کاشفی

محفلین
اردو قواعد
ڈاکٹر مولوی عبدالحق ۱۹۰۰

فہرست

مقدمہ
قوائدِ اُردو

فصل اوّل - ہجا
اعراب (یا حرکات و سکنات)
فصل دوم - حرف
1 - اسم
اسم خاص
اسم کیفیت
اسم جمع
لوازم اسم
جانداروں کی تذکیر و تانیث
تعداد و حالت
اسماء کی تصفیر و تکبیر

2 - صفت
صفت ذاتی
صفت نسبتی
صفت عددی
صفت مقداری
صفت ضمیری

3 -ضمیر
ضمیر موصولہ
ضمائر استفہامیہ
ضمیر اشارہ
ضمائر تنکیر
صفات ضمیری
ضمائر کے ماخذ

4 -فعل
فعل حال
فعل مستقبل
فعل کی گردان
حالت
گردان افعال
طور مجہول
مرکب افعال
اسماء و صفات کی ترکیب سے

5 -تمیز
حروف
حروف ربط
حروف عطف
حروف تخصیص
حروف فجائیہ

فصل سوم - مشق اور مرکب الفاظ
فصل چہارم - نحو
نحو تفصیلی جنس
تعداد
حالت
فاعلی حالت
"نے"علامت فاعل
ندائی حالت
مفعولی حالت
خبری حالت
اضافی حالت
ضوری حالت
صفت
صفات عددی
ضمائر
فعل
حالیہ
اسم فاعل
زمانہ
امر
مستقبل
فعل حال
ماضی احتمالی
ماضی شرطیہ
افعال مجہول
قدیہ افعال
افعال مرکب
تمیز
حروف - حروف ربط
"سے"
"تک"
"پر"
"آگے"
"ساتھ"
حروف عطف
شرط
استدارک
استثنا
علت
مقابلہ
بیانیہ
حروف تخصیص
تکرار الفاظ
نحو ترکیبی - مفرد جملے - جملے کے اجزا
مثالیں
مبتدا کی توسیع
خبر کی توسیع
مطابقت
مرکب جملے
ہم رُتبہ جملے
تابع جملے
جملے میں الفاظ کی ترتیب
رموز اوقاف
علامتوں کا محل استعمال - سکتہ
وقفہ
رابطہ
تفصیلیہ
ختمہ
دادیں
فجائیہ
سوالیہ
خط
قوسین
زنجیرہ
عروض
وزن
بحر
ارکان بحر
تقطیع
اجزائے ارکان
ارکان
اسما و شمار - بحور
زحاف
خاص زحاف
عام زحاف
بحریں - بحر ہزج
2 - بحر رجز
3 - بحر رمل
4 - بحر کامل
5 - بحر متدارک
6 - بحر متقارب
مرکب بحریں - بحر خفیف
2 - بحر سریع
3- بحر مجتث
4 - مضارع
5 - منسرح
6 - بحر مقتضب
اوزان رباعی
 

کاشفی

محفلین
مقدمہ

مقدمہ
اردو زبان دنیا کی جدید زبانوں میں سے ہے اورابھی ابھی اس نے اپنے بل بوتے پر کھڑا ہونا سیکھا ہے۔ زبان نہ کسی کی ایجاد ہوتی ہے اور نہ کوئی اُسے ایجاد کر سکتا ہے ۔ جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی، پتے نکلتے، شاخیں پھیلتی، پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تنا ور درخت ہوجاتا ہے ۔ اُسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی، بڑھتی اور پھیلتی پھولتی ہے۔ اردو اس زمانے کی یاد گارہے۔ جب مسلمان فاتح ہندوستان میں داخل ہوئے اور اہل ہند سے انکا میل جول روز بروز بڑھتا گیا۔ اُس وقت ملک کی زبان میں خفیف سا تغیر پیدا ہوتا چلا، جس نے آخر ایک نئی صورت اختیار کی۔ جس کا ان میں‌سے کسی کو سان گمان بھی نہ تھا۔ مسلمان فارسی بولتے آئے تھے اور ایک زمانے تک ان کی زبان فارسی ہی رہی۔ دربار و دفاتر میں بھی اُسی کا سکہ جاری تھا۔ ہندوؤں نے بھی اُسے شوق سے سیکھا۔ اُس زمانے میں فارسی لکھنا تہذیب میں داخل تھا۔ فارسی کے علاوہ عربی مسلمانوں کی مذہبی اور علمی زبان تھی۔ دستار فضیلت کا ملنا بغیر تحصیل زبان عربی نامکمل تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کے علوم و فنون کا خزانہ اُسی زبان میں مدفون ہے۔ ادھر ملک میں جو زبان (قدیم ہندی یا پراکرت) رائج تھی اُسے بھی مسلمانوں نے سیکھا ۔
(صفحہ - 1)
 

کاشفی

محفلین
صفحہ - 2

عوام وہی زبان بولتے تھے۔ چنانچہ اس مخلوط زبان میں بڑے بڑے شاعر ہوئے۔ مسلمان شاہی درباریوں اور علماء اور شعراء نے بھی یہ زبان سیکھی اور اس میں تالیف و تصنیف بھی (جو زیادہ تر نظم تھی) کی۔ غرض ہندوستانیوں کے اس میل جول اور خلاملا سے ایک نئی زبان نے جنم لیا جس کا نام بعد میں اردو رکھا گیا۔ اردو کے معنی لشکر کے ہیں اور لشکری زبان جیسی ہوتی ہے ظاہر ہے۔ یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر، اس لئے اول اول ثقہ لوگ اس کے استعمال سے بچتے رہے اور اس کے لکھنے پڑھنے کو عار سمجھتے رہے لیکن رفتہ رفتہ اس کے قدم جمتے گئے اور مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں شعراء نے اس بچے کو اپنے سایہء عاطفت میں لیا اور پال پوس بڑا کیا۔ بہت کچھ صفائی پیدا کی اور نئی تراش خراش سے آراستہ کیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال پر سمندر کے راستے ایک نئی قوم ہندوستان پر مسلط ہوئی جو ہندو مسلمانوں سے بالکل غیر تھی۔ اس قوم نے اس کی اُنگلی پکڑتے اُن کا پہنچا پکڑا اور دربار سرکار میں اس کی رسائی ہوگئی اور رفتہ رفتہ دفاتر سے فارسی کو نکال باہر کیا اور خود اُس کی کرسی پر جلوہ گر ہوئی ۔ آخر ہندوستان کی قدیم راج دھانی اس کا جنم بھوم اور دوآبہ اس کا وطن ہوا۔ اب دور دور پھیل چلی ہے اور ہندوستان کے اس سرے سے اُس سرے تک چلے جائیے۔ ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ ہندوستان کے باہر تک جاپہنچی ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تین مختلف جلیل القدر قوموں کی یعنی ہندو ، مسلمانوں اور انگریزوں کی چہیتی ہے اور ان تینوں کی متفقہ کوششوںکی عظیم الشان یاد گار ہے۔ تینوں نے اسے سیکھا، پڑھا لکھا۔ تینوں نے اس کی ترقی میں مقدور بھر کوشش کی اور اب تینوں کی بدولت اس رُتبے کو پہنچی کہ دنیا کی جدید زبانوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہوئی۔
(صفحہ - 2)
 

کاشفی

محفلین
صفحہ - 3

اردو ہندی نژاد ہے اور قدیم یا پراکرت کی آخری اور سب سے شائستہ صورت ہے۔ ہندی بولی اور فارسی کے میل سے بنی ہے۔ اس میں جو سنسکرت اور پراکرت کے الفاظ ہیں وہ زمانہ دراز کے استعمال اور زبانوں پر چڑھ جانے سے ایسے ڈھل گئے ہیں کہ اصل الفاظ میں جو بھدا پن اور کرختگی اور تلفظ اور لہجے کی دقت تھی بالکل جاتی رہی۔ اور چھٹ چھٹا کر پاک صاف سیدھے سادے رہ گئے ہیں۔ جس سے زبان میں لوچ، گھلاوٹ اور صفائی پیدا ہوگئی ۔ اردو کے ہندی نژاد ہونے میں کچھ شبہ نہیں کیونکہ بیرونی زبانوں‌کا اثر صرف اسماء و صفات میں ہوا ہے۔ ورنہ زبان کی بنیاد یہیں کی زبان پر ہے۔ تمام حروف فاعلی، مفعولی، اضافت، نسبت، ربط وغیرہ ہندی ہیں۔ ضمیریں سب کی سب ہندی ہیں۔ افعال سب ہندی ہیں۔ لیکن عربی فارسی الفاظ کے اضافے نے مختلف صورتوں میں اس کی اصل خوبی میں اضافہ کردیا ہے۔ ہندی الفاظ میں دل نشینی کا خاص اثر ہے اور عربی فارسی الفاظ میں شان و شوکت اور زبان کے لئے ان دونوں عنصروں کا ہونا ضروری ہے۔ عربی فارسی الفاظ نے نہ صرف لغت اور نحو میں بلکہ خیالات میں بھی وسعت پیدا کر دی ہے۔ جس سے اس کا حسن دوبالا ہوگیا اوروہ زیادہ وسیع اور کارآمد بن گئی مگر اصل بنیاد جس پر وہ قائم ہے ہندی ہی ہے۔ محض غیر زبانوں کے اسماء و صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فرق نہیں آسکتا۔ مثلا آج کل بہت سے انگریزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں‌پڑ سکتا۔ ایک دوسری بات اردو زبان میں یہ ہے کہ اس اصول پر قائم ہے کہ جو تمام جدید زبانوں میں اس وقت پایا جاتا ہے یعنی صورت ترکیبی سے حالت تفصیلی کی طرف اس کا رجحان ہے۔
(صفحہ - 3)
 

کاشفی

محفلین
صفحہ - 4

قدیم زبانوں میں یہ بڑی دقت تھی کہ ایک ہی لفظ کو ذرا ذرا سے فرق اور پھیر سے مختلف صورتو ں میں لے آتے تھے۔ اب دوسرے الفاظ کی مدد سے مرکب صورتیں پیدا ہوگئی ہیں اور وہ دقتیں جاتی رہی ہیں۔ اردو کو بھی اس قید سے آزادی مل گئی ہے۔ غرض یہ زبان مختلف حیثیتوں سے ایسی قبول صورت ہوگئی ہے کہ اس کی ترقی میں شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی صفائی، فصاحت اور صلاحیت اور ہندی ، فارسی، عربی اور انگریزی کے مختلف مفید اثرات اس امر کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ دنیا کی ہونہار زبانوں میں سے ہے اور ایشیا میں ایک روز اس کا ستارہ چمکے گا۔
مجھے خوب یاد ہے کہ کئی سال کا عرصہ ہوا کہ میرے ایک دوست نے جلسے میں‌تذکرتاََ میری کتاب صرف و نحو اردو کے متعلق کہا کہ انجمن ترقی اردو (حیدرآباد، دکن) اسے چھپوا دے تو بہت اچھا ہو۔ اس پر ہمارے ایک عالم دوست نے فرمایا کہ صرف و نحو کی کتابیں بچوں کے لئے ہوتی ہیں۔ انجمن کی طرف سے ایسی کتابوں کا طبع ہونا ٹھیک نہیں ۔ مجھے اس میں کلام ہے کہ صرف و نحو کی کتابیں کے لئے مخصوص ہیں بلکہ میری رائے میں‌انہیں اپنی زبان کی صرف و نحو پڑھانا مضر ہے۔ البتہ یہ میں تسلیم کرتا ہوں‌کہ ایک زندہ اور جدید زبان کے لئے گریمر (صرف و نحو) کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی لیکن سوال یہ ہے کہ آخر گریمر کی ضرورت پڑی کیوں؟ جب ہم دنیا کی مختلف زبانوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے ادب کی تاریخ بغور پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں گریمر کی ضرورت اس وقت واقع ہوئی جبکہ ایک زبان والوں نے دوسری زبان کے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اول اول خود اہل زبان کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مثل دوسرے علوم و فنون کے ضرورت نے اسے ایجاد کیا۔ اور زبان کے سب سے پہلے علمی نحوی وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے اول علمی طور پر زبانوں کی تعلیم دی۔ صرف و نحو کے قواعد کی تدوین انہیں معلمین السنہ کا کام تھا۔

(صفحہ - 4)
 

کاشفی

محفلین
صفحہ - 5

زبانوں کا سیکھنا سکھا نا نسبتاََ جدید زمانے کی ایجاد ہے جو آج کل خاصا پیشہ ہوگیا ہے۔ قدیم زمانے میں لوگ غیر زبانوں کے سیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ مثلاٍ کسی قدیم یونانی یا عرب کو کسی دوسری زبان کے سیکھنے کا کبھی خیال نہیں آتا تھا اور وہ کیوں سیکھتا؟ اس لئے کہ یونانی سوائے یونانیوں کے اور عرب سوائے عربوں کے سب کو وحشی خیال کرتا تھا۔ غیروں کی زبان سیکھنا، ان کے اداب و اطوار کا اختیار کرنا اس کے لئے عار اور موجب ذلت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی غیر اقوام کو ایک لوسائی یعنی بے زبان عرب اور دوسروں کو عجم یعنی گونگے اور پول اپنے پڑوسی اہل جرمن کو نیمیا یعنی گونگے بہرے اور ہندو اپنے سوا دوسروں کو ملیکھ (ملیچھ) کہتے تھے ۔ ملیکھ یعنی ملیچھ کے اصل معنی ایسے شخص کے ہیں جسے صاف طور پر بولنا نہیں آتا۔
جب یونانیوں کو دوسری قوم سے سابقہ پڑا اور ان سے بات چیت کی ضرورت ہوئی تو بڑی دقت پیش آئی۔ اگر ہر شخص اپنی ہی زبان بولنے پر اصرار کرے تو دوسرے کی کیونکر سمجھے۔ اُن کے لئے غالباََ غیر زبانوں کے سیکھنے کی پہلی محرک تجارت ہوئی اور دوسری محرک اسکندر کی فتوحات۔ ایران اور ہندوستان کی فتوحات نے یونانیوں پر ثابت کر دیا کہ دوسری قومیں بھی زبان رکھتی ہیں لیکن طرہ یہ ہے کہ بہ نسبت یونانیوں کے دوسری اقوام میں جنہیں یونانی وحشی کہتے تھے زبانیں سیکھنے کی زیادہ صلاحیت تھی۔ اسکندر کی فتوحات نے باہمی میل جول کا راستہ کھول دیا تھا۔ اور اسکندریہ مختلف اقوام، مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کا سنگم ہوگیا۔ گو ابتدائی تعلق تجارتی تھا لیکن فرصت کے اوقات میں دوسرے معاملات اور مباحث بھی خود بخود زیر بحث آگئے۔

(صفحہ - 5)
 

قیصرانی

لائبریرین
علاوہ اس کے خود یونانی بھی اسکندریہ میں موجود تھے جو قدیم حالات کی تحقیق میں مصروف تھے۔ اور اسی طرح مصریوں، ایرانیوں اور یہودیوں کے علم آداب اور معتقدات بحث میں آئے اگرچہ اسکندریہ میں دوسرے اقوام کے علم ادب کے متعلق ایک دلچسپی پیدا ہو گئی تھی لیکن زبان کی تحقیق و تنقید دوسری زبانوں کے مطالعہ سے پیدا نہیں ہوی بلکہ خود یونانی زبان کی مختلف شاخوں پر غور کرنے سے اس کا آغاز ہوا۔ اور سب سے بڑی وجہ اسکی ہومر کی کتاب ہوئی۔ سب سے اول ان علما نے زبان کی تنظیم کی طرف توجہ کی جو قدیم اساتذہ اور خاص کر ہومر کی تصانیف کو صحت اور تنقید کے ساتھ شایع کرنے کا کام کر رہے تھے۔ مختلف نسخے اسکندریہ اور پرگامس میں یونان کے مختلف حصوں سے موصول ہوے جنمیں آپسمیں بہت کچھ اختلاف تھا اور اسلیے ان علما کو مجبوراً یونانی گریمر کی صحیح صورت قائم کرنے پر متوجہ ہونا پڑا۔ اسمیں شک نہیں کہ ان لوگوں نے اول یونانی زبان کو تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا اور اسکی تنظیم کی اور مختلف اجزائے کلام کا امتیاز قائم کیا اور الفاظ کے مختلف عمل کے لیے اصطلاحی الفاظ گھڑے۔لیکن تاہم حقیقی اور ابتدائی گریمر ابھی تک نہیں لکھی گئی تھی۔ پہلا حقیقی نحوی ڈائونی سی آس تھریکس تھا۔
یہ شخص جیسا کہ اسکے نام سے ظاہر ہے تھریکس کا باشندہ تھا۔ لیکن وہ اسکندریہ میں رہتا تھا۔ بعد ازاںوہ روما گیا جہان اس نے یونانی زبان کی تعلیم دینی شروع کی اور معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اپنے رومن شاگردوں کے لئے زبان کی پہلی گریمر لکھی اگرچہ گریمر کا ڈھانچہ پہلے سے موجود تھا لیکن اس نے پہلے کے فلسفیون اور نقادون کے نتائج سے فائدہ اٹھا کر یہ کتاب مرتب کی یونانیوں کے لیے نہیں کیونکہ انھیں ضرورت نہ تھی وہ اپنی زبان سے خود واقف تھے بلکہ اہل روما کی تعلیم کے لیے۔ اس شخص کے بعد اور لوگ پہنچے اور معلمی یا مترجمی کا پیشہ کرنے لگے۔ یہ پیشہ وہان اچھا خاصہ اور معزز سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ رومن نوجوانوں کو یونانی پڑھنے لکھنے اور بولنے کا ایسا ہی شوق اور خبط تھا جیسا آج کل ہندی نوجوانوں کو انگریزی پڑھنے اور لکھنے بولنے کا ہے یہاں تک کہ بچون کو اول یونانی پڑھائی جاتی تھی اور بعد میں لاطینی۔ اور یونانی آداب و تہذیب کا اختیار کرنا اور یونانی جاننا علامتِ شرافت سمجھی جاتی تھی۔ بعینہ جیسے ہمارے ہاں آجکل انگریزی پہناوا، انگریزی بات چیت انگریزی طرز معاشرت باعث فخر خیال کی جاتی ہے۔ گو روما نے یونان کو فتح کیا تھا لیکن علمی لحاظ سے وہ خود اسکا مفتوح ہو گیا۔ غرض یونانی زبان کے سیکھنے اور یونانی کتابوں کے ترجمہ کا عام رواج ہو گیا۔ اور اسی وجہ سے یونانی گریمروں کی ضرورت ہوی اور جب لاطینی گریمر لکھی گئی تو یونانی اصطلاحات لاطینی لباس میں ترجمہ ہو کر داخل ہو گئیں۔ اور اس جدید لباس میں یہ گریمر دو ہزار سال سے یورپ پر چھائی ہوی ہے بلکہ آج اس کا اثر ہندوستانی مدارس اور ہندوستانی زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
اسی طرح جب ہم عربی زبان کی صرف و نحو کی ابتدا پر نظر ڈالتے ہیں تو بعینہ یہی صورت وہان بھی پیش آئی۔ جس طرح ہومر کی کتاب کی درستی اور صحت کے لیے اول اول نحو کے ابتدائی اصول پر نظر گئی اسیطرح قرآن پاک کے الفاظ کی صحت قائم رکھنے کے لیے سب سے پہلے نحو زبان کی طرف مجبوراً توجہ کرنی پڑی۔ سب سے پہلا شخص ابولاسود دؤلی تھا جسے ایک قاری کو قرآن کی آیت غلط پڑھتے ہوئے سن کر یہ خیال ہوا کہ اگر خدانخواستہ یہ حالت رہی تھی اندیشہ ہے کہ قرآن پاک کے معانی کچھ کے کچھ ہو جائیں گے۔ ابتداءً رسم خط عربی ایسی تھی کہ اسمیں نقطے اور اعراب نہ تھے اور اس لیے اعراب اور نقطے ایجاد کرنے پڑے۔ صرف و نحو کا خیال بھی اسی قسم کے واقعات سے پیدا ہوا۔ خصوصا جب اہل عجم مذہب اسلام میں داخل ہوے اور عربی زبان کا اثر وسیع ہونے لگا تو عجمی زبان کے بولنے میں طرح طرح کی غلطیاں کرنے لگے۔ زبان کے خراب اور مسخ ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ اسپر سے ابوالاسود کی تحریک پر حضرت علی نے نحو کا پہلا قاعدہ بتایا کہ "سارا کلام اس سے خالی نہیں کہ یا تو اسم ہوگا یا حرف"۔ چنانچہ اسپر سے ابوالاسود نے اول اول قواعد فن لسان کی تدوین کی۔ جب عربون کی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا اور عربی زبان کی روشنی بھی ساتھ ساتھ پھیلنی شروع ہوی تو قواعد زبان کی ضرورت روز بروز بڑھنے لگی۔ کوفہ و بصرہ میں نحویین کے دو الگ مذہب قائم ہو گئے۔ جنکے مباحث پر اسوقت نظر ڈالنا ہمارے مقصد سے خارج ہے۔ غرض ہوتے ہوتے نوبت یہ پہنچی کہ نحو یا تو زبان سیکھنے کا آلہ تھی یا خود ایک مستقل فن ہو گئی اور ایک نحوی کی ایسی ہی عزت ہونے لگی جیسے کسی عالم فاضل کی۔ عربی صرف و نحو کی تدوین میں عجمیون نے بہت بڑا حصہ لیا (کیونکہ ضرورت زیادہ انہیں کو تھی) اور بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھین اور اسمیں وہ بحثیں اور نزاکتں پیدا کیں کہ یہ فن خاصا فلسفہ ہو گیا۔ اور اسکے پڑھنے پڑھانے میں مبالغہ کے ساتھ بڑے بڑے اہتمام ہونے لگے۔ جس کا اثر اب تک باقی ہے۔ عربی زبان اور صرف و نحو کا اثر فارسی، ترکی اور اردو زبانون پر بہت کچھ ہوا ہے۔ اور اب تک عربی اصطلاحات صرف و نحو ان زبانوں کی قواعد میں برابر جاری ہیں۔ بلکہ فارسی اردوکی صرف و نحو عربی کی صرف و نحو کی نقل ہے۔ اور نقل کیا کی ہے منھ چڑایا ہے۔ غرض کہنے کی یہ ہے کہ عربی صرف و نحو کو زیادہ رونق اور عروج عجمی علما کی بدولت ہوا ہے۔
موجودہ زبان فارسی کو دیکھا جاے تو اسکی صرف و نحو بہت صاف اور سیدھی اور مختصر ہے۔ اور اسمیں مطلق وہ پیچیدگیاں نہیں جو قدیم زبانوں یا اردو زبان میں ہیں۔ لیکن یار لوگوں نے عربی کے تتبع میں اسکی بھی خوب مٹی خراب کی۔ زبان کچھ کہتی ہے اور گریمر کچھ اور۔ بعینہ یہ مثال صادق آتی ہے،۔
من چہ سرایم و طنبورہ من چہ سراید​
لیکن تاہم بری بھلی جو کتابیں فارسی صرف و نحو تنقید زبان صنائع بدائع اور لغت پر لکھی گئی ہیں وہ سب زیادہ تر تو اہل ہند یا بعض اور بیرونی لوگوں کی تصنیف سے ہیں۔ اہل زبان نے کبھی اسپر قلم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انہیں اپنی زبان کی صرف و نحو لکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ کبھی انہیں اسکا خیال آیا وہ انکی مادری زبان تھی پیدا ہوتے ہی وہی آوازیں انکے کانوں میں پڑی تھیں اور ہوش سنبھالتے ہی وہ وہی زبان جو سنتے تھے بولتے تھے۔ صرف و نحو تو وہ پڑھے جسکی مادری زبان نہو۔اور یہی وجہ ہے کہ فارسی کی صرف و نحو غیروں نے لکھی۔
اسکے بعد جب ہم اردو زبان پر نظر ڈالتے ہیں تو اسکی حالت سب سے عجیب و غریب ہے۔ اسکی صرف و نحو کی طرف ابتدا میں نہ صرف کسی اہل ہند بلکہ ایشیا بھر میں کسی شخص کا خیال نہ گیا۔ اور خیال کیا تو غیروں نے۔ اور غیر بھی کیسے، بات چیت اور زبان ہی میں غیر نہیں، بلکہ صورت شکل، عادات و اطوار، طریق ماند و بود، طرز خیال غرض گفتار، رفتار و کردار میں بھی غیر ہیں اور ایسے غیر کہ باوجودیکہ دو سو ڈیرھ سو برس ایک سرزمیں پر رہتے گزر گئے ہیں مگر اب تک غیریت نہیں گئی۔ میرا مطلب ان اہل فرنگ سے ہے جو آگے لینے آئے تھے اور گھر کے مالک بن بیٹھے۔ اہل یورپ کے آنے سے اس ملک کو اگر کچھ فوائد پہنچے ہیں تو انمیں سے بلاشبہ ایک یہ بھی ہے کہ انھون نے ایک ایسی زبان کی سرپرستی اور تقویت میں ہاتھ بٹایا جو ملک کی مختلف اقوام کی متحدہ اور مشترکہ زبان تھی۔ اگرچہ اسمیں انکی ذاتی غرض پنہاں تھی، کیونکہ بغیر ایک ایسی زبان سیکھے انکو اپنے اغراض میں کامیابی نہیں ہو سکتی تھی، مگر ذاتی اغراض کے ساتھ ملکی اغراض بھی خودبخود انجام پاگئے۔ ان لوگوں کے اس زبان پر توجہ کرنے اور سیکھنے سے بھی یہ صاف عیاں ہے کہ یہ زبان ملک کی عام زبان تھی۔ ان حضرات کو ملک کی کسی زبان سے نہ الفت تھی نہ نفرت۔ وہ ایسی زبان سیکھنا چاہتے تھے جو ہر جگہ کارآمد ہو اور انکے کاروبار اور معاملات میں سہولت پیدا کرے۔ اور وہ سوائے اردو کے کوئی دوسری زبان نہ تھی۔ لہٰذا ان کی تحصیل میں انھوں نے کوشش کی اور بیشک یہ انکے اغراض کے لئے مفید بھی ثابت ہوی۔
جہانتک میں نےتحقیق کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا یورپین جس نے ہندوستانی زبان کے قواعد لکھے وہ جان جوشوا کٹلر تھا ،جو پرشیاکے شہر ایل بنجن میں پید اہوا۔ مذہب میں یہ لوتھر کا پیروکار تھا یہ شخص شاہ عالم باد (۱۷۰۸۔۱۷۱۲ع) میں جہاندار شاہ بادشاہ (۱۷۱۲ع) کے دربار میں بطور ڈچ سفیر کے حاضر ہوا۔ ۱۷۱۱ع میں وہ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ناظم تجارت بمقام سورت مقرر ہوا۔ وہ لاہور سے آتے اور جاتے وقت براہ دہلی آگرہ سے گزرا لیکن یہ بالیقین نہیں کہا جا سکتا کہ وہ وہاں ٹھہرا بھی یا نہیں۔ اگرچہ وہاں اہل ڈچ کا ایک کارخانہ سورت کے تحت میں موجود تھا ۔ اسکا مشن لاہور کے قریب ۱۰ دسمبر ۱۷۱۱ع کو پہنچا اور جہاندار شاہ کے ہمراہ دہلی واپس ہوا اور آخر کار اس مقام سے ۱۴ اکتوبر ۱۷۱۲ع کو روانہ ہو کر ۲۰ اکتوبر کو آگرہ پہنچا۔ اور پھر آگرہ سے سورت واپس چلا گیا۔ ۱۷۱۶ع تک وہ تین سال سورت میں ڈچ کمپنی کا ناظم (ڈائرکٹر) رہا۔ اسکی بعد وہ ایران کا سفیر مقرر ہوا اور بٹاویا سے جولائی ۱۷۱۶ع میں روانہ ہوا۔ اس وقت اسے ایسٹ انڈیا میں ڈچ کی ملازمت کرتے ہوئے تیس سال ہو گئے تھے۔ اور اصفہان واپس ہوتے وقت خلیج فارس کے مقام گمبرون میں بعلالت بخار انتقال کیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس نے ہندوستانی زبان کے قواعد اور لغت لکھا جسے ڈیوڈ مل نے ۱۷۴۳ع میں چھاپکر شائع کیا۔ قیاس یہ ہوتا ہے کہ یہ کتابیں اس نے ۱۷۱۵ع کے لگ بھگ تالیف کیں۔ یہ کتاب لیٹن زبان میں ہے لیکن ہندوستانی الفاظ اور عبارتیں رومن حروف میں ہیں البتہ حروف کے پیٹوں میں ہندوستانی الفاظ بعینہ لکھے ہیں۔ اور ان الفاظ کا املا ڈچ کے طریقہ پر ہے۔ ایک بات اس قواعد میں قابل لحاظ یہ ہے کہ حرف فاعلی کا کہیں ذکر نہیں ہے اور علاوہ ہم کے وہ آپ کو بھی (جو گجراتی زبان میں استعمال ہوتا ہے) جمع متکلم کی ضمیر بتاتا ہے۔
کیٹلر کی گریمر کے طبع ہونے کے دوسرے سال مشہور مشنری شلز کی کتاب ہندوستانی زبان (اردو) قواعد پر شائع ہوی (سنہ طبع ۱۷۴۴ع) یہ صاحب کیٹلر کی گریمر سے واقف تھے۔ اور اپنی کتاب کے دیباچے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ شلز کی گریمر بھی لیٹن میں ہے مگر ہندوستانی الفاظ فارسی عربی خط میں ہیں اور ان کا تلفظ بھی ساتھ ساتھ لاطینی میں دیا ہوا ہے۔ ناگری حروف کی بھی تصریح کی ہے مگر بعض حروف بالکل ترک کر دیے ہیں۔ وہ ضمائر شخصی کے واحد و جمع سے واقف ہے لیکن افعال متعدی کے زمانہء ماضی کے ساتھ نے کے استعمال سے واقف نہیں۔ اور اسی پر موقوف نہیں بلکہ اکثر قدیم کتب قواعد میں نے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ پرانی اردو میں نے کا استعمال بالالتزام نہیں ہوتا تھا۔
ہیڈلے کی گریمر ۱۷۷۲ع میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد متعدد کتابیں قواعد زبان ہندوستانی کے متعلق لکھی گئیں۔ اسکے بعد کا وہ زمانہ ہے جبکہ جان گلکرسٹ نے ہندوستانی زبان کی خدمت شروع کی۔ لیکن جان گلکرسٹ کی خدمات کا ذکر کرنے سے قبل ہم ایک شخص لے بی ڈف کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے اپنے حالات خود اپنی کتاب کے دیباچہ میں لکھے ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ یہ شخص مدراس میں ۱۷۸۵ میں آیا اور غالباً خدمت بینڈ ماسٹری پر معمور ہوا۔ وہاں دو سال قیام کرنے کے بعد کلکتہ چلا آیا، وہاں اس کی ملاقات ایک پنڈت سے ہوی جس سے اس نے سنسکرت، بنگالی اور ہندوستانی (جسے وہ ہندوستان کی مخلوط زبان کہتا ہے) پڑھنی شروع کی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے دو ناٹکوں کا ترجمہ بنگالی میں کیا اور اسکے اپنے بیان کے بموجب ان میں سے ایک ناٹک عام طور پر پبلک میں پسند کیا گیا اور اس کی بہت تعریف ہوئی۔ ایڈلنگ لکھتا ہے کہ اس کے بعد وہ مغل بادشاہ کے ہاں ٹھیٹر کا منتظم (میںجر) ہو گیا۔ اور آخر مشرق میں بیس سال کے قیام کے بعد انگلستان واپس چلا گیا۔ لنڈن میں اس نے اپنی گریمر شائع کی اور روسی سفیر ڈرن زو سے ملاقات پیدا کئی اس نے اسے روس میں بھیج دیا جہاں وہ فارن آفس میں ملازم ہو گیا اور سرکار کی طرف سے سنسکرت کا مطبع قائم کرنے کے لئے اسے بہت کچھ رقم دی گئی۔لیکن اس کی ہندوستانی گریمر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید بہ نسبت ہندوستانی زبان کے اس کا علم بنگالی اور سنسکرت میں زیادہ ہو۔ کیونکہ اس نے ہندوستانی گریمر میں نہ صرف الفاظ کا تلفظ غلط کہا ہے بلکہ قواعد کے بیان کرنے میں بھی بہت سی صریح غلطیاں کی ہیں۔
ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا نام اردو کے محسنین میں نہایت ممتاز ہے اور اردو زبان کا مورخ ان کا ذکر بغیر احسان مندی اور شکر گذاری کے نہیں کر سکتا۔ انہوں نے نہ صرف زبان اور قواعد زبان و لغت پر اعلٰی درجے کی کتابیں، بلکہ چند خاص اہل زبان حضرات کو جمع کر کے ان سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن میں سے بعض ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اردو کی خدمت کا کام ۱۷۸۷ع میں شروع کیا اور فورٹ ولیم کالج اردو زبان کی تالیف و تصنیف کا مرکز انیسویں صدی کے ابتدائی دس سال تک رہا۔ اگرچہ اصل مقصد اس کا یہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں جو انگریز ملازم ہو کر آتے تھے ان کو اردو سکھانے کے لئے مناسب کتابیں لکھوائی جائیں تاکہ وہ آسانی سے ملک کی اس زبان کو جو ہر جگہ بولی یا سمجھی جاتی ہے سیکھ سکیں۔ لیکن اس پردے میں بعض بے مثل کتابیں لکھی گئیں اور آئیندہ اس ڈھنگ کی تالیف کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ خود گلکرسٹ صاحب نے متعدد کتابیں اردو زبان اور اس کی لغت اور قواعد پر لکھی ہیں۔ ان کی کتاب قواعد اردو ۱۸۰۹ع میں چھپ کر شائع ہوی۔ اگرچہ ان کی دو ایک کتابیں جو اس سے چند سال قبل طبع ہوئی تیھں ان میں بھی اردو زبان کے قواعد کا کچھ کچھ حصہ شریک تھا۔
مسٹر جان شیکسپیر کی اردو گریمر لندن میں اول اول ۱۸۱۳ میں شائع ہوئی۔ دوسرا ایڈیشن ۱۸۱۸ع میں تیسرا ۱۸۲۶ع میں، چوتھا ایڈیشن میں دکھنی زبان کی مختصر سی گریمر بھی اضافہ کی ہے ۱۸۴۳ میں اور اس کے بعد ایک ایڈیشن ۱۸۵۸ میں شائع ہوا۔
۱۸۲۰ع میں اردو رسالہ گلکرسٹ کے نام سے ایک کتاب کلکتہ میں شائع ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن ۱۸۳۱ع، ۱۸۴۶ع میں کلکتہ میں اور ۱۸۴۵ میں آگرہ میں چھپے۔ یہ رسالہ دراصل گلکرسٹ کی گریمر کا ملخص ہے۔
ولیم ٹیٹ نے ایک کتاب مقدمہ زبان ہندوستانی کے نام سے تالیف کی جو تین حصوں پر منقسم تھی۔ یعنی گریمر، لغت اور اسباق زباندانی۔ اول بار کلکتہ میں ۱۸۲۷ میں طبع ہوی دوسری بار ۱۸۲۴ میں اور تیسری بار ۱۸۳۳ میں چھپی۔
گلکرسٹ صاحب کے بعد دوسرا یورپین محسن اردو فرانسیسی عالم موسیو گارساں وتاسی تھے۔ انہوں نے اصول زبان ہندوستان پر ایک کتاب لکھی جو پیرس میں ۱۸۲۹ میں طبع ہوئی اور صرف اردو و قواعد اردو پر ایک بڑا مضمون جنرل ایشیاٹک سوسائٹی بابت ۱۸۳۶ع میں لکھا (اس کے علاوہ موصوف نے تاریخ شعرائے اردو لکھی جو ایک بے مثل کتاب ہے)۔
مسٹر ایس ڈبلیو بری ٹن نے ہندوستانی زبان کے قواعد کے پر ایک کتاب تالیف کی جو لندن میں ۱۸۳۰ع میں طبع ہوی۔
اس کے ایک سال بعد یعنی ۱۸۳۱ میں مسٹر سٹیمفورڈ ارناٹ کی کتاب بنام "جدید خود آموز قواعد زبان ہندوستانی، جو برٹش انڈیا کی نہایت کارآمد اور عام زبان ہے"۔ یہ کتاب فارسی اور رومن حروف میں ہے اور اس کے ساتھ بطور ضمیمہ کے لغت اور مشقی اسباق زباندانی بھی اضافہ کیے گئے ہیں۔ لندن میں اول بار ۱۸۳۱ع میں اور دوسری بار ۱۸۴۴ع میں طبع ہوئی۔
۱۸۴۲ع میں ایک کتاب انگریزی اور ہندوستانی افعال بے قاعدہ پر اور مقدمہ قواعد ہندوستانی برائے افادہ طلبہ مدراس میں طبع ہوی۔ مؤلف کا نام تحریر نہیں ہے۔
ہندوستانی زبان کے قواعد مشرقی اور رومن حروف میں مع آسان انتخابات بغرض تحصیل زباندانی فارسی عربی اور دیوناگری حروف میں مؤلفہ ایس ارناٹ باضافہء لغت و حواشی از مسٹر ڈنکن فاربس مطبوعہ لندن ۱۸۴۴ع
اسی سال مسٹر جیمس آر بالن ٹائن کی گریمر لندن میں طبع ہوی اور غالباً یہی کتاب بعد ترمیم و اضافہ ۱۸۶۸ع میں شایع ہوی۔
۱۸۴۷ع میں ہندوستانی زبان کی ایک گریمر لندن میں طبع ہوئی اسکے مؤلف ریورنڈ جی اسمال تھے۔ اسمیں کچھ انتخابات اردو ادب کے بھی شریک ہیں۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۸۵۸ع میں شایع ہوا۔
جرمنی کے ایک عالم جے دت لو پراخنو نے بھی ہندوستانی زبان کے قواعد پر ایک کتاب لکھی تھی جو برلن میں ۱۸۵۲ میں طبع ہوی۔
سر مونیر ولیمس نے سنسکرت اور ہندی زبان کی جو خدمت کی ہے وہ محتاج تعریف نہیں۔ ایک زمانہ اس سے واقف ہے۔ صاحب موصوف نے ہندوستانی زبان کی ایک ابتدائی کتاب لکھی اور اس میں علاوہ روز مرہ کے استعمال کے الفاظ و محاورات و قصص مبتدیوں کے لیے صرف و نحو کے قواعد بھی درج کیے۔ ماسوائے اس کے ہندوستانی گریمر مولفہ کاٹن ماتھر مطبوعہ لندن ۱۸۶۲ع کو مرتب کیا جو ۱۸۷۶ میں شایع ہوئی۔
۱۸۷۲ میں مسٹر جان ڈوسن نے اردو زبان کی ایک گریمر تالیف کی۔
مسٹر جان پلیٹ کی قواعد اردو لندن میں ۱۸۷۴ میں طبع ہوئی۔ یہ کتاب درحقیقت اچھی لکھی گئی ہے۔
کسی یورپین صاحب نے دکنی گریمر پر ایک رسالہ لکھا تھا لیکن اس پر مؤلف کا نام نہیں۔ یہ رسالہ ۱۸۷۸ع میں ستارا میں طبع ہوا۔
پامر صاحب کی ہندوستانی فارسی و عربی گریمر ۱۸۸۲ع میں بمقام لندن طبع ہوی۔
۱۸۸۲ و ۱۸۸۳ عیسوی میں مسٹر ڈبلیو کیگر نے زبان ہندوستان کی گریمر لکھی۔ ان صاحب کا تعلق سروہنہ سے معلوم ہوتا ہے۔
۱۸۸۳ع میں پروفیسر فان کیو نے ہندوستانی زبان کے قواعد مرتب کیے۔ یہ کتاب نپولی میں طبع ہوی۔
اسی سال مسٹر جے ون سن نے بھی اردو گریمر پر تالیف کی۔
جرمن عالم اے سی ڈل نے ایک کتاب اردو زبان کے قواعد پر تالیف کی جس کا نام اس نے ہندوستانی گریمر قیاسی و عملی رکھا۔ یہ کتاب ۱۸۹۳ میں بمقام لپ زک طبع ہوئی۔ ۱۸۹۴ میں شلز کی گریمر پھر لپ زک میں طبع ہوئی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ فہرست میں نے صرف اردو صرف و نحو کی ایسی کتابوں کی دی ہے جو اہل یورپ نے تالیف کی ہیں۔ لغت و ادب وغیرہ پر جو کتابیں ان لوگوں نے لکھی ہیں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کیونکہ یہا کا ذکر خارج از بحث (اس مضمون پر مفصل بحث میری کتاب "تاریخ زبان اردو" میں ہوگی۔ یہ کتاب زیر تالیف ہے) ہے۔ اس سے میرے اس بیان کی تصدیق ہوگی کہ اردو زبان کی صرف و نحو پر پہلے پہل غیروں نے توجہ کی۔
اہل ہند میں سب سے اول اس مضمون پر اردو کے مشہور شاعر میرا انشاء اللہ خان انشا دہلوی نے قلم اٹھایا ان کی کتاب دریائے لطافت ۱۲۲۲ھ/۱۸۰۲ عیسوی میں بعہد نواب سعادت علی خان بہادر لکھی گئی۔ اس میں علاوہ قواعد صرف و نحو کے عورتوں کے محاورات، مختلف قوموں کی بولیاں اور گفتگوئیں اور طرح طرح کی نظم و نثر بھی شریک ہے۔ بعض محاورات و الفاظ کی تحقیق بھی خوب کی ہے۔ باوجودیکہ اس کتاب کو تالیف ہوئے مدت گذر چکی ہے لیکن اس وقت بھی وہ بے مثل اور قابل قدر کتاب (انجمن ترقی اردو اس کتاب کو عنقریب طبع کرانے والی ہے) ہے اور اردو زبان کےا دب میں ہمیشہ وقعت کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ یہ کتاب اول اول مرشد آباد میں ۱۸۴۸ میں طبع ہوئی۔
غالباً ناظرین کتاب کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ سر سید احمد خان مرحوم نے بھی اردو صرف و نحو پر ایک رسالہ تالیف کیا تھا۔ اس کا ایک قلمی نسخہ اسلامیہ ہائی سکول اٹاوہ کی حالی لائبریری میں موجود ہے۔ کاتب نے کتاب کے آخر میں ۱۲۵۲ ہجری مطابق ۱۸۴۰ع تحریر کیا ہے۔ اگرچہ یہ سنہ کتابت ہے لیکن سنہ تالیف بھی اسی کے لگ بھگ ہوگا۔ اس میں صرف و نحو کے معمولی قواعد ہیں۔ زیادہ تر بحثِ مصادر ہے۔ اگرچہ یہ کتاب کچھ ایسی قابل لحاظ نہیں لیکنا س سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو اردو زبان سے کس قدر دلچسپی تھی۔
اس کے بعد مولوی احمد علی دہلوی نے ایک ابتدائی رسالہ صرف و نحو پر لکھا جو دہلی میں ۱۸۴۵ع میں طبع ہوا اس کتاب کا نام "فیض کا چشمہ" ہے غالباً یہ تاریخی نام ہے اور اس سے سنہ تالیف ۱۲۵۹ ہجری نکلتا ہے۔
مولوی امام بخش صاحب صہبائی دہلوی فارسی کے مشہور منشی اور ادیب گذرے ہیں اور دہلی کالج میں پروفیسر بھی تھے، انہوں نے بھی اردو صرف و نحو پر ایک کتاب تالیف کی تھی جو دہلی میں ۱۸۴۹ میں طبع ہوی۔ یہ کتاب بھی اچھی ہے اس کے آخر میں بہ ترتیب حروف ابجد اردو کے محاورات اور کہیں کہیں ضرب الامثال بھی درج ہیں۔
ان کے علاوہ بھی اسی زمانہ میں دو ایک کتابیں اور لکھی گئیں۔ مثلاً ایک صاحب مرزا محمد صالح نےا یک گریمر ہندوستانی، فارسی اور عربی کی لکھی اور اس میں فارسی گفتگو کا بھی ایک حصہ اضافہ کیا۔ اور ایک یورپین صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اصل کے ساتھ تھا۔ یہ کتاب بمقام لندن ۱۸۲۳ میں طبع ہوی۔ یا ایک دوسری کتاب بمبئی کے محمد ابراہیم صاحب مقبہ مقبہ نے تحفتہ الفنسٹن کے نام سے تالیف کی جو بمبئی میں ۱۸۲۳ میں طبع ہو کر شائع ہوئی۔ یہ کتاب الفنسٹن صاحب گورنر بمبئی کے نام سے موسوم کی گئی تھی لیکن یہ کتابیں کچھ زیادہ قابل لحاظ و قابل ذکر نہیں نہیں۔
زمانہ حال میں متعدد کتابیں اس مبحث پر طلبہ مدارس وغیرہ کے لئے پنجاب و ممالک متحدہ آگرہ و اودھ میں تالیف ہوئی ہیں جن میں کم و بیش عربی صرف و نحو کا تتبع کیا گیا ہے۔ البتہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے جو دو مختصر رسالے طلبہ مدارس کے لئے لکھے ہیں ان میں انہوں نے تقلید سے الگ ہو کر جدت سے کام لیا ہے۔ لیکن یہ رسالے بہت مختصر ہیں اور صرف ابتدائی مدارس کے طالب علموں کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں۔​
میں اس سے قبل اس امر کا اعتراف کر چکا ہوں کہ ایک زندہ زبان کے لئے قواعد کی چنداں ضرورت نہیں۔ اور میں نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ عموماً اور اکثر کسی زبان کی صرف و نحو اس وقت لکھی گئی جبکہ کسی غیر قوم کو اس زبان کی تحقیق یا اس کے سیکھنے کی ضرورت واقع ہوی اور صرف و نحو کی تحریر ابتداًیا اس کے متعلق جد و جہد ہمیشہ غیر قوم والوں کی طرف سے ہوی۔ کیونکہ اہل زبان اس سے مستغنی ہوتے ہیں۔ یہی حال اردو کا ہوا۔ اسکے صرف و نحو اور لغت کی طرف اول اول اہل یورپ نے بضرورت توجہ کی۔ اس کے بعد جب اہل ملک نے یہ دیکھا کہ ان لوگوں کو اردو پڑھنے کا شوق ہے تو ان کی دیکھا دیکھی یا ان کے فائدہ کی غرض سے خود بھی کتابیں لکھنی شروع کیں۔ بعد ازاں جب یہ زبان مدارس میں بھی پڑھائی جانے لگی تو صرف طلبہ کے لئے کتابیں لکھی جانے لگیں چنانچہ آج کل جس قدر کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی اصل غرض یہی تھی۔ لیکن ماسوائے اس کے اب ایک ضرورت داعی ہوی ہے وہ یہ کہ زبان اردو ادب ملک کی عام اور مقبول زبان ہو گئی ہے اور اس میں اکثر جگہ بولی جاتی ہے اور ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ ملک کی دوسری زبانیں خاص خاص خطوں میں محدود اور مخصوص ہیں۔ نیز اس زبان کو کچھ ایسے مقامات کے لوگ بھی پڑھتے اور سیکھتے ہیں جن کی یہ مادری زبان نہیں۔ اس لئے یہ ضرورت واقع ہوئی کہ اس زبان کے قواعد منضبط کیے جائیں اور مستند کتابیں لغت پر لکھی جائیں تاکہ زبان بگڑنے سے محفوظ رہے۔ میں نے اس کتاب کے لکھنے میں اس خیال کو مد نظر رکھا ہے اور صرف طلبہ مدارس کی ضروریات کا لحاظ نہیں کیا ہے۔ بلکہ زیادہ تر یہ کتاب ان حضرات کے لئے ہے جو زبان کو نظر تحقیق سے دیکھنا چاہتے ہیں۔​
ہمارے ہاں اب تک جو کتابیں قواعد کی رائج ہیں ان میں عربی صرف و نحو کا تتبع کیا گیا ہے۔ اردو خالص ہندی زبان ہے اور اس کا شمول آریاوی الستہ میں ہے بخلاف اس کے عربی زبان کا تعلق سامی الستہ سے ہے۔ لہٰذا اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طرح جائز نہیں۔ دونوں زبانوں کی خصوصیات بالکل الگ ہیں۔ جو غور کرنے سے صاف معلوم ہو جائے گا۔ اسی طرح اگرچہ اردو ہندی نژااد ہے اور اس کی بنیاد قدیم ہندی پر ہے، افعال جو زبان کا بہت بڑا جز ہیں، نیز ضمائر اور اکثر حروف سب کے سب ہندی ہیں۔ صرف اسماؤ صفات عربی فارسی سے داخل ہو گئے ہیں۔ اور چند گنتی کے مصادر جو عربی فارسی الفاظ سے بن گئے ہیں ۔مثلاً بخشنا، بدن، قبولنا، تجویزنا وغیرہ کسی شمار میں نہیں بلکہ بعض ثقات بزعم خود انہیں فصیح بھی خیال نہیں کرتے۔ تاہم اردو زبان کی صرف و نحو میں سنسکرت کے قواعد کا تتبع نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے متعلق چند موٹی موٹی باتیں یہاں لکھی جاتی ہیں۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
(۱) ہر اسم کے سنسکرت میں تین حصے کئے گئے ہیں۔ مادہ، حرف بعد مادہ اور حرف آخر۔ موجودہ ہندی یا اردو میں حرف آخر اڑ گیا ہے۔​
(۲) سنسکرت میں اسم کی مختلف حالتیں (فاعلی، مفعولی، اضافی وغیرہ) صرف حرف آخر کے تغیر سے بنتی ہیں جو اکثر قدیم زبانوں میں پایا جاتا ہے۔ اور ہندی اردو میں الگ حروف بڑھانے سے بنتی ہیں اور تمام جدید زبانوں کا میلان اسی طرف ہے۔​
(۳) سنسکرت اور پراکرت میں جنس تین ہیں یعنی نر، مادہ اور بیجان۔ موجودہ ہندی یا اردو میں صرف دو ہیں۔​
(۴) سنسکرت کا فعل بہت دقیق اور پیچیدہ ہے اور ایک زمانہ سے اس میں اصلاح ہوتے ہوتے موجودہ ہندی میں آ کر صاف اور سادہ ہوا ہے۔ تثنیہ کا صیغہ سنسکرت میں ہے ہندی میں نہیں۔
سنسکرت میں ہر فعل کی چھ صورتیں، تیرہ قسمیں اور نو جنسی حالتیں ہیں یعنی کل صیغے سات سو دو ہوتے ہیں اور یہ سب ایک ہی لفظ کے ہیر پھیر سے بنتے ہیں۔ موجودہ زبان میں یہ بڑی آسانی ہوتی ہے کہ اکثر افعال امدادی افعال کی اعانت سے بنائے جاتے ہیں۔ اور سب سے مصادر فارسی اور عربی اسما و صفات کے آگے ہندی مصادر مثلاً دینا کرنا وغیرہ بڑھا کر بنائے جاتے ہیں۔​
ایسی صورت میں اردو زبان کی صرف و نحو میں عربی یا سنسکرت کا تتبع کرنا الٹی گنگا بہانا ہے۔ البتہ اصطلاحات عربی سے لی گئی ہیں کیونکہ اس سے گریز نہیں۔ اردو زبان میں تقریباً کل علمی اصطلاحات عربی ہی سے لینی پڑتی ہیں جیسے انگریزی زبان میں لاطینی اور یونانی سے۔​
میں اس موقع پر اردو ہندی کے جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ بحث میرے خیال میں بالکل بے سود ہے۔ اول تو اس لئے کہ صرف و نحو میں اس بحث کا کوئی موقع نہیں خصوصاً اس خیال سے کہ اس امر میں تقریباً دونوں ایک ہیں اور ماسوائے بعض جزوی اختلافات کے کوئی اختلاف نہیں۔دوسرے جو شخص اس ملک کی مختلف زبانوں کی تاریخ کو نظر غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ فریقین نے محض سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے۔ اصل جھگڑے کی کوئی بات نہیں۔ قدرتی اثرات اور رحجانات کا روکنا اپنے ہاتھوں سے اپنی ترقی کو روکنا ہے۔​
بات یہ ہے کہ جب آریا لوگ اس ملک میں داخل ہوئے تو انہوں نے یہاں ایک دوسری قوم کو آباد دیکھا جن کی زبان ان کی زبان سے بالکل مختلف تھی۔ ملک کی اصل قوم ان قوی آریاؤں کے حملوں کی تاب نہ لا سکی اس لئے کچھ تو ان میں سے شمالی پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے اور بہت سے جنوبی اور وسطی ہند کے پہاڑوں اور جنگلات میں جا بسے۔ لیکن پھر بھی بہت سے ایسے تھے جنہیں اپنے عزیز وطن سے جدائی گوارا نہ تھی۔ اگرچہ وطن دوسروں کے ہاتھوں میں تھا اور اس لئے نئے حملہ آوروں کی غلامی میں بسر کرنے لگے۔ اگرچہ ایسی ضرورت میں ظاہر ہے کہ مغلوب اور پائمال کی زبان کیا باقی رہ سکتی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ان کی زبان نے آریاؤں کی زبان یعنی سنسکرت پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور کیا۔ اور اس لئے یہ کہنا غلطی ہوگا کہ قدیم ہندی بولیاں جو پراکرت (یعنی عوام کی بولی) کے نام سے مشہور ہیں اس اثر کا نتیجہ تھیں۔ اور جو صدیوں تک سنسکرت کے دوش بدوش ملک میں قائم رہیں۔ اور انہیں پراکرت بولیوں سے ہندوستان کی موجودہ آریاوی زبانیں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق سنسکرت سے ایسا ہی ہے جیسے یورپ کی موجودہ رومانی الستہ کو لاطینی سے۔ ان زبانوں کی تعداد عموماً سات شمار کی جاتی ہے۔ یعنی پنجابی، سندھی، گجراتی، مرہٹی، ہندی، اڑیا اور بنگالی۔​
ان سب میں ہندی بلحاظ قدامت و اہمیت کے سب سے زیادہ قابل لحاظ ہے لیکن ابتدا ہی سے اس پر غیروں کی نظریں پڑنی شروع ہوئیں۔ مسلمان جو شمال کی طرف سے اس ملک میں آنے شروع ہوئے اس کو اپنی زبان سے متائثر کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور جو اثر بارہویں صدی سےپڑنا شروع ہوا تھا وہ آخر ایک نئی صورت میں ظہور پذیر ہوا اور یہی اردو (لشکری زبان) کی اصل ہے۔ یہ دراصل کسی پراکرت یا ہندی کی بگڑی ہوئی صورت نہیں بلکہ ہندی کی آخری اور شائستہ صورت ہے۔ اور اس وقت ہندوستان کی عام ملکی زبان مانی جاتی ہے۔یہ نہ کسی خاص شخص یا فریق کی ایجاد ہے اور نہ کسی خاص پالیسی (مصلحت) اور منشا سے بنائی گئی ہے بلکہ جس طرح اس ملک کی معاشرت و سیاست میں وقتاً فوقتاً مختلف قدرتی اسباب سے تغیرات پیدا ہوئے اور آج انہیں اثرات کی وجہ سے ایک جدید حالت نظر آتی ہے۔ اسی طرح زبان میں بھی قدرتی اثرات و رحجانات اور مختلف واقعات سے تغیرات ظہور میں آئے۔ اور اس وقت جو ہم خاص پالیسی کی وجہ سے پرانی شئے کو نئی سمجھ کر چوکنے ہوتے ہیں وہ صرف ایک دھوکا ہے۔ اب اتنی مدت کے بعد ان باتوں پر جھگڑا کرنا گویا صدیوں کے واقعات کو جھٹلانا اور قدرتی اثرات اور رحجانات کو الٹا لے جانا ہے۔ دنیا میں کوئی چیز ایک حالت پر نہیں رہتی۔ اور جب ہم ہی ایک حالت پر نہ رہے تو ہماری زبان کیوں رہنے لگی۔ اور کچھ نہیں تو اگر صرف زبان کے الفاظ ہی کو سرسری نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی کتنی قوموں نے (بغیر کسی خاص ارادہ کے محض قدرتی اثرات کی وجہ سے) اس کے بنانے میں حصہ لیا ہے۔ تو کیا ایک ایسی یادگار کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ایک نہایت دردناک فعل نہ ہوگا؟ خصوصاً ایسے عہد میں جبکہ زمانہ قدیم کے ایک ایک پتھر اور اینٹ کو سینت سینت کر رکھا جاتا ہے۔​
اس نہایت مختصر ذکر (اور زبان کی اصلیت پر مفصل بحث میں نے اپنی تالیف زبان اردو کی تاریخ میں کی ہے) سے میرا مقصد یہ تھا کہ اردو کی صرف و نحو کو سنسکرت زبان کے قواعد سے اسی قدر مغائرت ہے جتنی عربی زبان کی صرف و نحو سے۔ میرا خیال ہے کہ کسی زبان کے قواعد کو لکھتے وقت اس کی خصوصیات کو کبھی نظر انداز نہ کیا جائے اور محض کسی زبان کی تقلید میں اس پر زبردستی قواعد اور اصول کے نام سے ایسا بوجھ نہ ڈال دیا جائے جس کی وہ متحمل نہ ہو سکے۔ میں نے حتی الامکان اسی اصول کو مد نظر رکھا ہے اور اس امر کی کوشش ہے کہ جدھر زبان کا رحجان ہو ادھر ہی اس کا ساتھ دیا جائے۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اس میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے۔ بہرحال مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور اس کے ساتھ ہی مجھے اس کا بھی یقین ہے کہ کتاب اسقام سے خالی نہیں۔ اور اس لئے میں ہر ایک مشورہ اور اختلاف کو نہایت شکر و احسان کے ساتھ سننے اور اپنی غلطیوں کی اصطلاح کرنے کے لئے تیار ہوں۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
قواعد اردو​
الفاظ ان انسانی آوازوں کو کہتے ہیں جو ہم اپنے خیالات ظاہر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔​
زبان الفاظ سے بنتی ہے۔​
اول بہ لحاظ صوت (آواز)​
دوم بہ لحاظ معنی ، صورت اور اصل​
سوم بہ لحاظ ترکیب باہمی جس سے جملہ بنتا ہے، اور جس کے ذریعہ ہم اپنا مافی الضمیر ادا کرتے ہیں۔​
۱۔ جب ہم کسی لفظ کو سنتے ہیں تو یا تو اس میں ایک سادہ آواز ہوتی ہے یا ایک سے زیادہ آوازیں ملی ہوئی ہوتی ہیں، جب ان آوازوں کو تحریر میں لاتے ہیں تو ان علامات کو حروف کہتے ہیں۔​
۲۔ مختلف استعمالات کی رو سے الفاظ کی کئی تقسیمیں ہو سکتی ہیں۔ جب وہ دوسرے الفاظ سے ملتے ہیں تو ان میں بعض اوقات تغیر و تبدل بھی واقع ہوتا ہے یا جب کبھی ان میں کچھ اضافہ کر دیا جائے تو وہ نئے لفط ہو جاتے ہیں۔​
۳۔ ان الفاظ کی ترکیب بعض خاص قواعد کی رو سے ہوتی ہے، اس لئے زبان کے قواعد تین مضامین سے بحث کرتے ہیں۔​
اول اصوات و حروف و اعراب (ہجا)​
دوم تقسیم تبدیل و اشتقاق (صرف)​
سوم جملے میں الفاظ کا باہمی تعلق نیز جملوں کا تعلق ایک دوسرے سے (نحو)​
فصل اول​
ہجا​
ہجا سے مطلب ہے حروف کی آواز اور ان کی حرکات و سکنات۔​
آواز کو تحریری علامات میں لانے کا نام حروف ہے۔​
حروف کے مجموعہ کو ابجد کہتے ہیں۔​
(ابجد کا لفظ ابتدائی حروف ا ب ج د سے بنا ہے)​
چونکہ اردو زبان سنسکرت فارسی اورعربی سے مل کر بنی ہے لہٰذا اس میں سب زبانوں کے حروف موجود ہیں۔​
خاص عربی حروف یہ ہیں۔​
ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ق۔​
ہندی کے خاص حروف یہ ہیں۔​
ٹ، ڈ، ڑ​
خاص فارسی کے حروف یہ ہیں۔​
پ، چ، ژ، گ۔​
لیکن پ، چ، ژ، گ، ہندی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ہندی فارسی میں مشترک ہیں۔ ہندی میں خ کی آواز نہیں ہے۔ فارسی میں ہے اسی طرح غ بھی عربی و فارسی میں مشترک ہے۔​
ہندی میں بھ، پھ، تھ، ٹھ، جھ، کھ، گھ حروف میں شامل ہیں لیکن درحقیقت یہ مفرد آوازیں نہیں بلکہ دو دو حروف ب ہ، ٹ ہ وغیرہ کے مرکب ہیں۔ لہٰذا ان کوحروف میں شامل نہیں کیا گیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات یہ دونوں مل کر ایک آواز پیدا کرتے ہیں۔ کھا اور کہا میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے پنجاب میں غالباً کرنل ہالرائڈ کی تحریک سے اس کے املا میں بھی فرق کیا جاتا ہے جب یہ مل کر ایک آواز دیتے ہیں تو دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں مثلاً یہ دو لفظ کھا اور کہا لکھے جائیں گے اور یہ امتیاز بہت ضروری ہے۔​
یہ حروف جو ہر ملک کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آوازیں آب و ہوا وغیرہ کے وجوہ سے ان لوگوں کے گلوں سے بہ آسانی نکلتی ہیں مگر دوسرے ممالک کے لوگ انہیں وجوہ سے ان کو ادا نہیں کر سکتے، یا بدقت ادا کرتے ہیں۔ انسان کا گلا آلہ موسیقی کے اصول پر بنا ہوا ہے، اور اسی طور پر اس میں تار بھی بندھے ہوئے ہیں سانسن کے ہوا میں ملنے سے زبان، تالو، ہونٹ، دانت اور خلائے دہن کی مدد سے آواز میں مختلف قسم کی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔​
اردو، فارسی، عربی، حروف پر اگر نظر ڈالی جائے تو گویا وہ دیکھنے میں مختلف آوازوں کی علامات ہیں لیکن درحقیقت ان حروف کے نام سے کوئی سادہ آواز پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ خاصے الفاظ ہیں مثلاً الف عین جیم وغیرہ وغیرہ حروف نہیں بلکہ پورے الفاظ ہیں چہ جائے کہ ان سے سادہ آوازوں کا کچھ بھی خیال پیدا ہوتا ہو۔ اس کی وجہ بلاشبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانہ کی یادگار ہیں جب کہ اس قسم کی تحریر ایجاد نہیں ہوئی تھی، بلکہ لوگ اپنے خیالات تصاویرمیں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے۔ مثلاً گائے یا عورت کا بتانا مقصود ہے تو وہ گائے یا عورت کی تصویر کھینچ دیتے تھے۔​
دوسرے دور میں یہ اصلاح ہوئی کہ شئے سے اس کا فعل ظاہر کرنے لگے مثلاً آنکھ سے نظر یا دو ٹانگوں سے رفتار مراد لینے لگے۔​
تیسرے دور میں یہ ہوا کہ شئے سے اس کی ممتاز خصائص یا ظاہری علامت سے اصل شئے مراد لی جانے لگی مثلاً لومڑی کی تصویر سے مکاری یا تخت سے سلطنت مقصود ہوتی تھی۔​
چوتھے دور میں ایک شئے کے اظہار میں یہ ترکیب کرنے لگے کہ اس شئے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک ایک تصویر بناتے تھے۔ مثلاً اگر کرا لکھنا ہو تو پہلے گھنٹے کی تصویر بنائیں گے کیونکہ کنی گھنٹے کو کہتے ہیں اور پھر سورج کی کیونکہ را سورج کو کہتے ہیں بعد ازاں یہ ہوا کہ یہی تصویر مختلف اصوات کی قائم مقام ہو گئیں۔ اور انہیں تصویروں کی یادگار یہ حروف ہیں جو اب بھی کسی
 

قیصرانی

لائبریرین
قدر اُن سے مشابہ ہین مثلاً الف۔ الف کے معنی بیل کے سرکے ہین چونکہ ا کی آواز اس لفظ کے آغاز مین تھی۔ تو اس آواز کے ظاہر کرنے کے لیے گائے کا سر بنادیتے تھے۔ بعد ازان خود یہ لفظ بجائے ا کی آواز کے تحریر مین ایک حرف قرار پایا۔ اور یہی وجہ ہے کہ فارسی، عربی، عبرانی زبانوں کے حروف درحقیقت الفاط ہین۔ جس کی ابتدا کے حروف اسکی مناسب آواز کی بجائے کام دیتے ہیں۔​
اسی طرح ب درحقیقت بیت سے ہے جس کی ابتدائی شکل ایک مکان مستطیل کی سی تھی اور سکے نیچے نقطہ ایک شخص تھا جو مکان کے دروازہ کے سامنے بیٹھا تھا اب رفتہ رفتہ اسکی شکل ایسی ہوگئی اور وہ آدمی نقطہ رہگیا۔​
ج جمل لینے اونٹ ہے۔ اگر کوئی شخص اونٹ پر سوار ہو اور سکی نکیل زور سے کھینچے تو اسکے سر اور گردن کی شکل بعینہ ج کی ہوجائے گی۔​
پ عبرانی مین منھ کے معنی ہین۔​
د (عبرانی دالت) دروازہ۔​
ہ۔ دریچہ۔​
ع (عین کے معنے آنکھ کے ہین چناچہ (ع) کا سر بالکل آنکھ کے مشابہ ہے۔​
ن (نون) مچھلی۔ مشابہت ظاہر ہے۔​
ک (کف ہتھیلی) اگر ہتھیلی پھیلائی جائے تو انگلیان انگوٹھے کے ساتھ ملکر بالکل (ک) کی صورت بن جاتی ہین۔​
م (میم پانی کی لہر) صورت سے ظاہر ہے۔​
س عرانی مین دانت کو کہتے ہیں (س) کا دندانہ بالکل دانت کے مشابہ ہی۔​
و (واؤ) کے معنی ہک یعنی کانٹے کے ہین جسکی صورت و سے ملتی ہے۔​
غرض اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حروف دراصل الفاظ ہین جو دو یا دو سے زائد آوازان سے مرکب ہین۔ اور ہر ایک بہ لحاظ اپنی اول سادہ آواز کے ایک علامت مقرر کرلیا گئا ہے مثلاً الف مین تین آوازین ا،ل،ف کی ہین مگر آواز اول ہی اس لیے اسے آ کے بجائے مقرر کرلیا اسی طرح دوسرے حروف کے متعلق قیاس کرلیا جائے۔ ابتداء مین اس سادہ آواز کے لیے اس شئے کی تصویر کھینچ دیجاتی تھی۔ مگر اب ایک چھوٹی سی علامت جو کسی قدر اصل اشیاء کے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حروف تہجی بولنے مین درحقیقت الفاط ہین۔ اردو حروف تہجی کل چونتیس ہیں اور انمین ہر قسم کی آواز کے ادا کرنے کی گنجائش ہے اور اس خیال سے اردو ابجد کو دنیا کی تمام زبانوں پر ایک طرح تفوق حاصل ہے۔ مگر دنیا کی کوئی ابجد کامل نہین ہے ایک نہ ایک نقص ضرور رہ جاتا ہے۔ یا تو کل سادہ آوازون کے ادا کرنے کے لیے کافی حروف نہیں ہوتے یا ایک ہی آواز کے لیے کئی کئی حروف ہوتے ہین۔ کہتے ہین کہ اردو زبان بھی اس سے خالی نہین چناچہ یہ آخری نقص اردو زبان مین بھی پایا جاتا ہے لیکن بات یہ ہے کہ اردو کو علاوہ فارسی سنسکرت کے عربی سے بھی بڑا تعلق ہے اس لیے کثرت سے اسکے الفاظ زبان مین موجود ہین اور اس وجہ سے لامحالہ اسکے تمام حروف بھی اردو ابجد مین آگئے۔ ورنہ عربی الفاظ صحت تحریرہن قائم نہ رہتی۔ چناچہ ز ذ ض ظ چار الگ حروف ہین جن کی آواز قریب قریب یکسان معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح ث ص اور ت ط اور ح ہ۔ گو عرب کا باشندہ یا وہ شخص جو صحب زبان کا خیال رکھتا ہے ان حروف کے تلفظ مین فرق باسکی۔​
مگر ہر ایک کے لیے اسکا امتیاز دشوار ہے، تاہم غورف سے دیکھا جائے تو علم اللسان کی رو سے اردو ابجد ہر طرح کامل ہے اور یہ کہا جانا کہ بعض حروف ایک سی آواز پیدا کرتے ہین درحقیقت ایسا نہین ہے۔ انمین نازک فرق ہے۔ اور یہ فرق ہی اسکی خوبی اور کمال کی دلیل ہے۔ کیونکہ ذرا ذرا سے فرق کے لیے بھی الگ الگ حروف موجود ہین۔​
اعراب یا حرکات
سادہ آوازون کو ہم بلاتکلف ہونٹ اور زبان کی امداد سے ملا کر مرکب کرلیتے ہین۔ اور اس طرح فراٹے سے بتاین کرتے چلے جاتے ہین جیسے کسی نے کل کوک دی۔ زبان اور لب کی ذرا سی جنبش سے آواز کی مختلف صورتین پیدا ہوجاتی ہین۔ آواز کا پھیلنا، تند ہونا، بڑہنا، گھٹنا، گول ہوجانا، سب اسی پر منحصر ہے۔ اگرچہ بہت کوشش کی گئی لیکن اب تک کامیابی نہین ہوئی۔ بعض زبانوں مثلاً سنسکرت، انگریزی وغیرہ مین سادہ آوازون کے مرکب کرنے کے لیے جو جنبش لب و زبان کو ہوتی ہے اسکے لیے بعض حروف مناسب قرار دیے ہین اور جہاں دو یا دو سے زیادہ حروف کا ملانا منظور ہوتا ہے وہان انمین سے بہ لحاظ آواز کے ایک نہ ایک حرف ضرور آتا ہے اس لیے اس قسم کی ہر زبان مین حروف کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ ایک وہ جو دوسرے حروف کو ملا کر آواز قائم کرنے کے لیے آتی ہین۔ جنھیں عربی مین حروف علت کہتے ہین اور دوسرے وہ جو بغیر ان حروف کے آپس مین مل کر آواز پیدا نہیں کرسکتے وہ حروف صحیح کہلاتے ہین۔​
اردو میں مثل عربی کے حروف علت دو قسم کے ہیں ایک محض علامات(حرکات)دوسرے اصل حروف ا د ی جنکی تفصیل ذیل مین لکھی جاتی ہے۔​
زبر۔ (جسے عربی مین فتح کہتے ہین۔ جس کے معنی کھلنے کے ہین۔ یعنی کل آواز کھل کر نکلتی ہے) زبر کے معنی اوپر کے ہین۔ چونکہ یہ علامت حروف کے اوپر آتی ہے اس لیے زبر کہتے ہین اور درحقیقت الف کی آواز پیدا کرتا ہے۔ اس آواز کو لنبا کرنے سے الف کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ جیسے مَر اور مار۔​
زیر۔ (جسے عربی میں کسرہ کہتے ہین جس کے معنی توڑ ڈالنے کے ہین۔ کیونکہ آواز مین ایک قسم کی شکن واقع ہوتی ہے)۔ زیر کے معنی نیچے کے ہین زیر اس لیے کہتے ہین کہ اسکی آواز خفیف ی کی سی ہوتی ہے۔ لیکن ی کے ساتھ آنے مین دو قسم کی آواز پن پیدا ہوتی ہین ایک زیادہ باریک اور طویل دوسری کسی قدر واضح اور کھلی ہوئی ہوتی ہے جیسے شیر (جانور) شیر (دودہ) یہان ی کی دو حالتین ہین پہلی حالت مین یائے خفی (محہجول) ہے اور دوسری حالت مین یا ے جلی (معروف)۔ محبول کے نیچے معمولی لکھا جائے اور معروف کے نیچے کھڑا زیر جیسے پیر، تیر۔​
واؤ کی بھی حالتین ہین ایک خفی (مہجول) جیسے موم مین دوسرے جلی (معروف) جیسے روم مین۔​
الف وادی کبھی حروف صحیح بھی ہوتے ہین۔ الف جب شروع مین آتا ہے تو ہمیشہ حروف صحیح ہوگا۔ واؤ جب لفظ کے شروع مین یا میسر کے درمیان۔ یون زبر الف کے ساتھ زیر ی کے ساتھ واؤ پیش کے ساتھ آتی ہے، اور بہ لحاظ آواز کے ان کا جوڑ بھی ہے لیکن بعض اوقات ایسا نہین ہوتا بلکہ مختلف حرکات کا اجتماع ہوجاتا ہے مثلاً زبر اور واؤ کا جیسے قوم۔ اس وت یہ دونون مختلف حرکات ایک ہی آواز دیتی ہین یہی حالت ی کی بھی جیسے خیر۔ اسے واؤ یا ئ ما قبل فتح کہتے ہین۔ واؤ مہجول پر معمولی پیش اور واؤ معروف پر الٹا پیش لکھتے ہین جیسے بوند، شور، نور، چور،۔​
( ّ)جب کوئی حروف مکرر آواز دیتا ہے تو بجاے دو بارا لکھنے کے صرف ایک ہی بار لکھتے ہین۔ اور اسپر یہ علامت ( ّ) لکھدیتے ہین اسکا نام تشدید ہے۔ مثلاً مدّت بجائے مددت لکھنے کے د پر تشدید کی علامت لکھ دی اور اس سے مقصد حاصل ہوگیا۔ جس حروف پر تشدید ہوتی ہے اسپر علاوہ تشدید کے زبر زیر پیش مین سے کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ تاکہ پڑہنے مین زبان سے وہی آواز نکالی جائے۔ لیکن جب تشدید ی ی واؤ پر آتی ہے تو لفظ کے پہلے جز کی حرکت کو گھمانا پڑتا ہے ورنہ تلفظ صحیح نہو ہوگا مثلاً نیّر اگر معمولی طور سے اسکے ہجے کیے جائین گے تو یہ ہونگے ( نے یر) مگر یہ صحیح نہو ہوگا اس لیے ے کے زبر کو گھما کر پڑھنا ہوگا۔ اسی طرھ نواب۔ معمولی طور سے ہجے کرین تو (نوواب) ہوگا۔ لیکن بوجہ تشدید و کو گھما کر پڑہنا چاہیے۔​
جزم یا سکون (۸) جب کسی حروف پر کوئی حرکت زیر زبر پیش مین سے نہو جیسے دکم من م پر جزم ہے تو ایسے حرف کو ساکن کہتے ہین۔ ساکن کے معنی ٹھہرنے والے کے ہین یعنی اس حرف پر آواز ٹھہر جاتی ہے۔​
مد (خالی مد کا نشان نہیں ملا مجھے) الف کو جب کھینچ کر پڑہتے ہین تو اس وقت اسپر یہ علامت لگا دیتے ہین جیسے آم۔ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہین مد کے معنی لمبا کرنے یا کھینچنے کے ہین۔​
ہمزہ (ء) اسے غلطی حرف مین شامل کرلیا گیا ہے یہ درحقیقت ی کے ساتھ وہی کام دیتی ہے جو مد الف کے ساتھ (یعنی جہان ی کی آواز کھینچ کر نکالنی پڑے اور قریب دو ی کے ہو وہان اسے لکھ دیتے ہین) یہ ہمیشہ ی یا و کے ساتھ آتا ہے جیسے کئی۔ تئین۔ کھاؤ۔ جدائی۔ الف کا مد شروع اور درمیان دونون مین آسکتا ہے مگ ء ی یا و پر صرف درمیان یا آخر مین آتا ہے۔​
تنوین ( ً ) کسی اسم کے آخر دو زبر یا دو زیر یا دو پیش آنے کو تنوین کہتے ہین۔ تنوین کا مادہ نون ہے چونکہ اس علامت کے دینے سے اس کے آخر حرف کی آواز نون پیدا ہوتی ہے اس لیے اسے تنوین کہتے ہین جیسے نسلاً بعد نسل اتفاقاً دفعتہً یہ صرف عربی الفاظ مین آتی ہے۔​
نوٹ
ان علامات کو اعراب اس لیے کہتے ہین کہ اہل عرب کی ایجاد سمجھے جاتے ہین اور کسی دوسری زبان مین نہین پائے جاتے اعراب کے معنی ہین کہ کسی حرف پر انمین سے کسی علامت کا لگانا انہین حرکات بھی کہتے ہین کیونکہ ان علامات سے آواز مین حرکت پیدا ہوجاتی ہے لیکن چونکہ جزم سے سکوم حاصل ہوتا ہے اس لیے پورا نام حرکات و سکنات اعراتب کا لفظ مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے۔​
جس حرف پر کوئی حرکت ہوتی ہے اس متحرک کہتے ہین۔​
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین

(حرف کے متعلق چند مفید باتین)
۱۔ حروف شمسی و قمری​
عربی مین امتیاز و خصوصیت کے لیے اسماء پر ا ل لگادیتے ہین بعض حروف ایسے ہی کہ جب انکے شروع مین ا ل آتا ہے تو ل تلفظ مین ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر بعض ایسے ہین کہ اگر انکے پہلے ا ل آتا ہے تو ل تلفظ میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اور الفظ کا اول صرف مشدد پڑہا جاتا ہے ۔ جن حروف کے شروع مین ا ل نہیں پڑہا جاتا انہیں حروف شمسی کہتے ہین یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ جب شمس کے پہلے ا ل لگادیا جاتا ہے تو ل کی آواز ظاہر نہیں کی جاتی (الشمس) اور جن حروف مین ل کی آواز تلفظ مین ظاہر کی جاتی ہے انھین حروف قمری کہتے ہین کیونکہ قمر پر جب ا ل لگائین گے تو ل کی آواز ظاہر کی جائے گی (القمر) اسکا استعمال صرف عربی الفاظ کے ساتھ عربی قواعد کی رو سے ہوتا ہے۔ چونکہ اردو مین ایسے الفاظ اکثر آتے ہیں لہذا اسکی تصریح یہان کردی جاتی ہے۔​

حروف قمری​
ا۔ جیسے الامان۔ نبّاس الاول​
ب۔ فصیح البیان​
ج۔ عبدالجلیل​
ح۔ عبدالحئی​
خ۔ مراۃ الخیال​
ع۔ نورالعین​
غ۔ اسد اللہ الغالب​
ف۔ سریع القہسم​
ق۔ صادق القول​
ک۔ بالکل​
ل۔ عمی اللون​
م۔ بیت المال​
و۔ کتاب الوعظ​
ہ۔ بوالہوس​
ی۔ الیوم​
حروف شمسی​
د۔ مظفرالدین۔ یوم الدین​
ذ۔ صاحب الذکر​
ر۔ ہارون الرشید​
ز۔ خلیفتہ الزمان​
س۔ ظل الّسلطان​
ش۔ الشمس​
ص۔ اَلصّبر​
ض۔ الضالین​
ط۔ جَبَلُ الطّا۔ ق​
ظ۔ الظّٰرَ​
ن۔ ذوالنورین۔ النوم​
۲۔ فارسی مین چند الفاظ ایسے ہین کہ انمین حرف واؤ ساکت ہوتا ہے یعنی تلفظ مین ظاہر نہین کیا جاتا اسے واؤ معدولہ کہتے ہین مگر یہ واؤ ہمیشہ خ کے بعد آتی ہے یہ الفاظ بہت کم ہین اور وہ یہ ہین۔ خود۔خویش۔خویشتن۔خوے۔(خے) خوش۔خور۔خوردن۔(اور اسکے تمام اشتقاق) خواندن مع اشتقاق لیکن خواب۔خواہش (اور خواستن مع اشتقاق) خواہر۔ خواجہ۔ خوان۔ خوارزم۔ (نام ملک) مین واؤ کی خفیف سی آواز ظاہر کی جاتی ہے۔ انگریزی کے بعض الفاظ ایسے ہین جن مین نہ تو پورا واؤ کا تلفظ ہوتا ہے نہ پیش کا، انکی حالت بعینہ الفاظ مذکورہ بالا کی سی ہوتی ہے لہذا انکے صحیح تلفظ کے لیے اسی قسم کی واؤ استعمال کرنا چاہیے۔ اور اسکے نیچے اک چھوٹا سا خط کھینچ دینا چاہیے، تاکہ امتیاز نہ ہوسکے۔ جیسے ہوِال، بوِرال، لوِارڈ۔​

۳۔ اردو مین میں بھی بعض الفاظ ایسے ہین جہاں واؤ بجائے پیش کے استعمال کی جاتی تھی لیکن اب وہ متروک ہوتی جاتی ہے مثلاً اوس (بجائے اُس)، پہونچنا (بجائے پہنچنا)، پورانا (بجائے پرانا) اور چورانا (بجائے چرانا) کے لکھتے تھے اور اب بھی پرانے لوگ لکھتے ہین۔
۴۔ ن کی دو حالتین ہوتی ہین ایک تو جب اسکی آواز پوری ادا ہو جیسے کمان دوسرے جب پورے طور پر ادا نہو بلکہ کسی قدر ناک مین گنگنی سے آواز نکلے ایسی حالت مین اسے نون غنہ کہتے ہین جیسے سمان کنوان نون غنہ یا تو حروف علت کے بعد آتا ہے جیسے کنوان۔ سانپ۔ اینٹ۔ برسون۔ یا حروف ساکن کے بعد جیسے منھ۔ ہنسنا۔ نون غنہ جب ب یا پ کے قبل آتا ے تو اسکی آواز میم کی ہوجاتی ہے۔ جیسے انبوہ۔ لنبا۔ (لمبا) چنپا۔ وغیرہ لیکن جب اسکے قبل حروف علت آجاتا ہے تو آواز نون ہی کی رہتی ہے جیسے تانبا وغیرہ۔
۵۔ نون غنہ کا استعمال زبان مین عام طور پر ہے اور یہ حروف کے ساتھ آتا ہے جب بچے کو کسی ایسی لفظ کے ہجے کرانے پڑتے ہین جس مین نون غنہ ہوتا ہے حضرت استاد صاحب بڑی دہاندلی سے کام لیتے ہین اور ہجے ایسے خبط کردیتے ہین کہ بچہ خاک نہیں سمجھتا اور وہ کیا سمجھے حضرت خود ہی نہین سمجھتے۔ یہ بڑی کمی ہے اور س کمی کے پورا کرنے کی صرف ایک یہ تدبیر ہے کہ بھہ جھہ چھہ وغیرہ حروف کی طرح اردو ابجد مین ایک مرکب صورت کا اضافہ کیا جائے اور جس طرح ہ دوسرے حروف کے ساتھ مل کر ایک خاص قسم کی آواز پیدا کرتی ہے اسی طرح نون غنہ دوسرے تمام حروف کے ساتھ مل کر ایک خاص گنگنی آواز پیدا کرتا ہے اسکے رواج دینے سے یہ دقت بالکل جاتی رہے گی۔
افسوس ہے کہ کہنے مین یہ آواز پوری طور پر ادا نہیں ہوتی۔ لیکن نون غنہ کی آواز کا خیال رکھا جائے تو ہر حرف کے ساتھ بآسانی ادا ہونے لگے گی۔ یہ صورتیں اں۔ بں۔ جں۔ وں وغیرہ ہونگی۔ اب جنگ کے ہجے یون ہونگے۔ جں گ زبر جنگ۔ یا سانپ کے ہجے سں ان زبر سان پ موقوف سانپ وغیرہ اسکے بعد نون غنہ کوئی چیز نہیں رہے گا۔
۶۔ حروف سے جب الفاظ بنائے جاتے ہین تو حروف کی تین حالتین ہوتی ہین ایک شروع مین۔ دوسرے بیچ مین۔ تیسرے آخر مین۔ بعض حروف کی تین سے بھی زیادہ صورتین ہوتی ہین۔ مثلاً میم لفظ کے شروع مین مور بیچ مین دو حالتیں جیسے محمد ﷺ، قمر، آخر مین جیسے میم مین بعض حروف شروع مین مل کر نہیں آتے یہ حروف۔ ا۔ د۔ ذ۔ ر۔ ز۔ و ہین جب کسی لفظ میں ان حروف کے بعد کوئی دوسرا حرف لکھنا ہو تو الگ لکھنا پڑ ے گا جیسے سورج۔ ایال۔ نذر۔ وغیرہ جب ان حروف میں سے چند حروف مل کر لفظ بنتا ہے تو سب الگ الگ لکھے جائین گے۔ جیسے دور۔ دورہ وغیرہ۔
الف ممدودہ کے علاوہ ایک الف مقصورہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بعض خاص عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے جیسے عقبٰی۔ دعویٰ۔ اس ی کو الف مقصورہ کہتے ہین س طرح عربی الفاظ میں بعض حروف پر کھڑا فتح لکھدیتے ہین جس سے مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے الف کے ساتھ کھینچ کر پڑھا جائے جیسے رحمٰن۔ ہذٰا۔
اردو تحریر مین (مثل عربی فارسی کے) یہ عجیب بات ہے کہ الفاظ مین حروف پورے نہین لکھے جاتے بلکہ ہر حرف کے کے لیے صرف چھوٹا سا نشان بنادیتے ہین اس طو ر پر الفاظ نہایت مختصر ہوجاتے ہین۔ بخلاف دوسری زبانون کے جن کے لکھنے مین بہت طول ہوجاتا ہے۔ اور وقت بھی زیادہ صرف ہوتا ہے یہ طرز تحری نہایت شایستہ اور مہذب ہے شارٹ ہینڈ رائٹنگ (مختصر نویسی) جس کا رواج یورپ مین اب تھوڑے زمانہ سے ہوا ہے۔ وہ ہمارے یہان صد ہا سال سے موجود ہے ایک مشاق لکھنے والا مقرر کی تقریر کو بخوبی قلمبند کرسکتا ہے۔ یہ خوبی درحقیقت نہایت قابل قدر اور دوسری زبانون کے لیے قابل رشک ہے۔


بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
فصل دوم
صرف
الفا ظ جو استعمال کیے جاتے ہین وہ ہمین کچھ نہ کچھ ضرور بتاتے ہین اور اس لحاظ سے کہ وہ جملہ مین کیا کیا بناتے ہین۔ انکی دو قسمین ہین۔
اول مستقل۔ جو اپنی ذات سے پورے معنی رکھتے ہون،
دوم غیر مستقل۔ جو اپنی ذات سے پورے معنی نہ رکھتے ہون، جبتک وہ کسی دوسرے لفظ کے ساتھ ملکر نہ آئین۔
الفاظ مستقل کے مفصلہ ذیل قسمین ہین۔
۱۔ اسم۔ جو اشیا کا نام بتاتا ہے
۲۔ صفت۔ جو اسم کی صفت یا حالت کو بتاتی ہے۔
۳۔ ضمیر۔ جو بجاے اسم کے استعمال ہوتی ہے۔
۴۔ فعل۔ جس سے کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے۔
۵۔ متعلق فعل۔ جو فعل کے معنی مین کمی یا بیشی پیدا کرتا ہے یا اس کیفیت یا حالت بتاتا ہے۔
الفاظ غیر مستقل کو حروف کہتے ہین جنکی چار قسمین ہین۔
۱۔ ربط
۲۔ عطف
۳۔ تخصیص
۴۔ فجائیہ

۱۔ اسم
اسم وہ لفظ ہے جو کسی کا نام ہو۔
اس کی دو قسمین ہین
۱۔ خاص
۲۔ عام
خاص۔ کسی خاص شخص یا شئے کا نام ہے مثلاً علاؤالدین، کلکتہ، گنگا۔
عام۔ وہ اسم ہے جو ایک قسم کی تمام افراد کےل یے فرداً فرداً استعمال ہوسکے جیسے آدمی، گھوڑا، درخت۔

اسم خاص
۱۔ خطاب۔ نام جو بادشاہ سرکار و دربار سے اعزازی طور پر ملتا ہے جیسے اقبال الدولہ، عماد الملک۔
۲۔ لقب۔ ایک وصفی نام جو کسی خصوصیت یا وصف کی وجہ سے پڑگیا ہو جیسے مرزا نوشہ لقب ہے اسد اللہ خان غالب کا، یا کلیم اللہ لقب ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔
۳۔ عرف۔ وہ نام جو محبت یا حقارت کی وجہ سے پڑ جائے یا اصلی کا اختصار لوگون کی زبان زد ہوجائے جیسے چنو، کلن، فخرو، اچھے میان۔
۴۔ تخلص ایک مختصر نام جو شاعر نظم مین بجائے اصلی نام کے داخل کردیتے ہین۔ مثلا غالب تخلص ہے مرزا اسداللہ خان کا۔ حالی تخلص ہے مولانا الطاف حسین کا۔ اسکے علاوہ ممالک دریاؤن اور پہاڑون کے دیگر جغرافی اسماء اور علوم و فنون و امراض وغیرہ کے نام سب اسم خاص ہونگے۔
۵۔ بعض اوقات اسم خاص صفت اسم کیطرح استعمال ہوتے ہین جیسے ستم۔ حاتم۔ وغیرہ مثلاً یون کہین کہ وہ شخص اپنے وقت کا حاتم ہے یا وہ رستم ہند ہے۔ یا فلان شخص قیس یا فرہاد ہے یا وہ ہومر یا کالیداس ہے ایسے موقعون پر رستم سے بڑا پہلوان۔ حاتم سے بڑا سخی۔ قیس سے بڑے عاشق۔ ہومروکالیداس سے بڑے شاعر مراد ہین۔

اسم عام
دومین اسم عام کئی قسم کے ہوتے ہین ان مین اسمائے کیفیت۔ اسم ظرف۔ اسم آلہ۔ اسم جمع خاص قسمین ہین۔ اسماے کیفیت جنسے حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے جیسے سختی۔ روشنی صحت۔
اسمائے کیفیت تین چیزین ظاہر کرتے ہین۔
اول حالت جیسے صحت، نیند، رفتار، سچ، جوٹھ۔
دوم صفت مثلاً سختی، نرمی، بہتاب۔
سوم دلی کیفیت مثلاً درد، خوشی، مطالعہ۔

اسماے کیفیت کیونکر بنتے ہین۔
۱۔ بعض فعل سے بنتے ہین مثلاً چال چلن، گھبراہٹ، لین دین۔
۲۔ بعض صفت سے بنتے ہین مثلاً نرمی، خوشی، کھٹائی، دیوانہ پن۔
۳۔ بعض اسم سے جیسے دوست سے دوستی، لڑکے سے لڑکپن۔
۴۔ اکثر عربی ہندی فارسی کے الفاظ اسماے کیفیت کا کام دیتے ہین جیسے صحت، حسن، دہن۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
(5) ایک لفظ کی تکرار یا دو لفظون کے ملنے سے جیسے بک بک، چھان بین، جان پہچان؛ خوشبو۔
اسم ظرف
وہ اسم ہے جیسمین معنی جگہ یا وقت کے پائے جائین مثلاً چراگاہ، گھر، میدان بعض علامات ایسی ہین کہ انکے لگانے سےسے اسم ظرف بنجاتا ہے۔ بعض انمین سے ہندی ہین اور بعض فارسی، لیکن یہ نہین ہے کہ جس اسم کے ساتھ چاہا انھین سے کوئی علامت لگا دی، اسم ظرف بنا لئا۔ انمین اکثر سماعی ہیں، یعنی جو زبان ہین مروج ہین۔ البتہ کاہ اور خانہ اور شہرون اور گاؤن کے نام جو آباد، نگر، پور کے ساتھ آتے ہین اس سے مستشنٰی ہین۔
ہندی علامات
سال (یعنی جگہ) جیسے گھڑ سال (گھوڑون کے رہنے کی جگہ) مکسال (جہان ٹکے یعنی سکہ بنایا جاتا ہے۔شالہ یا سالہ۔ جیسے دہرم سالہ۔ پاٹ شالہ، گئو سالہ۔آل-یال- جیسے سسرال۔ ننہیال۔ ددہیال۔آنہ۔ سمدہیانہ۔ سرہانہکا۔ میکا۔(ماکا)بعض خاص الفاظ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر اسم ظرف کے معنی دیتے ہین مثلاً ٹولہ سے قاضی ٹولہ
گھاٹ یا گھٹ۔ مرگھٹ۔پن گھٹ۔ دھوبی گھاٹ۔واڑہ۔ باڑہ۔ جیسے سید واڑہ۔ قصائی باڑہ۔واری۔ جیسے پھلواری۔پارہ۔ جیسے اوپر پارہ۔دوار۔ دوراہ۔ جیسے ہر دوار۔ گردوارہ۔ ٹھاکر دوارہ۔گھر۔ ڈاک گھر۔ ریل گھر۔ تارگھر۔ ناچ گھر۔نگر۔ سری نگر۔ احمد نگر۔پور۔پورہ۔ غازی پورہ۔ شولاپور۔ عثمان پورہ۔گڈھ۔ رلی گڈھ۔ آسمان گڈھ۔منڈی۔ کٹھل منڈی۔فارسی علاماتخانہ۔ کتن خانہ۔ ہندی اور انگریزی الفاظ کے ساتھ جیسے چنڈوخانہ۔ چڑیا خان۔ جیل خانہ۔گاہ۔ چراگاہ۔ چراگاہ۔ شکارگاہ۔ بارگاہ۔ درگاہ۔دان۔ چاردان ہندی الفاظ کے ساتھ پاندان۔ خاصدان۔ پیک دان۔دانی۔ (ہندیون کا تصرف ہے) سرمہ دانی۔ تلے دانی (طلا دان)۔ذرا۔ سبزہ زار۔ لالہ زار۔ مرغزار۔سار۔ کوہسار۔ستان۔ گلستان۔ پرستان۔
شن۔ گلشن۔آباد۔ حیدر آباد، اورنگ آباد۔
بعض اوقات فعل سے بھی اسم ظرف بنتا ہے مثلا بیٹھنا سے بیٹھک' پینا سے پیاؤ۔ کبھی فعل اور اسم کے ملنے سے اسم ظرف بنتا ہے مثلاً بدررو، آب چک۔ رہنا اور جھرنا دونون مصدع ہین مگر یہ اسم ظرف کے معنون مین بھی مستعمل ہین رسنا کے معنی پھرنے کے ہین۔ ظرفی معنی پھرنے کی جگہ یعنیے چراگاہ کے ہین۔جھرنا مے معنی پانی رسنے کے ہین، ظرفی معنی وہ مقام جہان سے پانی رہتا ہے۔ عربی مین اسم ظرف مفعل۔ مفعلہ کے وزن ہر آتے ہین۔ انمین اکثر اردو مین بھی رائج ہین۔ مثلاً کتب۔ مدرسہ۔ مقبرہ۔مسجد۔ مجلس۔ مرقد، مقام ۔ مزار۔محشر۔ مقتل۔ منبع۔ مخرج، ماخذ۔
اسم آلہ
وہ اسم جو آلہ یا آواز کے معنون مین آئے مثلاً چاقو۔ تلوار۔ ہتوڑا۔
1- بعض اسم آلہ فعل سے بنائے گئے ہین مثلاًبیلنا سے بیلن، جھولنا سے جھولا۔دھونکنا سے دھونکنی؛ جھاڑنا سے جھاڑو۔چھاننا سے چھلنی یا چھاننی' پھانسنا سے پھانسی۔لٹکنا سے لٹکن۔ کترنا سے کترنی۔ پھونکنا سے پھکنی۔
2- بعض اس، سے بھی بنتے ہین جیےنہرنا سے نہرنی۔ (نہ= ناخن)
ہتوڑا (ہاتھ سے)-دتون (دانت سے)۔

3۔دو اسم مل کر جیسے دسپناہ (دست پناہ) منال (منھ - نال)۔
4- فارسی اسماء کے آگے بعض علامات یا الفاظ بڑہانے سے بنائے گئے ہین۔ہ کے بڑہانے سے جیسے دست سے دستہ، چشم سے چشمہ۔آنہ سے انگشت سے انگشتانہ۔ دست سے دستانہ۔گیر۔ جیسے کف گیر، گلگیر۔کش۔ جیسے بادکش، دودکش۔تراش جیسے قلم تراش

5۔ عربی کے اسمائے آلہ جو اکثر مفعل مفعلہ یا مفعال کے وزن ہر ہوتے ہین اردو مین بھی مستعمل ہین مثلاً مقراض۔ مشعل۔ منقا۔ مسواک۔میزان۔ مضراب۔مسطر سبز۔ مینار، مصقلہ، عربی اسم ظرف اور اسم آلہ مین صرف یہ فرق ہے کہ اسم ظرف مین اول حرف میم مفتوح ہوتا ہے۔ اور اسم آلہ مین مکسور۔
اسم جمعاسم جمع اس اسم کو کہتے ہین جو صورت مین جمع واحد ہو۔ لیکن درحقیقت کےئ اسم کا مجموعہ ہو جیسے فوج۔ انجمن۔ قطار۔ جھنڈ۔
لوازم اسم
لوازم اسم س مطلب ان خصوصیتون سے ہے کو ہر اسم مین پانی جاےی ہین۔
ہر اسم کے لیے جنس تعداد اور حالت کا ہونا لازم ہے۔

(1) جنس
جنس سے مراد اسماء کی تذکییر و تانیث سے ہے۔اس کی دو قسمین ہین۔ ایک حقیقی دوسری غیر حقیقی (یا مصنوعی)۔حقیقی جنس صرف جاندارون میں پائی جاےی ہے، جسکی تین صورتین ہین۔ ایک نر (مذکر) دوسری مادہ (مونث) تیسیر وہ جس پر نر و مادہ مین سے کسی کا اطلاق نہین ہو سکتا لیکن انسان کے تخیل مین بڑی وسعت ہے اس نے اسی ہر اکتفا نہ کی بلکہ بیجان اشیاء اور خیالات حتٰی کہ ہر قسم کے اسماء مین تذکیر و تانیژ کا طرہ لگا دیا۔ لیکن ہر زبان کی حالت ایک سی نہین ہے، کسی مین جنس تین ہین کسی مین دو اور بعض ایسی بھی خوش قسمت زبانین ہین کہ جن مین سرے سے یہ جھگڑا ہی نہین۔ جیسے فارسی زبان۔قدیم اندویورپین زبانون مین جنس کی قسمین تین ہین۔ سامی زبانون مین صرف دو ہین۔ لیکن حقیقی جنس تمام زبانون ہے اور مصنوعی بعض ہین۔ اور جن زبانون مین مصنوعی جنس نہین ہوتی وہان حقیقی جنس کے امتیاز تذکیر و تانیث کے لیے اکثرو ومختلف لفظ ہوتے ہین۔ اور جن زبانون مین جنس کی دو قسمین ہوتی ہین وہان لفظ کی صورت مین تغیر و تبدیل پیدا کر دینے سے تذکیر و تانیث کا امتیاز پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اکثر یہ امتیاز کے لفظ آخری جز یا حرف علت ک بدلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اردو اور نیز اسکے ساتھ کی دوسری زبانون مین جنس کی دونون قسمین پائی جاتی ہین، اگرچہ ان مین باہم کسی قدر اختلاف ہے۔ سنسکرت مین جنس کی تینون صورتین ہین۔ یعنی مذکر اور مونث اور تیسری​
بشکریہ مقدس​
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ صورت جو نہ مذکر ہے نہ مؤنث۔ اسی طرح پراکرت مین بھی تینون صورتین پائی جاتی ہین۔ لیکن جدید زبانون میں جو سنسکرت یا زیادہ تر پراکرت سے پیدا ہوئی ہین، صرف گجراتی اور مرہٹی ایسی زبانین ہین جنمین جنس کی تین صورتین ہین۔ سندھی ۔ پنجابی ۔ ہندی (یا اردو) مین صرف دو ہین ، یعنی مذکر اور مؤنث۔ بنگالی اور اُریہ کی عام بول چال مین جنس کا کوئی لحاظ نہین ہے، سوائے اُن الفاظ کے جو ٹھیٹ سنسکرت کے داخل کر لئیے گئے ہین، اور جن کی جنس وہی باقی ہے جو سنسکرت مین تھی۔ لیکن ان تین زبانون یعنے سندھی ۔ پنجابی ۔ ہندی مین سندھی ایسی زبان ہے جس کے تمام اسما کا آخری حرف حرف علت ہوتا ہے اور اس لیے جنس کی تمیز آسان ہے لیکن باقی دو زبانون مین یہ امتیاز آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان سب زبانون مین بڑی ، بھاری بھرکم ، قوی اور عظیم الشان اشیا مذکر ہین اور چھوٹی، کمزور اور ہلکی پہلکی چیزیں مؤنث۔ یہانتک کہ جب اصل لفظ مذکر ہے اور اس کی چھوٹی کمزور یا ہلکی صورت بیان کرنی مقصود ہوتی ہے تو اسے مؤنث بنا لیا جاتا ہے اور اسی طرح جب اصل لفظ مؤنث ہے اور اُسے بڑی یا بھاری بھرکم صورت مین لانا مقصود ہوتا ہے تو اسے مذکر بنا لیتے ہین مثلا سنسکرت مین اصل لفظ "رشم" تھا اس سے ہندی رسّا بنا۔ یہ دونون مذکر ہین اسکی چھوٹی اور کمزور صورت رسّی ہے۔ سنسکرت "گوڈ"تھا ہندی مین گول یا گولا بنا۔ یہ دونوں مذکر ہین اسکی چھوٹی اور کمزور صورت گولی بنائی گئی جو مونث ہے۔ اسی طرح پگ سے پگڑی بنی جو مؤنث ہے۔ بڑی بھاری بھرکم پگڑی کے لئیے پگّڑ مذکر بنا لیا گیا۔
-----------------------------------------------------
1:
سنسکرت ہندوستان کی قدیم علمی زبان تھی اور پراکرت عوام کی بول چال۔
------------------------------------------------------
یہ آخری ی (معروف) عام طور پر تانیث کی علامت ہے اور آخری ا علامتِ تذکیر یہانتک کہ بنگالی اور اڑیا مین جہان

تذکیر و تانیث کا چندان لحاظ نہین ہے تصغیر و تکبیر کا امتیاز انھین علامات سے کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک عام قاعدہ ہے

لیکن ایسے الفاظ بہت کم ہین جنکے آخر مین ی معروف یا ا ہو۔ ایسی صورت مین صرف اہلِ زبان کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔

اردو زبان مین تذکیر و تانیث کا معاملہ بہت ٹیرھا ہے اور ایسے قواعد کا وضع کرنا جو سب صورتون پر حاوی ہون بہت

مشکل ہے۔ اسمین شک نہین کہ بیجان اشیاء کی جو تذکیر و تانیث قرار دیگئی ہے اسمین ضرور کسی خیال یا اصول کی پابندی

کی گئی ہے لیکن ہر لفظ کی اصل کا پتہ لگانا اور جن اسباب نے اسکی تذکیر و تانیث قرار دینے مین اثر ڈالا ہے اسپر

غور کرنا آسان کام نہین ہے۔ اسکے لیے بڑی محنت اور جانکاہی درکار ہے اور سب سے بڑھ کر عالی دماغی، اور حکیمانہ

نظر کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت مین ہم صرف اسی قدر کر سکتے ہین کہ تذکیر و تانیث کے امتیاز کے مختلف قواعد

بالتفصیل لکھدین تا کہ ان کی شناخت مین کسی قدر سہولت ہو۔ زیادہ تر دقت اس وجہ سے پیدا ہو گئی ہے کہ ہندی کے

الفاظ سنسکرت اور پراکرت سے آئے ہین لیکن اُنمین بہت کچھ تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ خصوصاً لفظ کا آخری حرف بالکل گر

گیا ہے یا بدل گیا ہے حالانکہ تذکیر و تانیث کا دارومدار اسی پر ہے۔

جان دارون کی تذکیر و تانِیث

اردو اور دیگر ہندی زبانون مین جاندار اور بے جان سب ہی مین تذکیر و تانیث کا لحاظ ہوتا ہے۔ البتہ جان دارون مین یہ
آسانی ہے کہ ان مین تذکیر و تانیث کا امتیاز آسان ہے۔ بے جان اشیاء میں چونکہ کوئی علامت تذکیر و تانیث کی نہین ہوتی
اس لیے دشواری ہوتی ہے۔ نظر بران ہم نے ان دونون کو الگ کر دیا ہے اور اُنکے قواعد بھی الگ الگ بیان ہون
گے۔
1
۔ جن الفاظ کے آخر مین ا یا ہ ہو گی وہ مذکر ہونگے حتیٰ کہ اکثر عربی فارسی الفاظ پر یہی قیاس کر لیا گیا
ہے جیسے لڑکا ۔ گھوڑا۔ بندہ ۔ سقہ ۔ زبرا وغیرہ۔ عربی کے الفاظ جنکے آخر مین ہ علامتِ تانیث یا ی الف
مقصورہ علامتِ اسمِ تفضیل ہو مستثنیٰ ہین کیونکہ وہ ہمیشہ مؤنث ہوتے ہین جیسے والدہ ۔ ملکہ ۔ کبرےٰ ۔
صغرےٰ۔نیز ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر مین یا علامتِ تصغیر یا تانیث ہوتی ہے مستثنیٰ ہین۔ جیسے چڑیا ۔ بڑھیا ۔ بندریا
وغیرہ۔
2
۔ یاے معروف علامتِ مؤنث ہے۔ جیسے گھوڑی ۔ ٹوپی ۔ لڑکی وغیرہ مگر بعض الفاظ مستثنےٰ ہین۔ جیسے پانی
۔ موتی ،گھی ، جی ، ہاتھی ، دہی۔یہان یہ لکھنا دلچسپی اور فائدے سے خالی نہو گا کہ سنسکرت مین لفظ کے آخر مین ا عموماً علامتِ تانیث اور
ای یعنے یای معروف تذکیر و تانیث دونون کی علامت ہے۔ لیکن ہندی اور اسکے ساتھ کی دوسری زبانون مین ا

بشکریہ *ساجد*
 

قیصرانی

لائبریرین
عموماً علامتِ تذکیر اور ای علامتِ تانیث ہوتی ہے حالانکہ تمام ہندی الفاظ کا ماخذ اوراصل سنسکرت ہے۔ آخراسکی وجہ کیا ہے؟ تحقیق کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پراکرت مین جس سے ہندی اور اسکے ساتھ کی دوسری زبانین نکلی ہین ہر قسم کے اسم کے آخر مین اکا لگا دیتے تھے مثلاً پراکرت میں کُھٹکا تھا جو بعد مین گھوڑاو اور پھر گھوڑا ہوا۔ اَکا جس طرح مذکر کی علامت تھی اسکے جواب مین اِکا علامت مؤنث کی تھی رفتہ رفتہ اِکا بدل کر اِیا ہو گیا اور اِیا ہوتے ہوتے اِی یعنی یائ معروف رہ گیا۔ علاوہ اسکے صفات کی خاص علامت مذکر کے لیے آو اور مونث کے لیے اِی ہے۔ چونکہ طبعی طور پر یہ مناسب اور موزون معلوم ہوتا کہ جس اسم کے آخر مین اِی ہے اسکے ساتھ صفت بھی ایسی استعمال کی جائے جس کے آخر مین ی علامت ہو۔ لہذارفتہ رفتہ ای علامتِ مؤنث ہو گئی اور ا علامتِ مذکر۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر قواعد نویسون نے ایسے مذکر اسماء کو جن کے آخر مین ای یعنی یائ معروف ہے اور اُن مؤنث اسماء کو جن کے آخر مین ا ہے مستثنےٰ خیال کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس کی وجہ بیان کرنے سے قاصر رہے ہین۔مگر وہ الفاظ جو اوپر مستثنےٰ بتائے گئے ہین در حقیقت سنسکرت کے بگڑے ہوئے ہین۔ سنسکرت الفاظ مین آخر مین ی نہین ہے لہذا جنس تو وہی قائم رہی جو سنسکرت مین تھی مگر صورت بدل کر کچھ ایسی ہو گئی کہ جسے دیکھ کر انکے مؤنث ہونے کا دھوکہ ہوتا ہے مثلاً گھی دراصل سنسکرت مین گھرتم تھا اور دہی دراصل ددہی اور جی دراصل جیو اور پانی دراصل پانیو اور موتی دراصل سوک تلم تھا۔ اسکے علاوہ بعض پیشہ ورون کے نام بھی مستثنےٰ ہین۔ انکے آخر مین بھی یائ معروف آتی ہے جیسے دھوبی۔ مالی۔ گھوسی۔ تیلی وغیرہ اسی طرح جن اسماء کے آخر مین یای نسبتی ہو گی وہ بھی مستثنےٰ ہین جیسے پنجابی۔ بنگالی وغیرہ۔فارسی عربی الفاظ پر اس قاعدہ کا اطلاق پوری طرح نہین ہو سکتا کیونکہ اسمین بہت سے ایسے لفظ ہین جن کے آخر مین یاے معروف ہے مگر مذکر ہین۔ جیسے قاضی۔ منشی وغیرہ۔
3
۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ مذکر کے آخری ا یا ہ کو یائ معروف سے بدل دینے سے مونث بن جاتا ہے۔ یا جہان پیشہ ورون کے نام کے آخر مین ی معروف ہوتی ہے
---------------------------------------
1
۔ جنکی جنس سنسکرت مین مخنث 'نہ مذکر نہ مؤنث' ہوتی ہے وہ ہندی مین عموماً مذکر ہو جاتی ہے۔
---------------------------------------
اگر اسے ن سے بدل دیا جائے تو وہ مونث ہو جاتا ہے لیکن جہان آخر مین الف یا ی نہو تو وہان مشکل پڑتی ہے اس لیے جس جس طرح سے زبان مین مذکر سے مؤنث بنے ہین خواہ وہ تبدیلِ علامتِ آخر یا اضافہ الفاظ سے اُن مین سے اکثر کو آگے الگ الگ لکھدیا گیا ہے تا کہ سمجھنے مین آسانی ہو۔بیجان اشیاء مین بھی یہ قاعدہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت وہان ی معروف کے اضافہ کرنے یا ا کو یاے معروف سے تبدیل کرنے سے مراد اُس اسم کی تصغیر ہوتی ہے۔ جیسے پہاڑ سے پہاڑی، ٹوکرے سے ٹوکری وغیرہ۔ بیجان میں مذکر و مونث حقیقی نہین ہوتے تصغیر کو مونث استعمال کرتے ہین۔ جاندار کے لئیے البتہ ضرور ہے کہ مذکر کے لیے مذکر اور مونث کے لیے مونث ہو۔
4
۔ ایسے مذکر جن کے آخر مین کوئی علامتِ تذکیر نہین اور ظاہراً تذکیر و تانیث میں مشترک معلوم ہوتے ہین انکی تانیث آخر مین یاے معروف بڑہانے سے بنتی ہے جیسے ہرن سے ہرنی، کبوتر سے کبوتری۔
5
۔ جاندارون مین تذکیر و تانیث کی دو صورتین ہین۔ اول مذکر اور مؤنث الگ الگ الفاظ ہین۔ ایک دوسرے سے بظاہر کچھ تعلق نہین جیسے بیل مذکر گائے مؤنث۔ دوم آخر علامت کے بدلنے یا آخر مین کسی حرف یا حروف کے اضافہ سے مؤنث بنایا جاتا ہے۔ تفصیل نیچے لکھی جاتی ہے۔
1
۔ ہردو مختلف باپ۔مان غلام۔باندی میان۔بی بی نواب۔بیگم

بشکریہ *ساجد*
 

قیصرانی

لائبریرین
بیل۔گائے مینڈھا۔بھیڑ خصم یا خاوند۔جورو
2
۔ مختلف علامات
الف۔ مذکر کے آخر کا الف یا ہ مونث مین ی معروف سے بدل جاتی ہے جیسےلڑکا۔ لڑکی کانا۔کانی بیٹا۔بیٹی اندھا۔اندھی بچھڑا۔بچھڑی گھوڑا۔گھوڑی بکرا۔بکری شاہ زادہ۔شاہ زادی بندہ۔بندی'باندی' چیونٹا۔چیونٹی مرغا۔مرغی بھانجا۔بھانجی بھتیجا۔بھتیجی چچا۔چچی پھوپھا۔پھوپھی لنگڑا۔لنگڑی لولا۔لولی بہرا۔بہری
ب۔ باضافئہ یاے معروف۔ برہمن۔برہمنی ہرن۔ہرنی پٹھان۔پٹھانی کبوتر۔کبوتری
----------------------------------
1
۔ باندی کا لفظ صرف غلام عورت کے معنون مین آتا ہے۔ اور ہندی عورتین بجاے ضمیر متکلم واحد کے بولتی ہین جیسے مرد بندہ کا لفظ استعمال کرتے ہین۔
----------------------------------
تیتر۔تیتری لوہار۔لوہاری چمار۔چماری سُنار۔سُناری مامون۔ممانیج۔ مذکر کے آخر حرف کو 'ن' سے بدل دینے سے جیسےمراسی۔مراسن نائی۔نائن کنجڑا۔کنجڑن جوگی۔جوگن مالی۔مالن دہوبی۔دہوبن بھنگی۔بھنگن گوالا۔گوالن فرنگی۔فرنگن پارسی۔پارسن بھائی۔بہن گھوسی۔گھوسن حاجی۔حجن سپولیا۔سپولن دلہا۔دلہن چودہری۔چودہرائن گویا۔گائن ناگ۔ناگن گارد۔گاردن٭د۔ آخر حرف کو حذف کر کے یا بلا حذف نی یا انی کے اضافہ سےشیر۔شیرنی ملا۔ملانی مہتر۔مہترانی استاد۔استانی٭٭
-----------------------------------
٭ حیدرآباد دکن مین مستعمل ہے یعنی وہ عورتین جو محلون مین مرد سپاہیون کا کام دیتی ہین یعنی قلما قنیان۔٭٭ مذکر کی دال حذف کر دی گئی۔
-----------------------------------
مغل۔مغلانی ہاتھی۔ہتھنی٭ ہاتھی۔ہتھنی٭ اونٹ۔اونٹنی سور۔سورنی راے'راجہ'۔رانی٭٭ فقیر۔فقیرنی مور۔مورنی جیٹہ۔جٹھانی دیور۔دیورانی بنیا۔بنینی ڈاکٹر۔ڈاکٹرنی ڈوم۔ڈومنی بھُوت۔بھُتنی جن۔جنّاتنی٭٭٭ شاعر۔شاعرنی٭٭٭٭ پنڈت۔پنڈتانیٹٹو سے ٹٹوانی مؤنث آتا ہے لیکن حقارت کے موقع پر بولتے ہین۔ہ۔ بعض اوقات اخیر حرف مین کچھ تبدیلی کے بعد یا بغیر تبدیلی کے 'یا' اضافہ کرنے سے مونث بنتا ہے۔جیسےکتا۔کتیا بندر۔بندریا چوہا۔چوہیا گدہا۔گدہیا چڑا۔چڑیا
3
۔ بعض غیر زبانون کے مذکر و مؤنث بعینہ اردو مین مستعمل ہین مثلاً بیگ مذکر بیگم
-----------------------------------------
٭ ہاتھی کا الف اور'ی'دونون حذف ہو گئے ہین۔ غالباً یہ لفظ ہاتھ سے نکلا ہے۔سونڈ بجائے ہاتھ کے سمجھی گئی ہے۔٭٭ اصل مین راجنی تھا 'ج' کثرتِ استعمال سے اوڑ گیا۔٭٭٭ یہان مؤنث واحد مذکر سے نہین بنا بلکہ جمع مذکر سے بنا ہے۔٭٭٭٭ جان صاحب کا شعر ہےمین وہ شاعرنی ہون گر پکڑے کوئی میری زبان ٭ لاکھ مرزا کو سناؤن سو سناؤن میر کو
-----------------------------------------
مونث ترکی مین خان سے خانم ہے یا عربی کے مثلاً سلطان سے سلطانہ، ملک سے ملکہ۔ خاتون و آتون بھی ترکی لفظ ہین جو مؤنث ہین۔
4
۔ بعض اوقات اسم خا؟؟؟ علم کو مذکر سے مؤنث بنا لیتے ہین جیسےرحیم۔رحیمن امیر۔امیرن کریم۔کریمن نور۔نورن محمد۔محمدی امامی۔امامن مراد۔مرادن نصیب۔نصیبنبعض اوقات اسماء خاص مین حرف واؤ کے مجہول و معروف ہونے سے مؤنث و مذکر کا فرق ظاہر ہوتا ہے۔ واؤ معروف سے مذکر اور مجہول سے مؤنث۔مجُّو۔مجو رامُو۔رامو بدلُو۔بدلوبعض اسماء خاص مرد و عورت کے لیے یکسان استعمال ہوتے ہین جیسے گلاب۔احمدی وغیرہ۔
5
۔ عموماً مؤنث مذکر سے بنتا ہے لیکن بعض مذکر ایسے بھی ہین جو مؤنث سے بنتے ہین جیسے بھینسا بھینس سے یا رنڈوا رانڈ سے ، بلاؤ بلی سے ، سسرا ساس سے۔
6
۔ بعض الفاظ ایسے ہین جو صرف مذکر استعمال ہوتے ہین اور ان کا مونث نہین آتا، اور بعض صرف مونث استعمال ہوتے ہین اور ان کا مذکر نہین آتا مثلاً چیل۔بطخ۔مینا۔بلبل۔فاختہ،لومڑی غیر ذوی العقول مین۔ رنڈی ، کسبی ، ہڑدنگی ، ڈائن ، چڑیل ، بیوہ ، سوت ،سہاگن وغیرہ ذوی العقول مین مؤنث استعمال ہوتے ہین۔ طوطا ، کوا ، اژدہا ، تیندوا ، باز ، الو ، چیتا اور غیر ذوی العقول مین بھانڈ ، بھڑوا ، ہیجڑا ، وغیرہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہین۔
7۔ چھوٹے چھوٹے جانورون مین اکثر صرف ایک ہی جنس مستعمل ہے مثلاً مکھی'مؤنث' جگنو'مذکر' چھپکلی'مونث' چھچھوندر'مونث' کچھوا'مذکر' بھڑ'مونث'۔
8
۔ اکثر اوقات الفاظ کے ساتھ نر اور مادہ کا لفظ لگا کر مذکر و مؤنث بنا لیتے ہین مثلاً مادہ خر ، نر گاؤ یا چیتے کی مادہ۔ مادہ خرگوش وغیرہ۔
9
۔ بعض اوقات مذکر لفظ مؤنث کے لیے بھی استعمال کر جاتے ہین مثلاً بیٹی کو مان پیار سے کہتی ہے "نہ بیٹا ایسا نہین کرتے"۔بعض لفظ مشترک ہین کہ دونون کے لیے آتے ہین مثلاً بچہ کا لفظ یا گھوڑی کو دیکھکے کہہ سکتے ہین کہ کیا اچھا جانور ہے۔
10
۔ جن ہندی الفاظ کے آخر مین'ا' یا 'ہ' ہوتی ہےمونث مین یاے معروف سے بدل جاتے ہین مثلاً لڑکے سے لڑکی۔ فارسی الفاظ بھی جو اردو مین عام طور پر استعمال ہونے لگے ہین اسی قاعدے مین آ جاتے ہین۔ مثلاً شاہزادہ سے شاہزادی ، بیچارہ سے بیچاری ، بندہ سے بندی ، حرام زادہ سے حرام زادی وغیرہ مگر شرمندہ اور عمدہ مستثنیٰ ہین۔
بیجان کی تذکیر و تانیث بیجان اسماء کی تذکیر و تانیث قیاسی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات وہ الفاظ خصوصاً ہندی اور تدبھوا یعنے مخلوط سنسکرت کے جن کے آخر 'ا' یا 'ہ' ہوتی ہے مذکر ہوتے ہین۔ مثلاً ڈبا ۔ چولہا ۔ حقہ۔ پیشہ گزہا وغیرہ لیکن اسمین مستثنیٰ بھی ہین جو حسبِ ذیل ہین۔
'
ا' تمام ہندی اسماے تصغیر جن کے آخر مین یا ہوتی ہے مثلاً پڑیا ڈبیا وغیرہ۔
ب۔ تمام عربی کے سہ حرفی الفاظ جیسے ادا ،قضا، حیا ، رضا ، خطا وغیرہ

بشکریہ *ساجد*
 

قیصرانی

لائبریرین
ج) بعض عربی مصادر جن کے آخر آ ہو خواہ ہمزہ لکھی ہو یا نہ لکھی ہو جیسے ابتدا' انتہا۔ (اسکی تفصیل آگے آئے گی)
(د) عربی کے اسماے تفضیل جن کے آآخر مین الف مقصورہ ہوتا ہے یا بعض دیگر الفاظ جیسے عقبٰی، صغریٰ، کبریٰ، دنیا، کیمیا۔
(ھ) بعض ہندی لفظ جو ٹٹ سما یعنی خالص سنسکرت کے ہین۔ کیونکہ سنسکرت مین آ علامت تانیث بھی ہے مثلاً پوجا، بیچا،ماتا،بروا،بچھوا،بھاکا، سیتلا، گھٹا، گھٹیا، انگیا، مالا،سبہا،جٹا،چھالیا۔ (انا اور دوا بھی مونث ہین)
12- عربی وہندیاسماے کیفیت جن کے آخر مین ت ہو مونث ہوتے ہین مثلاً مذامت، رفعت،شوکت،مشقت،کرامت وغیرہ مگر خلعت،رایت،شربت، بعت مستثنٰے ہین۔
13-عربی الفاظ کی جمع جب عربی قواعد کے رو سے آتی ہے تو اسکی تذکیر و تانیث مین صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو حالت واحد کی ہےوہی جمع کی ہو گی۔ مثلاً شئیے مجلس اور مسجد مونث ہین تو انکی جمع اشیا مساجد اور مجالس بھی مونث ہو گی۔ چند الفاظ البتہ مستثنٰے ہین۔ مثلاً اگرچہ معرفت، حقیقت،قوت،شفقت مونث ہین مگر انکی جمع معارف،حقائق،قویٰ اور اشفاق مذکر مستعمل ہین۔ بعض متاخرین اہل لکھنو کا یہ قول ہے کہ ہر لفظ کی عربی جمع مذکر ہی آتی ہے۔ یہ قاعدہ تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اہل زبان یون نہین بولتے، اہل دہلی بجز بعض مسمتعثینات کے ہمیچہ مونث کی جمع مونث اور مذکر کی جمع مذکر ہی استعمال کرتے ہین۔ جن حضرات کا یہ قول ہے کہ ہر عربی لفظ کی عربی جمع مذکر بولنی چاہیے انھین یہ دہوکا اس وجہ سے ہوا ہےکہ بعض الفاظ جو مونث ہین انکی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے جو واحد مین مذکر ہین مثلاً حادثہ مذکر اسکی جمع حوادث ہے لہذا یہ بھی مذکر ہے اور مذکر بولا جاتا ہے۔ چونکہ حقائق بھی اسی وزن پر ہے دھوکے مین اسے بھی مذکر بولنے لگے لیکن یہ چند الفاظ مستثینات مین سے ہین ؛ اس پر سے یہ قیاس قائم کر لینا کہ ہر لفظ عربی کی (خواہ مونث ہو یا مذکر) جمع مذکر ہی ہو گی صحیح نہین ہے' یون تو عورات (عورت کی جمع) بھی مذکر ہونی چاہیے مگر ایس انہین ہے' حالانکہ بعض مذکر الفاظ کی جمع بھی اسی وزن پر آئی ہے۔ اس کا یہ جواب کہ یہ مونث حقیقی ہے لہذا اس قاعدہ کے تحت مین نہین آتا صحیح نہین ہے، کیونکہ جب ہم ایک لفظ کو واحد کی حالت مین مونث مان چکے ہین (گو وہ مونث غیر حقیقی ہی کیون نہو) تو کوئی وجہ نہین کہ اسکی جمع کو مونث نہ تسلیم کرین۔ کیونکہ واحد مین جب ہم ایک لفظ کو جو مونث غیر حقیقی ہے مونث تسلیم کرتے ہین تو افعال اور صفات بھی اسکے لیے مثل مونث حقیقی کے استعمال کرتے ہین اور کوئی فرق اس مین اور مونث حقیقی مین نہین کرتے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مونث حقیقی کی عربی جمع کو مونث بولین اور مونث غیر حقیقی کی جمع کو مذکر غرض ان حضرات کا یہ اجتہاد کسی طرح قابل تسلیم نہین ہو سکتا۔ کیونکہ یہ عجب منطق رہے کہ ایک لفظ جو واحد مین مونث ہے جمع ہوتے ہی مذکر ہو جاتا ہے۔ اور اگر غیر حقیقی مونث کے متعلق انکا یہ خیال ہے تو حقیقی مونث کے متعلق بھی یہی ہونا چاہیے اور یہین ان کے اس قاعدہ کا نقص ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جب ایکبار بیجان شئے کا مونث قرار پا چکتا ہے تو پھر اس مین اور حقیقی مونث مین کسی قسم کا فرق اور امتیاز باقی نہین رہتا۔ ہمارے خیال مین حتی الامکان اس قسم کے الفاظ کی اردو جمع استعمال کرنا زیادہ فصیح ہے، اگرچہ بعض مواقع پر عربی جموع کا استعمال کرنا ناگزیر ہے۔ ایسی حالت مین بجز چند مستثنٰے الفاظ کےیہی قاعہ یاد رکھنا چاہیے کہ مونث کی جمع مونث ہوگی اور مذکر کی جمع مذکر۔
14۔ زبانون کے نام عموماً مونث ہوتے ہین مثلاً انگریزی، فارسی، اردو، سنسکرت وغیرہ
15۔ ایسے اسما جو آواز کی نقل ہین مونث ہوتے ہین سائین سائین' چٹ چٹ، دہڑا دہڑا وغیرہ
16۔ دنون اور مہینون کے نام مذکر استعمال ہوتے ہین، دونون مین جمعرات مستثنٰی ہے۔
17۔ دہاتون اور جواہرات کے نام بھی مذکر ہین؛ چاندی البتہ مستثنٰیہے۔ ہندی مین اسے روپا کہتے ہین جو مذکر ہے۔
18۔ ستارون اور سیارون کے نام بھی مذکر ہین۔
کتابون کے نام اگر مفرد ہین تو مونث ہونگے، لیکن مرکب ہونے کی حالت مین مضاف یا موصوف کی تذکیر و تانیث پر کتاب کی تذکیر و تانیث منحصر ہو گی مثلاٌ بوستان گلستان مونث ہین مگر قصہ حاتم طائی یا قصہ حلیمہ دائی مذکر ہین
20۔ اسی طرح نمازون کے نام مونث بولے جاتے ہین۔
21۔ ہندی حاصل مصدر (یعنی وہ اسماے کیفیت جو مصدر سے بنائے جاتے ہین) اور اکثر اسماے کیفیت جو اسی وزن پر ہون مونث ہوتے ہین، جیسے
بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
(پکار، پھٹکار، پھنکا،جھنکار وغیرہ
پھسلن،دہڑکن،کھرچن، چھبن وغیرہ۔ امبتہ چلن مستثنٰے ہے
بناوٹ، کھچاوٹ، نیلاہٹ وغیرہ
مہک۔ رو، چوک۔ جھلک۔ چمک وغیرہ
مٹھاس، کھٹاس، نکاس وغیرہ
البتہ برتاؤ، بچاؤ کے وزن ہر جو حاصل مصدر آتے ہین وہ سب مذکر ہوتے ہین
بناؤ، لگاؤ، اٹکاؤ، تاؤ، لداؤ وغیرہ
اسی طرح وہ اسماے کیفیت جو اسم یا صفت کے آخر "پن" لگانے سے بنتے ہین مذکر بناتے ہین۔ مثلاً بچپن، لڑکپن، دیوانہ پن وغیرہ
22۔ ہندی کے وہ الفاظ جن کے آخر او یا اون ہوتا ہے اکثر مونث ہوتے ہین جیسے باؤ، چھاؤن،جوکھون،بھون،سون،سرسون،کھڑاؤن وغیرہ
23۔ حروف تہجی مین ۔ ب پ ت ج چ ح خ د ذ ڈ ر ز ژ ط ظ ف ہ و ی مونث ہین، میم مختلف فیہ ہے
24۔ جو عربی الفاظ افعال۔ افتعال۔ افضال۔ استفعال۔تفعل تفاعل اور تفعلہ کے اوزان پر آتے ہین وہ مذکر ہوتے ہین بروزن افعال جیسے اکرام' احسان انعام وغیرہ باستثناء انشا۔ افراط۔ ایذا۔ امداد۔ الحاح۔ اصلاح۔
بروزن اتعال جیسے اختیار، اعتدال، اضطراب وغیرہ باستثناے ابتدا، انتہا، التجا، احتیاط، احتیاج، اطلاع، اشتہا، اصطلاح، اقتدار۔
بروزن استفعال جیسے، استعفا، استقلال وغیرہ باستثناے استعداد، استدعا، استفنا، استمداد، استغفار
بروزن انفعال جیسے انکسارر، انقلاب، انحراف وغیرہ
بروزن تفعل جیسے توکل۔ تکلف، تعصب وغیرہ باستثناے توقع، توجہ، تمنا، ترشح، تضرع۔ تہجد۔
بروزن تفاعل جیسے تغافل، تنازع، تلاطم وغیرہ باستثناے تواضع
بروزن تفعلہ جیسے تذکرہ؛ تجربی، تصفیہ، تخلیہ وغیرہ
25۔جو عربی الفاظ معاعلہ کے وزن پر آتے ہین وہ مذکر ہین جیسے مھادلی، مشاعرہ معاملہ، مناظرہ وغیرہ
لیکن یہی الفاظ یا دوسرے الفاظ جب مفاعلت کے وزن پرآتے ہین تو مونث ہوتے ہین جیسے معاملت، مصاحبت، مشارکت وغیرہ، یہی حال تفعلہ اور تفعلت کا ہے جیسے تربیت، تقویت وغیرہ مونث ہین تفعلہ کی مثالین لکھی جا چکی ہین۔
26۔ تمام عربی الفاظ تفعیل کے وزن پر مونث ہوتے ہین جیسے تحریر، تقریر وغیرہ باستثناے تعویذ۔ لیکن جب تفعیل کے بعد ہاے ہور آتی ہے تو وہ الفاظ مذکر ہوتے ہین۔ جیسے تخمینہ، تعلیقہ وغیرہ۔
27- نیز وہ الفاظ عربی و فارسی جن کی آخری ہ اضافی ہوتی ہے اکثر مذکر ہوتے ہین جیسے نسخہ، روضہ، صفحہ، ذرہ، طرہ، شیشہ، آئینہ، پیمانہ وغیرہ باستثناے دفعہ، فقہ، توبہ، زوجہ۔
25۔ عربی اسماے ظرف مذکر ہوتے ہین جیسے مکتب، مسکن، مقام، مشرق مغرب وغیرہ باستثاے مجلس، محفل، منزل، مسجد، مجال، مسند وغیرہ۔
اسماے الہ بروزن مفعال اکثر مونث ہوتے ہین، جیسے مقراض، میزن وغیرہ باستثناے معیار، مقیاس، مصداق،
لیکن بروز مفعل اکثر مذکر ہوتے ہین جیسے منبر، مسٖل وغیرہ باستثناے مشعل مگر بروزن مفعلہ ہمیشہ مذکر ہوتے ہین جیسے منطقہ، مصقلہ، مراۃ وغیرہ،
90 تمام فارسی حاصل مصدر جن کے آخر مین ش ہے مونث ہوتے ہین جیسےدانش، خواہش بخشش وغیرہ
30۔مرکب الفاظ جو دو لفظون سے مل کر بنتے ہین خواہ حرف عطف یامع حرف عطف انکی تذکیر و تانیث مین بھی اختلاف ہے۔
(ا) جو لفظ دو افعال یا ایک اسم اور ایک فعل سے مل کر بنتے ہین وہ الثر مونث ہوتے ہین جیسے آمدورفت، زدوکوب، نشست و برخاست، شست شو، قطع و برید، تراش خراش' تگ و دوم آمدوشدم خرید و فروخت، بودوباش، داروگیر، شکست و ریخت، داد و دہش، کم و کاست، باستثناے سوز و گداز، بندوبست و ساز و باز۔
(ب) اگر ان مین ایک مونژ اور دوسرا مذکر ہے (مع حرف عطف یا بلا حرف عطف) تو


بشکریہ مقدس
 
Top