (یہ دونوں روایتیں کتاب الخراج صفحہ 78-79 میں ہیں)۔ عیسائی چند روز مکہ میں مقیم رہا۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ " میں وہی نصرانی ہوں جس نے محصول کے متعلق شکایت کی تھی۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں حنیقی (مسلمان) ہوں جس نے تمہارا کام انجام دیا۔ عیسائی نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے ہی دن زیاد کو حکم بھیج چکے تھے۔

اس بات کا بہت سخت اہتمام کیا کہ ممالک محروسہ میں سے کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک میں جس قدر اپاہج، ازکار رفقہ اور مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر دی جائیں۔ لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی۔ اول یہ انتظام کیا گیا تو حکم دیا کہ ایک جریب (قریباً پچیس سیر کا ہوتا ہے) آٹا پکایا جائے۔ پک کر تیار ہوا تو 30 آدمیوں کو بلا کر کھلایا گیا۔ شام کو پھر اسی قدر آٹا پکوایا اور اسی قدر آدمیوں کو کھلایا۔ دونوں وقت کے لئے یہ مقدار کافی ٹھہری تو فرمایا کہ ایک مہینے بھر کی خوراک دو جریب آٹا کافی ہے۔ پھر حکم دیا کہ ہر شخص کے لئے اس قدر آٹا مقرر کر دیا جائے۔ اعلان عام کے لئے ممبر پر چڑھے اور پیمانہ ہاتھ میں لے کر کہا کہ میں نے تم لوگوں کے لئے اس قدر خوراک مقرر کر دی ہے۔ جو شخص اس کو گھٹائے گا اس سے خدا سمجھے گا۔

ایک روایت میں ہے کہ پیمانہ ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ فرمائے۔

انی قد فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شھر مدی حنطتہ و قسطی خل
یعنی " میں نے ہر مسلمان کے لئے فی ماہ دو مد گیہوں اور دو قسط سرکہ مقرر کیا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
غربا اور مساکین کے روزینے

اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لئے بھی، فرمایا " ہاں غلام کے لئے بھی" (یہ پوری تفصیل فتوح البلدان صفحہ 460 میں ہے اور تمام تاریخوں میں بھی ذرا ذرا اسے اختلاف کے ساتھ یہ روزیت مذکور ہے)۔ غربا اور مساکین کے لئے بلا تخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں۔ چنانچہ جیسا ہم اوپر ذمیوں کے حقوق میں لکھ آئے ہیں۔ بیت المال کے عامل کو لکھ بھیجا کہ خدا کے اس قول سے کہ انما الصدقات للفقرآو والمساکین فقراء سے مسلمان اور مساکین سے اہل کتاب مراد ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
مہمان خانے​

اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا۔ چنانچہ کوفہ کے مہمان خانے کا ذکر ہم کوفہ کی آبادی کے ذکر میں لکھ آئے ہیں۔ مدینہ منورہ میں جو لنگر خانہ تھا اکثر وہاں خود جا کر اپنے اہتمام سے کھانا کھلواتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
لاوارث بچے

اولاد لقطہ یعنی گمنام بچے جن کو مائیں شاہراہ وغیرہ پر ڈال جاتی تھیں، ان کے لئے سن 18 ہجری میں یہ انتظام کیا کہ جہاں اس قسم کا کوئی بچہ ملے اس کے دودھ پلانےا ور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا جائے۔(بلاذری صفحہ 452 و یعقوبی جلد 7 صفحہ 71)۔ چنانچہ ان مصارف کے لئے اول سو درہم سالانہ مقرر ہوتے تھے پھر سال بہ سال ترقی ہو جاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یتیموں کی خبر گیری

یتیموں کی پرورش اگر ان کی جائیداد ہوتی تھی تو اس کی حفاظت کا نہایت اہتمام کرتے تھے اور اکثر تجارت کے ذریعے اسے ترقی دیتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حکم بن ابی العاص سے کہا کہ میرے پاس یتیموں کا جو مال جمع ہے وہ زکوٰۃ نکالنے کی وجہ سے گھٹتا جا رہا ہے۔ تم اس کو تجارت میں لگاؤ اور جو نفع ہو واپس کر دو۔ چنانچہ دس ہزار کی رقم حوالہ کی اور وہ بڑھتے بڑھتے لاکھ تک پہنچ گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
قحط کا انتظام

18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو عجب سرگرمی ظاہر کی۔ اول بیت المال کا تمام نقد و غلہ صرف کیا۔ پھر تمام صوبوں کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے بھیجے۔ عمرو بن العاص نے بحر قلزم کی راہ سے بیس جہاز روانہ کئے جن میں ایک ایک میں تین تین ہزار اردب غلہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان جہازوں کے ملاحظہ کے لئے خود بندرگاہ تک گئے۔ جس کا نام جار تھا، اور مدینہ منورہ سے تین منزل ہے۔ بندرگاہ میں دو بڑے بڑے مکان بنوائے اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قحط زدوں کا نقشہ بنائیں۔ چنانچہ بقید نام اور مقدار غلہ رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چک تقسیم کی گئی۔ جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔ چک پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ (یہ تفصیل یعقوبی صفحہ 77 میں ہے۔ اخیر کے فقرے یہ ہیں لم امر زید بن ثابت ان یکتب الناس علی منازلھم و امر ان یکتب مکا کامن قواطیس لم یختم اسا فلھا فکان اول من صبک و ختم اسفل الصکاک ۔ اردب کم و بیش 2 من کا ہوتا ہے)۔ اس کے علاوہ ہر روز 120/اونٹ خود اپنے اہتمام سے ذبح کراتے تھے اور قحط زدوں کو کھانا پکوا کر کھلاتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات خاص طور پر جتا دینے کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اگرچہ ملک کی پرورش اور پرداخت کا اتنا کچھ اہتمام تھا لیکن ان کی فیاضی ایشائی قسم کی فیاضی نہ تھی جس کا نتیجہ کاہلی اور مفت خوری کا رواج دنیا میں ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رفاہ عام کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نکتہ سنجی

ایشائی سلاطین و امراء کی فیاضیوں کا ذکر عموماً بڑے ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے۔ لیکن لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس سے جہاں ایک بادشاہ کی مدح نکلتی ہے دوسری طرف قوم کا درویزہ گر ہونا اور انعام و بخشش پر لو لگائے بیٹھے رہنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہی ایشائی فیاضیاں تھیں جس نے آج ہماری قوم میں لاکھوں آدمی ایسے پیدا کر دیئے ہیں جو خود ہاتھ پاؤں ہلانا نہیں چاہتے اور نذر و نیاز وغیرہ پر اوقات بسر کرتے ہیں۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس سے بے خبر نہ تھے۔ وہ اس بات کی سخت کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا مادہ نہ پیدا ہونے پائے۔ جن لوگوں کی تنخواہیں اور خوراک مقرر کی تھیں، وہ صرف وہ لوگ تھے جن سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت کو توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی ہوئی تھی اور وہ ضعیف اور بیماری کی وجہ سے خود کسب معاش نہیں کر سکتے تھے۔ اس اقسام کے علاوہ وہ کبھی اور قسم کی فیاضی کو روا نہیں رکھ سکتے تھے۔

محدث ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک سائل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا تو اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی۔ چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دی اور فرمایا کہ اب جو مانگنا ہے مانگ۔ علامہ ماروردی نے احکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ محتسب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کھانے کمانے کے قابل ہوں اور باوجود اس کے صدقہ اور خیرات لیتے ہوں تنبیہہ و تادیب کرے۔ اس کے بعد علامہ موصوف نے اس کی سند میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس فعل سے استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ وقد فعل عمر مثل ذلک بقوم من اھل الصدقۃ۔ (الاحکام السلطانیہ مطبوعہ مصر صفحہ 235)۔

معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ظاہر میں خوشحال دیکھتے تو دریافت فرماتے کہ یہ کوئی پیشہ بھی کرتا ہے! اور جب لوگ کہتے کہ نہیں، تو فرماتے کہ یہ شخص میری آنکھ سے گر گیا۔ ان کا مقولہ تھا کہ مکسبہ فیھا دنائۃ خیر من مسالۃ الناس یعنی ذلیل پیشہ بھی لوگوں سے سوال کرنے کے بہ نسبت اچھا ہے۔ مفت خوری کا موقع تو زیادہ تر علماء و صوفیا کو ملتا ہے۔ ان کے زمانے تک صوفیہ تو پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن علماء کو انہوں نے اعلانیہ مخاطب کر کے کہا لا تکونو عبیالاً علی المسلمین یعنی مسلمانوں پر اپنا بار نہ ڈالو۔ (سیرۃ العمرین لا بن الجوزی)۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزئیات پر توجہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تاریخی زندگی میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو ہمیشہ بڑے اہم امور سے سابقہ رہتا تھا۔ تاہم نہایت چھوٹے چھوٹے کام بھی وہ خود انجام دے لیتے تھے ارو اس کے لئے ان کو وقت اور فرصت کی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ان میں ایسے کام بھی ہوتے تھےجن کا اختیار کرنا بظاہر شان خلافت کے خلاف تھا۔ لیکن ان کو کسی کام سے عار نہ تھا۔

روزینہ داروں کے جو روزینے مقرر تھے اکثر خود جا کر تقسیم کرتے تھے۔ قدید اور عسفان مدینہ سے کئی منزل کے فاسلے پر دو قصبے ہیں، جہاں قبیلہ خزاعہ کے لوگ آباد تھے۔ ان دونوں مقاموں میں خود تشریف لے جاتے تھے۔ روزینہ داروں کا دفتر ہاتھ میں ہوتا تھا۔ ان کودیکھ کر چھوٹے بڑے سب کے سب گھروں سے نکل آتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ دارالصدقہ میں جاتے اور ایک ایک اونٹ کے پاس کھڑے ہو کر ان کے دانت گنتے اور ان کا حلیہ قلمبند کرتے۔

محب طبری نے ابو حذیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے کہتے کہ تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لا دوں۔ وہ لونڈیاں ساتھ کر دیتیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود چیزیں خریدتے اور ان کے حوالہ کرتے۔ مقام جنگ سے قاصد آتا اور اہل فوج کے خطور لاتا تو خود ان کے گھروں پر پہنچا آتے تھے اور کہتے کہ فلاں تاریخ تک قاصد واپس جائے گا۔ جواب لکھوا رکھو کہ اس وقت تک روانہ ہو جائے۔ کاغذ، قلم اور دوات خود مہیا کر دیتے ارو جس گھر میں کوئی حرف شناس نہ ہوتا خود چوکھٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور گھر والے جو لکھواتے لکھتے جاتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
رعایا کی شکایتوں سے واقفیت کے وسائل

ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ رعایا کی کوئی شکایت ان تک پہنچنے سے نہ رہ جائے۔ یہ معمول رکھا کہ ہر نماز کے بعد صحن مسند میں بیٹھ جاتے اور جس کو جو ان سے کہنا سننا ہوتا کہتا۔ کوئی نہ ہوتا تو تھوڑی دیر انتظار کر کے اٹھ جاتے۔ راتوں کو دورہ کیا کرتے۔ سفر میں راہ چلتوں سے حالات پوچھتے۔ بیرونی اضلاع سے جو سرکاری قاصد آتے ان سے ہر قسم کی پرشس خود کرتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سفارت

ایک عمدہ طریقہ دریافت حالات کا یہ تھا کہ تمام اضلاع سے ہر سال سفارتیں آتیں اور وہ ان مقامات کے متعلق ہر قسم کی ضروری باتیں پیش کرتے۔ اس سفارت کو وفد کہتے تھے اور یہ عرب کا قدیم دستور تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے زمانے میں اس سے وہ کام لیا جو آج کل جمہوری سلطنتوں میں رعایا کے قائم مقام ممبر انجام دیتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں مختلف اضلاع سے جو سفارتیں آئیں اور جس طرح انہوں نے اپنی مقامی ضرورتیں پیش کیں۔ اس کا حال عقد الفرید وغیرہ میں بتفصیل ملتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top