قیصرانی

لائبریرین
مرکب
مرکب الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں۔
اول وہ جہاں ایک خاص لفظ دوسرے مختلف الفاظ کے ساتھ خاص معنی پیدا کرتا ہے اس قسم کے مرکبات زیادہ تر فارسی میں ہوتے ہیں۔
دوسرے وہ جب کہ دو مختلف اسم یا ایک اسم اور صفت یا اسم و فعل صفت و فعل مل کر ایک مرکب لفظ بن جاتا ہے۔ ایسے مرکبات زیادہ تر ہندی ہوتے ہیں۔
(ا) اول ان الفاظ کا بیان کرتے ہیں جنکے شروع میں آنے سے صفات کی نفی ہوتی ہے۔
ا ہندی سے جیسے ادہر، اٹل، امٹ۔
ان۔۔۔انجان، ان پڑھ، ان گھر۔
ن۔۔۔ نڈر، نہتا۔
نر۔۔۔ نرما، نرمل۔
بن۔۔۔ بن سلا، بن سرا (فعل کے ساتھی بھی آتا ہے)۔
ک۔۔۔ کڈھب، کڈول۔
بعض فارسی اور عربی الفاظ بھی اسی طرح نفی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جیسے
نا (فارسی۔ ہندی الفاظ کے ساتھ بھی آتاہے) جیسے نالائق، نادار، ناوقت، ناسمجھ، ناچار۔
بے۔۔۔ بیہوش، بیخبر، بیڈھب، بیدل، بیمثل، بے صبر۔
کم۔۔۔ کمزور، کمیاب، کم بخت، کم عقل، کم حوصلہ، کم اصل۔
غیر (عربی)۔۔۔ خلاف عقل، خلاف شرع، خلاف قاعدہ۔
اسی طرح بد، تنگ، زشت، دون وغیرہ الفاظ دوسرے الفاظ کے ساتھ آکر دم کے معنی پیدا کرتے ہیں۔ جیسے بدگمان، بد شکل، بد چلنم تنگ دل، تنگ چشم، زشت رو، زشت خو، دون ہمت وغیرہ۔
(۲) مرکب صفات جو اکثر فارسی ہوتے ہیں اور اکثر بطور اسم فاعل مستعمل ہیں۔ (اسم کے ساتھ امر یار دوسرا اسم اضافہ کرنے سے)
دار کے ساتھ جیسے دلدار، زوردار، جاندار، وفادار، مال دار وغیرہ۔
بر کے ساتھ جیسے دلبر، فرمانبر،
باز۔۔۔ جانباز، سرباز، دغاباز۔
ساز۔۔۔ حلیہ ساز، دمساز، سخن ساز، رنانہ ساز، کارساز۔
آور (ور)۔۔۔ نامور، زور آور، دلاور، قد آور، نام آور۔
خواہ۔۔۔ خیر خواہ، دلخواہ، خاطر خواہ، عذر خواہ۔
اندیش۔۔۔ دور اندیش، خیر اندیش، کوتہ اندیش، بد اندیش۔
طلب۔۔۔ خیر طلب، مرمت طلب، شہرت طلب۔
شناش۔۔۔ رمز شناس، ادا شناس، مردم شناس، قدر شناس، سخن شناس۔
دان۔۔۔ قدر دان، سخن دان، سائنس دان، کاردان، مزاج دان۔
فہم۔۔۔ سخن فہم، شعر فہم، معاملہ فہم۔
پوش۔۔۔ عیب پوش، خطا پوش، پردہ پوش، خوان پوش۔
بخش۔۔۔ خطا بخش، زربخش، صحت بخش۔
پرست۔۔۔ آشنا پرست، زن پرست، شکم پرست، بت پرست، خدا پرست۔
فروش۔۔۔ خود فروز، یار فروش، دل فروش۔
گیر۔۔۔ جہانگیر، عالمگیر، دست گیر، دلگیر، دہن گیر، گلوگیر۔
خوار (خور)۔۔۔ خونخوار، دانہ خور، میخوار، شرار خوار، بسیار خوار۔
گو۔۔۔ راست گو، دروغ گو، کم گو، پوچ گو۔
جو۔۔۔ عیب جو، جنگ جو، نام جو،
بین۔۔۔ باریک بین، عیب بین، خوردبین، آخر بین، پیش بین۔
نیشن کے ساتھ جیسے دل نیشن، خانہ نشین، ذہن نشین۔
ربا۔۔۔ دلربا، ہوش ربا، اندوہ ربا۔
چین۔۔۔ نکتہ چین، سخن چین، عیب چین، خوشہ چین۔
ریز۔۔۔ خونریز، شکر ریز، برگ ریز، زر ریز، گوہر ریز۔
فشان (افشان)۔۔۔ گلفشان، نور افشان، در افشان اشک فشان۔
سوز۔۔۔ جگر سوز، دل سوز، عالم سوز، جہاں سوز۔
کن۔۔۔ بیخ کن، گورکن (اسم فعل)
زدہ۔۔۔ غم زدہ، آتش زدہ، قحط زدہ۔
آلودہ۔۔۔ خون آلودہ، گرد آلودہ، شکر آلودہ۔
آزار۔۔۔ دل آزار، مردم آزار، خلق آزار،
افراز (فراز)۔۔۔ گردن افراز، سر افراز (سرفراز)
آموز۔۔۔ علم آموز، جنگ آموز، نو آموز۔
آمیز۔۔۔ خاک آمیز، گلاب آمیز، مکر آمیز، مصلحت آمیز۔
انگیز۔۔۔ فتنہ انگیز، آتش انگیز، بغاوت انگیز۔
پرور۔۔۔ غریب پرور، امیر پرور، شریف پرور، بندہ پرور، ناز پرور، زبان پرور، سخن پرور۔
نواز۔۔۔ غریب نواز، بندہ نواز، ذرہ نواز، پلک نواز۔
پرواز۔۔۔ سخن پرواز، معنی پرواز۔
کُشا کے ساتھ جیسے دلکشا، مشکل کشا۔
گداز۔۔۔ دل گداز، تن گداز، جان گداز۔
نما۔۔۔ خوشنما، بدنما، خودنما، انگشت نما۔
بوس۔۔۔ خاک بوس، قدم بوس، دست بوس، پابوس۔
لیس۔۔۔ کاسہ لیس، رکابی لیس۔
بار۔۔۔ بردبار، زیر بار، گرانبار، سبکبار۔
رو۔۔۔ تیزرو، سبک رو، کم رو، گرم رو۔
دوز۔۔۔ زمین دوز، دلدوز۔
رس۔۔۔ فریاد رس، سخن رس، شاہ رس، دربار رس، داد رس۔
اسی طرح بعض خاص اسم دوسرے اسمائے کے ساتھ آنے سے یہی معنی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً
دوست کے ساتھ جیسے غریب دوست، وطن دوست، خانہ دوست
دشمن۔۔۔ آشنا دشمن، زن دشمن۔
فریب۔۔۔ دل فریب، زدم فریب، ابلہ فریب۔
مائل۔۔۔ سبزی مائل، زردی مائل، سرخی مائل (رنگ کے لیے)
گون۔۔۔ نیلگون، گلگون۔
فام۔۔۔ گلفام، نیلفام۔
خوش لفظ کے اول میں خوشرو، خوش خلق، خوش مزاج، خوشنما۔
نیک۔۔۔ نیک دل، نیک طینت، نیک مزاج۔
خوب۔۔۔ خوبصورت، خوب شکل۔
بشکریہ فہیم
170 صفحات یہاں تک ہو گئے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین

خود ۔۔۔ ۔ لفظ کے اول میں۔۔۔ ۔۔۔ خود نما، خود غرض، خود فریب، خودرو۔
صاحب۔۔لفظ کے اول میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔ صاحب نصیب، صاحب شعور، صاحبدل۔ (بطور اسم متعدی)
اہل ۔۔۔ لفظ کے اول میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اہل دل، اہل کمال، اہل علم وغیرہ ( یہ الفاظ ہمیشہ جمع مین استعمال ہوتے ہین)
کار۔۔۔ ۔ لفظ کے اول مین۔۔۔ ۔۔۔ بدکار، نیکوکار،
نیم کے ساتھ جیسے نیم پخت، نیم جان، نیم بسمل۔ نہم بریان، نیم مردو (نیم ملا بطور اسم)
ترکیب اضافی لائق اور قابل کے ساتھ جیسے قابل سزا، قابل علاج،قابل رشک، قابل تحسین و تعریف، لائق انعام ،لایق تعریف وغیرہ۔

(3) بالکل اسیطرح اسم فاعل بھی بنتے ہین'بلکہ اکثر اوقات صفات و اسمائ فاعل مشترک ہوتے ہین مثلاً

کے ساتھ جیسے پیغمبر' رہبر وغیرہ
برادر ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ عصا بردار۔ حقہ بردار، علم بردار، حکم بردار،
گر ' گا۔۔۔ ۔۔۔ کاریگر،نیل گر، زرگر،
کار۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ دستکار، کاشتکار، پیشکار، قلمکار،
دار۔۔۔ ۔۔۔ ۔ زمہیندار، قرضدار، چوبدار، دکاندار
باز۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مرغ باز وغیرہ
کش۔۔۔ ۔۔۔ جریب کش، تارکش، آرہ کش، بادکش
پوش۔۔۔ ۔۔۔ سرپوش، پلنگ پوش، پاپوش
فروش۔۔۔ ۔۔۔ میوہ فروش، مے فروش،
خوان۔۔۔ ۔۔۔ ٖقصہ خوان، مسل خوان، مرژیہ خوان، فارسی خوان

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

انداز کے ساتھ جیسے گولنداز، تیر انداز، برقنداز، زیر انداز پاانداز
نشین۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جانشین ، فیل نشین، کرسی نشین ، تخت نشین
ربا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کاہ ربا، آہن ربا
کن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ گور کن، پشتہ کن
دوز۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ خیمہ دوز، چکن دوز، کفش دوز
شو۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ مردہ شو، پاشو
چی۔۔۔ ۔۔۔ ۔ خزانچی، اوبچی، طنبورچی، طبلچی
یہاں صرف وہی فارسی ترکیبین بیان کی گئی ہین جو اکثر اسما الفاظ کے ساتھ آکر خاص معنی پیدا کرتے ہین اسی ڈھنگ سے دوسرے نئے الفاظ بنانے مین مدد مل سکتی ہے۔ مخت؛ف الفاظ کے باہم ملنے سے جو الفاظ مرکب بنتے ہین انکا ذکر آگے کیا جاتا ہے۔

2

اردو مین جب دو مختلف لفط مل کر ایک بن جاتے ہین، تو اسکی دو حالتین ہین۔
اول بہ لحاظ ترکیب لفظی، یعنے دو لفظ مل کر ایک ہوتے ہین تو لفظ کی صورت کیا ہوتی ہے۔
دوسرے بہ لحاظ معنی یعنی معنی کے لحاظ سے ایسے الفاظ کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔ تاکہ آئیندہ جو نئے الفاظ ہم بنانا چاہین تو وہ اسی ڈھنگ پر ہون اور غیر مانوس نہ معلوم ہون اور آسانی سے رائج ہو سیکن۔
(1) دو لفظ مل کر اپنی اصلی حالت قائم رکھتے ہین اور انمین کوئی تغیر واقع نہین ہوتا

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

جیسے بھلا مانس، ان داتا، کرن پھول، کارخانہ،کارچوب، مانس گند، گورا شاہی، باگڈور، دیا سلائی۔

(2) الف ممدودہ کا مد گر جاتا ہے اور صرف سادہ الف رہجاتا ہے کہسئ ادھ کچر، ادھ کھلا۔ ادھ منہا، امرس۔
(3) جب دو لفظ ملتے ہین تو پہلے کے آخر کا آیا یا ی گر جاتی ہے جیسے ادھ کچرا، ادھ کھلا وغیرہ الف کے گرنے کی مثالین بڑ بھاگی، ڑپن، بڑبٹا، بڑوبتا، بڑکنا، بڑما، بڑمنہی، بڑمنہا، بہتیج نہو، بہتیج داماد، کپڑ چمن، کپڑ گبند، کچ پیندہا، کچ لہو، کھٹمٹھا۔
(4) بیچ کا حرف علت گر جاتا ہے جیسے پت جھڑ؛ پن چکی، پن گھٹ، پن کپرا، پن کٹی (پان کا مخفف) ہت پھیری، ہت چھٹ، ہت کڑی، ہتکہنڈ، دہن کٹی، کن ٹوپ، کن چھیدن، کل جیتا، گل تکیہ، گل لچھے، گل مالا، گل پھولا، کن رس، کن رسیا، کن کٹا، ست نجا، کن پھٹا، پن کال، تل چٹا (تل تیل کا مخفف ہے) پحمپپل منجدہار، پھلجڑی،
(5) بیچ اور آخر کے دونون حرف علت گر جاتے ہین۔ جیسے گھڑ بھل، گھڑ چڑیا، گھڑ دوڑ، گھڑ ناؤ، گھڑ مہنا،
(6) جب پہلی لفظ کا آخر حرف اور دوسری لفظ کا اول حرف ایک ہون تو ایک گر جاتا ہے جیسے کچالو، نکٹا۔ ہڑتال مین ہٹ ٹال کا مخفف ہے ٹ اور ت کے یکجا آنے سے ٹ ڑ سے بدل گئیی۔
(
C:\Users\Munu\AppData\Local\Temp\msohtmlclip1\01\clip_image001.gif
اسم فاعل یا صفت یا اسم عام بنانے کی غرض سے آخر مین الف یا مونث کے لیے ی بڑہا دیتے ہین جیسے چوبغلا، کن رسیا، لم ڈڑھیا، مرکھنا (مر اور کھن سے مرکب ہے کھن کے معنی ٹکرے کرنے ہیں) ست لرا، ست ماسا، ست نجا، انگرگھا،
بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

بڑولنا، بڑمہوا، بڑمہی، گہٹی کٹا، کن پھٹا، کن کٹا، بھڑ بھونجا (بھڑ بھاڑ کا مخفف ہے اور بھونیحنا کے معنے بھوتنا کے ہین)
(9) بعض اوقات دو لفظون کے بیچ مین ا خرف نسبت یا تعلق کے لیے بڑہا دیتے ہین جیسے مٹیا محل، ہیرا پھری، بیچا بیچ، دہڑا دہڑ۔
(10) بعض الفاظ عجیب طرح سے مرکب ہوے ہین مثلاً پھلیل، اصل مین پھول تیل تھا۔ پھول مین و کو اور تیل مین سے ت کو حذف کر کے ایک لفظ بنا لیا۔ اسی طرح بھتیجا اصل بھائی جایا اور بھانجا بہن جایا تھا۔
لوچون۔۔۔ لوہے چورے سے ہے۔
(11) آندھ کے معنی ہندی مین بو کے ہین، اس سے کئی لفظ مرکب ہین۔ مثلاً چراند، بساند، سڑانڈ
(12) ہندی مین مرکب الفاظ کی سب سے بہتر ترکیب ہندی اعداد مین نظر آتی ہے جیسے ہم بالتفصیل صرف کے حصے مین لکھ چکے ہین۔

××××××××××

یہ ہندی ترکیبین قریب قریب اسی قسم کی ہین جس سنسکرت مین پائی جاتی ہین۔ لہذا انکی تقسیم بلحاظ معنی کے اسی صورت سے کی جاتی ہے جو سنسکرت مین ہے۔
اول مرکبات تابع، جنمین الفاظ کا تعلق اسم کی حالت کی تابع ہوتا ہے۔
دوم مرکبات ربطی؛ جنمین الفاظ کا تعلق حرف ربط سے ظاہر ہوتا ہے۔
سوم مرکبات توصیفی، جنمین صفت کسی دوسرے اسم سے مل کا آتی ہے۔
چہارم مرکبات اعدادی جنمین اول جز عدد ہوتا ہے۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

پنجم مرکبات تمیزی، جنمین پہلا جز متعلق فعل ہوتا ہے۔
اب ہم ان کی تفصیل ذیل مین لکھتے ہین۔
اول مرکبات تابع اسما کی حالات کے مطابقت کے لحاظ سے مختلف قسم کے ہین۔
(1) تابع مفعولی جو عام چور پر مستعمل ہے' اسمین دوسرا جز اسم فاعل یا فعل ہوتا ہے اور پہلا جز حالت مفعول مین دوسرے کے تابع ہوتا ہے۔ جیسے بٹ مار، چڑیمار، آن داتا، تل چٹا، کٹہ پھوڑا، گٹہ کٹا۔
(2) تابع انتقالی جسمین پہلا لفظ دوسرے سے تعلق انتقالی رکھتا ہو جیسے دیس نکالا، پحمپپل۔ دوغلا۔
(3) تابع اضافی جسمین پہلا جز دوسرے جز سے تعلق اضافی رکھتا ہو۔ یہ مرکبات کثرت سے مستعمل ہین۔ جیسے لکھ پتی، پن گہٹ، امرس، کن رس، کٹھ پتلی، راجپوت،سوت جلا پا، بھیتج بہو، کن ٹوپ، پت جھڑم کپڑگند، ہٹ کڑی، راج ہٹ وغیرہ وغیرہ
(4) تابع ظرفی جسمین پہلے لفظ کا تعلق دوسرے سے بہ لحاظ مقام کے ہو جیسے
گھڑ چڑہا، سرگ باسی، بن باسی، بن مانس، جل مانس، جل ککڑ، اوپر والا، اوپر والی۔
دوم مرکبات ربطی وہ ہین جنکے پہلے اور دوسرے جز مین صرف ربط واقع ہوتا ہے۔ جیسے مٹیا محل، دہڑادہڑا،انیچا تانی، بھاگا بھاگ، شرما شرمی، آب وہوا (اس قسم کے فارسی مرکبات بکثرت مستعمل ہین)
(1) اکثر اوقات حرف ربط محذوف ہوتا ہے جیسے مان باپ، دال روٹی، تلپٹ، ان جل، دل گردہ، بول چال، جوڑ توڑ، گھر بار، خاک دھول، جوتی پیزار، در درود، دم دلاسا، دم خم وغیرہ

(2) اجتماع ضدین جیسے ہار جیت، کمتی بڑھتی (کمی بیشی)؛ سہ پہر، دن رات، جوڑ توڑ، برا بھلا۔
(3) لفظی مناسبت اور قافیہ کے لحاظ سے جیسے دم خم، رونا دھونا، بھولا بسرا، تانا بانا، بھولا بھٹکا، پاس پڑوس۔
(4) مذکر کا مونث بنا کر بڑہا دیتے ہین جیسے دیکھا دیکھی،
(5) مرادف الفاظ جیسے رونا جھینکنا، انیچا تانی بھول چوک، دیکھ بھال، چھان بین، سوچ بچار، بھلا چنگا۔
کبھی ہندی فارسی مل کر آتے ہین جیسے تن من
(6) ایک ہی مادہ کے دو لفظ جیسے چال چلن،
اسی ضمن مین توابع مہمل بھی آسکتے ہین؛ جو بول چال مین بکثرت استعمال ہوتے ہین اسکی صورت یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کو اس طرح دہرایا جاتا ہے کہ یا تو پہلا حرف گرا دیا جاتا ہے، یا پہلے حرف کے بجاے کوئی دوسرا حرف قائم کر دیا جاتا ہے، یا درمیانی حرف علت مین کچھ تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ اس سے شئے مذکور کے متعلقات و لوازم کا بیان مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً روٹی ووٹی یعنی روٹی اور اسکے ساتھ کی دوسری چیزین ۔ یا ڈیرے ویرے۔

(ا) اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلے حرف کو واؤ سے بدل کر دہرا دیتے ہین جیسے روٹی ووٹی، ڈیرے ویرے، پانی وابی، کاغذ واغذ، شکر وکر وغیرہ۔ یہ طریقہ قیاسی ہے اور تقریباً ہر لفظ کے ساتھ استعمال ہو سکتا ہے مگر باقی طریقے سماعی ہین جنکا ذکر ذلیل مین کیا جاتا ہے۔
(ب) علاوہ اسکے توابع عموماً الفاظ کی مناسبت یا کسی قدر قافیہ کے لحاظ سے بھی آتے ہین

جیسے بچا کچھا، میل کچیل، ٹالا بالا، ٹال مٹول، لت پت چور چکاری، لوگ باگ
(ج) بعض اوقات صرف پہلے ایک دو حرف ایک سے ہوتے ہین اور باقی بدلے ہوے ہوتے ہین جیسے دانہ دنکا، گالی گلوج، سودا سلف۔
(د)کبھی کلمہ اول کی کو کھینچ تان کر درمیانہ حرف علت کو بدل کر تابع بنا لیتے ہین جیسے ٹیپ ٹاپ، ٹھیک ٹھاک، ڈیل ڈول۔ توں تال۔
(لا) کبھی تابع اول آ اجات ہے جیسے ادلا بدلی، آمنے سامنے، آس پاس، ارد گرد۔
سوم مرکبات توصیفی وہ ہین جنمین کوئی صفت یا کوئی لفظ بطور صفت کے دوسری لفظ سے مل کر آئے۔ جیسے بھلا مانس، کن کتا، نکٹا، مہاراجہ۔ مہاراج، کلجگ، پرمیشور (پرم۔ بڑا،ایشور۔خدا)کچ لہو، کل جھبا، کن چھڈا، کن رسیا، لم ڈھینگ، لم ڈڑھیا، بڑکنا، ادھ موا، کھٹمٹھا، لکھ لٹ۔
بعض علامات ہندی لفظ کا جز ہین خصوصاً ک (ذ م کے لیے) اور س وصف کے لیے؛ جیسے کپوت، سپوت، کڈھپ، سڈول۔ سلونا، بدیشی، سودیشی۔ انکا ذکر علامات مین ہو چکا ہے۔
کبھی اسم بھی صفت کا کام دیتا ہے۔ جیسے راج ہنس، لاٹ پادری، یہان راج اور لاٹ بطور صفت آئے ہین۔
چہارم مرکبات اعدادی وہ ہین جن مین پہلا جز عدد ہوتا ہے۔ ہندی اعداد مروجہ کو دیکھا جاے تو درحقیقت سب سے عمدہ مچال مرکبات کی ہے، اسکا مفصل ذکر ہم صفات مین دے چکے ہین یہان ہم صرف چند مثالین مرکبات کی دیتے ہین جن مین ایک جز عدد کا ہے جیسے تراہا، دوپٹا، ست نجا، ست ماسا، ست لڑا، ہشت پہل، ترپولیا، چوراہا، دوتہی، چوتہی، چوبولا، تکنا، چوبغلا، پچ محلا، چومحلا، چوتا لا، چوپہل، دو تارا، ستارا،دوشالہ، دوغلا،
پنجم مرکبات تمیزی۔ یہ مرکبات اردو مین یا تو ہندی علامات علامات نفی کے ساتھ آتے ہین یا بعض علامات فارسی مثلاً بے'بر' بہ وغیرہ کے ساتھ جن کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔
صرف ہندی مرکبات کا بیان تھا ان کے علاوہ فارسی کرکبات کثرت سے اردو زبان مین اور خاص کر نظم مین مستعمل ہین جن کا ذکر بخوف طوالت نظر انداز کیا جاتا ہے۔
اگر ان تما صورتوں کو جو بیان کی گئی ہین نظر مین رکھا جائے تو آئیندہ جدید الفاظ بنانے مین بہت مدد ملے گی۔

فصل چہارم
نحو

اس باب مین دو امور کا ذکر ہو گا،
اول۔۔ اجزاے کلام اور ان کے مختلف تغیرات کے عمل سے بحث ہو گی جوان مین بہ لحاظ تعداد و حالت و زمانہ وغیرہ پیدا ہوتے ہین۔
دوم۔۔ جملون کی ساخت سے بحث کی جائے گی۔
اول کا نام نحو تفصیلی ہے اور دوسرے کا نام نحو ترکیبی
1- نحو تفصیلی

تعداد

اگرچہ واحد سے ایک اور جمع سے کئی کا ہونا پایا جاتا ہے۔لیکن اس عام قاعدے مین بعض صورتین مستثنے بھی ہین، مثلاً

(1) تعظیم یا عظمت کے لیے جیسے حضرت ہمارے بڑے ہین یا ہمارا آنکھون کے تارے ہین۔

(2) بعض الفاظ اگرچہ واحد ہین مگر زبان کے روزمرہ اور محاورے مین جمع مستعمل ہین۔ جیسے

ختنے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بچے کے ختنے ہو گئے۔ (واحد بھی مستعمل ہے)
دستخط۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ انکے دستخط پڑھے نہین جاتے (بعض واحد مونث بھی لکھتے ہین)
معنے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اس الفاظ کے کیا معنے ہین
دام (بمعنی قیمت)۔۔ اس کتاب کے کیا دام ہین
بھاگ(بمعنی نصیب)۔۔ اس کے بھاگ گھل گئے
پت۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ قے مین پت نکلے۔
کرم (نصیب)۔۔۔ ۔۔ کرم پھوٹ گئے۔
نصیب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ نصیب جاگ اٹھے (واحد بھی مستعمل ہے)
کو تک۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اسکے کو تک اچھے نہین۔
کرتوت۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تمھارے کرتوت اچھے نہین۔

لچھن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یہ دنیا مین رہنے کے لچھن نہین ہین۔
درشن۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ آج انکے درشن نہین ہوے۔
اوسان۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اوسان خطا ہو گئے۔
مسین۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ مسین بھیگی ہین۔

اسی طرح والد اور ابا بھی ہمیشہ جمع مستعمل ہوتے ہین۔ واحد کہنا ہو تو باوا یا باپ کہین گے۔ مثلاً
آپ کے والد کہان ہین؟ ۔ تمھارے ابا ہین یا گئے؟
تمھار والد یا تمھار ابا کہنا ٹھیک نہوگا۔
(3) بعض الفاظ جو بطور استعارہ جانورون اور دیگر اشیا کی تعداد کے ساتھ آتے ہین وہ واحد مستعمل ہوتے ہین۔ جیسے چار زنجیر فیل۔ چھ راس گائے۔ ہفت دانہ سیب۔ دس نفر مزدور پچاس جلد کتب۔ بیس عدد زین۔ چار منزل گاڑی وغیرہ۔
لیکن دانہ اور جلد اردو ترکیب اضافی مین بصورت جمع بھی مستعمل ہین۔ مثلاً بیس دانے سیب سیب کے۔ پچاس جلدین کتابون کی۔
(4) اکثر واحدالفاظ جن کی جمع عام طور پر مستعمل پے تعداد غیر معین مثلاً دسون بیسون سینکڑون، ہزارون، لاکھون، کڑوڑون یا صدہا ہزارہا۔ لکھو کھا کے ساتھ واحد استعمال ہوتے ہین اور معنی جمع کے دیتے ہین اور انھین معنون مین یہ الفاظ جمع کی صورت مین بھی استعمال ہوتے ہین۔ جیسے

ہزار ہا مکان جل گیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ہزاروں مکان جل گئے
ہزارون روپیہ بگڑ گیا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ہزارون روپئے بگڑ گئے
صدہا تماشایہ موجود تھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ صدہا تماشائی موجود تھے​
بشکریہ مقدس​
 

قیصرانی

لائبریرین
صفحہ نمبر 181 سے آگے
قحط مین سیکڑون جانور بھوکا مر گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ قحط مین سیکڑون جانور بھوکے مر گئے۔
تعداد معین کے ساتھ بھی استعمال جائز رکھا گیا ہے جیسے
دس ہزار گورا پرا ہے۔ پانچ ہزار سوار اترا ہوا ہے۔ پندرہ ہزار پیدل کھیت رہا۔ پانسو آدمی کھرا ہے۔ ایک ہزار کرسی پری ہے۔ اسی طرح انھین جملون مین یہ الفاظ جو واحد مستعمل ہوسکتے ہین جیسے دس ہزار گورے پڑے ہین وغیرہ وغیرہ۔
یہی حال مقدارون کا ہے جیسے سیرون، منون غلہ پرا ہے۔ یا مقدار وقت کے لیے جیسے گھنٹون' پہرون برسون وغیرہ۔
(5) بعض اسما سواے خاص صورتون کے ہمیشہ واحد استعمال ہوتے ہین۔ اور صورت جمع استعمال نہین ہوتی۔
(6) اسمائے کیفیت جیسے درد، بکار، مطالعہ۔ رفتاربھوک وغیرہ۔
بھوکون مرنا کو محاورہ مستعمل ہے مستثنٰے ہے۔
(ب) اسماے خاص خواہ اشخاص کے ہون یا اشیا کے
(ج) اشیاے مادی
(1) دھاتون اور دیگر معدنیات کے نام جیسے سونا۔ چاندی۔ تانبا۔ رانگ۔ سیسا۔حسبت۔ پیتل۔ پھول۔ تیل۔ پانی۔
اس مین چاندی مونث ہے باقی مذکر ہین۔
(2) پیدوار مین اکثر غلون وغیرہ کے نام جیسے
باجرہ۔ جوار۔ مکی۔ مونگ۔ مسور۔ ارہر۔ شکر۔ گڑ۔ گھانڈ وغیرہ۔ سومنٹھ ۔ اجوائن۔ گاؤزبان، عقرقرہ۔ اسی طرح اشاے خوردنی جیسے گھی۔ شہد۔ سوجی۔ آٹا۔ نمک۔ ہلدی۔ تنباکو۔ چھالیا (مرچ۔ الائچی۔ پان کی جمع بھی آتی ہے۔ جیسے ان پانون مین وہ مزہ کہان لیکن ان غلون مین گھیون۔ چنا۔ تل۔ جو واحد اور جمع دونون صرتون مین استعمال ہوتے ہین ۔ جیسے
آجکل گئیون بہت اچھا آیا ہے یاآئے ہین۔ واحد کے استعمال مین عموماً اس غلہ کی قسم سے مراد ہوتی ہے۔ یہ چنا اچھا ہے۔ یہ چنے اچھے ہین۔ وغیرہ۔
ان مین بعض اشیا ایسی ہین کہ جب انکی مختلف قسمین بیان کرنی ہون تو صورت جمع استعمال کرتے ہین۔ جیسے چورن مین چاتون نمک ہین، گہیون۔ چنا۔ جوار ان تینون کے آٹے ملا کر روٹی پکائی، سب دالین ملا کر پکاؤ۔

(6) فارسی ترکیب اضآفی کا مضاف صورت واحد مین بخلاف استعمال زبان فارسی اردو مین واحد اور جمع دونون صورتون مین واحد ہی رہتا ہے جیسے داغ عصیان مٹ گیا۔ داغ عصیان مٹ گئے۔
ہمارے داغ عصیان داگ کیا کیا رنگ لائین گے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ گمان گزریگا دوزخ پر بھی جنت کے گلستان کا
(7) محاورے مین بعض الفاظ استعمال ہوتے ہین جیسے بھوکون مرتا ہے۔

حالت

پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حالت لوازم اسماہین سے ہے۔ جملہ مین ہر اسم کے لیے کسی نہ کسی حالت کا ہونا ضروری ہے۔ اردومین اسما کی حالتین چھ ہین۔

1- حالت فاعلی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ 4۔ حالت انتقالی
2۔ حالت مفعولی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ 5۔ حالت ظرفی
3۔ حالت اضافی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ 6۔ حالت ندائیہ

اب ہر ایک کا ذکر با تفصیل کیا جاتا ہے۔

حالت فاعلی
فاعل یا تو
(1) فرل کا مبتدا ہوتا ہے۔ جیسے عاقل کی باتین سچی ہوتی ہین۔
(2) یا افعال لازم و معدولہ کے ساتھ بطور خبر کے آتا ہے جیسے لکری میرے بڑھاپے کا سہارا ہے۔
(3) یا بطور منادی کے جیسے اس نےآواز دی۔ "بیٹا"
(4) یا بعض اقات اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ جملے مین بےتعلق معلوم ہوتا ہے جیسے بادشاہ وہ بیٹھا ہے، صحت اور دولت یہ دونون بری نعمتین ہین۔
(5) کبھی مصدر کے ساتھ حالت اضافی کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے پتھر گرنے کی آواز آئی۔

نے علامت فاعل

نے بطور فاعلی کے قدیم ہندی مین کہین استعمال نہین ہوا۔ اور ہندی کی پوربی شاکون مین کہین اس کا قجود نہین، تلسی داس تک کے کلام مین بھی کہین اس کا استعمال نہین پایا جاتا۔ اس کا استعمال اس طور پر غالباً اس وقت شروع ہوا ہے جب کہ اردو نے اپنا سکہ جمایا البتہ مرہٹی مین اس کا استعمال اردو یا پچھنان (پچھم) کی ہندی کی طرح ہوتا ہے لیکن پہلے بطور علامت مفعول استعمال ہوتا تھا۔ جس کا پتہ پنجابی سے ملتا ہے۔ اس کے استعمال کے متعلق مفصلہ ذیل امور کا خیال رکھنا ضروی ہے۔
1 علامت فاعل کا فعل متعدی ماضی مطلق ۔ تمام۔ احتمالی اور ضال قریب کے کے ساتھ آنا لازم ہے، جیسے مین نے کھانا کھایا۔ اس نے احمد کو مارا۔ یہ کس نے لکھا؟ مین نے لکھا ہو گا۔ مین نے لکھا ہے۔
لانا۔ لے جانا۔ بھولنا۔ شرمانا۔ بحثنا۔ بولنا۔
جیسے مین کتاب لایا ۔ وہ رقعہ لے گیا۔ مین تمہارا نام بھول گیا۔ وہ دیر تک مجھ سے بحثا۔ وہ اس حرکت سے شرمایا۔ وہ بولے چل دور ہو۔ (یہاں شرمانا اور بولنا افعال متعدی ہین) لیکن بعض اوقات بولنے کے ساتھ جب کوئی لفظ بطور مفعول ہوتا ہے تو نے لگا دیتے ہین، جیسے اس نے جھوٹ بولا، مگر وہ جھوٹ بولا بھی صحیح ہے۔
(2) لیکن جب فعل متعدی کے ساتھ کوئی متعدی امدادی فعل آئے تو حسب قاعدہ فاعل کے ساتھ نے آئے گا۔ مگر جب فعل امدادی لازم ہو گا تو علامے فاعل متعدی فعل کے ساتھ بھی نہین آئے گی۔ جیسے
مین نے رقعہ بھیجا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ (فعل متعدی بلا فعل امدادی)
مین نے رقعہ بھیج دیا۔۔۔ ۔۔ (فعل مستعدی مع فعل امدادی متعدی)
مین رقعہ بھیج چکا۔۔۔ ۔۔۔ (فعل متعدی مع فعل امدادی لازم)
مین رقعہ نہ بھیج سکا۔۔ (ایضاً)
اس نے ہنسدیا، اور وہ ہنس دیا۔ اس نے رو دیا اور و رو دیا دونون مستعمل ہین۔ غالباً بغیر نے زیادہ فصیح ہے۔
فعل لازم کے ساتھ اگرچہ فعل امدادی متعدی ہو تو بھی علامت فاعل کا اظہار نہین کیا جائے گا۔ جیسے وہ آ لیا۔ وہ سو لیا۔
لیکن جب امدادی فعل کے آنے سے فعل لازم متعدی بن جاے تو نے آئے گا جیسے اس نےمجھے آلیا۔ تم نے اسے کیون درنے دیا۔ اس نے بیمار کو سونے نہ دیا۔ ایسی حالت مین اصل فعل کے معنون بہت تغیر ہو جاتا ہے اور فعل لازم نہین رہتا۔
(3) بعض معتدی فعل ایسے ہین کہ انکے ساتھ نے کا ، استعمال ہوتا بھی ہے اور نہین بھی ہوتا جیسے

میں بازی جیتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ مین نے بازی جیتی
مین شرط ہارا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ مین نے شرط ہاری
جب بطور لازم استعمال ہوتے ہین تو مطلق نہین آتا۔ جیسے تم جیتے مین ہارا۔

مین بات سمجھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مین نے بات سمجھی
مین کام سیکھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ مین نے کام سیکھا

سیکھے ہین مہ رخون کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ بہر حال ملاقات چاہیے (غالب)
یہ سبق بھی کوئی پڑھا ، کسی نے یہ سبق پڑھا
4۔ افعال لازم اور متعدی دونون استعمال ہوتے ہین۔ متعدی ہونے کی صورت مین نے علامت فاعل فعل کے ساتھ استعمال ہوتی ہے۔ اور لازم کی حالت مین نہین۔
جیتنے اور ہارنے کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اسکی صورت مستثنٰے ہے۔ پکارنا لازم اور متعدی دونون ہین۔ لازم ہونے کی صورت مین نے نہین آتا مگر متعدی کی حالت مین نے آتا ہے۔ جیسے

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
پکارنا۔ اس نے مجھے پکارا (متعدی) وہ پکارا (لازم)
بھرنا ۔ اس کا پیٹ بھرا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔(لازم)
بھرنا۔ مین نے پانی بھرا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ (متعدی)​
پلٹنا۔ خط مین جب آپ نے تحریر سراسر پلٹی۔۔۔ ۔۔۔ (متعدی)
مین نے جانا مری تقدیر سراسر پلٹی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (لازم)
بدلنا۔ جب سے وہ بدلا ہے ساری دنیا بدل گئی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔(لازم)
مین نے کپرے بدلے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔(متعدی)
چاہنے کے ساتھ ہمیشہ نے آتا ہے جیسے ہم نے چاہا تھا کہ مر جائین سو وہ بھی نہ ہوا۔ لیکن جب جی اور دل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو نہین آتا جیسے جی چاہا تو تو آؤن گا۔ اسکی کیا پوچھتے ہو' دل چاہا گیا دل چاہا نہ گیا۔
(5) تھوکنا، موتنا، ہگنا، افعال لازم ہین، مگر انے ساتھ نے استعمال ہوتا ہے جیسے مین نے تھوکا۔ اس نےموتا۔
تھوکنا اور موتنا کبھی متعدی ہوتے ہین ۔ جیسے
دو گانا جان کی بچی نے موتا مجھ نمازی پر (جان صاحب)
بچے نے نہالچے پر موتا۔
اس نے مجھپر تھوکا۔ اسکو ساری دنیا نے تھوکا۔ مگر بےغیرت کی بلا دور کچھ بھی اثر نہ ہوا۔

(6) بعض افعال کے ساتھ جو خاص موقع پر متعدی استعمال ہوتے ہین نے علامت فاعل نہین آتی۔ مین اسے رویا۔ وہ مجھپر ہنسا۔ کتا بلی پر چھپٹا۔ وہ مجسے لڑا۔ (یہ خیال رہے کہ یہان پر اور سے علام مفعول ہین)
(7) جب علامت فاعل وہ، جو اور کون کے ساتھ آتی ہے تو اس سے جو جس سے اور کون کس سے بدل جاتا ہے۔ جیسے اس نے(وہ نے) مارا۔ کس نے (کون نے) مارا۔ جس نے (جو نے) کہا غلط کہا۔

8۔ صرف مین پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مین ضمیر مین اول سے نے وجود ہے کیونکہ یہ اصل مین می یا مونے تھا۔ مگر اصل پر نظر نی رہے سے یا مرور زمانہ اور ناواقفیت کی وجہ سے ایک نے اور اضافہ ہو گیا۔ امین نے استعمال ہونے لگا۔
9۔ نے علامت فاعل ہے اور مفعول کے ساتھ کبھی نہین آتی۔ لیکن مجھ اور تجھ کے ساتھ جب کوئی صفت آتی ہے تو نے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مجھ کم بخت نے یہ کب کہا تھا۔ مجھ خالسار نے ایسا نہین کیا۔ تجھ بد بخت نے ایسا کیا۔
اصل یہ ہے کہ مجھ اور تجھ پراکرت کے ضمائر مجھا اور تجھا سے نکلے ہین۔ چنانچہ اسی وجہ سے قدیم اردو مین مجھ تجھ بھی بطور ضمائر اصافی کے استعمال ہوتے تھے۔ مثلاً نصرتی ملک الشعراے دربار عدل شاہ اپنی مچنوی گلشن عشق مین لکھتا ہے۔
کہا سن کو یون اس کہ اسے دل کے یار
فدا ہے یہ تجھ بات پر جیو ھزار

یہان تجھ بات سے مطلب تیری بات ہے، غرض تجھ حالت اضافی سے حالت مفعولی مین آیا۔ اور صفت کے ساتھ اب بھی استعمال ہے جیسے مجھ خالسار کی حالت۔ صفت ے بیچ مین حائل ہو جانے سے نظر انداز ہو گیا کہ مجھ کس حالت مین ہے۔ اور اسلیے اضافی اور فاعلی حالتوں مین استعمال ہونے لگا (مجھا کے میم پر زبر ہے لیکن تجھا کے ساتھ ساتھ آنے سے مھ کی میم پر پیش آگیا)

حالت مفعولی

1۔ مفعول قریب اس پر فاعل کے فعل کا اثر کسی واسطکے کے راست پڑتا ہے۔ یہ مفعول درحقیقت فعل متعدی کے تکملہ کا کام دیتا ہے۔ جیسے احمد نے حامد کو مارا۔ اس نے

کھانا کھایا۔ رام کتاب پڑھتا ہے۔ (عربی مین اسے مفعول بہ کہتے ہین)

(ا) جب فعل کا ایک ہی مفعول ریب ہو اور اشیا مین سے ' یعنی بیجان ہو! تو اس کے ساتھ علامت مفعول نہین آتا۔ جیسے مین کھانا کھاتا ہون، بکری پانی پیتی ہے، اسے تمھاری ملاقات کی آرزو ہے، احمد نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
(ب) لیکن جب مفعول جاندار یا زوی العقول سے ہوتا ہے، تو اس کے ساتھ اکثر کو استعمال ہوتا ہے۔ امثلہ ذیل سے ذوی العقول و غیر ذوی العقول دونون کی حالت معلوم ہو جائے گی۔
مین نے احمد کو دیکھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مین نے نقشہ دیکھا
مین احمد کو جانتا ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مین ریاضی جانتا ہون
مین نے احمد کو مارا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مین نے سانپ مارا
اس نے سایئس کو پیٹا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

مین نے ایک آدمی دیکھا صحیح ہے لیکن جب آدمی کا نام لین یا کوئی اور تخصیص اشارے یا اضافت وغیرہ سے پیدا کر سین تو کو لانا ضرور ہے جیسے مین نے مسعود کو دیکھا۔ مین نے اس آدمی کو دیکھا، مین نے تمھارے بھائی کو دیکھا۔ لیکن
اس کی چالین مین ہی خوب سمجھتا ہون
اور
اس کی چالون کو مین ہی خوب سمجھتا ہون

دونون صحیح اور فصیح ہین۔ یا جیسے مری فریاد کو پہنچو، یہان کو بالکل صحیح اور فصیح ہے۔۔

(ج) مگر محاورات مین جہان مفعول مصدر کے ساتھ آتا ہے کو لانا غیر فصیھ ہی نہین بلکہ غلط ہے۔ مثلاً منھ چرانا، کان کھولنا، سر اٹھانا، جان دینا، تنکے چننا، تارے گننا،وغیرہ۔ نسیم دہلوی اپنی مشہور غزل مین لکھتے ہین

نسیم جاگو کمر کو باندھو اٹھاؤ بستر کہ رات کم ہے
یہان "کمر کو باندھو" مین کو فصیح نہین ہے، کیونکہ کمر باندھنا استعارۃً استعمال ہوتا ہے جس کے معنے تیار ہونے کے ہین،
اسی طرح دوسری بےجان اشیا اور کیفیات قلبی کے ساتھ بھی یہی عمل ہوتا ہے۔ جیسے خط لکھنا۔ شراب پینا۔ پانی پینا۔ خربوزہ کھایا۔ رنج نہ کرو مہربانی رکھو۔

(د) یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب عموہیت ہوتی ہے تو کو نہین کہتے لیکن جب خصوصیت کا اظہار کیا جاتا ہے یا توجہ دلانی مقصود ہے تو کو لکھتے ہین۔ لیکن غیر ذوی العقول اور بےجان اشیا کے ساتھ مخصوص ہے ذوی العقول کے ساتھ بہت کم۔

جیسے مری فریاد کو پہنچو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اس بوجھ کو اٹھاؤ تو جانون۔
مایا کو چھوڑ اور رام کو لے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اپنے دل کو دیکھ اور غور کر۔
مین نے سب پیڑ دیکھے کوئی کام کا نہ نکلا جیتی لڑکی مین تمھین دیدون یہ ممکن نہین ہان لاش کے تم مالک ہو۔ تم نے کیا بات دیکھی جو اس قدر بجھے ہوئے ہو۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
(ہ) جب مفعول قریب اور بعید قریب قریب واقع ہون تو دوبار کو کا آنا کا نون کو برا معلوم ہوتا ہے۔ لہذا ایسے موقع پر مفعول قریب کے ساتھ کو نہین لاتے۔ جیسے مین نے تمھارا بیٹا افضل کو دیدیا، سعیدہ جو مقصود سے منسوب ہے مین تمھارے بیٹے کو کبھی نہ دون گا۔

(و) بعض افعال متعدی و لازم کے ساتھ فعل کے اسی مادی کا مفعول قریب استعمال ہوتا ہے۔ اسے عربی مین مفعول مطلق کہتے ہین جیسے تم کیسی چال چلتے ہو۔ آدمیون کی سی چال چلو۔ وہ بڑا بول بولتا ہے۔
(ز) بعض افعال کے دو مفعول قریب ہوتے ہین۔
افعال متعدی یا متعدی المعتدی کے دو مفعول ہوتے ہین ان مین سے ایک شخص ہوتا ہے ان مین سے ایک شخص ہوتا ہے دوسرا شے۔ مفعول شخص کے ساتھ ہمیشہ کو آتا ہے جیسے مین نے فقیر کو روپیہ دیا۔ اس نے سب کو مٹھائی کھلائی۔
نیز جو افعال بنانے، مقرر کرنے، بلانے یا نام رکھنے کے معنون مین ہون یا جو افعال قلوب ہون یعنی انکے معنی سمجھنے جاننے اور خیال کرنے کے ہون تو انکے ساتھ بھی دو مفعول ہوئے ہین۔ مفعول اول کے ساتھ اکثر کو آتا ہے جیسے تم اسکو کیا خیال کرتے ہو۔ انھون نے ہری کو اپنا راجہ بنایا۔ مین اسے (اسکو) آدمی سمجھتا تھا مگر وہ تو کچھ اور نکلا۔ وہ مجھے (مجھکو) حکیم سمجھا۔
(ح) ایسے افعال کے طور مجہول مین جنمین دو مفعول ہوتے ہین مفعول قریب قائم مقائم فاعل ہوتا ہے۔ مگر حالت اسی وہی۔ ہی ہے۔ یعنے کو اسکے ساتھ رہتا ہے جیسے فقیرون کو کھانا کھلا دیا جائے۔۔ مجھکو تنخواہ دیدی جائے۔
(ط) اگرچہ کو عام طور پر علامت مفعول ہے لیکن بعض اوقات سے، کے اور پر بھی کو کے بجائے علامت مفعول کے طور پر استعمال ہوتے ہین جیسے
مین نے احمد کو تھپڑ مارا
مین نے احمد کے کاجل لگایا
محمود سے کہو۔۔۔ مین خالد سے محبت کرتا ہون
مجھ پر خفا مت ہو۔اس پر رحم کرو۔
اسی طرح میرے اور اسکے بجاے مجھکو اور اسکو کے استعمال ہوتے ہین۔ جیسے اس نے میرے ہاتھ جوڑے۔ مین نے اس کے ہاتھ جوڑے۔
2۔ مفعول بعید وہ ہے جس پر فاعل کے فعل کا اثر درست نہین پڑتا۔

(ا) یہ فعل متعدی کا مفعول بعید ہوتا ہے۔ جیسے یہ جانور مجھے تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ سب کو تشفی و تسلی دے رہا تھا۔
(ب) کبھی یہ علامت مفعول غرض اور معاوضہ کو ظاہر کرتی ہے۔ جیسے وہ پڑھنے کو آتا ہے۔ بادشاہ سلامت سیر کو نکلے ۔ مین گرو کے درشن کو جاتا ہون۔ یہ کتاب کتنے کو دو گے۔ مین نے دو سو روپیہ کو اپنا گھوڑا بیچا۔
عربی مین اسے مفعول لہ کہتے ہین، یہان کو واسطے اور لیے کے معنے مین آتا ہے۔ اور دوسری صورت مین یہ معنے زیادہ تو اضافی صورت مین ادا کیے جاتے ہین، جیسے وہ پڑھنے کے لیے آتا ہے وغیرہ۔
(ج) یہ استعمال اکثر مصدر کے ساتھ بھی ہوتا ہے جب کہ اس مین استقبال قریب کے معنی پیدا ہوتے ہین۔ جیسے وہ جانے کو ہے۔ اٹھنے کو ہے۔ لکھنے کو ہے۔ وہ کھانے کو دوڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہین دہین غنچون کے وا کیا جانین کیا کہنے کو ہین۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔شاید اسکو دیکھکر صل علٰے کہنے کو ہین

(د) بعض اوقات علامت مفعول بعید ہونے یا موجود ہونے کے معنی دیتی ہے، جیسے جو درد تم کو ہے وہ اسکو نہین ہے۔ اسے بہت سے شغل ہین۔ سب کو ناامیدی تھی۔ اسکے کوئی بیٹا نہ تھا، اسے تن من کی سدھ نہ تھی، ایک گدھا جسکے دم نہ تھی۔ گھوڑے کے کان نہ تھے۔ یہان کے کو کے بجاے ہے۔
علاوہ مصدر ہونے کے بعض مصادر معدولہ بھی انھین معنون مین استعمال ہوتے ہین ۔ غیرت نام کو نہ رہی، اسے کچھ ہوش نہ رہا۔
ملنا بھی محاورے مین اسی طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جسمین فاعمل وہ شے ہے جو ملی ہے اور مفعول بعید وہ ہے جو پانے والا ہے، جیسے مجھے انعام ملا۔ اسے کچھ نہ ملا۔ مجھے راستہ نہ ملا۔

(ھ) اسی طرح مفعول بہت سے الفاظ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جسمین وہ ان اشیا کو ظاہر کرتا ہے کن کی نسبت کوئی امر بیان ہوا ہے۔
مثلاً مصدر لگنا کا استعمال ہے جیسے میر کا شعر
کوئی سادہ ہی اسکو سادہ کہے۔۔ لگے ہے مجھے وہ تو عیار سا
مجھے یہ بات بھلی نہین لگت، مجھے جاڑا لگتا ہے۔ اسکے سخت چوٹ لگی۔ (یہان کےبمعنی کو ہے)
بھانا اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسے مجھے وہ نہین بھاےا۔

آنا۔۔۔ ۔۔۔ جیسے بادشاہ کو اسکے حال پر رحم آیا
پڑنا۔۔۔ ۔۔۔ جیسے مجھے جانا پڑا۔۔ سرکار کو دست اندازی کرنی پڑی۔
دکھائی دینا۔۔ جیسے انکو شیر دکھائی دیا۔
اسی طرح بعض اسما و صفات کے ساتھ بھی آتا ہے جیسے آفرین ہے تیری ہمت کو۔

(د) اسی طرح سے مفعول بعید لازم ہے، مناسب ہے اور چاہیے وغیرہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے تم کو کچھ تو فکر کرنی چاہیے۔ مجھے یہ بات جلد کہنی مناسب ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ بھلائی کرے۔ اسکو لازم ہے کہ دفتر کی باتین باہر نہ کہے۔
(ز) کبھی سن ظاہر کرنے کے کیے جیسے ع ہمشکل مصطفٰے کو تو اٹھاروان ہے سال یعنے ستراہ سال ہوچکے ہین اور اٹھاروان شروع ہے۔
(ح) کبھی مفعول بعید غیر عین یا غیر محدود زمانہ ظاہر کرتا ہے۔ جیس رات کو مینھ برسا، مین
مین جب صبح کو اٹھا وغیرہ

(ط) کبھی لزوم کے معنون مین آتا ہے۔ جیسے
مہر وفا و راحت و آرام رقیب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جوروجفاؤ کاوز و خون جگر کو مین
(داغ)
بعض اوقات علامت مفعول محذوف ہوتی ہے جیسے وہ صبح سویرے چل دیا۔ مین گھر گیا۔ وہ کھانا کھانے لگ گیا۔

حالت اضافی

اضافت کے معنی نسبت کے ہین۔ اور کسی لفظ کی حالت اضافی اس لفظ کے تعلق کو دورے لفظ سے ظاہر کرتی ہے۔ اس لیے جس لفظ کی طرف نسبت جاتی ہے اسے مضاف الیہ کہتے ہین۔ اور جو لفظ کہ نسبت کیا جاتا ہے اسے مضاف کہتے ہین، مثلاً محمود کا گھوڑا۔ یہان گھوڑا حالت اضافی مین ہے اور اپنا تعلق محمود (یعنے مضاف) سے ظاہر کرتا ہے۔ درحقیقت اگر دیکھا جائے تو مضاف ایک قسم کی صفت ہے اور مضاف الیہ ،وصوف۔ اور یہ دونون مل کر ایک خیال ظاہر کرتے ہین۔
اردو مین حالت اضافی مختلف قسم کے تعلقات کو ظاہر کرتی ہے جسلی تفصیل ذیل مین کی جاتی ہے۔
1۔ ملک یا قبضہ ظاہر کرنے کے لیے جیسے راجہ کی باندی ہے۔ یہ اسکے گھوڑے ہین۔ ان جملون مین کہ "اسکا کیا بگڑتا ہے" "اسکا کیا جاتا ہے" کیا کو حالت اضافی مین سمجھنا چاہیے جو ملک کے ظاہر کرنے کے لیے آیا ہے۔ یا یہ کہ کیا کے بعد مال شے بات وغیرہ محذوف ہین مگر پہلی صورت زیادہ صاف ہے۔
2۔ رشتہ یا قرابت۔ جیسے میرا بیٹا۔ مسعود کا باپ۔ اسکا چچا۔
3۔ مادی اشیا کا بیان۔ جیسے سونے کی انگوٹھی۔ صندل کا صندوقچہ۔ بھڑون کا چھتا۔
4۔ ظرف مکان و زمان جیسے متھرا کا باشندہ۔ ملک ملک کے بادشاہ۔ یہ ایک منٹ کا کام ہے ۔ چار دن کی بات ہے۔ یہ اگلے وقتون کے لوگ ہین۔
5۔ کیفیت یا قسم۔ جیسے قسم قسم کی باتین۔ بڑے اچنبھے کی بات ہے۔ ایک پلے کا بوجھ۔
6۔ سبب یا علت۔ جیسے راستے کا تھکا ماندہ۔ دھوپ کا جلا۔ نیند کا ماتا، موذی کے مارنے کا کچھ گناہ نہین۔
7۔ اصل و ماخذ۔ جیسے پوتڑون کا امیر، چنبیلی کی خوشبو۔ باجے کی آواز۔
8۔ وضاحت کے لیے۔ جیسے جمعہ کا دن۔ مئی کا مہینہ۔
9۔ عمر کے لیے۔ چھ برس کا بچہ۔ ستر سال کا بوڑھا۔
10۔ استعمال، جیسے پینے کا پانی۔ ہاتھی کے کھانے کے دانت اور ہین اور دکھانے کے اور۔ یہ چاقو کسی کام کا نہین۔
11۔ قیمت، جیسے ایک روپیہ دو آم۔ اس کپڑے کے کیا دام ہین۔ دو روپیہ کا گھی لے آؤ۔
12۔ تشبیھ کے لیے۔ جیسے اسکی کلائی شیر کی کلائی ہے۔
13۔ استعارہ۔ (استعارے کے معنے ہین مانگے لینا۔ یعنی کسی شے مین کوئی خاص بات یا صفت پائی جاتی ہے۔ وہ اس سے مانگ کر کسی دوسرے سے منسوب کرنا) جیسے اسکے دل کا کنول کھل گیا۔
14۔ ادنٰے کے تعلق کے لیے۔ یعنے ذرا سے تعلق سے سب چیز کو اپنی طرف منسوب کر لینا جیسے اسکا ملک۔ ہمارا شہر وغیرہ۔
15۔ صفت کے لیے جیسے غضب کی گرمی۔ قیامت کی دھوپ ہے، آفت کا پرکالہ۔​
بشکریہ مقدس​
 

قیصرانی

لائبریرین
اسی طرح صفات کے ساتھ بھی مستعمل ہے۔ قول کا سچا۔ ذہن کا پکا۔16۔ جز کے لیے جیسے قصے کا آغاز۔ پہاڑ کی چوٹی۔ پانی کی ایک بوند۔17۔ کل کے لیے۔ اسکا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ مضاف اور مضاف الیہ دونون ایک ہی لفظ ہوتے ہین اور انکے درمیان علامت اضافی ہوتی ہے۔ جیسے سب کے سب۔ ڈہیر کا ڈہیر۔ آوے کا آوا بگڑا وا ہے۔ ایک شعر کیا غزل کی غزل مرصع ہے۔ شہر کا شہر اسی مین مبتلا ہے۔ قوم کی قوم ۔ خاندان کا خاندان وغیرہ۔اضافت کے ساتھ لفظ کا یہ تکرار اور معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً(ا) بالکل اور مطلق کے معنی جیسے ہزار لکھا یا پرھایا مگر جاہل کا جاہل رہا۔ یعنے بالکل جاہل۔ اسی طرح بیل کا بیل رہا۔(ب) بمعنے کثرت جیسے درختون کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے ہین۔ لوگ جوق کے جوق آ رہے تھے۔(ج) حصر اور تقیل کے لیے جیسے اس سے رات کی ملاقات رہی۔ (یعنئ صرف ایک رات) وقت کے وقت کیسے انتظام ہو سکتا ہے۔ (یعنے فوراً) وہ بات کی بات مین بگڑ گیا۔ (یعنے ذرا سی بات مین) اسی طرح پاس کے پاس۔ وگیرہ۔(لا) شمول کے لیے۔ جیسے آدمی کا آدمی ہے اور بندر کا بندر یعنے آدمی بھی ہے اور بندر بھی۔ آم کے آم گھٹلیوں کے دام یعنے آم بھی ہے اور گھٹلیوں کے دام بھی۔ روپیہ کا روپیہ گیا اور عزت کی عزت، یعنے روپیہ اور عزت دونون گئے۔(و) ہر کے معنون مین جیسے "وہ برس کے برس آتا ہے" یعنے ہر برس، اسی طرح ہفتہ کے ہفتہ۔ مہینے کے مہینے۔ روز کے روز، سہ ماہی کی سہ ماہی۔ چہہ ماہی کی چہہ ماہی۔ فصل کی فصل بھی مستعمل ہین۔ لیکن یہ استعمال ہمیشہ زمانے کے ساتھ ہوتا ہے۔(ز) افعال حالیہ کے ساتھ بھی اضافت کا استعمال ہوتا ہے۔۔ جیسے گرا کا گرا رہ گیا۔ یا کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی ۔ دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا۔ یعنے جس حالت مین تھا ویسا ہی رہگیا۔15۔ فاضل یا مفعول کے اظہار کے لیے جیسے اسکے بھاگ جانے کی خبر ہے۔ مین اسکی تکلیف نہ دیکھ سکا۔ یہ استعمال اکثر مصادر کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اور یہ مصدر اپنے فاعل یا مفعول یا ظرف کا مضاف ہوتا ہے جیسے صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیت (غالب) ۔ رات کا آنا قیامت کا آنا ہے، دل کا آنا جان کا جانا ہے، وہان کا بیٹھنا اچھا نہین وغیرہ وغیرہ۔19۔ بعض صفات و دیگر الفاظ ہمیشہ علامت اضافت کے ساتھ استعمال ہوتے ہین جیسے لائق، قابل،قریب، برابر، متعلقم موجب، موافق، نسبت، طرف، مطابق، بابت، مشابہ، اسی طرح قبل، بعد، پاسم آگے، پیچھے، اوپر، نیچھے، تئین، لیے، واسطے، طرح کے ساتھ بھی حروف اضافت آتے ہین۔ مگر قبل اور بعض بغیر اضافت کے بھی مستعمل ہوتے ہین۔ جیسے دو ماہ قبل۔ دو ماہ بعد۔20۔ بعض اوقات حرف اضافت کے بعد کا اسم (یعنی مضآف الیہ) محذف بھی ہوتا ہے۔ جیسے اہمان کی تو یہ کہ کہ ایمان تو گیا۔ (یعنی ایمان کی بات) اس نے میری ایک نہ سنی۔دل کی دل ہی مین رہی ایک نہ ہونے پائی۔ملے تھے آج تو ہم بھی جناب آصف سےعجیب رنگ مین ہین پوچھتے ہو کیا انکیایسی حالتون مین اکثر بات یا حالت کا لفظ محذوف ہوتا ہے مگر کبھی کبھی دوسرے الفاظ بھی محذوگ کر دیے جاتے ہین۔ یا تو اس لیے کہ انکا بیان اکثر خلاف تہذیب ہوتا ہے۔ یا یہ کہ انکا سمجھنا سہل ہوتا ہے۔ مثلاَغرض یہ کہ سرکار ہین پیٹ بھر کے
آج پھر وہ ہندو کا آیا تھا، انکہ بھلی کہی۔

21۔ بعض اوقات اور خاصکر نظم مین مضاف الیہ و مضاف کی ترتیب بدل جاتی ہے جیسے
یہی حال دنیا مین اس قوم کا ہے ۔۔۔ ۔ بھنور مین جہاز آ کے جسکا گھرا ہے

یا جیسے نام تو انکا مجھے یاد نہین البتہ صورت یاد ہے۔ یا کوئی مزاج پوچھے تو جواب دین "شکر خدا کا" اس موقع پر ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ بّض اوقات جب ترکیب اضافی اپنی اصل حالت پر نہین ہوتی بلکہ علامت اضافت جو عموماً مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان واقع ہوتی ہے آخر مین واقع ہو تو محاورے مین کی کے بجائے کے استعمال ہوجاتا ہے۔ مثلاً مانند شیر کے، یہان کے ازروے محاورہ صحیح ہے حالانکہ ازروے قاعدہ کی ہونی چاہیے کیونکہ مانند مونث ہے
یا جیسے آتش کا شعر ہے۔
معرفت مین اس خداے پاک کے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اڑتے ہین ہوش و حواس ادراک کے

یا میر انیس فرماتے ہین۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ میدان مین تھا حشر بپا چال سے اس کے
اسی طرح میر تقی میر فرماتے ہین۔۔۔ ۔۔۔ آنکھون مین ہین حقیر جس تس کے
حالانکہ معرفت، چال، آنکھون، مونث ہین مگر انکے ساتھ کے استعمال ہوا ہے۔ زبان کا محاورہ یہی ہے اور اسلیے اعتراض کی گنجایش نہین،اگرچہ عام قاعدہ اسکے خلاف ہے مگر یہ استعمال اکثر نظم مین ہوتا ہے۔
22۔ یہان ایک اور نکتہ بھی قابل ذکر ہے جس کا تعلق زبان کے محاورے سے ہے۔
ذیل کے فقرون مین کے کے استعمال پر غور کیجیئے۔

احمد نے اس کے ۔۔۔ تھپڑ مارا۔
اس کے ۔۔۔ ۔ سرمہ لگایا
گھوڑے نے اس کے ۔۔۔ ۔ لات ماری
مین نے اس کے۔۔۔ ۔۔۔ ۔ چٹکی لی۔
اس کے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ابٹنا ملو۔
اس کے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ بیٹا ہوا۔
گدھے کے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ دم نہ تھی۔
اس کے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔چوٹ لگی وغیرہ وغیرہ

بعض حضرات کا اسکے متعلق یہ خیال ہے کہ کے کے بعد کوئی ایک لفظ محذوف ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہین کہ "اسکے تھپڑ مارا" تو اصل مین ہے اسکے منھ پر تھپڑ مارا۔ اسی طرح اسکے سرمہ لگایا' اسمین آنکھون کا لفظ محذوف ہے۔ "اسکے بیٹا ہوا" اس میں ہاں محذوف ہے، "گدھے کی دم نہ تھی" یہ اصل مین ہے گدھے پاس دم نہ تھی "اسکے چوٹ لگی" یعنی اس کے بدن مین یا جسم مین وغیرہ
لیکن میری رائے مین یہ کے وہ نہین ہے جوحروف معنویہ کے آنے سے کا سے ک ہو جاتا ہے۔ اسمین شک نہین کہ صورت مین اسکے مشابہ ہے لیکن درحقیقت یہ کے بھی مثل دوسری علامات اضافت (بقول بعض مضققین) اور کو کے سنسکرت کے حالیہ کرتا سے ماخوذ ہے۔ اور اس صورت مین کسی لفظ محذوف کی ضرورت باقی نہین رہتی۔ عماوہ اس کے ماڑ واڑی مین جو مثل دیگر ہندی زبانون کے پراکرت سے نکلی ہے اب تک کے مذکر و مونث دونون کے لیے استعمال ہوتا ہے اور بھوج پری، ماگدھی، میتھلی زبانون مین اب تل علامت مفعول کے کی بھی ہین۔ نیز دکن اور بعض دیگر مقامات مین بجائے "اسے بیٹا ہوا" کہنے کے "اسکو بیٹا ہوا" کہتے ہین' جو اگرچہ اردو محاورے کے رو سے غلط ہے مگر اصل کا پتا ضرور دیتا ہے۔
حالت انتقالی

حالتانتقالی ایک شے کی جدائی دوسری شے سے ظاہر کرتی ہے خواہ وہ مادی طوور پر ہو یا خیالہ طور پر۔ عموماً اسکا اظہار حرف سے ہوتا ہے۔ اسے ذیل کی صورتون مین تقسیم کر سکتے ہین۔
1- حالت انتقالی مکانی۔ یہ اکثر ایسے افعال کے ساتھ آتی ہے جن مین حرکت پائی جائے۔ اور اس مقام کو بتاتی ہے جہان سے حرکت شروع ہوئی، جیسے
وہ مدرسہ سے گھر آیا۔ نکل شہر سے راہ جنگل کی لی۔۔ وہ دلی روانہ ہوئی۔ مسند سےاٹھا۔
2۔ زمانی۔ آغاز وقت کے لیے (یعنی جہان سے کسی وقت کی ابتدا ہوئی) جیسے اب سے دور۔ وہ کل سے نہین آیا، مہینوں سے بیکار بیٹھا ہوں۔کچھ دنون سے یہی حال ہے۔ ایک زمانہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔
3۔ جدائی کے لیے مادی ہو یا خیالی۔ جیسے وہ مجھ سے جدا ہو گیا۔ مین نے اسے غلامی سے آذاد کر دیا۔ اس نے مجھے آگ سے بچایا۔ تم نے مجھے وہان جانے سے کیون منع کیا۔ وہ کام سے جی چراتا ہے۔ عقل سے بعید ہے۔
4۔ ماخذ' اصل یا علت ک اظہار کے لیے۔ جیسے وہ اپنے کیے سے نادم ہوا ، زمانہ کے انقلاب سے گھبرا کر گھر بیٹھ رہا، اسکی اطاعت سے کیا فائدی وہ بدنامی سے ڈرتا ہے۔ آپ ک خوف سے پڑھتا ہے، فساد سے ضرور پیدا ہوتا ہے، وہ مجھ سے خوش ہے۔
4۔ ذریعہ ہا آلہ کے ظاہر کے لیے جیسے مین نے اسے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ کسی دوسری کنجی سے نہین کھلنے کا، اس نے مجرمون کو ہاتھی سے کچلوا دیا۔
یہ فقرہ بھی کہ ندی نالئ پانی سے بھرے ہین اسی شق مین آسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس شے کو ظاہر کرتا ہے جس سے ندی نالے بھرے ہین۔
(یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فع "ہونا" اور افعال متعدی المتعدی (یا متعدی بالواسطہ) مین صورت فاعلی ہو جاتی ہے، جیسے مجھسے خطا ہوئی۔ مین ان لڑکون کو مولوی صاحب سے عربی پڑھواتا ہون)
6۔ مقابلہ کے لیے۔ جیسے وہ مجھسے اچھا ہے، یہ اس سے بڑا ہے۔ وہ سب سے پہلے گیا۔ مجھسے کوئی نہ جیتا، دل آزاری سے بڑھکر کوئی گناہ نہین، سخی شوم سے بھلا۔
تمیز فعل ظرفی کے ساتھ جیسے گھر سے باہر۔ اس سے پہلے۔
7۔ طور و طریقی کے اظہار کے لیے غور سے ملاحظہ فرمائیے، اس نے بڑی محبت سے کہا۔ وہ بہت خاطر تواضع سے پیش آیا۔ انکسار سے فرمایا وغیرہ۔
۔ معیت کے لیے جیسے بڑے سامان سے آیا۔ مین نے روٹی سالن سے کھائی۔
9۔ جزو کل یا جنس و نوع کے تعلق کے لیے۔ جیسے وہ ہم مین نہین ہے، اسے اس گروہ سے تعلق نہین۔ یہ حیوانات کی قسم سے ہے۔ یہ شخص خاندانی شرفا سے ہے۔
10۔ صفت کے ساتھ۔ اس حالت مین وہ عموماً صفت ہی کے ساتھ آتا ہے، نکھ سکھ سے درست بدن سے ننگا۔ آنکھون سے اندھا، کانون سے بہرا، لین دین سے ہوشیار۔
11۔ اسی طرح سے دیگر تعلقات کے اطہار کے لیے آتا ہے جیسے یہ پیڑ چھونے سے مرجھا جاتا ہے۔ لاتون کا بھوت باتون سے نہین مانتا۔ آپ کی عنایت سے ۔ یہ مین دل لگی سے نہین کہتا، کام سے کام رکھو۔
حالت مفعولی مین یہ ذکر ہو چکا ہے، کہ بعض مصادر کے ساتھ سے کو کے معنون مین آتا ہے۔ اور اسلیے انھین حالت مفعولی ہی مین سمجھنا چاہیے۔ انمین سے ایک فعل کہنا ہے۔ اسکے ساتھ سے اور کو دونون آتے ہین، لہذا اس استعمال مین فرق بتانا ضروری ہے۔ کہنا جبکسی سے خطاب کرنے کے معنون مین آتا ہے تو اسکے ساتھ ہمیشہ سئ استعمال ہوتا ہے۔ جیسئ مین نے اس سے کہا۔ مجھ سے کہو۔ مین کس سے کہون؟ لیکن باقی تمام صورتون یعنی کسی کی نسبت کچھ کہنے یار اے قائم کرنے یا نام تجویز کرنے وغیرہ مین کو آتا ہے۔ جیسے یہ کیا بات ہے کہ اسے (اسکو) تو سب اچھا کہتے ہین مگر تمھین (تم کو) سب برا۔ اس جانور کو کیا کہتے ہین؟

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
مدعی صاف کھڑے مجھکو برا کہتے ہین
چپکے تم سنتے یو بیٹھے اسے کیا کہتے ہین
مثلاً "تم سے کوئی کیا کہے" اور "تم کو کوئی کیا کہے"۔ " اب مین تم سے کیا کہون" مین یہی فرق ہے۔ تم سے کہنے کے یہ معنی ہین کہ جو بات کسی معاملہ کی تمھارے روبرو کہی جائے، اور تم کو کیا کہین کے یہ معنی ہین کہ تم خوس ہوشیار ہو' لائق ہو۔ تمھین کوئی کیا مشورہ دے۔ یا یہ کہ تم نے کو کام کیا کیا ہے اسکے دیکھتے تمھین کیا کہا جائے، احمق یا عقل مند۔
اسی قسم کی اور مثالین ہین جیسے اس کو سب احمو کہتے ہین لیکن درحقیقت وہ احمق نہین۔ مجھکو آپ جو چاہے کہیے مگر اسے کچھ نہ کہیے (یعنی میری نسبت یا اسکی نسبت) ۔ مجھ سے کوئی کچھ نہین کہہ سکتا۔ دونون درست ہین۔ کیونکہ یہان معناً دو شقین جمع ہو گئی ہین۔
اسی طرح سے بعض اور افعال ہین جن کے ساتھ سے کو کے معنون مین آتا ہے جیسے وہ مجھ سے لڑ پڑا۔ مین اس سے ملا۔ اس نے احمد سے وعدہ کیا۔ وہ کس سے باتین کر رہا ہے،
12۔ بعض اوقات سے بعض حرود مین یا پر سے مل کر آتا ہے۔ جیسے گھر مین سے بولا۔ چھت پر سے اترا۔
حالت ظرفی

حالت ظرفی کا اظہار عموماً مین اور پر سے ہوتا ہے۔
1۔ مین بلحاظ اصل کئ اور یون بھی عام طور پر مکان کے اظہار کے لیے آتا ہے۔ جیسے دنیا جہان مین۔ شہر مین، گھر مین۔ وغیرہ۔
اسی طرح قدمون مین گر پرا۔ دل مین آیا۔
محاورے مین جیسے کانون مین تیل ڈالے بیٹھے ہین۔ اس کاممین دل نہین لگتا۔ وہ ہوش مین آیا۔
2۔ زمانہ کے لیے (یعنی وہ وقت جس مین کوئی کام واقع ہو) جیسے یہ کام کتنے دنون مین ہو جائے گا۔ وہ ایک مہینے مین واپس آ جائے گا۔
3۔ مقابلہ کے لیے۔ مین اس سے کسی چیز مین کم ہون' لیاقت مین' عزت مین' مالودولت مین۔ ان دونون مین کون بہتر ہے۔ مجھ مین اسمین زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھ سے عمر مین بڑا ہے۔ لاکھ مین ایک ہے۔
4۔ ذریعہ کے اظہار کے لیے۔ جیسے ایک ہی ہاتھ مین کام تمام کر دیا۔ دو ہی باتون مین پرچا لیا۔ چند ہی کشتون مین حقہ جلا دیا۔
5۔ مصروفیت جیسے وہ دن رات مطالعہ مین رہتا ہے۔ اسے فرصت کہان وہ تو شب و روز ناچ رنگ مین مشغول رہتا ہے۔ اپنے کام مین ہے،
6۔ حالت یا کیفیت۔ اس سوچ مین آنکھ لگ گئی۔ پینک مین ہے، نشہ مین ہے۔ وہ اپنے ہوش وحواس مین نہین۔ وہ نیند مین ہے۔ مصیبت مین ہے۔ کس عذاب مین ہون۔ مارے
خوشی کے آپے مین نہین سماتا۔ ہاتھ مین شفا ہے۔ زبان مین اثر ہے۔
7۔ چسپان یا ملا ہونا۔ جیسے انگوٹھی مین ہیرا جڑا ہوا ہے۔ جھالر مین موتی لگے ہوئے ہین، ایک تولے سونے مین ماشہ بھر تانبا ہے۔
8÷ جز کا تعلق کل سے۔ خاندان بھی مین یہ ایک ہی لائق شخص ہے۔ ساری کتاب مین ایک صفحہ بھی پرتھنے کے قابل نہین ۔ وہ ہمارے دفتر مین منشی ہین۔
9۔ قیمت کے لیے۔ جیسے یہ کتاب کتنے مین پڑی۔
قیمت کے لیے کبھی حالت اضافی استعمال ہوتی اور کبھی مفعولی اور کبھی ظرفی۔ لیکن معنون مین کس قدر فرق ہوتا ہے۔ مثلاَ جب ہم کہتے ہی کہ یہ مال کتنے کا ہے۔ تو اسکے معنی یہ ہین کہ اسی اصلی قطعی قیمت کیا ہے۔ جب یہ پوچھتے ہین کہ کتنے کو دو گے؟ یا یہ کتنے کو لیا تو اسکے معنی ہین کہ وہ قیمت کتنے مین یہ شئے بکتی ہے لیکن جب ہم یہ کہتے ہین کہ مین نے یہ لیمپ چار روپیہ مین لیا تو اسکا یہ مطلب ہے کہ یہ یہ قیمت خرید ہے یا اتنے مین پڑا ہے ممکن ہے کہ اصلی قیمت یا قیمت فروخت کم و بیش ہو۔
10۔ معاملہ کے متعلق جیسے اسمین بحث کرنا فضول ہے۔ اسمین میرا کچھ بس نہین چلتا۔ اس مقدمے مین مشورہ کرنا چاہیے۔
11 وزن کے لیے جیسے تول مین کم ہے۔ سیر مین چار چڑھتے ہین۔
12۔ درمیان کے معنون مین ۔ جیسے ان مین صلح ہو گیہ۔ ان مین لڑائی ہو گئی۔ بھرے مجمع مین بول اٹھا، بیس دانتون مین ایک زبان ہے۔ سو مین کہدون لاکھ مین کہدون، تین مین نہ تیرہ مین، ہم بھی ہین پانچوین سوارون مین، سچ اور جھوٹ مین امتیاز کرو۔
13۔صفت کے ساتھ جیسے باتون مین تیز کام مین سست۔
14۔ کبھی حرف ظرف مجذوف ہوتا ہے۔ جیسے مین چوتھی کودنی پہنچا۔ خصوصاً محاورات مین​
پاؤن پڑنا۔ کام آنا۔
پر بھی حالت ظرفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
1۔بیرونی تعلقات کے لیے۔
ا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہے۔ پھاٹک پر کھڑا ہے۔ مینڈ پر چریا بیٹھی ہے۔ خدا ا دیا سر پر۔ بنارس گنگا پر واقع ہے۔
ب۔ فاصلہ کے لیے۔ یہان سے کچھ فاصلہ پر ہے۔
2۔ ٹھیک وقت۔ جیسے عین وقت پر آیا۔
خصوصاً جب گنٹون کے ساتھ منٹ اور سیکند بھی ذکر کیے ھائین ۔ جیسے پانچ بج کے دس منٹ پر آیا۔ دس بج کر پندرہ منٹ بیس سیکنڈ پر پہنچا۔
3÷ تعلق خاطر۔ ہمارے حال پر رحم کرو۔ اس بات پر غور کرو۔ میرا دل اس پر آگیا۔
4۔ کسی کے خلاف عمل یا خیال کرنا۔ جیسے دشمن پر حملہ کیا۔ شیر اس پرجھپٹا۔ وہ مجھپر غصے ہوا۔ اسکے مال پر قبضہ کر لیا۔
5۔فجیلت' فوقیت۔ جیسے اسکا مجھپر بس نہین چلتا۔ اسے اس پر ترجیح ہے۔ اسے اسپر تقدم ہے۔
6۔ پابندی (قواعدورسوم)۔ وہ اپنے طریقے پر ہے مین اپنے طریقہ پر۔ ان قواعد کی پابندی مجھپر لازم نہین خدا کی اطاعت سب پر واجب ہے۔ وہ اپنے قول و اقرار پر قائم نہین رہتا۔ ہر چیز اپنی اصل پر آجاتی ہے۔
7۔ وجہ۔ سبب، جیسے میرے استقلال پر وہ سب حیران تھے۔ اتنی سی بات پر آگ بگولا ہو گیا۔
8۔ واسطے اور خاطر کے معنون مین۔ جیسے مہم پر گیا۔ کام پر گیا۔ وہ نام پر مرتا ہے۔ روٹی پر جان دیتا ہے۔
9۔ باوجود یا باوصف کے معنون مین جیسے اس ہوشیاری پر ایسی غفلت۔ اتنے علم و فضل پر یہ کج فہمی۔
10۔ طرف و جانب کی معنون مین جیسے اسکی بات پر نہ جانا، اسپر نہ جانا یہ سب دیکھنے کے ہین۔
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دین تو فرشتے وضو کرین
اسپر کوئی خیال نہین کرنا چاہیے۔
11۔ انحصار۔ جیسے میری زندگی اسی پر ہے۔ ایک مجھی پر کیا سب کا یہی حال ہے۔ میرا جانا انپر موقوف ہے۔

حالت ندائیہ
حالت ندائیہ پکارنے یا بلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ خواہ اس کے ساتھ حروف فجائیہ ہون یا نہون، یہ عموماً جملہ اول مین ہوتی ہے اور جملے کے دوسرے الفاظ سے اسے تعلق نہین ہوتا۔
حالت ندائیہ اکثر الفاظ فجائیہ کے ساتھ آتی ہے۔ اے دوست!۔ او لڑکے! او بیرحم! وغیرہ مگر بعض اوقات حروف ندی نہین بھی آتے جیسے صاحبو! لوگو! بیٹا!۔ قبلہ وغیرہ۔
بھیا اور بھینا کے الفاظ اکثر حالت ندائیہ ہی مین مستعمل ہوتے ہین، شعر اپنی نظموم مین اور خصوصاً مقطع مین اپنا تخلص لاتے ہین جو اکثر حالت ندائیہ مین ہوتا ہے۔
ہوت دور سے بلانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ارے۔ ابے حقارت کے لیے اور ادنی لوگون کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر ان کا استعمال فصیح خیال نہین کیا جاتا۔
رے اللہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اسکے معنی تعجب کے ہوتے ہین جیسے اللہ رے تیری استغنا
بے تکلفی مین ارے میان کے ساتھ آتا ہے جیسے ارے میان۔ یا اضطراب مین لوگون کے ساتھ۔ جیسے ارے لوگو یہ کیا غضب ہوا۔

صفت
صفات کی ساخت اور تغیر و تبدیل کے متعلق پہلے حصون مین کافی طور سے بیان ہو چکا ہے لہذا یہان اس کا بیان غیر ضروری ہے۔
1۔ صفت جب کبھی اسم کی کیفیت یا ھالت بیان کرتی ہے تو اسکی دو صورتین ہوتی ہین۔
(1) توصفی ۔۔(2) خبریہ)
توصیفی جیسے خوبصورت جوان، نازک کلائی۔ نیلا آسمان وغیرہ
خنریہ جیسے وہ گھوڑا خوبصورت ہے، یہ پانی تو گرم ہے۔ مین نے اسے بہت ہوشیار پایا وغیرہ

2۔ اردو مین صفات اکثر اسما کی طرح استعال ہوتی ہین اور جس طرح اسما کی آخری علامت مین تبدیلی واقع ہوتی ہے ان مین بھی ہوتی ہے، جیسے
تم کیا اچھے اچھے مارت پھرتے ہو اور کوئی نہین پوچھتا۔
چاہے اچھون کو جتنا چاہیے
وہ اگر چاہین تو پھر کیا چاہیے

برون کی صحبت سے بچو، بےحیا کی بلا دور۔ یہان سب طرح کے لوگ موجود ہین اچھے سے اچھا اور برے سے برا۔ عقلمندون کی صحبت مین بیٹھو جاہلون سے احتراز کرو، برون کا ادب کرو اور چھوٹون پر شفقت۔
3۔ کبھی کبھی بعض اسم بھی صفت کے معنون مین استعمال ہوتے ہین جیسے​
بشکریہ مقدس​
 

قیصرانی

لائبریرین
8۔ آپ بجاے ضمیر مخاطب تعظیماً آتا ہے اور کبھی تعظیم کے خیال سے غائب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جسکا ذکر حصہ صرس مین ہو چکا ہے۔ لین آپ مخاطب کے لیے آئے یا غائب کے لیے فعل اسکے لیے ہمیشی جمع آتا ہے۔ جیسے آپ تشریف لے چلین۔ آپ آئے تھے۔ آپ کب جائین گے۔​
9۔ اپنا ضمیر کے موقع پر جس جس طرح استعمال ہوتا ہے اسکا ذکر صرف مین آ چکا ہے۔ علاوہ​
اسکے وہ بلا تعلق مرجع اور بھی کی طرح استعمال ہوتا ہے۔​
(ا) بعض وقت ضمیر متکلم کے معنون مین آتا ہے۔ جیسے اپنا الو کہین نہین گیا۔​
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ ۔۔۔ ۔۔ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہین​
ناصحوں سے کلام کون کرے ۔۔۔ ۔۔۔ اپنی ایسون سے گفتگو نہین (داغ)​
(ب) بعض اوقات صفت کے معنے دیتا ہے۔ جیسے اپنی فرم سے دینا۔ اپنی نیند سونا، اور اپنی بھوک کھانا۔​
(ج) جب مکرر آتا ہے تو اسکے معنے ہوتے ہین ہر ایک کا الگ الگ۔ جیسے اپنا اپنا کمانا اپنا اپنا کھانا۔ اپنا اپنا کام کرو۔ اپنے اپنے گھر جاؤ، وہ سب چھ بجے اٹھے اور اپنا اپنا کام کرنے لگے۔​
(د) کبھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اپنا اپنا ہے پرایا پرایا۔ مجھے اپنا پرایا سب ایک ہے۔ جب وہ اپنون سے یہ سلوک کرتا ہے تو غیرون سے کیا کچھ نہ کہے گا، (یہان اپنے کے معنے عزیز اور رشتہ دار ہین اور ان معنون مین یہ لفظ ہمیشہ جمع مین استعمال ہوتے ہین) اسی سے اپنایت اسم کیفیت ہے جسکے معنے یگانگت کے ہین۔​
(و) اس محاورے مین کہ " ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے" اسم محذوف ہے۔ اسی طرح ان محاورات مین اپنی گانا۔ اپنی کہنا اسے اپنی پڑی پے۔ جب دیکھو وپ اپنی گاتا ہے۔ اسم محذوف ہے اور اس لیے بجاے اسم سمجھا جائے گا۔​
(ز) کبھی آپ بھی اپنے یا اپنی کے بجائے آتا ہے جیسے آپ بیتی۔ آپ کاج مہا کاج​
(ح) آپ سے آپ اور آپ ہی آپ اور آپ سے خودبخود کے معنون مین آتے ہین۔​
تیغ تو اوچھی پڑی تھی گر پڑے ہم آپ سے ۔۔۔ ۔۔ دل کو قاتل کے بڑہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے۔​
(ط) کبھی آپ کے بجاے آپے کا لفظ بھی محاورے مین استعمال ہوتا ہے، جیسے آپے سے باہر ہو جانا۔ آپے مین آنا۔​
10۔ بعض اوقات ہم تم اور آپ کے ساتھ دوسرے اسم جمع مثل لوگ صاحب اور حذرات کے استعمال ہوتے ہین۔ جیسے ہم لوگ؛ تم لوگ آپ صاحب آپ حضرات وغیرہ۔​
11۔ ہی حرف تخصیص ہے جب وہ ہم تم اور وہ کے ساتھ آتا ہے تو انکی صورت وہی ہمین تمھین ہو جاتی ہے، جیسے وہ آئے گا تو دون گا۔ یہ غلطی ہمین سے ہوئی۔ یہ تمھین تو تھے۔​
12۔ ضمیر کبھی اسم سے پہلے بھی آجاتی ہے مگر یہ اکثر نظم مین ہوتا ہے۔​
13۔ یہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ ضمیر اشارہ قریب کے لہے اور وہ بعید کے لیے۔ لیکن بعض اوقات یہ کا اشارہ پورے جملے کی طرف ہوتا ہے جو اسکے بعد آتا ہے جیسے​
یہ مین نے مانا کہ آج خنجر! مرا گلو بھی نہین رہے گا​
کمر مین ظالم کے او ستم گر! ہمیشہ تو بھی نہین رہے گا​
14۔ یہ یا وہ کبھی ایسا کے معنون مین بطور صفت کے آتا ہے جیسے روشنی کایہ عالم تھا کہ اسکے سامنے چاندنی گرد تھی۔​
15۔ حروف ربط کے اذر سے یہ اس سے اور وہ اس سے بدل جاتا ہے۔ جیسے اس مین۔ اس پر وغیرہ۔​
علاوہ حروف ربط کے پاس۔ جگہ ۔گھر۔ طرف۔سمت جانب۔ رات۔ دن۔ ذن۔ مہینہ۔ سال۔ گھڑی۔ طرح، قدر وغیرہ کے ساتھ آنے سے بھی یہی تبدیلی ہو جاتی ہے۔​
16۔ جمع مین یہ ان اور وہ ان ہو جاتا ہے۔​
17۔ ہی کے آنے سے یہ یہی وہ وہی ان انھین اور ان انھین ہو جاتا ہے۔​
18۔ کبھی یون بھی ضمیر اشارہ (قریب) کے لیے مستعمل ہوتا ہے جیسے​
میہندی ملنے کے بہانے ہین عبث۔ یون کہیے​
آج آغیار سے پیمان کیے بیٹھے ہیں (داغ)​
19۔ ضمائر استفہامیہ دو ہین۔ کیا اشیا کے لیے اور کون اشخاص کے لیے۔ ان کا مفصل ذکر صرف مین آ چکا ہے۔​
کیا حالت فاعلی اور مفعولی یکسان طور سے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً تمھین کیا چاہیے۔ تم کیا کر رہے ہو۔ لیکن کیا تعجب اور حیرت کے لیے آتا ہے۔ تو اشخاص کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وہ بھی کیا آدمی ہے۔ کیا بیوقوف ہے (لیکن ان موقعون یا تو وہ صفت کا کام دیتا ہے یا تمیز صفت کا)​
20۔ استفہام کی مختلف قسمین ہین اور وہ مختلف معنون کا اظہار کرتا ہے، مثلاً​
(ا) محض استفسار کے لیے۔ جیسے یہ کون ہے؟ یہ کیا ہے؟ اسے استخبارہ بھی کہتے ہین۔ جیسے اس شعر کے دوسرے مصرع مین​
دل نادان تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔ ۔ آخر اس درد کی دوا کیا ہے۔​
(ب) اقراری جیسے یہ تمھارا قصور نہین تو اور کا کا ہے؟ (یعنے تمھارا ہی ہے) یہ حماقت نہین تواور کیا ہے؟​
(ج) انکاری جیسے​
گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یون سہی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ جنون عشق کے انداز چھٹ جائین گے کیا۔ (غالب)​
کیا یہ انداز چھٹ جائین گے؟ یعنے نہین چھٹین گے۔۔​
بشکریہ مقدس​
215 صفحات ہو گئے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین

یا اس شعر کے دوسرے مصرع ہین

دوست غمخواری مین میری سعی فرمائین گے کیا ۔۔۔ ۔ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائین گے کیا؟
(د) تجاہل یعنے جان بوجھ کر پوچھنا جیسے کسی کو لکھتے ہوئے دیکھکر پوچھنا کہ کیا کر رہے ہو؟

پوچھتے ہین وہ کہ غالب کون ہے ۔۔۔ ۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائین کیا؟

یا شاعر ممدوح کے متعلق تجاہل سے سوال پر سوال کرتا ہے ۔ حالانکہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے۔
کون ہے جسکے در پہ ناصیہ سا ۔۔۔ ۔۔ ہین مہ و مہرہ زہرہ و بہرام

اور پھر خود ہی اسکا جواب دیتا ہے

تو نہیں جانتا تو مجھسے سن ۔۔۔ ۔ ۔نام شاہنشہ بلند مقام
قبلہ چشم و دل بہادر شاہ۔۔۔ ۔۔ مظہر ذوالجلال و الاکرام
یا اسی طرھ ایک مقرر زور دینے کے لیے سوال پہ سوال کرتا ہے حالانکہ خود بھی جانتا ہے اور دوسرے بھی جانتے ہین۔

(ل) زجر و ملامت کے لیے جیسے اس شعر کے پہلے مصرع مین

دل نادان تجھے ہوا کیا ہے؟ ۔۔۔ ۔ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

یا ہم بگڑ کر کسی سے کہین "کیا کرتے ہو"؟
(و) تحقیر تو ہین کے لیے جیسے
ہر ایک بات ہی کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے۔۔۔ ۔۔ تمھین کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
(ز) حیرت و استعجاب کے لیے جیسے این! یہ کیا ہوا!
جب کہ تجھ بن نہین کوئی موجود۔۔۔ ۔ پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
(ح) انکسار کے لیے جیسے ہم کیا ہین کوئی کام جو ہم سے ہوگا؟


(ط) نفی کے لیے جیسے مین کیا جانون؟
(ی) استغنا کے لیے جیسے مین اسے لے کر کیا کرون گا؟

21۔ اسکے علاوہ کیا بطور حال وصفت بھی آتا ہے۔ جس کا ذکر دوسرے موقع پر کیا جائے گا۔
22۔ کیا کیا بہ تکرار بھی آتا ہے، کس کے معنے کثرت کے ہوتے ہین، جیسے کیا کیا کہون؟ کیا کیا لکھون؟ کیا کیا سنون؟
23۔ کون اور کون سا کا فرق پہلے بیان ہو چکا ہے، کونسا ہمیشہ ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے کہان کئی مین سے ایک مقصود ہو۔ مثلاً کئی کتابین ہون اور پوچھین کونسی چاہیے۔
24۔ کون اور کیا بعض اوقات تنکیری معنون مین آتے ہین، جیسے مجھے معلوم نہین کہ کون آیا اور کون گیا یہان استفہانہ معنی نہین ہین، اسی طرح کچھ معلوم نہین اس نے مجھے کیا کہا تھا۔ مین کیونکر وعدہ کر لون خدا جانے وہ کیا مانگ بیٹھے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ اس مکان مین کون رہتا ہے۔
25۔ ضمائر تنکیری کچھ اور کوئی ہین انکا معمولی استعمال اور فرق کا بیان صرف مین ہو چکا ہے۔
26۔ کوئی بطور ضمیر ہمیشہ جان دارون کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واحد کے لیے آتا ہے۔ جمع مین نہین آتا۔
27۔ ایک ہی جملے کے دوحصون مین کوئی اور کچھ الگ الگ بطور جواب استعمال ہوتے ہین ۔ کرے کوئی بھرے کوئی۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ۔ کوئی مرے کوئی ملہار گائے۔ کچھ ہم سمجھے کچھ تم سمجھے۔ ایسے جملون مین کوئی اور کچھ کے معنے ایک جگہ ایک اور دوسری جگہ دوسرے کے ہین۔
28۔ کوئی اور تکرار کے ساتھ قلت کے معنون مین آتے ہین۔ جیسے
کوئی کوئی اب بھی مل جاتا ہے۔ کچھ کچھ باقی ہے۔

29۔ کوئی نہ کوئی اور کچھ نہ کچھ بھی قلت کے معنون مین آتے ہین اور اسمین زیادہ زور ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی اب بھی نظر آجاتا ہے۔ اچھون کی صحبت مین کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوتا ہے۔
30۔ کوئی کا استعمال استفہام کے ساتھ روز مرہ مین بڑے لطف سے ہوتا ہے۔ جیسے
عمر دو روزہ عیش دو روزہ نہین ہے تو ۔۔۔ ۔ مین چھوڑتا ہون کوئی غم جادوان تجھے (داغ)
کاوش غم دور ہو میرے دل ویران سے کیا۔۔۔ ۔۔۔ خار جاتے ہین کوئی صحر کا دامن چھوڑ کر؟
31۔ کچھ کا کچھ اور کچھ سے کچھ ایسے موقع پر بولتے ہین کہان ایک حالت سے دوسری حالت ہو جائے۔ اور تغیر یا انقلاب پیدا ہو جائے۔ جیسے کچھ کا کچھ ہو گیا یا کچھ سے کچھ ہو گیا۔ لین بعض اوقات کچھ کا کچھ اصل کے خلاف معنون مین بھی آتا ہے جیسے کچھ کا کچھ کہدیا۔ یا کچھ کا کچھا سمجھا دیا۔ یہان بھی وہی معنے تغیر کے ہین۔ یعنے اصل کے خلاف یا سے بدل کر کچھ اور کہنا۔
33۔ کوئی کے بعد بعض اوقات سا بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کوئی سا دیدو، کوئی سا لے لو۔ یہ عموماً اس وقت استعمال ہوتا کیا جاتا ہے جن کئی مین سے ایک مقصود ہو۔
بیجان کے لیے بھی آتا ہے
33۔ بعض اوقات کچھ جیسا اور کو ضمائر موصولہ کے ساتھ مل کر بھی آتا ہے اور اسمین زیادہ تر تنکیر پائی جاتی ہے جیسے جیسا کچھ ہو سکا دیکھا جائے گا۔ اور جو کہو گے کرون گا۔
34۔ اسی طرح کوئی کے ساتھ کیسا مل کر تنکری معنون مینا ور زور ہپیدا کر دیتا ہے۔ جیسے کوئی کیسا ہی ہو، نفی مین اور زور اور تاکید ہوتی ہے۔ جیسے کوئی کیسا ہی کیون نہو۔
35۔ جتنا، اتنا، اتنا، ایسا، جیسا، ویسا، کیسا جو الفاظ ضمیری ہین اور بطور صفت مستعمل ہین۔ تمیز فعل بھی واقع ہوتے ہین، کہذا انکا ذکر تمیز فعل مین کیا جائے گا۔
36۔ ضمار موصولہ' استفہامیہ' تنکیری' جب بہ تکرار آتے ہین تو معنے کثرت کے دیتے ہین
مگر ان معنون کا اطلاق کل پر فرداً فرداً ہوتا ہے۔ سواے ضمائر تنکری کئ کو قلت کی معنی دیتے ہین جیسے اس نے جو جو کہا مین نے مان لیا۔ جس جس کے پاس گیا اس نے یہی جواب دیا۔ جن جن سے تعلق تھا۔ کون کون آئے ہین؟ کس کس سے کہون؟ کس کس کے پاس جاؤن؟ کیا کیا کہا؟ کوئی کوئی اب بھی ہے۔ کچھ کچھ ان بھی نظر آجاتے ہین۔
37۔ ضمائر موصولہ استفہامیہ اور تنکیری جب اسما کے ساتھ آتی ہین تو صفت کا کام دیتی ہین۔ جیسے۔ وہ شخص آئے تو فوراً میرے پاس بھیجدو۔ جس شخص کو کہو بھیجدون، جن لوگون نے ایسا کہا غلطی کی۔ یہ کون آدمی ہے؟ یہ کس شخص کا ملک ہے؟ کیا چیز چاہیے؟ کوئی آدمی کام کا نہین تھا۔ کچھ لوگ وہان بیٹھے تھے۔
جون (جونسی'جونسے) اور کونسا (کونسی'کونسے) بھی بطور صفت استعمال ہوتے ہین، جونسی کتاب کہو دلوادون۔ کونسے کام پر جا رہے ہو۔ آن کونسی تاریخ ہے۔
ضمائر شخصی کبھی صفات نہین ہوتین ، البتہ وہ کے ساتھ جب ہی آتا ہے تو وہ صفت کا کام دیتا ہے جیسے یہ وہی شخص ہے۔
کوئی نہ کوئی اور کچھ نہ کچھ بھی کبھی کبھی بطور صفت استعمال ہوتے ہین جیسے کچھ نہ کچن کام ضرور کرتے رہا کرو۔ روز کوئی نہ کوئی مہمان آ جاتا ہے۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
1.
فعل

مصدر کے استعمال مختلف ہین۔ جن کا ذکر ذیل مین کیا جاتا ہے،
1۔ اکثر بطور اسم کے۔ جس کی تفصیل یہ ہے

(ا) فاعل۔ جیسے کھیلنا ناگوار نہین گزرتا پڑھنا ناگوار گزرتا ہے

(ب) مفعول جیسے وہ کھیلا پسند کرتا ہے،
(ج) ضرورت اور مجبوری کے معنون مین جیسے ہم سب کو ایک روز مرنا ہے۔ انھین معنون اور ایسی فاعلی حالت مین پڑنا کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آخر مجھے وہان جانا پڑا۔

دل اب صحبت سے کوسون بھاگتا ہے ۔۔۔ ہمین یارون سے شرمانا پڑے گا (حالی)
بعض اوقات اسی طرح مجبوری کے معنون مین مصدر کے ساتھ ہو گا کا استعمال ہوتا ہے جیسے نہین جانا ہوگا۔ اسے کھانا ہو گا۔
کیونکر اب اس نگہ ناز سے جینا ہو فا۔۔۔ ۔۔ زہر دے اسپہ یہ تاکید کہ پینا ہو گا

(د) حرف اضافت کے ساتھ نفی کی صور مستقبل کے معنی دیتا ہے، اور اسمین عزم اور یقین پایا جاتا ہے جیسے مین نہین جانے کا۔
یہ کا مونث مین کی اور جمع مین کے ہو جاتا ہے۔
(ھ) مفعول بعید کی حالت مین فعل ہونا کے ساتھ ایسے کام ظاہر کرتا ہے جواب فوراً آنے والا ہے جیسے وہ جانے کو ہے۔ وہ کہنے کو ہے۔
(و) بعض اوقات ایک فعل کا دوسرا فعل کے ساتھ ایک ہی وقت مین واقع ہونا ظاہر کرتا ہے جیسے اس کا نظر بھر کر دیکھنا تھا کہ وہ غش کھا کر گر پڑا۔ اس کا چوکی پر پاؤن دہرنا تھا کہ تختہ نکل گیا۔
(2) امر کے معنون مین بھی آتا ہے۔ اور معمولی امر سے اس مین کسی قدر زور اور تاکید پائی جاتی ہے۔ جیسے دیکھو بھول نہ جانا کل ضرور آنا۔
(3) مصدر کی تذیر و تاثییث اس اسم کے لحاظ سے ہوتی ہے جس سے اس کا تعلق ہے جیسے​
1. آگے جاتا نہین ہے اب بولا
ہوگئی ہے زبان بھی اولا

یہان اولے کے معنے ٹھنڈے کے ہین۔ یا مثلاً یون کہین اسکے پاتھ پاؤں برف ہو رہے ہین۔ اسے اس زور کا بخار چڑھا کہ سارا جسم آگ ہے۔
یا مثلاً خفا ہو کر کہین تم بڑے الو ہو یا بڑے گدھے ہو۔ یہان الو اور گدھے کے معنے بیوقوف اور احمق کے ہین، یا وہ تو نرا بیل ہے۔
4۔ صفات بعض اوقات تمیز فعل کا کام دیتی ہین جیسے یہ بہت سخت ہے۔ بڑا بیوقوف ہے۔ وہ خوب بولتا ہے۔
5۔ بعض اوقات تکرار صفت سے صفت مین ترقی ہو جاتی ہے۔ جیسے دور دور کے لوگ۔ مشہور مشہور شخص۔ میٹھے میٹھے پھل، اونچے اونچے مکان۔ گرم گرم چاے۔ مگر خاص خاص حالتون مین اسکے خلاف کمی ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاًَ دال مین کچھ کالا کالا نظر آتا ہے۔ (یعنے کوئی چیز جو کالی سی ہے) یہ سالن میٹھا میٹھا معلوم ہوتا ہے۔ (یعنی کسی قدر میٹھا) لیکن اس آخری صورت مین صفت تمیز فعل کا کام دیتی ہے۔
جب اسمین اور ترقی یا مبالغہ مقصود ہوتا ہے تو دونون کے درمیان سے بڑھا دیتے ہین۔ جیسے بڑے سے بڑا کام۔ اونچے سے اونچا پہاڑ۔ بھاری سے بھاری بوجھ۔ اچھے سے اچھا کام۔ وغیرہ۔
6۔ سا جو تشبیھ اور صفت کی کمی بیشی کے لیے آتا یے اسکا مفصل ذکر حصہ صرف مین ہو چکا ہے۔
7۔ ہر حرف تخصیص ہے اور ہمیشہ واحد کے ساتھ استعمال ہوتا ہے لیکن ایک اور کوئی کے ساتھ مرکب ہو کر بھی آتا ہے جیسے ہر ایک آدمی کا یہ کام نہین ہے۔ ہر کوئی اسے کرے یہ دشوار ہے۔
8۔ بھر اگرچہ صفت ہے لیکن کبھی تنہا استعمال نہین ہوتا۔ بلکہ کسی نہ کسی اسم کے بعد مل کر آتا ہے۔ (یہ بھرنے سے ہے اور اسکے معنے پورے یا تمام کے ہین) اسماے مقدار وغیرہ کے ساتھ چلو بھر' پاؤ بھر' گز بھر' ہاتھ بھر۔
اسماے مسافت کے ساتھ جیسے کوس بھر۔
اسماے زمان کے ساتھ جیسے عمر بھر'دن بھر' سال بھر
اسکے علاوہ مقدور بھی بھی استعمال ہے۔
بعض اوقات بھر برس یا بھر نیند سونا نا بھر نظر دیکھنا بھی بول دیتے ہین ورنہ یہ تلفظ ہمیشہ اسم کے بعد آتا ہے۔

صفات عددی
1- کبھی ایک کسی کے معنون مین آتا ہے۔ جیسے ایک دن ایسا واقع ہوا۔ ایک شخص نے مجھسے یہ کہا۔ ایک نے بھی مرا ساتھ نہ دیا۔ ان فقرن مین ایک شمار کے لیے نہین آیا بلکہ اسکے معنے کسی دن اور کسی شخص کے ہین۔
اسی طرح ایک معین اعداد کے ساتھ آکر غیر معین کے معنے دیتا ہے۔ جیسے بیس ایک آدمی بیٹھے تھے یعنے تخمنیاً بیس۔ اس کا ذکر صرف مین ہو چکا ہے۔
جب یہ تکرار آتا ہے تو اسکے معنے فرداً فردام کےہوتے ہین۔ جیسے ایک ایک آؤ۔ ایک ایک دو۔ ہر ایک کے معنون مین۔ جیسے اس نے آپ کا پیگام ایک ایک کو پہنچا دیا۔ قریب قریب انھین مونون مین ایک ایک کر کے بھی استعمال ہوتا ہے۔
لیکن جب پہلا ایک فاعلی حالت مین ہوتا ہے اور دوسرا مفعولی اضافی حالت مین تو وہان باہم یا ایک دوسرے کے معنے ہوتے ہین۔ جیسے ایک ایک سے لڑ رہا تھا۔ ایک ایک سے جٹ گیا۔ ایک ایک کے خون کا پیاسا ہو رہا تھا۔ ایک ایک کا دشمن ہے۔
ایک ہر فقرہ مین الگ الگ معنون مین آتا ہے۔ جیسے ایک کو سائی ایک کو بدھائی۔ ایک سب آگ، ایک سب پانی۔ دیدہ و دل عذاب ہین دونون۔
اور اکثر ایک کے جواب مین دوسرا یا اسپر آتا ہے جیسے ایک تو بیوقوف دوسرے مفلس۔ ایک تو مین غم زدہ اسپر آپ کی غفلت غصب ہے۔
کبھی تحسین کلام کے لیے آتا ہے۔ جیسے ایک تمھارا ہی فکر کیا کم ہے۔ ایک درد سا دل مین رہتا ہے۔ یہ صدا جبکہ کان مین آئی۔۔ جان اک میری جان مین آئی۔
کبھی کل یا سارے کے معنون مین آتا ہے جیسے ایک زمانہ یہی کہتا ہے۔ ایک عالم مین یہی چرچا ہے۔
کبھی یکسان کے معنی دیتا ہے جیسے وہ بہن بھائی ایک ہین۔
ایک ہے تیری نگہ میری آہ۔۔۔ ۔ کہین ایسون سے رہا جاتا ہے (داغ)

کبھی مبالغہ کے لیے جیسے وہ ایک چھٹا ہوا ہے۔
کبھی بےنظیر کے معنون مین جیسے سارے خاندان مین ایک ہے۔ اپنے رنگ مین ایک ہے۔
کبھی اکیلے اور تنہا معنون مین جیسے کیا تمھارے ستانے کو ایک مین ہی رہگیا ہون۔
کبھی ذرا یا ادنٰی کے معنون مین آتا ہے جیسے
ایک کھیل ہے اورنگ سلیمان مرے نزدیک
ایک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

ایک نہ ایک محاورے مین کوئی نہ کوئی کے معنون مین آتا ہے جیسے آئے دن ایک نہ ایک فکر لگا رہتا ہے۔ کب کبھی مین وہان جاتا ہون وہ ایک نہ ایک فرمایش ضرور کر دیتے ہین
2۔ صرف مین بیان ہو چکا ہے کہ کلیت کے اظہار کے لیے اعداد معین کے آگے ون بڑہا دیتے ہین۔ جیسے آٹھون پہر وہین بیٹھا رہتا ہے۔ دونون جہان مین بھلا ہو گا۔ اور جب زور زور دینا مقصود ہوتا ہے تو عدد حرف اضافت کے ساتھ بہ تکرار استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آٹھون کے آٹھون آگگئے، دسون کے دسون دیدیے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس آخری صورت مین عدد کے ساتھ اسم ہمیشہ مخذوف ہوتا ہے۔
3۔ جو اسما روپیہ پیسے، ناپ، فاصلے، سمت وغیرہ بتاتے ہین وہ اعداد جمع کے ساتھ بھی واحد ہی استعمال ہوتے ہین جیسے
ایک ہزار روپے مین خریدا۔ اسکی قیمت سو اشرفی ہے۔ میرا اسپر کئی ہزار روپیہ آتا ہے۔ وہ تین مہینے سے غیر حاضر ہے، وہ چار ہفتے مین آجائے گا۔ وہ ساٹھ برس کا ہے۔ اسپر چارون طرف سے حملہ ہوا۔ دونون جانب سے لوگ آئے۔ میرے پاس کئی قسم کی کتابین ہین۔ اس کا کھیت چار بھیگے کا ہے۔
اسی طرح بفر، راس،زنجیر،قطار، وغیرہ جو فارسی مین تعداد کے لیے استعمال ہوتے ہین اور اردو مین بھی مستعمل ہین وہ بھی جمع کی حالت مین واحد آتے ہین، جیسے چار راس گھوڑے۔ دس زنجیر ہاتھی۔ پچاس قطار اونٹ۔ دس نفر مزدور۔ مگر دانہ اور جلد کی لفظ اردو ترکیب مین بطور جمع کے استعمال ہوتی ہے جیسے پچاس جلدین کتابون کی۔ چار دانے سیب کے۔
4۔ دوسن، بیسون، سینکڑون، ہزارون، کروڑون، اور صدہا' ہزار۔ جب اسما کے ساتھ آکر تعداد و غیر معین کے معنے دیتا ہین تو جمع کی حالت مین فعل واحد اور جمع دونون طرح آتا ہے۔ جیسے ہزار ہا آدمی مارا گیا۔ ( آدمی مارے گئے قحط مین سینکڑون آدمی بھوکا مر گیا ۔سینکڑوں جانور مر گئے، صد ہا تماشائی موجود تھا (موجود تھے)۔​
تعداد معین کے ساتھ بھی۔ یہ استعمال جائز رکھا گیا ہے۔ موصوف کی جمع اور واحد دونون طرح استعمال کر سکتے ہین۔ جیسے دس ہزار گورا پڑا ہے۔ پانچ ہزار سوار اترا ہے۔ پندرہ ہزار پیدل کھیت رہا۔ پانسو آدمی کھڑا ہے۔ایک ہزار کرسی پڑی ہے (لیکن یہ استعمال صرف فاعلی حالت مین درست ہے)

ضمائر

1۔ ضمیر جنس و تعداد مین اسم سے مطابق ہوتی ہے جسے لیے وہ استعمال کی گئی ہے۔ جیسے مین نے کرم کو ہر چند سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا، وہ شخص کو کل آپ سے ملا تھا چلا گیا۔
لیکن تعظیم کے موقع پر اگرچہ اسم واحد ہوتا ہے لیکن جو ضمیر کہ اسے بجاے استعمال ہوتی ہے جمع آتی ہے جیسے آپ کے بلانے پر مولوی صاحب آئے تو سہی مگر انھون نے اس مسئلہ کے متعلق کچھ نہ فرمایا۔ وہ صاحب جنھین آپ نے بلایا تھا تشریف لائے ہین۔
2۔ جب ضمائر شخصی فعل کی فاعل ہوتی ہین۔ جیسے کل آون گا۔ یہان مین محذوف ہے۔ امر کے ساتھ خصوصاً ضمیر فاعلی ظاہر نہین کی جاتی۔ جیسے فوراً چلے جاؤ۔
3۔ جب دو یا دو سے زائد ضمائر ایک ہی فعل کے فاعل ہون۔ تو انکے استعمال کی صورت یہ ہوگی۔ اگر ضمیر متکلم اور ضمیر مخاطب ہین تو ضمیر متکلم جمع آئے گی۔ جیسے آؤ ہم بھی چلین (اسمین مخاطب بھی شریک ہے یعنی مین اور تم) آؤ ہم تم مل کر کام کرین۔ لیکن جب ضمیر مخاطب اور ضمیر غائب ہو تو ضمیر مخاطب جمع ہو گی۔ کیونکہ ضمیر مخاطب عموماً یون بھی جمع ہی مستعمل ہوتی ہے۔
لیکن علاوہ حالت فاعلی کے دوسری حالتون مین اسکی پابندی لازم نہین ہے۔ کیونکہ جیسے مجھ مین تم مین بہت فرق ہے۔ میری تمھارے حالت ایک سی نہین ہے۔
اردو مین عموماً ضمیر متکلم اول اسکے بعد ضمیر اور اسکے بعد ضمیر غائب استعمال ہوتی ہے۔
4۔ جب ایک ہی جملے مین ایک مفعول شے دوسری مفعول شخصی ہو (یعنے فریب و بعید) اور دونون ضمرین ہون تو کو مفعول شخصی کے ساتھ آئے گا جیسے وہ تو میں احمد کو دون گا۔
5۔ ضمیر شخصی کے ساتھ سبب کوئی صفت آتی ہے تو اسکی صورت تو مفعولی ہوتی ہے لیکن وہ فاعلی اور اضافی انتقالی حالتون مین برابر استعمال ہوتی ہے۔ ایسی صورت مین علامات فاعل و مفعول و اضافی و انتقالی حالتون مین برابر استعمال ہوتی ہے۔ اور ایسی صورت مین علامات فاعل و مفعول و اضافی و انتقالی صفت کے بعد آتی ہین جیسے مجھ کم بخت نے کہا تھا، مجھ خاکسار کو یہ واقعہ پیش آیا ۔مجھ عاجز سے یہ خطا ہوئی۔ تجھ بدبخت کی یہ حالت ہے۔ (یہ عموماً تجھ اور مجھ ہی کے ساتھ مخصوص ہے)
6۔ اسی طرح جب ضمیر شخصی کے بعد ہی (جمع ہین) آتا ہے تو علامات فاعل و مفعول و اضافی و انتقالی اسئ کے بعد آتی ہین۔ جیسے مجھی سے مانگا تھا۔ ہمین نے دیا تھا۔ اسی کا ہے۔ مین نے ہی کہا تھا۔ البتہ علامت فاعل مستثنے ہے۔ وہ فون دو طرح استعمال ہوتی ہےخاصکر واحد متکلم مین ضمیر کے متصل آیا ہے۔
7۔ بعض صمائر شخصی و دیگر ضمائر کے ساتھ پاس کا استعمال بلا اضافت بھی ہوتا ہے جیسے اسپاس، مجھ پاس، جس پاس، کس پاس۔
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہو ۔۔۔ روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے (غالب)
کون آتا ہے برے وقت کسی پاس اے داغ ۔۔۔ ۔ لوگ دیوانی بناتے ہین کہ وہ آتے ہین
بات کرنی مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
بات کرنی اور بات کرنا دونون درست ہین لیکن اہل لکھنو اکظر مذکر ہی لکھنا اور بولنا پسند کرتے ہین۔
لیکن جب اسم اور مصدر کے درمیان کا واقع ہوتا ہے تو مصدر ہمیشہ مذکر ہو گا۔ جیسے خط کا لکھنا۔ ہل چلانا۔ غزل لکھنا وغیرہ۔

حالیہ
1- حالیہ کی تین قسمین ہین ایک تمام دوسری ناتمام تیسیر حالیہ معطوفہ
تمام وہ جہان فعل ختم ہو چکا ہے جیسے مرا ہوا جانور، ناتما وہ جہام فعل ختم نہین ہوا ہے، جیسے روتی ہوئی صورت۔ بہتا ہوا پانی۔
2۔ بلحاظ استعمال کے بھی اسکی دو قسمین ہوتی ہین۔ ایک تو بطور صفت دوسرا بطور خبر۔
صفت کی مثالین اوپر لکھی گئی ہین۔ لیکن بعض اوقات ہوا محذوف بھی ہوتا ہے جیسے اجڑا گاؤن۔ روتی صورت وغیرہ۔
3۔اب ہم دوسری قسم کا ذکر کرتے ہین جو بطور خبر کے استعمال ہوتی ہے؟ یہ بھی صفت ہے لین اسم کے ساتھ نہین آتی جیسے وہ ہنستا ہوا آیا۔ مین نے اسے مرا ہوا پایا۔
جملے مین استعمال کے وقت اسکی صورت مین جو تبدیلیان ہوتی ہین اسکی تٍصیل یہ ہے۔
(ا) اگر حالیہ اور فعل کا فاعل ایک ہے تو حلالیہ جنس و تعداد مین فاعل کے مطابق ہوتا ہے' خود حالیہ تمام (یعنے آ کے ساتھ) ہو یا نا تمام (یعنے تا کے ساتھ) جیسے وہ دوڑتا ہوا آیا۔ وہ روتی ہوئی آئی۔ تم کودتے ہوئے چلے گئے۔ مین شور کرتا ہوا بھاگا۔
ہم گرتے پڑتے مشکل سے یہان پہنچے، دسترخوان بچھا ہوا تھا۔ وہ مرا ہوا پڑا تھا۔
(ب) لیکن اگر حالیہ تمام کا تعلق کسی دوسرے اسم سے ہے ( جو اکثر مفعول ہوتا ہے) تو اس حالت مین حالیہ ے کے ساتھ آئے گا جیسے وہ سر نیچے کیے ہوئے آیا۔ وہ ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔ ملکہ سر پکڑے کھڑی تھی۔ ساری رات تڑپتے کٹی۔ وہ کپڑے پہنے باہر آیا، اژدہا منھ کھولے پڑا تھا۔ وہ پاؤن پسارے لیٹا تھا۔
اور اگر فعل متعدی ہے ار اسکے ساتھ مفعول شخصی ہے اور علامت کو موجود ہے تو حالیہ دونون طرح آسکتا ہے (مگر ے کے ساتھ فصیح ہے) جیسے مین نے وہان ایک عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا (یا بیٹھا ہوا دیکھا) اس نے حامد کو سوتے ہوئے دیکھا (یا سوتا ہوا) مین اس درے کو قبر سمجھے ہوے تھا (یا سمجھا ہوا تھا) اور جو کو نہو تو حالیہ فاعل کے مطابق آئے گا جیسے مین نے ایک عورت بیٹھی (ہوئی) دیکھی۔ اس نے دستر خوان بچھا ہوا دیکھا۔
(ج) حالیہ ناتمام جب فعل لازم کے ساتھ ہو تو جنس و تعداد مین اپنے فاعل کے مطابو ہوتا ہے جیسے وہ سر دھنتا ہوا آیا۔ وہ باتین بناتا ہوا آیا۔ وہ کھیلتی ہوئی آئی وغیرہ۔
مگر جب فعل متعدی کے ساتھ ہوتا ہے اور فعل موجود ہے تو بغیر تبدیلی ے کے ساتھ آتا ہے جیسے مین نے اس عورت کو سر دھنتے ہوئے دیکھا۔ مین نے اسے کھانا کھاتے ہوے پایا۔ ہم نے احمد کو باتین کرتے ہوئے سنا۔
(د) اور جب حالیہ دوہرایا جائے، یا س کا تابع دوسرا حالیہ اسکے ساتھ آئے تو تو فعل لازم کی صور مین ا اور ے دونون کے ساتھ آ سکتا ہے۔ (ے کے ساتھ زیادہ فصیح ہے) مگر فعل متعدی کے ساتھ بغیر تبدیلی صرف ے کے ساتھ آئے گا۔ جیسے وہ ڈرتے ڈرتے یہان آیا (یا وہ ڈرتا ڈرتا یہان آیا یا ڈرتی ڈرتی آئی) مین کہتے کہتے بیزار ہو گیا یا ہو گئی۔
یا مین کہتا کہتا بیزار ہو گیا یا مین کہتی کہتی بیزار ہو گئی) وہ پڑے پڑے بیمار ہو گیا۔ ( یا پڑا پڑا بیمار ہو گیا) وہ لڑتے جھگڑتے یہان تک پہنچ گیا (یا وہ لڑتا جھگڑتا یہان تک پہنچ یا ہا وہ لڑتی جھگڑتی یہان تک پہنچ گئی) وہ بیٹھے بیٹھے بیکار ہو گیا ( یا بیٹھا بیٹھا بیکار ہو گیا) اس نے بیٹھے بیٹھائے مجھے بدنام کر دیا، اس نے لکھتے لکھتے کاغذ پھینک دیا۔
دن گزارے عمر کے انسان ہنستے بولتے
تکرار حالیہ سے فعل کی کثرت ظاہر ہوتی ہے جیسے پڑے پڑے بیمار ہو گیا۔ یعنے زیادہ دہر پڑے رہنے سے۔ کہتے کہتے بیزار ہو گیا۔ یعنے بار بار کہنے سے۔
کبھی بتدریج کے معنے بھی دیتا ہے۔ جیسے کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے۔ یا جیسے سیکھتے سیکھتے ہی سیکھے گا۔
کوئی دن طبعیت کو ہو گا قلق ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ سنبھلتے سنبھلتے سنبھل جائے گی
بعض اوقات اس قسم کا حالیہ بغیر اسم کے آتا ہے۔ جیسے ہنستے ہنستے پیٹ مین بل پڑ گئے۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ چلاتے چلاتے گلا بیٹھ گیا۔
یہان ہنستے ہنستے اور روتے روتے تمیز فعل ہین
(ح) بعض اوقات حالیہ مطلقاً استعمال ہوتا ہے یعنی اصل فعل کا فاعل ایک اسم ہوتا ہے اور حالیہ دوسرا اور گو دونون اسم ایک جملہ مین ہوتے ہین مگر بلحاظ فعل ایک دوسرے سے تعلق نہین رکھتے جیسے صبح ہوتے چل دیا، رات گھر آیا دن نکلتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ دن چڑھے اٹھا۔ اس قسم کے حالیہ مع اپنے اسم کے تمیز فعل (یامتعلق فعل) ہوتے ہین۔
4۔ بعض اوقات حالیہ بالکل بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ جیسے سوتے کو جگانا آسان ہے مگر جگتے کو جگانا مشکل ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا زہارا بہت ہے۔ اپنے کیے کی سزا پائی۔
میرا کہا نہ مانا۔ آزمائے ہوئے کو کیا آزمانا۔ وہ بے کہے چل دیا۔ اسے سوتے سے کیون جگایا، وغیرہ وغیرہ۔
5۔ بعض اوقات حالیہ بطور تمیز فعل کے استعمال ہوتے ہین جیسے ساری راے جاگتے کٹی، وہ سنتے ہی چل دیا۔ اس کا ذکر تمیز فعل مین کیا جائے گا۔
6۔ اس جگہ حالیہ کے استعمال مین ایک نازک فرق کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے مثلاً جب ہم کہتے ہین کہ مین نے اسے تیرتے دیکھا۔ تو اسکے کیا معنے ہین آیا جس وقت مین تیر رہا تھا مین نے اسے دیکھا یا مین نے اس حالے مین دیکھا جب وہ تیر رہا تھا، عام بول چال مین اس قسم کے فقرون مین کچھ فرق نہین کیا جاتا اور حسب موقع کوئی ایک معنے لے لیے جاتے ہین۔ ہماری رائے مین امین یون فرق کرنا چاہیے کہ حالہ فاعل کے متصل ہو تو فاعل کے متعلق سمجھا جائے اور مفعول سے متعلو ہو مفعول کے متعلق۔ مثلاً جب ہم یہ کہین کہ "مین نے تیرتے ہوئے اسے دیکھا" تو اسکے معنی یہ ہونگے کہ جب مین نے اسے دیکھا تو مین تیر رہا تھا۔ اور جب یہ کہین کہ "مین نے اسے تیرتے ہوئے دیکھا" تو اسکے معنی یہ ہونگے کہ جب مین نے اسے دیکھا تو وہ تیر رہا تھا، اسی طرح سے مین نے آتے ہوئے اسے دیکھا۔ اور مین نے اسے آتے ہوئے دیکھا ۔ وغیرہ وغیرہبشکریہ مقدس​
 

قیصرانی

لائبریرین
حالیہ معطوفہ

اردو مین حالیہ معطوفہ کا استعمال بکثرت کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق ہمیشہ جملے کے اصل فعل سے ہوتا ہے۔ چونکہ اسمین حرف عطف کا بچاؤ ہے اور حرف عطف کے معنے اسمین شریک وہتے ہین اس لئے حالیہ معطوفہ کہلاتا ہے،
(1) یہ ہمیسہ ظاہر کرتا ہے کہ جمہ کے اصل فعل سے جس کام کا اظہار ہوتا ہے اس سے
پہلے ایک کام ہو چکا ہے، مادہ فعل کے ساتھ کر یا کے کے زیادہ کرنے سے بنتا ہے جیسے وہ نہا کر سو گیا۔ کان دہر کے سنو وغیرہ۔
ایسے جملون مین دو فعل ہوتے ہین ایک تقدیمی دوسرا خاص،
(2) ان جملون کے اگر دو حصے کیے جائین تو اسمین حرف عطف واقع ہو گا مثلاً وہ نہایا اور سو گیا، مگر ایسی صورتون مین فعل معطوف کا استعمال زیادہ فصیح ہے، کیونکہ پہلا فعل دوست فعل کا مقدمہ ہے۔ لیکن جہان ہر دو فعل ایک رتبی کے اور آزادانہ حثیت رکھتے ہون' وہان حرف عطف لانا ضروری اور فصیح ہے جیسے
خیر کفارہ عصیان ہے پیو اور پلاؤ۔
کبھی حرف عطف حذف ہو جاتا ہے جیسے وہ لکھتا پڑھتا ہے، بعض اوقات محاورے مین کر ہا کے بھی حذف ہو جاتا ہے جیسے وہ اسے بلا لایا۔ برج بھاشا مین بلاے لایا کہین گے (یہان ئے بجاے کے یا کر کے ہے) اسے بھاگتے دیکھ کر وہ بھی بھاگ گیا۔
(3) کبھی فعل تقدیمی سے فعل خاص کا سبب ظاہر ہوتا ہے جیسے پولیس ست ڈر کر بھاگ گیا۔
شہر جلتا دیکھر بھاگ نکلا۔ لڑ کر چلا گیا۔
(4) کبھی ذریعہ ظاہر کرتا ہے جیسے دیکھ کر فریقہ ہو گیا۔ درود پڑھکر پاک کر دیا
کچھ کہہ کئ اس نے پھر مجھے دیوانہ کر دیا۔۔۔ ۔۔۔ اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
(5) کبھی اعتراف یا فرضی صورت ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ عموماً ہو کر کے ساتھ آتا ہے، جیسے شرم نہین آتی ایسے بڑے سورما ہو کر عورت ذار پر ہاتھ اٹھاتے ہو،
(6) راہ سے کے معنون مین جیسے یہ نالی چوک سے ہو کر گئی ہے مین لکھنو سے ہو کر دہلی جاؤنگا، (یہ استعمال بھی عموماً ہو کر کے ساتھ ہوتا ہے)
(7) محاورے مین اعداد کے ساتھ یہ استعمال ہصرف کر کے کے سے مخصوص ہے۔ ایک ایک کر کے​
225 صفحات ہو گئے یہاں تک

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

آؤ، چار چار کر کے گنو(ایسی صورت مین اعداد تکرار کے ساتھ استعمال ہوتے ہین)
(
C:\Users\Munu\AppData\Local\Temp\msohtmlclip1\01\clip_image001.gif
بعض اوقات صفت کے معنون مین آتا ہے جیسے اس سے کہین بڑھکر ہے۔
کبھی حرف جار (ربط) کا کام دیتا ہے جیسے وہ مقان اس سے آگے بڑھکر ہے۔
(9) یہاں اس امر کا بیان کرنا ضروری ہے کہ بعض اوقات حالیہ و ناتمام اور حالیہ معطوفہ کے معنون مین ذرا ذرا سا فرق ہوتا ہے جو قابل لحاظ ہے جیسے
1۔ وہ گھر مین سے شراب پیے (یا پیے ہوئے) نکلا
2۔ وہ گھر مین سے شراب پیتا (یا پیتا ہوا) نکلا۔
3۔وہ گھر مین سے شراب پی کر نکلا۔
پہلے جملے کے یہ معنی ہین کہ جس وقت وہ گھر سے باہر آیا تو وہ حالت نشہ مین تھا
دوسرے جملے کے یہ معنی ہین کہ گھر مین شراب پینی شروع کی اور باہر آتے وقت بھی پی رہا تھا۔
تیسرے جملے کے یہ معنی ہین کہ پہلے اس نے گھر مین شراب پی اور اسکے بعد باہر نکلا۔

(10) اسی طرح ان دو جملون مین باریک فرق ہے، 1۔ جا کر کہو 2۔ کہہ کر آؤ۔
1۔ وہ لاہور ہو کر آیا ہے یعنے لاہور گیا اور واپس آیا
2۔ وہ لاہور سے ہوتا (ہوا) آیا ہے یعنے کسی اور جگہ سے آیا اور لاہور ہو کر واپس ہوا۔
(11) عموماً حالیہ معطوفہ کا تعلق فصل خاص کے فاعل سے ہوتا ہے اور بطور صفت کے آتا ہے لیکن بعض اوقات تمیز فعل بھی ہوتا ہے جس کا ذکر مع استعمال کے تمیز فعل کے بیان مین آئے گا،
(12)کر اور کے حالیہ معطوفہ مین جدید فصیح ہندی اور اردو مین استعمال ہوتے ہین؛ قدیم ہندی مین ان کا استعمال نہین ہوا۔ وہان صرف مادہ فعل یہ کام دیتا تھا جس جا استعمال اب بھی باقی ہے جیسے وہ دیکھ بھاگ نکلا۔ نظم مین یہ استعمال زیادہ ہے۔
ان دونون مین (یعنے کر اور کے میں) کچھ فرق نہین ہے۔ اب رہا یہ امر کہ کر کہان استعمال کرنا چاہیے اور کے کہاں' اس کا انحصار حسن صوت اور کان کی موزونیت پر ہے۔

اسم فاعل

یہ وہ اسم ہے جو فعل سے بنتا ہے اور اسکے معنے کام کرنے والے کے ہوتے ہین۔
عموماً مصدر کے بعد والا یا ہار (ہارا) بڑھانے سے بنتا ہے، والا کے ساتھ ہمیشہ مصدر کا الف یا ے مجہول سے بدل جاتا ہے۔ ہا کے ساتھ مصدر کا الف گر جاتا ہے۔ جیسے مرنے والا۔ ڈرنے والا۔ جانے والا۔ مگر مونث مین اسکا الف یا ے معروف سے بدل جاتا ہے، جیسے مرنے والی وغیرہ،
چلن ہار، جان ہار (جانے سے)
پسنہارا (مذکر) پنسہاری (مونث) ۔ اس طرح پنھیارا' پنھیاری۔
بعض اوقات صرف اسم کے ساتھ والا آتا ہے اور فعل محذوف ہوتا ہے۔ جیسے محبت والا دولت والا یعنے محبت کرنے والا اور دولت رکھنے والا۔
عموماً یہ اسم ترکیب اضافی یا مفعول کے ساتھ آتا ہے جیسے دلون کا پھیرنے والا' وپ اپنے پراے کا غم ککھانے والا۔ رحم کرنے والا وغیرہ
کبھی یہ صورت زمانہ مستقبل کے ظاہر کرنے کے لیے بھی آتی ہے جیسے وہ آیندہ سال ولایت جانے والا ہے۔ مین بھی جانے والا ہون۔
کبھی زمانہ ماذی کے ساتھ مستقنل کا ذکر کے لیے بھی آتا ہے جیسے مین تمھین خط لکھنے والا تھا کہ اتنے مین تم آگئے۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
زمانہ

یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ زمانے تین ہین، گزشتہ جیسے ماضی کہتے ہین؛ موجود جو حال کہلاتا ہے' آئیندہ جس کا نام مستقبل ہے۔ ہر فعل کے لیے ضروری ہے کہ ان تینون مین سے کسی ایک زمانہ مین واقع ہو۔ لیکن بہ لحاظ معافی و تکوین فعل کی تین حالتین ہونگی۔ (1) کام جو ابھی شروع نہین ہوا یعنے مستقبل (2) کام جو شروع تو ہوا لیکن ختم نہین ہوا یعنے افعال ناتمام (3) کام جو خت ہو چکا یعنے افعال تمام۔
اس تقسیم کے لحاظ سے ایک قواعد نویس جو فلسفی دماغ رکھتا ہے مضارع اور مار کو شق اول یعنے مستقبل کے تحت مین رکھے گا۔ کیونکہ ان دونون مین فعل زمانہ' حال مین شروع نہین ہوتا بلکہ زمانہ آئیندہ مین ہوتا ہے۔ لیکن جب زبان کی ساکت اور نشوونما پر نظر کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فعل کی دو بلکہ تین قسمین ہین۔ اول سادی دوم وہ کو محذ حالیہ سے بنتے ہین یا حالیہ کے ساتھ قدیم فعل کا کوئی جز لگا ہوتا ہے جو مل کر جزوفعل ہو جاتا ہے۔ سوم مرکب افعال۔

مضارع

یہ تقسیم زیادہ صحیح اور نیچرل ہے اور اس لحاظ سے سادہ افعال مین سب سے پہلا نمبر سنسکرت کا قدیم فعل حال ہے جس مین اب تک اصل کی جھلک پائی جاتی ہے۔ موجودہ حالت مین وہ صریح طور سے حال کے معنی نہین دیتا بلکہ اسکے معنون مین کئی قسم کا ابہام پایا جاتا ہے' اور خاص کر زمانہ مستقبل شرطیہ کے لیے مخصوص ہے' یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے عرنہ نام مضارع دیا ہے' جو ان معنون کے لحاظ سے زیادہ موزون ہے۔ قدیم ہندی مین نہ صرف شرط و استقبال بلکہ حال کے معنی بھی دیتا ہے جو ہندی ضرب الامثال اور بےتکلف بول چال کے نقرون سے صاف ظاہر ہے، (دیکھو نمبر1 ذیل میں)۔ یہ حال ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی لیے ہم نے سادہ افعال مین اسے سب سے اول رکھا ہے۔ اب ہم اس نے کے مختلف استعمالون کا ذکر کرین گے۔
مضارع کا استعمال دو قسم کا ہے؛ ایک تو شرطیہ اور احتمالی کو اکثر مستقبل کے معنے دیتا ہے اور دوسرا خبریہ۔

1- امثال معروف اور روزمرہ کے فقرون مین عموماً حال کے معنی دیتا ہے۔ جیسے کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ کرے موچھون والا اور پکڑا جائے داڑھی والا۔ کچھ ہم سمجھے کچھ تم سمجھے، خدا جانے کیا ہوا، کیا جانے کیا ہے۔
یہ استعمال مضارع کا اصل استعمال ہے

2۔ امکان جیسے کوئی پوچھے کہ آپ کو اس سے کیا غرض،
3۔ اجازت جیسے آپ فرمائین تو آؤن ۔ اجازت ہو تو عرض کرون ۔۔ کیا وہ جائے؟
4۔ اگر شرط اور جزا دونون کے جملون مین شک' امکان بعد ابہام پایا جائے تو مضارع دونون مین استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مینھ برسے تو کھیتی ہری ہو، اگر وہ آئے تو مین جاؤن، اگر وہ فرمائین تو ڈھونڈ نکالون،

ہم پکارین اور کھلے' یون کون جائے ۔۔۔ ۔۔ یار کا دروازہ گر پائین کھلا
بعض اوقات جب احتمال یا امکان صرف جملہ شرط مین ہوتا ہے تو مضارع شرط کے ساتھ آتا ہے اور جزا مین فعل مستقبل یا حال۔ جیسے اگر وہ نہ آئے تو مین چلا جاتا ہون یا چلا جاؤن ۔ اگر مل جائے تو بڑئ بات ہے۔ اگر وہ قبول کرے تو میرا ہزارون کا فائدہ ہو جاتا ہے۔
5۔ جب جملہ تابع کاف بیانہ، بشرطیکہ۔ شاید وغیرہ کے ساتھ شروع ہوتا اور مقصد یا غرض و غایت، نتیجہ، ارادا، خواہش، ضرورت، مشورہ حکم وغیرہ ظاہر کرتا ہے یا کبھی چاہیے اور لازم ہے وغیرہ کے ساتھ آکر ان معنون مین اظہار کرے تو اسمین اکثر مضارع استعمال کیا جاتا ہے ۔ جیسے
مین نے کہا کہ وہ نہ آئے تو بہتر ہے۔ مین نے ارادہ کیا کہ تمھارے پاس آؤن ۔ مناسب یہ ہے کہ وہان نہ آجائے۔ بادشاہ کو چاہیے کہ رعایا سے ایسا برا برتاؤ نہ کرے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہین گر نہ پڑے۔ مین اسپر عمل کرنے کو تیار ہون بشرطیکہ اسمین جھوٹ نہو۔ شاید اس کا کہا سچ نکلے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ہم سب ساتھ چلین۔ مین نے یہ اس غرض سے کہا کہ اس کا شبہ جاتا رہے۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

6- دعا یا تمنا کے لیے جیسے خدا تجھے برکت دے، عمر دراز ہو۔ عمرواقبال بڑھے، خدا کرے کہ وہ کامیاب ہو جائے، جو ایسا کرے وہ ہمین پیٹے یا ہمارا حلوہ کھائے۔
7۔ شبہ اور اضطراب جیسے۔ کیا کرون کیا نہ کرون، کہون یا نہ کہون۔
ہائے مین کیا کرون کہان جاؤن
یہ خط کسے دون۔
8۔ کبھی مستقبل کا ایسا زمانہ ظاہر کرتا ہے جو غیر محدود ہوتا ہے۔ جیسے جب بلائین تب آنا، جب کہین تو لانا
9۔ تعجب اور افسوس کے لیے جیسے
وہ آئین گھر مین ہمارے خدا کی قدرت ہے ۔۔۔ ۔۔ کبھی ہم انکو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہین
افسوس وہ اتنی دور آئے اور ناکام واپس چلا جائے۔ وہ اور ایسا کرے، مین اور شراب پیون۔

یون پھرین اہل کمال آشفتہ حال افسوس ہے۔۔۔ ۔۔۔ اے کمال افسوس ہے تجھپر کمال افسوس ہے

10۔ تشبیھ و مقابلہ کے لیے جبکہ وہ تشبیھ حقیقی نہو بلکہ احتمالی یا فرضی ہو۔ جیسے اس نے اپنے حریو کو اس طرح پھینک دیا جیسے کوئی تنکے کو توڑ موڑ کر پھینکدے۔ وہ اس طرح وحشت ذدہ کھڑا تھا جیسے کوئی بھرے مجمع مین ہرن کو کھڑا کر دے۔
11۔ اظہار توقع کے لیے جیسے اگر آپ آئین تو عین عنایت ہو گی۔ آپ کل تک آجائین تو مین بھی ہمراہ ہو لون۔ وہ ائے تو مین بھی ساتھ چلا چلون۔
12۔ کیسا' کتنا وغیرہ الفاظ (تمیز فعل) کے ساتھ جبکہ یہ الفاظ تاکیدی معنون مین ہون ایسی صورت مین جملہ اکثر منفی ہوتا ہے۔ جیسے کوئی کتنا ہی شور مچائے اسے خبر بھی نہین ہوےی، کوئی کیسی ہی عقلمندی کرے وہ خاطر ہی مین نہین لاتا۔ آپ ہزار کہین وہ سنتا ہی نہین۔
13۔ ایک صورت اپنی حالت کے اعتراف کی ہے جیسے مین شعر کہون نہ شاعر کہلاؤن نہ مجھے نوکری کی خواہش ہو نہ خوشامدی کہلاؤن۔ نہ وہ آئین اور نہ مین انسے اظہار مطلب کر سکون۔
14۔ مضارع کا ایک اور استعمال ہے جسمین ایک قسم کا مشور اپنے دل سے ہے۔
15۔ چاہیے بھی مضارع ہے جسکے معنے مناسب ہے یا لازم ہے کے ہین کبھی اداے فرض اخلاقی تاکید ہوتی ہے۔ ہمین اس سے ملنا چاہیے ان سے ادب کے ساتھ پیش آنا چاہیے وغیرہ

امر

مضارع کے بعد دوسرا فعلجو سب سے سادہ ہے وہ امر ہے۔ اور یون بھی مضارع سے بہت مشابہ ہے۔ کیونکہ سواے حاضر کے صیغون کے باقی تمام صیغے وہی ہین جو مضارع کے ہین۔
1- حکم اور ممانعت کے لیے عام طور پر استعمال ہوتا ہے۔
2۔ امتناعی صورت مین امر کے ساتھ نہ اور مت آتا ہے۔ نہ مین نفی اور کبھی امتناع بھی پایا جاتا ہے' لیکن مت سے ہمیشہ نہی یا امتناع کی تاکیدی ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لفظ خاص اسی لیے مخصوص ہے۔ اور اسمین نہ سے زیادہ زور ہوتا ہے۔ نہین یون تو امر کے ساتھ استعمال نہین ہوتا لین کبھی کبھی آخر مین استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ڈرو نہین۔ گھبراؤ نہین۔
3۔ غائب اور متکلم کے صیغے صرف مشورہ اور اجازت کے لیے آتے ہین۔ جیسے ہم جائین اور وہ جائے۔ اور یہ حالت مضارع کی ہے جیسے ذرا مین بھی تو سنون۔ کوئی میرے پاس نہ آئے۔ وہ اپنی بات پر قائم ہے۔
4۔ ادب اور تعظیم کے لحاظ سے امر کی کئی صورتین ہین۔
علاوہ معمولی صورت کے ایک یہ ہے جائیو، آئیو، مگر یہ صورت معمولی درجہ کے لوگون یا خدمت گارون وغیرہ سے گفتگو کرنے مین استعمال کی جاتی ہے۔ البتی ہو جیو، رہیو وغیرہ دعا کے لیے استعمال ہوتے ہین۔ جیسے دولت اور اقبال مین ترقی ہوجیو۔ مگر اس کا استعمال بھی اب کم ہوتا جاتا ہے۔
دوسری صورت ہے آئیے، جائیے، لائیے یہ ادب اور تعظیم کے لیے بڑے لوگوں سے گفتگو کرتے وقت استعمال ہوتی ہے۔
بظاہر یہی صورت بعض اوقات خصوصاً نظم مین مضارع کے لیے استعمال ہوتی ہے مگر اسے امر نہ سمجھا جاے، جیسے رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہان کوئی نہو۔ اسکے علاوہ دوسری صورت یعنی آئیگا۔ جائیگا وغیرہ بھی ادب تعظیم کیلیے استعمال ہوتی ہے۔
(نوٹ۔ امر مین کو ئے کا استعمال ہوا ہے اسکی اصل یہ بتائی گئی ہے کہ پراکرات مین جا نہ صرف امر مین بلکہ حال و مستقبل کے بنانے کے لیے بھی اضافہ کیا جاتا تھا۔ اور یہی جا بعد مین ئے سے بدل گیا)
حاضر کے ساتھ غائب کا صیغہ استعمال کرنے سے بھی تعظیم کا پہلو نکلتا ہے جیسے آپ جانین۔ آپ فرمائین۔
5۔امر مدامی کا ذکر صرف مین ہو چکا ہے۔
6۔ امر کے بعد کبھی نہ آتا ہے ۔ جسمین نفی کے معنی نہین ہوتے بلکہ بخلاس اسکے اثبات مین اور تاکید ہوتی ہے۔ آؤ نہ ہوم بھی چلین۔ بیٹھو نہ۔
کبھی تو بھی انھین تاکیدی معنون مین استعمال ہوتا ہے جیسے سنو تو، بیٹھو تو وغیرہ

مستقبل

1۔ مستقبل مطلق مین زمانہ آئیندہ کا علم تحقیقی ہوتا ہے۔ ایسا سمجھ لیا جاتا ہے؛ حالانکہ مضارع مین احتمالی اور شرطی ہوتا ہے اور امر مین امکانی۔
2۔ تمھین پھر ایسا آدی نہین ملے گا۔ جہان جاؤ گے مین تمھارے ساتھ رہون گا، یہ مثالین ایسی ہین جن مین تحقیقی اورتقینی طور پر ایک امر کا بیان کیا گیا ہے مگر بعض اوقات صرف ایسا سمجھ لیا جاتا ہے گو حقیقت مین نہو، مثلاً اگر مین نے وعدہ پورا نہ کیا تو لوگ کیا کہین گے؟ وہ نہ آیا تو بڑی مشکل پڑے گی۔ تم امتحان مین کامیاب نہوے تو نوکری مشکل سے ملے گی۔
3۔ بعض اوقات مصدر ہونا کا مستقبل مطلق ہو گا محاورے مین اس طرح مستعمل ہوتا ہے کہ وہ تمیز فعل کا کام دیتا ہے۔ مگر یہ ہمیشہ سوال کے جواب مین آتا ہے۔ جیسے وہ مکان بہت قدیم معلوم ہوتا ہے؟ ہو گا۔
جس کے معنے ہین شاید یا غالباً کے
مستقبل کے متعلق باقی حال صرف مین بیان ہو چکا ہے۔

فعل حال
(1) حال مطلق اصل مین تو یہ فعل حالت موجود کو ظاہر کرتا ہے یا کسی ایسے کام کو جو اسوقت ہو رہا ہے، لیکن ضمناً زمانہ حال کے متعلق دوسرے معانی بھی پیدا ہوتے ہین، مثلاً
(1) عادت یا تکرار فعل' جیسے جب وہ آتا ہے یہی شکایت کرتا ہے۔ شام کے کھانے کے بعد وہ روزانہ باغ کی سیر کو جاتا ہے، یہ دونون بھائی ہر جگہ ساتھ آتے اور ساتھ جاتے ہین۔
(2) عام امور صاقت جو کبھی باطل نہونگے یا جن کی نسبت ایسا خیال کیا جاتا ہے جیسے دو اور دو چار ہوتے ہین۔ جو خلق اللہ کی خدمت کرتا ہے خدا کے نزدیک بڑا وہی ہوتا ہے۔ ہزار جتن کرو قسمت کا لکھا ہورا ہوتا ہے۔
(3) مستقبل قریب بلکہ اقرب کے لیے جیسے مین ابھی جاتا ہون۔ ابھی حاضر ہوتا ہون۔ حال ناتمام بھی بعض اوقاے ان معنون مین آتا ہے جیسے مین شہر جا رہا ہون۔
(4) زمانہ گزشتہ کے لیے جسے حال حکائی کہتے ہین جیسے بابر ہندوستان پر حملہ کرتا ہے اور افغانوں اور راجپوتون کو شکست دیتا ہے۔ مولانا روم فرماتے ہین۔
مین جو اندر گیا تو کیا دیکھتا ہون کہ بیچاری معصوم لڑکی زمین پر تڑپ رہی ہے۔
(5) بعض اوقات ایسے فعل کے لیے بھی استعمال ہوےا ہے جو زمانہ گزشتہ مین شروع ہوا اور حال مین بھی جاری ہے جیسے مین چند روز سے دیکھتا ہون (یا دیکھ رہا ہون) کہ یہ لوگ اپنا فرض پورا نہین کرتے۔
(ب) حال تمام جو اگرچہ بلحاظ زمانہ حال پورا ہو چکا ہے' لیکن بعض اوقات سواے اسکے اور معنے بھی دیتا ہے مثلاً
(1) کبھی یہ ایسی جگہ استعمال ہوتا ہے جہان فعل تمام نہین ہوا اور چاہیے تھا کہ حال مطلق استعمال ہوتا لیکن محاورے مین حال تمام ہی لکھا اور بولا جاتا ہے ۔ جیسے
تم کیسے بے فکر بیٹھے ہو؟
(2) بعض اوقات ایسے موقع جہان از روے قیاس ماضی تمام ہونی چاہیے تھی
مثلاً یہ لوگ کسی زمانے مین بڑے نامور گزرے ہین، پچھلے زمانے مین یہ بھی اپنا نام کر گیا ہے

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

(3) بجاے ماضی مطلق جیسے مجھے کل ہی بادشاہ نے خلعت عظا فرمایا ہے۔
(4) بجاے حال حکائی یا ماضی مطلق جیسے حدیث مین آیا ہے ۔ خدا نے فرمایا ہے۔ قرآن مین لکھا ہے۔

ماضی

1- ماضی مطلق۔ ایسے فعل کو ظاہر کرتی ہے جو زمانہ گزشتہ مین بلا تعین وقت ہوا۔ مگر علاعہ اسکے محاورے مین بعض دوسرے مقامان پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً
(1) نعض اوقات حال کے بجاے ۔ جیسے آپ یہان بہت دنون تک رہے، (یعنے بہت دنون سے ہین)
یا حال تمام لے بجاے جیسے آپ دونون تک بچے رہے ( یعنے دنون سے بچے ہوے ہین)
اب یہان تنکا تک نہین رہا۔ (نہین رہا ہے)
(2) بجاے حال مطلق کے جیسے اس شہر مین جو آپ سے نہ ملا اسکا آنا یہان بیکار ہوا۔ یعنے جو آپ سے نہین ملتا، اس کا آنا یہان بیکار ہوتا ہے۔
(3) بجاے مستقبل۔ وہ آیا اور مین چلا گیا (جس وقت وہ آئے گا مین چل دون گا یعنے اسکے آتے ہی چلا جاؤن گا) ۔ یا بول چال مین نوکر کو آواز دیتے ہین "یہان آؤ" وہ جواب دیتا ہے "آیا" یا اس سے کہتے ہین "پانی لاؤ" وہ کہتا ہے "لایا"۔ یہ معنی مین بجائے افعال مستقبل ہین۔
2- ماضی ناتمام جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی خاص زمانہ گزشتہ مین کام جاری تھا
اسکا اظہار مختلف صورتون سے ہوتا ہے

(ا) وہ کالج مین پڑھتا تھا
(ب) وہ کالج مین پڑھ رہا تھا
(ج) وہ ایک مدت تک کالج مین پڑھتا رہا
(د) وہ مدت تک کالج مین پڑھا کیا

صورت اول فعل جاریہ بالتعین و نہ تعین وقت ہے
صورت دوم اس وقت استعمال ہوتی ہے جب ہم کسی خاص وقت یا مدت کا ذکر کرتے ہین۔ مثلاَ جب مین وہان گیا تو وہ کالج مین پڑھ رہا تھا،
صور سوم ایسے حالت مین استعمال ہوتی ہے جب کہ زیادہ مدر کا اظہار کرنا مقصود ہو یا جب اسے ساتھ دوسرے فقرے مین اس سے کوئی نتیجہ نکالا جائے، مثلاً وہ ایک مدت تک کالج مین پڑھتا رہا' مگر حاصل کچھ نہ کیا۔
صورت چہارم صورت سوم کے مثل ہے یا بعض اوقات ایسے موقع پر استعمال ہوتی ہے جبکہ دو ایسے فعل متواتر جاری ہون جن کا باہم تعلق ہے، مین کہا کیا اور وہ سنا کیا۔ صورت سوم بھی اسی طرح استعمال ہوتی ہے۔
ماضی ناتمام سے بعض اوقات خاص زمانے فعل کا بہ تکرار واقع ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے مثلاً جہان کہین وہ پہنچتے تھے لوگ ان کا گرمجوشی سے استقبال کرتے تھے،
بعض اوقات فعل امدادی حذف بھی ہو جاتا ہے جیسے جہان کہین وہ جاتے لوگ ان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے۔
3۔ ماضی تمام۔ جس سے یہ ظہر ہوتا ہے کہ کام کر ختم ہوے ایک مدت گزر چکی ۔۔ جیسے مین اس سے ملنے گیا تھا۔
کبھی ماضی تمام ایک فعل گزشتہ کے فعل باقبل کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے وہ اس وقت آیا جب کہ مین کھانا کھا چکا تھا۔


بشکریہ مقدس
 
Top