اردو رباعیات

کاشفی

محفلین
قائل ہم بھی ہیں دوزخ و جنت کے
معنی کے ہیں معتقد نہیں صورت کے

دوزخ؟ تاریکیاں تری دوری کی
جنت انوار ہیں تری قربت کے

(تلوک چند محروم)
 

کاشفی

محفلین
غافل جو شباب میں نہیں دانا ہے
اپنا جو اُسے کہے وہ دیوانہ ہے

رہتی ہی نہیں سبزہء عارض کی بہار
یہ رنگ ہے عارضی وہ بیگانہ ہے

(ناظر حسین خاں)
 

کاشفی

محفلین
کیا افسرِ جمشید ہے کیا دولت کَے
بیکار ہے زرفشانیء حاتم طَے

میں بادہ گسار ہوں مجھے کافی ہے
یا ساغر ماہتاب یا ساغر مَے

(عابد لاہوری)
 

کاشفی

محفلین
نظارہ بیدار بھی مہمل ٹھہرا
ہے ایک سے بڑھ کے ایک پردہ گہرا

افسانہء شاہدِ حقیقت باطل
کہتا گونگا ہے اور سُنتا بہرا!

(مرزا یگانہ چنگیزی لکھنوی)
 
محترمی وارث صاحب۔

اقبال کی رباعیات کے حوالے سے ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے اور وہ غلط بھی نہیں، کہ ان کی رباعیاں روایتی وزن پر نہیں ہیں۔

آپ کا نکتہ نظر جاننا چاہتا ہوں۔

فقط ۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے درست کہا ہے آسی صاحب، اقبال کی اردو اور فارسی رباعیات بھی رباعی کے مروجہ اوزان پر نہیں ہیں، لیکن اقبال کی کتب میں ان کو رباعیات ہی لکھا گیا ہے اور ان کتب میں بھی جو اقبال کی زندگی میں شائع ہوئیں یعنی اقبال کی منظوری سے۔

یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت اٹھا تھا جب کچھ سال قبل مجھے رباعی کے اوزان کی سمجھ آئی تھی اور اقبال کی رباعیات کو ان اوزان پر نہ پا کر تعجب ہوا تھا۔ اقبال کا ان کو رباعی کہنے کی ایک ہی وجہ میرے ذہن میں آتی ہے کہ رباعی کے چوبیس اوزان متعین ہونے سے پہلے بھی رباعی کہی جاتی تھی جو ان اوزان سے مختلف ہوتی تھی اور ان کو رباعی، دو بیتی اور ترانہ وغیرہ کہا جاتا تھا۔

فارسی شعرا میں بابا طاہر عریاں اسکی مثال ہیں، ان کے کلام کو عام طور پر دو بیتی اور رباعی بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ بھی رباعی کے مروجہ چوبیس اوزان پر نہیں ہیں، اقبال نے شاید انہیں کا تتبع کیا ہے۔

واللہ عالم بالصواب۔
 
بہت شکریہ جناب محمد وارث۔

ایک سوال اُٹھتا ہے، کہ اگر میں اقبال کے (یا یوں کہہ لیں بابا طاہر کے) تتبع میں چار مصرعے کہتا ہوں اور اسے رباعی گردانتا ہوں تو ۔۔ رباعی کے موجودہ مروجہ اوزان کی موجودگی میں کیا میرا ایسا گرادننا کس حد تک تسلیم یا مسترد کیا جا سکتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں تو مسترد ہو جائیں گے، مجھے ذاتی طور پر اقبال کے چار مصرعوں کو بھی رباعی ماننے میں تامل ہے اور یقیناً آپ کو بھی ہوگا، میں نے کچھ کتب میں ان کو رباعیات کی جگہ قطعات لکھا ہوا بھی دیکھا ہے۔
 

کاشفی

محفلین
پیری سے بدن زار ہوا زاری کر
دنیا سے انیس اب تو بیزاری کر

کہتے ہیں زبانِ حال سے موئے سپید
ہے صبحِ اجل کوچ کی تیاری کر

(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
آغوشِ لحد میں جبکہ سونا ہوگا
جُز خاک نہ تکیہ نہ بچھونا ہوگا

تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس
ہم ہووینگے اور قبر کا کونا ہوگا

(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
نافہم سے کب دادِ سخن لیتا ہوں
دشمن ہو کہ دوست سب کی سُن لیتا ہوں

چھپتی نہیں بوئےِ دوستاں یک رنگ
کانٹوں کو ہٹا کے پھول چُن لیتا ہوں

(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
کس مُنہ سے کہوں لائق تحسیں میں ہوں
کیا لطف جو گُل کہے کہ رنگیں میں ہوں

ہوتی ہے حلاوتِ سخن خود ظاہر
کہتی ہے کہیں شکر کہ شیریں میں ہوں؟

(میر انیس)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کاشفی صاحب۔ اس شعر میں ذرا کی بجائے شاید زار ہو گا۔ کتاب سے دوبارہ دیکھ لیجیے۔
پیری سے بدن ذرا ہوا زاری کر
دنیا سے انیس اب تو بیزاری کر

کہتے ہیں زبانِ حال سے موئے سپید
ہے صبحِ اجل کوچ کی تیاری کر
(میر انیس)
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب آپ بالکل درست فرما رہے ہیں ، آپ صحیح ہیں۔۔میں نے تصحیح کر دی ہے۔
معذرت خواہ ہوں۔
 

کاشفی

محفلین
خاموشی میں یاں لذتِ گویائی ہے
آنکھیں ہیں بند عین ِ بینائی ہے

نہ دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد
مرقد بھی عجب گوشہء تنہائی ہے

(میر انیس)
 

نوید صادق

محفلین
قاضی حبیب الرحمٰن

رباعیات

دریائے مسائل ، تنَہ نا ہا یا ہو
سب غرقہء ساحل ، تنَہ نا ہا یا ہو
سنّاٹے کا یہ جشن مبارک ، اِمشب
تنہا ہے مرا دل ، تنَہ نا ہا یا ہو
٭
بے قیدِ زمانی و مکانی کوئی
دل میں ہے دمکتی راجدھانی کوئی
اِمکان و مُحال کے مباحث سے وَرا
اے مُطربِ جاں ، رام کہانی کوئی!
٭
کیوں بند ہے راہِ زندگانی ، اَعنی
وہ کیا ہوئی طبع کی روانی ، یعنی
جب آتشِ اِحساس میں ڈَھل جاتے ہیں لفظ
تب کِھلتے ہیں دل میں جاودانی معنی
٭
ہر ذرّے کے اندروں اُتر کر دیکھا
اک اک منظر ، ٹھہر ٹھہر کر دیکھا
ملتی نہیں کچھ اِس دلِ بے دل کی خبر
موجود کی حد سے گزر کر دیکھا


٭
شب ، خواب میں کیا عِقدِ ثُریّا ڈولے!
صبح آئے تو تعبیر کی نیّا ڈولے
رفتار کی تیزی نے سنبھالا ہُوا ہے
ممکن نہیں تقدیر کا پیّا ڈولے
٭
میلے میں جسے خود سے بھی کٹ کر دیکھا
پلکوں کی اوٹ سے سمٹ کر دیکھا
وہ صورتِ تعبیر دوبارہ نہ ملی
اک خواب کو سو طرح پلٹ کر دیکھا
٭
تاریک زمانوں کو اُجالا ہُوا ہے
اک چاند ، تصور میں اُچھالا ہُوا ہے
کیا چَین سے کٹتے ہیں شب و روزِ حیات
ہر کام کو آیندہ پہ ٹالا ہوا ہے
٭
دو گام ، تعلق نہیں چلنے والا
یہ برف کا پُل کہ ہے پگھلنے والا
تُو دِل کو دِماغ میں بدل کر ، خوش ہے
میں دِل میں دِماغ کو بدلنے والا!
٭
ہر شاخ پہ یہ شورِ عنادل کیا ہے؟
ہر موجِ صبا ، موجِ سلاسل ، کیا ہے؟
ہر منظرِ خوش دیکھ کے غمگیں رہنا
کُھلتا نہیں کچھ کہ یہ مرا دل ، کیا ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی حبیب الرحمٰن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ: ماہنامہ بیاض لاہور، اکتوبر 2010ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
کیا تیری جدائی میں ستم دیکھتے ہیں
دیکھے نہ وہ دشمن بھی جو ہم دیکھتے ہیں

اس ظلم پہ اس جور پہ خاموش رہے
ایسا تو جہاں میں کوئی کم دیکھتے ہیں

(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
غائب بہت اے جان جہاں رہتے ہو
مانند نظر ہم سے نہاں رہتے ہو

ہر چند کہ آنکھوں میں ہو تم، دل میں ہو تم
معلوم نہیں پر کہ کہاں رہتے ہو

(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
تو بھلا ہے تو بُرا ہو نہیں سکتا اے ذوق
ہے بُرا وہ ہی کہ جو تجھ کو بُرا جانتا ہے

اور اگر تو ہی بُرا ہے تو وہ سچ کہتا ہے
کیوں بُرا کہنے سے تو اُس کے بُرا مانتا ہے

(ذوق رحمتہ اللہ علیہ)
 

کاشفی

محفلین
اعلٰی جو علی علیہ السلام کی ہے امامت کا مقام
رکھتے ہیں خبر اُس سے یہاں خاص وعام

جو لوگ صف اول میثاق میں تھے
پوچھے کوئی اُن سے کہ وہ کیسا تھا امام

(ذوق رحمتہ اللہ علیہ)
 
Top