"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے سے قائم ہوا

نماز کے اعلان کے لئے جب ایک معین طریقہ کی تجویز پیش ہوئی تو لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں۔ کسی نے ناقوس کا نام لیا۔ کسی نے ترہی کی رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کیا جائے، جو نماز کی منادی کیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت بلال کو حکم دیا کہ اذان دیں۔ چنانچہ یہ پہلا دن تھا کہ اذان کی طریقہ قائم ہوا اور درحقیقت ایک مذہبی فرض کے لئے اس سے زیادہ کوئی طریقہ مؤسر اور موزن نہیں ہو سکتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسیران بدر

اسیران بدر کے معاملے میں جب اختلاف ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جو رائے دی وحی اسی کے موافق آئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ازواج مطہرات کا پردہ

آنحضرت کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن پہلے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس پر بارہا خیال ہوا۔ اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا انتظار فرماتے تھے۔ چنانچہ خاص پردہ کی آیت نازل ہوئی جس کو آیت حجاب کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
منافقوں پر نماز جنازہ

عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا۔ جب مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلق نبوی کی بنأ پر اس کے جنازہ کی نماز پڑھنی چاہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شدت سے منع کیا کہ آپ منافق کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری " ولا تصل علی احد منھم" یہ تمام واقعات صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے صائب کا نتیجہ تھا کہ قرآن مجید مدون مرتب ہوا، ورنہ حضرت ابو بکر اور زید بن ثابت (کاتب وحی) دونوں صاحبوں نے پہلے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔

تمام مذہبی اور ملکی اہم مسائل میں جہاں جہاں صحابہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اختلاف ہوا (باستثنائے بعض) عموماً عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائیں صائب نکلیں، ممالک مفتوحہ کے متعلق اکثر صحابہ متفق الرائے تھے کہ فوج کو تقسیم کر دیئے جائیں۔ ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس رائے کے خلاف تھے اور اگر لوگوں نے ان کی رائے کو نہ مانا ہوتا تو اسلامی مملکت آج کاشت کاری کے اعتبار سے بدتر ہوگئی ہوتی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ و حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ دونوں فتوحات کی آمدنی میں ہر شخص کا برابر حصہ لگاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حقوق اور کارگزاری کے فرق مراتب کے لحاظ سے مکتلف شرحیں قرار دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امہات اولاد کی خرید و فروخت کو جائز رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مخالفت کی۔ ان تمام واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کو جو ترجیح ہے وہ محتاج دلیل نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
قابلیت خلافت کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے

خلافت کے متعلق جب بحث پیدا ہوئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد کون اس بار گراں کو اٹھا سکتا ہے؟ تو چھ صاحبوں کے نام لئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہر ایک سے متعلق خاص خاص رائیں دیں اور وہ سب صحیح نکلیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
نکتہ سنجی اور غور رسی

وہ ہر کام میں غور و فکر کو عمل میں لاتے تھے اور ظاہری باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ :

لا یعجبنکم من الرجال طنطنۃ
"یعنی کسی کی شہرت کا آوازہ سن کر دھوکے میں نہ آؤ۔"

اکثر کہا کرتے تھے :

لا تنظروا الیٰ صلوٰۃ امر اولا صیامہ ولکن انظروا الیٰ عقلہ و صدقہ۔
"یعنی آدمی کی نماز، روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اس کی سچائی اور عقل کو دیکھو۔"

ایک دفعہ ایک شخص نے ان کے شامنے کسی کی تعریف کی، فرمایا کہ تم سے بھی معاملہ پڑا ہے؟ اس نے کہا نہیں، پوچھا، کبھی سفر میں ساتھ ہوا ہے۔ اس نے کہا نہیں، فرمایا کہ تو تم وہ بات کہتے ہو جو جانتے نہیں (یہ قول ازالتہ اخفأ حصہ دوم صفحہ 197 میں نقل کیا ہے)۔ احادیث کے باب میں بڑی غلطی جو لوگوں سے ہوئی یہی تھی کہ اکثر محدثین جس کو زاہد و پارسا دیکھتے تھے ثقہ سمجھ کر اس سے روایت شروع کر دیتے تھے۔ عبد الکریم بن ابی المخارق جو ایک ضعیف الروایہ شخص تھا اس سے امام مالک نے روایت کی۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا۔

غرنی بکثرۃ جلوسہ فی المسجد (فتح المغیث صفحہ 138)۔
"یعنی اس بات نے مجھ کو دھوکہ دیا کہ وہ کثرت سے مسجد میں بیٹھا کرتا تھا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مذہبی زندگی

دن کو مہمات خلافت کی وجہ سے کم فرصت ملتی تھی اس لیے عبادت کا وقت رات کو مقرر تھا۔ معمول تھا کہ رات کو نفلیں پڑھتے تھے۔ جب صبح ہونے کو آتی تو گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے " وامر اھلک بالصلوۃ" (مؤطا امام ملک)۔ فجر کی نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ 120 آیتین پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عامر کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ ان کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ یوسف اور سورۃ حج پڑھی تھی۔ سورۃ یونس، کہف اور سورۃ ہود کا پڑھنا بھی ان سے مروی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نماز

نماز جماعت کے ساتھ پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں اس کو تمام رات عبادت پر ترجیح دیتا ہوں۔ کوئی ضروری کام آ پڑتا اور وقت کی تاخیر کا خوف نہ ہوتا تو پہلے اس کو انجام دیتے۔ ایک دفعہ اقامت ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو چکی تھیں۔ ایک شخص صف سے نکل کر ان کی طرف بڑھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے۔ فرمایا کرتے تھے : کھانے سے فارغ ہو کر نماز پڑھو۔ بعض اوقات جہاد وغیرہ کے اہتمام میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ نماز میں بھی وہی خیال بندھا رہتا تھا۔ خود ان کا قول ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور فوجیں تیار کرتا ہوں۔

ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے نماز میں بحرین کے جزیرہ کا حساب کیا۔ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے کہ آیت " فلیعبدوا رب ھذا البیت" آئی تو کعبہ کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ نماز میں اس قدر اشارہ کرنا جائز ہے (ازالتہ الخفأ بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ۹۳)۔ بعض اوقات جمعہ کا خطبہ پڑھتے پڑھتے کسی سے مخاطب ہو جاتے۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جمعہ میں دیر ہو گئی اور مسجد میں اس وقت پہنچے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خطبہ شروع کر دیا تھا۔ عین خطبہ کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی طرف دیکھا اور کہا یہ کیا وقت ہے؟ انہوں نے کہا میں بازار سے آ رہا تھا کہ اذان سنی فوراً وضو کر کے حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا وضو پر کیوں اکتفا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
روزہ

ابو بکر بن شیبہ نے روایت کیا ہے کہ مرنے سے دو برس پہلے متصل روزے رکھنے شروع کئے تھے۔ اور انہی کی یہ روایت بھی کہ ایک شخص کی نسبت سنا کہ وہ صائم الدہر ہے تو اس کے مارنے کے لئے درہ اٹھایا (ازالتہ الخفأ صفحہ 102)۔
 

شمشاد

لائبریرین
حج ہر سال کرتے تھے اور خود امیر قافلہ ہوتے تھے

قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیوں ابو موسیٰ! تم اس پر راضی ہو کہ ہم لوگ جو اسلام لائے اور ہجرت کی اور رسول اللہ کی خدمت میں ہر گھڑی موجود رہے۔ ان تمام باتوں کا صلہ ہم کو یہ ملے کہ برابر سرابر پر چھوٹ جائیں، نہ ہم کو ثواب ملے نہ عذاب، ابو موسیٰ نے کہا نہیں ہم تو اس پر ہرگز راضی نہیں۔ ہم نے بہت سی نیکیاں کی ہیں اور ہم کو بہت کچھ امید ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے کہ میں تو صرف اسی قدر چاہتا ہوں کہ ہم بے مواخذہ چھوٹ جائیں۔" مرنے کے وقت یہ شعر پڑھتے تھے۔

ظلوم لنفسی غیر انی مسلم
اصلی الصلوٰۃ کلھا و اصوم​
 

شمشاد

لائبریرین
بے تعصبی

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مذہب کی مجسم تصویر تھے لیکن زاہد متقشف نہ تھے۔ ہمارے علمأ عیسائیوں کا برتن وغیرہ استعمال کرنا تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت امام بخاری رحمۃ اللہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔ توضاً من مأ جئی بہ عند نصرانیۃ (ازالتہ الخفأ صفحہ 88 جلد دوم)۔ بغوی کی روایت اس سے زیادہ صاف ہے۔ توضاً عمر من مأ فی جر نصرانیۃ (ازالتہ الخفأ صفحہ 138)۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائی عورت کے گھڑے کے پانی سے وضو کیا۔ بغوی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ عیسائی جو پنیر بناتے ہیں اس کو کھاؤ (ازالتہ الخفأ صفحہ 138)۔ عیسائیوں وغیرہ کا کھانا آج مکروہ اور ممنوع بتایا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے معاہدات میں یہ قاعدہ داخل کر دیا تھا کہ جب کسی مسلمان کا گزر ہو تو عیسائی اس کو تین دن مہمان رکھیں۔ آج غیر قوموں سے عداوت اور ضد رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ حال تھا کہ مرتے مرتے بھی عیسائی اور یہودی رعایا کو نہ بھولے۔ چنانچہ ان کی نسبت رحم اور ہمدردی کی جو وصیت کی وہ صحیح بخاری و کتاب الخراج وغیرہ میں مذکور ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس امر کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے محاسن و فضائل میں شمار کیا ہے کہ وہ اہل ذمہ (عیسائی اور یہودی جو مسلمانوں کے ملک میں رہتے تھے) کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے خالص الفاظ یہ ہیں " و ازاں جملہ آنکہ باحسان اہل ذمہ تاکید فرمود۔" (ازالتہ الخفأ صفحہ 73 جلد دوم)۔

محب طبری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے افسروں کو عیسائیوں کو ملازم رکھنے سے بھی منع کرتے تھے۔ افسوس ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی ان روایتوں کو قبول کیا ہے۔ لیکن جس شخص نے محب طبری کی کتاب (ریاض النضرۃ) دیکھی ہے وہ پہلی نظر میں سمجھ سکتا ہے کہ ان روایتوں کا کیا پایہ ہے۔ ان بزرگوں کو بھی یہ خبر نہیں کہ عراق، مصر، شام کا دفتر مال گزاری جس قدر تھا سریانی و قبطی وغیرہ زبانوں میں تھا۔ اور اس وجہ سے دفتر مال گزاری کے تمام عمال مجوسی یا عیسائی تھے۔ ملازمت اور خدمت ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو فن فرائض کی ترتیب اور درستی کے لئے بھی ایک رومی عیسائی کو مدینہ منورہ میں طلب کیا تھا، چنانچہ علامہ بلاذری نے اس واقعہ کو کتاب الاشراف میں بتصریح لکھا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔

ابعث الینا برومی یقیم لنا حساب فرائضنا۔
"ہمارے پاس ایک رومی کو بھیج دو جو فرائض کے حساب کو درست کر دے۔"

آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ معظمہ نہیں جا سکتا اور یہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں غیر مذہب والے بے تکلف مکہ معظمہ جاتے تھے۔ اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں (کتاب الخراج صفحہ ۷۸ – ۷۰)۔ آجکل یورپ والے جو اسلام پر تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ اسلام کی صحیح تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میں نظر آ سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علمی صحبتیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں اکثر علمی مسائل پر گفتگو ہوا کرتی۔ ایک دن صحابہ بدر (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں رسول اللہ کے شریک تھے) مجلس میں جمع تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مجمع صحابہ کی طرف خطاب کر کے کہا، اذا جآٔ نصر اللہ والفتح سے کیا مراد ہے؟ بعضوں نے کہا کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ جب فتح حاصل ہو تو ہم خدا کا شکر بجا لائیں۔ بعض بالکل چپ رہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف دیکھا، انہوں نے کہا " اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے، یعنی اے محمد! جب فتح و نصرت آ چکی تو یہ تیرے دنیا سے اٹھنے کی علامت ہے اس لئے تو خدا کی حمد کر اور گناہ کی معافی مانگ، بے شک خدا بڑا قبول کرنے والا ہے۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جو تم نے کہا یہی میرا خیال ہے (صحیح بخاری مطبوعہ صفحہ 451)۔

ایک اور دن صحابہ کا مجمع تھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شریک تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس آیت کے معنی پوچھے " ایود احد کم ان تکون لہ جنۃ " لوگوں نے کہا کہ خدا زیادہ جانتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس لاحاصل جواب پر غصہ آیا۔ اور کہا کہ نہیں معلوم ہے تو صاف کہنا چاہیے کہ معلوم نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ آیت کے صحیح معنی جانتے تھے۔ لیکن کم عمری کی وجہ سے جھجکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نےان کی طرف دیکھا اور کہا کہ صاحبزادے! اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو، جو تمہارے خیال میں ہو بیان کرو۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا خدا نے ایک کام کرنے والے شخص کی تمثیل دی ہے۔ چونکہ جواب ناتمام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس پر قناعت نہ کی لیکن عبد اللہ بن عباس اس سے زیادہ نہ بتا سکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یہ اس آدمی کی تمثیل ہے جس کو خدا نے دولت و نعمت دی کہ خدا کی بندگی بجا لائے۔ اس نے نافرمانی کی تو اس کے اعمال بھی برباد کر دیئے۔

ایک دفعہ مہاجرین صحابہ میں سے ایک صاحب نے شراب پی اور اس جرم میں ماخوذ ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سزا دینی چاہی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے کہ ہم لوگ اس گناہ کی سزا کے مستوجب نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ آیت لیس علی الذین امنو و عملوا الصلحت جناح طیما طعموا "یعنی جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام کئے انہوں نے جو کچھ کھایا پیا ان پر الزام نہیں۔" استدلال میں پیش کر کے کہا کہ " میں بدر، خندق، حدیبیہ اور دیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اس لئے میں ان لوگوں میں داخل ہوں جنہوں نے اچھے کام کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے صحابہ کی طرف دیکھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بولے کہ یہ معافی پچھلے زمانہ کے متعلق ہے یعنی جن لوگوں نے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے شراب پی، ان کے اور اعمال اگر صالح ہیں تو ان پر کچھ الزام نہیں۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی۔ جس میں شراب کی ممانعت کا صریح حکم ہے (ازالتہ الخفأ بحوالہ روایت ھاکم صفحہ 213)۔

یا یھا الذین امنو انما الخمرو المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ارباب صحبت

جن لوگوں سے صحبت رکھتے تھے وہ عموماً اہل علم و فضل ہوتے تھے۔ اور اس میں وہ نوعمر اور معمروں کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 449 بغوی نے زہری سے روایت کی ہے کہ کان مجلس عمر منقافی القرأ ، ازالتہ الخفأ صفحہ 119)۔

و کان القرآٔ اصحاب مجالس عمر و مشاورتہ کھولاً کانو شباناً۔

" یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اہل مجلس اور اہل مشورت علمأ تھے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان۔"

فقہ کا بہت بڑا حصہ جو منقح ہوا اور فقہ عمری کہلاتا ہے، انہی مجلسوں کی بدولت ہوا۔ اس مجلس کے بڑے بڑے ارکان ابی ابن کعب، زید بن ثابت، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد الرحمٰن بن عوف، حر بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہم تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان تمام لوگوں کو علمی فضیلت کی وجہ سے نہایت عزیز رکھتے تھے۔ معمول تھا کہ جب مجلس میں بیٹھتے تو امتیاز مراتب کے لحاظ سے لوگوں کو باریابی کی اجازت دیتے یعنی پہلے قدمائے صحابہ آتے پھر ان سے قریب والے و علی ھذا لیکن کبھی کبھی یہ ترتیب توڑ دی جاتی اور یہ امر خاص ان لوگوں کے لئے ہوتا جو علم کی فضیلت میں ممتاز ہوتے تھے۔ چنانچہ (فتح الباری شرح بخاری – تفسیر اذا جأ نصر اللہ) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قدمائے صحابہ کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔ تاہم یہ حکم دیا کہ سوال و جواب میں اور بزرگوں کی ہمسری نہ کریں۔ یعنی جو کچھ کہنا ہو سب کے بعد کہیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جو لوگ عمر میں کم تھے مسائل کے متعلق رائے دینے میں جھجکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو ہمت دلاتے اور فرماتے کہ علم سن (عمر) کی کمی یا زیادتی پر نہیں ہے (از ازالتہ الخفأ بحوالہ بغوی صفحہ 119)۔ عبد اللہ بن عباس اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ ان کی شرکت پر بعض اکابر صحابہ نے شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی خصوصیت کی وجہ بتائی۔ اور ایک علمی مسئلہ پیش کیا جس کا جواب بجز عبد اللہ بن عباس کے اور کسی شخص نے صحیح نہیں دیا۔ عبد اللہ بن مسعود کی بھی قدر کرتے تھے۔ 21 ہجری میں جب ان کو کوفہ کا مفتی اور افسر خزانہ مقرر کر کے بھیجا تو اہل کوفہ کو لکھا کہ " میں ان کو معلم اور وزیر مقرر کر کے بھیجتا ہوں اور میں نے تم لوگوں کو اپنے آپ پر ترجیح دی ہے کہ ان کو اپنے پاس سے جدا کرتا ہوں۔" بارہا ایسا ہوا کہ جب کسی مسئلہ کو عبد اللہ بن مسعود نے حل کیا تو ان کی شان میں فرمایا۔

کلیف ملئی علماً۔
" یعنی ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔"

اگرچہ فصل و کمال کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ تاہم وہ اہل کمال کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے جس طرح خود بزرگ کے ساتھ پیش آتے تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ اخفأ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ابی ابن کعب کی نہایت تعظیم کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے۔ ابی نے جب انتقال کیا تو فرمایا کہ آج مسلمانوں کا سردار اٹھ گیا۔ زید بن ثابت کو اکثر اپنی غیر حاضری میں اپنا جانشین مقرر کرتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو کچھ نہ کچھ جاگیر کے طور پر ان کو عطا کرتے تھے (سیر العمر بن لابن الجوزی)۔ اسی طرح ابو عبیدہ، سلمان فارسی، عمیر، سعد، ابو موسیٰ اشعری، سالم، ابو دردا، عمران بن حصین وغیرہ کی نہایت عزت کرتے تھے۔ بہت سے صحابہ تھے جن کے روزینے فقط اس بنأ پر مقرر کئے تھے کہ وہ فضل و کمال میں ممتاز ہیں۔ ابوذر غفاری جنگ بدر میں شریک نہ تھے لیکن ان کا روزینہ اصحاب بدر کے برابر مقرر کیا تھا۔ اسی بنأ پر کہ وہ فضل و کمال میں اور لوگوں سے کم نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اہل کمال کی قدردانی

ان کی قدردانی کسی خاص گروہ تک محدود نہ تھی۔ کسی شخص میں کسی قسم کا جوہر ہوتا تھا تو اس کے ساتھ خاص مراعات کرتے تھے۔ عمیر بن وہب الجملی کا وظیفہ 200 دینار سالانہ اس بنأ پر مقرر کیا کہ وہ پُرخطر معرکوں میں ثابت قدم رہتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 452)۔ خارجہ بن حذافہ اور عثمان بن ابی العاص کے وظیفے اس بنأ پر مقرر کئے کہ خارجہ بہادر اور عثمان نہایت فیاض تھے (کنز العمال جلد دوم صفحہ 310)۔
 

شمشاد

لائبریرین
لطیفہ

ایک دفعہ مغیرہ بن شعبہ کو حکم بھیجا کہ کوفہ میں جس قدر شعرأ ہیں ان کے کے وہ اشعار جو انہوں نے زمانہ اسلام میں کہے ہیں لکھوا کر بھیجو۔ مغیرہ نے پہلے اغلب عجلی کو بلوایا۔ اور شعر پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے یہ شعر پڑھا۔

لقد طلبت ھنیاً موجوداً
ار جزاً تریدام قصیداً​

"تم نے بہت آسان چیز کی فرمائش کی ہے، بولو قصیدہ چاہتے ہو یا رجز؟"

پھر لبید کو بلا کر یہ حکم سنایا۔ وہ سورۃ بقرہ لکھ کر لائے کہ خدا نے شعر کے بدلے مجھ کو یہ عنایت کیا ہے۔ مغیرہ نے یہ پوری کیفیت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ کر بھیجی۔ وہاں سے جواب آیا کہ " اغلب کے روزینے میں سے گھٹا کر لبید کے روزینے میں پانسو کا اضافہ کر دو" اغلب نے حضرت عمر کی خدمت میں عرض کیا کہ بجا آوری حکم کا یہ صلہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لبید کے اضافہ کے ساتھ اس کی تنخواہ بھی بحال رہنے دی۔ اس زمانے میں جس قدر اہل کمال تھے مثلاً شعرأ، خطبأ، نساب، بہادر سب ان کے دربار میں آئے اور ان کی قدردانی سے مشکور ہوئے۔ اس زمانہ کا سب سے بڑا شاعر متمم بن نویرہ تھا جس کے بھائی کو ابو بکر صدیق کے زمانے میں حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور مرثیے کہا کرتا۔ جس طرف نکل جاتا، زن و مرد اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس سے مرثیے پڑھوا کر سنتے۔ مرثیے پڑھنے کے ساتھ خود روتا جاتا تھا اور سب کو رولاتا جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضرہوا تو آپ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے چند اشعار پڑھے۔اخیر کے شعر یہ تھے۔

و کنا کندمأ جذیمۃ حقبۃ
من الدھر حتی قبل لن یتصدعا

فلما تفرقنا کانی وما لکاً
لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا​

"ایک مدت تک ہم دونوں جذیمہ (ایک بادشاہ کا نام ہے) کے ندیممو کے مثل رہے، یہاں تک کہ لوگوں نے کہا اب یہ جدا نہ ہوں گے، پھر جب ہم دونوں جدا ہو گئے تو گویا ایک رات بھی ہم دونوں نے ساتھ بسر نہیں کی تھی۔"

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے متمم سے خطاب کر کے کہا کہ اگر مجھ کو ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا امیر المومنین! اگر میرا بھائی آپ کے بھائی کی طرح (یعنی شہید ہو کر) مارا جاتا تو میں ہر گز اس کا ماتم نہ کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ " متمم نے جیسی میری تعزیت کی کسی نے نہیں کی۔"

اسی زمانے میں ایک اور بڑی مرثیہ گو شاعرہ خنسا تھی۔ اس کا دیوان آج بھی موجود ہے جس میں مرثیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنسأ کا مثل نہیں پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو کعبہ میں روتے اور چیختے دیکھا۔ پاس جا کر تعزیت کی۔ اور جب اس کے چار بیٹے جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے تو چاروں کی تنخواہیں اس کے نام جاری کر دیں۔

پہلوانی اور بہادری میں دو شخص طلیحہ بن خالد اور عمرو معدی کرب تمام عرب میں ممتاز تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دونوں کو اپنے دربار میں بار دیا۔ اور قادسیہ کے معرکے میں جب ان کو بھیجا تو سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھا کہ میں دو ہزار سوار تمہارے مدد کو بھیجتا ہوں۔ عمرو معدی کرب پہلوانی کے ساتھ ساتھ خطیب اور شاعر بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سے فنون حرب کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جلسہ میں قبائل عرب اور اسلحہ جنگ کی نسبت جو سوالات کئے اور عمرو معدی کرنے ایک ایک کی نسبت جن مختصر اور بلیغ فقروں میں جواب دیئے اس کو اہل عرب نے عموماً اور مسعودی نے مروج الذہب میں بتفصیل لکھا ہے۔ چنانچہ نیزہ کی نسبت پوچھا تو کہا۔

اخوک و ربما خانک
"یعنی تیرا بھائی ہے لیکن کبھی کبھی دغا دے جاتا ہے۔"

پھر تیروں کی نسبت پوچھا تو کہا۔
برد المنایا خطی و تصیب
"یعنی موت کے قاصد ہیں کبھی منزل تک پہنچتے ہیں اور کبھی بہک جاتے ہیں۔"

ڈھال کی نسبت کہا۔
علیہ تدور الدوائر

اسی طرھ ایک ایک ہتھیار کی نسبت عجب عجب بلیغ فقرے استعمال کئے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس طریق عمل نے عرب کے تمام قابل آدمیوں کو دربار خلافت میں جمع کر دیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کی قابلیتوں سے بڑے بڑے کام لئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
متعلقین جناب رسول اللہ کا پاس و لحاظ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کا نہایت پاس کرتے تھے۔ جب صحابہ وغیرہ کے روزینے مقرر کرنے چاہے تو عبد الرحمٰن بن عوف وغیرہ کی رائے تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مقدم رکھے جائیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار کیا اور کہا کہ ترتیب مدارج میں سب مقدم آنحضرت کے تعلقات کے قرب و بعد کا لحاظ ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قبیلہ بنو ہاشم سے شروع کیا۔ اور اس میں بھی حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ناموں سے ابتدأ کی۔ بنو ہاشم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت میں قریب بنو امیہ تھے۔ پھر بنو عبد الشمس، بنو نوفل، پھر عبد الغریٰ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبیلہ بنو عدی پانچویں درجے میں پڑتا ہے۔ چنانچہ اسی ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے۔ تنخواہوں کی مقدار میں بھی اسی کا لحاظ رکھا۔ سب سے زیادہ تنخواہیں جن لوگوں کی تھیں وہ اصحاب بدر تھے۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم اگرچہ اس گروہ میں نہ تھے۔ لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں، رسول اللہ کی ازواج مطہرات کی تنخواہیں بارہ بارہ ہزار مقرر کیں۔ اور یہ سب سے بڑی مقدار تھی۔ اسامہ بن زید کی تنخواہ جب اپنے فرزند عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی تو عبد اللہ نے عذر کیا۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے (تمام تفصیل کتاب الخراج صفحہ 24 – 25 میں ہے)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حضرت ابو بکر کی ابتدائے خلافت میں (جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں) کسی قدر شکر رنجی رہی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے چھ مہینے تک حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت پر بیعت نہیں کی۔ چنانچہ صحیح بخاری باب غزوہ خیبر میں ہے کہ چھ مہینے کے بعد یعنی جب فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہاکا انتقال ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مصالحت اور بیعت کی غرض سے بلانا چاہا۔ لیکن یہ کہلا بھیجا کہ آپ تنہا آئیں۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی موجودگی پسند نہیں کرتے تھے (بخاری کے اصلی الفاظ یہ ہیں کہ کراھیۃً لمحجر عمر)۔

لیکن رفتہ رفتہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلافت کا ملال جاتا رہا تو بالکل صفائی ہو گئی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بڑی بری مہمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کے بغیر کام نہیں کرتے تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورے دیتے تھے۔ نہاوند کے معرکے میں ان کو سپہ سالار بھی بنانا چاہا لیکن انہوں نے منظور نہیں کیا۔ بیت المقدس گئے تو کاروبار خلافت انہی کے ہاتھ میں دے کر گئے۔ اتحاد و یگانگت کا اخیر مرتبہ یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جو فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بطن سے تھیں ان کے عقد میں دے دیا۔ چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخلاق، عادات، تواضع و سادگی

ان کے اخلاق و عادات کے بیان میں مؤرخین نے تواضع اور سادگی کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور درحقیقت ان کی عظمت و شان کے تاج پر سادگی کا طرہ نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ روم و شام پر فوجیں بھیج رہے ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے معاملہ پیش ہے۔ خالد و امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے باز پرس ہے، سعد بن ابی وقاص، ابو موسیٰ اشعری، عمرو بن العاص کے نام احکام لکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ بدن پر بارہ پیوند لگا کرتہ ہے۔ سر پر پھٹا سا عمامہ ہے۔ پاؤں میں پھٹی جوتیاں ہیں پھر اس حالت میں یا تو کاندھے پر مشک لئے جا رہے ہیں کہ بیوہ عورتوں کے گھر پانی پہنچا دیں۔ یا مسجد کے کسی گوشے میں فرش خاک پر لیٹے ہیں۔ اس لئے کہ کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں اور نیند کی جھپکی سی آ گئی ہے (کتاب مذکورہ صفحہ 387 باب الزہد)۔

بارہا مکہ سے مدینہ تک سفر کیا، لیکن خیمہ یا شامیانہ کبھی ساتھ نہیں رہا۔ جہاں ٹھہرے کسی درخت پر چادر ڈال دیا اور اسی کے سائے میں پڑ رہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ ان کی روزانہ خانگی خرچ دو درہم تھا جس کے کم بیش ۱۰ آنے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ احتف بن قیس رؤسائے عرب کے ساتھ ان سے ملنے کو گئے۔ دیکھا تو دامن چڑھائے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ احتف کو دیکھا کر کہا " آؤ تم بھی میرا ساتھ دو۔ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے۔ تم جانتے ہو ایک اونٹ میں کتنےغریبوں کا حق شامل ہے۔" ایک شخص نے کہا کہ امیر المومنین آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، کسی غلام کو حکم دیجیئے وہ ڈھونڈ لائے گا۔ فرمایا ای عبدا عبد منی "یعنی مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے۔"

مؤطا امام محمد میں روایت ہے کہ جب شام کا سفر کیا تو شہر کے قریب پہنچ کر قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترے۔ اسلم ان کا غلام بھی ساتھ تھا۔ فارغ ہو کر آئے تو (بھول کر یا کسی مصلحت سے) اسلم کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ ادھر اہل شام بھی استقبال کو آ رہے تھے۔ جو آتا پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا اور آپس میں حیرت سے سرگوشیاں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ان کی نگاہیں عجمی شان و شوکت ڈھونڈ رہی ہیں (وہ یہاں کہاں)۔

ایک خطبہ میں کہا کہ " صاحبو! ایک زمانے میں میں اس قدر نادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لا دیا کرتا تھا۔ اس کے صلے میں وہ مجھ کو چھوہارے دیتے تھے۔ وہی کھا کر بسر کرتا تھا۔" یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ منبر پر کہنے کی کیا بات تھی۔ فرمایا کہ میری طبیعت میں ذرا سا غرور آ گیا تھا یہ اس کی دوا تھی۔

23 ہجری میں سفر حج کیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کی سطوت و جبروت کا آفتاب نصف النہار پر آ گیا تھا۔ سعید بن المسیب جو ایک مشہور تابعی گزرے ہیں وہ بھی اس سفر میں شریک تھے۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جب البطح میں پہنچے تو سنگریزے سمیٹ کر اس پر کپڑا ڈال دیا اور اسی کو تکیہ بنا کر فرش خاک پر لیٹ گئے۔ پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا اے خدا! میری عمر اب زیادہ ہو گئی ہے۔ اب قویٰ کمزور ہو گئے۔ اب مجھ کو دنیا سے اٹھا لے (مؤطا امام محمد صفحہ 304)۔
 

شمشاد

لائبریرین
زندہ دلی

اگرچہ خلافت کے افکار نے ان کو خشک مزاج بنا دیا تھا۔ لیکن یہ ان کی طبع حالت نہ تھی کبھی کبھی موقع ملتا تو زندہ دلی کے اشغال سے جی بہلاتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے رات بھر اشعار پڑھوایا کئے۔ "جب صبح ہونے لگی تو کہا کہ اب قرآن پڑھو۔" محدث ابن الجوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے۔ ایک طرف سے گانے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے اور دیر تک کھڑے سنتے رہے۔ ایک دفعہ سفر حج میں حضرت عثمان، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم وغیرہ ساتھ تھے۔ عبد اللہ بن زبیر اپنے ہم سنوں کے ساتھ چہل کرتے تھے۔ اور حظل کے دانے اچھالتے چلتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ صرف اس قدر فرماتے تھے کہ دیکھو اونٹ بھڑکنے نہ پائیں۔ لوگوں نے رباح سے حدی گانے کی فرمائش کی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خیال سے رکے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کچھ ناراضی نہ ظاہر کی تو رباح نے گانا شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی سنتے رہے۔ جب صبح ہو چلی تو فرمایا کہ " بس اب خدا کے ذکر کا وقت ہے (ازالتہ الخفأ صفحہ 204)۔ ایک دفعہ حج میں ایک سوار گاتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ آپ اس کو منع نہیں کرتے۔ فرمایا کہ گانا شتر سواروں کا زاد راہ ہے (ازالتہ الخفأ صفحہ 198)۔ خوات بن جبیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سفر میں، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ تھا۔ ابو عبیدہ اور عبد الرحمٰن بن عوف بھی ہمرکاب تھے۔ لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ ضرار کے اشعار گا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ اپنے اشعار گائیں چنانچہ میں نے گانا شروع کیا اور ساری رات گاتا رہا (ازالتہ الخفأ صفحہ 198)۔
 

شمشاد

لائبریرین
مزاج کی سختی

مزاج قدرتی طور پر نہایت تند، تیز اور زود مشتعل واقع ہوا تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں تو وہ قہر مجسم تھے۔ لیکن اسلام کے بعد بھی مدتوں تک اس کا اثر نہیں گیا۔

غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہے کافروں نے بنو ہاشم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لیا ورنہ وہ خود کبھی نہ آتے۔ اس لئے اگر ابو الخبری یا عباس وغیرہ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا۔ ابو حذیفہ بول اٹھے کہ ہم اپنے باپ، بیٹے، بھائی سے درگزر نہیں کرتے تو بنو ہاشم میں کیا خصوصیت ہے۔ واللہ اگر عباس مجھ کو ہاتھ ائیں گے تو میں ان کو تلوار کا مزہ چکھاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ گستاخی ناگوار گزری۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مخاطب ہو کر فرمایا ابو حفص (حضرت عمر کی کنیت تھی) دیکھتے ہو، عم رسول کا چہرہ تلوار کے قابل ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے آپے سے باہر ہو گئے۔ اور کہا کہ " اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر اڑا دوں۔" ابو حذیفہ بڑے رتبہ کے صحابی تھے، اور یہ جملہ اتفاقیہ ان کی زبان سے نکل گیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کچھ مؤاخذہ نہیں کیا۔

حاطب بن ابی بلتعہ ایک معزز صحابی تھے۔ اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک ضرورت سے کفار مکہ سے خفیہ خط و کتابت کی۔ یہ راز کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برافروختہ ہو کر آنحضرت کے پاس پہنچے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مجھ کو اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کر دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن الخطاب تجھ کو معلوم نہیں۔ خدا نے اہل بدر سے کہہ دیا ہے کہ تم جو چاہو کرو۔ میں سب معاف کر دوں گا۔ ذوالخویصرہ ایک شخص نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گستاخانہ کہا " عدل اختیار کر" حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ غصے سے بیتاب ہو گئے۔ اور چاہا کہ اس کو قتل کر دیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا۔

ان واقعات سے تم کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس طرح ہر موقع پر ان کی تلوار نیام سے نکلی پڑتی تھی اور کافر تو کافر خود مسلمان کے ساتھ ان کا کیا سلوک تھا۔ لیکن السلام کی برکت اور عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی احتیاط اور خلافت کی مہمات نے ان کو رفتہ رفتہ نرم اور حلیم بنا دیا۔ یہاں تک کہ خلافت کے زمانے میں وہ کافروں تک کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا برتاؤ کرتے تھے آج مسلمانوں سے مسلمان نہیں کرتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آل اولاد کے ساتھ محبت

ان کی خانگی زندگی کے حالات کم معلوم ہیں۔ قرائن سے اس قدر ثابت ہے کہ وہ ازواج و اولاد کے بہت دلدادہ نہ تھے۔ اور خصوصاً ازواج کے ساتھ ان کو بالکل شغف نہ تھا۔ جس کی وجہ زیادہ یہ تھی کہ وہ عورتوں کی جس قدر عزت کرنی چاہیے تھی نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری باب اللباس میں خود ان کا قول مذکور ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو بالکل ہیج سمجھتے تھے۔ جب قرآن نازل ہوا اور اس میں عورتوں کا ذکر آیا تو ہم سمجھے کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں۔ تاہم ہم ان کو معاملات میں بالکل دخل نہیں دینے دیتے تھے۔ اسی روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنی بیوی کو سخت سست کہا۔ انہوں نے بھی برابر کا جواب دیا۔ اس پر کہا اب تمہارا یہ رتبہ پہنچا۔ وہ بولیں کہ تمہاری بیٹی بھی رسول اللہ سے دوبدو ایسی باتیں کرتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ کی ایک بیوی جمیلہ تھیں۔ ان کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے۔ عاصم ابھی صغیرہ سن ہی تھے کہ حضرت عمر نے کسی وجہ سے ان کو طلاق دے دی۔ یہ حضرت ابو بکر کا زمانہ تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ قبا سے جہاں پہلے رہا کرتے تھے اٹھ کر مدینہ میں آ گئے۔ ایک دن اتفاق سے قبأ کی طرف جا نکلے۔ عاصم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کو پکڑ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ اور ساتھ لے جانا چاہا۔ عاصم کی ماں کو خبر ہوئی۔ وہ آن کر مزاحم ہوئیں کہ میرا لڑکا ہے۔ میں اپنے پاس رکھوں گی۔ جھگڑے نے طول کھینچا اور وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاں فریادی بن کر آئیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلاف فیصلہ کیا اور اس لئے وہ مجبور ہو گئے۔ یہ واقعہ مؤطا امام مالک وغیرہ میں مذکور ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک محبت اور رحم کے اس پایہ کا نہ تھا جیسا کہ اور بزرگوں کا تھا۔ اولاد و اہل خاندان سے بھی ان کو غیر معمولی محبت نہ تھی۔ البتہ زید سے جو حقیقی بھائی تھے نہایت الفت تھی۔ چنانچہ جب وہ یمامہ کی لڑائی میں شہید ہوئے تو بہت روئے اور سخت قلق ہوا۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے۔ عرب کا مشہور مرثیہ گو شاعر متمم بن نویرہ جب ان کی خدمت میں آتا تو فرمائش کرتے کہ زید کا مرثیہ کہو۔ مجھے کو تمہارے جیسا کہنا آتا تو میں خود کہتا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top