"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
بیت المقدس کا معاہدہ

ھذا ما اعطیٰ عبد اللہ عمر امیر المومنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانالانفسھم واموالھم ولکنائسھم وصلبانھم وسقیمھا بریھا وسائر ملتھاانہ لایسکن کنائسھم ولاتھدم ولاینقض منھا ولا من حیز ھاولا من صلبھم ولا کن شئی من اموالھم ولا یکرھون علی دینھم ولا یضارا حد من الیھود و علی اھل ایلیأ ان یعطوا الجزیۃ کما یعطی اھل المدائن و علیھم ان یخرجوا منھا الروم واللصوص فمن خرج منھم فھوا من علی نفسہ ومالہ حتی یبلغوا ما منھم ومن اقام منھم فھوا من و علیہ مثل اھلا ایلیأ من الجزیۃ و من احب من اھل ایلیأ ان یسیر بنفسہ ومالہ مع الروم و یخلی بیعھم و صلبھم فانھم آمنون علی انفسھم و علی بینعھم و صلبھم حتی یبلغوا ما منھم و علی مافی ھذا الکتاب عدھ اللہ و ذمۃ رسولہ و ذمۃ الخلفأ و ذمۃ الکومنین اذا اعطو الذی علیھم من الجزیۃ شھد علی ذلک خالد بن الولید و عمر بن العاص و عبد الرحمان بن عوف و معاویۃ ابی سفیان و کتب و حضر سنہ 15 ہجری۔ (دیکھو تاریخ ابو جعفر جریر طبری – فتح بیت المقدس 12)۔

"یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کا جائے گی۔ نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیأ میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیأ والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں گے اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان اور مال کو امن ہے تا آ کہ وہ اپنی جائے پناہ میں پہنچ جائے اور جو ایلیأ ہی میں رہنا اختیار کرے اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہو گا اور ایلیأ والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کو یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا رسول خدا کےخلیفہ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ جزئیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔ اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن الولید اور عمرو العاص اور عبد الرحمنٰ بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالٰی عنہم اور یہ 15 ہجری میں لکھا گیا۔"

اس فرمان میں صاف تصریح ہے کہ عیسائیوں کے جان، مال اور مذہب ہر طرح سے محفوظ رہے گا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی قوم کو جس قدر حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہی تین چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرجے اور چرچ کی نسبت یہ تفصیل ہے کہ نہ تو وہ توڑے جائیں گے نہ ان کی عمارت کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔ مذہبی آزادی کی نسبت دوبارہ تصریح ہے کہ لایکرھون علی دینھم عیسائیوں کے خیال میں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے صلیب دے کر قتل کیا تھا اور یہ واقعہ خاص بیت المقدس میں پیش آیا تھا۔ اس لیے ان کی خاطر سے یہ شرط منظور کی کہ یہودی بیت المقدس میں نہ رہیں گے۔ یونانی باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے لڑتے تھے اور درحقیقت وہی مسلمانوں کے اصلی عدو تھے۔ تاہم ان کے لیے یہ رعایتیں ملحوظ رکھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔ اور نکل جانا چاہیں تو نکل کر جا سکتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ان کو امن حاصل ہو گا۔ اور ان کے گرجاؤں اور معبدوں سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر بیت المقدس کے عیسائی اگر یہ چاہیں گے کہ وطن سے نکل کر رومیوں سے جا ملیں تو اس پھر بھی کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کے گرجے وغیرہ جو بیت المقدس میں ہیں محفوظ رہیں گے۔ کیا کوئی قوم مفتوحہ ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر منصفانہ برتاؤ کر سکتی ہے؟ سب سے مقدم امر یہ ہے کہ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا گیا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فوراً اس کے بدلے مسلمان کو قتل کرا دیتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرۃ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لکھ بھیجا کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو دیا جائے۔ چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا، حوالہ کیا گیا۔ او ر اس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ (الدرایہ فی تخریج الہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ 360)۔ مال اور جائیداد کے متعلق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں اسی حیثیت سے بحال رکھیں۔ جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس بحث کو ہم تفصیل کے ساتھ محاصل ملکی کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بندوبست مال گزاری میں ذمیوں کا خیال

مال گزاری میں جو مشخص کی گئی وہ نہایت نرم اور ہلکی پھلکی تھی۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ خیال ہوا کہ کہیں ان پر سختی تو نہیں کی گئی۔ چنانچہ مرتے مرتے بھی یہ خیال نہ گیا۔ ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تو دس شخص کوفہ اور دس شخص بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے چار دفعہ بتاکید قسم لیتے تھے کہ مال گزاری کے وصول کرنے کچھ سختی تو نہیں کی گئی ہے (کتاب الخراج)۔ وفات سے دو تین دن پہلے کا واقعہ ہے کہ افسران بندوبست کو بلایا اور تشخیص جمع کے متعلق ان سے گفتگو کی۔ اور بار بار پوچھتے رہے کہ جمع سخت تو نہیں مقرر کی گئی۔ (کتاب الخراج صفحہ 21 میں ہے قال شھدت عمر بن الخطاب قبل ان یصاب بثلاث اربع واقفاً علی حذیفۃ بن الیمان عثمان بن حنیف و ھو یقول لھما العلکما حملتما الارض ملا تطیق)۔
 

شمشاد

لائبریرین
ذمیوں سے ملکی انتظامات میں مشورہ

ایک بڑا حق جو رعایا کو حاصل ہو سکتا ہے یہ ہے کہ انتظامات ملکی میں ان کو حصہ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ ان انتظامات میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا ذمیوں کے مشورے کے بغیر کام نہیں کرتے تھے، عراق کا بندوبست جب پیش آیا تو عجمی رئیسوں کو مدینہ میں بلا کر مال گزاری کے حالات دریافت کئے۔ مصر میں جو انتظامکیا اس میں مقوقس سے اکثر رائے لی۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 74)۔

جان و مال و جائیداد کے متعلق جو حقوق ذمیوں کو دیئے گئے تھے وہ صرف زبانی نہ تھے بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشتکار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے 10 ہزار درہم اس کو معاوضہ دلوایا۔ (کتاب الراج صفحہ 68)۔ اضلاع کے حکام کو تاکیدی فرمان بھیجتے تھے کہ ذمیوں پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہونے پائے۔ خود بالمشافہ لوگوں کو اس کی تاکید کرتے رہتے تھے۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج باب الجزیہ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب شام سے واپس آ رہے تھے تو چند آدمیوں کو دیکھا کہ دھوپ میں کھڑے ہیں اور ان کے سر پر تیل ڈالا جا رہا ہے۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جزیہ نہیں ادا کیا اس لیے ان کو سزا دی جاتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہ دریافت کیا کہ آخر ان کا کیا عذر ہے؟ لوگوں نے کہا کہ " ناداری " فرمایا کہ چھوڑ دو، اور ان کو تکلیف نہ دو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے لا تعذبوا الناس فان الذین یعذوبون الناس فی الدین یعذبھم اللہ یوم القیامۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ " لوگوں کو تکلیف نہ دو، جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب پہنچاتے ہیں خدا قیامت میں ان کو عذاب پہنچائے گا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ذمیوں کی شرائط کا ایفأ

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شام کی فتح کے بعد جو فرمان لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔

وامنع الکسلمین من ظلمھم ولا ضراربھم و اکل اموالھم بحلھا و وف لھم بشرطھم الذی شرطت لھم فی جمیع ما اعطیتھم (کتاب الخراجک صفحہ 82)۔

"مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کا مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وفات سے قبل خلیفہ ہونے والے خلیفہ کے لیے ایک مفصل وصیت فرمائی تھی۔ اس وصیت نامہ کو امام بخاری، ابوگر، بیہقی، جاحظ اور بہت سے مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ اس کا اخیر فقرہ یہ ہے۔

و اوصیہ بذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ ان یوفی لھم بعھدھم و ان یقاتل من ورائھم و ان لا یکفوا فوق طاقتھم۔ (صحیح بخاری صفحہ 187 مطبوعہ میرٹھ)۔

"یعنی میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو خدا اور رسول کا ذمہ دیا گیا ہے (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد ہے وہ پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔"

اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مرتے وقت بھی ذمیوں کو نہ بھولے۔

غرفہ ایک صحابی تھے، ان کے سامنے ایک عیسائی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی۔ غرفہ نے اس کے منہ تھپڑ کھینچ مارا۔ عیسائی نے عمرو بن العاص کے پاس جا کر شکایت کی۔ انہوں نے غرفہ کو بلا بھیجا اور باز پرس کی۔ غرفہ نے واقعہ بیان کیا۔ عمرو بن العاص نے کہ ذمیوں سے امن کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ غرفہ نے کہا، نعوذ باللہ ان کو یہ اجازت ہر گز نہیں دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانیہ گالیاں دیں۔ ان سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ اپنے گرجاؤں میں جو کچھ چاہیں کریں اور اگر ان پر کوئی دشمن چڑھ آئے تو ہم ان کی طرف سے سینہ سپر ہو کر لڑیں اور ان کوئی ایسا بار نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں۔ عمرو بن العاص نے کہا ہاں یہ سچ ہے (اسد الغابہ تذکرہ غرفہ)۔ اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ذمیوں کے حفظ حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مذہبی امور میں آزادی

مذہبی امور میں ذمیوں کو پوری آزادی تھی۔ وہ ہر قسم کی رسوم مذہبی ادا کرتے تھے۔ علانیہ ناقوس بجاتے تھے۔ صلیب نکالتے تھے۔ ہر قسم کے میلے ٹھیلے کرتے تھے۔ ان کے پیش وایان مذہبی کو جو مذہبی اختیارات حاصل تھے بالکل برقرار رکھے گئے تھے۔ مصر میں اسکندریہ کا پیٹر یارک بنیامین تیرہ برس تک رومیوں کے ڈر سے ادھر ادھر مارا مارا پھرا۔ عمرو بن العاص نے جب مصر فتح کیا، تو سنہ 20 ہجری میں اس کو تحریری امان لکھ کر بھیجی۔ وہ نہایت ممنون ہو کر آیا۔ اور پیٹر یارک کی کرسی دوبارہ اس کو نصیب ہوئی۔ چنانچہ علامہ مقریزی نے اپنی کتاب (جلد اول صفحہ 492) میں واقعہ کی پوری تفصیل لکھی ہے۔ معاہدات میں اور امور کے ساتھ مذہبی آزادی کا بھی حق التزام کے ساتھ درج کیا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض معاہدات کے اصلی الفاظ ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ حذیفہ بن الیمان نے ماہ دینار والوں کو جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔

لا یغیرون عن ملۃ و لا یحال بینھم و بین شرائعھم۔ (طبری صفحہ 2633)۔

"ان کا مذہب نہ بدلا جائے گا اور ان کے مذہبی امور میں کچھ دست اندازی نہ کی جائے گی۔"

جرجان کی فتح کے وقت یہ معاہدہ لکھا گیا۔

لھم الامان علی انفسھم و اموالھم و ملکھم و شرائعھم ولا تغیر شئی من ذلگ۔ (طبری صفحہ 2658)۔
" ان کے جان و مال اور مذہب و شریعت کو امن ہے اور اس میں سے کسی شے میں تغیر نہ کیا جائے گا۔"

آذر بائیجان کے معاہدہ میں یہ تصریح تھی۔

الامان علی انفسھم و اموالھم و شرائعھم۔ (طبری صفحہ 2662)۔
"جان مال، مذہت اور شریعت کو امان ہے۔"

موقان کے معاہدہ میں یہ الفاظ تھے۔

الامان علی اموالھم و انفسھم و ملتھم و شرآئعھم۔
"جان، مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام کے اشاعت کی اگرچہ نہایت کوشش کرتے تھے اور منصب خلافت کے لحاظ سے ان کا یہ فرض بھی تھا لیکن وہیں تک جہاں تک وعظ اور پند کے ذریعے سے ممکن تھا ورنہ یہ خیال وہ ہمیشہ ظاہر کر دیا کرتے تھے کہ مذہب کے قبول کرنے پر کوئی شخص مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ استق ان کا ایک عیسائی غلام تھا، اس کو ہمیشہ اسلام قبول کرنے کی ترغیت دلاتے تھے۔ لیکن جب اس نے انکار کیا تو فرمایا لا اکرارہ فی الدین یعنی مذہت میں زبردستی نہیں ہے۔ (کنز العمال بحولہ طبقات ابن شعد جلد پنجم صفحہ 249)۔
 

شمشاد

لائبریرین
مسلمانوں اور ذمیوں کی ہمسری

حقیقت یہ ہے کہ واقعات سے جو نتیجہ استنباط کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ملکی حقوق کے لحاظ سے ذمیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں رکھی تھی۔ کوئی مسلمان اگر ذمی کو قتل کرتا تو بے دریغ اس کے قصاص میں قتل کر دیا جاتا تھا۔

مسلمان اگر کسی ذمی سے سخت کلامی کرتے تھے تو پاداش کے مستحق ہوتے تھے۔ ذمیوں سے جزیہ اور عشور کے سوا کسی قسم کا محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی۔ جس کی مقدار دونوں سے زیادہ تھی۔ اس کے سوا عشور مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا۔ البتہ اس کی شرح بمقابلہ ذمیوں کے کم تھی۔ بیت المال سے والنٹیروں کو گھر بیٹھے جو تنخواہ ملتی تھی ذمی اس میں بھی برابر کے شریک تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ (اور درحقیقت صرف اسی ایک مثال سے اس بحث کا فیصلہ ہو سکتا ہے) کہ یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہو جاتا تھا اور محنت و مزدوری سے معاش پیدا نہیں کر سکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔ اسی قسم کی بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی۔ اول اول یہ قاعدہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں مقرر ہوا۔ چنانچہ خالد بن الولید نے جبرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا، اس میں یہ الفاظ تھے۔

وجعلت لھم ایما شیخ ضعف عن العمل او اصابہ افۃ من الافات او کان غنیا فافتقر و صار اھل دینہ یتصدقون علیہ و طرحت جزیتہ و عیل من بیت مال المسلمین و عیالہ مااقامو ابدار امجرۃ و دار الاسلام ولو ذھبوا فلیس علی المسلمین النفقۃ علی عیالھم (کتاب الخراج صفحہ 85)۔

"اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر غریب ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ موقوف کر دیا جائے گا۔ اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے نفقہ دیا جائے گا جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے لیکن اگر وہ غیر ملک میں چلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہو گا۔"

یہ قاعدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں بھی قائم رہا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس قرآن مجید کی آیت سے مستند کر دیا یعنی بیت المال کے داروغہ کو لکھ بھیجا کہ قرآن مجید کی آیت " انما الصدقات للفقرٔ والمسکین" (صدقہ اور خیرات فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے) اس میں فقرأ کے لفظ سے مسلمان اور مسکین کے لفظ سے اہل کتاب یہودی اور عیسائی مراد ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک پیر کہن سال کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا کہ کیوں بھیک مانگتا ہے؟

اس نے کہا " مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور مجھ کو ادا کرنے کا مقدور نہیں۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کو گھر پر لائے اور کچھ دے کر بیت المال کے داروغہ کو کہلا بھیجا کہ اس قسم کے معذوروں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ اسی واقعہ میں آیت مذکورہ بالا کا حوالہ دیا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ " واللہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔" (کتاب الخراج صفحہ 72)۔
 

شمشاد

لائبریرین
ذمیوں کی عزت کا خیال

ذمیوں کی عزت و آبرو کا اسی قدر استحفاظ تھا جس قدر مسلمان کی عزت و ناموس کی، ان کی نسبت کسی قسم کی تحقیر کا لفظ استعمال کرنا نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔ عمیر بن سعد جو حمص کے حاکم تھے اور زہد و تقدس و ترک دنیا میں تمام عہدہ داران خلافت میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ ایک دفعہ ان کے منہ سے ایک ذمی کی شان میں یہ لفظ نکل گیا۔ اخزاک اللہ یعنی خدا تجھ کو رسوا کرے۔ اس پر ان کو اس قدر ندامت اور تاسف ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر نوکری سے استغفیٰ دے دیا اور کہا کہ اس نوکری کی بدولت مجھ سے یہ حرکت صادر ہوئی۔ (دیکھو ازالتہ الخفاٗ صفحہ 203)۔
 

شمشاد

لائبریرین
سازش اور بغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک

ایک خاص بات جو سب سے بڑھ کر لحاظ کے قابل ہے یہ ہے کہ ذمیوں نے اگر کبھی سازش یا بغاوت کی تب بھی ان کے ساتھ مراعات کو ملحوظ رکھا گیا۔ آج کل حکومتوں کو تہذیب و ترقی کا دعوی ہے۔ رعایا کے ساتھ ان کی تمام عنایت اسی وقت تک ہے جب تک ان کی طرف سے کوئی پولیٹیکل شبہ پیدا نہ ہو۔ ورنہ دفعتاً وہ تمام مہربانی غضب اور قہر میں بدل جاتی ہے اور ایسا خونخوار اور پُرغیظ انتقام لیا جاتا ہے کہ وحشی قومیں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتیں۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قدم کسی حالت میں جادہ انصاف سے ذرا نہیں ہٹا۔ شام کی آخری سرحد پر ایک شہر تھا جس کا نام عربسوس تھا اور جس کی سرحد ایشیائے کوچک سے ملی ہوئی تھی۔ شام جب فتح ہوا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ لیکن یہاں کے لوگ درپردہ رومیوں سے سازش رکھتے تھے اور ادھر کی خبریں ان کو پہنچاتے رہتے تھے۔ عمیر بن سعد وہاں کے حاکم نے حضرت عمر کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی اس کمینہ حرکت کا جو انتقام لیا وہ یہ تھا کہ عمیر بن سعد کو لکھا کہ جس قدر ان کی جائیدار، زمین، مویشی اور اسباب ہے سب شمار کر کے ایک ایک چیز کی دوچند قیمت دے دو۔ اور ان سے کہو اور کہیں چلے جاؤ۔ اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو ایک برس کی مہلت دو۔ اور اس کےبعد جلاوطن کر دو۔ چنانچہ جب وہ اپنی شرارت سے باز نہ آنے تو اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 157)۔ کیا آج کل کوئی قوم اس درگزر اور عفو و مسامحت کی کوئی نظیر دکھلا سکتی ہے؟ ذمیوں کے ساتھ جو لطف و مراعات کی گئی تھی اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ ذمیوں نے ہر موقع پر اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ذمی ہی تھے جو مسلمانوں کے لیے رسد بہم پہنچاتے تھے۔ لشکر گاہ میں مینا بازار لگاتے تھے۔ اپنے اہتمام اور صرف سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لئے جاسوسی اور خبر رسانی کرتے تھے یعنی دشمنوں کے ہر قسم کے راز مسلمانوں سے آ کر کہتے تھے۔ حالانکہ یہ دشمن انہی کے ہم مذہب عیسائی یا پارسی تھے۔ ذمیوں کو مسلمانوں کے حسن سلوک کے وجہ سے جو اخلاص پیدا ہو گیا تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جنگ یرموک کے پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا، کہ جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے۔ عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ " خدا کی قسم تم رومیوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو۔"

اخیر میں ہم کو ان واقعات کی حقیقت بھی بتانا ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو یہ غلط خیال پیدا ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر نے یا خود اسلام نے ذمیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مخالف کی طرف سے اعتراض کی تقریر

اس مسئلے کو مخالف اس طرح بیان کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذمیوں کے حق میں یہ حکم دیا کہ وضع اور لباس وغیرہ میں کسی طرح مسلمانوں کی تشبہ نہ کرنے پائیں۔ کمر میں زنار باندھیں۔ لمبی لمبی ٹوپیاں پہنیں۔ گھوڑوں پر کاٹھی نہ کسیں۔ نئی عبادت گاہیں نہ بنائیں، شراب اور سور نہ بیچیں، ناقوس نہ بجائیں۔ صلیب نہ نکالیں۔ بنو تغلب کو یہ بھی حکم تھا کہ اپنی اولاد کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ اس سب باتوں پر یہ مستزاد کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرب کی وسیع آبادی میں ایک یہودی یا عیسائی کو نہ رہنے دیا اور بڑے بڑے قدیم خاندان جو سینکڑوں برس سے عرب میں آباد تھے، جلا وطن کر دیئے۔ بے شبہ یہ اعتراضات نہایت توجہ کے حامل ہیں اور ہم ان کے جواب دینے میں کسی قدر تفصیل سے کام لیں گے۔ کیونکہ ایک زمانہ دراز کے تعصب اور تقلید نے واقعیت کے چہرے پر بہت سے پردے ڈال دیئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمانوں کو غیر قوموں کی مشابہت اور غیر قوموں کو مسلمانوں کی مشابہت سے روکتے تھے۔ لیکن اس سے فقط قومی خصوصیتوں کو قائم رکھنا مقصود تھا۔ لباس کی بحث میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذمیوں کو جس لباس کی پابندی کی تاکید کی تھی وہی لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا یا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کوئی نیا لباس بطور علامت تحقیر کے تجویز کیا تھا۔ جس شخص نے عجم کی تاریخ پڑھی ہے وہ یقیناً جان سکتا ہے کہ جس لباس کا یہاں ذکر ہے وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معاہدہ کنز العمال وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اگرچہ راویوں نے اس کو بہت کچھ کم و بیش کر دیا ہے۔ تاہم جہاں ذمیوں کی طرف سے یہ اقرار مذکور ہے کہ ہم فلاں فلاں لباس نہ پہنیں گے، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں " و ان نلزم زینا حیث ما کنا (کنز العمال جلد 2 صفحہ 302) یعنی ہم وہی لباس پہنیں گے جو ہمیشہ سے پہنتے آئے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جس لباس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حکم دیا وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔

زنار جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرمان میں ہے اس کی نسبت ہمارے فقہأ نے اکثر غلطیاں کی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ انگلی برابر موٹا ایک قسم کا جنیو ہوتا تھا اور اس سے ذمیوں کی تحقیر مقصود تھی لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ زنار کے معنی پیٹی کے ہیں۔ اور عرب میں یہ لفظ آج کل بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ پیٹی کو عربی میں منطقہ بھی کہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے زنار اور منطقہ مرادف الفاظ ہیں۔ ان دونوں الفاظ کا مترادف ہونا کتب حدیث سے ثابت ہے۔

کنز العمال میں بیہقی وغیرہ سے روایت منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سردارن فوج کو یہ تحریر حکم بھیجا و تلزموھم المناطق یعنی الزنانیز اسی زنار کو کستچ بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ جامع صغیرہ وغیرہ میں بجائے زنار کے کستچ ہی لکھا ہے اور غالب خیال یہ ہے کہ یہ لفظ عجمی ہے۔ بہر حال اہل عجم قدیم سے کمر پر پیٹی لگاتے تھے۔ علامہ مسعودی نے کتاب التنبیہ والاشراف میں لکھا ہے کہ عجم کی اس قدیم عادت کی وجہ میں نے کتاب مروج الذہب میں لکھی ہے۔ ایک قطعی دلیل اس بات کی ہے کہ یہ لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا۔ خلفہ منصور نے اپنے دربار کے لیے جو لباس قرار دیا تھا وہ قریب قریب یہی لباس تھا۔ لمبی ٹوپیاں جو نرسل کی ہوتی تھیں۔ وہی عجم کی ٹوپیاں تھیں۔ جس کا نمونہ پارسیوں کے سروں پر آج بھی موجود ہے۔ اس درباری لباس میں پیٹی بھی داخل تھی۔ اور یہ وہی زنار یا منطقہ یا کستچ ہے جو عجم کی قدیم وضع تھی۔ منصور کے اس مجوزہ لباس کی نسبت تمام مؤرخین عرب نے تصریح کی ہے کہ یہ عجم کی تقلید تھی۔ اب ہر شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جس لباس کی نسبت تمام مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ اگر کوئی جدید لباس تھا، اور ان کی تحقیر کے لیے ایجاد کیا گیا تھا تو خلیفہ منصور اس کو اپنا اور اپنے درباریوں کا لباس کیونکر قرار دے سکتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صلیب اور ناقوس کی بحث

ذمیوں کو نئی عبادت گاہیں بنانے اور شراب بیچنے، صلیب نکالنے، ناقوس پھونکنے، اصطباغ دینے سے روکنا بے شبہ مذہبی دست اندازی ہے لیکن میں بیباکانہ اس راز کی پردہ دری کرتا ہوں کہ یہ احکام جن قیدوں کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جاری کئے تھے وہ بالکل مناسب تھے لیکن زمانہ ما بعد کے مؤرخوں نے اس قیدوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے تمام دنیا میں ایک عالمگیر غلط فہمی پھیل گئی۔

صلیب کی نسبت معاہدے میں جو الفاظ تھے اس میں یہ قید تھی۔

ولا یرفعوا فی نادی اھل الاسلام صلیباً (کتاب الخراج صفحہ 80)۔
"یعنی مسلمانوں کی مجلس میں صلیب نہ نکالیں۔"

ناقوس کی نسبت یہ تصریح تھی یضربوا نواقیسھم فی ایۃ ساعۃ شائووا من الیل او نھار الا فی اوقات الصلوۃ (کتاب الخراج صفحہ 84)۔ یعنی ذمی رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائے، بجز نماز کے اوقات کے۔ سور کی نسبت یہ الفاظ تھے۔ ولا یخرجوا خنزیرا من منازلھم الہ افنیۃ المسلمین یعنی ذمی سور کو مسلمان کے احاطے میں نہ لے جائیں۔

ان تصریحات کے بعد کس کو شبہ رہ سکتا ہے کہ صلیب نکالنا یا ناقوس بجانا عموماً منع نہ تھا۔ بلکہ خاص حالات میں ممانعت تھی اور ان خاص حالات میں آج بھی ایسی ممانعت خلاف انصاف نہیں کہی جا سکتی۔ سب سے زیادہ قابل لحاظ امر بنی تغلب کے عیسائیوں کی اولاد کا اصطباغ دینا تھا اور یہ گویا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اصباغ نہ دے سکتا

اس بات کی حفاظت ہے کہ آئندہ وہ کوئی اور مذہب قبول نہ کرنے پائے بے شبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عام طور پر اس رسم کو روکنے کا کچھ حق نہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں ایک نیا سوال پیدا ہوتا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر عیسائی خاندان میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور نابالغ اولاد چھوڑ کر مرے تو اس کی اولاد کس مذہب پر پرورش پائے گی؟ یعنی وہ مسلمان سمجھی جائے گی یا ان کے خاندان والوں کو جو عیسائی مذہب رکھتے ہیں یہ حق حاصل ہو گا۔ کہ اس کو اصطباغ دے کر عیسائی بنا لیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس صورت خاص کے لیے یہ قرار دیا کہ خاندان والے اس کو اصطباغ نہ دیں اور عیسائی نہ بنائیں اور یہ حکم بالکل قرین انصاف ہے۔ کیونکہ جب اس کا باپ مسلمان ہو گیا تو اس کی نابالغ اولاد بھی بظاہر مسلمان قرار پائے گی۔

علامہ طبری نے جہاں بنو تغلب کے واقعہ کا ذکر کیا ہے، شرائط صلح میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔ علی ان لا ینصروا ولیداً ممن اسلم آبأ ھم (طبری صفحہ 2423) یعنی بنو تغلب کو اختیار نہ ہو گا کہ جن کے باپ مسلمان ہو چکے ہیں اس کو عیسائی بنا سکیں۔ ایک اور موقع پر یہ الفاظ ہیں۔ ان لا ینصروا اولادھم اذا اسلم ابائھم (طبری صفحہ 35)۔ یہاں شاید یہ اعتراض ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک فرضی صورت قائم کر کے معاہدہ کو سخت کیوں کیا۔ لیکن جواب یہ ہے یہ فرضی صورت نہ تھی بلکہ بنو تغلب میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے، اس لیے ان کی خاص حالت کے لحاظ سے اس صورت کا ذکر ضروری تھا۔ بلکہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے کہ تغلب میں سے جو لوگ اسلام لا چکے تھے خود انہوں نے معاہدہ کے لیے یہ شرائط پیش کی تھیں۔

اب ہر شخص انصاف کر سکتا ہے کہ امن عام میں خلل نہ واقع ہونے کے لیے عیسائیوں کو اگرچہ یہ حکم دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی مجلس میں صلیب اور سور نہ لائیں۔ خاص نماز کے وقت ناقوس نہ بجائیں، نو مسلم کی اولاد کو اصطباغ نہ دیں تو کیا کوئی شخص اس کو تعصب مذہبی سے تعبیر کر سکتا ہے۔ لیکن افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ ہمارے پچھلے مؤرخوں نے ان احکام کی قیدوں اور خصوصیتوں کو اڑا دیا۔ بلکہ قدمأ میں بھی یہ لوگ تعصب آمیز طبیعت رکھتے تھے۔ روایت میں ان خصوصیتوں کو چھوڑ جاتے تھے، یہ غلطیاں اگرچہ نہایت سخت نتائج پیدا کرتیں تھیں، لیکن چونکہ ظاہر میں خفیف تھیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے اس کو کچھ خیال نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ یہ غلطیاں اس قدر پھیل گئیں کہ عربی زبان میں لکھی گئی تاریخ سرتاپا اس سے معمور ہو گئی۔ فقہأ چونکہ تاریخ سے بہت کم واقفیت رکھتے تھے، انہوں نے بے تکلف انہی روایتوں کو قبول کر لیا اور ان پر فقہ کے مسائل تفریع کر لیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عیسائیوں کے جلا وطن کرنے کا معاملہ​

عیسائیوں اور یہودیوں کے جلا وطن کرنے کے معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ یہودی کسی زمانہ میں مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیں ہوئے۔ خیبر جب فتح ہوا، ان سے کہہ دیا گیا کہ جس وقت مناسب ہو گا تم کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ان کی شرارتیں زیادہ ظاہر ہوئیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایک دفعہ بالا خانہ سے دھکیل دیا۔ جس سے ان کے ہاتھ میں زخم آیا۔ مجبوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عام مجمع میں کھڑے ہو کر ان کی شرارتیں بیان کیں۔ اور پھر ان کو عرب سے نکال دیا۔ چنانچہ صحیح بخاری، کتاب الشروط میں یہ واقعہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

نجران کے عیسائی یمن اور اس کے اطراف میں رہتے تھے۔ اور ان سے کچھ تعرض نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے چپکے چپکے جنگی تیاریاں شروع کیں۔ اور بہت سے گھوڑے اور ہتھیار مہیا کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صرف اس وقت ان کو حکم دیا کہ یمن چھوڑ کر عراق چلے جائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 42)۔

غرض یہ امر تمام شہادتوں سے قطعاً ثابت ہے کہ عیسائی اور یہودی پولیٹیکل ضرورتوں کی وجہ سے جلاوطن کئے گئے اور اس وجہ سے یہ امر کسی طرح اعتراض کے قابل نہیں ہو سکتا۔ البتہ لحاظ کے قابل یہ بات ہے کہ اس حالت میں بھی کس قسم کی رعایت ان کے ساتھ ملحوظ رکھی گئی۔ فدک کے یہودی جب نکالے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک واقف کار شخص کو بھیجا کہ ان کی زمین اور باغوں کے قیمت کا تخمینہ کرے۔ چنانچہ متعینہ قیمت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیت المال سے ان کو دلوا دی۔ اسی طرح حجاز کے یہودیوں کو بھی ان کی زمین کی قیمت دلا دی۔ (فتوح البلدان صفحہ 29)۔

نجران کے عیسائیوں کو جب عرب کی آبادی سے نکال کر شام و عراق میں آباد کیا تو ان کے ساتھ نہایت فیاضانہ رعایتیں کیں۔ ان کو امن کا جو پروانہ دی اس میں یہ شرطیں لکھیں۔

1 – عراق یا شام جہاں بھی یہ لوگ جائیں وہاں کے افسر ان کی آبادی اور زراعت کے لیے ان کو زمین دیں۔

2 – جس مسلمان کے پاس یہ کوئی فریاد لے کر جائیں وہ ان کی مدد کرے۔ 24 مہینے تک ان سے مطلقاً جزیہ نہ لیا جائے۔

اس معاہدے پر احتیاط اور تاکید کے لحاظ سے بڑے بڑے صحابہ کے دستخط ثبت کرائے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں اس معاہدے کو بالفاظہا نقل کیا ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ 41)۔

ایک ایسی قوم جس کی نسبت بغاوت اور سازش کے ثبوت موجود ہوں، اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا رعایت کی جا سکتی ہے۔ اب صرف جزیہ کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ ہن نے اس بحث پر اگرچہ ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور وہ تینوں زبانوں (اردو، عربی، انگریزی) میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے تاہم مختصر طور پر یہاں بھی لکھنا ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جزیہ کی بحث

جزیہ کا موضوع اور مقصد، اگرچہ شروع اسلام ہی میں ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ حفاظت کا معاوضہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں یہ مسئلہ ایسا صاف ہو گیا ہے کہ احتمال کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اولاً تو انہوں نے نوشیروان کی طرح جزیہ کی مختلف شرحیں قائم کیں اور اس طریقہ سے گویا صاف بتا دیا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہی نوشیروانی محصول ہے۔ اس کے علاوہ موقع بہ موقع عملی طور پر اس بات کو ظاہر کیا کہ وہ صرف حفاظت کا معاوضہ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں تم پڑھ آئے ہو کہ جب یرموک کے پرخطر معرکہ کے پیش آنے کی وجہ سے اسلامی فوجیں شام کے مغربی حصوں سے ہٹ آئیں۔ اور ان کو یقین ہو گیا کہ جن شہروں سے وہ جزیہ وصول کر چکے تھے یعنی حمص و دمشق وغیرہ، وہاں کے باشندوں کی حفاظت کا اب وہ ذمہ نہیں اٹھا سکتے تو جزیہ سے جس قدر رقم وصول ہوئی تھی سب واپس کر دی اور صاف کہہ دیا کہ اس وقت ہم تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جزیہ لینے کا بھی ہم کو کوئی حق نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ قطعی شہادت یہ ہے کہ جن لوگوں سے کبھی کسی قسم کی فوجی خدمت لی گئی ان کو باوجود ان کے مذہب پر قائم رہنے کے جزیہ معاف کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود سنہ 17 ہجری میں عراق کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ ۔

یستعینوا بمن احتاجوا الیہ من الا ساورۃ و یرفعوا عنھم الجزأ (طبری صفحہ 2497)۔
"یعنی فوجی سواروں میں سے جس سے مدد لینے کی ضرورت ہو اس سے مدد لے لو اور ان کا جزیہ چھوڑ دو۔"

یہاں تک کہ اگر کسی قوم نے صرف ایک دفعہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی تو اس سال کا جزیہ اس کے لیے معاف کر دیا گیا۔ 22 ہجری میں جب آذربائیجان فتح ہوا تو اہل شہر کو یہ فرمان لکھ دیا گیا۔

و من حشر منھم فی سنۃ وضع عنہ جزاء تلک السنۃ
"یعنی جو لوگ کسی سال فوج کے ساتھ کام دیں گے، اس سال کا جزیہ ان سے نہیں لیا جائے گا۔"

اسی سال آرمینیہ کے رئیس شہزبزاز سے جو معاہدہ ہوا اس میں یہ الفاظ تھے :

و علی اھل آرمینیۃ ان ینفروا لکل غارۃ و ینفذو الکل امر ناب اولم ینب راہ الو الی صلاحا علی ان توضع الجزاء (طبری صفحہ 265)۔

اسی سنہ میں جرجان فتح ہوا اور فرمان میں یہ عبارت لکھی گئی :

ان لکم الذمۃ و علینا المنعۃ علی ان علیکم من الجزاء فی کل سنۃ علی قدر طاقتکم ومن استعنا بہ منکم فلہ جزائہ فی معونۃ عوضا عن جزائہ (ایضاً)۔

"یعنی ہم پر تمہاری حفاظت ہے اس شرط پر کہ ہر سال بقدر طاقت جزیہ ادا کرنا ہو گا۔ اور اگر تم سے اعانت لیں گے تو اس اعانت کے بدلہ جزیہ معاف ہو جائے گا۔"

غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقوال سے معاہدوں سے، طرز عمل سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا ہے کہ جزیہ کا موضوع کیا تھا اور وہ کسی غرض سے مقرر کیا تھا۔

جزیہ کا صرف فوجی مصارف پر محدود تھا۔ یعنی اس رقم سے صرف اہل فوج کے لیے خوراک لباس اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جہاں جہاں جزیہ مقرر کیا اس کے ساتھ جنس اور غلبہ بھی شامل کیا۔ مصر میں فی کس جزیہ کی تعداد دراصل چار دینار تھی۔ لیکن دو نقد اور باقی کے عوض گیہوں، روغن، زیتون، شہد، سرکہ لیا جاتا تھا۔ اور یہی اہل فوج کی خوراک تھی۔ البتہ آگے چل کر جب رسد کا انتظام مستقل طور پر ہو گیا تو کل جزیہ کی مقدار نقد کر دی گئی اور جنس کی بجائے چار دینار لیے جانے لگے۔ (فتوح البلدان صفحہ 216)۔
 

شمشاد

لائبریرین
غلامی کا رواج کم کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اگرچہ غلامی کو معدوم نہیں کیا اور شاید اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کے رواج کو کم کر دیا۔ اور جس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی غلامی نہیں بلکہ برادری اور ہمسری رہ گئی۔ عرب میں تو انہوں نے سرے سے اس کا استیصال کر دیا۔ اور اس میں ان کو اس قدر اہتمام تھا کہ عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں قبائل مرتدہ میں جو لوگ لونڈی اور غلام بنائے گئے تھے سب آزاد کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے۔ ان کا یہ قول منقول ہے : لایشترق عربی"۔
 

شمشاد

لائبریرین
عرب کا غلام نہ ہو سکنا

یعنی عرب کا کوئی آدمی غلام نہیں ہو سکتا (کنز العمال میں امام شافعی کی روایت سے یہ قول منقول ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 312، جلد دوم)۔ اگرچہ بہت سے مجتہدین اور آئمہ فن نے ان کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا۔ امام احمد حنبل کا قول ہے لا اذھب الی قول عمر لیس علی عربی ملک یعنی میں عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی یہ رائے نہیں مانتا کہ اہل عرب غلام نہیں ہو سکتے لیکن یہ موقع اس مسئلہ پر بحث کرنے کا نہیں۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ عرب کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فیصلہ یہ تھا (منتقی الاخبار لابن تیمیہ)۔

غیر قوموں کی نسبت وہ کوئی قاعدہ عام نہیں قائم کر سکے۔ جب کوئی ملک فتح ہوتا تھا تو اہل فوج ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ ملک کے ساتھ تمام رعایا ان کی غلامی میں دے دی جائے۔ ملک کی تقسیم میں تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن مجید کے استدلال سے لوگوں کی زبان بندی کی لیکن غلامی کے لیے کوئی ایسا استدلال موجود نہ تھا۔ اس لیے وہ تمام اہل فوج کے خلاف نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اتنا کیا کہ عملاً غلامی کو نہایت کم کر دیا۔ جس قدر ممالک ان کے زمانے میں فتح ہوئے ان کی وسعت کئی ہزار میل تھی جس میں کروڑوں آدمی بستے تھے، لیکن غلامی کا جہاں جہاں پتہ چلتا تھا وہ نہایت محدود اور گنتی کے ہیں جو بجائے خود مستقل مملکتیں ہیں۔ باوجود فوج کے اصرار کے ایک شخص بھی غلام نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک کہ جب مصر کے بعض دیہات کے آدمی جو مسلمانوں سے لڑے تھے غلام بنا کر عرب میں بھیج دیئے گئے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب کو جابجا سے جمع کر کے مصر واپس بھیج دیا کہ ان کو غلام بنانا جائز نہ تھا۔ چنانچہ مؤرخ مقریزی نے ان دیہات کے نام اور اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شام کے شہروں میں بصریٰ، محل، طبریہ، دمشق، حمص، حمدان، عسقلان، انطاکیہ وغیرہ جہاں عیسائی بڑے زور و شور سے لڑے، غلامی کا بہت کم پتہ چلتا ہے۔ شاید شام میں صرف قیساریہ ایک جگہ ہے جہاں اسیران جنگ غلام بنائے گئے۔ فارس، خورستان، کرمان، جزیرہ وغیرہ میں کود معاہدہ صلح میں یہ الفاظ لکھ دیئے گے تھے کہ لوگوں کے جان و مال سے تعرض نہ ہو گا۔ صامغان، جندی، سابور، شیراز وغیرہ میں اس سے زیادہ صاف الفاظ تھے کہ لا یس بوا یعنی وہ لوگ گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہ بنائے جائیں گے۔

مناذر میں باوجود اس کے کہ فوج نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حکم پہنچا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اور خراج و جزیہ مقرر کر دو۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یہ حکم بھیجا کہ کوئی کاشتکار یا پیشہ ور غلام نہ بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک اور طریقہ سے بھی اس رواج کو گھٹیا۔ یعنی یہ قاعدہ بنا دیا کہ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی اور بیچی نہیں جا سکتی جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ لونڈی نہیں رہتی۔ یہ قاعدہ خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایجاد ہے۔ ان سے پہلے اس قسم کی لونڈیوں کی برابر خرید و فروخت ہوتی تھی۔ چنانچہ مؤرخین نے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اولیات لکھے ہیں، اس قاعدے کو بھی لکھا ہے۔ غلاموں کی آزادی کا ایک اور طریقہ تھا۔ جس کو مکاتبہ کہتے ہیں یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر رقم ادا کروں گا۔ جب وہ زر معینہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بالکل آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ قاعدہ خود قرآن میں موجود ہے۔ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیراً لیکن فقہاء اس حکم کو وجوبی نہیں قرار دیتے۔ یعنی آقا کو اختیار ہے کہ معاہدے کو قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو وجوبی قرار دی۔ صحیح بخاری کتاب المکاتب میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام سیرین نے مکاتبت کی درخواست کی۔ انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار کیا۔ سیرین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو درے لگائے۔ اور مذکورہ بالا آیت سند میں پیش کی۔ آخر انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مجبوراً ماننا پڑا۔

عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جب فارس فتح ہوا تو یزد گرد شہنشاہ فارس کی بیٹیاں گرفتار ہو کر مدینہ میں آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عام لونڈیوں کی طرح بازار میں ان کے بیچنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منع کیا کہ خاندان شاہی کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں۔ ان لڑکیوں کی قیمت کا اندازہ کرایا جائے۔ پھر یہ لڑکیاں کسی کے اہتمام اور سپردگی میں دی جائیں، اور اس سے ان کی قیمت اعلیٰ سے اعلیٰ شرح پر لی جائے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود ان کو اپنے اہتمام میں لیا اور ایک امین کو، ایک محمد بن ابی بکر کو، ایک عبد اللہ بند عمر رضی اللہ تعالٰی کو عنایت کی۔ ربیع الابرار میں اس کو لکھا اور ابن خلکان نے امام زین العابدین کے حال میں یہ روایت اس کے حوالہ سے نقل کر دی لیکن یہ محض غلط ہے۔ اولاً توز محشری کے سوا طبری ابن الاثیر، یعقوبی، بلاذری، ابن قتیبہ وغیرہ کسی نے اس واقعہ کو نہیں لکھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں یزدگر اور خاندان شاہی پر مسلمانوں کو مطلق قابو نہیں ہوا۔ مدائن کے معرکے میں یزدگرد مع تمام اہل و عیال کے دارالسلطنت سے نکلا اور حلوان پہنچا۔ جب مسلمان حلوان پر بڑھے تو اصفہان بھاگ گیا اور پھر کرمان وغیرہ میں پھرتا رہا۔ مرو میں پہنچ کر سنہ 30 ہجری میں جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے مارا گیا۔ اس کی آل اولاد اگر گرفتار ہوئے ہوں گے تو اسی وقت گرفتار ہوئے ہوں گے۔ مجھ کو شبہ ہے کہ زمخشری کو یہ بھی معلوم تھا یا نہیں کہ یزدگر کا قتل کس عہد میں ہوا۔

اس کے علاوہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس وقت حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر 12 برس تھی۔ کیونکہ جناب ممدوح ہجرت کے پانچویں سال کے بعد پیدا ہوئے اور فارس سنہ 17 ہجری میں فتح ہوا۔ اس لیے یہ امر بھی کسی قدر مستبعد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی نابالغی میں ان پر اس قسم کی عنایت کی ہو گی۔

اس کے علاوہ ایک شہنشاہ کی اولاد کی قیمت نہایت گراں قرار پائی ہو گی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے، غرضیکہ کسی حیثیت سے اس واقعہ کی صحت کا گمان تک نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تاریخ میں اس قسم کا واقعہ جو مسلم طور پر ثابت ہے اس میں وہی برتاؤ کیا گیا۔ جو تہذیب و انسانیت کا مقتضا تھا اور جو آج بھی تمام مہذب ملکوں میں جار ہے۔ عمرو بن العاص نے جب مصر پر چڑھائی کی تو اول بلیس پر حملہ ہوا۔ سخت لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی اور تین ہزار عیسائی گرفتار ہوئے۔ اتفاق سے مقوقس بادشاہ مصر کی بیٹی جس کا نام ارمانوسہ تھا یہیں مقیم تھی، وہ بھی گرفتار ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
شاہی خاندان کے اسیران جنگ کے ساتھ برتاؤ

عمرو بن العاص نے اس کو نہایت عزت و احترام سے مقوقس کے پاس بھیج دیا اور مزید احتیاط کے لیے اپنے ایک سردار کو جس کا نام قیس بن ابی تھا ساتھ کر دیا کہ حفاظت کے ساتھ پہنچا ائے۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 184)۔
 

شمشاد

لائبریرین
عام غلاموں کے ساتھ مراعات

یہ تو وہ کارنامے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غلامی کو روکنے کے لیے کئے لیکن جو لوگ غلام بنائے گئے تھے ان کے حق میں وہ مراعاتیں قائم کیں کہ غلامی ہمسری کے درجے تک پہنچ گئی۔ فوجی انتظامات کے بیان میں تم نے پڑھا ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بدر وغیرہ کے مجاہدین کی جب تنخواہیں مقرر کیں تو ان کے غلاموں کی بھی انہی کے برابر تنخواہ مقرر کی۔ بعد کی تمام کاروائیوں میں بھی انہوں نے یہ اصول ملحوظ رکھا۔ اضلاع کے جو عمال تھے ان کی نسبت وہ اور باتوں کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی دریافت کرتے رہتے تھے کہ غلاموں کے ساتھ ان کا برتاؤ کیسا ہے۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں کی عیادت کو نہیں جاتے تو صرف اسی جرم پر ان کو معزول و موقوف کر دیتے تھے۔ (طبری صفحہ 2775)۔

اکثر غلاموں کو بلا کر ساتھ کھانا کھلایا کرتے تھے اور حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے سے عار ہے۔ سرداران فوج کو لکھ بھیجا کہ تمہارا کوئی غلام کسی قوم کو امان دے تو وہ امان تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی۔ اور فوج کو اس کا پابند ہونا ہو گا۔ چنانچہ ایک سردار کو یہ الفاظ لکھے۔ ان عبد المسلمین من المسلمین و ذمتہ من ذمتھم یجوز امانہ۔ (کتاب الخراج صفحہ 126)۔
 

شمشاد

لائبریرین
غلاموں کو اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جانا

غلاموں کے لیے بڑی تکلیف کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارت سے جدا کر دیئے جاتے تھے۔ بیٹا باپ سے چھٹ جاتا تھا۔ بیٹی ماں سے بچھڑ جاتی تھی۔ آج جو لوگ غلامی کی برائیوں پر مضامین لکھتے ہیں وہ اسی واقعہ کو درد انگیز صورت میں دکھاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ کوئی غلام اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جائے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ بیٹا کسی کے ہاتھ آئے اور باپ کسی اور کی غلامی میں رہے۔ باپ، بیٹے، بھائی، بہن، ماں، بیٹیاں بکتی تھیں تو ساتھ بکتی تھیں اور جن کی غلامی میں رہتی تھیں ساتھ رہتی تھیں۔ اس باب میں ان کے جو احکام ہیں ان کو کنز العمال میں مستدرک حاکم بیہقی مصنف بن ابی شیبہ وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے :

لا یفوق بین اخوین اذا یبعا لا یفرق ابین الام و ولدھا لا یفرق بین السبایا و اولادھن۔

" یعنی جب دو بھائی بیچے جائیں تو ایک دوسرے سے جدا نہ بیچا جائے یعنی بچہ ماں سے الگ نہ کیا جائے یعنی لونڈی غلام جو گرفتار ہو کر آئیں تو بچے ماں سے علیحدہ نہ کئے جائیں۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس باب میں تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا " و تقطعوا ارحامکم" اور کہا کہ اس سے بڑھ کر قطع رحم کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ حاکم اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ (کنزالعمال جلد 2 صفحہ 622)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مسمط ابن اسود ایک افسر کو شام کی مہمات پر بھیجا اور ان کے بیٹے شرجیل کو کوفہ میں کسی کام پر مامور کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے شکایت کی کہ آپ جب غلام کو اپنے عزیزوں سے جدا نہیں ہونے دیتے تو مجھ کو کیوں بیٹے سے دور پھینک دیا؟ (فتوح البلدان صفحہ 138)۔
 

شمشاد

لائبریرین
غلاموں میں اہل کمال

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غلاموں کا جو رتبہ قائم کیا اور عرب کو جو نمونے دکھلائے اس کا یہ اثر ہوا کہ غلاموں کے گروہ میں بڑے بڑے صاحب کمال لوگ پیدا ہوئے جن کی تمام ملک عزت و توقیر کرتا تھا۔ عکرمہ جو آئمہ حدیث میں شمار کئے جاتے تھے اور جن کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فتویٰ کی اجازت دی تھی۔ نافع جو امام مالک کے استاد تھے اور جن کی روایت کے سلسلے کو محدثین سلسلۃ الذہب یعنی سونے کی زنجیر سے تعبیر کرتے ہیں، یہ دونوں بزرگ غلام تھے اور اسی عہد کی تربیت یافتہ تھے۔

علامہ ابن خلکان نے حضرت امام زین العابدین کے حال میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں لوگ کنیزوں اور کنیز زادیوں کو حقیر سمجھتے تھے لیکن جب قاسم (حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پوتے) اور سالم (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پوتے) اور امام زین العابدین سن رشد کو پہنچے اور علم و فضل میں تمام مدینہ والوں سے بڑھ گئے تو خیالات بدل گئے اور لونڈی غلاموں کی قدر بڑھ گئی، لیکن ہمارے نزدیک اس قبول اور عزت کا اصل سبب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی کا طریق عمل تھا۔ بے شبہ قاسم و سالم (امام زین العابدین کا نام اس سلسلے میں لینا بے ادبی خیال کرتا ہوں) کے فضل و کمال نے اس مسئلے پر اثر کیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امہات اولاد کا وہ رتبہ قائم نہ کیا ہوتا تو ان بزرگوں کو فضل و کمال حاصل کرنے کا موقع کیونکر ہاتھ آتا۔

ان سب باتون کے ساتھ اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ کوئی نیا مسئلہ ایجاد کیا تھا اور نہ خدانخواستہ ان کو یہ حق تھا۔ غلامی کا گھٹانا اور غلاموں کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرنا خود پیغمبر اسلام کا مقصد تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو کچھ کیا وہ اسی مقصد کی تعمیل تھی۔ امام بخاری نے کتاب المنفرد میں غلاموں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو افعال اور اقوال لکھے ہیں ان سے اس دعویٰ کی کافی تصدیق ہوتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top