قیصرانی

لائبریرین
افعال احتمالی و شرطیہ

حال احتمالی- اس سے پہلے حصی صرف مین حال احتمالی کی دو صورتین بتائی گئی ہین۔ یعنے آتا ہو گا۔ یا آ رہا ہو گا۔ ان دونون کے مفہوم مین جو فرق ہے وہ بھی بیان ہو چکا ہے۔ لیکن ان دونون سے فعل کے متعلق گمان غالب کا ہونا پایا جاتا ہے۔ یعنے گمان غالن ہے یا اغلب ہے کہ وہ آتا ہو، لیکن ایک صورت انکے علاوہ حال احتمالہ کی اور ہے جسمین گا آخر مین نہین ہوتا۔ یعنے وہ آتا ہو۔ یہ صرف امکانی یا احتمالی صورت ہوتی ہے اور خیال اغلبیت مطلق نہین ہوتا، مثلاً شاد وہ ایسا سمجھتا ہو۔ ممکن ہے کہ صبح کو وہ گھر سے نہ نکلتا ہو۔ وہان لے چلو جہان وہ سوتے ہون۔ اسی طرح دوسری حالت بھی بغیر گا کے استعمال ہوتی ہے جیسے شاید وہ آ رہا ہو۔ اس کھیت مین شاید اس کے مویشی چر رہے ہون۔
حال احتمالی کی یہ آخری صورت ایسے مواقع ہر تشبیھ کے لیے استعمال ہوتی ہے کہ جہان واقع اور حقیقی حالت نہو بلکہ فرضی ہو، جیسے وہ اس طرح سے چلا آ رہا ہے جیسے کوئی بجار آتا ہو۔ درختون پر سے آم ایسےپٹ پٹ گر رہے ہین جیسے اولے برس رہے ہون۔
بعض اوقات حال احتمالی ماضی کے معنی بھی دیتا ہے مثلاً کسی سے پوچھین کہ تم نے اسے کبھی ایسا کرتے دیکھا تو وہ کواب دے کہ "کرتا ہوگا"۔ مگر اس احتمال کے ساتھ ہمیشہ زمانہ گزشتہ کی عادت کا اظہار ہوتا ہے۔

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

حال شرطیہ۔ ھال شرطیہ درحقیقت مضارع ہے لیکن مضارع مین اور حال شرطیہ مین فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق پہلے بیان بھی ہو چکا ہے یعنے مضارع سے امکانی حالت معلوم ہوتی ہےاور حال سے واقعی جیسے۔
1- مینھ برسے تو کھیت پنپے۔ (مضارع)
مینھ برستا ہے تو کھیت پنپتا ہے (حال)
2۔ اگر وہ آئے تو آنے دو (مضارع)
اگر وہ آتا ہے تو آنے دو (حال)
دوسری مثال مین بھی مضارع سے وہی امکانی حالت معلوم ہتی ہے مگر حال سے فاعل کی آمادگی ظاہر ہوتی یے۔
ماضی احتمالی۔
(1) اسمین احتمال پایا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فعل کی تکمیل کے متعلق گمان غالب ہوتا ہے جیسے آپ نے یہ خبر سنی ہو گی۔ معلوم نہیں اس کا کیاحال ہو گا۔
(2) بعض اوقات اس سے تشویش بھی پائی جاتی ہے مثلاً اتنی رات گئے جو سوار آیا ہے تو ن معوم کیا خبر لایا ہوگا۔
(3) بعض اوقات علامت آخرگاہ حزف ہو جاتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی معنون مین بھی فرق ہو جاتا ہے۔ عموماَ ذیل کے معنے ظاہر ہوتے ہین۔
(ا) شرطیہ جملون مین شرط مین واقعیت نہین ہوتی بلکہ فرضی صورت ہوتی ہے جیسے اگر اس نے کوئی ایسی حرکت کی ہو۔
(ب) امکان، جیسے ان لڑکون مین کوئی ایسا نہین ہے جس نے امتحان دیا ہو۔اور پاس نہ ہوا ہو
(ج) شک۔ جیسے شاید اس نے یون ہی کہدیا۔ ممکن ہے اس نے دل لگی کی ہو۔
(د) تشبیھ کے لیے جیسے وہ اس سے ایسا جلتا ہے جیسے اس نے اسکا باپ مارا ہو۔
(لا) آذادی۔ ھو کچھ بھی اس نے کہا ہو اور جو کچھ بھی اس نے کیا ہو سب معاف ہے۔
بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین

ماضی شرطیہ

(1) اس سے ایک ایسے فعل کا اظہار ہوتا ہے جس کی نسبت شرط کے ساتھ یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانہ مین کسی وقت جاری تھا' لیکن عموماً اس شرط کی نفی ہوتی ہے۔ جیسے اگر تم اس سے ذکر کر دیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ لیکن علاوہ اس کے اس سے اور بھی چند معنی پیدا ہوتے ہین۔
(2) اکثر اس سے زمانہ گزشتہ مین فعل ہالمرہ واقع ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے جیسے جہان کہین وہ بیٹھتا مجلس کر گلزار کر دیتا۔ جب کبھی وہ ملنے آتا اپنا دکھرا ضرور روتا۔
(3) اس ماضی مین عموماً دو جملے ہوتے ہین' ایک شرط دوسرا جزا۔ جزا یہ بتاتی ہے کہ اگر شرط پوری ہو جاتی تو کیا ہوتا۔ جیسے اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو مین یہان کبھی نہ آتا۔ اگر وہ وقت پر نہ پہنچ جائے تو ایک بھی نہ بچتا۔ اگر مین یہان ہوتا تو اسکی مجال تھی کہ وہ ایسا کرتا۔
کبھی مفرد جملہ مین بلا شرط کے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مین اسے کیون نہ پیار کرتا۔ وہ اس سے کیون نہ ملتا۔
(4) بعض اوقات آرزو کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کاش وہ آج میرے ساتھ ہوتا۔
ایسے جملون مین جملہ آرزو کو جو محذوف ہوتا ہے شرط کی جزا سمجھنا چاہیے یعنی "تو کیا اچھا ہوتا"​
بشکریہ مقدس​

239 صفحات یہاں تک ہوگئے
 

قیصرانی

لائبریرین
(5) اس فعل سے عموماً تمنا بھی ظاہر ہوتی ہے اور اسی لیے بعض قواعد نویسون نے اسے ماضی تمائی بھی لکھا ہے جیسے مین اب بوڑھا ہو گیا ہون ورنہ تمھاری کچھ خدمت کرتا۔ وہ اگر آجاتا تو مین بھی اس سے مل لیتا۔
(6) ایک صورت اور اس ماضی کی ہے۔ جیسے اگر مین وہان نہ گیا ہوتا تو اچھا ہوتا، یہان جاتا کی بجاے گیا ہوتا استعمال ہوا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اسمین فعل ختم ہو چکا ہے۔ باقی شرطیہ صورت وہی ہے۔ نیز ایک ایسے واقعہ کا اظہار ہے جس کا ہونا گزشتہ زمانہ مین ممکن تھا لیکن وقع مین نہ آیا۔ اور یہ حالت ماضی شرطیہ کی دوسری صورتون میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جب تکمیل فعل (فرضی) کی اہمیت کا زیادہ خیال ہو تو آخری صورت استعمال کی جاتی ہے۔

افعال مجہول

طور مجہول اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ فاعل نامعلوم ہو یا خاص طور پر اس کا ذکر نہ کیا جائے۔
اگرچہ یہ اکثر فعل متعدی سے مخصوص ہے مگر بعض اوقات فعل لازم کے ساتھ بھی آتا ہے مثلاً اس سے جا کر آیا نہ گیا۔ مجھ سے چلا نہین جاتا۔ طور متعدی کے ساتھ بھی یہ عام طور پر مستعمل ہے۔
خط مرا پھینک دیا یہ کہہ کر۔۔۔ ۔۔ہم سے دفتر نہین دیکھا جاتا
(یہان جانا کے معنے سکنا کے ہون گے)
ایسی صورت مین فاعل ہمیشہ مفوعلی حالت مین ہوتا ہے۔ فاعلی حالت طور مجہول کے ساتھ نہین آتی۔ اور یہ صورت ہمیشہ نفی کی حالت مین آتی ہے۔
بعض اوقات طور پر معروف مین جانا بطور فعل امدادی کے آتا ہے اس مین اور طور مجہول مین فرق کرنا ضرور ہے، اس کی تشریح ہم پہلے کر چکے ہین
اس موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ افعال مجہول کی نفی نہین اور نہ دونون کے ساتھ آتی ہے۔ اور نفی افعال کے متعلق جو قواعد ہم پہلے بیان کر چکے ہین وہی اس پر بھی عائد ہوتے ہین۔ لیکن حرف نفی اکثر اصل فعل اور امدادی فعل (جانا) کے درمیان آتا ہے جیسے آیا نہ گیا۔ کھایا نہ گیا۔ مارا نہین جاتا وغیرہ۔

تعدیہ افعال
تعدیہ افعال کی مفصل بحث حصہ صرف مین ہو چکی ہے۔ یہان کسی امر کے خاص طور پر بیان کی ضرورت نہین ہے۔

افعلا مرکب
افعال امدادی مین چند امور خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہین۔
1۔ افعال مرکب تاکیدی مین جب امدادی فعل لازم ہو اور خواہ اصل فعل متعدی کیون نہو'مرکب فعل کی صورت زمانہ ناتمام مین لازم کی سی ہو گی اور فاعل کے ساتھ نے استعمال نہوگا جیسے
اس نے مٹھائی کھائی۔ لیکن، وہ مٹھائی کھا گیا یا کھا چکا۔ یہان گیا اور چکا افعال امدادی لازم ہین اس لیے باوجود یکہ اصل فعل متعدی ہے مفر فاعل کے ساتھ کے استعمال نہین ہوا۔
لیکن جہان فعل امدادی متعدی ہے وہان نے برابر استعمال ہوتا ہے جیسے اس نے
بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
پرندے کو مار ڈالا۔ برحال سکنا چکنا وغیرہ امدادی افعال لازم ہین۔
لیکن لینا اور دینا کی حالت مستثنٰے ہے یعنے جب یہ فعل متعدی کے ساتھ آتے ہین تو نے استعمال ہوتا ہے اور جب لازم کے ساتھ آتے ہین تو نے نہین آتا اور صورت لازم کی ہوتی ہے جیسے وہ میرے ساتھ ہو لیا۔ وہ چل دیا۔ مین نے کھانا کھایا۔ اس نے بات سن لی۔ وہ نہین دکھائی دیا ( اس مرکب فعل مین اگرچہ دونون جز متعدی ہین مگر مرکب حالت مین لازم ہے) اسی طرح آواز سنائی دی۔
2۔ سکن الگ استعمال نہین ہوتا۔ ہمیشہ کسی دوسرے فعل کے ساتھ آتا ہے۔ چکنا البتہ الگ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے میرا جھگڑا چک گیا۔ قرض چک گیا۔ اس کا متعدی چکانا ہے جیسے جھگڑا یا قرض چکا دیا۔
3۔ جو مرکب افعال اجازت کے لیے آتے ہین ان کے ساتھ ہمیشہ مفعول آتا ہے۔ مثلاَ تم مجھے چین سے نہ بیٹھنے دو گے۔ اسے اندر نہ آنے دو۔
4۔ چاہیے اکثر افعال کے ساتھ دو فرض دو اجبیت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے اسے وہان جانا چاہیے۔ تمھین یہ کتاب پٹھنی چاہیے، بعض اوقات بجاے مصدر کے حالیہ تمام (جو ماضی مطلق کی صورت میں ہوتا ہے) استعمال ہوتا ہے جیسے
میر نہین پیر تم کاہلی اللہ ری
نام خدا ہوے جوان کچھ تو کیا چاہیے
یہ استعمال قدیم ہے' جو اب کم ہوتا جاتا ہے اور اسکی جگہ مصدر نے لے لی ہے۔
5۔ بعض امدادی افعال بجاے آخر مین آنے والے اصل فعل کی ابتدا مین آتے ہین جیسے دے مارا۔ سے ٹپکا۔ یہان تانیث و تذکیر کا اثر اصل فعل پر ہو گا ۔ مین نے

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
کتاب دے ٹپکی۔ اس نے گھڑ سے ٹپکا۔اسی طرح آ اور جا بھی ابتدا مین آتے ہین جیسے آ پہنچا، جا پہنچا، جا لیا، آلیا۔ نیز ے کا استعمال بھی اسی طرح ہوتا ہے جیسے لے بھاگا۔ لے دوڑا۔
6- حصہ صفر مین جو امدادی افعال کا ذکر ہوا ہے وہان نکلنا کا استعمال ہے جو یکایک یا دفعتہً فعل کئ واقع ہونے کے لیے آتا ہے۔ اس موقع پر دو مظالین دی گئی ہین یعنے بہ نکلا اور چل نکلا لیکن ان کے علاوی آ نکلا اور جا نکلا بھی مستعمل ہین۔
7۔ مرکب افعال کا باقی ذکر صرف مین مفصل ہو چکا ہے۔ البتہ ان مرکب افعال کے متعلق جو اسما وصفات وغیرہ کی ترکیب سے بنتے ہین یہ یاد رکھا چاہیے۔ کہ ان اسما و صفات کا اثر فعل کی تذکیر و تانیث پر کچھ نہین پڑتا۔ مظلاً احمد ضعیف ہو گیا، نعیمہ ضعیف ہو گئی۔ وہ میرے کام کو برا کہتی ہے۔ وہ میرے کام کو برا کہتا ہے۔یہان ضعیف اور برا صفت ہین اور ان کا اثر فعل پر کچھ نہین ہے۔وہ اس حرکت سے باز رہا۔ وہ اس حرکت سے باز رہی۔ اس نے فوج کا شمار کیا۔ اس نے تسبیح کے دانے شمار کیے۔ اس نے کرسیان شمار کین۔یہان شمار کا کچھ اثر فعل پر نہین ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ قاعدہ صرف انھین اسما کے ساتھ برتا جائے گا جو جز و فعل ہو کر مفرد فعل کا کام سیتے ہین جیسے شمار کرنا۔ یاد کرنا۔ شروع کرنا۔ ختم کرنا وغیرہ مگر ہر مرکب فعل کے ساتھ یہ قاعدہ نہین استعمال ہو سکتا۔ مثلاً دلاسا دیا۔ تسلی دی۔ اطلاع دی وغیرہ مین اسم کا اثر برابر فعل پر پڑتا ہے۔ البتہ صفات کا اثر ہر گز فعل پر نہین پڑتا۔ہندی مرکب افعال کا بھی یہی حال ہے۔ مثلاً نام دھرنا مین نام کا اثر فعل پر نہین پڑے گا، مثلاً وہ میرے کام پر نام دہرتا ہے۔ وہ میرے کام پر نام دہرتی ہے۔اس نے فضول میری راہ دیکھی۔ اس نے فضول میرا راستہ دیکھا۔ یہان اسم کا اثر فعل پر ہوا، لہذا ہندی مین بھی سواے بعض مرکب افعال مثلاً نام دہرنا، ادہا دینا یا لینا، ہاتھ آنا، ہاتھ لگنا، دکھائی دینا۔ سنائی دینا کے باقی کا اثر فعل پر پڑتا ہے۔مرکب افعال مین انھین اسما کا اثر فعل پر نہین پڑتا جو اول تو جزوفعل ہو گئے ہین۔ دوسرے جبکہ یہ اسم خود مفعول واقع نہوا ہو اور دوسرا مفعول موجود ہو۔
(
C:\Users\Munu\AppData\Local\Temp\msohtmlclip1\01\clip_image001.gif
افعال مرکب کے متعلق ایک امر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اکثر اوقات یہ بغرض تعظیم وادب بھی استعمال ہوتے ہین۔ مثلاً، اس نے کہا۔ اس سے زیادہ تعظیم مقصود ہوئی تو کہین گے انھون نے فرمایا اور اس سے بڑھ کر ارشاد فرمایا۔ یا وہ تشریف لائے۔بعض اوقات متانت ق ثقاہت کے لیے مثلاً پوچھنے کی جگہ دریافت کیا یا استفسار کیا۔ مانگنے کی جگہ طلب کیا۔ اسی طرح تناول فرمانا۔ نوش فرمانا۔ فراموش کرنا۔ ایسی صورتون مین عربی اور فارسی الفاظ ہندی کے سادی مصادر کے ساتھ آتے ہین۔تمیز فعل (ہا متعلقات فعل)
صرف مین یہ بیان ہوچکا ہے کہ بعض متعلقات فعل حروف سے مل کر مرکب صورت مین آتے ہین۔ مثلاً کب سے، جب سے،اب تک، جب تک، کہان تک، جہان تک وغیرہ اسی طرح تاکیدی صورتون کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یہین سے، کہین سے وغیرہ لیکن بعض اوقات تمیز فعل زمانہ و مکانی صرف اضافت کے ساتھ مل کر صفت کا کام دیتی ہے جیسے اب کے سال کس کا روزہ کہان کی نماز۔ وہ کہان کا باشندہ ہے۔ وہ ایسا کہان کا امیر ہے۔
1- کہان علوہ استفہام کے جب ایک جملے مین بہ تکرار الگ الگ فقرون کے ساتھ آتا ہے تو اس سے تعجب یا فرق عظیم ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے کہان وہ کہان مین ۔ کہان ذرہ کہان آفتاب۔ کہان راجہ بھوج کہان گنگوتیلی۔کہان کہان جب ایک ہی ساتھ آتے ہین تو اس کے معنے جگہ جگہ اور دور دور کے ہوتے ہین جیسےاذان دی کعنے مین ؛ ناقوس دیر مین پھونکاکہان کہان ترا عاشق تجھے پکار آیا

(سنسکرت مین اسی طرح کوا کوا مستعمل ہے)جہان تہان ہر جگہ، جہان کہین' ہر کہیں کے معنوں مین،
2۔ کہیں کے معنے کسی جگہ کے ہین' لیکن بعض اوقات محاورے مین اظہار شک احتمال​

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
یا اندیشہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہین وہی نہون مجھے ڈر ہے کہین اس نے راز ظاہر نہ کر دیا ہو۔ کہیں ایسا نہو کہ وہ چلا جاے۔ کہین وہ آگیا تو غضب ہو جائے گا۔
کبھی یہ متعلق صفات ہوتا ہے اور صفاتی معنون کے بڑھانے کے لیے مستعمل ہوتا ہے جیسے وہ اس سے کہیں بڑا ہے ۔ یا درخت اس سے کہیں اونچا ہے۔
کہیں کہیں۔ کسی کسی جگہ معنون مین آیا ہے، بعض اوقات اسمین حرف نفی نہ بھی داخٌ ہوتا ہے۔ لیکن اسکی نفی مقصود نہین ہوتی' بلکہ ایک کی نفی اور دوسرے کا اثبات ہوتا ہے جیسے کہین نہ کہین ضرور مل جاے گا۔ ان دونون معنون مین تھوڑا سا فرق ہے۔ کہین کہین کے معنی ہین کسی کی جگی یعنے بہت کم۔ مثلاَ کوئی کہے "مین اس ملک مین اکثر پھرا؛ نیم کا درخت کہین کہین نظر آتا ہے" یا کوئی کہے "مین اس ملک کے اکثر مقامات مین پھرا، مگر نیم کا درخت کہین نظر نہ آیا" دوسرا اسکے جواب مین کہے"ایسا تو نہین کہ کہین نہو' آپ کو کہین نہ کہین ضرور نظر آئے گا۔"صورت منفی مین زیادہ زور ہوتا ہے۔
درد رہ جائے گا کہین نہ کہین
3- جہان جہان جس جس جگہ کے معنون مین آتا ہے۔ جیسے جہان جہان گیا یہی افتاد پڑی۔
4۔ ادھر ادھر ایک ساتھ مل کر بھی آتے ہین اور بالمقابل الگ الگ فقرون مین بھی استعمال ہوتے ہین۔ جیسے
کیون ادھر ادھر پھر رپے ہو۔ ادھر یہ چلا رہا ہے ادھر وہ کھڑا رو رہا ہے۔
5۔ یون جیسے یون کہو۔ یون تو یہ بھی برا نہین۔
کہتے تھے کہ یون کہتے یون کہتے جو یار آتا۔۔۔ ۔۔۔ ۔ سب کہنے کی باتین ہین کچھ بھی نہ کہا جاتا یہان اس طرح کے معنے ہین۔ لیکن کبھی اس خیال یا اس لحاظ کی جگہ آتا ہے (مگر تو کے ساتھ) جیسے
یون تو مجنون کے بھی چچا ہین ہم (میر)

یون ہر شخص اپنی راے کا مختار ہے۔ کبھی یہ معنون ہین جیسے
یون کیون نہین کہتے کہ مجھے جانا منظور نہین۔

6۔ پرے۔ سمت کے ساتھ فاصلے کو بھی بتاتا ہے۔ جیسے وہ کھیت اس ست پرے ہے۔ پرے جا یا پر ہٹ کے معنے دور ہو کے ہیں
اہل لکھنو اس لفظ کا استعمال نہین کرتے بلکہ ناپسند کرتے ہین۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان معنون مین کوئی دوسرا لفظ بھی نہین۔ ان کی طرف سے ادھر کا لفظ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل ذوق جانتے ہین کہ ادگر اور پرے مین بہت فرق ہے لین پرے قریب کے لیے انھین معنون مین مستعمل ہے۔
7۔ ویسے، قریب قریب یوں کے معنون مین جیسے ویسے تو یہ بھی اچھا ہے (یعنے معمولی حالت مین)
کیسے تعجب کی حالت مین جیسے بادل آسمان پر کیسے دوڑے دوڑے پھرتے ہین۔ کبھی کیونکر کے معنون مین بھی آتا ہے جیسے پہاڑ سے رات کیسے کٹے گی، یہان کیسے آنا ہوا۔
اتنا مین کے ساتھ مل کر تمیز فعل زمان کا کام دیتا ہے جیسے اتنے مین وہ آگیا۔ بعض اوقات قیمت کے لیے بھی استعما ہوتا ہے جیسے یہ چیز اتنے مین آئے گی۔
8۔ ہی جیسے یہ تو ہے ہی مگر تلاش اس سے اچھی کی ہے۔ وہ جاتا ہی نہ تھا؛ بڑی مشکل سے بھیجا ہے، مین تو آہی چکا تھا، بلانے کیا ضرورت تھی۔ وہ جانتا ہی نہیں۔۔۔ وہ اس کے دم مین آہی گیا۔

9۔ سہی (اسکی اصل صحیح بتائی جاتی ہے اور قدیم اردو مین اس لفظ کو صحیح ہی کہتے تھے)
جیسے سن تو سہی۔ کہہ تو سہی۔۔ اکثر تو کے ساتھ مل کر آتا ہے۔
بوض اوقات اپنے اصل معنون لی طرف رجوع کرتا ہے جیسے
بھڑکی سہی ادا سہی چین جبین سہی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سب کچھ سہی پر ایک نہین کی نہین سہی
کبھی دہمکی کے معنے دیتا ہے جیسے آؤ تو سہی، کھاؤ تو سہی۔ (ان معنون مین ہمیشہ تو کے ساتھ آتا ہے)
کبھی آمادگی ظاہر کرتا ہے جیسے تم جاؤ تو سہی پھر دکھیا جائے گا۔
کبھی استغنا ظاہر کرتا ہے لیکن حرف نفی کے ساتھ
نہ ستایش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ ۔۔۔ ۔۔۔ نہ سہی گر مرے اشعار مین معنی نہ سہی
نہوئی گر مر مرنے سے تسلی سہی۔۔۔ ۔۔۔ امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی
تو بھی تمیز فعل کے لیے آتا ہے جیسے دیکھون تو۔ بیٹھو تو،
10۔ کہ، بعض اوقات محاورے مین ایسے موقعے پر بولتے ہین جبکہ ایک فعل کے وقوع مین اے سے پہلے کوئی دوسرا فعل واقع ہو۔ جیسے مین آواز دینے ہی کو تھا کہ وہ آگیا وہ بولنے ہی کو تھا کہ مین نے روک دیا۔ ان جملون مین کہ تمیز فعل زمان ہے اور جب یا اتنے مین کے معنے دیتا ہے

11۔ بھی، کبھی تھوڑا اور کے معنون مین جیسے ٹھہرو بھی چلے جانا۔
کبھی رفع تامل کے لیے جیسے کھا بھی لو۔ لکھ بھی دو،
کبھی اظہار اضطراب کے لیے جیسے چلو بھی (یعنے بہت بیٹھے اب جلد چلو)
اشتراک کے لیے۔ وہ بھی آے تم بھی آو۔۔

یہ بھی جاری ہے وہ بھی جاری ہے (داغ)

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
رہان ہون اند بھی اسے شیخ پارسا بھی مین (حالی)

13۔ خیر (سے کے ساتھ) اچھی حالت کے ظاہر کرنے کے لیے جیسے خیر سے ہین یا خیر سے پہنچ گئے۔
کبھی طنزاً جیسے خیر سے آپ ملک کے بڑے ہمدرد ور بہی خواہ ہین۔ اکثر خیر کا لفظ ابتدائے کلام مین آتا ہے جس سے مقصود گفتگو ختم کرنے کا ہوتا ہے؛ یا یک مضمون سے اعراض کر کے دوسرے کے شروع کرنے کا منشا ہوتا ہے جیسے خیر یہ تو سب کچھ ہوا اب ارادہ کیا ہے۔ خیر اب تشریف لیجائیے، پھر دیکھا جاے گا۔
کبھی استغنا کے معنی ظہار کرتا ہے جیسے کیا مضائقہ ہے۔
اچھا یا بہتر کے معنون مین۔ خیر یون ہی سہی۔
خیر ہوئی یا خیر گزری محاورے مین مستعمل ہے جسیے معنی یہ ہین کہ کوئی مصیبت آتے آتے رہ گئی یا کوئی آفت آئی تھی مگر اسے ضرر سے محفوظ رہے، جیسے بڑی خیر ہوئ کہ تم وقت پر پہنچ گئے ورنہ جان کے لالے پر گئے تھے، بڑی خیر گزری کہ کسی کو خبر نہوئی،
کبھی دہمکی کے لے جیسے خیر دیکھا جائے گا۔
13۔ اچھا خیر کے تیسرے معنون مین یہ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اچھا یہ تو کہو تم آؤ گے کب۔ اچھا اب چلتے ہو یا نہین۔
استدرا کی معنون مین جیسے اچھا تو رم خوامخواہ اسکے پیچھے کیون پڑے ہو۔
ہم پیشہ وہم مشرب و ہم راز سے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے

کبھی اظہار تعجب کے لیے، خصوصاً جب کسی ایسے امر کی اطلاع ہو جوخلاف توقع ہے۔ اچھا یہ

بشکریہ مقدس
 

قیصرانی

لائبریرین
صفحہ نمبر 250 یہاں سے شروع ہوتا ہے

بات ہے۔ اچھا تو یہ معاملہ یون ہے۔
مخاطب کے جواب مین کسی امر سے اتفاق ظاہر کرنے یا حکم کی تعمیل کےل یے جیسے اچھا جاتا ہون اچھا بھی حاضر ہوا۔
جملہ کی ابتدا مین محض تزئین کلام کے لیے جیسے اچھا ہو تو کہو تمہارے والد کب تک یہان ٹھہرین گے۔
دھمکی کے لیےجیسے اچھا سمجھون گا۔
۱۴۔ بھلا جملہ ابتدا مین محض تزئین کلان کے لیے جیسے بہلا اسکی کس کو خبر تھی۔ بھلا یہ کیونکر ممکن تھا۔
اچھے معنون مین جیسے
بھلا ہوا کہ تری سب برائیان دیکھین (میر)
کو کے محاورے میں خیر یا اچھا ہونے کے معنون مین جیسے بہلے کو وہ وہان موجود تھے۔
۱۵۔ بارے مگر یا لیکن کے معنون مین آتا ہے جیسے یہ سب کچھ سہی بارے اسے کیا جواب دو گے۔ لیکن تمیز فعل کی حالت مین اسکے معنے آکر یا بہرحال کے ہوتے ہین جیسے بارے وہ تھمہارے کہنے سے مان تو گیا۔ بارے گرتے پڑتے کچھ ہوتو گیا۔
ایسا کچھ کرکے چلو یہان کہ بہت یاد رہو۔ بارے دنیا مین رو غمزدہ یا شاد رہو مگر یہ استعمال کم ہوتا جاتا ہے۔
۱۶۔ کیوں، برائے استفہام جیسے تم وہاں کیوں گئے؟
کبھی محض اظہار سبب کے لیے جیسے مین وہاں کیوں جاؤں جسے ضرورت ہوگی آپ جائیگا۔
فعل نہو کے ساتھ کئی طرح استعمال ہوتا ہے۔
کبھی مخاطب کے کلام کی تائید کے لیے جیسے کیون نہو جب آپ جیسے قدر دان ملک کے ہون۔
کبھی طنزاً بھی استعمال ہوتا ہے جیسے کیون نہو آپ ہی تو خاندان کے چراغ ہیں۔
کبھی محض زور دینے کے لیے جیسے
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
کیسی مشکل کتا کیوں نہ ہو وہ فر فر پڑھتا جاتا ہے۔ (یہ صورت منفی تاکید اثبات کےلیے استعمال ہوتی ہے)
۱۷۔ مقّرر، پہلے اکثر لکھا اور بولا جاتا تھا، اب صرف نظم میں رہ گیا ہے اسکے معنی ضڑور کے ہوتے ہیں جیسے
آٹھوں کے میلے مقرر چلو اور مسخرہ بن کے بھی آئے گا مقرر کوئی وغٰیرہ وغٰیرہ۔
۱۸۔ بلا سے یہ فقرہ عموماً اظہار بے پروائی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے معنے ہیں ہماری طرف سے کچھ بھی ہوجائے۔
دنیا میں بادشاہ ہو کوئی یا وزیر ہو
اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو
(اس صرت مین ضمیر اضافی کے ساتھ آتا ہے)
کبھی اس کے معنی کم سے کم کے بھی ہوتے ہیں جیسے بلا سے یہی ہوجائے (یعنی کم سے کم اور کچھ نہیں تو یہی ہوجائے)
۱۹۔ آگے۔ مکان کے لیے جیسے آگے آؤ۔
زمان کے لیے۔ جیسے
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
۲۰۔ ہونہو۔ تاکید کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کے معنے ضرور کے ہوتے ہیں جیسے ہونہو یہ تو وہی معلوم ہوتا ہے۔
۲۱۔ بعض اوقات حالیہ، معطوفہ بھی تمیز فعل کا کام دیتا ہے جیسے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ زندہ کھود کر نکالا گیا۔
نہیں دل لگی داغ یاروں سے کہدو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
۲۲۔ بعض اوقات اسم بھی تمیز فعل کا کام دیتا ہے مگر ایسی صورت میں عموماً جمع مین استعمال ہوتا ہے جیسے اس موسم مین اناج انگلون بڑھتا ہے۔ وہ گھٹنون چلتا ہے۔ خوشی کے مارے اس کا دل بانسون اچلھنے لگا۔
۲۳۔ اس طرح صفات بھی بعض اوقات تمیز فعل کا کام دیتی ہیں۔ جیس کا بینا پہلی ہوچکا ہے۔
جیسے انکی بھلی کہی۔ وہ شعر خوب کہتا ہے۔ میں نے بہت سمجھایا۔
۲۴۔ اسکے علاوہ ہندی، فارسی، عربی کے چھوٹے چھوٹے فقری جو دو دو تین تین الفاظ سے مل کر بنتے ہین، تمیز فعل کا کام دیتے ہین۔ جیسے کم سے کم، زیادہ سے زیادہ، امکان، حتی الوسع، بیٹھے بٹھائے، رفتہ رفتہ، جون کا تون، ہوبہو وغیرہ وغیرہ۔
حروف ربط
حروف ربط مین حروف اضافت، حروف فاعل و مفعول کا ذکر مفصل اپنی اپنی جگہ پر کردیا گیا ہے۔ نیز ہندی حروف کے ماخذ و اصل سے بھی بحث ہوچکی ہے۔ اب یہان بعض حروف ربط کا صرف استعمال بتایا جائے گا۔
حروف ربط (جار) مفصلہ ذٰل اسما کے بعد آتے ہین۔
۱۔ اسم کے بعد جیسے احمد سے کہو۔
۲۔ صفت کے بعد (جب بطور اسم مستعمل ہو) جیسے بد سے بچو نیک سے ملو۔
۳۔ ضمیر کے بعد۔ اس سے کہو۔
۴۔ فعل کے بعد۔ اس کے سننے میں فرق ہے۔
۵۔ تمیز فعل کے بعد۔ آہستہ سے نکل جاؤ۔
مین، ظرف مکان کے ساتھ جیسے
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہان۔ وہ مجھے گلی میں ملا
حالت یا کیفیت، طور یا طریقہ کے لیے جیسے
وہ غصے مین ہے۔ رنج یا خوشی مین ہے۔ وہ مارے خوشی کے آپے مین نہین سماتا۔ ہوش مین آؤ۔ اللہ کے نام میں برکت ہے۔ حرکت مین برکت۔بتیس دانتوں مین ایک زبان۔ نام مین کیا دھرا ہے۔ بات مین بات پیدا ہے۔ فریب مین آگیا۔ اسکی زبان مین اثر ہے۔ ہاتھ مین شفا ہے۔ دل مین کھوٹ ہے۔
اظہار نسبت کے لیے جیسے عمر مین بڑا۔ اپنی گلی مین کتا بھی شیر۔
تعداد کے ساتھ جیسے تول مین کم ہے۔ سیر مین چار چڑھتے ہین۔
تعداد کے ساتھ جیسے دس آدمیون مین تقسیم کرو۔ سو مین کہدون۔
متعلق فعل (کسی دوسرے اسم سے مل کر) جیسے حقیقت مین، آخر مین، باتون باتون مین، ہنسی خوشی مین وغیرہ۔
سے
کسی شے کی ابتدا یا ماخذ کو ظاہر کرتا ہے۔ کبھی ابتدا بہ لحاظ مکان جیسے سر سے پاؤن تک۔ بہار چوٹی سے ایڑی تک پسینہ۔ اس سرے سے اس سرے تک۔ زمین سے آسمان تک۔ کہان سے کہان تک۔
بہ لحاظ زبان جیسے
چھ بجے سے بیٹھا ہون۔ صبح سے انتظار کررہا ہون۔ کل سے یہی عالم ہے۔ پرسون سے اسی مخمصے مین گرفتا ہون۔ مدت سے، قدیم سے وغیرہ۔
بہ لحاظ تعداد
چھ سے سات تک
ماخذ یا اصل جیسے
وہ عالی خاندان سے ہے۔ یہ کہان سے آیا۔ زمین سے نکلا۔ عین کی آواز حلق سے نکلتی ہے۔
نسبت۔ یا علاقہ۔ جیسے
مجھے کام سے کام ہے۔ اس سے مجھے کیا تعلق۔ اسے پڑھنے سے نفرت ہے۔ آںکھون سے اندھا۔ کانون سے بہرا۔ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔
مقابلہ جیسے
وہ اس سے کہیں بہتر ہے۔ سخی سے سوم بھلا۔
استعانت جیسے
تلوار سے فتح کیا۔ قلم سے لکھو۔ ڈنڈے سے خبر لی۔ شاہ صاحب کی دعا سے اچھا ہوگیا۔
انحراف
قول سے، بات سے۔ وعدے سے پھر گیا، راستہ سے لوٹ گیا۔
علیحدگی یا جدائی سے جیسے
وہ نوکری سے الگ ہوگیا، کام سے گبھراتا ہے، شہر سے نکل گیا، کام سے جی چراتا ہے، دل سے اتر گیا ہے۔
متعلق فعل مین (کسی دوسرے اسم سے مل کر) جیسے
خیر سے، شوق سے، دل سے وغیرہ۔
(ف) بعض جملون مین سے اور کے کے استعمال سے بین فرق پیدا ہوجاتا ہے، لہذا اس وقت پر اس کا فرق بتادینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً
کمرے کے باہر اور کمرے سے باہر
مین فرق ہے۔ کرے کے باہر کے معنے ہین کمرے کے باہر کی طرف اور کمرے سے باہر یعنی کمرے کے اندر نہونا۔ جیسے کمرے کے باہر بیٹھو۔ کمرے سے باہر جاؤ۔
اس طرح، کس لیے اور کس کے لیے
مین فرق ہے۔ کس لیے کے معنے ہین کیون یا کس غرض سے اور کس کے لیے یعنے شخص وغیرہ کے واسطے۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
تک
انتہا کے لیے بہ لحاظ مکان جیسے
شہر تک۔ سر سے پاؤں تک۔
بہ لحاظ زمان جیسے شام تک، مہینہ بھر یا سال بر تک۔ چھ بجے تک۔
عام اشیا اور خیالات کے لحاظ سے جیسے مجھ تک، اس کا نام تک نہ لیا، خبر تک نہ لی، سلام تک نہ کیا، اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے، خیال تک نہ آیا، گمان تک نہ تھا۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
پر
اصل مین اوپر سے ہے۔ پر کا مخفف پہ بھی (اہل لکھنو زبر سے اور اہل دہلی زیر سے بولتے ہین) انہیں معنون مین آتا ہے۔
پر کسی شے کی اوپر کی سطح سے تعلق ظاہر کرتا ہے، خواہ متصل یا منفصل۔ اسکے بعد قرب دوریاں کے معنون مین بھی آتا ہے۔
بہ لحاظ مکان جیسے
خدا کا دیا سر پر۔ چھت پر۔ بنارک گنگا پر واقع ہے۔ دروازے پر کھڑا ہے۔
بہ لحظا زمان جیسے
وقت پر کام آیا۔
انحصار جیسے
میری زندگی اسی پر ہے، ایک مجھ ہی پر کیا ہے، سب کا یہی حال ہے۔
خاطر کے معنون مین جیسے
وہ نام پر مرتا ہے، روپیہ پر جان دیتا ہے۔
واسطے کے معنون مین جیسے
کام پر گیا ہے، مہم پر گیا ہے۔
طرف کے لیے جیسے
اس کی باتون پر نہ جانا، اس پر کسی کا خیال نہ گیا۔

آگے
مکان کے لیے آتا ہے جیسے
گو ہاتھ مین جنبش نہین آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے تو ابھی ساغر مینا مرے آگے
مقابلہ کے لیے جیسے
مرے آگے اسکی کیا حقیقت ہے۔ یعنی میرے سامنے
طرف
ایک مکان کے لیے آتا ہے جیسے شہر کی طرف گیا ہے۔ دوسرے جذبات و حالات کے ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اس کا میلان مصوری کی طرف ہے۔ کسی طرف سے بد گمان ہونا اچھا ن نہین ہے۔ میری طرف سے اسے بہت بہت پوچھنا۔
نزدیک
ایک تو قریب کے معنے ہین جیسے بازار یہان سے نزدیک ہے۔ دوسرے رائے کے معنون مین بھی آتا ہے جیسے میرے نزدیک یہ درست نہین۔
ساتھ
ایک تو معیّت عام معنون مین ہے۔
دوسرے جب ضمیر کے ساتھ آتا ہے تو باوجود باوصف کے معنے دیتا ہے۔ جیسے اگرچہ اسوقت اس نے صاف جواب دیدیا، لیکن اس کے ساتھ آئیندہ کا وعدہ بھی کیا۔
حروف عطف
۱۔ دولفظون یا جملون کو ملانے کے لیے اور عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اکثر حالیہ معطوفہ اسکی ضرورت کو رفع کردیتا ہے اور وہ فصیح بھی ہوتا ہے مثلاً "وہ کل ہی مجھے ملا اور گیا" کہنے کے بجائے "وہ کل ہی مجھے مل کر گیا" کہنا زیادہ فصیح ہے۔
ایسے الفاظ مین جو جوڑا جو وامل کر آتے ہین (خواہ معنون مین تضاد ہو یا ترادف) اور یا کوئی اور حرف عطف داخل نہ کرنا ہی درست ہے بلکہ حرف عطف کا لانا خلاف محاور اور غیر فصیح ہوگا۔ جیسے
ہاتھ پاؤن مین سکت نہین، کھیل گود مین رہتا ہے، دن رات یہی مشغلہ ہے، برے بھلے مین تمیز نہین، دکھ سکھ مین کام آنے والا، چلنے پھرنے سے معذور ہے، کام کاج، دوست دشمن، اپنا پرایا، آج کل کھانا پینا، رونا جھینکنا، لنگڑا لولا، سینا پرونا، لین دین، سوچ ساچ کر، سمجھا بجھا کر، پھٹے پرانے کپڑے، چھوٹے بڑے بچے وغیرہ وغیرہ۔ (فارسی مین بخلاف اسکے ایسے مقامات پر عموماً حرف عطف استعمال ہوتا ہے)۔
ہندی کا اور فارسی کا و دونون ایک ہی معنون مین آتے ہن۔ لیکن استعمال مین یہ فرق ہے کہ و صرف فارسی عربی الفاظ کے ساتھ آتا ہے۔ ہندی الفاظ کے ساتھ اس کا استعمال خلاف فصاحت کیا جاتا ہے۔
(ا) بعض اوقات اور جن دو جملون کو ملاتا ہے، اس کے افعال سے دو کامون کا تقریباً ایک ساتھ واقع ہونا ظاہر کرتا ہے جیسے تم آئے اور وہ چلا، تم گئے اور آفت آئی، تم اٹھے اور وہ بھاگا۔ (ایسے جملون مین ماضی مستقبل کے معنے دیتی ہے)۔
(ب) کبھی دھمکی کے معنے دیتا ہے۔ جیسے
پھر تم ہو اور مین ہون، اب تم جانو اور وہ جانے۔
(ج) کبھی لزوم کے لیے ، یعنے ایسا تعلق ظاہر کرنے کے لیے جسمین جدائی یا علیحدگی ممکن نہ ہو جیسے۔
تیرا دامن اور میرا ہاتھ، میں ہوں اور تیرا در، یہ نیلا آسمان اور میں ہون۔
۲۔ بعض اوقات نیز بھی اور کے معنون مین آتا ہے جیسے
اس کا سارا سازو سامان نیز جائیداد منقولہ وغیرہ اسکے حوالے کردی گئی۔
۳۔ علاوہ نہک نہ۔۔۔نہ۔ یا، یا۔۔۔یا، خواہ، چاہے کے کہ بھی حرف تردید کا کام دیتا ہے جیسے
کوئی ہے کہ نہین۔
کیا شکایت کوئی تمہارے کرے
تم کو کیا ہے کوئی جیئے کہ مرے
(یہ حرف کہ سنسکرت کی لفظ کینوا یا کنبا بمعنے یا سے بنا ہے مرہٹی مین بھی کینوا ہے، لیکن نیپالی مین مثل اردو یا ہندی کے کہ ہی مستعمل ہے کن معنون مین اکثر استفہامیہ جملون مین آتا ہے۔
بعض اوقات حرف تردید محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے، ملو نہ ملو، وہاں اس کی پرسش نہین۔ (یہان یا مخذوف ہے)
۴۔ جو شرطیہ معنون مین بھی کبھی کبھی آتا ہے۔ جیسے، مین جو وہان گیا، تو کیا دیکھتا ہون کہ بیہوش پڑا ہے۔ یہ عموماً بول چا اور نظم مین زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔
حروف عطف شرطیہ بعض اوقات محذوف بھی ہوتے ہین۔ جیسے وہ نہیں مانتا تو مین کیا کرون۔
جب اول نمعنے جس وقت جیسے، جب مین آؤن تو نہیں اظلاع کردینا۔
دوسرے بمعنے اسی وقت جیسے یہ کام جب ہی ہوسکتا ہے کہ وہ بھی مدد دے۔
اس صورت مین جب کے ساتھ ہی بھی آتا ہے اور مین بجائے تو کے کہ استعمال ہوتا ہے۔
تیسرے بمعنے تب جیسے لکھنے پڑھنے مین بڑی سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ جب کچھ آتا ہے۔
جب اکثر تک سے مل کر آتا ہے اور شرطیہ معنے دیتا ہے جیسے جب تک میں نہ آؤن تم وہان سے نہ ہلنا، یہ عموماً حرف نفی (نہ یا نہین) کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
بعض اوقات بغیر حرف نفی کے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس وقت اسکے معنے جس وقت تک کے ہوتے ہین۔ جیسے تک مین یہاں ہون۔ تمہیں کوئی اندیشہ نہین۔
۵۔ تب یا تو شرطیہ جملون مین شرف کے جواب مین آتے ہین۔ اس لیے ان کو حرف جزا کہتے ہین۔ تب کا استعمال جزا کے لیے کم ہوگیا ہے۔
نہین تو، وگرنہ اور ورنہ بھی شرطیہ معنون مین آتا ہے، جیسے آتے ہو تو آؤ نہیں تو مین جاتا ہون وغیرہ۔
۶۔ گو، اگرچہ، مگر لیکن بلکہ پر استدرا کی معنون مین آتے ہین۔ اسکی تین حالتین ہوتی ہین۔
(۱) قول ما قبل کی مخالف یا
(۲) اسمین تغیر بوجہ توسیع معانی یا
(۳) قول ما قبل کے محدود کرنے کے لیے
حروف مندرجئہ بالا مین مگر، لیکن، پر اکثر گو اور اگرچہ کے جواب مین آتے ہین۔ جیسے کہتے سب ہین زبان سے کوئی نکلتا۔ اگرچہ تم ہر فن مین کمال رکھتے ہو لیکن قسمت کا لکھا کون مٹاسکتا ہے۔ اگرچہ وہ پشتینی امیر ہے مگر مزاج فقیرون کا سا پا یا ہے۔ گو وہ بظاہر خوش ہے لیکن دل کا مالک اللہ ہے۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
چکور اور شہباز سب اوج پر ہین
مگر ایک ہم ہین کہ بے بال و پر ہین
کم تو کیا ہوتا بلکہ اور بڑھ گیا۔
دلے۔ دلیک، لیک بجائے نظم مین استعمال ہوتے ہین۔
پر کا مخفف ہپ (جسے اہل لکھنو پَہ بالفتح اور اہل دلی پہ بالکسر بولتے ہین)
بول چال کے فقرون مین نظم مین اکثر آتا ہے جیسے
سمجھ ہم کو آئی پہ نا وقت آئی
اگرچہ اور گو کے جواب مین تو بھی اور تہم بھی استعمال ہوتے ہین۔
سو بھی کبھی ان معنون مین آتا ہے جیسے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائین سو وہ بھی نہوا
۷۔ حروف عطف جو استثنا کے لیے آئے ہین یہ ہین۔ الّا، مگر اور بعض اوقات۔ لیکن جیسے سب آئے مگر احمد نہ آیا۔ سب نے حامی بھری الا اس بندنے۔
۸۔ حروف علت جو علت یعنے سبب کے ظاہر کرنے کے لیے عموماً استعمال ہوتے ہین یہ ہین۔
کہ، کیونکر، اس لیے کہ، اس واسطے کہ، تاکہ، لہذا۔ جیسے کوشش کیے جاؤ کہ اسی مین کامیابی کا راز ہے۔ محبت پیدا کرو کیونکر عالم اسی پہ قائم ہے۔ ان سے ضرور ملو اس لیے کہ ان سے ملنا باعث سعادت ہے۔ وہ خود گیا تاکہ سارا معاملہ اپنی آنکھون سے دیکھ لے۔
اس لیے اور لہذا چونکہ جواب مین آیا کرتے ہین جیسے
چونکہ وہ ناراض ہیں لہذا میں بھی ان سے نہیں ملتا۔
کبھی جو علت کے لیے آتا ہے جیسے
فقیر کے دل مین اسکی کچھ ایسی محبت ہے جو ایسے وقت مین بھی اسی کا دم بھرتا ہے۔
۹، جیسا (جیسے) اور گویا بعض وقت عطف کا کام دینے اور صرف تشبھیر یا مقابلہ کے لیے آتے ہین جیسے کہ وہ لکڑی اس طرح رکھی تھی جیسے کوئی انسان کھڑا ہو۔ ہرگز ہوا اسکو نہین لگتی گویا فانوس اسکی آسمان ہے (باغ و بہار)
۱۰۔ کہ حرف بیانیہ ہے، اور ہمیشہ دو جملون کے ملانے کے لیے آتا ہے۔ جیسے مین سمجھا کہ اب وہ نہ آئے گا۔
یہ حرف عموماً مقولہ کے بعد آتا ہے یا مقصد، ارادہ، امید، خواہش، رحجان، حکم، نصیحت یا مشورہ، ڈر، اجازت، کوشش، ضرورت یا فرض کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے
میرا ارادہ ہے کہ اب یہاں سے چل دون، مین نے کہا تھا تمہارے یہاں رہنے کی ضرورت نہین۔
مین نے کہا تھا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
ہنس کے ستم ظریف نے مجھکو اٹھا دیا کہ یون
تم کو لازم ہے کہ اب وہان نہ جاؤ۔ اسے چاہیے کہ ایسا نہ کرے۔ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ خانہ نشین ہوجائے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ نہ آجائے۔ اگر اسکی یہ آرزو ہے کہ اس بارے مین کامل تحقیق کرے تو کسی ماہر فن سے ملنا چاہیے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اب چل دو وغیرہ۔
کبھی ضمیر موصولہ کے بعد آتا ہے۔ جیسے جو رائے کہ تم نے ظاہر کی وہ صحیح نہین ہے۔ اس طرح جب کے ساتھ بھی مل کر آتا ہے۔ جیسے وہ یہاں نہین ہے تو تمہین ایسا کرنا لازم نہین۔
حروف تخصیص
حروف تخصیص یا حصہ مین ہی کا مفصل ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ تو کے متعلق البتہ یہان کسی قدر بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
(۱) تاکید فعل جیسے سنو تو۔ کہو تو وغیرہ
(۲) تکیمل مقصد جیسے یہ کہکر وہ تو چلے گئے۔ سارا سامان مہیا کرکے وہ تو الگ ہوگئے۔ یعنے جو کاام ان کے ذمہ تھا اس کی تکمیل کردی۔
(۳) جو خاص قسم کا زور ظاہر کرتا ہے۔ جیسے، جسے تم تلاش کرتے تھے وہ مین ہی تو ہون۔
(۴) دھمکی کے لیے۔ جیسے، دیکھو تو وہ کیسے کرتا ہے۔
ان معنون مین اکثر سہی کے ساتھ مل کر آتا ہے۔ جیسے آئے تو سہی۔
یہ حروف تخصیص ہمیشہ ان الفاظ کے متصل آتے ہین جن کی تخصیص یا تاکید مقصود ہوتی ہے۔ سوائے ضمیر متکلم (مین) کے جبکہ اسکے ساتھ علامات فاعل نے آئے۔ اس صورت مین نے ان کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ جیسے، مین نے ہی کہا تھا۔ بائی حالتون مین ہمیشہ متصل آتا ہے۔ جیسے اس نے کہا تھا وغیرہ۔
تو بھی ہمیشہ اس لفظ کے ساتھ جس کی تخصیص کرتا ہے، مگر جب علامات فاعل و مفعول و اضافت یا حرف ربط آتے ہیں تو ان کے بعد آتا ہے۔ جیسے، تم کو تو خبر تک نہ ہوئی۔ مین نے تو پہلے ہی کہدیا تھا۔ اس کا تو کام ہی تمام ہوگیا۔
تو اور ہی مل کر بھی آتے ہین۔ جیسے، یہ مین ہی تو تھا۔ تم ہی تو تھے۔
ہو تو ہو مین پورے فقرے کے ساتھ تو خاص معنی رکھتا ہے۔ یہ اس وقت کہتے ہین جبکہ کسی امر کے متعلق آخری چارہ کار بتانا مقصود ہو۔ جیسے
موت ہی سے کچھ علاج درد فرقت ہو تو ہو
غسل میت ہی ہمارا غسل صحت ہو تو ہو
تکرار الفاظ
تکرار لفظی اردو زبان کی بڑی خصوصیات مین سے ہے اور اس لیے ہم نے یہ مناسب خیال کیا کہ اس خصوصیت کا ذکر مختصر طور پر علیحدہ کیا جائے۔
اردو مین تمام اجزائے کلام (یعنے اسم صفت، ضمیر، فعل تمیز فعل) سوائے حروف ربط و عطف کے ایک ہی ساتھ مکرر استعمال ہوسکتے ہین۔ الفاظ کے دہرانے سے ہر ایک کے معنے پیدا ہوجائے ہین نیز اختلاف، زور، تاکید یا مبالغے کا اظہار ہوتا ہے۔
۱۔ اسم کی تکرار سے ہر ایک کے معنی پیدا ہوتے ہین۔ مگر وہ سب پر شامل ہوتا ہے جیسے گھر گھر عید ہے۔ یعنی ہر گھر مین
کبھی یہ اضافت کے ساتھ آتا ہے، یعنے وہ اسم جس کی تکرار ہوتی ہے وہ مضاف واقع ہوتا ہے۔ جیسے میرا رواں رواں اس کو دعا دے رہا ہے۔ (یعنی ہر ایک رواں)
بعض وقت اضافت کے ساتھ بھی ہر ایک کے معنے میں آتا ہے مگر سب پر شامل نہین ہوتا۔ مثلاً وہ برس کے برس آتا ہے یعنی ہر برس۔
۲۔ کبھی مختلف کے معنے نکلتے ہین جیسے ملک ملک کا جانور وہاں جمع تھا (یعنی مختلف ملکوں کے جانور)
۳۔ کبھی اسم کی تکرار سے زور مبالغہ یا تاکید نکلتی ہے جیسے، دل ہی دل مین کڑھتا رہا، لیلٰی لیلٰی پکارتا رہا۔
(ا) یہ استعمال اکثر ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ بعض اوقات جب پہلا اسم جمع ہو تو بغیر ہی کے بھی آتا ہے جیسے ہاتھوں ہاتھ، راتوں رات۔
(ب) بعض اوقات پہلا اسم اضافت کے ساتھ آتا ہے یعنے دونوں کے بیچ میں اضافت ہوتی ہے۔ جیسے اتنا پڑھا مگر بیل کا بیل ہی رہا۔ یا جاہل کا جاہل ہی رہا۔ یا آدمی کیا ہے دیو کا دیو ہے۔ یا ڈہو کا ڈہو۔
(ج) بعض اوقات اس قسم کی تکرار سے کل کے معنی ہوتے ہین۔ جیسے خاندان کا خاندان (یعنی کل خاندان)، قوم کی قوم، شہر کا شہر ہی اسی مین مبتلا ہے۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایک شعر کیا غزل کی غزل مرصع ہے۔
(د) کثرت کے معنی بھی آتے ہین۔ جیسے درختون کے جھنڈ کے جھنڈ کھڑے تھے۔ دیوان کے دیوان پڑھ ڈالے۔ جنگل کے جنگل کاٹ ڈالے۔ خم کے خم پی گیا۔ ہرنون کی قطاریں کی قطاریں کھڑی تھین۔
ف۔ یہاں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب تکرار الفاظ اضافت کے ساتھ کثرت کے معنون مین آتا ہے تو کے کا عمل اسما پر نہیں ہوتا۔ جیساکہ دوسرے حالت مین ہونا چاہیے۔ یعنے قطارون کی قطاروین یا دیوانون نہیں کہین بلکہ دیوان اور قطارین اپنی اصل حالت پر قائم رہیں گے اور کے کا عمل ان پر نہیں ہوگا۔
(ہ) کبھی اس تکرار سے کام جاری رہنا پایا جاتا ہے جیسے سڑک کے کنارے کنارے چلا جا۔
(و) بعض اوقات تکرار لفظی سے (اضافت کے ساتھ) تقلیل ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے رات کی رات ملاقات رہی۔
سینے مین قلزم کو لے قطرے کا قطرہ رہا
بل بے سمائی تری اف رے سمندر کے چور
وہ بات کی بات مین بگڑگیا (یعنی ذرا سی بات مین) وقت وقت یعنے فی الفور۔
(ز) کبھی ایک جملے مین دو لفظون کا تکرار ہوتا ہے اور اس سے ہر دو کی شمولیت ظاہر ہوتی ہے جیسے روپیہ کا روپیہ گیا اور عزت کی عزت (یعنے روپیہ اور عزت دونون گئے) وہ آدمی کا آدمی ہے اور بندر کا بندر یعنے آدمی بھی ہے اور بندر بھی۔
(ح) مثل ہے کہ "دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی" یعنے دودھ الگ اور پانی الگ۔ (پورا انصاف) کھوٹے کھرے کی پوری پرکھ۔
(ط) کبھی مگر بہت کم پہلے اسم کے ساتھ آتا ہے اور اسکے معنے مبالغہ یا زیادہ یا جاری رہنے کے ہوتے ہین جیسے دوڑا دوڑا گیا۔ مارا مارا پھرا۔
۴۔ صفات کی تکرار سے بھی یہی معنی پیدا ہوتے ہین یعنی اسم کی طرح ہر ایک کے معنی دیتے ہین۔ جیسے شہر کے سب بڑے بڑے لوگ وہاں موجود تھے۔
چھوٹے چھوٹے ایک طرف ہوجائین اور بڑے بڑے ایک طرف۔
(۲) بعض اوقات اختلاف (یعنے مختلف) ظاہر ہوتا ہے جیسے نئے نئے کام، انوکھی انوکھی باتین (مختلف قسم کی)
(۳) اظہار مبالغہ کے لیے جیسے میٹھی میٹھی باتین، کھٹے کھٹے آم، کالا کالا رنگ، سفید سفید دانے، اجلے اجلے کپڑے۔
کبھی پہلی صفت کے ساتھ اضافت بھی آتی ہے۔ جیسے ننگے کا ننگا، بھوکے کا بھوکا وغیرہ۔
(۴) کبھی تقلیل کے لیے جیسے دال میں کچھ کالا کالا ہے۔ اس میں مجھے سفید سفید دکھائی دیتا ہے۔
۵۔ اسی طرح اعداد بھی بہ تکرار آتے ہین۔
(ا) ہر ایک کے معنے مین جیسے انکو چار چار روپیہ ملے۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ استعمال حالیہ معطوفہ کرکے کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ جیسے دو دو کرکے گئے۔ ایک ایک کرکے آئے۔
(ب) جب عدد مرکب ہو تو صرف آخری حصے کا تکرار ہوتا ہے جیسے ایک روپیہ آٹھ آنے دے۔
(ج) آٹھ روپیہ دیدو اور آٹھ آٹھ روپئے دیدو۔ ان دونوں مین فرق ہے۔ پہلے جملے کا مطلب ہے کہ کل روپئے جو دینے کے ہین آٹھ ہین۔ دوسرے جملے مین یہ معنی ہے کہ فی کس آٹھ روپیے دو۔
اسی طرح چار چار پہر بیٹھا رہتا ہے۔ یعنے ہر دفعہ جب وہ آتا ہے تو چار پر گزار دیتا ہے۔ تین تین گھنٹے کے بعد کھاؤ یعنے ہر تین گھنٹے کے بعد۔ آٹھ آنے کے ٹکٹ لاؤ اور آٹھ آٹھ آنے کے ٹکٹ لاؤ۔ ان دو جملون کے معنون مین بھی فرق ہے۔ پہلے کے یہ معنے ہین کہ آٹھ آنے کے ٹکٹ لاؤ۔ دوسرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک ٹکٹ آٹھ آنے کا ہو۔
۶۔ضمائر بہ تکرار آتی ہین۔
(ا) ہر ایک معنون مین۔ جیسے، وہ اپنے اپنے گھر سدہارے۔
(ب) مختلف معنون مین۔ جیسے، جو جو جا کا طالب ہو حاضر ہوجائے۔ اس نے کیا کیا نہ کہا اور مین نے کیا کیا نہ سنا۔
(ج) کوئی اور کچھ کی تکرار سے کمی یا تفصیل ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے اب بھی کوئی کوئی مل جات اہے۔ کچھ کچھ درد باقی ہے کبھی بیچ میں حائل ہوتا ہے۔ جیسے کوئی نہ کوئی مل رہے گا۔ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہین۔
۷۔ افعال کی تکرار حالیہ تک محدود ہے۔ اور اردو زبان کے محاورے مین اسکا استعمال بکثرت ہے۔
(۱) افعال کی تکرار محض۔ جیسے۔ یہ لکڑیان بہ بہ کر آتی ہین۔ وہ پوچھتے پوچھتے یہاں تک پہنچ گیا۔ مکھیان پھولون پر آکر بیٹھتی ہین۔
(۲) بعض افعال کی تکرار سے مبالغہ یا کثرت ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے مین کہتے کہتے تھک گیا۔ روتے روتے اسکی آنکھیں سوچ گئین۔ وہ رو رو کر اپنا حال کہنے لگا۔ ہنستے ہنستے پیٹ مین بل پڑ گئے۔ پانی پیتے پیتے پیٹ اپھر گیا۔
مرے آشیانے کے تو تھے چار تنکے
مکان اڑگئے آمد حسیان آتے آتے
تن تن کے بیٹھا تھا۔ خدا خدا کرکے اب رستہ پر آیا ہے۔
(۳) کبھی فعل کی طوالت اور جاری رہنے کو بتانا ہے جیسے اسی طرح چلتے چلتے منزل مقصود کو پہنچ گئے۔ آم پڑے پڑے سڑگئے۔ سیکھتے سیکھتے آہی جاتا ہے۔ لکھتے لکھتے خط اچھا ہو ہی جاتا ہے۔
(۴) کبھی مختلف کے معنے دیتا ہے جیسے وہ پینترے بدل بدل کر آتا ہے یا نام بدل بدل کر یا بھیس بدل بدل کر آتا ہے۔ شعر یا قصے سنا سنا کر خوش کرتا ہے، کھانے کھلا کھلا کر ہلالیا۔
(۵) بعض اوقات آہستہ آہستہ یا رفتہ رفتہ کے معنے ہوتے ہین خاص کر ہوتے ہوتے تو ان معنون مین بہت آتا ہے۔ علاوہ اسکے دوسرے افعال بھی ان معنون مین آتے ہین۔ جیسے۔
نہیں دل لگی داغ یارون سے کہدو
کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے
(۶) دیکھتے دیکھتے دفعتہً یا بہت کم عصے کے معنون مین آتا ہے۔ جیسے۔ وہ دیکھتے دیکھتے ہی بڑا آدمی ہوگیا۔ (یعنےئ ہمارے دیکھتے دیکھتے یعنی بہت کم عرصے مین یا یکایک)
(۷) کبھی تکرار سے یہ معنے پیدا ہوتے ہین کہ ایک کام ہونے ہی کو تھا کہ دفعتہً رک گیا۔ جیسے وہ کہتے کہتے رک گیا۔ وہ جاتے جاتے رہ گیا۔
(۸) جب کسی کام کے اثنا مین رکاوٹ ہوجاتی ہے تو بھی حالیہ کا تکرار آتا ہے۔ جیسے وہ پڑھتے پڑھتے سوگیا۔ وہ قصہ سناتے سناتے یکبار چپ ہوگیا۔
اجل مر رہی تو کہان آتے آتے
(۹) بعض اوقات پہلا فعل مذکر ہوتا ہے اور دوسرا مونث جیسے دیکھا دیکھی، رواردی۔
(۱۰) بعض اوقات فعل لازم اور اسی کے متعدی کے حالیہ محاورے مین مل کر آتے ہین جیسے، خوامخواہ بیٹھے بٹھائے مصیبت مین پھنس گئے۔ مگر یہ سماعی ہے ہر فعل استعمال اس طرح نہیں ہوسکتا۔
دونون مل کر کبھی صفت کا کام بھی دیتے ہین جیسے سنی سنائی باتون پر نہ جاؤ۔
(۱۱) بعض اوقات لازم یا متعدی کا حالیہ دوسرے فعل لازم کے ساتھ آتا ہے اور انکے درمیان نہ صرف نفی واقع ہوتا ہے۔ جیسے مارے نہ مرے۔ مٹائے نہ مٹےِ اس سے بھی کلام مین زور پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے۔
(۱۲) کبھی زور اور تاکید کے لیے ماضی مثبت اور منفی کبھی تکرار ہوتا ہے لیکن حرف پز بیچ مین ضرور آتا ہے۔ جیسے گیا پر گیا، نہوا پر نہوا۔
(۱۳) کبھی خاص طور پر متوجہ کرنے کے لیے امر کو بہ تکرار بولتےہ ین جیسے دیکھو دیکھو یہ کیا ہورہا ہے۔ سنو سنو یہ کوئی گارہا ہے۔ اسی طرح ہٹو ہٹو۔ بچو بچو۔
۸۔ تمیز فعل بھی زور اور تاکید کے اظہار کے لیے بہ تکرار آتا ہے جس کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ہے۔
جیسے، جہان جہان، جون جون، روز روز، ہمیشہ ہمیشہ، ہولے ہولے، ہرگز ہرگز۔ کبھی کبھی، کہان کہان، کہین کہین۔ کبھی نفی کے ساتھ جیسے کہین نہ کہین، کبھی نہ کبھی۔
(۱) انھین معنون مین حرف اضافت کے ساتھ بہ تکرار آتا ہے جیسے وہان کا وہین رہ گیا۔ اسی طرح یہان کا یہین یا جہان کا تہان۔ یہ سب تکرار فعل (مکان) مین خاص زور پیدا کرنے کے لیے استعمال کیے جات ہین۔
(یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حرف اضافت اس اسم کے مطابق ہوگا جس سے یہ متعلق ہے۔ یعنے اگر مونث کے لیے ہے تو یہان کی یہین ہوگا۔ اور اگر مذکر کے لیے ہے تو یہاں کا یہین)
اسی طرح جیسے جیسے، کیسے کیسے وغیرہ بھی مستعمل ہین۔
۹۔ حروف ربط بھی اسی طور پر محاورے مین بہ تکرار آتے ہین اور ان معنون مین ایک خفیف سا تغیر پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے اِدھر اُدھر وہ تھے اور بیچ بیچ مین ہم۔
کبھی بیچ زیادہ زور دینے کے لیے اور عین وسط کے ظاہر کرنے کی خاطر پہلے کی جمع لاتے ہین یعنے بیچون بیچ۔ جیسے صحن کے بیچوں بیچ یا تالاب کے بیچوں بیچ۔
اسی طرح۔ میرے پیچھےپیچھے آؤ۔ وہ آگے آگے جارہے تھے۔ وہ ان کے ساتھ ساتھ تھے۔
۳۔ نحو ترکیبی
جملوں کی ساخت کے باب مین
مفرد جملے
(جملے کے اجزا)
اردو مین بھی دنیا کی اور زبانون کی طرح جملے کے اصل عنصر زد ہین۔ ایک مبتدا اور دوسرا خبر۔ ان مین
مبتدا۔ وہ شخص یا شے جس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
خبر۔ جو کچھ اس شخص یا شے کی نسبت ذکر کیا جائے۔
اردو من مبتدا مفصلہ ذیل کے اجزائے کلام ہوسکتے ہین۔
(۱) ایک اسم یا ضمیر حالت فاعلی مین۔
(۲) دو یا دو سے زائد اسم یا ضمیر حالت فاعلی مین۔
(۳) صفت یا اعداد حالت فاعلی مین۔
(۴) مصدر۔
(۵) کوئی فقرہ یا جملہ
مثالین
(۱) احمد آیا۔ وہ گیا۔
(۲) شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہین۔ ہم تم مل کر جائین گے۔
(۳) دو وہان ہین چار یہان۔ کوئی شریف ایسی بات نہ کہے گا۔
(۴) مجھے جانا ہے۔ رونا اچھا نہین۔
(۵) دہلی پہنچنا آسان نہین۔
کامل جملہ جوکہ کے ساتھ بطورمبتدا کے استعمال ہوتا ہے، اسکا ذکر مرکب جملے کے بیان مین آئے گا۔ بعض اوقات اسم کی حالت ظرفی مین جو تک کے ساتھ آتا ہے مبتدا ہوتا ہے۔ جیسے تنکا تک نہ رہا۔ گھر تک جل گیا۔
بعض اوقات مبتدا مخذوف ہوتا ہے۔
(۱) جہان قرینہ سے آسانی کے ساتھ مبتدا معلوم ہوسکتا ہے۔ مثلاً خطاب یا ستفہام مین جیسے وہ گیا۔ ان گیا۔
(۲) جبکہ صورت فعل سے فاعل ظاہر ہو۔ جیسے سیّد ہون، مظلوم ہون، میرے حال پر رحم کرو، جاؤ اپنا کام کرو۔
(۳) ضروف الامثال اور سی قسم کے دوسرے جملہ مین اختصار کے خیال سے۔ جیسے ناج نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
خبر، مفصلہ، ذیل اجزائے کلام ہوسکتے ہین۔
(۱) فعل جیسے، مین کہتا ہون۔
(۲) اسم یا ضمیر۔ حالت فاعلی یا اضافی وغیرہ مین جیسے، اس کا نام احمد ہے۔ وہ ملکہ کا ہے۔ وہ چھت پر ہے۔ یہ گھر کس کا ہے۔ یہ رعب و داب کسی مین نہین۔
(۳) صت۔ جیسے وہ شخص بڑا جری اور دلیر ہے۔
(۴) عدد۔ جیسے اس کا قد چھ فٹ ہے۔
(۵) کوئی لفظ یا فقرہ جو بطور اسم استعمال کیا جائے۔ جیسے، مین شاہ ایران کا بھیجا ہون۔
فعل خبر بھی بعض اوقات محذوف ہوجاتا ہے۔ وہ جہان جہان گیا لوگوں نے سر آنکھون پر بٹھایا، کسی نے مذہبی پیشوا سمجھ کر اور کسی نے محب وطن مان کر۔ تیرے سر پر خاک۔
فعل ناقص جسے ربط سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ جو مبتدا اور خبر کے ملانے کے لیے آتا ہے کبھی کبھی محذوف ہوتا ہے۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
(ا) مفرد بیان مین جہان اسکا حذف آسانی سے سمجھ مین آسکتا ہے۔ جیسے اسے نہ کسی کے نفع سے غرج ہے نہ ضرر سے کام۔ تیرے سر پر خاک۔ ایک کا نام احمد ہے دوسرے کا محمود۔
(ب) مقابلہ مین بھی اکثر محذوب ہوتا ہے جیسے ایسی بنی سنوری جیسے دولہن۔
(ج) منفی جملون مین۔ جیسے اسے خبر تک نہین۔
رف۔ ایسے جملون مین فعل ناقص کا حذف صرف بظاہر ہے کیونکہ نہین، جیسے پہلے بیان ہوچکا ہے، نہ اور فعل ناقص کی قدیم صورت آہین سے مرکب ہے)
(د) ضرب الامثال وغیرہ مین عموماً محذوف ہوتا ہے جیسے غریب کی جورو سب کی بھابھی۔ چوری کا گڑ میٹھا۔
(ہ) نظم مین بھی عموماً محذوب ہوتا ہے۔
ربط اگرچہ فعل ناقص ہوتاہے اور خاص کر ہونا لیکن کبھی کبھی ہونا بطور فعل لازم یعنی فعل صحیح بھی آتا ہے۔ جیسے خدا ہے۔ یعنی ہے ناقص یا ربط نہین ہے۔ تمام زبانون مین یہی حال ہے، اور اس لے اسکی دو صورتون مین امتیاز کرنا ضرور ہے۔
جیساکہ اور زبانون مین ہے اسی طرھ اردو مین بھی مبتدا اور خبر کی توسیع مختلف الفاظ کے اضافہ سے ہوتی ہے۔ یہ الفاظ ازرو سے قواعدان کے متعلقات ہوتے ہین۔ جس طرح توسیع ہوتی ہے اسی طرح الفاظ کے اضافہ سے بعض اوقات انکے معنی محدود بھی ہوجاتے ہین۔
مبتدا کی توسیع
۱۔ اسم سے یا ایسے ایم سے جو بطور بدل کے آتا ہے۔ ہوتی ہے۔ مثلاً
(ا) ساون کا مہینہ آگیا۔ مولوی حمید الدین پروفیسر عربی میور سنٹرل کالج تشریف لائے۔
(ب) مجھے کپڑون کے دو جوڑے چاہئین۔ یہ زبان کا روز مرہ ےہ۔ اور سے بھی بدل مبدل منہ سمجھنا چاہیے۔
(ج) سب گھر والے کیا چھوٹے بڑے، اس سے محبت کرتے یہن۔ یہا کیا محاورہ مین توضیح و توسیع کے لیے استعمال ہوا ہے۔
(د) مین آپ کا ادنیٰ غلام ہر وقت آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہون۔ یہا مین کا بدل "آپ کا ادنیٰ غلام" ہے۔
۲۔ مبتدا کی توسیع صفت سے بھی ہوتی ہے۔ اس صورت مین ہمین صفت کی دونون صورتین (جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے) یعنی توصیفی او خبر مین امتیاز کرنا ضرور ہے۔
(۱) توصیفی صورت مین صفت ام کے قبل آتی ہے اور دونون مل کر ایک خیال قائم کرتے ہین جیسے یہ خوبصورت تصویر ملکہ کی ہے۔
(ب) صورت خبریہ مین اسم کے بعد آتی ہے اور اسم سے الگ خیال کی جاتی ہے، گویا جملہ کی خبر ہے۔ جیسے یہ مصیبت ٹل جائے تو مین بے کھٹکے کام کرون۔
۳۔ مبتدا کی توسیع ضمیر سے بھی جو بطور صفت کے مستعمل ہو۔ ہوتی ہے جیسے، یہ بچہ بڑا شریر ہے۔ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔
۴۔ اعداد سے ۔ جیسے۔ دو سو آدمی کھڑے ہوئے۔ اتنے مین دونون بھائی آپہنچے۔
۵۔ اضافی حالت سے۔ جیسے اب میرے دل کا ارمان نکلا۔ مدرسہ کے سارے لڑکے حاضر کیے گئے۔
بعض اوقات مضاف الیہ محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے مجھے بڑی فکر تھی کہ اتنی تھوڑی تنخواہ مین تمہاری گزر کیسے ہوتی ہوگی (یعنی اسکی بڑی فکر تھی)
۶۔ حالیہ سے۔ جیسے ایک اجڑا گاؤن۔ اڑتا ہوا پرندہ۔ مرا ہوا جانور۔
بعض اوقات اسکا استعمال بھی بطور خبر کے ہوتا ہے جیسے، سڑک پر ایک جانور سسکتا ہوا پڑا ہے۔
اسی طرح خبر کی توسیع بھی ہوتیہ ے۔
۱۔ اسم، ضمیر یا کسی لفظ یا فقرے سے جو بطور اسم کے استعمال ہو۔
(ا) مفعول قریب سے، جیسے تم میری بات سنو، س نے کچھ نہ کہا۔
بعض اوقات فقرہ یا جملہ بھی مفعول ہوتا ہے۔ مثلا حالیہ معطوفہ کے ساتھ جیسے وہ مال و اسباب لٹتا دیکھکر جان سلامت لے گیا۔ شہزودہ کو قریب آتے دیکھ کر استقبال کے لیے چلا۔ (جس طرح مبتدا کی توسیع ہوتی ہے۔ اسی طرح مفعول کی بھی ہوسکتی ہے۔ مثلاً آپ کو میرے کپڑون کو ہاتھ نہ لگائیے۔ انکو گھر مین اکیلا نہ چھوڑیے)
(ب) مفعول بعید سے۔ جیسے، اس نے بیٹے کو پیغام کہا بھیجا۔
(ج) اسم یا ضمیر کی کسی حالت سے، جس سے خبر کی بلحاظ وقت، مقام طریقہ وغیرہ توسیع ہوتی ہے۔
جیسے، اسکے دل سے سب کدورت رفع ہوگئی۔ اس نے یہودی کو مسجد مین آنے دیا۔ وہ درخت کی پھننگ تک چڑھ گیا۔
۲۔ خبر کی توسیع صفت سے بھی ہوسکتی ہے۔ جیسے اس صراحی کا پانی ٹھنڈا کیجئے۔ میرے کپڑے صاف کرو۔
جب خبر اسم ہوتی ہے تو اعداد سے توسیع ہوسکتی ہے۔ جیسے احمد کے چار لڑکے ہین۔ یہ مکان ۱۶ فٹ اونچا ہے۔
۳۔ حالیہ معطوفہ سے۔
جیسے اس نے پریشان ہوکر گھر چھوڑ دیا۔
۴۔ حالیہ سے۔
جیسے اسے شہر مین رہتے ہوئے کئی سال گزرے۔ حامد اسے لیے ہوئے پہنچا۔ وہ کھیلتا کودتا گھر پہنچ گیا۔
۵۔ حروف ربط یا جار سے مع اسکے اسم کے۔
جیسے سب کے سب اسکے پاس حاضر ہوئے۔
۶۔ تمیز فعل سے۔
جیسے وہ بہت ناراض ہوا۔ وہ سہج سہج چلتا ہے۔ مین نے جلدی جلدی لکھ دیا۔
مطابقت
مطابقت تین قسم کی ہے۔
۱۔ صفت کی (جو توصیفی ہو) اسم ہے۔
۲۔ صفت کی (جو جز و خبر ہو) اسم ہے۔
۳۔ جملے کے خبر کی (خواہ فعل ہو یا صفت) مبتدا ہے۔
۱۔ صفت توصیفی، کی مطابقت موصوف سے پہلے بیان ہوچکی ہے۔ سوائے ان صفات کے جن کے آخر مین آ ہوتا ہے جس مین تبدیلی واقع ہوتی ہے (مگر مونث مین صرف ایک ہی صورت ہوتی ہے) باقی تمام صفات ہر حالت مین ویسی ہی رہتی ہین۔ اور ان مین کسی قسم کی تبدیلی نہین ہوتی۔ اور صفت موصوف کے مطابق ہوتی ہے۔ اور حرف اضافت کی تذکیر و تانیث و وحدت و جمع عموماً مضاف کے مطابق۔ لیکن جب ایک صفت کئی مختلف ابجنس اسما کی تعریف کرے یا ان کے ساتھ اضافت آئے تو مطابقت مین اختلاف ہوتا ہے۔
(۱) صفت یا مضاف جنس مین قریب کے اسم سے مطابق ہوتی ہے۔ جیسے اسکی بہو اور بیٹے۔ تمھارا نام اور ننگ و ناموس۔ مجھے اسکی چھچھوری باتون اور کامون سے کوئی غرض نہین۔
(۲) بعض اوقات اگرچہ قریب تر کا اسم مونث ہوتا ہے مگر چونکہ مذکر کی شان بڑی سمجھی جاتی ہے، اسلیے مطابقت مذکر سے ہوتی ہے۔ جیسے اسکے بی بی بچے آگئے ہین۔ مگر یہ استعمال کم ہے۔
(۳) لیکن صفت جب اسم کے ساتھ بطور خبر کے آئے، بشرطیکہ اسم کے ساتھ علامت مفعول موجود ہو، تو اسم بلا لحاظ جنس و تعداد واحد استعمال ہوگا۔ جیسے، مین نے ان لوگوں کو بہت کالا پیا۔ اگر نہو تا صفت جمع مین آتی جیسے مین یہان کے آم میٹھے دیکھے۔ یہان کے لوگ کالے پائے۔
(۴) صفت جو تمیز فعل کے طور پر استعمال ہوتی ہے اس کا اثر فعل کی تذکیر و تانیث پر نہین ہوتا جیسے تم نے اچھا کیا جو اسے ڈانٹا۔ مین نے اسے بہت خوش کیا۔ تم نے خوب کیا۔ یہان یہان خوب، خوش اور اچھا کی تذکیر و تانیث سے کچھ بحث نہین ہے۔
۲۔ (ا) مگر ذیل کی مثال مین باوجود مفعول کے صفت مونث ہے۔
تم نے مجھ نکمی کو کیون دکھ دے رکھا ہے۔
لیکن یہان نکمی مجھ کا بدل ہے اور بدل جملہ کی ترکیب سے متاثر نہین ہوسکتا۔
اور یہی وجہ ہے کہ جملے کی باقی حالت مین فرق نہین آیا اور فعل حسب معمولی واحد مذکر ہے۔
(ب) ایسی حالت مین حالیہ نا تمام کی دونون صورتین جائز ہین۔ جیسے
وہ گاؤن کو جلتا دیکھکر بھاگ گیا۔ مین نے ہرن کو دوڑتے دیکھا۔
فرق یہ ہے کہ جب ایسی صورت مین حالیہ نا تمام نطور خبر کے آئے گا تو ے کے ساتھ استعمال ہوگا اور جب صفت تو ا کے ساتھ۔
جب اسم حالت فاعلی مین ہوگا تو صٖت خبر یا حالیہ اسم کے ساتھ جنس و تعاد مین مطابق ہوگا۔
جیسے، وہ ہانپتے کانپتے میرے پاس پہنچے۔ اپنا دل میلا نہ کرو۔ اپنی پوشاک میلی نہ کر۔
۳۔ فعل خبر یہ صفت یا اسم حتی الامکان حنس و تعداد وغیرہ مین فاعل کے مطابق ہونا چاہیے۔
جیسے سب دولت ڈھونڈھتے ہین۔ میرے پاس لکھنے پڑھنے کا سامان نہین ہے۔ تحصیل علم سے انسان مخلوق مین ہر دلعزیز ہوجاتا ہے۔
(۱) جب مبتدا کسی فعل کا جملہ یا جز و جملہ ہوتا ہے تو خبر ہمیشہ واحد ہوتی ہے۔ جیسے دشمنون سے بھی محبت کرو۔ اچھا قول ہے مگر عمل دشوار ہے۔ اسے دیکھکر میری زبان سے بے اختیار احمق نکل جاتا ہے۔
(۲) جب مبتدا تعظیمی ضمیر، تعظیمی جمع یا تعظیمی لفظ ہو اگرچہ مقصود اس سے فرد واحد ہے، تو خبر اور خبرین نیز تمام توصیفی کلمے جمع ہی ہونگے۔ جیسے آُپ کب تک قیام فرمائین گے۔ یہی مولوی صاحب ہین جن کا مین نے ذکر کیا تھا۔ ہمارے پیر و مرشد یہان نہین ہین۔
(۳) جب فاعل ضمیر جمع ہو اور مذکر مونث دونون کی طرف راجع ہو، تو خبر مذکر ہوگی جیسے زینب نے اپنے شوہر سے کہا کہ اب ہم یہان نہیں ٹھہر سکتے۔
اصرف مین بیان ہوچکا ہے کہ جمع متکلم کی حالت مین بھی مونث کے فعل مذکر ہی استعمال ہوتا ہے۔
(۴) جب مبتدا دو یا دو سے زائد اسم یا ضمائر مختلف اجنس پر مشتمل ہو تو خبر عموماً سب سے قریب کے اسم سے مطابق ہوگی۔
جیسے آدمی کے دو کان، دو آنکھین اور ایک منھ ہے اگر سب کے سب واحد اور ایک جنس کے ہین تو خبر جنس کی تابع ہوگی جیسے اس سے کم ہمتی اور بزدل پیدا ہوتی ہے۔ ایسی باتون سے رعب و وقار جاتا رہتا ہے۔
لیکن اگر ان مین سے کوئی ایک یا ایک سے زیادہ جمع ہین تو خبر جمع ہونی چاہیے (ایسی حالت جمع خبر کے متصل ہونی چاہیے) جیسے اسکے ہوش و حواس جاتے رہے۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
(۵) لیکن جب دو اسم ہون اور آخر مین لفظ دونون یا دونون کے دونون آئین تو فعل جمع گا جیسے مان اور لجچہ دونون مرگئے۔ یا دونون کے دونون مر گئے۔
مگر جب دو یا دو سے زائد اسما فاعل یا مبتدا ہون اور آخر مین سب آئے تو فعل جنس و تعداد مین آخر اسم کے مطابق ہوگا جیسے اس کا مال و اسباب، جاگیر، مکانات سب بگ گئے۔ اس کا مال و اسباب، گھر بار سب بک گیا۔
مگر جب سب کا تکرار حرف اضافت کے ساتھ ہوگا تو سب کا سب واحد سب کے سب جمع مذکر اور سب کی سب جمع موںث واحد جمع کے لیے ہوگا۔
لیکن جب سب کچھ آخر مین آئے گا تو فعل ہر حالت مین واحد ہوگا۔ جیسے مال و اسباب، جاگیر، مکانات سب کچھ بک گیا۔
سب ویسے بھی بطور واحد کے مستعمل ہوتا ہے جیسے یہ سب ان کا قصور ہے۔
آخر مین جب کوئی یا کچھ ہو تو بھی فعل واحد مذکر ہوگا جیسے باپ بیٹا جورو بھائی بہن کوئی ساتھ نہ جائے گا، مال و اسباب باغ و جاگیر کچھ نہ رہا۔
(۶) اسی طرح کے جب اور الفاظ خبر کے قبل متصل آجاتے ہین تو فعل اس لفظ جنس کے لحاظ سے آتا ہے۔ جیسے مار پیٹ گالی گلوج اسکی عادت ہوگئی ہے۔ یہ آلات اور کتابین میری ساری پونجی ہے۔ یہ الفاظ درحقیت جز و خبر ہوتے ہین اور عموماً ترکیب اضافی کے ساتھ آتے ہین۔ یاد رہے کہ یہ صورت افعال ناقصہ کے ساتھ ہوتی ہے۔
(۷) جب مبتدا دو یا زائد ضمائر پر مشتمل ہو جن کی نوعیت الگ الگ ہو یعنی کوئی متکلم ہو کوئی مخاطب اور کوئی غائب تو خبر جمع ہوگی۔
جیسے ہم تم وہان گئے تھے۔ وہ اور مین رستہ بھول گئے۔ مین اور تم وہاں مل کر چلین گے۔ مین اور وہ ساتھ ساتھ آئے۔
(ایسی صورت مین جہاں تک ممکن ہو ضمیر جمع آخر مین لانی چاہیے)
(۸) جب مبتدا اسم جمع ہو تو خبر واحد ہوگی۔ فوج جارہی ہے وغیرہ
(۹) کتابون، اخبارون اور رسالون کے نام گو جمع ہون مگر وہ مثل واحد کے استعمال ہوتے ہین جیسے تعزیرات ہند چھپ گئی کتاب چونکہ مونث ہے اس لیے فعل مونث آیا۔ اسی طرح دولت ہند ہفتہ وار شائع ہوتا ہے۔ چونکہ اخبار مذکر ہے اس لیے فعل مذکر آیا۔
(۱۰) افعال ناقص مین جب مبتدا اور خبر دونون اسم ہون تو فعل مبتدا کے مطابق ہونا چاہیے۔
اگرچہ بعض اساتذہ نے اسکے خلاف بھی کیا ہے لیکن وہ قابل تقلید نہین جیسے
ظلمت عصیان سے میرے بن گیا شب روز حشر
یہاں روز حشر شب بنگئی کہنا صحیح نہو گا۔ اگرچہ اسی استاد نے دوسری جگہ فرمایا ہے
تیغ خمیدہ یار کی لوہے کا پل ہوا
مگر اسکی تقلید درست نہین ہے۔ قاعدہ یہی ہے کہ فعل مبتدا کے مطابق ہوگا۔
(۱۱) بعض اوقات دو واحد اسم ہم جنس یا مختلف الجنس بلا حرف عطف مل کر جمع کی حالت پیدا کرتے ہین، تو ایسی حالت مین فعل جمع مذکر آئے گا۔ جیسے
میان بیوی ہنسی خوشی بسر کرتے ہین۔ اب تو دن رات چین سے گزر رہے ہین۔ گھوڑا گھوڑی کلیلین کررہے ہین۔ باپ بیٹا جارہے ہین۔
(۱۲) بعض صورتون مین جب دو لفظ مع حرف عطف یا بلا حرف عطف مل کر آتے ہین تو عموماً تذکیر و تانیث لفظ آخر کے لحاظ سے قرار دی جاتی ہے۔ جیسے۔
گھوڑا گاڑی بک گئی۔ تمہارے کھانے مین نمک مرچ زیادہ ہوتا ہے۔ قلم دوات رکھی ہے۔ دوات قلم رکھا ہے۔
لیکن نشو و نما اور آب و گل مذکر اور مونث دونوں طرح مستعمل ہین۔ جیسے
خاکساری نے اسی دن روشنی پائی تھی ذوق
آدم خاکی کا جسدم آب و گل پیدا ہوا
شرافت تھی جو آب و گل مین اس کی
چم پر آب سے نشو و نما ساون کی (وزیر)
خط کور وے یار پر نشو و نما ہوتا نہین (ناسخ)
لیکن و نہار (زمانہ کے معنون مین) واحد اور جمع دونون طرح مستعمل ہے۔
اگر یہی لیل و نہار ہے۔ یا اگر یہی لیل و نہار ہین۔ مگر واحد کو ترجیح ہے۔
دن رات، روز و شب جمع استعمال ہوتے ہین۔
(۱۳) ایک صورت خاص رشتہ دارون کے ساتھ مخصوص ہے۔ یعنی رشتہ کے دو اسم بلا حرف عطف آتے ہین۔ ہوتے دونون واحد ہین، مگر چونکہ دو کے ملنے سے جمع کی صورت پیدا ہوتی ہے، دوسرا لفظ باوجود واحد ہونے کے جعم کی صورت مین آتا ہے اور فعل کو بھی اسکی مطابقت لازم ہوتی ہے۔ گویا یہ دونون مل کر ایک لفظ ہین جس کی جمع بنائی گئی ہے۔ جیسے مامون بھانجے لڑ پڑے، چچا بھتیجے بیٹھے باتین کررہے ہین۔ یہ باپ بیٹے ذرا سی بات پر اڑ بیٹھتے ہین۔ مدت ہوئی باپ بیٹوں کا انتقال ہوگیا۔
جب آخر مین دونون کا لفظ آتا ہے تو واحد یا جمع دونون صورتیں جائز ہین۔ جیسے مدت ہوئی بات بیٹا دونون مرگئے یا باپ بیٹے دونون مرگئے۔
ایک وقت یہ ہے کہ جمع کی حالت مین بھی یون ہی بولتے ہین اور اس لیے واحد ار جمع مین تمیز کرنا دشوار ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہین کہ "چچا بھتیجا بیٹھے حقہ پی رہے ہین" تو اگر ایک بھتیجا ہے تو بھی یون ہی کہین گے اور اگر ایک سے زیادہ ہین تو بھی یونہین۔ مگر عام طور پر واحد ہی مقصود ہوتا ہے۔
ہماری رائے مین جب مراد جمع ہو تو حرف عطف اور لانا چاہیے۔ مثلاً جب کہین "چچا بھتیجے بیٹھے حقہ پی رہے تھے" تو اس سے مراد واحد ہو۔ لیکن جب تخصیص کے ساتھ کئی بھتیجون کا جتانا مقصود ہو تو یون کہنا چاہیے کہ "چچا اور بھتیجے بیٹھے حقہ پی رہے ہین" یہ فرق نازک ہے مگر ضرورت کو پورا کرسکتا ہے۔
(۱۴) جب خبر مصدر ہو تو اگر مبتدا مذکر ہے تو مصدر کا الف یا ے معروف سے بدل جاتا ہے۔ اور اگر مبتدا مذکر ہے تو الف قائم رہتا ہے۔ متاخرین لکھنو ہر حالت مین مصدر کو اصلی ہی صورت مین رکھتے ہین۔ اگرچہ اساتذہ لکھنو اسکے پابند نہین۔ جیسے
جانا یہ زلف کف مین لینی
ہے سانپ کے منھ مین انگلی دینی (نسیم لکھنوی)
سرشک دید ہائے تر سے دھو ڈالون گا عصیان کو
انھین چشموں سے اے دل آبرو محشر مین پانی ہے (امانت)
خواب مین وہ آنے کا کیون نہ اب کرے وعدہ
یعنے کب جدائی مین مجھکو نیند آئی ہے (ناسخ)
اب تو میرے حال پر لطف و کرم فرمائیے
ہوچکی ہوئی جو تھی جور و جفا دو چار دن (صبا)
(۱۵) بعض عربی اسما ہندی مصادر کے ساتھ اس طرح مل کر آتے ہین کہ وہ بالکل انکا جز ہوجاتے ہین لہذا ان اسما کو فعل کی تذکیر و تانیث مین مطلق دخل نہین ہوتا۔ فعل مبتدا کے مطابق ہوگا اور اگر خبر (بامفعول) موجود ہے تو خبر (یامفعول) کے مطابق ہوگا۔ جیسے
یہ قرار پایا۔ یہ بات قرار پائی۔ یہ امر قرار پایا۔
مین نے یہ امر تجویز کیا۔ مین نے یہ بات تجویز کی۔ مین نے یہ عرض کیا۔ مین نے یہ بات عرض کی۔ یہ امر طے پایا۔ یہ بات طے پائی۔ یہ طے پایا۔
ان مثالون مین تجویز، قرار، طے کو فعل کی تذکیر و تانیث مین کوئی دخل نہین۔
اسی طرح یاد کرنا، ایسا مصدر ہے جو قریباً اردو کا سا ہوگیا ہے۔ اور اس کا استعمال بھی ہندی مصادر کی طرح ہوتا ہے۔ مین نے اسے یاد کیا، ہم نے انکو یاد کیا، مین نے سبق یاد کیا، اس نے کہانی یاد کی۔ یہان یاد کا فعل کی تذکیر و تانیث پر کچھ اثر نہین۔
لیکن تدبیر کرنا، تاثیر کرنا، تاخیر کرنا، فریاد کرنا، صبر کرنا، تعمیل کرنا، شور مچانا، ہدایت کرنا، سزر دینا وغیرہ مصادر مین جز اول الگ لفظ ہے اور اسی کے لحاظ سے فعل کی تذکیر و تانیث آتی ہے۔
۱۶۔ جس طرح افعال ناقصہ مین فعل مبتدا کے مطابق ہوتا ہے، اسی طرح افعال مین قلوب مین بھی فعل مبتدا کے مطابق ہوتا ہے۔ اسکے مفعول یا خبر کو فعل کی تذکیر و تانیث میں کچھ دخل نہین۔ مین اس عورت کو ہیجڑا سمجھا۔ مین نے اسے بیوقوف خیال کیا۔
۱۷۔ کبھی مبتدا مذکور نہین ہوتا قرنیہ سے معلوم ہوجاتا ہے لہذا خبر اس لحاظ سے تعداد و جنس مین مطابق ہوتی ہے۔ جیسے اب تو آرام سے گزرتی ہے۔ (یعنی زندگی) کب آئے؟ (یعنی آپ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرکب جملے
(ا) جملہ ہائے مطلق
جب دو یا دو سے زیادہ جملے اس طرح مل کر آئین کہ نحوی لحاظ سے جداگانہ اور برابر کی حیثیت رکھتے ہون اور ایک دوسرے کے تابع نہون تو وہ جملہ ہائے مطلق کہلائین گے۔
لیکن اگر ان مین سے ایک دوسرے کے تابع ہو تو اسے جملہ تابع کہین گے۔
اردو مین جملہ ہائے مطلق کی تقسیم مفصلہ ذیل ہوسکتی ہے۔
جملہ جمع، جملہ تریدیہ، جملہ استدراکیہ، جملہ معللہ۔
جملہ جمع
دو جملون کے ملانے کے لیے عموماً حرف عطف جمع اور آتا ہے۔ جیسے مین آیا اور وہ چلا گیا۔ سورچ صبح کو نکلتا اور شام کو غروب ہوجاتا ہے۔
بعض اوقات پھر بھی یہ معنے دیتا ہے۔ جیسے پہلے تو وہ اسباب جمع کرتا رہا پھر یکایک چلدیا۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
جملہ تردیدیہ
یہ جملہ جم کی ضد ہے یعنی اسمین حرف عطف تردید جملون کو معناً جدا کرتا ہے۔ اسکے لیے عموماً حرف یا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے، اسے گھر مین بھیجدو یا باہر نکال دو۔
کبھی کہ ان معنون مین استعمال ہوتا ہے۔ جیسے، تم نے کچھ بھی سیکھا ہے کہ نہین۔ وہ گیا کہ نہین۔
کبھی نہین تو اور ورنہ بھی حروف تردید کا کام دیتے ہین۔ جیسے حاکم کو ہمدرد ہونا چاہیے ورنہ رعایا تباہ ہوجائے گی۔ اسے جلدی چھوڑدو نہیں تو بہت ادہم مچائے گا۔
بعض اوقات خواہ۔۔۔ خواہ اور چاہے۔۔۔ چاہے بھی حروف تردید کا کام دیتے ہین۔ جیسے چاہے، رہے چاہے جائے۔ خواہ خود آجائین، خواہ مجھے بلالین۔
نہ۔۔۔ نہ بھی تردید کے لیے آتا ہے۔ جیسے، نہ خود گیا نہ مجھے جانے دیا۔
پہلے جملے مین عموماً نہ محذوف ہوتا ہے۔ جیسے، خود گیا نہ مجھے جانے دیا۔ وہاں آقا تھا نہ نوکر۔
جملہ استدراکیہ
جملہ مطلق استدراکیہ مین دو بیانات کا باہم مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ جملے تین قسم کےہوتے ہن،
(۱) دوسرا بیان پہلے بنان کے مخالف یا اس سے خارج ہو۔
(۲) دوسرا بیان پہلے بیان کو صرف مقید یا محدود کرتا ہو۔
(۳) یا پہلے بیان کی توسیع یا ترقی ہو۔
ان کے لیے عموماً حروف لیکن، مگر، پر، سو، بلکہ استعمال ہوتے ہین مثالین اسی ترتیب سے دی گئی ہین۔ جس ترتیب سے تقسیم کی گئی ہے۔
(۱) چکور اور شہباز سب اوج پر ہین
مگر ایک ہم ہین کہ بے بال و پر ہین
وہ تمہارے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے، مگر تم چاہو کہ روپیہ ہاتھ ئے تو اس سے ہاتھ دھو رکھیے۔
(۲) وہ وعدے تو بہت کرتا ہے، لیکن یاد نہین رکھتا۔
وہ ساتھی تو ہے مگر مصیبت کا ساتھی نہیں، وہ دوست ہے مگر وقت پر کام نہیں آتا۔
(۳) یہ ایک کیا بلکہ، ایسے سوہون تو مار ہٹادون۔
اس نے صرف طوطا چشمی ہی نہین بلکہ طرح طرح کی تکلیفین بھی پہنچائین۔
ان مثالون سے مگر، لیکن (پر) اور بلکہ کے استعمال مین جو فرق ہے وہ ظاہر ہے اور قابل لحاظ ہے، کیونکہ ان کے استعمال مین اکثر غلطی ہوجاتی ہے۔
پر کی بجائے پہ بھی استعمال ہوتا ہے کبھی سو بھی ان معنون مین آتا ہے مگر بہت کم جیسے
ہم نے چاہا تھا کہ مرجائین سو وہ بھی نہوا
بعض اوقات اور بھی محاورے مین مگر کے معنی دے جاتا ہے۔ جیسے، ایسا فاضل اور بالکل نکما۔ اتنا بڑا با کمال اور یون مارا مارا پھرے۔
بعض اوقات مگر اور لیکن گو اور اگرچہ کے بعد آترے ہین۔ جیسے اگرچہ وہ بہت بڑا دولتمند ہے، لیکن دل کا چھوٹا ہے۔
جملہ معلّلہ
جملہ معللہ کے ایک جز مین دوسرے جز کی علت وجہ یا نتیجہ سبب یا اثر کا ذکر ہوتا ہے جو جملہ کہ علت یا سبب کو ظاہر کرتا ہے وہ عموماً کیونکہ، اس لیے کہ، اس واسطے کہ سے شروع ہوتا ہے جیسے میں انکا ساتھ دون گا کیونکہ (اس لیے کہ یا اس واسطے کہ) مصیبت کے وقت انھون نے میرا ساتھ دیا تھا۔
جو جملہ نتیجہ یا اثر کو ظاہر کرتا ہے اس کے شروع مین اس لیے پس یا عربی کا لہذا آتا ہے جیسے اس نے میرا کہنا نہین مانا اس لیے (لہذا) مین اسے قطع تعلق کرتا ہون۔
ایسے مرکب جملے مین جز اول کے ساتھ عموماً چونکہ استعمال ہوتا ہے جیسے چونکہ وہ بہت شریر اور نا اہل ہے اس لیے مین اسے منھ نہین لگاتا۔
کبھی پس بھی ان معنون مین استعمال ہوتا ہے۔ جیسے چونکہ اس نے بلا اجازت ایسا کام کیا ہے پس (لہذا) اسے سزا بھگتنی چاہیے۔
(ب) جملہ ہائے تابع
تابع جملون کی تین قسمین ہین۔
۱۔ اسمیہ
۲۔ وصفیہ
۳۔ تمیزی
اصل جملہ کو جملہ خاص اور اسکے ماتحت کو جملہ تابع کہین گے۔
جملہ اسمیہ
جملہ اسمیہ سے مراد یہان وہ جملہ اسمیہ نہین جو عربی نحو مین مستعمل ہے اور جسے قواعد نویسون نے غلطی سے اردو فارسی نحو مین لے لیا ہے۔ عربی مین جملہ اسمیہ سے مقصود وہ جملہ ہے جو دو اسمون سے مل کر بنے، جیسے "رجل عالم" لیکن اردو مین دو اسما کے ملنے سے جملہ نہین بنتا اس لیے اس قسم کا جملہ ہماری بحث سے خارج ہے۔
ہماری مراد جملہ اسمیہ سے ایسا جملہ ہے جو بجائے خود ایک اسم کا کام دے اور جملے کی ترکیب مین بجائے ایک اسم کے ہو۔ جیسے، میرا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے۔ یہاں خدا ایک ہے بجائے ایک اسم کے ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہین کہ توحید میرا ایمان ہے۔
جملہ اسمیہ دو قسم کا ہوتا ہے۔
ایک وہ جو اصل جملے کے فعل سے مبتدا کا تعلق رکھتا ہو یا جو متبدا کا بدل ہو۔ دوسرا وہ جو اصل جملے کے فعل کو یا خبر کے کسی تابع کو محدود کرے یا اسپر اثر ڈالے۔
تمام اسمیہ جملون کی ابتدا حرف کہ سے ہوتی ہے جیسے، اس نے کہا کہ مین بیمار ہون، کون نہین جانتا کہ میرا نام احمد ہے، وہاں وہ چہل پہل تھی کہ بیان سے باہر ہے ( یہان جملہ تابع جملہ خاص کے مبتدا سے متعلق ہے) یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کا کام نہین ہے (یہان جملہ تابع متبدا یہ کا بدل ہے)
بعض اوقات کہ محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے مین نے کہا جاؤ اپنا کام کرو۔
جب خاص جملے مین الفاظ مناسب ہے، لازم ہے، چاہیے، مناسب ہے کہ آپ خود چلے جائین۔ لازم تو یہ ہے کہ وہ خود آکر معافی مانگے۔ انکو چاہیے کہ ابھی بھیجدین وغیرہ۔
جملہ اسیمہ جس کا تعلق خبر سے ہوتا ہے وہ یا تو جملے کے فعل کا یا حالیہ تابع خبر کا مفعول واقع ہوتا ہے جیسے اس نے کہا کہ تم گھبراؤ نہین۔ وہ گلی گلی کہتا پھرتا تھا کہ آگ لگی رہے آگ لگی۔ کبھی کبھی اور خاص کر چھوٹے فقرون اور مقولون کے قبل کہ محذوف ہوجاتا ہے۔
مین نے کہا جاؤ اب نہ آنا۔ اس نے کہا دوست یہاں آؤ۔
کبھی یہ تابع خاص جملے سے قبل بھی آجاتا ہے۔ جیسے چلو مدینے چلو، ہر طرف سے یہی صدا آرہی تھی۔
کبھی جو بھی کہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً تم اپنے باوا سے کیون نہین کہتے جو تمھین بھجوادین۔
کبھی کہ جملہ خاص کی فعل کی وجہ یا مقصد کے اظہار کے لیے آتا ہے۔ جیسے مین تمھین اس لیے پہلے سے بھیجتا ہون کہ تم ان سے مل سکو، ایسے موقع پر کہ تاکہ کے معنون مین آتا ہے۔ اظہار مقصد کے لیے عموماً کہ اس لیے اور کیون کے ساتھ آتا ہے جیسے وہ اس لڑکے سے محبت کرتا ہے اس لیے کہ وہ اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ وہان جاتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ کیونکہ وہ میرا جانی دشمن ہے۔
بعض اوقات منفی فقرہ ایسا نہو کے ساتھ اظہار عرض کے لیے آتا ہے جیسے، ان سے زیادہ باتین نہ کرو، ایسا نہو کہ وہ خفا ہوجائین۔
جب جملہ اسمیہ کسی نتیجہ کو ظاہر کرتا ہے تو اگر
(۱) توقع، تمنا یا دعا کا اظہار ہوتا ہے تو فعل مضارع آتا ہے۔
جیسے ایسی تقریر کرو کہ ہزارون کا چندہ ہوجائے۔ خدا کرے کہ وہ کامیاب ہوجائے۔ مین نہین چاہتا کہ وہ یہاں آئے۔
(۲) ناممکن یا محال کا اظہار جو ہوتا ہے تو زمانہ حال کے لیے مضارع اور زمانہ گزشتہ کے لیے ماضی شرطیہ (یا تمنائی) آتی ہے۔
جیسے اس کی کیا طاقت ہے جو ایسا کرے۔ اسکی کیا طاقت تھی جو ایسا کرتا۔
جملہ وصفیہ
جملہ وصفیہ وہ جملہ ہے جو صفت کا کام دے اور خاص جملے کے کسی لفظ یا فقرے کی تعریف کرے۔ جیسے، اس نے انھین لڑکون کے نام سے پکارے جو کتاب مین درج تھے۔ یہا جو کے بعد کا جملہ کتاب مین درج تھے نام کی تعریف کرتا ہے۔
تمام وصفیہ جملے ضمائر موصولہ یا ضمائر اشارہ کے ساتھ آتے ہین۔
جیسے وہ کام آپ سے نہ ہوسکا، مین کیسے کرسکتا ہون۔
بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
جب تاکید یا زور دینا مقصود ہوتا ہے تو اس اسم کو جسکی تعریف جملہ وصفیہ کرتا ہے بہ تکرار استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے، جو کام آپ نہین کرنا چاہتے تھے آخر وہی کام آپ کو کرنا پڑا۔
وصفیہ جملون کے ساتھ عموماً موصولہ یا اشارہ آتی ہے اور اسکے جواب مین دوسرے جملہ مین ایک ضمیر آتی ہے، جیسا کہ اوپر کی مثالون سے ظاہر ہے۔ لیکن بعض اوقات اور خاص کر نظم مین دوسری ضمیر محذوف ہوجاتی ہے۔ جیسے، جو مجھ پر گزرتی ہے تم کیا جانو۔
بعض اوقات جملہ وصفیہ اور جملہ خاص دونون مین اسم محذوف ہوتا ہے جبکہ کسی شخص سے مراد نہو یا اشارہ ایسی جانب ہو جو معروف ہے۔
جیسے دل اسی سے ملتا ہے جو اسکے قابل ہوتا ہے۔ اس مصیبت سے وہی نجات دے گا جب سب کا نگہبان ہے۔
بعض اوقات ضمیر موصولہ جملہ تابع سے محذوف ہوتی ہے جیسے ڈرا سو مرا۔ ہو سو ہو تم۔ تم کرو گے سو اچھا ہی کرو گے۔
ایسا عموماً بول چال کے فقرون اور نظم مین ہوتا ہے۔
بعض اوقات اس حالت مین جہان تعلق صاف ظاہر ہے دونون ضمیرین محذوف ہوجاتی ہین۔ جیسے اچھا کیا نفس مارا۔
بعض اوقات ضمیر مؤصولہ یا اشارہ کی جگہ ضمیر استفہامیہ آتی ہے۔ جیسے، کون ہے جو اپنا پیٹ کاٹ کر اس غریب کا پیٹ بھرتا ہے۔
جب اظہار واقعہ صاف طور پر ہوتا ہے تو افعال مطلق آتے ہین جیسا کہ اوپر کی مثالون سے ظاہر ہے۔ مگر دوسری حالتون مین مضارع یا افعال اجتمالیہ وغیرہ کا استعمال لیا جاتا ہے۔
(۱) مثلاً جب جملہ وصفیہ کسی فعل کے مقصد، غرض یا نتیجہ کو ظاہر کرے جیسے یہ درخت اتنا مضبوط نہین جو وہ آسانی سے اس پر چڑھ جائے۔ یہ شریف نہین ہے جو مین اسے منھ لگاؤن۔
(۲) جہان تعداد، کیفیت و کمیت نہو اور خاص افراد مقصود نہون۔ جیسے، کتاب جسمین اس مضمون کی پوری تشریح ہو۔ ایسا پانی جسمین نام کو غلاظت نہو۔ ایسی تدبیر کرو جو سب کو مار رکھے۔ ایسا واعظ بلاؤ جو سب کو تڑپادے۔
بعض اوقات ایسے جملون مین گویا کہ یا صرف گویا ضمیر کی جگہ تا ہے جیسے وہ ایسا مضمحل نظر تا ہے گویا رات بھر جاگا ہے۔
کبھی ایسی کی جگہ (کیسی) آتا ہے۔ جیسے کیسی ڈینگ ماری کہ سب حیران رہ گئے۔
کبھی جملہ تابع مین بھی اسی قدر ضمیرین ہوتی ہین جتنی جملہ خاص مین جیسے، جو جسے پسند آئے وہ ویسا ہی کرے۔
کبھی جہا بجائے اسم و و ضمیر کے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے مبارک ہے وہ شہر جہان سے تم آئے۔ کبھی کہ بجائے جو کے جملہ وصفیہ کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے ایسی چیز تو میرے پاس ایک بھ نہین کہ آپ پسند فرمائین۔ یہ ایسا آدمی نہین کہ مین اسپر اعتماد کرسکون۔
جملہ تمیزیہ
جملہ تمیزیہ درحقیقت تمیز یا متعلق فعل کی صورت ممذہ ہے۔ یہ خاص خبر کی بلحاظ وقت و مقام یا علت کے تعریف کرتا ہے یا کسی دوسری تمیز کی۔
جملہ تمیزیہ زمانی
وقت کے لیے جو تمیزی جملے آتے ہین ان کی ابتدا مین جو یا جب آتے ہین اور انے جواب مین تو (یا کبھی تب) یا کبھی ان کے ساتھ حروف جار سے تک وغیرہ مل کر آتے ہین۔
جیسے جب مین ہی نہ رہا تو مجھے اس سے کیا۔ جب تم مین ہو تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا۔
کبھی بعض دوسرے اسم مثلاً وقت، دم، ون وغٰیرہ جو وقت کو ظاہر کرتے ہین ان ضمائر موصولہ کے ساتھ جملہ تابع مین آتے ہین اور ان کا جواب جملہ خاص ہوتا ہے۔ جیسے جس وقت وہ پہنچا اس وقت مین سورہا تھا۔
کبھی کبھی جملہ تمیزی زمانی کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے وہ بہت اداس بیٹھا تھا کہ یہ خوش خبری پہنچی۔
کبھی جو بھی ان معنون مین آتا ہے۔ جیسے سب کے سب سوچ مین بیٹھے تھے جو اس نے یہ کہا۔ (یہا جو کے معنے کہ اتنے مین کے ہین)
کہ جب کے ساتھ مل کر بھی آتا ہے۔ جیسے، جبکہ تم نیک کام کا ارادہ رکھتے ہو تو اس مین سوچنے کا کیا کام۔
بعض اوقات تمیز زمانی محذوف ہوتی ہے۔ جیسے، سب نے چیخنا چلانا شروع کیا تو وہ بھاگ گیا۔
جملہ تمیزیہ مکانی
جملہ تمیزیہ مکانی، جہان اور جدھر کے ساتھ آتا ہے جیسے جہان وہ جاتا ہے وہین تم جاتے ہو، جدھر دیکھتا ہون ادھر تو ہی تو ہے۔
کبھی جوابی وہان یا ادھر محذوف بھی ہوتے ہین جیسے، جہان سینگ سمائین، چل دو۔
جملہ تمیزیہ طوریہ
جملہ تمیزیہ طوریہ وہ ہے جو طور و طریقہ کو ظاہر کرے۔ اسکے ساتھ جو نہین یا جیسے آتا ہے۔ جیسے، جو نہین دوازے سے نکلات تھا کہ مین پہنچا۔ پہلے جو نہین کے جواب مین وہین استعمال ہوتا تھا مگر آجکل نہین ہوتا۔ اگر ایسی ہی ضرورت ہوتی ہے تو کہ یا ج لے آتے ہین اور جیسے کے جواب مین ویسے، جیسے آپ مجھ پر مہربانی فرماتے ہین ویسے اسپر بھی نظر کرم رکھیے گا۔
اکثر ویسے محذوف ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہین مین کرنے کو تیار ہون۔ جیسے بنے انھین ساتھ لیتے آؤ۔
بعض اوقات جون جون اور جیسے جیسے بھی استعمال ہوتے ہین۔ اور ان کے جواب مین دون ون تو شاذ و نادر اور ویسے ویسے بہت آتے ہین۔ جیسے
مرض بڑھتا گیا جون جون دوا کی
جیسے جیسے وہ خط پڑھتا جاتا اس کا رنگ متغیر ہوتا جاتا تھا۔
ان جملون مین افعال کا استعمال
جون جون اور جیسے جیسے والے تمیزی جملون مین ہمیشہ افعال ماضی نا تمام کی کوئی نہ کوئی صورت استعمال ہوتی ہے۔ جون جون مین اسے سمجھاتا تھا وہ اور بگڑتا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب آتا گیا مین دور ہوتا گیا وغیرہ وغیرہ۔
جب جیسے اور ایسے محض تشبیہاً استعمال ہوتے ہین اور تشبیھ خیالی اور فرضی ہو تو فعل مضارع استعمال ہوگا۔ جیسے، یہ حرف تو ایسا لکھا ہے، جیسے انگھوتھی مین نگینہ جڑا ہو۔ وہ اس طرح دفعتہً اسپر آگکر جیسے آسمان سے بجلی گے۔
لیکن تشبیھ حقیقی ہو تو فعل خبر یہ آتا ہے جیسے یکایک اس طرح پتھر برسنے لگے، جیسے ساول مین مینا برستا ہے۔ (یہ استعمال زیادہ تر بولنے یا لکھنے والے کی مرضی یا طرز بیان پر منحصر ہوتا ہے)
جملہ تمیزی معللہ
جملہ تمیزی معللہ جملہ خاص کی علت یا کوئی وجہ ظاہر کرتا ہے۔ اس کی ابتدا عموماً جو سے ہوتی ہے جسکے معنی چونکہ ہوتے ہین اور اسکا جواب تو یا سو ہوتا ہے۔ جیسے ہم جو اس تکلیف اور مصیبت مین ہین تو ہماری کوئی بات نہین پوچھتا۔
بعض اوقات جملہ تمیزی معللہ شرط کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جملہ خاص شرطیہ اور جملہ تابع جزا کہلاتا ہے۔ جملہ شرطیہ مین جو یا اگر اور جزا مین تو آتا ہے جیسے جو حال یہ ہے تو خدا ہی حافظ ہے۔
شرطیہ جملون کے ساتھ افعال کے استعمال مین احتیاظ لازم ہے۔
شرط مین تین حالتین پائی جاتی ہین۔
۱۔ امکانی
۲۔ حقیقی
۳۔ غیر امکانی
۱۔ صورت امکانی۔ بعض اوقات ممکن ہے کہ شرط ذہن مین امکانی صورت رکھتی ہو لیکن واقعہ کے مطابق نہو۔ ایسی حالت مین فعل مضارع یا افعال احتمالی استعمال کیے جائینگے۔
لیکن جب علت یا نتیجہ یقینی ہو تو اس وقت جملہ خاص کا فعل خبریہ ہوگا۔ جیسے اگر وہ کل آگیا تو مین کیا کرونگا۔ وہ تمہارے ہی پاس رہے تو اچھا ہے۔
مگر جب نتیجہ امکانی صورت رکھتا ہے توفعل مضارع یا فعل احتمالی ہوگا۔ جیسے مین سوچ لون توجواب دون (یہان شرط اور جزا دونون مین فعل مضارع استعمال کیا گیا ہے)
اگر آپ اس سے پیچھا چھڑانا ہی چاہتے ہین تو ایک تدبیر عرض کرون۔
۲۔ جب صورت شرط واقعی ہے یعنی مستقبل یا گزشتہ یا زمانہ حال مین جیسے کہ وقوع فعل کی صورت ہو، تب جملہ شرطیہ مین فعل مستقبل ہوگا یا کوئی اور فعل خبریہ لیکن جزا مین حسب حالات مذکورہ فعل مضارع یا احتمالی یا خبریہ آئے گا۔ جیسے
جو تم اسے چھیڑو گے تو خفا ہوجائے گا۔ مین اب اگر سے مارتا ہون تو وہ بھاگ جائے گا۔ جو تم ہی نہ آئے تو پھر کون آئے گا۔ تم نے نہین کہا تو اور کس نے کہا۔
۳۔ تیسری صورت جبکہ شرط اور شرط دونون خلاف واقعہ اور ناممکن الوقوع ہون۔
فقرہ شرطیہ مین ایسی شرط کا اظہار ہوتا ہے جو وقوع مین نہین آئی۔ مگر جزا مین نتیجہ واقع ہوتا اگر شرط قاصر نہ رہتی۔ ایسی صورت مین عموماً فعل ماضی شرطیہ استعمال ہوتا ہے جیسے اگر مین ان سے پوچھتا تو وہ مجھ سے کہدیتے۔ اگر وہ مر جاتا تو سارا پاپ کٹ جاتا۔
بعض اوقات ایسے موقع پر خبرین ماضی بعید بھی استعمال ہوتی ہے۔ جیسے وہ چاہتا تو آسکتا تھا۔ کبھی تھا یا ہوتا بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے وہ آجاتا تو اچھا تھا یا اچھا ہوتا۔
بعض اوقات فقرہ شرطیہ مین بھی ماضی بعید آتیہے جیسے اگر تم نے مجھ سے کہا ہوتا تو مین تمھین ضرور مدد دیتا۔
حرف شرط عموماً محذوف بھی ہوتا ہے۔ جیسے وہ آئے تو مین چلون۔ وہ کہتا تو میں ضرور جاتا۔
اس موقع پر "ہو تو ہو" محاورے کا بھی خیال رہے۔ جیسے
غسل میت ہی ہمارا غسل صحت ہو تو ہو
جو جملے نہین تو یا ورنہ کے ساتھ آتے ہین ان مین پورا فقرہ شرطیہ محذوف ہوتا ہے۔ مجھے اسکے حکم کی تعمیل ضرور ہے ورنہ خدا جانے وہ کیا کر بیٹھے۔ (عینی اگر مین نے اس حکم کی تعمیل نہین کی تو۔۔۔) اگر آپ نے قبول کیا تو بہتر ورنہ مجھے اسکے پاس جانا پڑے گا (یعنے اگر آپ نے قبول نہ کیا تو۔۔۔)
بعض اوقات جملہ تمیز مکانی اور شرطیہ دونون ہوتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ جملہ شرطیہ جب سے شروع ہوتا ہے اور جزا مین تو آتا ہے۔ جیسے جب وہی نہین آتا تو مین کیون جاؤن۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شرطیہ جب جملہ مین محذوف ہوتا ہے اور صرف تو سے ظاہر ہوتا ہے کہ جملہ شرطیہ ہے۔ جیسے مین چلنے لگا تو وہ رو رو مجھے لپٹنے لگے۔
کبھی جزا مین تو بھی محذوف ہوجاتا ہے جیسے کیا ہوا اگر ہم نہ گئے۔

بشکریہ فہیم
 

قیصرانی

لائبریرین
جملہ استدراکیہ
جملہ استدراکیہ بھی ایک قسم کا شرطیہ جملہ ہوتا ہے اور افعال کے استعمال مین اسپر بھی وہی قواعد حاوی ہین جو شرطیہ جملہ پر۔ جملہ تابع کے ساتھ الفاظ تو بھی، پر، تاہم، لیکن اور مگر آتے ہین۔ جیسے اگرچہ یون تو وہ بے وقوف ہے مگر اپنے مطلب مین بہت ہوشیار ہے۔ اگر وہ بہت محتمل ہے تام انسان ہے غصہ آ ہی جاتا ہے۔ اگرچہ میری اس سے اچھی ملاقات ہے تو بھی ایسی فرمائش کرتے ہوئے تامل ہوتا ہے۔ گو اس وقت وہ نہ مانے مگر آخر ایک روز ماننا پڑے گا۔
بعض اوقات خواہ یا چاہے فقرہ شرطیہ مین بجائے حرف عطف شرط کے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے خواہ اس نے نیک نیتی ہی سے کیا ہو مگر کیا بہت برا۔ چاہے وہ کچھ ہی کہے پر مجھے یقین نہین آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جملے مین الفاظ کی ترکیب
۱۔ عموماً جملے کے تین حصے ہوتے ہین۔
۱۔ مبتدا
۲۔ خبر
۳۔ فعل ربط
جیسے احمد ہوشیار ہے۔
لیکن متعدی افعال کی صورت مین اول مبتدا (یا فاعل) اس کے بعد مفعول اور اس کے بعد فعل خبر ہوتا ہے۔
۲۔ اردو مین یہ ترتیب اکثر قائم نہین رہتی اور کبھی تاکید اور زور دینے کی خاطر، کبھی تعجب و افسوس یا خوشی کے لیے اور کبھی محض قافیہ کے خیال سے اس ترتیب مین تغیر و تبدل واقع ہوجاتا ہے۔ جیسے، ایسے ہوتے ہین قوم کے سردار اور محسن، حیف ہے تجھپر، کون ہے جو تمھین نہین جانتا؟ لعنت ہے ایسی حرکات پر۔ وغیرہ وغیرہ۔
۳۔ فعل متعدی کا مفعول اسکے بالکل متصل قبل آتا ہے جیسے مین نے اسے بلایا۔ لیکن جب زور دینا مقصوس ہوتا ہے تو مفعل جملے کے شروع مین آتا ہے۔ جیسے، اس عیار سے مین کیونکر نبھا سکون گا۔
خود فعل جب شروع مین آتا ہے تو اس سے زور ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے، مارون کیا مین تجھے؟ جب مفعول دو ہون تو مفعول قریب (جو عموماً اشیا کے متعلق ہوتا ہے) فعل کے متصل آتا ہے۔ جیسے مین تمھین انعام دون گا۔ لیکن جو الفاظ فعل کی غرض و غایت کو ظاہر کرتے ہین وہ ہمیشہ فعل کے متصل آتے ہین۔ جیسے مین تمھین سمجھانے آیا ہوں لیکن جب زور دینا مقصود ہوتا ہے تو یہ الفاظ فعل کے بعد آتے ہین۔ جیسے یہ شخص اتنی دور سے آیا ہے تمھاری ہدایت کے لیے۔
۴۔ بعض اوقات بلا لحاظ زور و تاکید کے مفعول اول آجاتا ہے۔ جیسے آدمی کو آدمی کھائے جاتا ہے۔ خصوصاً جب ہونا سے مشتق افعال آتے ہین تو اکثر ایسا ہوتا ہے۔ جیسے ناصح کو سودا ہوا ہے۔ یا جب حالت انتقالی ہوتی ہے جیسے گھر مین کوئی شخص نہین۔ حامد کے پاس طوطا ہے۔
لیکن مفصلہ ذیل امثلہ مین مفعول زور دینے کی غرض سے اول آیا ہے۔
ان چیزون کو تم کہان لیے جاتے ہو؟
یہ کاغذ میرے کام کے نہین۔
جو تم کہو گے وہی کرون گا۔
۵۔ جہان دو چیزون کا مقابلہ ہوتا ہے وہان زور دینے کے لیے ایک لفظ جملے کے پہلے حصے کے شروع مین آتا ہے اور دوسرا لفظ دوسرے حصے کے شروع مین۔ جیسے کمائین میان خانان اور یہاں میان فہیم۔ دکھ میرے لیے ہے اور سکھ تمہارے لیے۔ محنت مین کرون اور چین وہ کرے۔
۶۔ فجائیہ جملون مین بھی اظہار نفرت تعجب و افسوس وغیرہ کے لیے ترتیب بدل جاتی ہے اور الفاظ تعجب و افسوس وغیرہ جملے کے شروع مین آتے ہین۔ جیسے لعنت ہے ایسے کام پر۔ افسوس تمھاری حالت پر۔
ایسے جملون مین فعل ربط عموماً محذوف ہوتا ہے۔
۷۔ لفظ ندا عموماً اول آتا ہے لیکن زور دینے کے لیے آخر مین بھی آجاتا ہے۔ جیسے تونے ایسا کیا کیوں ظالم۔ تیزی یہی سزا ہے کمبخت۔
۸۔ جب ضمائر شخصی ہر سہ قسم ایک جگہ جمع ہوجائین تو ترتیب حسب ذیل ہوگی۔
اول ضمیر متکلم دوم ضمیر مخاطب اور سوم غائب۔ جیسے تم تم مل کے چلین گے۔ ہمین تمھین وہ ایک ہی سمجھتے ہین۔
ضمیر موصولہ ہمیشہ اول آتی ہے۔ جیسے تم کہو وہی کرون گا۔
۹۔ ہر قسم کی صفات ان اسما سے قبل آئین گے جن کی صفت بیان کرتے ہین۔ لیکن جب وقت وہ بعد مین آتے ہین وہ عموماً خبر کے طو پر استعمال ہوتے ہیں۔ یا زور دینے یا خصوصیت ظاہر کرنے کی غرض سے۔ جیسے یہ بڑا غدار شہر ہے۔ اس اجڑے گاؤن مین کیون چلے گئے۔ وعدہ پکا کرو۔ وہ ہمیشہ کا دکھیا ہے۔ وہ کچھ ہو بھی گئے ہین مغرور۔
بعض اوقات زیادہ زور دینے کے لیے صفت کو اسم سے علیحدہ کرکے جملے کے آخر مین لاتے ہین۔ جیسے یہ جنگ ہے بڑی خوفناک اور خونریز۔ چلتے چلتے ایک پہاڑ ملا۔ ہرا بھرا اور بہت اونچا۔
۱۰۔ اردو بدل مبدل منہ بطور صفت موصوف کے ہوتے ہین۔ یعنی بدل اول آتا ہے مبدل منہ سے جسکی وہ ایک قسم کی صفت ہے۔ جیسے کلو چمار آیا تھا۔ حاجی کا بیٹا شمسو گیا۔ کبھی اسکے خلاف بھی ہوتا ہے۔ جیسے تمھارا بھائی احمد کہان ہے؟
۱۱۔ ترکیب اضافی مین بعض اوقات ترتیب بدل جاتی ہے اور یہ فارسی کا اثر ہے جیسے یہ قلم آپ کا ہے۔ یہ کتاب میری ہے۔
بعض اوقات مضاف الیہ اور مضاف مین فصل پڑجاتا ہے۔ جیسے یہاں تیرا کام ہے۔ تمھارا کیون نہ دم بھرون۔
لیکن یہ فصیل وہین تک جائز ہے کہ مطلب مبہم نہ ہو۔
۱۲۔ تمیز فعل یا (متعلقات فعل) خواہ الفاظ ہون یا فقرے عموماً ان کے الفاظ قبل آتے ہین جن سے ان کا تعلق ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ فعل اور اسکے مفعول کے درمیان آجاتے ہین۔ عام طور پر یون سمجھنا چاہیے کہ جون جون وہ ایسے الفاظ سے دور ہوجاتے ہین ویسے ہی زور زیادہ بڑح جاتا ہے۔ یا انھین الفاظ متعلقہ کے بعد یا افعال کے دو اجزا کے درمیان لانے سے زور پیدا کیا جاتا ہے۔
جیسے، جلدی چلو۔ وہ شہر مین ہرتا ہے۔ مجھے ہرروز ستاتا ہے۔ اسکا مزاج چڑچڑا بہت ہے۔ یہ کہو تم آؤ گے کب۔ اب تمھین چھوڑ کر جاؤ کہان۔
لیکن جب تمیز کا تعلق کل جملے سے ہوتا ہے وہ جملہ کے اول آتی ہے۔ جیسے دفعتاً وہ چھت پر سے گر پڑا۔
۱۳۔ ہج جو تمیز فعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس کا استعمال اردو مین بہت کثرت سے ہے اور اسم ضمیر صفت فعل کے ساتھ آتا ہے۔ جیسے گھر ہی مین رہو۔ آپ ہی چلین۔ خو ہی برسا۔ کسی طرح جاتا ہی نہیں۔ وہ سنتے ہی چلدیا۔
ہے کے بعد جب ہی آتا ہے تواس کا تلفظ اس طرح ادا ہوتا ہے کہ گویا ہ نہین ہے اور ہے کے بعد ایکہی اضافہ کردی گئی ہے۔ یعنی ہئی۔
جہان فعل کے دو جز ہوتے ہین وہان یہ انکے درمیان آتا ہے۔ مین تو کرون گا ہی۔ مین تو تیار رہون تو وہ کسی طرح چلتا ہی نہین۔
یون تو ہی اکثر اور ہمیشہ اصل فعل کے ساتھ مل کر آتا ہے لیکن کبھی بجائے اصل فعل کے امدادی فعل کے ساتھ آجاتا ہے۔ جیسے، آدمی کھو کر ہی سیکھتا ہے۔
لیکن فصیح اصل فعل کے ساتھ ہے۔
۱۴۔ فعل جب مفرد ہوتا ہے تو حرف نفی ہمیشہ اول آتا ہے۔ مگر مرکب ہونے کی حالت مین فعل کے اول نیز ہر دو جز کے درمیان دونون طرح جائز ہے۔ جیسے مین نہین جاسکتا۔ مین جا نہین سکتا۔ اسے نہ جانے دو۔ اسے جانے نہ دو۔ اس کا حال کہا نہین جاتا۔ اس کا حال نہین کہا جاتا۔
مفرد فعل کے ساتھ بھی نہین کھی بعد مین آجاتا ہے۔ جیسے مانتا نہین۔ اٹھو مت۔ اسمین کسی قدر تاکید پائی جاتی ہے۔
افعال مجہول مین بھی جب حرف نفی امدادی فعل کے متصل آتا ہے تو اسمین بھی نفی کی تاکید مقصود ہوتی ہے۔ جیسے، مجھ سے یہ الفاظ سنے نہین جاتے۔
مرکب افعال کے اجزا مین زور اور تاکید کی غرض سے صرف حرف نفی سے فصل نہین ہوتا بلکہ دوسرے الفاظ سے بھی اسی غرض کے لیے فصل آتا ہے۔ جیسے، ہون تو مین ایسا ہی۔ وہ تو ایسا ہی گیا ہے۔
۱۵۔ ہی کی طرح بھی انھین الفاظ کے متصل آتا ہے جن پر زور دینا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے میرا بھی ایک بھائی وہان نوکر تھا (یہا صرف بھائی کی ملازمت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر مقصود ہے) اس طرح میرا ایک بھائی نوکر بھی تھا۔ (یہاں صرف ملازمت پر بیکاری کے مقابلہ مین زور دینا مقصود ہے)
۱۶۔ تو بھی زور دینے کے لیے آتا ہے اور ہمیشہ اس لفظ کے بعد استعمال ہوتا ہے جس پر زور دینا مقصود ہے۔ وہ تو ضرور آئے گا۔
مگر جب یہ لفظ شرط کے جواب مین آتا ہے تو وہاں صرف جزا کے لیے آتا ہے۔ اگر وہ آج آجائے تو بہت اچھا ہے۔ اگر آپ اجازت دین تو جاؤن۔
۱۷۔ حروف عطف اور، کہ، یا، پر، لیکن، مگر، جو، اگر، اگرچہ جملے کے شروع مین آتے ہین۔ لیکن زور کے مقام پر زور دینے کے لیے الفاظ ان سے اول ہوجاتے ہین۔ جیسے، وہ شخص اگر آیا بھی تو مین اسے منھ نہین لگاؤن گا۔ وہ اگرچہ بڑا عالم فاضل ہے مگر تمیز چھو کے نہین گئی۔
۱۸۔ مرکب جملون مین بھی ایسا ہوتا ہے کہ زور دینے کی غرض سے ما بعد کا جملہ ما قبل ہوجاتا ہے۔ جیسے اس کا دل بڑا ہی سخت ہوگا جس نے ایسی سزا اس غریب کو دی ہے۔
شرط کا جملہ ہمیشہ جزا سے قبل آتا ہے۔ اس طرح تمیزی جملے جو زمان و مکان یا حالت ظاہر کرتے ہین جملہ خاص سے قبل آتے ہین۔ لیکن اگر زور جملہ خاص پر ہے تو وہ اول آتا ہے۔ جیسے، یہ تو ہم اسی وقت سمجھ گئے تھے جب اس نے ایسی حرکت کی تھی۔ ہمین یہ کام اسی حد تک کرنا چاہیے، جہان تک ہمارے اختیار مین ہے۔
نظم مین جملے کی معمولی ترتیب قائم نہین رہتی ضرور شعری کسی ترتیب سے کے تابع نہین۔
ختم شد
بشکریہ فہیم
 
Top