"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
مسکن

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جیسا کہ ہم پہلے حصے میں لکھ ائے ہیں، مکہ سے ہجرت کی تو عوالی میں مقیم ہوئے جو مدینہ سے دو تین میل ہے۔ لیکن خلافت کے بعد غالباً وہاں کی سکونت بالکل چھوڑ دی اور شہر میں آ کر رہے۔ یہاں جس مکان میں وہ رہتے تھے وہ مسجد نبوی سے متصل باب السلام اور باب الرحمتہ کے درمیان میں واقع تھا۔ چونکہ مرنے کے وقت وصیت کی تھی کہ مکان بیچ کر ان کا قرض ادا کیا جائے۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو خریدا اور قیمت سے قرض ادا کیا گیا۔ اس لئے یہ مکان مدت تک داراقضأ کے نام سے مشہور رہا (دیکھو خلاصتہ الوفا فی اخبار دار المصطفیٰ مطبوعہ مصر صفحہ 29 اور حاشیہ مؤطا امام محمد صفحہ 272)۔
 

شمشاد

لائبریرین
وسائل معاش تجارت

معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حدیث استیذان کی لا علمی کا انہوں نے یہی عذر کیا کہ میں خرید و فروخت میں مشغول ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کم حاضر ہوتا تھا۔ لیکن اور فتوحات بھی کبھی کبھی حاصل ہو جاتی تھیں۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم کو جاگیریں عطا کیں۔ خیبر جب فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جو معرکہ میں شریک تھے تقسیم کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
جاگیر

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حصے میں جو زمین آئی اس کا نام شمغ تھا اور وہ نہایت سیر حاصل زمین تھی۔ مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے تمام حصہ داروں کے نام ایک کتاب میں قلم بند کرائے تھے۔ یہود بنی حارثہ سے بھی ان کو ایک زمین ہاتھ آئی۔ اور اس کا نام بھی شمغ تھا۔ لیکن انہوں نے یہ دونوں زمینیں خدا کی راہ پر وقف کر دیں (خلاصتہ الوفأ لفظ شمغ)۔ خیبر کی زمین کے وقف کا واقعہ صحیح بخاری باب شروط فی الوقف میں مذکور ہے۔ وقف میں جو شرطیں کیں یہ تھیں۔ یہ زمین نہ بیچی جائے گی نہ ہبہ کی جائے گی۔ نہ وراثت میں منتقل ہو گی۔ جو کچھ اس سے حاصل ہو گا وہ فقرأ ذوالقربی، ۔۔۔لام، مسافر اور مہمان کا حق ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مشاہرہ

خلافت کے چند برس بعد انہوں نے صحابہ کی خدمت میں مصارف ضروری کے لئے درخواست کی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق اس قدر تنخواہ مقرر ہو گئی جو معمولی خوراک اور لباس کے لئے کافی ہو۔ ۱۵ ہجری میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابر صحابہ کے ساتھ ان کے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر ہو گئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
زراعت

معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر اول اول زراعت بھی کی تھی۔ لیکن اس طرح کہ کھیت بٹائی پر دے دیتے تھے۔ تخم خود مہیا کرتے تھے۔ اور کبھی شریک کے ذمے ہوتا تھا چنانچہ صحیح بخاری باب المزرعۃ میں یہ قواعہ بتصریح موجود ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
غذا

غذا نہایت سادہ تھی، معمولاً روٹی اور روغن زیتون دسترخوان پر ہوتا تھا۔ روٹی اکثر گیہوں کی ہوتی تھی۔ لیکن آٹا اکثر چھانا نہیں جاتا تھا۔ عام القحط میں جو کا التزام کر لیا تھا۔ کبھی کبھی متعدد چیزیں دسترخوان پر ہوتی تھیں۔ گوشت، روغن زیتون، دودھ، ترکاری، سرکہ، مہمان یا سفرائے آتے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ایسی سادہ اور معمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
لباس

لباس بھی معمولی ہوتا تھا۔ اکثر صرف قمیص پہنتے تھے۔ برنس ایک قسم کی ٹوپی تھی۔ جو عیسائی درویش اوڑھا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی اس کا رواج ہو گیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی استعمال کرتے تھے۔ جوتی عربی وضع کی ہوتی جس میں تسمہ لگا ہوتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سادگی اور بے تکلفی

نہایت بے تکلفی اور سادگی سے رہتے تھے۔ کپڑوں میں اکثر پیوند ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے۔ باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے۔ اس لئے انہیں کپڑوں کو دھو کر سوکھنے ڈال دیا تھا۔ خشک ہو گئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔

لیکن ان تمام باتوں سے یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ رہبانیت کو پسند کرتے تھے۔ اس باب میں ان کی رائے کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص جس کو انہوں نے یمن کا عامل مقرر کیا تھا۔ اس صورت سے ان سے ملنے کو آیا کہ لباس فاخرہ زیب تن تھا۔ اور بالوں میں خوب تیل پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نہایت ناراض ہوئے اور وہ کپڑے اتروا کر موٹا کپڑا پہنایا۔ دوسری دفعہ آیا تو پریشان ہوا۔ اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر آیا۔ فرمایا کہ یہ بھی مقصود نہیں۔ آدمی کو نہ پراگندہ حال ہو کر رہنا چاہیے۔ نہ کہ پٹیاں جمانی چاہییں۔ حاصل یہ کہ نہ بیہودہ تکلفات اور آرائش کو پسند کرتے تھے، نہ رہبانہ زندگی کو اچھا سمجھتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حلیہ

حلیہ یہ تھا کہ رنگ گندم گوں، قد نہایت لمبا، یہاں تک کہ سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو ان کا قد سب سے نمایاں ہوتا تھا۔ رخسارے کم گوشت، گھنی داڑھی، مونچھیں بڑی بڑی، سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر صیغہ میں جو جو نئی باتیں ایجاد کیں ان کو مؤرخین نے یکجا کر کے لکھا ہے اور ان کو اولیات سے تعبیر کرتے ہیں (اس میں سے اکثر اولیات کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری اور تاریخ طبری میں یکجا مذکور ہیں۔ باقی جستہ جستہ موقعوں سے یکجا کی گئی ہیں)۔ چنانچہ ہم ان کے حالات کو انہی اولیات کی تفصیل پر ختم کرتے ہیں کہ اول بآخر نسبتے دارد۔

1 – بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا۔
2 – عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔
3 – تاریخ اور سنہ ہجری کو رواج دیا جو آج تک جاری ہے۔
4 – امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔
5 – فوجی دفتر ترتیب دیا۔
6 – والنٹیریوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
7 – دفتر مال قائم کیا۔
8 – زمینوں کی پیمائش جاری کی۔
9 – مردم شماری کرائی۔
10 – نہریں کھدوائیں۔
11 – شہر آباد کرائے یعنی کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط، موصل۔
12 – ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔
13 – عشور یعنی دہ یکی مقرر کی۔ اس کی تفصیل صیغہ محاصل میں گزر چکی ہے۔
14 – دریا کی پیداوار مثلاً عنبر وغیرہ پر محصول لگایا اور محصل مقرر کئے۔
15 – حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔
16 – جیل خانہ قائم کیا۔
17 – درہ کا استعمال کیا۔
18 – راتوں کو گشت کر کے رعایا کے دریافت حال کا طریقہ نکالا۔
19 – پولیس کا محکمہ قائم کیا۔
20 – جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔
21 – گھوڑوں کی نسل میں اصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت تک عرب میں نہ تھی۔
22 – پرچہ نویس مقرر کئے۔
23 – مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لئے مکانات بنوائے۔
24 – راہ پر پڑے ہوئے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے لئے روزینے مقرر کئے۔
25 – مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔
26 – یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب (گو کافر ہوں) غلام نہیں بنائے جا سکتے۔
27 – مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کئے۔
28 – مکاتب قائم کئے۔
29 – حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے اس کام کو پورا کیا۔
30 – قیاس کا اصول قائم کیا۔
32 – فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔
33 – فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ کیا۔ چنانچہ مؤطا امام مالک میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔
34 – نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔
35 – تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دیا۔
36 – شراب کی حد کے لئے اسی کوڑے مقرر کئے۔
37 – تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔
38 – بنو ثعلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوٰۃ مقرر کی۔
39– وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔
40 – نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کرا دیا۔
41 – مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا۔ ان کی اجازت سے تمیم دارمی نے وعظ کہا اور یہ اسلام میں پہلا وعظ تھا۔
42 – اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
43 – مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔
44 – ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا قائم کی۔
45 – غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا۔ حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا۔

ان کے سوا اور بہت سی باتیں ان کی اولیات میں شامل ہیں جن کو ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ازواج و اولاد

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جاہلیت و اسلام میں متعدد نکاح کئے۔ پہلا نکاح عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بہن زینب کے ساتھ ہوا۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ سابقین صحابہ میں تھے، یعنی اسلام لانے والوں میں ان کا چودھواں نمبر تھا۔ 2 ہجری میں وفات پائی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ ان کی لاش کو بوسے دیتے تھے۔ اور بے اختیار روتے تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دوسرے بھائی قدامہ بھی اکابر صحابہ میں سے تھے۔ زینب مسلمان ہو کر مکہ معظمہ میں مریں۔ حضرت عبد اللہ اور حضرت حفصہ ان ہی کے بطن سے ہیں۔

دوسری بیوی قریبہ بنت ابی لیتہ المخزومی تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بہن تھیں۔ چونکہ یہ اسلام نہیں لائی تھیں، اور مشرک عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اس لئے صلح حدیبیہ کے بعد 6 ہجری میں ان کو طلاق دے دی۔

تیسری بیوی ملیکۃ بنت جرول الخزاعی تھیں، ان کو ام کلثوم بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی اسلام نہیں لائیں اور اس وجہ سے 6 ہجری میں ان کو بھی طلاق دے دی۔ عبد اللہ ان ہی کے بطن سے ہیں۔

زینب اور قریبۃ قریش کے خاندان سے اور ملیکہ خزاعہ کے قبیلہ سے تھیں۔ مدینہ میں آ کر انصار میں قرابت پیدا کی۔ یعنی 7 ہجری میں عاصم بن ثابت بن ابی الافلح جو ایک معزز انصاری تھے اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے، ان کی بیٹی جمیلہ سے نکاح کیا۔ جمیلہ کا نام پہلے عاصیہ تھا۔ جب وہ اسلام لائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدل کر جمیلہ نام رکھا۔ لیکن ان کو بھی کسی وجہ سے طلاق دے دی۔
 

شمشاد

لائبریرین
حضرت ام کلثوم سے نکاح کرنا

اخیر عمر میں ان کو خیال ہوا کہ خاندان نبوت سے تعلق پیدا کریں۔ جو مزید شرف اور برکت کا سبب تھا۔ چنانچہ جناب امیر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حضرت کلثوم کے لئے درخواست کی۔ جناب ممدوح نے پہلے ام کلثوم کی صغر سنی کے سبب سے انکار کیا۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے زیادہ تمنا ظاہر کی اور کہا کہ اس سے مجھ کو حصول شرف مقصود ہے تو جناب امیر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے منظور فرمایا اور 17 ہجری میں 40 ہزار مہر پر نکاح ہوا۔ (حضرت ام کلثوم بنت فاطمہ کی تزویج کا واقعہ تمام معتمد مؤرخوں نے بتفصیل لکھا ہے۔ طبری نے تاریخ کبیر میں، ابن حبان نے کتاب الثقاۃ میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، ابن اثیر نے کامل میں تصریح کے ساتھ لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا حضرت عمر کی زوجہ تھیں۔ ایک دوسری ام کلثوم بھی ان کی زوجہ تھیں، لیکن ان دونوں میں مؤرخوں نے صاف تفریق کی ہے۔ علامہ طبری و ابن حبان و ابن قتیبہ کی تصریحات خود میری نظر سے گزری ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر تاریخی واقعات کے لئے اور کیا سند ہو سکتی ہے۔ وہ خاص عبارتیں اس موقع پر نقل کی جاتی ہیں۔ ثقات بن حبان ذکر خلافۃ عمر واقعات 17 ہجری میں ہے۔ ثم تزوج عمر ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب و ھی من فاطمۃ و دخل بھا فی شھر ذی القعدۃ۔ معارف بن قتیبہ ذکر اولاد عمر میں ہے و فاطمۃ و زید و امھما ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب من فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اسد الغابہ فی احوال الصحابہ لا بن الاثیر میں جہاں حضرت ام کلثوم کا حال لکھا ہے تفصیل کے ساتھ ان کی تزویج کا واقعہ نقل کیا ہے۔ اسی طرح طبری نے بھی جابجا تصریح کی ہے کہ ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صحیح بخاری میں ایک ضمنی موقع پر حضرت ام کلثوم کا ذکر آ گیا ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک دفعہ عورتوں کو چادریں تقسیم کیں۔ ایک بچ رہی۔ اس کی نسبت ان کو تردد تھا کہ کس کو دی جائے۔ ایک شخص نے ان سے مخاطب ہو کر کہا یا امیر المومنین اعط ھذا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی عندک یریدون ام کلثوم (صحیح بخاری باب الجہاد مطبوعہ میرٹھ صفحہ 403)۔ اس میں صاف تصریح ہے کہ ام کلثوم جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ تھیں خاندان نبوت سے تھیں)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اور بیویاں بھی تھیں۔ یعنی ام حلیم بنت الحارث بن ہشام المخزومی، فکیھتہ یمنیہ عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل، عاتکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی چچیری بہن تھیں۔ ان کا نکاح پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرزند عبد اللہ سے ہوا تھا۔ اور چونکہ نہایت خوبصورت تھیں۔ عبد اللہ ان کو بہت چاہتے تھے۔ عبد اللہ غزوہ طائف میں شہید ہو گئے۔ عاتکہ نے نہایت درد انگیز مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔

فالیت لا تنفک عینی حزینۃ
علیک ولا ینفک جلدی اغبرا​

" میں نے قسم کھائی ہے کہ میری آنکھ ہمیشہ تیرے اوپر غمگین رہے گی اور بدن خاک آلود رہے گا۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 12 ہجری میں ان سے نکاح کیا۔ دعوت ولیمہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شریک تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد کثرت سے ہوئی جن میں سے حضرت حفصہ اس لئے زیادہ ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہیں۔ ان کا نکاح پہلے خنیس بن حزافہ کے ساتھ ہوا تھا جو مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔ خنیس جب غزوہ احد میں شہید ہوئے تو وہ ۳ ہجری میں جناب رسول اللہ کے عقد میں آئیں۔ ان سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں اور بہت سے صحابہ نے ان سے یہ حدیثیں روایت کی ہیں۔ 45 ہجری میں 63 برس کی عمر پا کر انتقال کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اولاد ذکور

اولاد ذکور کے یہ نام ہیں۔ عبد اللہ، عبید اللہ، عاصم، ابو شحمہ عبد الرحمٰن، زید، مجیر رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ ان میں سے تین سابق الذکر زیادہ نامور ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

حضرت عبد اللہ فقہ و حدیث کے بڑی رکن مانے جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں ان کے مسائل اور روایتیں کثرت سے مذکور ہیں۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مکہ میں اسلام لائے اور اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب رہے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اور ابن خلکان نے دفیات الاعیان میں ان کا حال تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے ان کے علم و فضل اور زہد و تقدس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ علم و فضل کے علاوہ حق گوئی میں نہایت بیباک تھے۔ ایک دفعہ حجاج بن یوسف کعبہ میں خطبہ پڑھ رہا تھا۔ عین اسی حالت میں انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ " یہ خدا کا دشمن ہے کیونکہ اس نے خدا کے دوستوں کو قتل کیا ہے۔" چنانچہ اس کے انتقام میں حجاج نے ایک آدمی کو متعین کیا جس نے ان کو مسموم آلہ سے زخمی کیا۔ اور اسی زخم سے بیمار ہو کر وفات پائی۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنا معاملہ حکم کے ہاتھ میں دے دیا تو لوگوں نے حضرت عبد اللہ سے آ کر کہا کہ تمام مسلمان آپ کی خلافت پر راضی ہیں۔ آپ آمادہ ہو جایئے تو ہم لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ انہوں نے انکار کیا۔ اور کہا کہ میں مسلمانوں کے خون سے خلافت کو خریدنا نہیں چاہتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سالم بن عبد اللہ

حضرت عبد اللہ کے بیٹے سالم فقہائے سبعہ یعنی مدینہ منورہ کے ان سات فقہأ میں سے محسوب ہوتے ہیں۔ جن پر حدیث و فقہ کا مدار تھا۔ اور جن کے فتوے کے بغیر کوئی قاضی فیصلہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔ سالم کے علاوہ باقی چھ فقہأ کے نام یہ ہیں۔ خارجہ بن زید، عروہ بن الزبیر، سلیمان بن یسار، عبید اللہ بن عبد اللہ، سعید بن المسیب، قاسم بن محمد۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام محدثین کے نزدیک حدیث کے دو سلسلے سب سے زیادہ مستند ہیں، اور محدثین اس سلسلے کو " زنجیر زر " کہتے ہیں۔ یعنی اول وہ حدیث جس کی روایت کے سلسلے میں امام مالک، نافع، عبد اللہ بن عمر ہوں اور دوسری وہ حدیث جس کے سلسلے میں زہری، سالم اور عبد اللہ بن عمر واقع ہوں۔ امام مالک اور زہری کے سوا باقی تمام لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی کے گھرانے کے ہیں۔ عبد اللہ اور ان کے بیٹے سالم اور نافع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عبید اللہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دوسرے بیٹے عبید اللہ شجاعت اور پہلوانی میں مشہور تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عاصم

تیسرے بیٹے عاصم نہایت پاکیزہ نفس اور عالم و فاضل تھے۔ ۷ ہجری میں جب انہوں نے انتقال کیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے ان کا مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔

فلیت المنایا کن خلفن عاصماً
فعشنا جمیعاً او ذھبن بنا معاً​

"کاش موت عاصم کو چھوڑ جاتی تا کہ ہم سب ساتھ رہتے یا لے جاتی تو سب کو لے جاتی۔"

عاصم نہایت بلند قامت اور جسیم تھے اور عمدہ شعر کہتے تھے۔ چنانچہ اہل ادب کا قول ہے کہ شاعر کو کچھ نہ کچھ وہ الفاظ بھی لانے پڑتے ہیں جو مقصود نہیں ہوتے۔ لیکن عاصم اس سے مستثنٰی ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ان ہی کے نواسے تھے۔ ابن قتیبہ نے کتاب المعارف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پوتوں، پڑپوتوں اور نواسوں کا حال بھی لکھا ہے۔ لیکن ہم اختصار کے لحاظ سے قلم انداز کرتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خاتمہ​

لیس من اللہ بمستکر
ان یجمع العالم فی واحد

"خدا کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ تمام عالم کو ایک فرد میں جمع کر دے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سوانح اور حالات تفصیل کے ساتھ اور اس صحت کے ساتھ لکھے جا چکے ہیں جو تاریخی تصنیف کی صحت کی اخیر حد ہے۔ دنیا میں اور جس قدر بڑے بڑے نامور گزرے ہیں ان کی مفصل سوانح عمریاں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اب تمہارے سامنے ہیں اور تم کو اس بات کے فیصلہ کرنے کا موقع ہے کہ تمام دنیا میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کوئی ہم پایہ گزرا ہے یا نہیں؟

قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں کہ فضائل انسانی کی مختلف انواع ہیں۔ اور ہر فضیلت کا جدا راستہ ہے۔ ممکن ہے بلکہ کثیر الوقوع ہے کہ ایک شخص فضیلت کے لحاظ سے تمام دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اور فضائل سے اس کو بہت کم حصہ ملا تھا۔ سکندر سب سے بڑا فاتح تھا۔ لیکن حکیم نہ تھا۔ ارسطو حکیم تھا لیکن کشور کشا نہ تھا۔ بڑے بڑے کمالات تو ایک طرف چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی کسی ایک شخص میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں۔ بہت سے نامور گزرے ہیں جو بہادر تھے مگر پاکیزہ اخلاق نہ تھے۔ بہت سے پاکیزہ اخلاق تھے، لیکن صاحب تدبیر نہ تھے۔ بہت سے دونوں کے جامع تھے لیکن علم و فضل سے بے بہرہ تھے۔

اب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات اور مختلف حیثیتوں پر نظر ڈالو تو صاف نظر آئے گا وہ سکندر بھی تھے اور ارسطو بھی ۔۔۔۔ مسیح بھی تھے سلیمان بھی تھے اور نوشیرواں بھی امام ابو حنیفہ بھی تھے اور ابراہیم ادہم بھی۔

سب سے پہلے حکمرانی اور کشور کشائی کی حیثیت کو لو۔ دنیا میں جس قدر حکمران گزرے ہیں ہر ایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی مشہور مدبر یا سپہ سالار مخفی تھا۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبر یا سپہ سالار نہ رہا تو دفعتہً فتوحات بھی رک گئیں یا نظام حکومت کا ڈھانچہ ہی بکھر گیا۔

سکندر ہر موقع پر ارسطو کی ہدایتوں کا سہارا لے کر چلتا تھا۔ اکبر کے پردے میں ابو الفضل اور ٹوڈر مل کام کرتے تھے۔ عباسیہ کی عظمت و شان برامکہ کے دم سے تھی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو صرف اپنے دست و بازو کا بل تھا۔ خالد کی عجیب غریب معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر لوگوں کو خیال پیدا ہو گیا کہ فتح و ظفر کی کلید انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو معزول کر دیا تو کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کل میں سے کون سا پرزہ نکل گیا ہے۔ سعد بن وقاص فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کو ایسا وہم ہو چلا تھا۔ وہ بھی الگ کر دیئے گئے۔ اور کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود سارا کام نہیں کرتے تھے اور نہ کر سکتے تھے لیکن جن لوگوں سے کام لیتے تھے ان میں سے کسی کے پابند نہ تھے۔ وہ حکومت کی کل کو اس طرح چلاتے تھے کہ جس پرزے کو جہاں سے چاہا نکال لیا۔ اور جہا ں چاہا لگا دیا۔ مصلحت ہوئی تو کسی پرزے کو سرے سے نکال دیا۔ اور ضرورت ہوئی تو نئے پرزے تیار کر لئے۔

دنیا میں کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس کو ملکی ضرورتوں کی وجہ سے عدل و انصاف کے حد سے تجاور نہ کرنا پڑا ہو۔ نوشیرواں کو زمانہ عدل و انصاف کا پیغمبر تسلیم کرتا ہے لیکن اس کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ بخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تمام واقعات کو چھان ڈالو اس قسم کی ایک نظیر بھی نہیں مل سکتی۔

دنیا کے اور مشہور سلاطین جن ممالک میں پیدا ہوئے۔ وہاں مدت سے حکومت کے قواعد اور آئین قائم تھے۔ اور اس لئے ان سلاطین کو کوئی نئی بنیاد نہیں قائم کرنی پڑتی تھی۔ قدیم انتظامات یا خود کافی ہوتے تھے یا کچھ اضافہ کر کے کام چلا لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جس خاک سے پیدا ہوئے وہ ان چیزوں کے نام سے بھی ناآشنا تھی۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے 40 برس تک حکومت و سلطنت کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا اور آغاز شباب تو اونٹوں کے چرانے میں گزرا تھا۔ ان حالات کے ساتھ ایک وسیع مملکت قائم کرنا اور ہر قسم کے ملکی انتظامات مثلاً تقسیم صوبجات و اضلاع کا انتظام مھاصل صیغہ عدالت، فوجداری اور پولیس، پبلک ورکس، تعلیمات، صیغہ فوج کو اس قدر ترقی دینا اور ان کے اصول اور ضابطے مقرر کرنا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا اور کس کا کام ہو سکتا ہے۔

تمام دنیا کے تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہی کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں۔ کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر کر آتا ہو۔ فرش خاک پر پڑ کر سو رہتا ہو۔ بازاروں میں ناپ تول کی دیکھ بھال کرتا پھرتا ہو۔ ہر جگہ جریدہ و تنہا چلا جاتا ہو۔ اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو۔ جس کا دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو۔ اور پھر یہ رعب و داب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دھل جاتی ہو۔ سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے۔ جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا۔ عمر فاروق کے سفر شام میں سواری کے اونٹ کے سوا کچھ ساتھ نہ تھا۔ لیکن چاروں طرف غل پڑا ہوا تھا کہ مرکز عالم جنبش میں آ گیا ہے۔

اب علمی حیثیت پر نظر ڈالو۔ صحابہ میں سے جن لوگوں نے خاص اس کام کو لیا تھا اور رات دن اسی شغل میں بسر کرتے تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن عباس، زید بن ثابت، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بند مسعود رضی اللہ تعالیی عنہم اور ان کے مسائل اور اجتہادات کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مسائل اور اجتہاد سے موازنہ کرو۔ صاف مجتہد و مقلد کا فرق نظر آئے گا۔ زمانہ مابعد میں اسلامی علوم نے بے انتہا ترقی کی اور بڑے بڑے مجتہدین اور آئمہ فن پیدا ہوئے۔ مثلاً امام ابو حنیفہ، شافعی، بخاری، غزالی رازی۔ لیکن انصاف سے دیکھو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جس باب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس پر کچھ اضافہ نہ ہو سکا۔ مسئلہ قضا و قدر، تعظیم شعائر اللہ، حیثیت نبوت، احکام شریعت کا عقلی و نقلی ہونا، احادیث کا درجہ اعتبار، خبر آحاد کی قابلیت احتجاج، احکام خمس و غنیمت، یہ مسائل شروع اسلام سے آج تک معرکہ آرأ رہے ہیں۔ اور آئمہ فن نے ان کے متعلق ذہانت اور طباعی کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔ لیکن انصاف کی نگاہ سے دیکھو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان مسائل کو جس طرح حل کیا تھا۔ تحقیق کا ایک قدم بھی اس سے آگے بڑھ سکا؟ تمام آئمہ فن نے ان کی پیروی کی یا انحراف کیا تو اعلانکہ غلطی کی۔

اخلاق کے لحاظ سے دیکھو تو انبیأ کے بعد اور کون شخص ان کا ہم پایہ مل سکتا ہے؟ زہد و قناعت، تواضع و انکساری، خاکساری و سادگی، راستی و حق پرستی، صبر و رضا، شکر و توکل یہ اوصاف ان میں جس کمال کے ساتھ پائے تھے کیا لقمان، ابراہیم بن ادہم، ابو بکر شبلی، معروف کرخی میں اس سے بڑھ کر پائے جا سکتے ہیں؟

شاہ ولی اللہ صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس خصوصیت (یعنی جامعیت کمالات) کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور ہم اسی پر اپنی کتاب کو ختم کرتے ہیں۔ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

سینہ فاروق اعظم را بمنزلہ خانہ تصور کن کہ درہائے مختلف دارد، در ہر ورے صاحب کمالے نشستہ دریک در مثلاً سکندر ذوالقرنین بآں ہمہ سلیقہ ملک گیری و جہاں ستانی و جمع جیوش و برہم زدن اعدأ و در دریگر نوشیروانے بآں ہمہ رفق و لین و رعیت پروری و داد گستری (اگرچہ ذکر نوشیرواں در مبحث فضائل حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سؤ ادب است) و در در دیگر امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ یا امام مالک رحمتہ اللہ بآں ہمہ قیام بہ علم فتویٰ و احکام و در در دیگر مرشدے مثل سید عبد القادر جیلانی یا خواجہ بہاؤ الدین و در در دیگر محدثے بروزن ابو ہریرہ ابن عمر د و در در دیگرے حکیمے مانند مولانا جلال الدین رومی یا شیخ فرید الدین عطارد مرد ماں گردا گرد ایں خانہ ایستادہ اند۔ وہر محتاجےحاجت خودرا از صاحب فن درخواست می نمایدد و کامیاب می گردو۔

شبلی نعمانی
مقام کشمیر
5 جولائی 1898 عیسوی

ختم شد
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top